• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مسجد کے آداب !

عبدالعفان

مبتدی
شمولیت
دسمبر 27، 2018
پیغامات
4
ری ایکشن اسکور
1
پوائنٹ
17
وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہ
محترم بھائی !
جیسا کہ آپ جانتے ہیں مساجد اللہ کا گھر ہیں ، اور عقیدہ توحید کے ساتھ اللہ تعالی کی عبادت کیلئے بنائی گئی ہیں ،
قرآن مجید میں ہے :
وَأَنَّ الْمَسَاجِدَ لِلَّهِ فَلَا تَدْعُوا مَعَ اللَّهِ أَحَدًا (سورۃ الجن18)
اور یہ مسجدیں صرف اللہ ہی کے لئے خاص ہیں پس اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی اور کو نہ پکارو۔
اسلئے مساجد کی تعمیر و انتظام میں صرف حلال مال ہی صرف کرنا چاہیئے
جیسا کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ تَصَدَّقَ بِعَدْلِ تَمْرَةٍ مِنْ كَسْبٍ طَيِّبٍ، وَلاَ يَقْبَلُ اللَّهُ إِلَّا الطَّيِّبَ، وَإِنَّ اللَّهَ يَتَقَبَّلُهَا بِيَمِينِهِ، ثُمَّ يُرَبِّيهَا لِصَاحِبِهِ، كَمَا يُرَبِّي أَحَدُكُمْ فَلُوَّهُ، حَتَّى تَكُونَ مِثْلَ الجَبَلِ»
(صحیح البخاری ،حدیث نمبر ۱۴۱۰ )

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص حلال کمائی سے ایک کھجور کے برابر صدقہ کرے اور اللہ تعالیٰ صرف حلال کمائی کے مال کو ہی قبول کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے اپنے داہنے ہاتھ سے قبول کرتا ہے پھر صدقہ کرنے والے کے فائدے کے لیے اس میں زیادتی کرتا ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے کوئی اپنے جانور کے بچے کو کھلا پلا کر بڑھاتا ہے حتی اس کا صدقہ (بڑھتے بڑھتے ) پہاڑ کے برابر ہو جاتا ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مطلب یہ کہ :
مساجد کی تعمیر و انتظام میں مسلمان کا حلال مال خرچ کیا جانا چاہیئے ،وہ مال حکومت دے یا عام مسلمان دیں ۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
دوسرا سوال یہ ہے کہ :

مساجد اللہ کی عبادت (جیسے نماز ،تلاوت ذکر الہی )،دینی تعلیم وتربیت ، اوردعوت اسلام اور ترویج دین کے کاموں کیلئے بنائی گئی ہیں ، ان کے علاوہ مساجد میں دنیاوی سرگرمیاں ،تفریحی پروگرام ،تجارتی کام منع ہیں ؛
جبکہ
سیاحتی مقام ان جگہوں کو کہا جاتا ہے جہاں لوگ گھومنے پھرنے اور تفریح ،وقت گزاری کیلئے جاتے ہیں ، دنیاوی باتیں یعنی گپیں ہانکنا،ہنسنا کھیلنا ،اچھل کود ،کھانا پینا وغیرہ کیلئے سیاحتی مقامات بنائے جاتے ہیں ،اور ان مقامات پر مسلم اورغیر مسلم ہر طرح کے لوگ آتے ہیں ،ایام مخصوصہ والی عورتیں ، جنبی مرد وزن (جن پر غسل فرض ہوتا ہے ) وہ بھی تفریحی مقامات پر آتے جاتے ہیں ،اسلئے مساجد کو ٹورسٹ پلیس نہ بنایا جاسکتا ہے نہ کہا جاسکتا ہے ۔

درج ذیل احادیث توجہ سے پڑھیں :
عن سالم، عن أبيه، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «لا تتخذوا المساجد طرقا إلا لذكر أو صلاة» (معجم کبیر طبرانی 13219) صحیح الجامع الصغیر
جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مسجدوں کو گزرگاہ (گزرنے کا راستہ) نہ بناؤ ، یہ مساجد تو نماز اور اللہ کے ذکر کے لئے ہیں ؛

عن عبد الله، قال: قال رسول الله صلى عليه وسلم: «سيكون في آخر الزمان قوم يكون حديثهم في مساجدهم ليس لله فيهم حاجة» ( صحیح ابن حبان 6761 )
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ قیامت کے قریب ایسے لوگ ہوں گے جو مسجدوں میں دنیا کی باتیں کریں گے ، اللہ تعالی کو ایسے لوگوں کی کوئی پرواہ نہیں ؛

عن ابي هريرة، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، ‏‏‏‏‏‏قال:‏‏‏‏ " إذا رايتم من يبيع، ‏‏‏‏‏‏او يبتاع في المسجد، ‏‏‏‏‏‏فقولوا:‏‏‏‏ لا اربح الله تجارتك، ‏‏‏‏‏‏وإذا رايتم من ينشد فيه ضالة، ‏‏‏‏‏‏فقولوا:‏‏‏‏ لا رد الله عليك ".
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم ایسے شخص کو دیکھو جو مسجد میں خرید و فروخت کر رہا ہو تو کہو: اللہ تعالیٰ تمہاری تجارت میں نفع نہ دے، اور جب ایسے شخص کو دیکھو جو مسجد میں گمشدہ چیز (کا اعلان کرتے ہوئے اسے) تلاش کرتا ہو تو کہو: اللہ تمہاری چیز تمہیں نہ لوٹائے“۔
جامع الترمذی 1321 سنن النسائی/عمل الیوم واللیلة ۶۸ (۱۷۶)

عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ بُرَيْدَةَ ، عَنْ أَبِيهِ ، أَنَّ رَجُلًا، نَشَدَ فِي الْمَسْجِدِ، فَقَالَ: مَنْ دَعَا إِلَى الْجَمَلِ الأَحْمَرِ؟ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَا وَجَدْتَ، إِنَّمَا بُنِيَتِ الْمَسَاجِدُ لِمَا بُنِيَتْ لَهُ ".
سیدنا بریدہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص نے مسجد میں پکارا اور کہا: سرخ اونٹ کی طرف کس نے پکارا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ کرے تجھے نہ ملے، مسجدیں تو جن کاموں لئے بنی ہیں ان ہی کے لئے بنی ہیں۔“

عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ بُرَيْدَةَ ، عَنْ أَبِيهِ ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، لَمَّا صَلَّى، قَامَ رَجُلٌ، فَقَالَ: مَنْ دَعَا إِلَى الْجَمَلِ الأَحْمَرِ؟ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَا وَجَدْتَ، " إِنَّمَا بُنِيَتِ الْمَسَاجِدُ لِمَا بُنِيَتْ لَهُ ".
سیدنا بریدہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھ چکے تو ایک شخص کھڑا ہوا اور کہا: سرخ اونٹ کی طرف کس نے پکارا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تیرا اونٹ نہ ملے، مسجدیں جن کاموں کے لئے بنائی گئی ہیں ان ہی کے لئے بنائی گئی ہیں۔“
(صحیح مسلم حدیث نمبر: 1263)

