کفایت اللہ
عام رکن
- شمولیت
- مارچ 14، 2011
- پیغامات
- 5,001
- ری ایکشن اسکور
- 9,806
- پوائنٹ
- 773
امام طبرانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ هَارُونَ، نَا هِشَامُ بْنُ خَالِدٍ الْأَزْرَقُ، نَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ، نَا مُعَاوِيَةُ بْنُ يَحْيَى، عَنْ خَالِدٍ الْحَذَّاءِ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي بَكْرَةَ، عَنْ أَبِيهِ، «أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَقْبَلَ مِنْ بَعْضِ نَوَاحِيَ الْمَدِينَةِ يُرِيدُ الصَّلَاةَ، فَوَجَدَ النَّاسَ قَدْ صَلَّوْا، فَذَهَبَ إِلَى مَنْزِلِهِ، فَجَمَعَ أَهْلَهُ، ثُمَّ صَلَّى بِهِمْ»
لَمْ يَرْوِ هَذَا الْحَدِيثَ عَنْ خَالِدٍ الْحَذَّاءِ إِلَّا مُعَاوِيَةُ بْنُ يَحْيَى، وَلَا رَوَاهُ عَنْ مُعَاوِيَةَ إِلَّا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ، تَفَرَّدَ بِهِ: هِشَامُ بْنُ خَالِدٍ "
ابوبکرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ کے رسول ۖ مدینہ کے اطراف میں واقع کسی علاقہ سے آئے آپ نمازپڑھنے کاارادہ کررہے توآپ نے لوگوں کوپایاکہ وہ نمازپڑھ چکے ہیں ،پھر آپ ۖ اپنے گھر تشریف لے گئے اوران کوجمع کیا پھران کو نماز پڑھائی۔
اس حدیث کوخالد الحذاء سے صرف معاویہ بن یحیی نے روایت کیاہے،اورمعاویہ سے صرف ولید بن مسلم نے روایت کیاہے،اوراسے ولید بن مسلم سے روایت کرنے میں ھشام بن خالد منفردہیں ۔
(أخرجہ الطبرانی فی الأوسط:(٥٠٧ـ٥١رقم٦٨٢٠)و اخرجہ فیہ (٣٥٥رقم٥٦٠١) عن شیخہ عبدان بن أحمد بہ، وأخرجہ ابن عدی فی الکامل فی ضعفاء الرجال :(٤٠٢٦)فقال:ثنا محمد بن الفیض الغسانی ثنا ہشام بن مخلد بہ ، وأخرجہ أیضاابن حبان فی المجروحین(٤٣) فقال : أخبرناالحسن بن سفیان قال:حدثنا ہشام بن خالد الازرق بہ )۔
ہمارے علم کی حدتک مذکورہ حدیث کوکسی بھی محدث نے صحیح نہیں کہاہے،بلکہ کئی محدثین وباحثین نے صراحةً یااشارةً اسے ضعیف قراردیاہے،چندکے اسمائے گرامی مندرجہ ذیل ہیں:
(١):ـ ابوحاتم،محمد بن حبان التمیمی ،البستی،متوفی٣٥٤ھ۔
آپ کے نزدیک مذکورہ بالاروایت میں موجود راوی ''معاویہ بن یحیی الاطرابلسی '' ضعیف ہے،نیز آپ نے مذکورہ روایت کو،راوی مذکورکی ضعیف و منکر روایات میں شمارکیاہے،(المجروحین:٤٣)
(٢):ـ ابواحمد،عبداللہ بن عدی بن عبداللہ الجرجانی،متوفی٣٦٥ھ۔
آپ نے مذکورہ روایت کو معاویہ بن یحیی کی منکر روایات میں گنایاہے، (الکامل فی ضعفاء الرجال :١٤٣٨رقم١٨٨٦)۔
(٣):ـمحمدبن طاہرالمقدسی،متوفی٥٠٧ھ۔
آپ نے بھی ''معاویہ بن یحیی'' کوضعیف کہاہے ،آپ اس کی مرویات کوبھی ضعیف قراردیتے ہیں ،(ذخیرة الحفاظ:٣٣٨١رقم٣٥٢)نیز آپ نے بالخصوص مذکورہ روایت کوبھی ضعیف ومنکرروایات میں شمارکیاہے،(ذخیرةالحفاظ:٦٩٢ ٢رقم١٢٥٠)۔بلکہ اپنی کتاب''تذکرة الموضوعات'' میں بھی اسے نقل کیاہے،دیکھیں( تذکرة الموضوعات:باب الألف،ص٢٢،ط.مطبع السعادة،١٣٢٣)۔
