• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مسافر کا مقیم امام کے پیچھےنماز قصر کرنا

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,101
ری ایکشن اسکور
1,462
پوائنٹ
344
اگر مسافر مقتدی کو امام کے متعلق معلوم نہ ہو کہ وہ مسافر ہے یا مقیم ،اور وہ دو رکعات کے بعد نماز میں شامل ہوا ہو تو کیا وہ دو رکعت پر سلام پھیر دے گا یا کھڑا ہو کر دو رکعت مزید پڑھے گا۔ ؟بعض علما کا موقف ہے کہ مسافر انسان پر دورکعت ادا کرنا ہی فرض ہے،اس لئے عقل کا تقاضا تو یہی ہے کہ مسافر اگر مقیم کی اقتدا میں تیسری یا چوتھی رکعت میں شامل ہوتو اسے دورکعت ادا کرنے پر سلام پھیر دینا چاہیے، علمائے کرام سےگزارش ہے کہ اس مسئلے پر روشنی ڈالیں۔ جزاک اللہ
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,472
پوائنٹ
964
هل يجوز لمن صلى وهو مسافر خلف إمام يتم صلاته هل يجوز له أن يقصر صلاته بمعنى يصلي معه ركعتين فإذا قام الإمام سلم وانصرف ؟.

الحمد لله

"الْمُسَافِر مَتَى ائْتَمَّ بِمُقِيمٍ , لَزِمَهُ الإِتْمَامُ , سَوَاءٌ أَدْرَكَ جَمِيعَ الصَّلاةِ أَوْ رَكْعَةً , أَوْ أَقَلَّ . قَالَ الأَثْرَمُ : سَأَلْتُ أَبَا عَبْدِ اللَّهِ (يعني الإمام أحمد) عَنْ الْمُسَافِرِ , يَدْخُلُ فِي تَشَهُّدِ الْمُقِيمِينَ ؟ قَالَ : يُصَلِّي أَرْبَعًا . وَرُوِيَ ذَلِكَ عَنْ ابْنِ عُمَرَ , وَابْنِ عَبَّاسٍ , وَجَمَاعَةٍ مِنْ التَّابِعِينَ . وَبِهِ قَالَ الشَّافِعِيُّ وأبو حنيفة .

والدليل على ذلك :

1- قول النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم قَالَ : ( إنَّمَا جُعِلَ الإِمَامُ لِيُؤْتَمَّ بِهِ فَلا تَخْتَلِفُوا عَلَيْهِ) رواه البخاري (722) ومسلم (414) . وَمُفَارَقَةُ إمَامِهِ اخْتِلافٌ عَلَيْهِ .

2- مَا رواه أحمد عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ , أَنَّهُ قِيلَ لَهُ : مَا بَالُ الْمُسَافِرِ يُصَلِّي رَكْعَتَيْنِ فِي حَالِ الانْفِرَادِ , وَأَرْبَعًا إذَا ائْتَمَّ بِمُقِيمٍ ؟ فَقَالَ : تِلْكَ السُّنَّةُ . وَقَوْلُهُ : "السُّنَّةُ" يَنْصَرِفُ إلَى سُنَّةِ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم. صححه الألباني في "إرواء الغليل" (571) .

3- وَلِأَنَّهُ فِعْلُ عبد الله بن عمر رضي الله عنهما ، قَالَ نَافِعٌ : كَانَ ابْنُ عُمَرَ إذَا صَلَّى مَعَ الإِمَامِ صَلاهَا أَرْبَعًا , وَإِذَا صَلَّى وَحْدَهُ صَلاهَا رَكْعَتَيْنِ . رَوَاهُ مُسْلِمٌ .

انتهى من "المغني" (3/143) باختصار وتصرف .

و قال الشيخ ابن عثيمين :

"الواجب على المسافر إذا صلّى خلف الإمام المقيم أن يتمّ لعموم قول النبي صلى الله عليه وسلم : ( إنما جعل الإمام ليؤتمّ به ) . ولأن الصحابة رضي الله عنهم كانوا يصلّون خلف أمير المؤمنين عثمان بن عفّان في الحج في منى فكان يصلي بهم أربعاً فيصلّون معه أربعاً .

