’’مفتی قندیل بلوچ‘‘ کے تلوے چاٹتا میڈیا اور مسجد نبوی ﷺ کا پہلا پاکستانی امام
تحریر : محمد عاصم حفیظ
ایک بے باک اداکارہ قندیل بلوچ نے ایک بے باک مفتی صاحب کے ساتھ سیلفی کیا لی کہ ہمارے پاکستانی میڈیا کومقدس ماہ رمضان المبارک میں سب سے ہاٹ ایشو مل گیا۔ ہر چینل سبقت لیجانے کی کوششوں میں مصروف ہے کہ وہ قندیل بلوچ سے کچھ نہ کچھ راز کی بات اگلوا لے ۔ اینکرز انتہائی چالاکی سے سوالات پوچھ رہے ہیں کہ بند کمرے میں آخر ہوا کیا تھا ۔ پردے کیوں گرائے گئے تھے ۔ آپ کا روزہ تھا اور مفتی صاحب نے روزہ توڑا یا آپ کو دیکھتے ہی افطار کر ڈالا۔ خیر میڈیا کے بہت سے سوالات ہیں اور ایک ’’ ننھی جان‘‘ بیچاری قندیل بلوچ کہ جو انٹرویوز دے دے کر ہلکان ہو رہی ہے۔ بریکنگ نیوز چل رہی ہیں اور ہر زبان پر یہی موضوع سخن زیر بحث ہے۔ حتی کہ ہمارے معزز ارکان پارلیمنٹ نے بھی ملکی سلامتی کے اس ’’ اہم ترین اور حساس ‘‘ معاملے کو اٹھانے میں دیر نہیں کی ۔ مفتی صاحب عید سے پہلے ’’ اپنا چاند‘‘ دیکھنا چاہتے تھے لیکن اس چکر میں رویت ہلال کمیٹی کی رکنیت سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے ہیں ۔ میڈیا کی ذمہ داری کی انتہاتو یہ بھی ہے کہ مفتی عبدالقوی صاحب کے ’’ ایک شادی اور 17 نکاح‘‘ والے کاررنامے کو بھی خوب اچھالا جا رہا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ آنیوالے دنوں میں اس نظریے پر بھی خوب بحث ہو گی اور علمائے کرام کو بلا بلا کر پوچھا جائے گا کہ کیا اسلام میں یہ سب جائز ہے کہ نہیں ۔ جیسا کہ دیگر معاملات میں ہوتا ہے کہ بیچارے علمائے کرام کو بلایا ہی ایسے موضوعات کی وضاحت کے لئے ہے کہ جن کی تردید یا تائید دونوں صورتوں میں صرف اور صرف بدنامی ہی ہاتھ آتی ہے۔ یہ ہمارے پاکستانی میڈیا کا ایک ایسا روپ ہے کہ جس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ میڈیا کے لئے اہم کیا ہے۔ کونسے موضوعات ایسے ہیں کہ جن پر بات کرنا میڈیا والے باعث فخر سمجھتے ہیں ۔ کس طرح کسی ماڈل یا اداکارہ کی ہچکی ، سیلفی یا کسی بھی الٹی سیدھی حرکت کو ملک کا اہم ترین
مسئلہ بنا دیا جاتا ہے۔ وینا ملک کے بھارت میں کاررنامے ہوں یا میرا کی انگلش اور قابل اعتراض ویڈیوز ، ایان علی کا یونیورسٹی لیکچر ہو یا ہر عدالتی پیشی پر نت نیا ڈیزائن سوٹ ہر چیز ڈسکس ہوتی ہے اور میڈیا کا ایشو بنتی ہے ۔
تصویر کا ایک دوسرا رخ بھی ہے کہ یہی میڈیا یکسر نظر انداز کر دیتا ہے کسی بھی ایسے مسئلے کو کہ جس میں ذرا برابر بھی دینی جھلک کا اندیشہ ہو۔ یہاں دینی جماعتوں کے لاکھوں کے اجتماعات ، دینی رفاحی اداروں کی جان ہتھیلی پر رکھ کر دکھی انسانیت کی خدمت ہو یا کوئی بھی ایسی سرگرمی کہ جس سے دینی طبقے کا کچھ اچھا تاثر پیدا ہونے کا خدشہ ہو۔ میڈیا ایسے واقعات اور خبروں کو یکسر نظر انداز کر دیتا ہے۔اگر یقین نہ آئے تو حالیہ دنوں میں پاکستان کو ملنے والے ایک ایسے اعزاز کی میڈیا کوریج کے حوالے سے تحقیق کر لیں کہ جو شائد کسی اور ملک کو حاصل ہوتا تو وہاں اس کا والہانہ اور شاندار خیر مقدم کیا جاتا۔ سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو باآسانی دیکھی جا سکتی ہے کہ جس میں نبی اکرمﷺ کا پیالہ چیچنیا جیسے ملک میں پہنچتا ہے جو چند برس پہلے روس سے آزاد ہوا ہے۔ وہاں کے صدر اور عوام کی جانب سے اس پیالے کا استقبال قابل دید لمحات ہیں ۔ یہاں تو اس سے کہیں بڑا اعزاز تھا کہ ایک پاکستانی قاری القرآن الشیخ خلیل کو نبی اکرمﷺ کے مصلی کی امامت سونپی گئی تھی۔ اسلام کے نام پر حاصل کی گئی اس ارض پاک اور مسلمانوں کی اکثریت کے ہمارے ملک میں یہ اعزاز کوئی بھی خاص مقبولیت ہی حاصل نہ کر سکا۔ چند چھوٹے اخبارات نے چھوٹی چھوٹی خبریں لگائیں اور بس۔ کوئی بریکنگ نیوز نہیں چل سکی ۔ کوئی میڈیا نمائندہ اس علاقے یا خاندان کی تلاش میں نہ جا سکا کہ جہاں کے سپوت کو یہ مقدس اعزاز ملا تھا۔ کیا یہ اعزاز کسی نوبل پرائز کے برابر بھی نہ سمجھا گیا کہ جس کے ملنے پر ہمارے میڈیا ، حکومت اور سیاست پر صرف یہی ایک ایشو کئی دن ڈسکس ہوا تھا۔ شائد لبرل ہوتے پاکستان میں اب ایسی چیزوں کی کوئی اہمیت نہیں ۔مسجد نبیﷺ کی امامت کا اعزاز کسی اداکارہ کی ایک سیلفی جتنی بھی میڈیا کوریج نہیں لے سکا بلکہ شائد کسی فنکارہ کی ہچکی لینے جیسی اہمیت بھی اسے نہ دی گئی۔