عَنْ عَبْدِ الْعَزِيزِ وَهُوَ ابْنُ صُهَيْبٍ ، قَالَ: سُئِلَ أَنَسٌ عَنِ الثُّومِ، فقالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَنْ أَكَلَ مِنْ هَذِهِ الشَّجَرَةِ، فَلَا يَقْرَبَنَّا، وَلَا يُصَلِّي مَعَنَا ".
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے لہسن کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص اس پودے میں سے کھائے وہ ہمارے پاس نہ آئے نہ ہمارے ساتھ نماز پڑھے۔“
(صحیح مسلم حدیث نمبر: 1250)
ــــــــــــــــــــــ
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
اس پر بھائیوں سے اپیل ہے کہ کمی و کوتاہی ہے تو راہنمائی فرمائیں جزاکم اللہ خیرا
تقریباً یہی مضمون یونیکوڈ میں فورم پر 2011 سے شائع ہے،
ــــــــــــــــــــــ
بسم اللہ الرحمن الرحیم​

Aamir

خاص رکن

مرد, 33, احمدآباد، انڈیاسے


مساجد کے کچھ احکام، مسائل اور آداب ہیں، ہم درج ذیل سطور میں پیارے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی سنت اقوال و افعال کے ذریعے کچھ مسائل و آداب تحریر کر رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ان پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے تاکہ ہماری نمازیں قبول ہوں۔ اللہ تعالیٰ کاتب، مترجم اور تمام مسلمانوں کو اس رسالے کے ذریعے خیر کثیر عطا فرمائے۔ اللہ تعالیٰ ہمارے قول و عمل میں اخلاص پیدا فرمائے آمین۔

1 فرمانِ الٰہی ہے: اِنَّمَا یَعْمُرُ مَسٰجِدَ اﷲِ مَنْ اٰمَنَ بِاﷲِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَ اَقَامَ الصَّلٰوۃَ وَ اٰتَی الزَّکٰوۃَ وَ لَمْ یَخْشَ اِلَّا اﷲَ فَعَسٰٓی اُولٰٓئِکَ اَنْ یَّکُوْنُوْا مِنَ الْمُھْتَدِیْنَ
بے شک اللہ تعالیٰ کی مساجد وہ شخص بناتا ہے جو اللہ و آخرت پر ایمان لاتا ہے۔ نماز پڑھتا اور زکوٰۃ ادا کرتا ہے اور سوائے اللہ تعالیٰ کے کسی سے نہیں ڈرتا۔ یہی لوگ ہدایت پانے والے ہیں (توبہ:)۔

2 اور فرمانِ نبوی صلی اللہ علیہ و سلم ہے: ’’آدمی کی مسجد میں نماز (باجماعت) اس کے گھر کی نماز سے اور بازار کی نماز سے پچیس گنا بڑھ کر اجروثواب والی ہوتی ہے۔ اور یہ اس لئے ہے کہ جب بندہ وضو کرے اور اچھا وضو کرے۔ پھر مسجد جائے صرف نماز کے لئے تو اس کے ہر قدم کے بدلے اللہ تعالیٰ ایک نیکی بڑھا دیتا ہے اور ایک گناہ مٹا دیتا ہے۔ اور جب تک نماز میں ہے تو اس وقت تک فرشتے اس کے لئے رحمت کی دعائیں مانگتے رہتے ہیں۔ اور اس کے مصلیٰ پر موجود ہونے تک کہتے رہتے ہیں کہ اے اللہ اس پر رحمت و برکت نازل فرما۔ اور جب تک کوئی نماز کا منتظر رہے تو وہ بھی نماز میں ہی ہے (بخاری و مسلم)۔

3 فرمانِ الٰہی ہے: یٰبَنِیْٓ ادَمَ خُذُوْا زِیْنَتَکُمْ عِنْدَ کُلِّ مَسْجِدٍ وَّ کُلُوْا وَاشْرَبُوْا وَ لَا تُسْرِفُوْا اِنَّہٗ لَا یُحِبُّ الْمُسْرِفِیْنَ (الاعراف:)۔
اے بنی آدم! مسجد میں جاتے وقت زیب و زینت کو اپناؤ۔ کھاؤ پیو لیکن فضول خرچی نہ کرو۔ اللہ تعالیٰ فضول خرچی کو پسند نہیں فرماتا‘‘۔

4 رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: ’’بے شک اللہ تعالیٰ خوبصورت ہے اور خوبصورتی کو پسند فرماتا ہے۔ تکبر حق بات کو ٹھکرانے اور لوگوں کو حقیر سمجھنے کا نام ہے‘‘(صحیح مسلم)۔

5 رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: ’’جب تم نماز پڑھو تو دونوں لباس پہنو بے شک اللہ تعالیٰ کے لئے زینت اختیار کرنا زیادہ ضروری ہے (یعنی شلوار قمیض دونوں پہنو یا مکمل لباس پہنو)۔ (سلسلۃ الصحیحہ۔ طبرانی)۔

6 رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: ’’تم میں سے جب کوئی جمائی لے تو اپنے منہ کو ہاتھ سے ڈھانپ دے۔ کیونکہ شیطان داخل ہو جاتا ہے‘‘ (صحیح مسلم)۔ (مراد ہے جراثیم اور بیماریوں والے وائرس نہ داخل ہوں۔ از مترجم)۔

7 فرمایا: ’’جو شخص یہ سبزی (کچی پیاز) کھائے وہ ہماری مسجدوں میں نہ آئے‘‘۔ (یعنی بدبودار مہک پیدا ہوتی ہے جس سے نمازیوں کو تکلیف ہوتی ہے۔ اسی طرح سگریٹ، نسوار، گٹکے سے بھی بدبو ہوتی ہے۔ از مترجم)۔

8 فرمایا: ’’اگر میری اُمت پر مشکل نہ ہوتا تو میں ہر نماز کے لئے مسواک کرنے کا حکم دیتا۔ (بخاری)۔ مزید فرمایا:’’مسواک منہ کی پاکیزگی اور رَبّ کی رضامندی ہے‘‘ (نسائی)۔

9 فرمایا: ’’اذان اور اقامت کے درمیان دعائیں رَدّ نہیں ہوتیں۔ لہٰذا دُعا مانگا کرو‘‘ (بخاری)۔

10 فرمایا: ’’جب امام (نماز میں) آمین کہے تو تم بھی آمین کہوبے شک جس کی آمین فرشتوں کی آمین سے مل گئی تو اس کے پچھلے تمام گناہ معاف ہوں گے‘‘۔ (بخاری و مسلم)۔

11۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: ’’کیا میں تمہیں خبر نہ دوں کہ کونسی چیز خطاؤں کو مٹانے اور درجات کو بڑھانے والی ہے؟ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کی! جی ہاں اے اللہ کے رسولصلی اللہ علیہ و سلم ۔ تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: تکلیف کے وقت مکمل وضو کرنا، مساجد کی طرف کثرت سے قدم بڑھانا، ایک نماز کے بعد دوسری نماز کا انتظار کرنا، یہی تو رباط ہے‘‘ (مسلم)۔