وكذلك لو دخل والإمام في آخر ركعتين فعليه بعد أن يسلِّم الإمام أن يقوم فيأتي بما بقي فيتمّ أربعاً لعموم قوله صلى الله عليه وسلم : ( ما أدركتم فصلّوا وما فاتكم فأتمّوا ) رواه البخاري (635) ومسلم (603) ولأن المأموم في هذه الحال ارتبطت صلاته بالإمام فلزم أن يتابعه حتى فيما فاته .

وأما من فعل ذلك فيما سبق ، فكان يصلّي ركعتين خلف إمام مقيم ، فإنه يجب عليه إعادة ما صلاّه من الصلوات الرباعية ولا يُشترط أن تكون متتابعة ، وعليه أن يتحرّى عدد الصلوات التي صلاّها ويجتهد في ذلك ويعيدها" اهـ .

لقاء الباب المفتوح ص/40-41.

ترجمہ :
كيا پورى نماز ادا كرنے والے امام كے پيچھے مسافر كے ليے نماز قصر كرنا جائز ہے، يعنى وہ امام كى دو ركعتوں كے بعد سلام پھير كر چلا جائے ؟

الحمد للہ:

مسافر جب مقيم كى اقتدا ميں نماز ادا كرے تو اس پر امام كى پيروى لازم ہے، چاہے وہ سارى نماز پائے يا ايك ركعت يا كم.

اثرم رحمہ اللہ كہتے ہيں: ميں نے ابو عبد اللہ يعنى امام احمد رحمہ اللہ سے مسافر كے متعلق دريافت كيا جو مقيم حضرات كى تشھد ميں جا كر شامل ہو ؟

تو ان كا كہنا تھا: وہ چار ركعت ادا كرے گا، ابن عمر اور ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہم اور تابعين كى ايك جماعت سے بھى يہى مروى ہے، اور امام شافعى اور ابو حنيفہ رحمہما اللہ كا بھى يہى كہنا ہے.

اس كى دليل يہ ہے:

1 - نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" يقينا امام اقتدا اور پيروى كرنے كے ليے بنايا گيا ہے، لہذا اس كى مخالفت نہ كرو"

صحيح بخارى حديث نمبر ( 722 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 414 ).

اور امام كو چھوڑ دينا اس كى مخالفت ہى ہے.

2 - امام احمد نے ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہ سے روايت كيا ہے كہ ان سے كہا گيا: مسافر كو كيا ہے كہ انفرادى حالت ميں تو وہ دو ركعت ادا كرتا ہے، اور جب مقيم كى اقتدا ميں نماز ادا كرے تو چار ركعت ادا كرتا ہے ؟

ان كا جواب تھا:

يہ سنت ہے.

قولہ: يہ سنت ہے، رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى سنت كى طرف اشارہ ہے.

علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے ارواء الغليل حديث نمبر ( 571 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.

3 - اور اس ليے بھى كہ ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما كا فعل بھى يہى ہے نافع رحمہ اللہ تعالى بيان كرتے ہيں كہ ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما جب امام كے ساتھ نماز ادا كرتے تو چار ركعت ادا كرتے، اور جب اكيلے نماز ادا كرتے تو دو ركعت ادا كرتے.

اسے مسلم نے روايت كيا ہے، انتہى.

ماخوذ از: المغنى ابن قدامہ ( 3 / 143 ) مختصر

شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

" مسافر پر واجب ہے كہ جب وہ مقيم امام كے پيچھے نماز ادا كرے تو نماز پورى ادا كرے كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا عمومى فرمان ہے:

" يقينا امام اس ليے بنايا گيا ہے كہ اس كى اتباع اور پيروى كى جائے "

اور اس ليے بھى كہ صحابہ كرام رضى اللہ عنہم دوران حج امير المومنين عثمان بن عفان رضى اللہ تعالى عنہ كے پيچھے منى ميں نماز ادا كرتے وہ چار ركعت پڑھاتے تو صحابہ بھى ان كے پيچھے چار ركعت ادا كرتے.

