ideal_man
رکن
- شمولیت
- اپریل 29، 2013
- پیغامات
- 258
- ری ایکشن اسکور
- 498
- پوائنٹ
- 79
سوال :
شریعت نے طلاق کا اختیار مرد کو دیا ہے اور اس کا نتیجہ خود شریعت نے طے کردیا ہے،
ایک شخص ایک مجلس میں اپنی بیوی کو تین طلاقیں دیتا ہے، اس صورت میں اہل علم کی دوجماعتوں میں اختلاف چلا آرہا ہے۔
دونوں جانب اگر دلائل قریب قریب مساوی ہوں تو ایسی صورت میں شریعت کے طے شدہ نتیجہ پر خاوند اور بیوی کو اختیار دے دیا جائے کہ وہ خود طے کرلیں کہ اگر خاوند ظالم ہے اور عورت جدائی چاہتی ہے تو جمہور کے مذہب پر عمل کیا جائے ۔ ( یعنی تین طلاقوں کو تین ہی نافذ العمل تصور کرتے ہوئے جدائی اختیار کرلیں)
بصورت دیگر مصالحت ہر صورت بہتر ہے ( یعنی دوسری جماعت کے دلائل کی روشنی میں ) اسے ایک طلاق رجعی سمجھ کر رجوع کرلیا جائے۔
قرآن و سنت کی روشنی میں ایسی صورت میں، مصلحت کی خاطر ، خاوند اور بیوی کو شریعت کا اپنا اختیار ودیعت کرنا جائز ہوگا؟؟؟
اہل علم حضرات میرے سوال پر متوجہ فرمائیں ۔
شکریہ
شریعت نے طلاق کا اختیار مرد کو دیا ہے اور اس کا نتیجہ خود شریعت نے طے کردیا ہے،
ایک شخص ایک مجلس میں اپنی بیوی کو تین طلاقیں دیتا ہے، اس صورت میں اہل علم کی دوجماعتوں میں اختلاف چلا آرہا ہے۔
دونوں جانب اگر دلائل قریب قریب مساوی ہوں تو ایسی صورت میں شریعت کے طے شدہ نتیجہ پر خاوند اور بیوی کو اختیار دے دیا جائے کہ وہ خود طے کرلیں کہ اگر خاوند ظالم ہے اور عورت جدائی چاہتی ہے تو جمہور کے مذہب پر عمل کیا جائے ۔ ( یعنی تین طلاقوں کو تین ہی نافذ العمل تصور کرتے ہوئے جدائی اختیار کرلیں)
بصورت دیگر مصالحت ہر صورت بہتر ہے ( یعنی دوسری جماعت کے دلائل کی روشنی میں ) اسے ایک طلاق رجعی سمجھ کر رجوع کرلیا جائے۔
قرآن و سنت کی روشنی میں ایسی صورت میں، مصلحت کی خاطر ، خاوند اور بیوی کو شریعت کا اپنا اختیار ودیعت کرنا جائز ہوگا؟؟؟
اہل علم حضرات میرے سوال پر متوجہ فرمائیں ۔
شکریہ