اس وڈیو میں نظر آ رہا ہے کہ موصوف نے ایک ڈنڈے کو دونوں ہاتھوں سے تھام رکھا ہے۔ ڈنڈے کو دونوں ہاتھوں سے پکڑنے کی کیا حقیقت ہے؟
خطبہ دیتے ہوئے ، چھڑی یا کمان وغیرہ پکڑنا ،حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی سنت ہے ۔
ابو داود حدیث نمبر : 1096
بَابُ الرَّجُلِ يَخْطُبُ عَلَى قَوْسٍ
حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ مَنْصُورٍ، حَدَّثَنَا شِهَابُ بْنُ خِرَاشٍ، حَدَّثَنِي شُعَيْبُ بْنُ زُرَيْقٍ الطَّائِفِيُّ، قَالَ: جَلَسْتُ إِلَى رَجُلٍ -لَهُ صُحْبَةٌ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يُقَالُ لَهُ: الْحَكَمُ بْنُ حَزْنٍ الْكُلَفِيُّ-، فَأَنْشَأَ يُحَدِّثُنَا، قَالَ: وَفَدْتُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَابِعَ سَبْعَةٍ، أَوْ تَاسِعَ تِسْعَةٍ، فَدَخَلْنَا عَلَيْهِ، فَقُلْنَا: يَا رَسُولَ اللَّهِ! زُرْنَاكَ فَادْعُ اللَّهَ لَنَا بِخَيْرٍ، فَأَمَرَ بِنَا، أَوْ أَمَرَ لَنَا بِشَيْءٍ مِنَ التَّمْرِ، وَالشَّأْنُ إِذْ ذَاكَ دُونٌ، فَأَقَمْنَا بِهَا أَيَّامًا, شَهِدْنَا فِيهَا الْجُمُعَةَ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَامَ مُتَوَكِّئًا عَلَى عَصًا، أَوْ قَوْسٍ-
باب: خطیب کا خطبے میں کمان سے سہارا لینا
شعیب بن رزیق طائفی بیان کرتے ہیں کہ میں ایک صاحب کے ہاں بیٹھا جنہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت حاصل تھی ۔ انہیں حکم بن حزن کلفی کہا جاتا تھا ۔ وہ ہم سے بیان کرنے لگے کہ میں ایک وفد میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں حاضر ہوا ۔ میں سات میں سے ساتواں یا نو میں سے نواں فرد تھا ۔ ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے تو ہم نے کہا : اے اللہ کے رسول ! ہم آپ کی زیارت کے لیے آئے ہیں ، ہمارے لیے دعائے خیر فرمائیے ۔ آپ نے ہمارے لیے کسی قدر کھجوروں کا حکم دیا ، حالت ان دنوں بہت کمزور تھی ۔ ہم آپ کے ہاں کئی دن مقیم رہے ۔ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جمعہ پڑھنے کا موقع بھی ملا ۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک لاٹھی یا کمان کا سہارا لیے ہوئے کھڑے ہوئے ۔