12۔ فرمایا: ’’نماز کا سب سے زیادہ اجر لینے والے وہ لوگ ہیں جو سب سے زیادہ دور سے چل کر آتے ہیں۔ جو شخص نماز کا انتظار کرتا رہتا ہے تاکہ وہ امام کے ساتھ پڑھ سکے، وہ نماز (اکیلے میں) پڑ کر سو جانے والے سے بہت زیادہ اجر والا ہے‘‘ (صحیح مسلم)۔

13۔ فرمایا: ’’جو لوگ دنیا میں مسجد کی طرف اندھیرے میں چل کر آتے ہیں، ان کو قیامت کے دن مکمل نور کی خوشخبری سنا دو‘‘ (صحیح مسلم)۔

14۔ فرمان نبوی صلی اللہ علیہ و سلم ہے: ’’جب تم اقامت سنو تو نماز کی طرف چل پڑو۔ لیکن سکون و وقار کو ملحوظ خاطر رکھو۔ تیز تیز دوڑ کر نہ آؤ۔ جو نماز مل جائے وہ پڑھ لو اور جو فوت ہو جائے وہ مکمل کر لو۔(بخاری و مسلم)۔

15۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: ’’جب کوئی شخص بہترین وضو کر کے مسجد کی طرف نکلتا ہے تو اپنے ہاتھوں کی انگلیوں کو باہم نہ ملائے کیونکہ وہ نماز میں ہے (ابوداؤد، صححہ الالبانی)۔ (یعنی کہ وہ نماز میں ہے لہٰذا کوئی فضول کام نہ کرے)۔

16۔ فرمایا: ’’تم میں جو عقلمند اور فہم و فراست والے ہیں وہ نماز میں میرے قریب کھڑے ہوں۔ پھر ان کے بعد والے پھر ان کے بعد والے (صحیح مسلم)۔ یعنی پڑھے لکھے سمجھدار لوگ امام کے قریب کھڑے ہوں۔ (ازمترجم)۔

17۔ اُمّ المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: ’’نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم ہر ممکن کوشش کر کے دائیں طرف کو پسند کرتے تھے۔ مثلاً وضو کرتے ہوئے، کنگھی کرتے ہوئے اور جوتا پہنتے ہوئے‘‘(بخاری)۔

18۔ فرمایا: ’’جب کوئی مسجد میں داخل ہو تو کہے: اَللّٰھُمَّ افْتَحْ لِیْ اَبْوَابَ رَحْمَتِکَ اور جب نکلے تو کہے: اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَسْئَلُکَ مِنْ فَضْلِکَ (مسلم) ۔

19۔ فرمایا: ’’اگر لوگ جان لیں کہ اذان دینے اور صف اول میں کھڑا ہونے کا کیا اجر ہے تو ضرور وہ قرعہ اندازی کر کے اس عمل میں حصہ لیں۔ اگر لوگ جان لیں کہ جلد نماز کے لئے جانے اور عشاء و فجر کا کیا اجر و ثواب ہے تو اگر ان کو گھسٹ گھسٹ کر آنا پڑے تو بھی ضرور آئیں۔

20۔ فرمایا: ’’مسجد نبوی صلی اللہ علیہ و سلم میں نماز پڑھنا ایک ہزار نمازوں سے بڑھ کر یا اس جیسی ہے۔ یہ اہمیت مسجد حرام کے علاوہ تمام مساجد کے بارے میں ہے‘‘ (بخاری و مسلم)۔

21۔ فرمایا: ’’جب کوئی مسجد میں داخل ہو تو بیٹھنے سے پہلے دو رکعت ضرور پڑھے‘‘ (بخاری و مسلم)۔

22۔ فرمایا: ’’جب نماز کھڑی ہو جائے تو فرض نماز کے علاوہ کوئی اور نماز نہیں ہو سکتی‘‘۔ یعنی سنت و نوافل نہیں پڑھے جا سکتے۔ (صحیح مسلم)۔

23۔ فرمایا: ’’جب کوئی نماز پڑھنے لگے تو اپنے سترے کے قریب ہو کر پڑھے۔ اور کسی کو اپنے آگے سے گذرنے نہ دے۔ اگر کوئی گذرے تو اس کو روک دے کیونکہ وہ شیطان ہے‘‘ (ابوداؤد)۔

24۔ فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے پسندیدہ جگہ مسجد اور سب سے ناپسندیدہ جگہ بازار ہے‘‘۔ (مسلم)۔

25۔ فرمایا: ’’بے شک یہ مساجد اس قسم کے پیشاب پاخانے کیلئے نہیں بنائی گئیں۔ بے شک یہ تو اللہ تعالیٰ کے ذکر کے لئے بنائی گئی ہیں۔ اور نماز و قرآن کے لئے بنائی گئی ہیں۔ (بخاری و مسلم)۔

26۔ فرمایا: ’’جب تم دیکھو کہ کوئی شخص مسجد میں خرید و فروخت کر رہا ہے تو کہو: اللہ تمہاری تجارت میں فائدہ نہ پہنچائے۔ اور کوئی گمشدہ چیز کا اعلان کر رہا ہو تو کہو کہ اللہ تعالیٰ تمہیں نہ لوٹائے‘‘۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:’’اپنی صفوں کو سیدھا کرو، بے شک صفوں کا سیدھا کرنا نماز کو مکمل کرتا ہے۔(بخاری و مسلم)۔

27۔ سیدنا ابومسعود بدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ہمارے کندھوںپر ہاتھ رکھ کر فرماتے:’’سیدھے ہو جاؤ، باہم اختلاف نہ کرو، وگرنہ اللہ تعالیٰ تمہارے دلوں میں اختلاف ڈال دے گا‘‘۔

28۔ سیدنا نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: ’’تم لازماً صفوں کو برابر کرو وگرنہ اللہ تمہارے اندر اختلاف ڈال دے گا‘‘(بخاری و مسلم)۔

29۔ فرمایا: ’’صفوں کو سیدھا کرو، کندھوں کو برابر کرو، ایک دوسرے کے درمیان خلل کو بند کرو۔ اور شیطان کے لئے راستہ نہ چھوڑو۔ جو صف کو ملاتا ہے اللہ تعالیٰ اس کو ملاتا ہے۔ اور جو صفوں کو قطع کرتا ہے، اللہ تعالیٰ اُس کو قطع کر دیتا ہے‘‘۔ (ابوداؤد، نسائی۔ صححہ الالبانی)۔

30۔ فرمایا: ’’بے شک اللہ تعالیٰ اور فرشتے ان لوگوں پر رحمت بھیجتے ہیں جو صفوں کو ملاتے ہیں‘‘۔

31۔ فرمایا: ’’امام بنایا ہی اس لئے جاتا ہے کہ تاکہ تم اس کی اقتداء کرو، جب وہ تکبیر کہے تو تم تکبیر کہو اور جب وہ قرأ ت شروع کرے تو تم خاموش ہو جاؤ‘‘ (صحیح مسلم)۔

32۔ فرمایا: ’’جو شخص سورہ فاتحہ نہیں پڑھتا اس کی نماز نہیں ہوتی‘‘ (بخاری و مسلم)۔