اور اسى طرح وہ امام كے ساتھ آخرى دو ركعت ميں آكر ملے تو امام كى سلام كے بعد اسے باقى دو ركعت مكمل كرنى چاہيں تا كہ چار ركعت پورى ہوں كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا عمومى فرمان ہے:

" تم جو نماز پاؤ وہ ادا كرلو اور جو رہ جائے اسے پورا كرو "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 635 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 603 ).

اور اس ليے بھى كہ اس حالت ميں مقتدى كى نماز امام كے ساتھ مرتبط ہے اس ليے اس كے ليے اس كى متابعت كرنى لازم ہے، حتى كہ اس كى فوت شدہ ميں بھى.

ليكن جس نے مندرجہ بالا عمل كيا كہ مقيم امام كے پيچھے دو ركعت ادا كر كے سلام پھر ديا اس پر ادا كردہ چار ركعتى نماز كا اعادہ لازم ہے، اس ميں متابعت كى شرط نہيں، اسے چاہيے كہ وہ ان نمازوں كى تعداد معلوم كرنے كى كوشش كرے جو اس طرح ادا كى تھيں اور پھر انہيں لوٹائے " اھـ

ديكھيں: لقاء الباب مفتوح صفحہ نمبر ( 40 - 41 ).

واللہ اعلم .
http://islamqa.info/ar/21996
http://islamqa.info/ur/21996
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,562
پوائنٹ
791
امام بیہقی رحمہ اللہ نے ۔السنن الکبری ۔(5503 ) میں سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ کا قول نقل کیا ہے کہ :
عن أبي مجلز قال : قلت لابن عمر: المسافر يدرك ركعتين من صلاة القوم - يعني المقيمين - أتجزيه الركعتان أو يصلي بصلاتهم ؟ قال : - فضحك - وقال: يصلي بصلاتهم ، ورواه بنحوه ابن أبي شيبة (1/335) من طريق هشيم عن التيمي به ، وهذا إسناد صحيح
ان سے سوال کیا گیا کہ اگر مسافرمقتدی ،مقیم امام کے پیچھے دو رکعت ہی پائے،تو کیا اسے یہی دو رکعت کافی ہونگی ؟
(یعنی دو رکعت کے بعد ان کے ساتھ ہی سلام پھیر دے ) یا ان ساتھ پوری نماز پڑھے گا ؟
تو جناب عبد اللہ ہنسنے لگے ،اور فرمایا :(نہیں ) انکے ساتھ ان کی نماز ہی پڑھے گا (یعنی پوری )
 
Last edited:

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,038
ری ایکشن اسکور
1,225
پوائنٹ
425
محترم عمران بھائی میرے خیال مین اس میں واضح نص تو موجود نہیں ہے البتہ دوسری باتوں کو دیکھ کر علماء نے کچھ اجتہادی فیصلہ کیا ہوا ہے اس میں اختلاف کی گنجائش ہے جیسے رکوع کے بعد ہاتھ باندھنے میں آگے سمجھنے کا اختلاف ہے جس پر ہر کوئی اپنے دلائل دینے کا حق رکھتا ہے
اسی وجہ سے میرے خیال میں اوپر محترم خضر حیات بھائی اور محترم اسحاق سلفی بھائی کے دلائل میں علماء کے اقوال تو کچھ صریح ہیں مگر غالبا نص صریح نہیں ہے جسکی وجہ سے محترم عمران بھائی اختلاف کر رہے ہیں واللہ اعلم
 

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,101
ری ایکشن اسکور
1,462
پوائنٹ
344
امام بیہقی رحمہ اللہ نے ۔السنن الکبری ۔(5503 ) میں سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ کا قول نقل کیا ہے کہ :
عن أبي مجلز قال : قلت لابن عمر: المسافر يدرك ركعتين من صلاة القوم - يعني المقيمين - أتجزيه الركعتان أو يصلي بصلاتهم ؟ قال : - فضحك - وقال: يصلي بصلاتهم ، ورواه بنحوه ابن أبي شيبة (1/335) من طريق هشيم عن التيمي به ، وهذا إسناد صحيح
ان سے سوال کیا گیا کہ اگر مسافرمقتدی ،مقیم امام کے پیچھے دو رکعت ہی پائے،تو کیا اسے یہی دو رکعت کافی ہونگی ؟
(یعنی دو رکعت کے بعد ان کے ساتھ ہی سلام پھیر دے ) یا ان ساتھ پوری نماز پڑھے گا ؟
تو جناب عبد اللہ ہنسنے لگے ،اور فرمایا :(نہیں ) انکے ساتھ ان کی نماز ہی پڑھے گا (یعنی پوری )
کیا یہ نص ہے یا جناب عبداللہ بن عمر کا اپنا قول و اجتہاد ہے؟؟
 

