• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مسئلہ رویت ہلال سے متعلق محدث العصر شیخ ناصر الدین البانی رحمہ اللہ کا فیصلہ

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,425
پوائنٹ
521
السلام علیکم ورحمۃ اللہ
مسئلہ رویت ہلال پر احباب نے خوب بحث کی ہے ذرا اس باب میں محدث العصر شیخ ناصر الدین البانی رحمہ اللہ کی رائے بھی جان لیتے ہیں:


ترجمہ:

سوال: کیا افریقہ میں رہنے والے ایشیاء میں رہنے والوں کی رویت کے مطابق روزہ رکھ سکتے ہیں، یا پھر اسی طرح (ایک علاقے کے لوگ دوسرے علاقے کی رویت پر اعتبار کر سکتے ہیں)؟

جواب: اس مسئلہ میں اصل نبی علیہ السلام کا قول:" صوموا لرؤيته وأفطروا لرؤيته" "اْس (چاند) کی رویت پر تم لوگ روزہ رکھو اور اس کی رویت پر إفطار کرو (عید الفطر کرو)"

یہ خطاب پوری امت سے خطاب ہے ، جو مشرق میں رہتے ہیں وہ بھی اور جو مغرب میں رہتے ہیں وہ بھی مخاطب ہیں لیکن اس امر کی تطبیق اْس دن (نبی علیہ السلام کے وقت میں) اس قدر آسان نہ تھی جس قدر آج ہے۔

نبی علیہ السلام نے مختلف علاقوں کا ذکر نہیں کیا (یعنی یہ نہیں فرمایا کہ تمام علاقوں والے اپنی اپنی رویت کے مطابق روزہ اور عید کریں) جس طرح کہ بعض علماء اس موقف کی طرف گیے ہیں کہ ہر علاقے کی اس کی اپنی رویت ہے، پس یہ بات انہوں نے اپنے اجتہاد سے کہی تھی کیونکہ وہ اپنے دور میں نبی علیہ السلام کے اس فیصلے کو عام طور پر (تمام عالم اسلام میں) نافذ کرنے سے عاجز تھے۔

جہاں تک ہمارے دور کا تعلق ہے تو آج پوری دنیا میں ایک ہی وقت میں رویت ہلال کا اثبات ممکن ہے (یعنی رویت کی اطلاع دنیا بھر میں فورا فورا پہنچانا ممکن ہے) پس دنیا کے جس کسی علاقے میں بھی رویت ثابت ہو جائے تو جس کسی کو رویت کی اطلاع مل جائے اس پر واجب ہے کہ وہ روزہ رکھے۔ یہ (توحید رویت) ان کیلئے تفریق اور افراط وتفریط میں مبتلا ہونے سے زیادہ بہتر ہے۔

البتہ آج کے دور میں یہ معاملہ اسلامی حکومتوں سے متعلق ہے، پس ان پر لازم ہے کہ وہ توحید صوم کو عمل میں لائیں یہاں تک کہ اہل اسلام اس افراط و تفریط سے نجات حاصل کرلیں۔

فتاوى المدينة: 127
السلام علیکم

جہاں تک ہمارے دور کا تعلق ہے تو آج پوری دنیا میں ایک ہی وقت میں رویت ہلال کا اثبات ممکن ہے (یعنی رویت کی اطلاع دنیا بھر میں فوراً پہنچانا ممکن ہے)
کچھ حصہ دھاگہ سے کوٹ کیا گیا ھے اس پر اگر صاحب تھریڈ یا کوئی بھی صاحب علم جسے اس پر اتفاق ہو تو اسے ثابت بھی کر کے دکھائے کہ یہ کیسے ممکن ھے، آسانی کے لئے ایک نقشہ اٹیچ کر رہا ہوں تاکہ سمجھانے میں آسانی ہو۔ وہی حصہ لے جو ثابت کرنے پر کوشش کر سکتا ھے اس کے علاوہ فضول کی بحث سے اجتناب برتیں۔


والسلام
 

محمد وقاص گل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 23، 2013
پیغامات
1,033
ری ایکشن اسکور
1,711
پوائنٹ
310
اس مسئلے کی بہترین وضاحت فضیلۃ الشیخ کیلانی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب اسلام کا نظام فلکیات میں کی ہے جسکو انتظامیہ نے اس تھریڈ سے الگ کر دیا۔۔
اسکو یہاں منسلک کیا جائے۔۔۔
شاکر
 

محمد وقاص گل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 23، 2013
پیغامات
1,033
ری ایکشن اسکور
1,711
پوائنٹ
310
جزاک اللہ خیر شاکر بھائی۔
پر میرا ارادہ خاص وہی پیج کا پوسٹ کرنا تھا جو میں نے کئے ہیں دوسرے تھریڈ میں۔۔
لیکن سمجھنے والے کیلئے یہ بھی کافی ہے اس کتب کے صفحہ 65 سے مطالعہ کریں۔۔
 

محمد وقاص گل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 23، 2013
پیغامات
1,033
ری ایکشن اسکور
1,711
پوائنٹ
310