33۔ فرمایا: ’’اکیلے نماز پڑھنے کے مقابلے میں جماعت کے ساتھ نماز پڑھنا 27 گنا زیادہ فضیلت والا ہے‘‘۔ (بخاری و مسلم)۔

34۔ سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے مسجد میں اعتکاف کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم اپنے خیمے میں تھے کہ آپ نے سنا لوگ اونچی آواز سے قرأ ت کر رہے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے خیمے کا پردہ ہٹایا اور فرمایا: خبردار تم میں سے ہر شخص اپنے رب کے ساتھ مناجات کر رہا ہے لہٰذا کوئی کسی کو تکلیف نہ دے۔ اور اپنی قرأ ت کی آواز بلند نہ کرے‘‘۔ (مسند احمد، سلسلۃ الصحیحہ)۔

34۔ فرمایا: ’’ہر مسلمان پر لازم ہے کہ وہ سات دنوں میں سے ایک دن نہائے۔ سر اور جسم کو دھوئے (بخاری و مسلم)۔

35۔ فرمایا: ’’جو شخص جمعۃ المبارک کے لئے آئے وہ غسل کرے‘‘ (بخاری و مسلم)۔

36۔ فرمایا: ’’جو شخص بہتر طریقے سے وضو کرے، پھر جمعہ کے لئے آئے، کان لگا کر سنے، خاموش رہے، تو اس کو اگلے جمعے تک مزید تین دن تک بخش دیا جائے گا (صغیرہ گناہوں کو) اور جو کنکریوں سے کھیلتا رہا تو اس نے لغو (اور فضول) کام کیا‘‘ (مسلم)۔

37۔ فرمایا: ’’اپنی عورتوں کو مسجد جانے سے نہ روکو۔ اور ان کے گھر ان کے لئے بہتر ہیں‘‘ (ابوداؤد، مسند احمد)۔

38۔ فرمایا: ’’جب کوئی عورت مسجد میں آئے تو وہ خوشبو نہ لگائے‘‘۔

39۔ فرمایا: ’’مردوں کی پہلی صف بہترین ہے اور آخری بدتر ہے۔ عورتوں کی آخری صف اچھی ہے اور پہلی صف بدتر ہے‘‘ (مسلم)۔

40۔ فرمایا: ’’جب کوئی نماز پڑھے تو اپنے آگے کوئی چیز بطور سترہ رکھ لے جیسا کہ سواری کا پالان ہوتا ہے۔ اگر کوئی سترہ نہ ہو تو نماز کو گدھا، عورت اور سیاہ کتا قطع کر سکتا ہے‘‘۔ (راوی) میں نے ابوذر سے سوال کیا کہ یہ کالے کتے کو لال پیلے کتوں سے علیحدہ کیوں کیا گیا ہے؟ تو ابوذر نے فرمایا: ’’میں نے بھی آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے یہ سوال پوچھا تھا، تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا تھا: ’’کالا کتا شیطان ہوتا ہے‘‘ (صحیح مسلم)۔

اصل مضمون نگار : مساجد کا حکم۔ مسجد میں جانے کے آداب
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
مساجد کی فضیلت، احکام اور ہماری ذمہ داریاں

مقرر جسٹس عبد المحسن بن محمد القاسم
ترجمہ: شفقت الرحمن مغل

اللہ تعالی نے اپنی مخلوقات کو درجہ بندیوں میں تقسیم فرمایا کر اپنے فضل سے جسے چاہا اپنا بنایا، اور ہمیں نصوص کی روشنی میں فضیلتوں کو جاننے اور ان سے متعلقہ مشروع عبادات کی تعمیل پر پابند کیا، یہ حقیقت میں مسلمان کیلیے فضیلتوں والے اعمال بجا لانے اور بلند درجات پر فائز ہونے کیلیے بڑھ چڑھ کر حصہ لینے کی ترغیب ہے، مخلوق میں درجہ بندی کا معیار تقوی اور بندگی پر ہے، ہم جنس افراد کی درجہ بندی بہت زیادہ متفاوت بھی ہو سکتی ہے جیسے کہ آپ ﷺ نے دو آدمیوں کے متعلق فرمایا: (یہ شخص اُس شخص جیسے زمین بھر افراد سے بھی بہتر ہے) بخاری
زمین کے درجے بھی اسی طرح ہیں، چنانچہ اللہ تعالی کے ہاں محبوب ترین مقام عبادت کے مقام ہیں، آپ ﷺ کا فرمان ہے: (اللہ تعالی کے ہاں محبوب ترین جگہیں: مساجد ہیں) مسلم؛ اس کی وجہ یہ ہے کہ: ان جگہوں پر عبادات اور اذکار کئے جاتے ہیں ، مومن جمع ہوتے ہیں، اور شعائرِ دین پر عمل ہوتا ہے۔
معزز اور محترم ترین مسجد؛ مسجد الحرام ہے، یہ دنیا کی سب سے پہلی مسجد اور لوگوں کیلیے مینارِ ہدایت ہے: {إِنَّ أَوَّلَ بَيْتٍ وُضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِي بِبَكَّةَ مُبَارَكًا وَهُدًى لِلْعَالَمِينَ}بیشک لوگوں کیلیے مکہ میں بنایا گیا پہلا گھر بابرکت اور جہانوں کیلیے باعثِ ہدایت ہے۔ [آل عمران: 96] اللہ تعالی نے اس مسجد کا حج اور طواف واجب کیا اور اسے مومنوں کا قبلہ قرار دیا، یہاں ایک نماز دیگر مساجد کی نمازوں سے ایک لاکھ گنا بہتر ہے۔
دوسری افضل ترین مسجد آپ ﷺ کی مسجد ہے، مسجد نبوی کی بنیاد پہلے دن سے ہی تقوی پر رکھی گئی : (
میری اس مسجد میں ایک نماز مسجد الحرام کے علاوہ دیگر مساجد کی نمازوں سے ہزار گنا بہتر ہے) متفق علیہ ، یہ کسی بھی نبی کی تعمیر شدہ آخری مسجد ہے ۔

مسجد اقصی قبلہ اول اور رسول اللہ ﷺ کی جائے اسراء ہے، اس مسجد کی بنیاد مسجد الحرام کے بعد رکھی گئی۔
صرف انہی تین مساجد کی جانب ثواب کی نیت سے سفر کرنا جائز ہے، آپ ﷺ کا فرمان ہے: (
تین مسجدوں کے علاوہ کسی بھی مسجد کی جانب رخت سفر باندھنا جائز نہیں ہے: میری یہ مسجد، مسجد الحرام اور مسجد اقصی) متفق علیہ