(٤):ـأبوعبداللہ ،شمس الدین محمدبن احمد الذہبی، متوفی٧٤٨ھ۔
آپ نے بھی معاویہ بن یحیی الاطرابلسی کوضعیف قراردیاہے ،(دیوان الضعفائ:ص٣٩٢رقم٤١٧٥، المغنی فی الضعفاء : رقم٦٣٢٦)،آپ اس کی مرویات کوبھی ضعیف قراردیتے ہیں ،دیکھیں :(مستدرک ج٢ص١٩،دارالمعرفہ ،بیروت)نیز آپ نے بالخصوص مذکورہ روایت کوبھی ضعیف ومنکرروایات میں شمار کیاہے، (میزان الاعتدال:ج٤ص١٣٩)۔
(٥):ـ حافظ ابوالفرج عبدالرحمن بن احمد بن رجب الدمشقی،متوفی٧٩٥۔
آپ نے واضح طورپراس روایت کوضعیف قراردیاہے،اورجماعت ثانیہ کے مسئلہ میں اسے ناقابل استدلال قراردیاہے(فتح الباری لابن رجب : ج٤ص٢٥)۔
(٦):ـ علامہ انورشاہ الکاشمیری،صاحب الفیض الباری،متوفی١٣٥٢ھ۔
آپ نے حنفی ہونے کے باوجود بھی اس روایت کے راوی معاویہ کومجروح قراردے کراس روایت کے ضعیف ہونے کی طرف اشارہ کیاہے،(العرف الشذی:ج١ص٢٣٢)۔
(٧):ـ علامہ عبدالرحمن المبارکفوری،صاحب تحفة الأحوذی،متوفی١٣٥٣ھ۔
آپ نے اس روایت کوپوری صراحت کے ساتھ ضعیف قراردیاہے،اوراس پرہرلحاظ سے بحث کرکے جماعت ثانیہ کے مسئلہ میں اسے ساقط الاعتبار قراردیاہے،(تحفة الاحوذی:ج١ص١٣)۔
(٨):ـ علامہ عبیداللہ رحمانی المبارکفوری،صاحب المرعاة،متوفی١٤١٤ھ۔
آپ نے بھی اس روایت کوپوری صراحت کے ساتھ ضعیف قراردیاہے،اورجماعت ثانیہ کے مسئلہ میں اسے ساقط الاعتبار قرار دیاہے،(مرعاة المفاتیح : ج٤ص١٠٥)۔
(٩):ـ الشیخ عبداللہ بن صالح الفوزان۔
آپ نے بھی اس روایت کو ضعیف قراردیاہے،اورجماعت ثانیہ کے مسئلہ میں اسے ناقابل اعتبار قرار دیاہے،(احکام حضورالمساجد:ص١٥٢ )
(١٠):ـ الشیخ حمد بن عبد اللہ الحمد۔
آپ اس روایت کوضعیف قراردیتے ہوئے فرماتے ہیں:
وأما ما ذكروه من حديث أبي بكرة، ففيه الوليد بن مسلم وهو مدلس وقد عنعنه، وفيه علة أخرى وهو أنه من رواية معاوية بن يحيى وهو مختلف فيه توثيقاً وتضعيفاً، وله مناكير وقد ذكر ابن عدي والذهبي هذا الحديث من مناكيره.[شرح زاد المستقنع للحمد 7/ 86، بترقيم الشاملة آليا]
(١١):ـ ڈاکٹرمحمدطاہرحکیم۔
آپ نے بھی اس روایت کو ضعیف قراردیاہے،اورجماعت ثانیہ کے مسئلہ میں اسے ناقابل استدلال قرار دیاہے،(حکم تکرار الجماعة فی المسجد: ص ٨( الشاملہ))۔
(١٢):ـ ڈاکٹرابراہیم طہ القیسی،عمیدواستاذ مادة الحدیث وعلومہ المساعد،کلیة الدعوة عمان۔
(١٣):ـ ڈاکٹرحمدی محمدمراد،نائب عمیدواستاذ مادة الحدیث وعلومہ المساعد،کلیة الدعوة عمان۔
(١٤):ـ علی حسن علی الحلبی ۔
