دوسری بحث
الولاء والبراء کے دلائل :
عقیدہ الولاءوالبراء یقینی عقیدہ ہے اس میں کسی قسم کاشک ممکن نہیں کیونکہ اس کابندے کے ایمان کی بنیاد سے بہت گہرا تعلق ہےاسی وجہ سے اس کے دلائل اتنے زیادہ ہیں کہ گنتی سے باہر ہیں خاص طور پر جب ہم منطوق اور مفہوم میں سے ہر چیز کو (جو اس عقیدہ پر دلالت کر تی ہے )اس کے دلائل میں شامل کر لیتے ہیں اسی لیے اس عقیدہ کے اثبات میں کتاب وسنت اور اجماع سے بہت زیادہ دلائل نے ایک دوسرے کو تقویت پہنچائی ہے ۔
سو میں یہاں ان دلائل کے سمندر سے ایک ہی قطرہ ذکر کرنے پر اکتفاءکرتا ہوں۔
کتاب عزیز سے دلائل :
الولاء کے بارے :
اللہ تعالٰی میں فرماتے ہیں :
اِنَّمَا وَلِيُّكُمُ اللّٰهُ وَرَسُوْلُهٗ وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوا الَّذِيْنَ يُقِيْمُوْنَ الصَّلٰوةَ وَيُؤْتُوْنَ الزَّكٰوةَ وَهُمْ رٰكِعُوْنَ 55وَمَنْ يَّتَوَلَّ اللّٰهَ وَرَسُوْلَهٗ وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا فَاِنَّ حِزْبَ اللّٰهِ هُمُ الْغٰلِبُوْنَ 56ۧ
’’تمہارے دوست تو صرف اللہ اور اس کا رسولﷺاور وہ لوگ ہیں جو ایمان لائے ،وہ جو نمازقائم کرتے ہیں ،اور زکوٰ ۃ ادا کرتے ہیں اور وہ جھکنے والے ہیں ۔اور جو کوئی اللہ کو اور اس کے رسول ﷺکو اور ان لوگوں دوست بنائے جو ایمان لائے ہیں تو یقیناًاللہ کا گروہ ہی وہ لوگ ہیں جوغالب ہیں۔‘‘
اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
وَالْمُؤْمِنُوْنَ وَالْمُؤْمِنٰتُ بَعْضُهُمْ اَوْلِيَاۗءُ بَعْضٍ ۘ يَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَيُقِيْمُوْنَ الصَّلٰوةَ وَيُؤْتُوْنَ الزَّكٰوةَ وَيُطِيْعُوْنَ اللّٰهَ وَرَسُوْلَهٗ ۭ اُولٰۗىِٕكَ سَيَرْحَمُهُمُ اللّٰهُ ۭاِنَّ اللّٰهَ عَزِيْزٌ حَكِيْمٌ 71
’’اور مومن مرد اور مومن عورتیں ، ان کے بعض بعض کے دوست ہیں ،وہ نیکی کا حکم دیتے ہیں اور برائی سے منع کرتے ہیں اور نمازقائم کرتے ہیں ،اور زکوٰ ۃ دیتے ہیں ،اور اللہ اور اس کے رسول کاحکم مانتے ہیں ،یہی وہ لوگ ہیں جن پر اللہ ضرور رحم کرے گا، بے شک اللہ سب پر غالب ،کمال حکمت والا ہے‘‘
ابن جریر ؒنے کہا:مومن مرد اور مومن عورتیں ہی اللہ اور اس کے رسول ﷺاس کی کتاب کی تصدیق کرنے والے ہیں پس ان کاوصف یہ ہے کہ ان کابعض اپنے بعض کامددگار اورمعاون ہوتا ہے
البراءکے بارے میں:
اللہ نے فرمایا:
لَا يَتَّخِذِ الْمُؤْمِنُوْنَ الْكٰفِرِيْنَ اَوْلِيَاۗءَ مِنْ دُوْنِ الْمُؤْمِنِيْنَ ۚ وَمَنْ يَّفْعَلْ ذٰلِكَ فَلَيْسَ مِنَ اللّٰهِ فِيْ شَيْءٍ اِلَّآ اَنْ تَتَّقُوْا مِنْھُمْ تُقٰىةً ۭ وَيُحَذِّرُكُمُ اللّٰهُ نَفْسَهٗ ۭ وَاِلَى اللّٰهِ الْمَصِيْرُ