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں: "تمام اہل علم کے مطابق ان تین مساجد کے علاوہ کسی بھی مسجد کی جانب ثواب کی نیت سے سفر کرنا مشروع نہیں ہے"
مسجد قباء کی بنیاد بھی پہلے دن سے ہی تقوی پر ہے، نبی ﷺ : (ہر ہفتے پیدل یا سوار ہو کر مسجد قباء آتے تھے) بخاری، اور ایک روایت میں ہے: (جو شخص اپنے گھر سے وضو کرے اور پھر مسجد قباء آ کر نماز پڑھے تو اس کیلیے عمرے کا اجر ہو گا) ابن ماجہ
اس دھرتی پر حرمین ، مسجد اقصی اور مسجد قباء کے علاوہ کسی مسجد کی کوئی خاص فضیلت نہیں ہے، دیگر تمام مساجد کا حکم عام مساجد والا ہے۔
یہ مسجدیں ، بیوت اللہ ہیں، اللہ تعالی نے انہیں اپنی جانب ان کے اعزاز اور شرف کی وجہ سے منسوب فرمایا، ان کا تذکرہ بار بار کیا، مساجد آباد کرنے والے چنیدہ انبیائے کرام اور ان کے پیروکار ہوتے ہیں، فرمانِ باری تعالی ہے: {
وَإِذْ يَرْفَعُ إِبْرَاهِيمُ الْقَوَاعِدَ مِنَ الْبَيْتِ وَإِسْمَاعِيلُ}اور جب ابراہیم اور اسماعیل کعبہ کی بنیادیں اٹھا رہے تھے۔[البقرة: 127] نبی ﷺ جیسے ہی قباء پہنچے تو پہلے مسجد قباء بنائی اور پھر جب مدینہ پہنچے تو اپنی مسجد تعمیر فرمائی۔

اللہ تعالی نے مساجد کی سلامتی اور تحفظ کو یقینی بنانے کیلیے لوگوں کو ایک دوسرے سے ہٹائے رکھا، فرمانِ باری تعالی ہے: {وَلَوْلَا دَفْعُ اللَّهِ النَّاسَ بَعْضَهُمْ بِبَعْضٍ لَهُدِّمَتْ صَوَامِعُ وَبِيَعٌ وَصَلَوَاتٌ وَمَسَاجِدُ يُذْكَرُ فِيهَا اسْمُ اللَّهِ كَثِيرًا} اگر اللہ تعالی لوگوں کو آپس میں ایک دوسرے سے نہ ہٹاتا رہتا تو عبادت خانے ،گرجے ،یہودیوں کے معبد خانے اور وہ مسجدیں بھی ڈھا دی جاتیں جہاں اللہ کا نام با کثرت لیا جاتا ہے۔ [الحج: 40]
مساجد بنانا اطاعت اور عبادت ہے، اللہ تعالی نے مسجد بنانے والے سے جنت کا وعدہ فرمایا، آپ ﷺ کا فرمان ہے: (جس نے اللہ کیلیے مسجد بنائی، اللہ تعالی اس کیلیے جنت میں ویسا ہی گھر بناتا ہے) متفق علیہ
مسجد جانے والے کو بھی اجر عظیم ملتا ہے ، آپ ﷺ کا فرمان ہے: (اس کیلیے ہر قدم کے بدلے میں نیکی ہے، اللہ تعالی اس کا ایک درجہ بلند اور اس کی ایک برائی مٹا دیتا ہے) مسلم
بلکہ مسجد سے واپس گھر آتے ہوئے بھی اسی طرح نیکیاں لکھی جاتی ہیں، ایک آدمی نے آپ ﷺ سے عرض کیا: "میں چاہتا ہوں کہ میرا مسجد جانا اور مسجد سے واپس گھر آنا دونوں ہی بطورِ ثواب لکھا جائے" تو آپ ﷺ نے فرمایا: (اللہ تعالی نے تمہارے لیے یہ سب کچھ لکھ دیا ہے) مسلم
مساجد کی جانب زیادہ سے زیادہ چل کر جانا اور مساجد میں نمازوں کا انتظار کرنا رباط [راہِ الہی میں پہرہ] دینے کے مترادف ہے، (جو شخص صبح کے وقت مسجد جائے یا شام کے وقت، وہ جب بھی صبح یا شام کو مسجد جاتا ہے تو اللہ تعالی اس کیلیے جنت میں مہمان نوازی کی تیاری فرماتا ہے) متفق علیہ
(نماز کیلیے جو جتنا دور سے چل کر آئے گا اس کا اجر بھی اتنا ہی زیادہ ہو گا، اور امام کے ساتھ نماز ادا کرنے کیلیے انتظار کرنے والے کا اجر اس شخص سے زیادہ ہے جو [تنہا] نماز پڑھ کر سو جائے ) متفق علیہ
مسجدوں کی جانب چل کر جانا بھی گناہوں کی بخشش کا باعث ہے، آپ ﷺ کا فرمان ہے: (جو شخص نماز کیلیے اچھی طرح وضو کرے اور فرض نماز ادا کرنے کیلیے چلے پھر لوگوں کے ساتھ یا جماعت کے ساتھ یا مسجد میں [اکیلے]نماز ادا کرے تو اللہ تعالی اس کے گناہ بخش دیتا ہے) مسلم
مسجد جانے کی پابندی اور مسجد سے لگاؤ: ہدایت اور بہتری کا باعث ہے، جن سات لوگوں کو اللہ تعالی اپنا سایہ نصیب فرمائے گا جب اس کے سائے کے علاوہ کسی کا سایہ نہیں ہوگا، ان میں وہ شخص بھی ہے: (جس کا دل مسجد کے ساتھ اٹکا ہوا ہے) مسلم، امام نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں: "اس کا مطلب یہ ہے کہ اسے مسجد کے ساتھ سخت لگاؤ تھا اور وہ مسجد میں نماز با جماعت کا اہتمام کرتا تھا"
(مسجد میں داخل ہونے کے بعد مسلمان اس وقت تک نماز کی حالت میں ہوتا ہے جب تک نماز اسے مسجد میں روکے رکھے، اور جب تک وہ اپنی جائے نماز پر بیٹھا رہے تو اس کیلیے فرشتے دعائیں کرتے ہوئے کہتے ہیں: یا اللہ! اسے بخش دے، یا اللہ! اس پر رحم فرما) بخاری
سابقہ امتوں میں بھی مساجد کا مقام بہت بلند تھا، اللہ تعالی نے ابراہیم اور اسماعیل علیہما السلام کو مسجد الحرام کی صفائی ستھرائی کا حکم دیا: {وَعَهِدْنَا إِلَى إِبْرَاهِيمَ وَإِسْمَاعِيلَ أَنْ طَهِّرَا بَيْتِيَ لِلطَّائِفِينَ وَالْعَاكِفِينَ وَالرُّكَّعِ السُّجُودِ} ہم نے ابراہیم اور اسماعیل سے وعدہ لیا کہ تم میرے گھر کو طواف اور رکوع و سجود کرنے والوں کے لیے پاک صاف رکھو گے [البقرة: 125] جناب عمران کی اہلیہ نے بھی اپنے نو مولود کی مسجد اقصی کی خدمت کیلیے نذر مانی تھی: {رَبِّ إِنِّي نَذَرْتُ لَكَ مَا فِي بَطْنِي مُحَرَّرًا} پروردگار! میں نے نذر مانی ہے کہ جو کچھ میرے بطن میں ہے وہ[مسجد اقصی کی خدمت کیلیے] آزاد ہے۔[آل عمران: 35]
اسلام نے بھی مسجد کو خوب مقام و مرتبہ دیا، اور خادمِ مسجد کی عزت افزائی فرمائی، چنانچہ نبی ﷺ نے مسجد میں جھاڑو دینے والی خاتون کے بارے میں استفسار کیا تو صحابہ نے کہا: "وہ تو فوت ہو گئی ہے" تو آپ ﷺ نے فرمایا: (مجھے اس کی قبر بتلاؤ) تو صحابہ کرام نے آپ کی قبر بتلا دی، تو نبی ﷺ نے اس کا جنازہ پڑھا ۔ بخاری
جس وقت دیہاتی شخص نے مسجد میں پیشاب کیا تو آپ ﷺ نے پانی کا ایک ڈول اس پر بہانے کا حکم دیا، پھر اسے مسجد میں پیشاب کی حرمت بھی بتلائی اور فرمایا: (مسجدوں میں بول و براز کرنا بالکل بھی درست نہیں) مسلم
مسجد میں آنے کے آداب میں یہ شامل ہے کہ اچھے لباس کے ساتھ آئیں، فرمانِ باری تعالی ہے: {يَابَنِي آدَمَ خُذُوا زِينَتَكُمْ عِنْدَ كُلِّ مَسْجِدٍ} اے بنی آدم ! جب بھی کسی مسجد میں جاؤ تو آراستہ ہو کر جاؤ [الأعراف: 31] مسجد کے آداب میں یہ بھی شامل ہے کہ مسجد میں آ کر سکون اور وقار کے ساتھ رہے اور چلے، آپ ﷺ کا فرمان ہے: (جب نماز کی اقامت ہو جائے تو دوڑتے ہوئے مسجد نہ آؤ، بلکہ پر وقار انداز سے چلو، نماز کا جو حصہ مل جائے وہ پڑھ لو اور جو رہ جائے وہ پورا کر لو) متفق علیہ
جب مسجد میں داخل ہو تو مسجد کے احترام میں پہلے اپنا دایاں قدم رکھے ، اور چونکہ مسجد عبادت، رحمت اور دعا کی جگہ ہے اس لیے داخل ہوتے وقت کہے: (اَللَّهُمَّ افْتَحْ لِيْ أَبْوَابَ رَحْمَتِكَ)[یا اللہ! میرے لیے اپنی رحمت کے دروازے کھول دے] اور جب باہر نکلے تو کہے: (اَللَّهُمَّ إِنِّيْ أَسْأَلُكَ مِنْ فَضْلِكَ) [یا اللہ! میں تجھ سے تیرا فضل مانگتا ہوں]مسلم
اور تحیۃ المسجد کیلیے (اس وقت تک کوئی نہ بیٹھے جب تک دو رکعت نہ پڑھ لے)
مسجد میں اذان دی جائے تو یہ تحفظ اور امان کا باعث ہے؛ کیونکہ نبی ﷺ غزوے کے دوران اذان کی آواز کیلیے کان لگاتے، چنانچہ اگر اذان کی آواز سنائی دیتی تو حملہ نہ کرتے، وگرنہ حملہ کر دیتے تھے۔
اگلی صفوں کیلیے سبقت کرنے والے ہی کوشش کرتے ہیں، آپ ﷺ کا فرمان ہے: (
اگر لوگوں کو اذان اور پہلی صف کا اجر معلوم ہو جائے تو انہیں قرعہ اندازی کے علاوہ کوئی راستہ نظر نہ آئے گا اور وہ اس پر قرعہ اندازی بھی کر گزریں) مسلم

