• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مسئلہ تراویح کی حقیقت

شمولیت
مارچ 20، 2018
پیغامات
172
ری ایکشن اسکور
3
پوائنٹ
64
‎مسئلہ تراویح
‎یہ مسئلہ سمجھنے کے لئے تہجد اور تراویح میں فرق سمجھنا اور رکھنا ضروری ہے۔ قیام اللیل کا مطلب ہے رات کا قیام اور اس کی دو صورتیں ہیں۔ ایک کانام تہجد ہے اور دوسری کا تراویح
‎تہجد انفرادی ہے گھر میں ہے۔ اور سوکر اٹھنے کے بعد ہے۔ رات کے تیسرے پہر ہے اور رمضان سے خاص نہیں۔ سارا سال ہے اور اس کی تعداد وتر سمیت پانچ، سات، نو، گیارہ یا تیرہ ہے۔ یہ سب تعداد مختلف احادیث سے ثابت ہیں۔ اس میں ختم قرآن کا کوئی مسئلہ نہیں۔ اسے دو دو بھی پڑھ سکتے ہیں اور چار چار بھی۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت سے چار چار ثابت ہے اور گیارہ اور ابن عباس رضی اللہ عنہ کی روایت سے دو دو اور تیرہ اور دیگر روایات سے اور تعداد بھی منقول ہے۔ اور اس کا درجہ نفل کا ہے۔

‎تراویح تعامل امت کے تحت فورا بعد از عشا ہے، باجماعت ہے مسجد میں ہے۔ صرف رمضان میں ہے دو دو ہے ختم قرآن کے ساتھ جڑی ہوئی ہے۔ اور پہلے اس میں اختلاف ۴۰ یا ۲۰ کا تھا آجکل ۲۰ یا ۸ کا ہے۔ اور اس کا درجہ سنت موکدہ (اصطلاحی) کا ہے جو نفل سے بڑھا ہوا ہے۔ یہ قیام اللیل ہے لیکن تہجد نہیں۔
اس بنا پر تراویح اور تہجد کو مکس اپ نہیں کرنا چاہئے اسُ میں امت میں خلجان اور انتشار پیدا ہوتا ہے اور ہر سال امت کے بعض افراد اس بیکار مباحشے میں مبتلا ہو جاتے ہے۔ جو تہجد پڑھنا چاہتے ہیں وہ رمضان غیر رمضان پانچ، سات، نو، گیارہ یا تیرہ رکعت سونے سے اٹھ کر انفرادی طور پر گھر میں پڑھتے رہیں۔ لیکن اس کو اس نماز سے مکس اپ نا کریں۔ علمائے امت نے اسے تہجد سے ممتاز کرنے کے لئے ہی تراویح کا نام دیا ہے۔

تراویح کا ارتقا کیسے ہوا؟
نبی پاک ﷺ سے رمضان کی اس نماز کے اضافی ہونے کا ثبوت ملتا ہے جس میں آپ نے اس کی ۳ دن جماعت کرائی۔ اور یہ تہجد کے علاوہ تھی اس کے شواہد ملاحظہ فرمائیں۔
۱۔ (۲۰۱۱) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بار نماز ( تراویح ) پڑھی اور یہ رمضان میں ہوا تھا۔ بخاری
۲۔ (۲۰۱۲) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک مرتبہ ( رمضان کی ) نصف شب میں مسجد تشریف لے گئے اور وہاں تراویح کی نماز پڑھی۔ کچھ صحابہ رضی اللہ عنہم بھی آپ کے ساتھ نماز میں شریک ہو گئے۔۔۔۔ چوتھی رات کو یہ عالم تھا کہ مسجد میں نماز پڑھنے آنے والوں کے لیے جگہ بھی باقی نہیں رہی تھی۔ ( لیکن اس رات آپ برآمد ہی نہیں ہوئے ) بخاری
۳۔ (۷۲۹۰) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد نبوی میں چٹائی سے گھیر کر ایک حجرہ بنا لیا اور رمضان کی راتوں میں اس کے اندر نماز پڑھنے لگے ۔۔ بخاری
۴۔ (۸۰۶) ۔۔رمضان کے صرف سات دن باقی رہ گئے تو آپ نے ہمارے ساتھ قیام کیا۔۔ (ترمذی)
۵ (۲۲۰۱)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (رمضان میں) آدھی رات کو نکلے، اور آپ نے مسجد میں نماز پڑھائی۔ نسائی

ان تمام روایات سے پتہ چلتا ہے کہ یہ معمول کی تہجد کی نماز نہیں تھی بلکہ ایک اضافی نماز تھی جو مسجدُمیںُ باجمارت ادا کی گئی اور صرف تین دن تک پڑھی گئی۔
اسکے برعکس تہجد تیسرے پہر مستقل انفرادی عمل تھا۔ رمضان اور غیر رمضان جاری رہتا تھا۔

