• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مسائل عقیدہ پر قراء ات کے اثرات

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
تعریفیں

اِختیاری افعال:
اِختیاری افعال سے مراد بندوں کے وہ افعال ہیں جن پر بندوں کوقدرت اوراختیار حاصل ہو اور ان کاارادہ ان میں شامل ہو جیسے کھانا، پینا، نمازپڑھنا وغیرہ۔
اِضطراری افعال:
اس سے مراد وہ افعال ہیں جو انسان کی قدرت،ارادہ اور اختیار سے باہر ہیں،مثلاً دل کا حرکت کرنا،بیماری کے وقت انسان کاکپکپانا وغیرہ۔
اب ہم چند ایک ایسی مثالیں بیان کریں گے جن سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ فعل حقیقی طور پر تو اللہ سے صادر ہوا ہے، لیکن ان کی نسبت بندوں کی طرف مجازاً کردی گئی ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
پہلی مثال:
فرمان باری تعالیٰ ہے:’’وَاِذْ وٰعَدْنَا مُوْسیٰ اَرْبَعِیْنَ لَیْلَۃً‘‘ (البقرۃ:۵۱)
’’اور یاد کرو، جب ہم نے موسیٰ کو چالیس شبانہ روز کی قرار دادا پربلایا۔‘‘
’’وَاعَدْنَا مُوْسٰی ثَلٰثِیْنَ لَیْلَۃً وَاَتْمَمْنٰھَا بِعَشْرٍ‘‘ (الاعراف:۱۴۲)
’’اور ہم نے موسیٰ کو تیس شب و روز کے لیے (کوہ سینا پر)طلب کیا۔‘‘
’’وَوَاعَدْنَاکُمْ جَانِبَ الطُّوْرِ الأَیْمَنِ‘‘ (طہٰ :۸۰)
’’اور ہم نے طور کے دائیں جانب تمہاری حاضری کے لیے وقت مقرر کیا۔‘‘
ان میں سے لفظ ’وعدنا‘ اور ’وعدناکم‘ میں دو قراء تیں ہیں۔
(١) ’’وعدنا‘‘ واؤ کے بعد الف کے بغیر، یہ ابوعمرو، ابوجعفر اور یعقوب کی قراء ۃ ہے۔
(٢) ’’واعدنا‘‘ الف کے ساتھ، یہ نافع، ابن کثیر، ابن عامر شامی، عاصم، حمزہ، کسائی، خلف العاشر کی قراء ۃ ہے۔ (النشر، ج۲ ص۲۱۲۔اتحاف فضلا البشر ج۱ ص۳۹۱)
توجیہ : ’’وٰعدنا‘‘ کی دو وجوہات ہیں:
اوّل: یہ باب مفاعلہ سے ہے جس میں دونوں طرف اللہ تعالیٰ اور موسیٰ علیہ السلام کے درمیان مواعدت ہوتی ہے یعنی اللہ نے موسیٰ علیہ السلام سے وعدہ لیا تھا انہوں نے اس وعدہ کو قبول کیا تو گویا یہ اللہ اور موسیٰ علیہ السلام کے درمیان عہد ہوا ہے۔
وضاحت: یعنی اللہ نے موسیٰ علیہ السلام سے وعدہ لیا کہ کوہ طور پرآئیں تاکہ وہ ان سے کلام کرے اور موسیٰ نے وعدہ کیا کہ وہ اس حکم کی تعمیل کرتے ہوئے ضرور آئے گا لہٰذا دونوں کے درمیان مواعدت ہوئی ہے۔ (حجۃ القراء ات لابن زنجلہ:۹۶)
علامہ ابن جریر طبری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ
’’بے شک اللہ نے موسیٰ سے طور پر آنے اور ملاقات کا وعدہ لیا تو موسیٰ نے اسے برضا و رغبت قبول کیا کیونکہ موسیٰ علیہ السلام اللہ کے حکم سے راضی تھے اور اس سے بہت زیادہ محبت کرنے والے تھے تو گویا اللہ نے موسیٰ سے وعدہ لیا اور موسیٰ نے اسے قبول کیا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ عہدوپیمان دونوں طرف سے ہوا ہے۔‘‘ (جامع البیان :۱ ؍۲۲۱)
ثانی: یہ کہ وعدہ صرف اللہ کی ہی طرف سے ہے اور کلام عرب میں باب مفاعلہ ایک کے لیے بھی استعمال ہوا ہے جیسے خارفت الثوب (میں نے کپڑا پھاڑ دیا) اور عاقبت اللصّ (میں نے چور کا تعاقب کیا) اور داویت المریض(میں نے مریض کا علاج کیا) ان مثالوں میں باب مفاعلہ ہے، لیکن فعل ایک ہی سے صادر ہورہاہے۔ لہٰذا اس قراء ۃ میں بھی فعل ایک ہی طرف سے صادر ہورہاہے اور باب مفاعلہ صرف مبالغہ کے لیے استعمال کیا گیاہے۔ (شرح الھدایہ :۱؍۱۶۵، الموضح :۱ ؍۲۷۴، الکشف:۱؍۲۴۰)
لیکن جو بات زیادہ راجح معلوم ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ اگرچہ انبیاء علیہم السلام بشر ہیں، لیکن عام لوگوں کی طرح نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے وہ برگزیدہ اور چنیدہ ہوتے ہیں اور موسیٰ علیہ السلام تو اس کے اعلیٰ مقام پر فائز تھے جیسا کہ آپ کلیم اللہ بھی ہیں۔ لہٰذا یوں کہا جاسکتا ہے کہ یہاں اللہ اور موسیٰ دونوں کی طرف سے وعدہ کیا گیا ہے یعنی اللہ نے موسیٰ سے عبادت کا حق ادا کرنے کے لیے کہا اور موسیٰ نے اس کو پورا کرنے کا وعدہ کیا۔
دوسری قراء ۃ ’وعدنا‘بغیر الف کے اس کا مطلب یہ ہے کہ وعدہ کا صدور صرف اللہ تعالیٰ سے ہوا ہے موسیٰ علیہ السلام سے نہیں جیسا کہ لفظ کے ظاہر سے بھی اس کی طرف اشارہ ہو رہاہے۔ (مذکورہ مصادر)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
اِعجازی وجوہ اور ان کا عقیدہ پر اثر

یہاں وہ بات جس کا تعلق عقیدہ سے ہے،یہ ہے کہ بعض افعال کی نسبت بندوں کی طرف مجازی طور پر کرنا جائز ہے اگرچہ وہ حقیقت میں اللہ ہی سے صادر ہوتے ہیں اور اس بات پر علمائے حق کا اتفاق ہے کہ بے شک اللہ ہی بندوں کے افعال کا خالق ہے، لیکن بعض افعال کی نسبت مجازی طورپر انسانوں کی طرف کرنا جائز ہے اور اس کی دلیل صرف مذکورہ آیات ہی نہیں بلکہ اور بھی آیات ہیں مثلاً ’’وَاﷲُ خَلَقَکُمْ وَمَا تَعْمَلُوْن‘‘ (الصافات:۹۶)’’اللہ ہی نے تم کو پیدا کیا اور ان چیزوں کو بھی جنہیں تم بناتے ہو۔‘‘