جزاک اللہ خیر ۔۔
لیکن یہ آپ کو وحدت رٕوٴیت اور اختلاف مطالع والے تھریڈ میں پوسٹ کرنا تھا یہاں امام البانی کے موقف پر ہی رہا جاتا تو بہتر تھا اسی وجہ سے انتظامیہ نے اس کو الگ کیا۔۔
 
شمولیت
جولائی 06، 2011
پیغامات
126
ری ایکشن اسکور
462
پوائنٹ
81
شمولیت
جولائی 06، 2011
پیغامات
126
ری ایکشن اسکور
462
پوائنٹ
81
شمولیت
جولائی 06، 2011
پیغامات
126
ری ایکشن اسکور
462
پوائنٹ
81
چونکہ میں نے اس کتاب کا دوبارہ سے مطالعہ کرنا شروع کیا ہے اسلئے دوران مطالعہ جو بھی اشکالات پیش آئیں گے وہ لکھوں گا۔۔۔

حضرت شیخ عبد الرحمن کیلانی رحمہ اللہ کتاب کے صفحہ نمبر ۷۵ پر فرماتے ہیں:

شیخ رحمہ اللہ حدیث کریب میں مذکور لفظ "شام" سے مراد "شہر دمشق" لی ہے اور پھر دمشق اور مدینہ النبی یا دمشق اور مکہ مکرمہ میں مطلع کا اختلاف اور اس کی حدود وغیرہ ذکر کی ہیں۔​
جبکہ یہ بات معلوم ہے کہ حدیث کریب میں "الشام" کا لفظ آیا ہے اور یہ بھی معلوم ہونا چاہیئے کہ اسلامی سلطنت میں شام کی سرحدیں موجودہ شام (سوریا) (اللہ اس کی حفاظت فرمائے اور اسلام کو وہاں فتح عطاء فرمائے) سے کئی گناہ وسیع تھیں۔ اسلامی سلطنت کے شام میں موجودہ دور کے کئی ممالک جیسے لبنان، اردن، فلسطین اور اسرائیل (اللہ یہود اور ان ساتھیوں کو غارت کرے اور اسلام کو وہاں فتح عطاء فرمائے) وغیرہ بھی شامل تھے۔ تفصیل کیلئے یہاں دیکھئے:​
الشام أو سوريا التاريخية، أو سورية الطبيعية (من اليونانية: Σύρια؛ واللاتينية: Syria؛ نقحرة: سيريا)، هو اسم تاريخي لجزء من المشرق العربي يمتد على الساحل الشرقي للبحر الأبيض المتوسط إلى حدود بلاد الرافدين. تشكّل هذه المنطقة اليوم بالمفهوم الحديث كل من: سورية ولبنان والأردن وفلسطين التاريخية (الضفة الغربية وقطاع غزة والأراضي التي اُنشئت عليها إسرائيل في حرب 1948)، بالإضافة إلى مناطق حدودية مجاورة،[1] تشمل المناطق السورية التي ضُمت إلى تركيا أبّان الانتداب الفرنسي على سورية، وقسمًا من سيناء والموصل، وعند البعض فإن المنطقة تتسع لتشمل قبرص وكامل سيناء والعراق.[2]
معلوم ہوا کہ سلطنت اسلامیہ میں شام سے مراد "بلاد الشام" یا "ملک شام" ہے جس کی سرحدیں اردن، لبنان، اسرائیل اور عراق کے شہر موصل تک پھیلی ہوئی تھیں۔ سوال یہ ہے کہ شیخ رحمہ اللہ نے پھر شام سے مراد دمشق کیوں لیا؟ اگر ایسا ہی تھا تو کریب نے شام کی بجائے دمشق کا لفظ کیوں نہیں بولا، پھر یہ کہ اگر شام سے مراد دمشق ہے تو پھر "اہل شام" سے مراد بھی "اہل دمشق" ہی ہونا چاہئے۔۔۔​
یہ اشکال میں نے بلا وجہ نہیں اٹھایا اور نہ ہی یہ کوئی معمولی سی بات ہے بلکہ شام سے صرف دمشق مراد لینے سے کتنا بڑا فرق پڑ جاتا ہے اس کی وضاحت میں اگلی پوسٹ میں کرونگا ان شاء اللہ۔۔۔​
 

محمد وقاص گل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 23، 2013
پیغامات
1,033
ری ایکشن اسکور
1,711
پوائنٹ
310
چونکہ میں نے اس کتاب کا دوبارہ سے مطالعہ کرنا شروع کیا ہے اسلئے دوران مطالعہ جو بھی اشکالات پیش آئیں گے وہ لکھوں گا۔۔۔

حضرت شیخ عبد الرحمن کیلانی رحمہ اللہ کتاب کے صفحہ نمبر ۷۵ پر فرماتے ہیں:

شیخ رحمہ اللہ حدیث کریب میں مذکور لفظ "شام" سے مراد "شہر دمشق" لی ہے اور پھر دمشق اور مدینہ النبی یا دمشق اور مکہ مکرمہ میں مطلع کا اختلاف اور اس کی حدود وغیرہ ذکر کی ہیں۔​
جبکہ یہ بات معلوم ہے کہ حدیث کریب میں "الشام" کا لفظ آیا ہے اور یہ بھی معلوم ہونا چاہیئے کہ اسلامی سلطنت میں شام کی سرحدیں موجودہ شام (سوریا) (اللہ اس کی حفاظت فرمائے اور اسلام کو وہاں فتح عطاء فرمائے) سے کئی گناہ وسیع تھیں۔ اسلامی سلطنت کے شام میں موجودہ دور کے کئی ممالک جیسے لبنان، اردن، فلسطین اور اسرائیل (اللہ یہود اور ان ساتھیوں کو غارت کرے اور اسلام کو وہاں فتح عطاء فرمائے) وغیرہ بھی شامل تھے۔ تفصیل کیلئے یہاں دیکھئے:​
الشام أو سوريا التاريخية، أو سورية الطبيعية (من اليونانية: Σύρια؛ واللاتينية: Syria؛ نقحرة: سيريا)، هو اسم تاريخي لجزء من المشرق العربي يمتد على الساحل الشرقي للبحر الأبيض المتوسط إلى حدود بلاد الرافدين. تشكّل هذه المنطقة اليوم بالمفهوم الحديث كل من: سورية ولبنان والأردن وفلسطين التاريخية (الضفة الغربية وقطاع غزة والأراضي التي اُنشئت عليها إسرائيل في حرب 1948)، بالإضافة إلى مناطق حدودية مجاورة،[1] تشمل المناطق السورية التي ضُمت إلى تركيا أبّان الانتداب الفرنسي على سورية، وقسمًا من سيناء والموصل، وعند البعض فإن المنطقة تتسع لتشمل قبرص وكامل سيناء والعراق.[2]

معلوم ہوا کہ سلطنت اسلامیہ میں شام سے مراد "بلاد الشام" یا "ملک شام" ہے جس کی سرحدیں اردن، لبنان، اسرائیل اور عراق کے شہر موصل تک پھیلی ہوئی تھیں۔ سوال یہ ہے کہ شیخ رحمہ اللہ نے پھر شام سے مراد دمشق کیوں لیا؟ اگر ایسا ہی تھا تو کریب نے شام کی بجائے دمشق کا لفظ کیوں نہیں بولا، پھر یہ کہ اگر شام سے مراد دمشق ہے تو پھر "اہل شام" سے مراد بھی "اہل دمشق" ہی ہونا چاہئے۔۔۔​
یہ اشکال میں نے بلا وجہ نہیں اٹھایا اور نہ ہی یہ کوئی معمولی سی بات ہے بلکہ شام سے صرف دمشق مراد لینے سے کتنا بڑا فرق پڑ جاتا ہے اس کی وضاحت میں اگلی پوسٹ میں کرونگا ان شاء اللہ۔۔۔​

بھائی مجھے تو آپ کے اشکال کی سمجھ کچھ خاص نہیں آئی۔
البتہ جو سمجھ آیا وہ یہ کہ آپ کی نظر میں شام اور دمشق دو الگ ملک ہیں۔
اگر ایسا ہے تو بھائی یہ آپ کی غلظ فہمی ہے۔۔
یہ دیکھیں۔۔
جمہوریہ شام کا دارالحکومت اور دنیا کے قدیم ترین شہروں میں سے ایک۔ اسے الشام بھی کہا جاتا ہے۔ سطح سمندر سے 2260 فٹ کی بلندی پر آباد ہے۔، اس کے چاروں طرف باغات اور مرغزار ہیں۔ جن کے گرد پہاڑیاں پھیلی ہوئی ہیں۔ زمانہ قدیم میں یہ شہر علی الترتیب آرمینی ، آشوری ، اور اہل فارس کے زیر تسلط رہا۔ 333 ق م میں اسے سکندر اعظم نے تسخیر کیا اور 62 ق م میں یہ رومی سلطنت کا صوبائی مرکز بنا۔

635ء خلافت عمر فاروق رضی اللہ عنہ میں اس شہر پر اسلامی پرچم لہرایا۔ 661ء تا 741ء خلافت امویہ کا صدر مقام رہا۔ عباسیوں نے برسراقتدار آنے کے بعد بغداد کو دارالخلافہ بنایا لیکن دمشق کی اہمیت پھر بھی باقی رہی۔ صلیبی جنگوں کے دوران یہ شہر کافی عرصہ میدان کارزار بنا رہا۔ 1260ء میں ہلاکو خان نے اس کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔ ایک سو سال بعد اسے امیر تیمور نے فتح کیا۔ 1516ء میں عثمانی ترک اس پر قابض ہوئے ۔ جب شام فرانس کی تولیت میں دیا گیا تو شہر حلب (Aleppo) کے ساتھ دمشق بھی ملک کا دارالحکومت رہا۔ 1946ء میں آزاد شام کا دارالحکومت بنا۔
متجر للشرقيات في دمشق القديمة
http://ur.wikipedia.org/wiki/دمشق
 
Top