ان روایات سے تراویح کے ارتقا کے پہلے مرحلے میں چند باتوں کا اثبات ہوتا ہے۔
۱۔ یہ تہجد کے علاوہ ہے
۲۔ مسجد میں ہے۔
۳۔ باجماعت ہے۔
۴۔ عشا کے بعد ہے۔
۵۔ شروع میں صرف تین دن پڑھی گئی۔

دور عمر رضی اللہ عنہ میں تراویح کا ارتقا

(۲۰۱۰) میں عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے ساتھ رمضان کی ایک رات کو مسجد میں گیا۔ سب لوگ متفرق اور منتشر تھے، کوئی اکیلا نماز پڑھ رہا تھا، اور کچھ کسی کے پیچھے کھڑے ہوئے تھے۔ اس پر عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا، میرا خیال ہے کہ اگر میں تمام لوگوں کو ایک قاری کے پیچھے جمع کر دوں تو زیادہ اچھا ہو گا، چنانچہ آپ نے یہی ٹھان کر ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کو ان کا امام بنا دیا۔بخاری

اس سے یہ بات پتہ چلی کہ دور نبوی کی سنت صرف تین دن تھی اس کے بعد لوگوں نے پورا رمضان مختلف ٹولویں کی شکل میں اسے پڑھنا شروع کر دیا اور عمر رضی اللہ عنہ نے سب کو ایک امام کے تحت جمع کردیا اور وہاں سے باقاعدہ تراویح پورا رمضان باجماعت بعد عشا کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ اور پھر تعامل امت کے تحت اس میں متم قرآن کا بھی اہتمام شروع ہوگیا۔ یاد رہے کہ تعامل امت بھی سبیل المومنین بن جانے کی وجہ سے حجت ہو جاتا ہے۔ النساء ۱۱۵
 
شمولیت
مارچ 20، 2018
پیغامات
172
ری ایکشن اسکور
3
پوائنٹ
64
اب آخر میں رہ گیا اس کی تعداد رکعات کا مختلف فیہ مسئلہ۔ سب سے پہلے تو جیسے اوپر واضح ہو چکا ہے کہ تہجد سے مختلف نماز ہونے کی بنا پر تہجد کی روایات سے اس کا استدلال لینا درست نہیں۔ اس حوالے سے امام ترمذی کی شرح حدیث ۸۰۶ نہائت اہم ہے جس میں وہ اس نماز کی تعداد رکعت پر روشنی ڈالتے ہیں۔ آپ فرماتے ہیں۔

(شرح۸۰۶)۔۔ رمضان کے قیام کے سلسلے میں اہل علم کا اختلاف ہے۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ وتر کے ساتھ اکتالیس رکعتیں پڑھے گا، یہ اہل مدینہ کا قول ہے، ان کے نزدیک مدینے میں اسی پر عمل تھا، اور اکثر اہل علم ان احادیث کی بنا پر جو عمر، علی اور دوسرے صحابہ کرام رضی الله عنہم سے مروی ہے بیس رکعت کے قائل ہیں۔ یہ سفیان ثوری، ابن مبارک اور شافعی کا قول ہے۔ اور شافعی کہتے ہیں: اسی طرح سے میں نے اپنے شہر مکے میں پایا ہے کہ بیس رکعتیں پڑھتے تھے، احمد کہتے ہیں: اس سلسلے میں کئی قسم کی باتیں مروی ہیں انہوں نے اس سلسلے میں کوئی فیصلہ کن بات نہیں کہی، اسحاق بن راہویہ کہتے ہیں: ہمیں ابی بن کعب کی روایت کے مطابق ۴۱ رکعتیں مرغوب ہیں۔ ترمذی

امام ترمذی رحمة اللہ علیہ کی اس شرح سے پتہ چلتا ہے کہ آئمہ اسلاف میں اختلاف ۲۰ یا ۴۰ کا تھا اور تعامل امت نے ۲۰ کو اختیار گیا۔ ۸ کا قول اسلاف امت میں سے کسی کا بھی نہیں رہا اور آئمہ اسلاف میں سے کسی نے بھی عائشہ رضی اللہ عنہا والی تہجد کی حدیث سے اس معاملے میں استدلال نہیں لیا۔ اس لئے سلفیوں کو بھی اسی پر اتفاق کر لینا چاہئے۔ کہ وہ بھی آئمہ اسلاف کے فہم کے مطابق دین کو سمجھنے کے قائل ہیں۔
واللہ اعلم
- ابوحنظلہ
 