اس آیت میں حقیقت اور مجاز دونوں جمع ہوگئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے عمل کو لوگوں کی طرف منسوب کیا ہے، لیکن ان کا اور ان کے اعمال کا پیدا کرنے والا اللہ ہی ہے۔ گویا اس کا معنی یہ ہوا کہ اللہ تمہارااور تمہارے اعمال کا بھی خالق ہے۔ یہی مذہب اہل السنت والجماعت کاہے کہ بندوں کے تمام افعال کا خالق اللہ تعالیٰ ہے۔ اس سے فرقہ قدریہ اور جبریہ کا ردّ ہوتاہے۔ (الجامع لاحکام القرآن ص۱۵،۹۶، القراء ات المتواترۃ وافرھا الرسم القرآنی والاحکام الشرعیۃ للدکتور محمد الحبشی ص۱۴۲) اور صاحب الجوھرۃ فرماتے ہیں۔
مخالق لعبدہ وما عمل
موفق لمن اراد أن یصل
و خاذل لمن ارادہ بعدہ
ومنجر لمن اراد وعدہ​
’’ پس اللہ تعالیٰ بندے اور اس کے اعمال کو پیدا کرنے والا ہے، کامیاب ہوگیا وہ شخص جو اس سے ملاقات کا ارادہ رکھتا ہے اور رسوا ہوگیا وہ شخص جو اس سے دور ہوگیا اور اللہ تعالیٰ اپنے وعدہ کو پورا کرنے والاہے۔‘‘
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
دوسری مثال :
فرمان الٰہی ہے: ’’قَالَ اِنَّمَا اَنَا رَسُوْلُ رَبِّکَ لِأھْبَ لَکِ غُلَاماً زَکِیًّا‘‘ (مریم :۱۹)
’’(فرشتے نے) کہا میں تو تیرے رب کا فرستادہ ہوں اور اس لیے بھیجا گیا ہوں کہ تجھے ایک پاکیزہ لڑکا دوں۔‘‘
یہاں لفظ ’لأھب‘میں دو قراء تیں ہیں۔
(١) لیھب (بالیاء) یہ ورش، ابوعمرو، یعقوب اور قالون کی خلف کے ساتھ قراء ۃ ہے۔
(٢) لأھب(بالألف)ابن کثیر مکی،ابن عامر شامی، عاصم، حمزہ، کسائی،ابوجعفر، خلف اور قالون کی دوسری قراء ۃ ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
توجیہ القراء ات اور مسائل عقیدہ پر ان کااثر

یہاں لفظ ’لأھب‘ میں ہبہ کی نسبت مجازی طور پر سبب یعنی حضرت جبریل کی طرف کی گئی ہے اور سبب کی طرف نسبت قرآن مجید میں بہت سے مقامات پر آتی ہے ان میں سے بتوں کے بارے میں فرمایا۔ ’’رَبِّ اِنَّھُنَّ اَضْلَلْنَ کَثِیْرًا مِّنَ النَّاسِ‘‘ (ابراہیم :۳۶) ’’پروردگار، ان بتوں نے بہتوں کو گمراہی میں ڈالا ہے۔ ‘‘
اس آیت میں بھی گمراہ کرنے کی نسبت بتوں کی طرف ہورہی ہے۔
اور ’لیھب‘میں ہبہ کی نسبت حقیقی ہے جو کہ اللہ کی طرف ہورہی ہے، کیونکہ حقیقی عطاء کرنے والا اللہ تعالیٰ ہی ہے۔ اور ہمزہ والی قراء ۃ سے پتہ چلتا ہے کہ افعال کی نسبت مجازی طور پرغیر اللہ کی طرف کرنا جائز ہے حالانکہ تمام افعال کو پیدا کرنے والا اللہ تعالیٰ ہی ہے اس پر تمام اہل سنت والجماعت کااتفاق ہے۔ (الکشف مکی :۲؍۸۶،۸۷ بتصرف، روح المعانی: ۱۶؍ ۷۷)
اس بارے میں چند دیگر مثالیں بھی ملاحظہ کی جاسکتی ہیں۔
’’وَالَّذِیْنَ اھْتَدَوْا زَادَھُمْ ھُدًی وَّاٰتٰھُمْ تَقْوَاھُمْ‘‘ (محمد:۱۷)