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,101
ری ایکشن اسکور
1,462
پوائنٹ
344
محترم عمران بھائی میرے خیال مین اس میں واضح نص تو موجود نہیں ہے البتہ دوسری باتوں کو دیکھ کر علماء نے کچھ اجتہادی فیصلہ کیا ہوا ہے اس میں اختلاف کی گنجائش ہے جیسے رکوع کے بعد ہاتھ باندھنے میں آگے سمجھنے کا اختلاف ہے جس پر ہر کوئی اپنے دلائل دینے کا حق رکھتا ہے
اسی وجہ سے میرے خیال میں اوپر محترم خضر حیات بھائی اور محترم اسحاق سلفی بھائی کے دلائل میں علماء کے اقوال تو کچھ صریح ہیں مگر غالبا نص صریح نہیں ہے جسکی وجہ سے محترم عمران بھائی اختلاف کر رہے ہیں واللہ اعلم
امام ابن حزم نے محلی میں لکھا ہے:
عن المغيرة بن مقسم عن عبد الرحمن بن تميم بن حذلم ، قال : كان أبي إذا أدرك من صلاة المقيم ركعة - وهو مسافر - صلى إليها أخرى ، وإذا أدرك ركعتين اجتزأ بهما .
قال ابن حزم : تميم بن حذلم من كبار أصحاب ابن مسعود رضي الله عنه .
وعن الشعبي قال : إذا كان مسافرا فأدرك من صلاة المقيم ركعتين اعتد بهما .
وعن سليمان التيمي قال : سمعت طاوسا وسألته عن مسافر أدرك من صلاة المقيمين ركعتين ؟ قال : تجزيانه .
انظر : " المحلى " لابن حزم 3 / 231 .

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس مسئلے میں علما کا کافی اختلاف ہے لیکن اصل یہ ہے کہ قصر کرنا ہی سنت ہے واللہ اعلم بالصواب
 
Last edited:

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,562
پوائنٹ
791
صلاة المسافر خلف المقيم
رجل مسافر وصل إلى البلد الذي سافر إليه وأراد أن يُصلي مع إمام مقيم فهل تصح صلاته ؟.
الجواب:
الحمد لله
لا مانع من كون المسافر يصلي خلف المقيم سواء اختلفت هيئة الصلاة أم لا . واختلاف النية
غير مؤثر غير أن المسافر إذا أدرك مع الإمام دون الركعة فإنه يصلي قصراً .

مثال ذلك : مسافر أدرك مع الإمام التشهد الأخير من صلاة الظهر فحينئذٍ يصلي الظهر
ركعتين ، فهذه صلاته إذا لم يدرك ركعة فأكثر .

وأما إذا أدرك من صلاة المقيم ركعة فأكثر فإنه يُتم وجوباً وهذا مذهب أكثر أهل العلم وهو
مروي عن ابن عباس وابن عمر رضي الله عنهما .

وفي صحيح مسلم (688) عن موسى بن سلمة الهذلي قال سألت ابن عباس كيف أصلي إذا كنت بمكة إذا لم أُصل مع الإمام فقال ركعتين سنة أبي القاسم صلى الله عليه وسلم .

وفي صحيح مسلم (694) من طريق نافع قال كان ابن عمر إذا صلى مع الإمام صلى أربعاً وإذا صلاّها وحده صلى ركعتين .

وروى البيهقي في السنن من طريق سليمان التميمي عن أبي مجلز قال قلت لابن عمر :

المسافر يدرك ركعتين من صلاة القوم يعني المقيمين أتجزيه الركعتان أو يصلي بصلاتهم ؟ قال فضحك وقال يصلي بصلاتهم .
وإذا اختلفت هيئة الصلاة كأن يصلي المسافر صلاة المغرب خلف مقيم يصلي العشاء فإنه حينئذٍ يجلس بعد الثالثة .
والله أعلم .