نسیم احمد

مشہور رکن
شمولیت
اکتوبر 27، 2016
پیغامات
747
ری ایکشن اسکور
128
پوائنٹ
108
محترم ابو حنطلہ صاحب
السلام علیکم
(۲۰۱۰) میں عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے ساتھ رمضان کی ایک رات کو مسجد میں گیا۔ سب لوگ متفرق اور منتشر تھے، کوئی اکیلا نماز پڑھ رہا تھا، اور کچھ کسی کے پیچھے کھڑے ہوئے تھے۔ اس پر عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا، میرا خیال ہے کہ اگر میں تمام لوگوں کو ایک قاری کے پیچھے جمع کر دوں تو زیادہ اچھا ہو گا، چنانچہ آپ نے یہی ٹھان کر ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کو ان کا امام بنا دیا۔بخاری
آپ نے اس حدیث کو پورا نہیں لکھا۔ اس کے آخر ی لفظ یہ بتاتے ہیں کہ تراویح الگ نماز نہیں ۔ اس کے علاوہ اوپر آپ خودحدیث لکھی ہے کہ صرف ایک رمضان آپ صلی اللہ علیہ وسلم نےباجماعت تراویح پڑھی،اور وہ بھی آخری عشرےمیں۔
بخاری کی پوری حدیث یہ ہے :
حدیث نمبر: 2010 --- اور ابن شہاب سے (امام مالک رحمہ اللہ) کی روایت ہے ، انہوں نے عروہ بن زبیر ؓ سے اور انہوں نے عبدالرحمٰن بن عبدالقاری سے روایت کی کہ انہوں نے بیان کیا میں عمر بن خطاب ؓ کے ساتھ رمضان کی ایک رات کو مسجد میں گیا ۔ سب لوگ متفرق اور منتشر تھے ، کوئی اکیلا نماز پڑھ رہا تھا ، اور کچھ کسی کے پیچھے کھڑے ہوئے تھے ۔ اس پر عمر ؓ نے فرمایا ، میرا خیال ہے کہ اگر میں تمام لوگوں کو ایک قاری کے پیچھے جمع کر دوں تو زیادہ اچھا ہو گا ، چنانچہ آپ نے یہی ٹھان کر ابی بن کعب ؓ کو ان کا امام بنا دیا ۔ پھر ایک رات جو میں ان کے ساتھ نکلا تو دیکھا کہ لوگ اپنے امام کے پیچھے نماز (تراویح) پڑھ رہے ہیں ۔ عمر ؓ نے فرمایا ، یہ نیا طریقہ بہتر اور مناسب ہے اور (رات کا) وہ حصہ جس میں یہ لوگ سو جاتے ہیں اس حصہ سے بہتر اور افضل ہے جس میں یہ نماز پڑھتے ہیں ۔ آپ کی مراد رات کے آخری حصہ (کی فضیلت) سے تھی کیونکہ لوگ یہ نماز رات کے شروع ہی میں پڑھ لیتے تھے ۔

خط کشیدہ الفاظ یہ واضح کر رہے ہیں کہ ایک ایسی نماز کی بات ہورہی ہے جو رات کے آخری حصہ میں پڑھنا افضل ہے ۔ اور وہ نماز صرف تہجد کی نماز ہے ۔ موجودہ مروجہ تراویح ایک بدعت ہے ۔
یہ حدیث بھی ملاحضہ کریں۔
بخاری حدیث نمبر: 7290 --- ہم سے اسحاق بن منصور نے بیان کیا ، انہوں نے کہا ہم کو عفان بن مسلم نے خبر دی ، انہوں نے کہا ہم سے وہیب نے بیان کیا ، کہا ہم سے موسیٰ ابن عقبہ نے بیان کیا ، کہا میں نے ابوالنضر سے سنا ، انہوں نے بسر بن سعید سے بیان کیا ، ان سے زید بن ثابت ؓ نے کہ نبی کریم ﷺ نے مسجد نبوی میں چٹائی سے گھیر کر ایک حجرہ بنا لیا اور رمضان کی راتوں میں اس کے اندر نماز پڑھنے لگے پھر اور لوگ بھی جمع ہو گئے تو ایک رات نبی کریم ﷺ کی آواز نہیں آئی ۔ لوگوں نے سمجھا کہ نبی کریم ﷺ سو گئے ہیں ۔ اس لیے ان میں سے بعض کھنگارنے لگے تاکہ آپ باہر تشریف لائیں ، پھر نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ میں تم لوگوں کے کام سے واقف ہوں ، یہاں تک کہ مجھے ڈر ہوا کہ کہیں تم پر یہ نماز تراویح فرض نہ کر دی جائے اور اگر فرض کر دی جائے تو تم اسے قائم نہیں رکھ سکو گے ۔
پس اے لوگو ! اپنے گھروں میں یہ نماز پڑھو کیونکہ فرض نماز کے سوا انسان کی سب سے افضل نماز اس کے گھر میں ہے ۔
 