مؤخرالذکرتینوں حضرات نے مل کر ضعیف وموضوع احادیث وآثار کاایک ضخیم مجموعہ پندرہ(١٥) جلدوں میں تیارکیا ہے، اور مذکورہ روایت کو دوسری جلد میں نقل کیاہے،ملاحظہ ہو:(موسوعة الأحادیث والآثار الضعیفة والموضوعة :ج٢ص١١٥رقم٢٩٤٤)۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ هَارُونَ، نَا هِشَامُ بْنُ خَالِدٍ الْأَزْرَقُ، نَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ، نَا مُعَاوِيَةُ بْنُ يَحْيَى، عَنْ خَالِدٍ الْحَذَّاءِ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي بَكْرَةَ، عَنْ أَبِيهِ، «أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَقْبَلَ مِنْ بَعْضِ نَوَاحِيَ الْمَدِينَةِ يُرِيدُ الصَّلَاةَ، فَوَجَدَ النَّاسَ قَدْ صَلَّوْا، فَذَهَبَ إِلَى مَنْزِلِهِ، فَجَمَعَ أَهْلَهُ، ثُمَّ صَلَّى بِهِمْ»
لَمْ يَرْوِ هَذَا الْحَدِيثَ عَنْ خَالِدٍ الْحَذَّاءِ إِلَّا مُعَاوِيَةُ بْنُ يَحْيَى، وَلَا رَوَاهُ عَنْ مُعَاوِيَةَ إِلَّا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ، تَفَرَّدَ بِهِ: هِشَامُ بْنُ خَالِدٍ "
ابوبکرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ کے رسول ۖ مدینہ کے اطراف میں واقع کسی علاقہ سے آئے آپ نمازپڑھنے کاارادہ کررہے توآپ نے لوگوں کوپایاکہ وہ نمازپڑھ چکے ہیں ،پھر آپ ۖ اپنے گھر تشریف لے گئے اوران کوجمع کیا پھران کو نماز پڑھائی۔
اس حدیث کوخالد الحذاء سے صرف معاویہ بن یحیی نے روایت کیاہے،اورمعاویہ سے صرف ولید بن مسلم نے روایت کیاہے،اوراسے ولید بن مسلم سے روایت کرنے میں ھشام بن خالد منفردہیں ۔
(أخرجہ الطبرانی فی الأوسط:(٥٠٧ـ٥١رقم٦٨٢٠)و اخرجہ فیہ (٣٥٥رقم٥٦٠١) عن شیخہ عبدان بن أحمد بہ، وأخرجہ ابن عدی فی الکامل فی ضعفاء الرجال :(٤٠٢٦)فقال:ثنا محمد بن الفیض الغسانی ثنا ہشام بن مخلد بہ ، وأخرجہ أیضاابن حبان فی المجروحین(٤٣) فقال : أخبرناالحسن بن سفیان قال:حدثنا ہشام بن خالد الازرق بہ )۔
ہمارے علم کی حدتک مذکورہ حدیث کوکسی بھی محدث نے صحیح نہیں کہاہے،بلکہ کئی محدثین وباحثین نے صراحةً یااشارةً اسے ضعیف قراردیاہے،چندکے اسمائے گرامی مندرجہ ذیل ہیں:
(١):ـ ابوحاتم،محمد بن حبان التمیمی ،البستی،متوفی٣٥٤ھ۔
آپ کے نزدیک مذکورہ بالاروایت میں موجود راوی ''معاویہ بن یحیی الاطرابلسی '' ضعیف ہے،نیز آپ نے مذکورہ روایت کو،راوی مذکورکی ضعیف و منکر روایات میں شمارکیاہے،(المجروحین:٤٣)
(٢):ـ ابواحمد،عبداللہ بن عدی بن عبداللہ الجرجانی،متوفی٣٦٥ھ۔
آپ نے مذکورہ روایت کو معاویہ بن یحیی کی منکر روایات میں گنایاہے، (الکامل فی ضعفاء الرجال :١٤٣٨رقم١٨٨٦)۔
(٣):ـمحمدبن طاہرالمقدسی،متوفی٥٠٧ھ۔
آپ نے بھی ''معاویہ بن یحیی'' کوضعیف کہاہے ،آپ اس کی مرویات کوبھی ضعیف قراردیتے ہیں ،(ذخیرة الحفاظ:٣٣٨١رقم٣٥٢)نیز آپ نے بالخصوص مذکورہ روایت کوبھی ضعیف ومنکرروایات میں شمارکیاہے،(ذخیرةالحفاظ:٦٩٢ ٢رقم١٢٥٠)۔بلکہ اپنی کتاب''تذکرة الموضوعات'' میں بھی اسے نقل کیاہے،دیکھیں( تذکرة الموضوعات:باب الألف،ص٢٢،ط.مطبع السعادة،١٣٢٣)۔