’’ایمان والے ، مومنوں کو چھوڑکر کافروں کو دوست مت بنائیں اور جوایسا کرے گاوہ اللہ کی طرف سے کسی چیز میں نہیں مگر یہ کہ تم ان سے بچو ، کسی طرح سے بچنااور اللہ تمہیں اپنے آپ سے ڈراتاہے اور اللہ ہی کی طرف لوٹ کر جاناہے‘‘
ابن جریرؒ نے اس آیت کی تفسیر میں کہا :
لَا يَتَّخِذِ الْمُؤْمِنُوْنَ الْكٰفِرِيْنَ اَوْلِيَاۗءَ مِنْ دُوْنِ الْمُؤْمِنِيْنَ ۚ وَمَنْ يَّفْعَلْ ذٰلِكَ فَلَيْسَ مِنَ اللّٰهِ فِيْ شَيْءٍ اِلَّآ اَنْ تَتَّقُوْا مِنْھُمْ تُقٰىةً ۭ وَيُحَذِّرُكُمُ اللّٰهُ نَفْسَهٗ ۭ وَاِلَى اللّٰهِ الْمَصِيْرُ
اس کا معنی یہ ہے کہ اے مومنو! تم کفار کو پشتیبان اور مددگار نہ سمجھو ، تم ان کو دوست بناتے ہو ان کے دین پر ، اور تم مؤمنین کو چھوڑکران کی مددکرتے ہو مسلمانوں کے خلاف اور ان کو ان کے راز بتاتے ہو یقیناً جس نے بھی یہ کام کیا’’پس وہ اللہ کی طرف سے کسی چیز میں نہیں‘‘
وہ اس سے یہ مراد لیتے تھے کہ یہ شخص اللہ سے لاتعلق ہے اور اللہ تعالیٰ اس شخص سے بیزار اور لاتعلق ہیں کیونکہ وہ اپنے دین (اسلام ) سے مرتد اور کفر میں داخل ہو چکاہے ۔
’’مگر یہ کہ تم ان سے بچو ، کسی طرح سے بچنا ‘‘
یعنی اگر تم ان کی حکومت میں ہو ،تم اپنی جانوں پر ان سے ڈرتے بھی ہو اس حالت میں تم ان سے ظاہری دوستی کرسکتے ہو اور دل میں ان کے کفر کی وجہ سے دشمنی کوچھپائے رکھو اور ان کے کفر پر ہوتے ہوئے ان کی حمایت نہ کرنا اور نہ ہی کسی بھی طرح کسی بھی مسلمان کے خلاف ان کا تعاون کرنا ۔
اس مسئلے میں دلائل بہت زیادہ ہیں یہ دلائل عنقریب آنے والی بحث میں پیش کریں گے انشاءاللہ ۔
سنت کے دلائل :
الولاءکے بارے میں :
رسول اللہﷺفرماتے ہیں :
[مثل الؤمنین فی توادّھم وتراحمھم وتعاطفھم مثل الجسد ، إذا اشتکیٰ منہ عضو ، تداعی لہ سائر الجسد بالسھر والحمّی]
’’مؤمنوں کی باہمی محبت ،ایک دوسرے پر مہربانی اور باہمی ہمدردی کی مثال ایک جسم کی طرح ہے جب اس کے ایک عضو کو تکلیف پہنچتی ہے تو ساراجسم اسکے لئے ساری رات جاگتا اور بخار میں رہتاہے۔‘‘
اور آپ ﷺنے فرمایا :
[المؤمن للمؤمن کالبنیان یشدّ بعضہ بعضاً]
’’مؤمن مؤمن کے لیےایک عمارت کی حیثیت رکھتا ہے کہ اس کا بعض ،بعض کو مضبوط کرتا ہے۔‘‘
اور فرمایا:
[المسلم أخو المسلم :لا یظلمہ ،ولایسلمہ]
’’مسلمان ،مسلمان کابھائی ہے نہ وہ اس پر ظلم کرتا ہے اور نہ ہی وہ اس کو اکیلا چھوڑتا ہے ۔‘‘
اور آپ ﷺ نے فرمایا:
[والذی نفسی بیدہ ، لاتدخلون الجنۃحتیٰ تؤمنوا،ولاتؤمنواحتیٰ تحابّوا، أولاأدلکم علی شیءٍ إذا فعلتموہ تحاببتم ؟أفشوا السلام بینکم]
