• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مستور الحال کی اقتداء میں نماز۔۔ اہلسنت کا منہج تعامل

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
مستور الحال کی اقتداء میں نماز
شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ  فرماتے ہیں :

''ومن أصول أھل السنۃ والجماعۃ أنھم یصلون الجمع والأعیاد و الجماعات،لا یدعون الجمعۃ والجماعۃ کما فعل أھل البدع من الرافضۃ وغیرھم۔
فان کان الامام مستوراًلم یظھر منہ بدعۃ ولا فجور صُلِّي خلفہ الجمعۃ والجماعۃ باتفاق الأئمۃ الأربعۃ وغیرھم من أئمۃ المسلمین، ولم یقل أحد من الأئمۃ:انہ لاتجوز الصلاۃ الا خلف من عُلِم باطن أمرہ، بل مازال المسلمون من بعدنبیھم یصلون خلف المسلم المستور۔۔۔وأما اذالم یکن الصلاۃ الا خلف المبتدع أوالفاجر کالجمعۃ التي امامھا مبتدع أو فاجر ولیس ھناک جمعۃ أخریٰ فھذہ تصلیٰ خلف المبتدع والفاجر عند عامۃ أھل السنۃ والجماعۃ۔
وکان بعض الناس اذا کثر ت الأ ھواء یحب أن لا یصلي الاخلف من یعرفہ علیٰ سبیل الاستحباب ،کما نقل ذلک عن أحمد أنہ ذکر ذلک لمن سألہ ،ولم یقل أحمد انہ لا تصح الا خلف من أعرف حالہ۔
فالصلاۃ خلف المستور جائزۃ باتفاق علماء المسلمین ،ومن قال:ان الصلاۃ محرمۃ أو باطلۃ خلف من لا یُعرَف حالہ۔ فقد خالف اجماع أھل السنۃ والجماعۃ......
فالو جب علیٰ المسلم اذا صارفي مدینۃ من مدائن المسلمین أن یصلي معھم الجمعۃ والجماعۃ ویوالي المؤمنین ولا یعادیھم۔وان رأیٰ بعضھم ضالاًّ أو غاویًا وأمکن أن یھدیہ ویرشدہ فعل ذلک، والافلا یکلف اللہ نفسًا الا وسعھا۔واذ کان قادراً علیٰ أن یولي في امامۃ المسلمین الأفضل ولاَّہ، وان قدر أن یمنع من یظھر البدع والفجور منعہ۔وان لم یقدر علیٰ ذلک فالصلاۃ خلف الأعلم بکتاب اللہ وسنۃ نبیہ الأسبق الیٰ طاعۃ اللہ ورسولہ أفضل، کما قال النبيﷺ في الحدیث الصحیح: ((یؤم القوم أقرأھم لکتاب اللہ،فان کانوافي القراء ۃ سواء فأعلمھم بالسنۃ،فان کانوافي السنۃ سواء فأقدمھم ھجرۃ، فان کانوافي الھجرۃ سواء فأقدمھم سنًّا))۔
وان کان في ھجرہ لمظھرالبدعۃ والفجور مصلحۃ راجحۃ ھجرہ، کما ھجر النبيﷺ الثلاثۃ الذین خُلِّفواحتیٰ تاب اللہ علیھم۔ وأمااذا وُلِّي غیرہ بغیراذنہ ولیس في ترک الصلاۃ خلفہ مصلحۃ شرعیۃ کان تفویت ھذہ الجمعۃ والجماعۃ جھلاً وضلالاً،وکان قدرد بدعۃ ببدعۃ۔

''اہلسنّت والجماعت کے اصول میں ہے کہ وہ جمعہ ،عید اورجماعت کی نمازوں میں شرکت کرتے ہیں اورجمعہ وجماعت کو نہیںچھوڑتے ،جیسا کہ روافض یا دیگر اہل بدعت کرتے ہیں ۔چنانچہ اگر امام مستورالحال ہواور انسان اس کے ہاں کوئی بدعت یا فسق وفجور نہ پائے تو ائمہ اربعہ اور دیگر ائمہ کرام کا اس بات پر اتفاق ہے کہ اس کے پیچھے جمعہ وجماعت کی نماز ادا کرنی چاہیے۔ائمہ میں سے کسی ایک نے بھی یہ نہیں کہا کہ جب تک آدمی اس کی اصل حقیقت حال نہ جان لے اس وقت تک ان کے پیچھے نماز جائز نہیں ،بلکہ نبی اکرمﷺ کے عہد سے لے کر اب تک مسلمان مستو ر الحال مسلمان کے پیچھے نماز ادا کرتے آئے ہیں ... تاہم جب ایک بدعتی یا فاجر شخص کے پیچھے نماز اداکرنے کے علاوہ اورکہیں جماعت ممکن نہ ہو مثلاً امام جمعہ بدعتی یا فاجر ہواور وہاں کہیں دوسرا جمعہ نہ ہوتاہو تو ایسی صورت میں عام اہلسنّت و الجماعت کے ہاں اسی بدعتی یا فاجر شخص کے پیچھے نماز ادا کی جائے گی ۔