(٤):ـأبوعبداللہ ،شمس الدین محمدبن احمد الذہبی، متوفی٧٤٨ھ۔
آپ نے بھی معاویہ بن یحیی الاطرابلسی کوضعیف قراردیاہے ،(دیوان الضعفائ:ص٣٩٢رقم٤١٧٥، المغنی فی الضعفاء : رقم٦٣٢٦)،آپ اس کی مرویات کوبھی ضعیف قراردیتے ہیں ،دیکھیں :(مستدرک ج٢ص١٩،دارالمعرفہ ،بیروت)نیز آپ نے بالخصوص مذکورہ روایت کوبھی ضعیف ومنکرروایات میں شمار کیاہے، (میزان الاعتدال:ج٤ص١٣٩)۔
(٥):ـ حافظ ابوالفرج عبدالرحمن بن احمد بن رجب الدمشقی،متوفی٧٩٥۔
آپ نے واضح طورپراس روایت کوضعیف قراردیاہے،اورجماعت ثانیہ کے مسئلہ میں اسے ناقابل استدلال قراردیاہے(فتح الباری لابن رجب : ج٤ص٢٥)۔
(٦):ـ علامہ انورشاہ الکاشمیری،صاحب الفیض الباری،متوفی١٣٥٢ھ۔
آپ نے حنفی ہونے کے باوجود بھی اس روایت کے راوی معاویہ کومجروح قراردے کراس روایت کے ضعیف ہونے کی طرف اشارہ کیاہے،(العرف الشذی:ج١ص٢٣٢)۔
(٧):ـ علامہ عبدالرحمن المبارکفوری،صاحب تحفة الأحوذی،متوفی١٣٥٣ھ۔
آپ نے اس روایت کوپوری صراحت کے ساتھ ضعیف قراردیاہے،اوراس پرہرلحاظ سے بحث کرکے جماعت ثانیہ کے مسئلہ میں اسے ساقط الاعتبار قراردیاہے،(تحفة الاحوذی:ج١ص١٣)۔
(٨):ـ علامہ عبیداللہ رحمانی المبارکفوری،صاحب المرعاة،متوفی١٤١٤ھ۔
آپ نے بھی اس روایت کوپوری صراحت کے ساتھ ضعیف قراردیاہے،اورجماعت ثانیہ کے مسئلہ میں اسے ساقط الاعتبار قرار دیاہے،(مرعاة المفاتیح : ج٤ص١٠٥)۔
(٩):ـ الشیخ عبداللہ بن صالح الفوزان۔
آپ نے بھی اس روایت کو ضعیف قراردیاہے،اورجماعت ثانیہ کے مسئلہ میں اسے ناقابل اعتبار قرار دیاہے،(احکام حضورالمساجد:ص١٥٢ )
(١٠):ـ الشیخ حمد بن عبد اللہ الحمد۔
آپ اس روایت کوضعیف قراردیتے ہوئے فرماتے ہیں:
وأما ما ذكروه من حديث أبي بكرة، ففيه الوليد بن مسلم وهو مدلس وقد عنعنه، وفيه علة أخرى وهو أنه من رواية معاوية بن يحيى وهو مختلف فيه توثيقاً وتضعيفاً، وله مناكير وقد ذكر ابن عدي والذهبي هذا الحديث من مناكيره.[شرح زاد المستقنع للحمد 7/ 86، بترقيم الشاملة آليا]
(١١):ـ ڈاکٹرمحمدطاہرحکیم۔
آپ نے بھی اس روایت کو ضعیف قراردیاہے،اورجماعت ثانیہ کے مسئلہ میں اسے ناقابل استدلال قرار دیاہے،(حکم تکرار الجماعة فی المسجد: ص ٨( الشاملہ))۔
(١٢):ـ ڈاکٹرابراہیم طہ القیسی،عمیدواستاذ مادة الحدیث وعلومہ المساعد،کلیة الدعوة عمان۔
(١٣):ـ ڈاکٹرحمدی محمدمراد،نائب عمیدواستاذ مادة الحدیث وعلومہ المساعد،کلیة الدعوة عمان۔
(١٤):ـ علی حسن علی الحلبی ۔
مؤخرالذکرتینوں حضرات نے مل کر ضعیف وموضوع احادیث وآثار کاایک ضخیم مجموعہ پندرہ(١٥) جلدوں میں تیارکیا ہے، اور مذکورہ روایت کو دوسری جلد میں نقل کیاہے،ملاحظہ ہو:(موسوعة الأحادیث والآثار الضعیفة والموضوعة :ج٢ص١١٥رقم٢٩٤٤)۔