شمولیت
مارچ 20، 2018
پیغامات
172
ری ایکشن اسکور
3
پوائنٹ
64
‎مسئلہ تراویح
‎یہ مسئلہ سمجھنے کے لئے تہجد اور تراویح میں فرق سمجھنا اور رکھنا ضروری ہے۔ قیام اللیل کا مطلب ہے رات کا قیام اور اس کی دو صورتیں ہیں۔ ایک کانام تہجد ہے اور دوسری کا تراویح
‎تہجد انفرادی ہے گھر میں ہے۔ اور سوکر اٹھنے کے بعد ہے۔ رات کے تیسرے پہر ہے اور رمضان سے خاص نہیں۔ سارا سال ہے اور اس کی تعداد وتر سمیت پانچ، سات، نو، گیارہ یا تیرہ ہے۔ یہ سب تعداد مختلف احادیث سے ثابت ہیں۔ اس میں ختم قرآن کا کوئی مسئلہ نہیں۔ اسے دو دو بھی پڑھ سکتے ہیں اور چار چار بھی۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت سے چار چار ثابت ہے اور گیارہ اور ابن عباس رضی اللہ عنہ کی روایت سے دو دو اور تیرہ اور دیگر روایات سے اور تعداد بھی منقول ہے۔ اور اس کا درجہ نفل کا ہے۔

‎تراویح تعامل امت کے تحت فورا بعد از عشا ہے، باجماعت ہے مسجد میں ہے۔ صرف رمضان میں ہے دو دو ہے ختم قرآن کے ساتھ جڑی ہوئی ہے۔ اور پہلے اس میں اختلاف ۴۰ یا ۲۰ کا تھا آجکل ۲۰ یا ۸ کا ہے۔ اور اس کا درجہ سنت موکدہ (اصطلاحی) کا ہے جو نفل سے بڑھا ہوا ہے۔ یہ قیام اللیل ہے لیکن تہجد نہیں۔
اس بنا پر تراویح اور تہجد کو مکس اپ نہیں کرنا چاہئے اسُ میں امت میں خلجان اور انتشار پیدا ہوتا ہے اور ہر سال امت کے بعض افراد اس بیکار مباحشے میں مبتلا ہو جاتے ہے۔ جو تہجد پڑھنا چاہتے ہیں وہ رمضان غیر رمضان پانچ، سات، نو، گیارہ یا تیرہ رکعت سونے سے اٹھ کر انفرادی طور پر گھر میں پڑھتے رہیں۔ لیکن اس کو اس نماز سے مکس اپ نا کریں۔ علمائے امت نے اسے تہجد سے ممتاز کرنے کے لئے ہی تراویح کا نام دیا ہے۔

تراویح کا ارتقا کیسے ہوا؟
نبی پاک ﷺ سے رمضان کی اس نماز کے اضافی ہونے کا ثبوت ملتا ہے جس میں آپ نے اس کی ۳ دن جماعت کرائی۔ اور یہ تہجد کے علاوہ تھی اس کے شواہد ملاحظہ فرمائیں۔
۱۔ (۲۰۱۱) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بار نماز ( تراویح ) پڑھی اور یہ رمضان میں ہوا تھا۔ بخاری
۲۔ (۲۰۱۲) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک مرتبہ ( رمضان کی ) نصف شب میں مسجد تشریف لے گئے اور وہاں تراویح کی نماز پڑھی۔ کچھ صحابہ رضی اللہ عنہم بھی آپ کے ساتھ نماز میں شریک ہو گئے۔۔۔۔ چوتھی رات کو یہ عالم تھا کہ مسجد میں نماز پڑھنے آنے والوں کے لیے جگہ بھی باقی نہیں رہی تھی۔ ( لیکن اس رات آپ برآمد ہی نہیں ہوئے ) بخاری
۳۔ (۷۲۹۰) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد نبوی میں چٹائی سے گھیر کر ایک حجرہ بنا لیا اور رمضان کی راتوں میں اس کے اندر نماز پڑھنے لگے ۔۔ بخاری
۴۔ (۸۰۶) ۔۔رمضان کے صرف سات دن باقی رہ گئے تو آپ نے ہمارے ساتھ قیام کیا۔۔ (ترمذی)
۵ (۲۲۰۱)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (رمضان میں) آدھی رات کو نکلے، اور آپ نے مسجد میں نماز پڑھائی۔ نسائی

ان تمام روایات سے پتہ چلتا ہے کہ یہ معمول کی تہجد کی نماز نہیں تھی بلکہ ایک اضافی نماز تھی جو مسجدُمیںُ باجمارت ادا کی گئی اور صرف تین دن تک پڑھی گئی۔
اسکے برعکس تہجد تیسرے پہر مستقل انفرادی عمل تھا۔ رمضان اور غیر رمضان جاری رہتا تھا۔