’’اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے تم جنت میں داخل نہیں ہو سکتے حتیٰ کہ تم مؤمن بن جاؤ اور تم اس وقت تک مؤمن نہیں بن سکتے حتیٰ کہ تم آپس میں ایک دوسرے سے محبت کرنے لگو کیامیں تمہیں ایسی چیزنہ بتاؤں کہ تم اسے کرو تو آپس میں محبت کرنے لگو ؟(فرمایا) آپس میں سلام کو عام کرو ۔ ‘‘
البراء کے بارے میں:
رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں:
جب جریر بن عبداللہ البجلی ؓ آ پ ﷺ کے پاس اسلام پر بیعت کر نے کے لئے آئے ، تو جریر ؓ نے رسول اللہ ﷺ سے کہا:اے اللہ کے رسول ﷺ مجھ پر شرط لگائیے ، آپ ﷺ نے فرمایا : [أبایعک علی أن تعبد اللہ ولا تشرک بہ شیئاً ، وتقیم الصلاۃ ، و تؤ تی الز کوٰۃ ، وتنصح المسلم ، وتفارق المشرک (وفی روایۃ:وتبرأ من الکافر)]
’’میں تم سے اس بات پر بیعت لیتا ہوں کہ تو اللہ تعالیٰ کی عبادت کرے ، اور اللہ کے ساتھ کسی کو بھی شریک نہ ٹھہرائے ، تو نماز قائم کرے ، زکوٰۃاداکرے ، مسلمان کے لئے خیر خواہی کرے اور مشرکوں کا ساتھ چھوڑ دے‘‘ (اور ایک حدیث میں ہے :’’ اور کافر سے بری اور لاتعلق ہو رہے ‘‘)
اجماع سے الولاء والبراء کے استدلالات :۔
اس بات میں کوئی شک نہیں کہ یہ معاملہ کتاب و سنت میں بالکل واضح ہے اس کے قطعی حکم ہو نے پر اجماع ہے کیونکہ اس کے لئے قطعی ثبوت اور دلائل موجود ہیں ۔دلائل کے متحد اور مسلسل وارد ہو نے کے ساتھ یہ دین کے ان امور سے جانا گیا ہے جن کاجاننا بہت ضروری ہے۔ او ر اسی وجہ سے ہم کسی عالم کی طرف سے اس اجماع پر کسی دلیل کے محتاج نہیں بلکہ صرف یہی کافی ہے کہ ہم اس کے دلائل ، حقائق اور ایمان کی بنیاد سے اس کاتعلق بیان کر دیں تاکہ ہم یقین کر لیں کہ الولاء والبراء پر کُل امت کااجماع ہے ۔
اس کے ساتھ اجماع کو بھی نقل کیاگیا ہے :۔
امام ابن حزمؒ (المحلیٰ) میں فرماتے ہیں :اور صحیح بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا قول :
وَمَنْ يَّتَوَلَّهُمْ مِّنْكُمْ فَاِنَّهٗ مِنْهُمْ
’’اور جس نے بھی تم میں سے ان سے دوستی لگائی تووہ انہی میں سے ہے ‘‘
یہ اس بات میں بالکل صریح ہے کہ جس نے یہ کام کیاوہ ان سب کافروں میں سے ایک کافر ہے یہ بات سچ ہے مسلمانوں میں سے کسی دو کا بھی اس مسئلے میں اختلاف نہیں ۔
اور ہم اس اجماع کی صحت میں کیسے شک کر سکتے ہیں حالانکہ ام القرآن میں ہے کہ :
اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَـقِيْمَ Ĉۙصِرَاطَ الَّذِيْنَ اَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ ۹ غَيْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّاۗلِّيْنَ Ċۧ
ہمیں سیدھے رستے پر چلا۔ان لوگوں کے رستے پر، جن پر تو نے انعام کیا،جن پر نہ غضب کیاگیااور نہ وہ گمراہ ہوئے ۔
مفسرین نے اس بات پر اجماع کیاہے کہ ’’المغضوب علیھم ‘‘سے مراد یہود اور ’’الضالین ‘‘ سے مراد نصاریٰ ہیں ۔۔۔۔۔
جاری ہے۔۔۔۔۔