تاہم جب اھواء وشہوات کی بھرمار ہوئی تو بعض حضرات بطور استحباب کسی شخص کے بارے میں جان کے ہی اس کے پیچھے نماز ادا کرنا پسند کرتے تھے ،جیسا کہ امام احمد کے بارے میں منقول ہے کہ انہوں نے ایک سائل کو یہ بات کہی تاہم انہوں نے یہ نہیں کہا کہ جب تک کسی کا حال معلوم نہ ہوجائے تب تک اس کے پیچھے نماز جائز نہیں۔

مستورالحال کی اقتدامیں نماز کے جواز پرجملہ مسلمان ائمہ کا اتفاق ہے اور جو شخص یہ کہتاہے کہ جس آدمی کے بارے میں علم نہ ہو اس کے پیچھے نماز حرام یاباطل ہے توہ اہلسنّت والجماعت کے اجماع کا مخالف ہے ...چنانچہ ہرمسلمان کا فرض ہے کہ جب وہ مسلمانوں کے کسی بھی شہر یا علاقہ میں ہو تو وہ ان کے ساتھ جمعہ وجماعت میں شرکت کرے اور مسلمانوں سے تعلق ،دوستی اور وفاداری رکھے اور ان سے دشمنی یا بیر نہ رکھے ۔اگر ان میں سے کسی کوگمراہ یا غلط راستے پرپڑا ہوئے دیکھے اور اسے ہدایت اور رشد ونصیحت کا راستہ دکھا سکتا ہوتویہ کام ضرور کرے ،بصورت دیگر اللہ تعالیٰ کسی کو اس کی استطاعت سے بڑھ کر مکلف نہیں کرتا ۔ امامت کے منصب پرکسی افضل آدمی کو فائز کرانے میں اگر اس کی چلتی ہو تو ضرور ایسا کرے ،بدعت اورفسق وفجور عام کرنے والوں کو روکنے کی طاقت رکھتا ہوتویہ کام بھی ضرور کرے ۔تاہم اگر مذکورہ استطاعت نہ ہو تو ایسے شخص کے پیچھے جو کتاب اللہ اور سنت رسول ﷺکا علم زیادہ رکھتا ہواور دوسروں سے بڑھ کر اللہ اور سول ﷺکی اطاعت کرتا ہونماز ادا کرنا افضل ہے جیسا کہ نبی اکرم ﷺسے صحیح حدیث میں مروی ہے:

یؤم القوم اقرءھم لکتاب اﷲ ، فان کانوا فی القراء ۃ سواء فاعلمھم بالسنۃ فان کانوا فی السنۃ سواء فاقدمھم بھجرۃ ، فان کانوا فی الھجرۃ سواء فاقدمھم سِنًّا......۔
''کہ امامت وہ کرائے جو کتاب اللہ کا زیادہ قاری ہو،اگرقرأت میں سب برابر ہوں توان میں سے جو سنت کا بڑا عالم ہو اور اگر سنت کے علم میں برابر ہوں تو جس نے ہجرت پہلے کی ہو،اور اگرہجرت میں بھی سب برابر ہوں تو جو عمرمیں سب سے بزرگ ہو۔... ''
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
بدعت وفجور کے اعلانیہ کرنے والے سے ہجروکنارہ کشی اور روکجی اختیار کرنے میں کوئی راحج مصلحت ہوتو اس سے یہی رویہ روارکھے جیسا کہ نبی اکرمﷺ نے ان تین صحابیوں سے یہ رویہ رکھا تھا جو جنگ سے پیچھے رہ گئے تھے تاآنکہ اللہ تعالیٰ نے ان کی توبہ قبول کی تاہم جب اس کی رضامندی کے بغیر ایسے شخص کو امام بنایا جائے اور اس کی امامت میں نماز ترک کرنے میں کوئی شرعی مصلحت نہ ہوتو جمعہ اورجماعت کو فوت کرنا جہالت اور گمراہی ہے اور ایسا آدمی بدعت کا جواب بدعت سے دیتاہے۔ (مجموع الفتاویٰ ،ج۳ ص ۲۸۰-۲۸۶)

الجنۃ الدائمۃ للافتاء سے درج ذیل سوال کیا گیا:

اگر ذبح کرنے والے کے عقیدے کا علم نہ ہو توا س کا ذبح کیا ہوا گوشت کھانے اور ایسے شخص کے پیچھے نماز ادا کرنے کا کیا حکم ہے ؟

جواب :''اگر وہ ظاہراً مسلمان ہو اور انسان اس کے عقیدے کو نہ جانتا ہو'اسی طرح اس کے متعلق یہ علم بھی نہ ہو کہ اس کے عقیدہ میں انحراف پایا جاتا ہے ،تو ایسے مجہول الحال شخص کے پیچھے نماز ادا کرنا اور اس کا ذبح کیا ہوا گوشت کھانا صحیح ہے ۔ (فتاویٰ اللجنۃ الدائمۃ :365/7)
 
Top