ان روایات سے تراویح کے ارتقا کے پہلے مرحلے میں چند باتوں کا اثبات ہوتا ہے۔
۱۔ یہ تہجد کے علاوہ ہے
۲۔ مسجد میں ہے۔
۳۔ باجماعت ہے۔
۴۔ عشا کے بعد ہے۔
۵۔ شروع میں صرف تین دن پڑھی گئی۔

دور عمر رضی اللہ عنہ میں تراویح کا ارتقا

(۲۰۱۰) میں عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے ساتھ رمضان کی ایک رات کو مسجد میں گیا۔ سب لوگ متفرق اور منتشر تھے، کوئی اکیلا نماز پڑھ رہا تھا، اور کچھ کسی کے پیچھے کھڑے ہوئے تھے۔ اس پر عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا، میرا خیال ہے کہ اگر میں تمام لوگوں کو ایک قاری کے پیچھے جمع کر دوں تو زیادہ اچھا ہو گا، چنانچہ آپ نے یہی ٹھان کر ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کو ان کا امام بنا دیا۔بخاری

اس سے یہ بات پتہ چلی کہ دور نبوی کی سنت صرف تین دن تھی اس کے بعد لوگوں نے پورا رمضان مختلف ٹولویں کی شکل میں اسے پڑھنا شروع کر دیا اور عمر رضی اللہ عنہ نے سب کو ایک امام کے تحت جمع کردیا اور وہاں سے باقاعدہ تراویح پورا رمضان باجماعت بعد عشا کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ اور پھر تعامل امت کے تحت اس میں متم قرآن کا بھی اہتمام شروع ہوگیا۔ یاد رہے کہ تعامل امت بھی سبیل المومنین بن جانے کی وجہ سے حجت ہو جاتا ہے۔ النساء ۱۱۵اب آخر میں رہ گیا اس کی تعداد رکعات کا مختلف فیہ مسئلہ۔ سب سے پہلے تو جیسے اوپر واضح ہو چکا ہے کہ تہجد سے مختلف نماز ہونے کی بنا پر تہجد کی روایات سے اس کا استدلال لینا درست نہیں۔ اس حوالے سے امام ترمذی کی شرح حدیث ۸۰۶ نہائت اہم ہے جس میں وہ اس نماز کی تعداد رکعت پر روشنی ڈالتے ہیں۔ آپ فرماتے ہیں۔

(شرح۸۰۶)۔۔ رمضان کے قیام کے سلسلے میں اہل علم کا اختلاف ہے۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ وتر کے ساتھ اکتالیس رکعتیں پڑھے گا، یہ اہل مدینہ کا قول ہے، ان کے نزدیک مدینے میں اسی پر عمل تھا، اور اکثر اہل علم ان احادیث کی بنا پر جو عمر، علی اور دوسرے صحابہ کرام رضی الله عنہم سے مروی ہے بیس رکعت کے قائل ہیں۔ یہ سفیان ثوری، ابن مبارک اور شافعی کا قول ہے۔ اور شافعی کہتے ہیں: اسی طرح سے میں نے اپنے شہر مکے میں پایا ہے کہ بیس رکعتیں پڑھتے تھے، احمد کہتے ہیں: اس سلسلے میں کئی قسم کی باتیں مروی ہیں انہوں نے اس سلسلے میں کوئی فیصلہ کن بات نہیں کہی، اسحاق بن راہویہ کہتے ہیں: ہمیں ابی بن کعب کی روایت کے مطابق ۴۱ رکعتیں مرغوب ہیں۔ ترمذی

امام ترمذی رحمة اللہ علیہ کی اس شرح سے پتہ چلتا ہے کہ آئمہ اسلاف میں اختلاف ۲۰ یا ۴۰ کا تھا اور تعامل امت نے ۲۰ کو اختیار گیا۔ ۸ کا قول اسلاف امت میں سے کسی کا بھی نہیں رہا اور آئمہ اسلاف میں سے کسی نے بھی عائشہ رضی اللہ عنہا والی تہجد کی حدیث سے اس معاملے میں استدلال نہیں لیا۔ اس لئے سلفیوں کو بھی اسی پر اتفاق کر لینا چاہئے۔ کہ وہ بھی آئمہ اسلاف کے فہم کے مطابق دین کو سمجھنے کے قائل ہیں۔
واللہ اعلم
- ابوحنظلہ
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,562
پوائنٹ
791
جو نماز غیر رمضان میں نمازِ تہجد ہے وہی نماز ، رمضان میں نمازِ تراویح کہلاتی ہے ۔
ماہِ رمضان میں تہجد کی جگہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف تراویح پڑھی اور تراویح کے علاوہ ، تہجد کے نام سے مزید کوئی دوسری نماز نہیں پڑھی ۔
اس کی واضح ترین دلیل حضرت ابوذر غفاری کی روایت کردہ حدیث ہے جو ابو داؤد ، ترمذی ، نسائی ، صحیح ابن حبان اور صحیح ابن خزیمہ میں موجود ہے ۔