الشيخ ناصر بن سليمان العلوان

ترجمہ :
مقيم كے پيچھے مسافر كى نماز
ايك مسافر شخص اپنى منزل مقصود پر پہنچ كر مقيم امام كے ساتھ نماز ادا كرنا چاہے

تو كيا اس كى نماز صحيح ہو گى ؟
الحمد للہ :

مسافر كے ليے مقيم كے پيچھے نماز ادا كرنے ميں كوئى مانع نہيں، چاہے نماز كى ہيئت ميں ہو يا نہ ہو، اور اس ميں نيت كا اختلاف غير موثر ہے، ليكن اگر مسافر امام كے ساتھ ايك ركعت بھى نہ ادا كر سكتے تو وہ قصر نماز ادا كرے گا.
اس كى مثال يہ ہے كہ: ايك مسافر ظہر كى نماز ميں امام كے ساتھ آخرى تشھد ميں ملا
تو اس وقت وہ ظہر كى دو ركعت ادا كرےگا، اس كى يہ نماز اس وقت ہے جب وہ امام
كے ساتھ ايك ركعت يا اس سے زيادہ ادا نہ كر سكے.

ليكن اگر مسافر مقيم كے ساتھ ايك ركعت يا اس سے زيادہ پا لے تو وہ وجوبا نماز پورى
كرےگا، اكثر اہل علم كا مسلك يہى ہے، اور ابن عباس اور ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہم سے يہى مروى ہے.

صحيح مسلم ميں موسى بن سلمہ ھذلى رحمہ اللہ سے مروى ہے وہ كہتے ہيں ميں نے ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہ سے دريافت كيا كہ اگر ميں مكہ ميں ہوں اور امام كے ساتھ نماز ادا نہ كر سكوں تو نماز كيسے ادا كروں ؟
تو انہوں نے فرمايا: دو ركعت ادا كرنا ابو القاسم صلى اللہ عليہ وسلم كى سنت ہے "
صحيح مسلم حديث نمبر ( 688 ).

اور مسند احمد (1862 ) میں یہی روایت ذیل کے الفاظ سے مروی ہے :
عَنْ مُوسَى بْنِ سَلَمَةَ، قَالَ: كُنَّا مَعَ ابْنِ عَبَّاسٍ بِمَكَّةَ، فَقُلْتُ: إِنَّا إِذَا كُنَّا مَعَكُمْ صَلَّيْنَا أَرْبَعًا، وَإِذَا رَجَعْنَا إِلَى رِحَالِنَا صَلَّيْنَا رَكْعَتَيْنِ. قَالَ: " تِلْكَ سُنَّةُ أَبِي الْقَاسِمِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " (1)
ترجمہ : ہم مکہ میں ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہ کے ساتھ تھے ،تو میں پوچھا کہ جب ہم آپ کے ساتھ (جماعت میں ) نماز پڑھتے ہیں تو چار رکعت پڑھتے ہیں ،اور جب اپنی رہائش پر نماز پڑھتے ہیں تو دو رکعت پڑھتے ہیں ،، تو عبد اللہ رضى اللہ نے فرمایا :رسول اللہ صلى اللہ عليہ وسلم کی یہی سنت ہے ‘‘
إسناده حسن، محمد بن عبد الرحمن الطفاوي شيخ أحمد وثقه علي بن المديني، وقال أبو حاتم: صدوق إلا أنه بهم أحياناً، وقال ابن معين: لا بأس به، وذكره الذهبي في كتابه "من تكلم فيه وهو موثق" ص 164، وقال في "الميزان": شيخ مشهور ثقة روى عنه أحمد والناس، وقال أبو زرعة: منكر الحديث، وقال الحافظ في "التقريب": صدوق يهم، وله في البخاري ثلاثة أحاديث، ومن فوقه ثقات من رجال الصحيح



اور صحيح مسلم ميں ہى نافع رحمہ اللہ كے طريق سے مروى ہے كہ جب ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما امام كے ساتھ نماز ادا كرتے تو چار ركعت پڑھتے اور جب اكيلے پڑھتے تو دو ركعت ادا كرتے"صحيح مسلم حديث نمبر ( 694 ).