’’اور رہے وہ لوگ جنہوں نے ہدایت پائی ہے، اللہ ان کو اور زیادہ ہدایت دیتا ہے اور انہیں ان کے حصے کا تقویٰ عطا فرماتاہے۔‘‘
’’فَلَمَّا زَاغُوْا اَزَا غَ اﷲُ قُلُوْبَھُمْ‘‘ (الصف:۵)
’’پھر جب انہوں نے ٹیڑھ اختیار کی تو اللہ نے بھی ان کے دل ٹیڑھے کردیئے۔‘‘
ان مذکورہ آیات میں ہدایت، گمراہی، ٹیڑھاپن کی مجازی نسبت غیر اللہ کی طرف ہے، حالانکہ حقیقت میں ان تمام چیزوں کا خالق اللہ تعالیٰ ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
تیسری مثال :
قولہ تعالیٰ’’وَکَذَلِکَ زُیِّنَ لِفِرْعَوْنَ سُوْئُ عَمَلِہٖ وَصُدَّ عَنِ السَّبِیْلِ وَمَا کَیْدُ فِرْعَوْنَ إِلَّا فِیْ تَبَابٍ‘‘
’’اوراس طرح فرعون کے لیے اس کی بدعملی خوشنما بنا دی گئی اور وہ راہ راست سے روک دیا گیا۔ فرعون کی ساری چالبازی (اس کی اپنی) تباہی کے راستہ میں ہی صرف ہوئی۔‘‘(المؤمن:۳۷)
لفظ ’صد‘میں دو قراء تیں ہیں۔
اوّل: ’صد‘ بضم الصاد فعل مجہول۔یہ قراء ۃ عاصم، حمزہ، کسائی، خلف العاشر اور یعقوب کی ہے۔
ثانی:’صد‘ بفتح الصاد فعل معروف۔یہ قراء ۃنافع، ابن کثیر مکی، ابوعمرو بصری، ابن عامر شامی اور ابوجعفر کی ہے۔(النشر:۲؍۲۹۸،اتحاف فضلاء البشر :۲ ؍۱۶۲)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
توجیہ اور ان کا مسائل عقیدہ پر اثر

وصُدَّفعل مجہول،اس کا معنی یہ ہے کہ فرعون کے لیے شرک اور تکذیب جیسی بری چیزیں مزین کردی گئیں اور اس نے سرکشی میں حد سے تجاوز کیااور ہدایت اور بھلائی کے راستے سے روکا، کیونکہ اس نے ہدایت کے مقابلہ میں گمراہی کو پسند کیاتھا۔ گویا یہ آیت فرعون کے فسق و فجور اور گمراہی کی خبر دے رہی ہے اور یہ سارا کام اللہ کے ارادہ، امر اور قدرت کے تحت ہوا ہے یعنی اللہ نے اس کو ہدایت کے راستے سے روک دیا جیسا کہ فرمایا:
’’وَطُبِعَ عَلٰی قُلُوْبِھِمْ فَھُمْ لَا یَفْقَھُوْنَ ‘‘ (التوبۃ:۸۷)
’’اور ان کے دلوں پر ٹھپہ لگا دیا گیا، اس لیے اب ان کی سمجھ میں اب کچھ نہیں آتا۔‘‘
اور اللہ نے یہ گمراہی فرعون پراس لیے مسلط کی تھی کیونکہ اس کے کام ہی اس چیز کا تقاضا کرتے تھے کہ اس پر گمراہی مسلط کردی جائے جس کی دلیل دوسری قراء ۃ زین (فعل معروف) والی قراء ۃ بھی ہے اور اسی طرح ’’فَأطَّلِعَ إِلٰی إلٰہ مُوْسیٰ‘‘ ’’اور موسیٰ کے خدا کو جھانک کے دیکھوں‘‘ سے پتہ چلتا ہے کہ فرعون گمراہی کی طرف بہت زیادہ مائل ہوگیا تھا اوراسے پسند کرنے لگ گیاتھا چنانچہ اللہ نے اس کے لیے گمراہی کو ہی مزین کردیا۔ (الکشاف للزمخشری:۴؍ ۱۶۸،حجۃ ابن زنجلۃ: ص۳۷۴)