جامع الترمذیؒ کی روایت حسب ذیل ہے :
عن ابي ذر، قال:‏‏‏‏ صمنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم فلم يصل بنا حتى بقي سبع من الشهر، ‏‏‏‏‏‏فقام بنا حتى ذهب ثلث الليل، ‏‏‏‏‏‏ثم لم يقم بنا في السادسة وقام بنا في الخامسة حتى ذهب شطر الليل، ‏‏‏‏‏‏فقلنا له:‏‏‏‏ يا رسول الله لو نفلتنا بقية ليلتنا هذه؟ فقال:‏‏‏‏ " إنه من قام مع الإمام حتى ينصرف كتب له قيام ليلة "، ‏‏‏‏‏‏ثم لم يصل بنا حتى بقي ثلاث من الشهر، ‏‏‏‏‏‏وصلى بنا في الثالثة ودعا اهله ونساءه، ‏‏‏‏‏‏فقام بنا حتى تخوفنا الفلاح، ‏‏‏‏‏‏قلت له:‏‏‏‏ وما الفلاح؟ قال:‏‏‏‏ " السحور ". قال ابو عيسى:‏‏‏‏ هذا حديث حسن صحيح (جامع الترمذی 806 )
سیدنا ابوذر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ صیام رمضان رکھے تو آپ نے ہمیں نماز (تراویح) نہیں پڑھائی، یہاں تک کہ رمضان کے صرف سات دن باقی رہ گئے تو آپ نے ہمارے ساتھ قیام کیا (یعنی تراویح پڑھائی) یہاں تک کہ ایک تہائی رات گزر گئی۔ پھر جب چھ راتیں رہ گئیں تو آپ نے ہمارے ساتھ قیام نہیں کیا، (یعنی تراویح،تہجد نہیں پڑھی) اور جب پانچ راتیں رہ گئیں تو آپ نے ہمارے ساتھ قیام کیا (یعنی تراویح،تہجد پڑھی) یہاں تک کہ آدھی رات ہو گئی۔ تو ہم نے آپ سے عرض کیا: اللہ کے رسول! اگر آپ اس رات کے باقی ماندہ حصہ میں بھی ہمیں نفل پڑھاتے رہتے (تو بہتر ہوتا) ؟ آپ نے فرمایا: ”جس نے امام کے ساتھ قیام کیا یہاں تک کہ وہ فارغ ہو جائے تو اس کے لیے پوری رات کا قیام لکھا جائے گا، پھر آپ نے ہمیں نماز نہیں پڑھائی، یہاں تک کہ مہینے کے صرف تین دن باقی رہ گئے، پھر آپ نے ہمیں ستائیسویں رات کو نماز پڑھائی۔ اور اپنے گھر والوں اور اپنی عورتوں کو بھی بلایا، آپ نے ہمارے ساتھ قیام کیا یہاں تک کہ ہمیں فلاح کے چھوٹ جانے کا اندیشہ ہوا۔ (راوی کہتے ہیں) میں نے پوچھا: فلاح کیا چیز ہے؟ تو انہوں نے کہا: سحری ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،
_____________________
اور سنن ابی داود (1375 )میں ہے :
عن ابي ذر، ‏‏‏‏‏‏قال:‏‏‏‏ "صمنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم رمضان، ‏‏‏‏‏‏فلم يقم بنا شيئا من الشهر حتى بقي سبع، ‏‏‏‏‏‏فقام بنا حتى ذهب ثلث الليل، ‏‏‏‏‏‏فلما كانت السادسة لم يقم بنا، ‏‏‏‏‏‏فلما كانت الخامسة قام بنا حتى ذهب شطر الليل، ‏‏‏‏‏‏فقلت:‏‏‏‏ يا رسول الله، ‏‏‏‏‏‏لو نفلتنا قيام هذه الليلة، ‏‏‏‏‏‏قال:‏‏‏‏ فقال:‏‏‏‏ إن الرجل إذا صلى مع الإمام حتى ينصرف حسب له قيام ليلة، ‏‏‏‏‏‏قال:‏‏‏‏ فلما كانت الرابعة لم يقم، ‏‏‏‏‏‏فلما كانت الثالثة جمع اهله ونساءه والناس، ‏‏‏‏‏‏فقام بنا حتى خشينا ان يفوتنا الفلاح، ‏‏‏‏‏‏قال:‏‏‏‏ قلت:‏‏‏‏ وما الفلاح؟ قال:‏‏‏‏ السحور، ‏‏‏‏‏‏ثم لم يقم بقية الشهر".
سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رمضان کے روزے رکھے، آپ نے مہینے کی کسی رات میں بھی ہمارے ساتھ قیام نہیں فرمایا یہاں تک کہ (مہینے کی) سات راتیں رہ گئیں، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے ساتھ قیام کیا یعنی تیئیسویں (۲۳) یا چوبیسویں (۲۴) رات کو یہاں تک کہ ایک تہائی رات گزر گئی اور جب چھ راتیں رہ گئیں یعنی (۲۴) ویں یا (۲۵) ویں رات کو آپ نے ہمارے ساتھ قیام نہیں کیا، اس کے بعد (۲۵) ویں یا (۲۶) ویں رات کو جب کہ پانچ راتیں باقی رہ گئیں آپ نے ہمارے ساتھ قیام کیا یہاں تک کہ آدھی رات گزر گئی، میں نے کہا: اللہ کے رسول! اس رات کاش آپ اور زیادہ قیام فرماتے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب آدمی امام کے ساتھ نماز پڑھے یہاں تک کہ وہ فارغ ہو جائے تو اس کو ساری رات کے قیام کا ثواب ملتا ہے“، پھر چھبیسویں (۲۶) یا ستائیسویں (۲۷) رات کو جب کہ چار راتیں باقی رہ گئیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر قیام نہیں کیا، پھر ستائیسویں (۲۷) یا اٹھائیسویں (۲۸) رات کو جب کہ تین راتیں باقی رہ گئیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے گھر والوں، اپنی عورتوں اور لوگوں کو اکٹھا کیا اور ہمارے ساتھ قیام کیا، یہاں تک کہ ہمیں خوف ہونے لگا کہ کہیں ہم سے فلاح چھوٹ نہ جائے، میں نے پوچھا: فلاح کیا ہے؟ ابوذر نے کہا: سحر کا کھانا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مہینے کی بقیہ راتوں میں قیام نہیں کیا ۔