اور بيھقى نے سنن بيھقى ميں سليمان تميمى عن ابى مجلز رحمہما اللہ كے طريق سے بيان كيا ہے وہ كہتے ہيں ميں نے ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما سے كہا:" مسافر شخص مقيم حضرات كے ساتھ دو ركعت پالے تو كيا يہ دو ركعت كفائت كر جائينگى ؟
يا وہ ان كى نماز ادا كرے ؟

راوى كہتے ہيں ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما ہنس كر كہنے لگے: ان كے ساتھ مكمل نماز ادا كرے "


اللہ تعالى اعلم

الشيخ ناصر بن سليمان بن العلوان ( ملتقى أهل الحديث )
 

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,101
ری ایکشن اسکور
1,462
پوائنٹ
344
صلاة المسافر خلف المقيم
رجل مسافر وصل إلى البلد الذي سافر إليه وأراد أن يُصلي مع إمام مقيم فهل تصح صلاته ؟.
الجواب:
الحمد لله
لا مانع من كون المسافر يصلي خلف المقيم سواء اختلفت هيئة الصلاة أم لا . واختلاف النية
غير مؤثر غير أن المسافر إذا أدرك مع الإمام دون الركعة فإنه يصلي قصراً .

مثال ذلك : مسافر أدرك مع الإمام التشهد الأخير من صلاة الظهر فحينئذٍ يصلي الظهر
ركعتين ، فهذه صلاته إذا لم يدرك ركعة فأكثر .

وأما إذا أدرك من صلاة المقيم ركعة فأكثر فإنه يُتم وجوباً وهذا مذهب أكثر أهل العلم وهو
مروي عن ابن عباس وابن عمر رضي الله عنهما .

وفي صحيح مسلم (688) عن موسى بن سلمة الهذلي قال سألت ابن عباس كيف أصلي إذا كنت بمكة إذا لم أُصل مع الإمام فقال ركعتين سنة أبي القاسم صلى الله عليه وسلم .

وفي صحيح مسلم (694) من طريق نافع قال كان ابن عمر إذا صلى مع الإمام صلى أربعاً وإذا صلاّها وحده صلى ركعتين .

وروى البيهقي في السنن من طريق سليمان التميمي عن أبي مجلز قال قلت لابن عمر :

المسافر يدرك ركعتين من صلاة القوم يعني المقيمين أتجزيه الركعتان أو يصلي بصلاتهم ؟ قال فضحك وقال يصلي بصلاتهم .
وإذا اختلفت هيئة الصلاة كأن يصلي المسافر صلاة المغرب خلف مقيم يصلي العشاء فإنه حينئذٍ يجلس بعد الثالثة .
والله أعلم .

الشيخ ناصر بن سليمان العلوان

ترجمہ :
مقيم كے پيچھے مسافر كى نماز
ايك مسافر شخص اپنى منزل مقصود پر پہنچ كر مقيم امام كے ساتھ نماز ادا كرنا چاہے

تو كيا اس كى نماز صحيح ہو گى ؟
الحمد للہ :

مسافر كے ليے مقيم كے پيچھے نماز ادا كرنے ميں كوئى مانع نہيں، چاہے نماز كى ہيئت ميں ہو يا نہ ہو، اور اس ميں نيت كا اختلاف غير موثر ہے، ليكن اگر مسافر امام كے ساتھ ايك ركعت بھى نہ ادا كر سكتے تو وہ قصر نماز ادا كرے گا.
اس كى مثال يہ ہے كہ: ايك مسافر ظہر كى نماز ميں امام كے ساتھ آخرى تشھد ميں ملا
تو اس وقت وہ ظہر كى دو ركعت ادا كرےگا، اس كى يہ نماز اس وقت ہے جب وہ امام
كے ساتھ ايك ركعت يا اس سے زيادہ ادا نہ كر سكے.

ليكن اگر مسافر مقيم كے ساتھ ايك ركعت يا اس سے زيادہ پا لے تو وہ وجوبا نماز پورى
كرےگا، اكثر اہل علم كا مسلك يہى ہے، اور ابن عباس اور ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہم سے يہى مروى ہے.