فرض نماز کے احترام میں : (جب جماعت کھڑی ہو جائے تو فرض نماز کے علاوہ کوئی نماز نہیں ہوتی) مسلم
نبی ﷺ نے مساجد کی آباد کاری کا مقصد بیان کرتے ہوئے فرمایا: (بیشک مساجد ذکرِ الہی، نماز اور تلاوتِ قرآن کیلیے ہیں) مسلم
مساجد کی آباد کاری ذکر اور علم کے ذریعے ہو گی:{فِي بُيُوتٍ أَذِنَ اللَّهُ أَنْ تُرْفَعَ وَيُذْكَرَ فِيهَا اسْمُهُ} ان گھروں میں جن کے بلند [یعنی آباد]کرنے اور جن میں اپنے نام کی یاد کا اللہ تعالی نے حکم دیا ہے [النور: 36] اللہ تعالی نے مسجدوں کو نیکیوں سے آباد کرنے والوں کی تعریف فرمائی اور یہ اعزاز بخشا کہ اللہ تعالی نے انہیں دنیا کے فتنے سے محفوظ فرما لیا ہے: {يُسَبِّحُ لَهُ فِيهَا بِالْغُدُوِّ وَالْآصَالِ(36) رِجَالٌ لَا تُلْهِيهِمْ تِجَارَةٌ وَلَا بَيْعٌ عَنْ ذِكْرِ اللَّهِ وَإِقَامِ الصَّلَاةِ وَإِيتَاءِ الزَّكَاةِ يَخَافُونَ يَوْمًا تَتَقَلَّبُ فِيهِ الْقُلُوبُ وَالْأَبْصَارُ } ان میں ایسے لوگ جو صبح و شام اس کی تسبیح کرتے ہیں [36]وہ ایسے لوگ ہیں جنہیں تجارت اور خرید و فروخت ذکرِ الہی، نماز کی پابندی اور زکاۃ کی ادائیگی سے غافل نہیں کرتیں، وہ اس دن سے ڈرتے ہیں جس دن قلب و بصر پھر جائیں گے۔ [النور: 36] بلکہ ان کیلیے مومن اور ہدایت یافتہ ہونے کی گواہی بھی دی فرمانِ باری تعالی ہے: { إِنَّمَا يَعْمُرُ مَسَاجِدَ اللَّهِ مَنْ آمَنَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَأَقَامَ الصَّلَاةَ وَآتَى الزَّكَاةَ وَلَمْ يَخْشَ إِلَّا اللَّهَ فَعَسَى أُولَئِكَ أَنْ يَكُونُوا مِنَ الْمُهْتَدِينَ} اللہ کی مساجد کو آباد کرنا تو اس کا کام ہے جو اللہ پر اور آخرت کے دن پر ایمان لائے، نماز قائم کرے، زکاۃ ادا کرے اور اللہ کے سوا کسی سے نہ ڈرے، امید ہے کہ ایسے ہی لوگ ہدایت یافتہ ہوں گے [التوبہ: 18]
فرشتے بھی مسجدوں میں آتے ہیں اور خطبہ سنتے ہیں ، نیز مسجدوں میں قائم ہونے والی علمی مجلسوں کو اپنے گھیرے میں لے لیتے ہیں (اللہ تعالی کے کسی گھر میں لوگ جمع ہو ں، قرآن مجید کی تلاوت کریں، قرآن کریم کا باہمی مذاکرہ کریں تو ان پر سکینت نازل ہوتی ہے، انہیں رحمت ڈھانپ لیتی ہے اور فرشتے انہیں اپنی لپیٹ میں لے لیتے ہیں، نیز اللہ تعالی ان کا اپنے ہاں تذکرہ فرماتا ہے ) مسلم
مسجدوں میں حصولِ علم متاعِ دنیا سے افضل ہے، آپ ﷺ کا فرمان ہے: (تم میں سے کوئی مسجد جا کر علم حاصل کیوں نہیں کرتا یا قران کریم کی دو آیتیں ہی کیوں نہیں پڑھتا!؟ یہ دو آیتیں اس کیلیے دو اونٹنیوں سے بہتر ہیں، تین آیات تین اونٹنیوں سے بہتر ہیں، چار آیات چار اونٹنیوں سے بہتر ہیں ، جتنی آیات اتنی ہی اونٹنیوں سے بہتر ہیں) مسلم
نبی ﷺ نے اپنی مسجد کو تعلیم کیلیے استعمال کیا جس کے نتیجے میں ایسی کھیپ تیار ہوئی جس کا ثانی نہ کوئی تھا اور نہ ہی ہو گا، آپ ﷺ مسجد نبوی میں علم اور ذکر کے حلقوں میں شامل ہونے کی ترغیب دیتے تھے، آپ ﷺ نے تین لوگوں کے بارے میں فرمایا: (ان میں سے ایک اللہ کی پناہ میں چلا گیا تو اللہ تعالی نے اسے پناہ دے دی، دوسرا حیا کر گیا تو اللہ تعالی نے بھی اس سے حیا کر لی، اور تیسرے شخص نے اعراض کیا تو اللہ تعالی نے بھی اس سے اعراض کر لیا) متفق علیہ
مساجد میں روح کو سکون اور چین ملتا ہے، اس لیے مساجد میں چیخنا چلانا، لڑائی جھگڑا کرنا یا شور مچانا جائز نہیں ہے، نبی ﷺ کا فرمان ہے: (مسجد میں اپنے آپ کو بازاری شور سے بچاؤ) مسلم، یہی وجہ ہے کہ جس وقت عمر رضی اللہ عنہ نے کسی کو مسجد میں آواز بلند کرتے ہوئے سنا تو انہیں بلا کر فرمایا: (اگر تم یہاں کے رہائشی ہوتے تو سخت سزا دیتا، تم رسول اللہ ﷺ کی مسجد میں آوازیں بلند کرتے ہو؟!) بخاری
