وعلیکم السلام
دنیا میں کسی شیئ کے وجود کے لیے دو اشیاء اہم ہیں:
ایک فعل
دوسرا اس کی تخلیق
اہل سنت والجماعت کے نزدیک انسان فاعل ہونے کے اعتبار سے بااختیار ہے جبکہ خالق ہونے کے اعتبار سے اس کے پاس کچھ بھی اختیار نہیں ہے مثلا اس شخص اگر فعل زنا کا ارتکاب کرتا ہے تو اس فعل کا وجود اس دنیا میں ایک فاعل اور ایک خالق کا محتاج ہے۔ انسان اس فعل بد کا فاعل بنتا ہے اور فاعل بننے میں انسان مختار ہے او اسی اختیار پر ہی تو اس کی پرسش ہے جبکہ اس فعل بد کا خالق اللہ کی ذات ہوتی ہے اور جب تک اللہ تعالی اس فعل بد کی تخلیق نہ کریں تو اس فعل کا وجود دنیا میں نہیں ہوتا ہے۔
وَاللَّـهُ خَلَقَكُمْ وَمَا تَعْمَلُونَ ﴿٩٦﴾
اور اللہ نے تمہیں بھی پیدا کیا ہے اور تمہارے اعمال کو بھی۔
اس بات کو ایک مثال سے بھی سمجھیں کہ ذبح اسماعیل علیہ السلام کا وجود دنیا میں دو چیزوں کا محتاج تھا۔ ایک فاعل او ایک خالق کا۔ فاعل حضرت ابراہیم علیہ السلام بن گئے جبکہ اللہ تعالی ان کے اس فعل کا خالق نہیں بنا یعنی ذبح اسماعیل علیہ السلام لہذا اس فعل کو دنیا میں وجود نہ ملا۔ پس اگر انسان فاعل بن جائے اور اللہ تعالی اس کے فعل کی تخلیق نہ کرے تو انسان کا فعل دنیا میں وجود میں نہیں آتا ہے لہذا اپنے فعل کے خلق کے پہلو سے انسان کے پاس ذرا برابر بھی اختیار نہیں ہے اور مجبور محض ہے جبکہ اپنے افعال کے فاعل ہونے کے پہلو سے انسان کے پاس اختیار موجود ہے۔ واللہ اعلم بالصواب