صحيح مسلم ميں موسى بن سلمہ ھذلى رحمہ اللہ سے مروى ہے وہ كہتے ہيں ميں نے ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہ سے دريافت كيا كہ اگر ميں مكہ ميں ہوں اور امام كے ساتھ نماز ادا نہ كر سكوں تو نماز كيسے ادا كروں ؟
تو انہوں نے فرمايا: دو ركعت ادا كرنا ابو القاسم صلى اللہ عليہ وسلم كى سنت ہے "
صحيح مسلم حديث نمبر ( 688 ).

اور مسند احمد (1862 ) میں یہی روایت ذیل کے الفاظ سے مروی ہے :
عَنْ مُوسَى بْنِ سَلَمَةَ، قَالَ: كُنَّا مَعَ ابْنِ عَبَّاسٍ بِمَكَّةَ، فَقُلْتُ: إِنَّا إِذَا كُنَّا مَعَكُمْ صَلَّيْنَا أَرْبَعًا، وَإِذَا رَجَعْنَا إِلَى رِحَالِنَا صَلَّيْنَا رَكْعَتَيْنِ. قَالَ: " تِلْكَ سُنَّةُ أَبِي الْقَاسِمِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " (1)
ترجمہ : ہم مکہ میں ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہ کے ساتھ تھے ،تو میں پوچھا کہ جب ہم آپ کے ساتھ (جماعت میں ) نماز پڑھتے ہیں تو چار رکعت پڑھتے ہیں ،اور جب اپنی رہائش پر نماز پڑھتے ہیں تو دو رکعت پڑھتے ہیں ،، تو عبد اللہ رضى اللہ نے فرمایا :رسول اللہ صلى اللہ عليہ وسلم کی یہی سنت ہے ‘‘
إسناده حسن، محمد بن عبد الرحمن الطفاوي شيخ أحمد وثقه علي بن المديني، وقال أبو حاتم: صدوق إلا أنه بهم أحياناً، وقال ابن معين: لا بأس به، وذكره الذهبي في كتابه "من تكلم فيه وهو موثق" ص 164، وقال في "الميزان": شيخ مشهور ثقة روى عنه أحمد والناس، وقال أبو زرعة: منكر الحديث، وقال الحافظ في "التقريب": صدوق يهم، وله في البخاري ثلاثة أحاديث، ومن فوقه ثقات من رجال الصحيح



اور صحيح مسلم ميں ہى نافع رحمہ اللہ كے طريق سے مروى ہے كہ جب ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما امام كے ساتھ نماز ادا كرتے تو چار ركعت پڑھتے اور جب اكيلے پڑھتے تو دو ركعت ادا كرتے"صحيح مسلم حديث نمبر ( 694 ).

اور بيھقى نے سنن بيھقى ميں سليمان تميمى عن ابى مجلز رحمہما اللہ كے طريق سے بيان كيا ہے وہ كہتے ہيں ميں نے ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما سے كہا:" مسافر شخص مقيم حضرات كے ساتھ دو ركعت پالے تو كيا يہ دو ركعت كفائت كر جائينگى ؟
يا وہ ان كى نماز ادا كرے ؟

راوى كہتے ہيں ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما ہنس كر كہنے لگے: ان كے ساتھ مكمل نماز ادا كرے "


اللہ تعالى اعلم

الشيخ ناصر بن سليمان بن العلوان ( ملتقى أهل الحديث )
ما روي عن ابن عباس , أنه قيل له : ( ما بال المسافر يصلي ركعتين في حال الانفراد , وأربعاً إذا ائتم بمقيم ؟ فقال : تلك السنة ) رواه أحمد وغيره .