مسجدیں امن و امان اور اطمینان کی جگہیں ہیں، آپ ﷺ نے فرمایا: (جو بھی ہماری مسجد یا بازار میں نیزہ لیکر گزرے تو وہ اس کے پھل سے پکڑ لے تاکہ کسی مسلمان کو زخمی نہ کر دے) متفق علیہ
مسجد میں عبادت کرنے والے کی اتنی شان ہے کہ اسے چھو کر بھی اذیت دینا جائز نہیں، چنانچہ ایک شخص جمعہ کے دن لوگوں کی گردنیں پھلانگتے ہوئے آیا تو آپ ﷺ نے اسے فرمایا: (بیٹھ جاؤ تم ایذا پہنچا رہے ہو) ابو داود
بلکہ بد بو سے بھی مسجد میں عبادت کرنے والے کو تکلیف دینا جائز نہیں، آپ ﷺ نے ایسے شخص کو بطورِ سزا مسجد میں جانے سے روک دیا جس میں سے بد بو آ رہی ہو، آپ ﷺ کا فرمان ہے: (جو شخص لہسن یا پیاز کھائے تو وہ ہم سے دور رہے یا ہماری مسجد سے دور رہے اور گھر بیٹھا رہے) متفق علیہ ، ابن اثیر رحمہ اللہ کے مطابق: "یہ ممانعت بطور عذر نہیں ،بلکہ مسجد سے دوری کا حکم بطورِ سزا ہے"
مسجدیں راحت اور آخرت یاد کرنے کی جگہیں ہیں یہاں پر دنیا داری سے کٹ کر اللہ تعالی کے ساتھ تعلق مضبوط کیا جاتا ہے؛ اسی لیے مسجدوں میں خرید و فروخت منع ہے، بلکہ اس پر ڈانٹ بھی پلائی گئی، آپ ﷺ کا فرمان ہے: (جب تم کسی کو مسجد میں خرید و فروخت کرتے ہوئے دیکھو تو کہو: اللہ تمہاری تجارت میں نفع نہ دے) ترمذی
مزید برآں مسجد میں دنیاوی پریشانیوں میں مشغول ہونے سے بھی روکا اور فرمایا: (جو شخص مسجد میں کسی کو اپنی گم شدہ چیز کا اعلان کرتے ہوئے سنے تو اسے کہہ دے: اللہ تمہاری چیز نہ لوٹائے، مسجدیں اس لیے نہیں بنائی گئیں!) مسلم
چونکہ مسجدیں سعادت مندی اور راہِ راست کا منبع ہیں اسی لیے آپ ﷺ : (جب آپ سفر سے آتے تو سب سے پہلے مسجد میں نماز ادا کرتے) بخاری
ہر مسلمان کی اولین ذمہ داری ہے کہ صرف ایک اللہ کی بندگی کرے اور مسجد کے اندر یا مسجد سے باہر کہیں بھی اللہ کے سوا کسی کو نہ پکارے، فرمانِ باری تعالی ہے: {وَأَنَّ الْمَسَاجِدَ لِلَّهِ فَلَا تَدْعُوا مَعَ اللَّهِ أَحَدًا} اور بے شک مساجد اللہ کیلیے ہیں، کسی کو بھی اللہ کے ساتھ مت پکارو۔[الجن: 18] نیز مسجد زندہ لوگوں کے مستفید ہونے کی جگہ ہے؛ لہذا مسجدوں میں قبریں بنانا اس مقصد کے منافی اور غیر اللہ کی بندگی کا ذریعہ ہے۔
گناہ ویسے تو ہر مکان و آن ہی برے ہوتے ہیں لیکن مسجدوں میں غیبت ، بد نظری، اور موبائل وغیرہ سے گانے بجانے سننے پر گناہوں کی سنگینی مزید بڑھ جاتی ہے۔
باہمی الفت اور اتحاد کی فضا پیدا کرنا مساجد کے اہداف میں سے ہے، اس لیے مساجد کو گروہ بندی اور اختلاف کا ذریعہ بنانا جائز نہیں، فرمانِ باری تعالی ہے: {
وَالَّذِينَ اتَّخَذُوا مَسْجِدًا ضِرَارًا وَكُفْرًا وَتَفْرِيقًا بَيْنَ الْمُؤْمِنِينَ وَإِرْصَادًا لِمَنْ حَارَبَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ مِنْ قَبْلُ وَلَيَحْلِفُنَّ إِنْ أَرَدْنَا إِلَّا الْحُسْنَى} اور وہ لوگ جنھوں نے مسجد بنائی تکلیف دینے اور کفر پھیلانے اور ایمان والوں کے درمیان تفریق ڈالنے کے لیے اور گھات لگانے کے لیے جنھوں نے اس سے پہلے اللہ اور اس کے رسول سے لڑائی کی اور یقیناً وہ ضرور قسمیں اٹھائیں گے کہ ہم نے بھلائی کے سوا کچھ ارادہ نہیں کیا ۔[التوبہ: 107] اگر کوئی شخص مزاروں وغیرہ جیسی عمارتیں تعمیر کر کے مسجدوں کا مقابلہ کرنے کی کوشش کرے تو یہ بھی مسجد ضرار یا اس سے بھی بد تر ہوں گی، دینِ اسلام کا بنیادی اصول یہ ہے کہ مساجد کے علاوہ کسی بھی جگہ کو عبادت کیلیے مختص نہ کیا جائے، تمام مساجد میں عبادات یکساں کی جاتی ہیں، ما سوائے مسجد الحرام کے؛ کیونکہ یہاں طواف وغیرہ مسجد الحرام کی امتیازی خوبی ہے۔