’وصُدَّ‘کی قراء ۃ کا معنی یہ ہے کہ فرعون اپنے باطل نظریات اور شبہات کی وجہ سے سیدھی راہ اختیار کرنے سے رُک گیا۔ اس معنی کی تائید بعد والے جملے ’’وَمَا کَیْدُ فِرْعَوْنَ اِلَّا فِیْ تَبَابٍ‘‘سے بھی ہوتی ہے یعنی وہ جانتا بھی تھاکہ میری تدبیر غلط ہے پھربھی وہ اپنے نظریات پر پر ڈٹا رہا اور حق کا انکار کرتا رہا۔ (فتح القدیر :۴؍۴۹۲، روح المعانی:۲۴؍۷۰)
اس مذکورہ بحث سے ہمیں پتہ چلتا ہے کہ افعال اختیار یہ کی نسبت مجازی طور پربندہ کی طرف کرنا جائز ہے، جیساکہ’وصد‘ سے معلوم ہوتا ہے حالانکہ ان تمام افعال کا حقیقی خالق اللہ تعالیٰ ہی ہے اور اسی پر تمام علمائے حق کا اتفاق ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
نبوت

بلا شبہ تمام انبیاء و رُسل اللہ تعالیٰ کے پسندیدہ اور چنیدہ انسان ہیں وہ اللہ کے ہاں بڑے معزز ہیں اور اللہ کے پیغام کو لوگوں تک پہنچانے کے سب سے زیادہ اہل بھی وہ انسانیت کی رہنمائی کے لیے ایک آئیڈیل کی حیثیت رکھتے ہیں۔لہٰذا ضروری ہے کہ انبیاء کی حقانیت و صداقت پر ایمان لایا جائے اور انہیں کسی قسم کے جھوٹ یا خیانت سے نہ متصف کیاجائے اور نہ ہی یہ خیال کیا جائے کہ انہوں نے اللہ کا پیغام پہنچانے میں بخل سے کام لیا ہے۔ قراء ات قرآنیہ جہاں دوسرے بہت سے مسائل کی وضاحت کرتی ہیں وہاں وہ اس بات کی بھی غمازی کرتی ہے کہ نبی کریمﷺ بخیل اور خائن نعوذ باللہ قطعا نہ تھے ۔ قرآن مجید میں ایسی بہت سی مثالیں موجود ہیں کہ ایک ہی لفظ میں ایک سے زائد قراء تیں اپنے اندر مختلف معانی اور جامعیت لیے ہوئے ہیں اور ایک ہی لفظ میں دو قراء تیں نبی کریمﷺ کا دو مختلف طریقوں سے دفاع بھی کرتی ہیں۔ مندرجہ ذیل مثال سے اس بات کا بخوبی اندازہ ہوجائے گا کہ قراء ات اپنے اندر کتنی جامعیت سمیٹے ہوئے ہیں۔
قولہ:’’وَمَاھُوَ عَلَی الْغَیْبِ بِضَنِیْنٍ‘‘ (التکویر:۲۴)
’’اور وہ(غیب کے اس علم کو لوگوں تک پہنچانے) کے معاملہ میں بخیل نہیں ہیں۔‘‘
لفظ ’بضنین‘میں دو قراء تیں ہیں:
اوّل : ’’بضنین‘‘ ضاد سے۔ یہ نافع، ابن عامر، عاصم،حمزہ، ابوجعفر، خلف العاشر اور روح کی قراء ۃ ہے۔
ثانی: ’’بظنین ‘‘ ظا سے۔ یہ ابن کثیر مکی، ابوعمرو بصری، کسائی اور رویس کی قراء ۃ ہے۔ (الاختیار فی القراء ات العشر:۲؍۲۷۱، النشر:۲ ؍۳۹۸،۳۹۹، اتحاف فضلاء البشر: ۲؍۵۹۲)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
توجیہ القراء ات