سنن ابی داود 1375، سنن الترمذی/الصوم ۸۱ (۸۰۶)، سنن النسائی/السہو۱۰۳ (۱۳۶۵)، قیام اللیل ۴ (۱۶۰۶)، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ۱۷۳ (۱۳۲۷)، (تحفة الأشراف:۱۱۹۰۳)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۵/۱۵۹، ۱۶۳)، سنن الدارمی/ الصوم ۵۴ (۱۸۱۸)
وضاحت: ۱؎ : اگر مہینہ تیس دن کا شمار کیا جائے تو سات راتیں چوبیس سے رہتی ہیں، اور اگر انتیس دن کا مانا جائے تو تیئسویں سے سات راتیں رہتی ہیں، اس حساب سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے تیئسویں، پچسویں اور ستائسویں رات میں قیام کیا، یہ راتیں طاق بھی ہیں اور متبرک بھی، غالب یہی ہے کہ شب قدر بھی انہیں راتوں میں ہے۔
سنن ابي داود ، كتاب شهر رمضان ، باب في قيام شهر رمضان ، حدیث : 1377
حضرت ابوذر غفاری (رضی اللہ عنہ) روایت کرتے ہیں کہ : ہم نے نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) کے ساتھ ماہِ رمضان کے روزے رکھے ۔آپ نے ہمیں 23 ویں روزے تک قیام نہیں کروایا ۔اور اس رات جب قیام کروایا تو اتنی لمبی قراءت فرمائی کہ پہلی رات کا ایک تہائی حصہ اور دوسری رات کا آدھا حصہ قیام میں ہی گزر گیا اور تیسری رات جب آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے قیام کی جماعت کروائی تو اتنی لمبی تلاوت فرمائی ۔۔۔۔۔
حتى تخوفنا ان يفوتنا الفلاح قلت وما الفلاح قال السحور
صحيح ابن خزيمة ، كتاب الصيام ، باب ذكر قيام الليل كله للمصلي مع الامام في قيام رمضان حتى يفرغ
(ترجمہ : اس رات نماز سے فارغ ہونے تک ہمیں یہ اندیشہ لاحق ہوگیا کہ آج کہیں ہم فلاح سے ہی نہ رہ جائیں ۔ ابوذر غفاری سے روایت کرنے والے راوی نے اُن سے پوچھا کہ فلاح سے کیا مراد ہے؟ ابوذر نے جواباََ فرمایا : سحری کھانا ۔)

درج بالا حدیث میں جو عربی ٹکڑا ہے وہ صحیح ابن خزیمہ کی حدیث سے جیسا کا تیسا نقل کیا گیا ہے اور
ان الفاظ کو امام ابن خزیمہ نے صحیح السند قرار دیا ہے ۔
ڈاکٹر مصطفیٰ اعظمی نے بھی اسے صحیح کہا ہے اور
محدث العصر علامہ البانی نے بھی ابن خزیمہ کے صحیح کہنے کو برقرار رکھا ہے ۔