قلت : الحديث هذا منكر ؛ وقد ذكره الفقهاء في كتبهم ، ولم أجده بهذا اللفظ ، وإنما روى الإمام أحمد (1/216) قال : حدثنا محمد بن عبد الرحمن الطفاوي ، ثنا أيوب ، عن قتادة ، عن موسى بن سلمة بن المحبّق قال : كنا مع ابن عباس بمكة ، فقلت : إنا إذا كنا معكم صلينا أربعا ، وإذا رجعنا إلى رحالنا صلينا ركعتين ، فقال : تلك سنة أبى القاسم صلى الله عليه وسلم) ، وهذا اللفظ على أنه لا يدل على أن السنية هنا في الإتمام خلف الإمام فهو أيضاً غير محفوظ ، بل انفرد به الطفاوي عن أيوب ، وخولف في روايته عن أيوب ، فقد رواه الطبراني من طريق عبيد الله بن عمر (المعجم الأوسط 4552 ) و الحارث بن عمير (المعجم الأوسط 6330) كلاهما عن أيوب به بلفظ مخالف ، و لفظ الحارث بن عمير (إنا كنا معكم ، فخرجنا ورجعنا فصلينا ركعتين) ، ولفظ عبيد الله بن عمر : (إنا نصلي معكم في المسجد ، فإذا صلينا في رحالنا صلينا ركعتين ، قال : تلك سنة أبي القاسم صلى الله عليه وسلم) .
كما خولف في لفظ الرواية عن قتادة ، فقد روى الإمام أحمد (1/290) و مسلم (688) والنسائي (3/119) وابن خزيمة (2/73) وابن حبان (2755) والبيهقي (3/53) وغيرهم من طرق عن شعبة عن قتادة عن موسى بن سلمة بن المحبّق قال : سألت ابن عباس :كيف أصلي إذا كنت بمكة إذا لم أصل مع الإمام؟. فقال : ركعتين سنة أبي القاسم صلى الله عليه وسلم) .

وفي بعض الطرق عن شعبة عن قتادة : (قلت : أكون بمكة ، فكيف أصلي ؟ . قال : صل ركعتين ، سنة أبي القاسم صلى الله عليه وسلم) .

ورواه عن قتادة :

1- سعيد بن أبي عروبة - عند أحمد (1/369) و مسلم (688) – .

2- و هشام الدستوائي – عند أحمد (1/290) ومسلم (688) – .

3- وهمام بن يحيى – عند أحمد (1/337) – .

بألفاظ مقاربة لرواية شعبة عن قتادة .

وجميع ألفاظ الروايات الصحيحة لهذا الحديث ليس الكلام فيها على الإتمام ، بل الكلام على القصر ، فقول ابن عباس رضي الله عنهما : (تلك السنة) إنما عنى به القصر كما هو ظاهر.

2- أما أنه فعل ابن عباس وابن عمر ولا مخالف لهما ففيه نظر لأمرين :

الأول : أن الاحتجاج بقول الصحابة في مسألةٍ ما إنما يكون عند عدم وجود الدليل المرفوع ، وقد ثبتت الأدلة المتواترة هنا في أن المسافر يقصر ، وثبت عن النبي صلى الله عليه وسلم وأبي بكر وعمر أنهم لم يصلوا في سفرهم إلا ركعتين ركعتين .

الثاني : أننا قد بينا بطلانه عن ابن عباس رضي الله عنهما وقد سبق ، وروي عنه أنه سئل عن المسافر يصلي خلف المقيم فقال (يصلي بصلاته) إلا أنها من رواية ليث بن أبي سليم –وهو ضعيف- ، وأما فعل ابن عمر رضي الله عنهما فهو صحيح عنه رواه مسلم من حديث نافع عنه قال : (صلى رسول الله صلى الله عليه وسلم بمنى ركعتين ، وأبو بكر بعده ، وعمر بعد أبي بكر ، وعثمان صدراً من خلافته ، ثم إن عثمان صلى بعد أربعاً ، فكان ابن عمر إذا صلى مع الإمام صلى أربعاً وإذا صلاها وحده صلى ركعتين ) والكلام على هذا الحديث من وجهين:

الأول : أن صلاته هنا هي في (منى) مع الإمام الأعظم ، و(الخلاف شر) كما قال ابن مسعود رضي الله عنه في هذا الباب .

الثاني : أن هذا فعل لابن عمر ليس قولاً ، ولم ينه عن القصر ، ومن المعلوم أن فعل النبي صلى الله عليه وسلم -وهو المبلغ عن ربه – بمجرده لا يدل على الوجوب إلا بقرينة –كتفسير أمرٍ ونحوه-
 
Top