بے شک جمہور کی قراء ۃ یعنی ’بضنین‘یہ ضن بمعنی بخل ہے، چنانچہ مصباح اللغات میں لکھاہے کہ ضن بالشئ،یضن (باب نصَر ینصُر سے)، ضناً و ضِنَّۃ کسرہ کے ساتھ اور ضَنانۃ فتحہ کے ساتھ بخل کے معنی میں استعمال ہوتاہے اور یہ کلمہ باب ضرب سے بھی استعمال ہوا ہے۔ (المصباح مادہ ، ضنن) اور صاحب مصباح فرماتے ہیں کہ یہ لغوی اعتبار سے باب ’ضرب‘ سے استعمال ہوتا ہے، چنانچہ کہا جاتاہے ضن یضِن ضاد کے کسرہ سے، تو اس کا معنی یہ ہوا کہ نبی کریمﷺ وحی کی تعلیمات کو آگے پھیلانے میں بخیل نہیں ہیں بلکہ فراخدلی سے لوگوں تک اللہ تعالیٰ کا پیغام پہنچاتے ہیں۔ (الکشف:۲ ؍۳۶۴، شرح الھدایۃ:۲ ؍۵۴۹)
اور یہاں ’الغیب‘سے مراد قرآن مجید ہے اور علی بمعنی با حرف جر ہے۔ (التفسیر الکبیر:۳۱؍۲۴۶، الجامع لاحکام القرآن:۱۹؍۲۴۲)
اور الجمل نے کہا ہے کہ علی بمعنی فی ہے۔ (الفتوحات الا لھیۃ :۴ ؍۶۳۴)
اور ’ظا‘ کی قراء ۃ ظن بمعنی تہمت سے ماخوذ ہے۔ تو اس قراء ۃ کا معنی یہ ہوا کہ محمدﷺ پر قرآن کے بارے میں کوئی تہمت نہیں لگائی جاسکی،بلکہ آپﷺ ثقہ ہیں اپنی طرف سے کوئی بات نہیں کرتے اور نہ ہی اللہ کی طرف سے حاصل ہونے والے حرف یا معنی میں کوئی تبدیلی کرتے ہیں حتی کہ آپﷺ کو تو عام حالت میں بھی جھوٹ بولتے نہیں پایاگیا۔ (الجامع لاحکام القرآن :۱۹؍۲۴۲، تفسیر المراغی:۱۰؍۳۴۴)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
اعجازی وجوہ اور ان کا مساعی عقیدہ پر اثر

اگر بنظر غائر سابقہ دونوں قراء توں کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ان میں سے ہرایک قراء ۃ اپنا ایک الگ اور مستقل معنی و مفہوم رکھتی ہے۔ چنانچہ ’بضنین‘ والی قراء ۃ سے پتا چلتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے نبی کریم ﷺ سے بخیلی اور کہانت کی نفی کی ہے، کیونکہ کاہن بخیل ہوتا ہے اور وہ اس وقت تک بات نہیں بتاتا جب تک کہ اُجرت نہ لے لے ۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ اگر نبی کریمﷺنعوذ باللہ کاہن ہوتے تو بخیل ہوتے اور اس طرح تمہیں غیب کی خبریں، جنت کی خوشخبری اور جہنم کی وعید اُجرت لیے بغیر نہ سناتے جبکہ آپ تو بہت بڑی سخی ہیں بلامعاوضہ دین اسلام اور اللہ کے قرآن کی تعلیم دیتے ہیں۔
اور دوسری قراء ۃ ’بظنین‘اس بات کی وضاحت کررہی ہے کہ نبی کریمﷺ پوری تندہی کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا پیغام پہنچاتے ہیں۔آپ صادق اور امین ہیں اور آپﷺ پر کسی خیانت کی تہمت نہیں لگائی جاسکتی ۔ آپﷺ اللہ کی وحی سے کوئی چیز نہیں چھپاتے، نہ ہی اپنی طرف سے اضافہ کرتے ہیں اور نہ ہی اس بارے میں کسی وہم کا شکارہوتے ہیں، بلکہ آپﷺ ہر چیز کو یقین سے لوگوں تک پہنچاتے ہیں۔
 
Top