ان تمام تر تفصیلات کے بعد: مسلمانو!
مسجدیں مسلمانوں کیلیے اعزاز ، باعث شرف اور دینی شعار ہیں، مساجد کو نمازوں اور ذکرِ الہی کے ساتھ آباد کرنے والوں کو اللہ تعالی رفعت اور سعادت سے نواز کر ان کی شرح صدر فرما دیتا ہے، مسجدوں میں قرآن و سنت کی تعلیم مساجد کی آبادکاری کیلیے حکمِ ربانی کی تعمیل ہے، اس سے احیائے سنت نبوی کے ساتھ وقت اور عمل میں برکت ملتی ہے، انسان خود کو اور اپنی اولاد کو بہتری کی جانب گامزن کرتا ہے، اگر کوئی شخص مساجد کی خیر سے محروم ہے یا اس خیر میں رکاوٹ بنتا ہے تو وہ بہت سی فضیلتوں سے محروم ہے۔

أَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيْمِ: {قُلْ أَمَرَ رَبِّي بِالْقِسْطِ وَأَقِيمُوا وُجُوهَكُمْ عِنْدَ كُلِّ مَسْجِدٍ وَادْعُوهُ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ كَمَا بَدَأَكُمْ تَعُودُونَ} آپ کہہ دیں: میرے پروردگار نے انصاف کا حکم دیا ہے، اور ہر مسجد میں نماز کے وقت اپنی توجہ ٹھیک اسی کی طرف رکھو اورعبادت اسی کیلیے خالص کرتے ہوئے خالصتاً اسی کو پکارو ، جس طرح اس نے تمہیں پہلے پیدا کیا ہے اسی طرح تم پھر پیدا کئے جاؤ گے ۔[الأعراف: 29]

اللہ تعالی میرے اور آپ سب کیلیے قرآن مجید کو خیر و برکت والا بنائے، مجھے اور آپ سب کو ذکرِ حکیم کی آیات سے مستفید ہونے کی توفیق دے، میں اپنی بات کو اسی پر ختم کرتے ہوئے اللہ سے اپنے اور تمام مسلمانوں کے گناہوں کی بخشش چاہتا ہوں، تم بھی اسی سے بخشش مانگو، بیشک وہی بخشنے والا اور نہایت رحم کرنے والا ہے۔
دوسرا خطبہ
تمام تعریفیں اللہ کیلیے ہیں کہ اس نے ہم پر احسان کیا ، اسی کے شکر گزار بھی ہیں کہ اس نے ہمیں نیکی کی توفیق دی، میں اس کی عظمت اور شان کا اقرار کرتے ہوئے گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود بر حق نہیں وہ یکتا اور اکیلا ہے ، اور یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ محمد اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں ، اللہ تعالی ان پر ، ان کی آل و صحابہ کرام پر ڈھیروں رحمتیں و سلامتی نازل فرمائے۔
مسلمانو!
مساجد میں نماز با جماعت اسلام کے شعائر اور واجبات میں شامل ہے، رسول اللہ ﷺ نے با جماعت نماز سے پیچھے رہ جانے والوں کو جلا ڈالنے کا ارادہ فرمایا، بلا جماعت نماز پڑھنے کو منافقوں کی خاصیت شمار کیا گیا۔
بلکہ جس نابینا کو کوئی مسجد لانے والا بھی نہیں تھا اسے بھی نبی ﷺ نے مسجد آنے سے رخصت نہیں دی، لہذا اگر کوئی شخص اذان سنے اور بغیر کسی عذر کے مسجد نہ آئے تو اس کی نماز نہیں ، ابن قیم رحمہ اللہ کہتے ہیں: "اگر کوئی شخص کما حقُّہ احادیث پر غور و فکر کرے تو اس کیلیے یہ واضح ہو جائے گا کہ نماز مسجد میں ادا کرنا فرضِ عین ہے"

ابن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ: "جو شخص اسلام کی حالت میں اللہ تعالی سے ملاقات کرنا چاہتا ہے تو وہ مسجد میں نماز با جماعت کا اہتمام کرے؛ کیونکہ اللہ تعالی نے تمہارے نبی ﷺ کیلیے ہدایت کے طور طریقے مقرر کئے ہیں اور یہ بھی انہی میں سے ایک ہے، اگر تم نمازیں گھروں میں ایسے پڑھو جیسے یہ پیچھے رہنے والا گھر میں پڑھتا ہے، تو تم اپنے نبی کی سنت کو ترک کر دو گے، اور اگر تم نے اپنے نبی کی سنت کو ترک کر دیا تو تم گمراہ ہو جاؤ گے" مسلم
عورت کی اپنے گھر میں نماز مسجد میں نماز ادا کرنے سے بہتر ہے، لیکن اگر نماز کیلیے مسجد جائے تو مکمل پردے کے ساتھ نکلے اور ہر ایسے کام سے بچے جو مردوں کیلیے جاذب نظر ہو مبادا نیکیوں کی بجائے خطائیں جمع کر لے۔

{إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ وَإِيتَاءِ ذِي الْقُرْبَى وَيَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ وَالْبَغْيِ يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ} اللہ تعالی تمہیں عدل، احسان اور قرابت داروں کو دینے کا حکم دیتا ہے اور بے حیائی، برے کام اور سرکشی سے منع کرتا ہے۔ وہ تمہیں اس لئے نصیحت کرتا ہے کہ تم اسے [قبول کرو]اور یاد رکھو۔ [النحل: 90]

تم عظیم و جلیل اللہ کا ذکر کرو وہ تمہیں یاد رکھے گا، اللہ تعالی کی نعمتوں کا شکر ادا کرو تو وہ اور زیادہ دے گا ،یقیناً اللہ کا ذکر بہت بڑی عبادت ہے ، تم جو بھی کرتے ہو اللہ تعالی جانتا ہے ۔
 
Last edited:

عبدالعفان

مبتدی
شمولیت
دسمبر 27، 2018
پیغامات
4
ری ایکشن اسکور
1
پوائنٹ
17
السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ

میرے گھر کے قریب ایک نئی مسجد کی تعمیر ہو رہی ہے جبکہ اسکے دائیں اور بائیں جانب 100 میٹر اور 150 میٹر دوری پر Already دو مسجد ہے اور مسجد کی سائز کے حساب سے 10 سے 15٪ ہی پانچ وقت کی نماز لوگ پڑھتے ہیں

اسکے باوجود بھی نئی مسجد کی تعمیر کرنا کیا درست ہے
قرآن و حدیث کی روشنی میں جواب دے میں آپکے جواب کا منتظر ہوں
 
Top