اس حدیث کے مطالعے سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ نمازِ تہجد ، جو کہ نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) پر واجب تھی ۔۔۔ وہ رمضان میں یہی نمازِ تراویح تھی ۔ کیونکہ جب سحر قریب آ جائے تو ایک الگ نماز ، نمازِ تہجد سے پڑھنے کا وقت کہاں سے نکالا جائے گا؟
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,562
پوائنٹ
791
تہجد، تراویح اور مولوی انور شاہ کاشمیری


والمختارعندي أنهما واحدٌ وإن اختلفت صفتاهما، كعدم المواظبة على التراويح، وأدائها بالجماعة، وأدائها في أول اللَّيل تارةً وإيصالها إلى السَّحَر أُخرى. بخلاف التهجُّد فإنه كان في آخِر الليل ولم تكن فيه الجماعة. وجَعْلُ اختلافِ الصفات دليلا على اختلاف نوعيهما ليس بجيِّدٍ عندي، بل كانت تلك صلاةً واحدةً، إذا تقدَّمت سُمِّيت باسم التراويح، وإذا تأخَّرت سُمِّيت باسم التهجُّد، ولا بِدْعَ في تسميتها باسمين عند تغايُرِ الوَصْفَين، فإنَّه لا حَجْر في التغاير الاسمي إذا اجتمعت عليه الأُمةُ. وإنَّما يثبُتُ تغايُرُ النَّوْعَيْن إذا ثَبَت عن النبيِّ صلى الله عليه وسلّم أنه صلى التهجُّدَ مع إقامَتِهِ بالتراويحِ.

میرے نزدیک صحیح بات یہ ہے کہ یہ دونوں ایک ہی ہیں چاہے ان دونوں کے صفات میں فرق ہو. جیسا کہ تراویح کا ہمیشہ نہ پڑھا جانا، اور اس کو جماعت کے ساتھ ادا کرنا، اور اس کو کبھی رات کے شروع میں ادا کرنا اور کبھی اسے صبح تک لے جانا، تہجد کے برخلاف کہ وہ رات نے آخر میں ہوتی ہے اور اس میں جماعت نہیں ہوتی. اور صفات کے فرق کو قسم کے اختلاف پر دلیل بنانا میرے نزدیک مناسب نہیں ہے. بلکہ یہ ایک ہی نماز ہے. اگر وہ پہلے آ جائے تو اسے تراویح کا نام دیا جاتا ہے اور اگر بعد میں آ جائے تو تہجد کا نام دیا جاتا ہے. اور صفات کا اختلاف ہوتے ہوئے اس کو دو نام دینے میں کوئی بدعت نہیں ہے کیونکہ جب امت نام کے مختلف ہونے پر جمع ہو جائے تو میں کوئی رکاوٹ نہیں رہتی. (نمازوں کی) قسموں كا مختلف ہونا تو صرف تب ثابت ہوگا جب نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ ثابت ہو جائے کہ انہوں نے تراویح کے ساتھ ساتھ علیحدہ تہجد بھی پڑھی ہے.

فيض الباري على صحيح البخاري
باب قِيَامِ النَّبِىِّ – صلى الله عليه وسلم – بِاللَّيْلِ فِى رَمَضَانَ وَغَيْرِهِ
https://archive.org/stream/waq88461/02_88462#page/n565/mode/2up
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

انور شاہ کشمیری دیوبندی (متوفی 1352؁ھ) اپنی دوسری کتاب "العرف الشذی " فرماتے ہیں :
ولا مناص من تسليم أن تراويحه عليه السلام كانت ثمانية ركعات ولم يثبت فى رواية من الروايات أنه عليه السلام صلى التراويح و التجهد عليحدة فى رمضان…. وأما النبى صلى الله عليه وسلم فصح عنه ثمان ركعات و أما عشرون ركعة فهو عنه عليه السلام بسند ضعيف و عليٰ ضعفه اتفاق….
”اور یہ بات تسلیم کئے بغیر کوئی چارہ نہیں ہے کہ نبی اکرم علیہ السلام کی تراویح آٹھ رکعات تھی اور روایتوں میں سے کسی ایک روایت میں بھی یہ ثابت نہیں ہے کہ آپ علیہ السلام نے رمضان میں تراویح اور تہجد علیحدہ پڑھے ہوں…… رہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم تو آپ سے آٹھ رکعتیں صحیح ثابت ہیں اور رہی بیس رکعتیں تو وہ آپ علیہ السلام سے ضعیف سند کے ساتھ ہیں اور اس کے ضعیف ہونے پر اتفاق ہے۔“([العرف الشذي ص 166 ج 1)
https://archive.org/stream/waq64095/02_64096#page/n207/mode/2up
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
 
Last edited:
Top