محدثین اور فقہاء کا ٹیکس اور اس کے وصول کرنے والے کے بارے میں فتاویٰ
محدثین اور فقہاء کا ٹیکس اور اس کے وصول کرنے والے کے بارے میں فتاویٰ
امام طحاوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’أَنَّ الْعُشْرَ الَّذِی کَانَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ رَفَعَہُ عَنْ الْمُسْلِمِینَ،ھُوَ الْعَشْرُ الَّذِی کَانَ یُؤْخَذُ فِی الْجَاھِلِیَّةِ،وَھُوَ خِلَافُ الزَّکَاةِ،وَکَانُوا یُسَمُّونَہُ الْمَکْسَ‘‘
’’وہ عشر جس کو رسول اللہﷺ نے مسلمانوں سے اٹھالیا تھایہ وہ عشر تھا جس کو جاہلیت میں لیا جاتا تھا اور وہ زکوۃ کے خلاف ہے اور انہوں نے اس کانام مکس رکھا تھا‘‘۔
(شرح معانی الآثار،ج:۲ص:۴۵۳)
’’أَنَّ الْمَکْس مِنْ أَقْبَح الْمَعَاصِی وَالذُّنُوب الْمُوبِقَات ‘‘
’’بے شک مکس گناہوں میں بدترین گناہ اور ہلاک کرنے والے گناہوں میں سے ہے ‘‘۔
(شرح النووی علی صحیح مسلم،ج:۱۱ص:۲۰۳)
امام ابن الحجرالھیثمی رحمہ اللہ نے فرمایا:
’’ٹیکس لینے والا خواہ وہ ٹیکس وصول کرنے والا ہو، خواہ وہ اس کے ساتھ لکھنے والا ہو،خواہ وہ اس کا گواہ ہو یا خواہ وہ اس کا ناپ تول کرنے والا ہو یہ سب ظالموں کے بڑے کارندے اور مددگار ہیں۔ بلکہ وہ خود بھی ظالم ہیں کیونکہ جس چیز کا وہ حق نہیں رکھتے وہ چھین کر اسے دیتے ہیں جو اسکا مستحق نہیں‘‘۔
(اقتباس از فتویٰ ’’کسٹم میں کام کرنے کے بارے میں شرعی حکم‘‘منبر التوحید والجہاد)
((صاحب مکس وھو من یأخذ من التجار اذامرو مکسا أيضریبة باسم العشر وفیہ ان المکس أعظم الذنوب ))
’’صاحب مکس وہ ہے جو تاجروں سے لے ٹیکس عشر کے نام سے جب کہ تاجر اس کے پاس سے گذریں اور اسی سے معلوم ہو ا کہ مکس(ٹیکس لینا)بڑے گناہوں میں سے ہے ‘‘۔
(شرح سنن ابن ماجہ،ج:۱ص:۲۶۴)
((حدثنا مالک بن دینارؒقال دخلت علی جار لی فی مرضہ وکان عشارا فقال کلمنی راحم المساکین(ﷺ)فی المنام وقال ان ارحم المساکین غضبان علیک قال انک لست منی ولست منک))
’’ہم سے مالک بن دیناررحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میں اپنے پڑوسی کے پاس اس کی بیماری کے زمانے میں گیا اور وہ ٹیکس لینے والا تھا ۔پس اس نے کہا کہ راحم المساکین (ﷺ)نے مجھ سے خواب میں کلام کیا اور فرمایا کہ ارحم المساکین (یعنی اللہ)تجھ پر غضبناک ہے اور فرمایا کہ بے شک تم نہ مجھ سے ہواور نہ میں تجھ سے‘‘۔
(کتاب الزھدلابن أبی عاصم،ج:۱ص:۳۲۶)
((قال الغزالی:مھما رأیت إنسانا یسء الظن بالناس طالبا للعیوب فاعلم أنہ خبیث فی الباطن وأن ذلک خبث یترشح منہ وإنما یری غیرہ من حیث ھو فإن المؤمن یطلب المعاذیر والمنافق یطلب العیوب والمؤمن سلیم الصدر فی حق الکافة،وفیہ إیذان بعظم جرم المکس فإنہ من الجرائم العظام))
’’امام غزالی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میں نے بہت سے انسانوں کو دیکھا ہے لوگوں کے بارے میں بُرا گمان کرنے رکھنے والا اور عیوب کی تلاش میں رہتا ہے ۔پس جان لوکہ اس کے باطن میں خبث ہے اور یہ خبث ظاہر ہوتا ہے اس سے جب وہ اپنے علاوہ کو اس جگہ دیکھتاہے جس جگہ وہ خود ہے ۔پس مومن (اچھا گمان رکھنے کے)بہانے تلاش کرتا ہے اور منافق عیوب تلاش کرتاہے اور مومن سلیم الصدر ہوتا ہے اوراس میں اعلان ہے ٹیکس کے جرم کے عظیم ہونے کا پس بے شک وہ بڑے گناہوںمیں سے ہے‘‘۔
(فیض القدیر،ج:۶ص:۷۳)
((قال البغوی یریدبصاحب المکس الذی یأخذ من التجار اذا مروا علیہ مکسا باسم العشر،قال الحافظ أما الآن فانھم یأخذون مکسا باسم العشر ومکوسا أخر لیس لھااسم بل شیء یأخذونہ حراما وسحتا ویأکلونہ فی بطونھم نارا حجتھم فیہ داحضة ثم ربھم وعلیھم غضب ولھم عذاب شدید))
’’امام بغوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ صاحب مکس سے مراد وہے جو تاجروں سے لیتا ہے ٹیکس عشر کے نام سے ۔حافظ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ بہرحال اس زمانے میں وہ ٹیکس عشر کے نام سے لیتے ہیں اوراس کے علاوہ دوسرے دوسرے ٹیکس بھی جس کا کوئی نام نہیں ہے ۔دراصل جو چیز وہ لیتے ہیں حرام اور ’’رشوت‘‘ہے اور اپنے پیٹوں میں آگ بھڑکاتے ہیں اور اس(ٹیکس لینے کے )معاملے میں ان کی دلیل باطل ہے پھر اِن پر ان کے رب کا غصہ ہے اور ان کے لئے شدید عذاب ہے‘‘۔
(الترغیب والترھیب،ج:۱ص:۳۲۰،رقم ۱۱۷۲)
’’عَنْ حَرْبِ بْنِ عُبَیْدِ اللَّہِ،عَنْ رَجُلٍ مِنْ أَخْوَالِہِ أَنَّ رَسُولَ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اسْتَعْمَلَہُ عَلَی الصَّدَقَةِ،وَعَلَّمَہُ الْإِسْلَامَ،وَأَخْبَرَہُ بِمَا یَأْخُذُ فَقَالَ:یَا رَسُولَ اللَّہِ کُلُّ الْإِسْلَامِ قَدْ عَلِمْتہ إلَّا الصَّدَقَةَ،أَفَأُعْشِرُ الْمُسْلِمِینَ؟فَقَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إنَّمَا یُعْشَرُ الْیَہُودِوَالنَّصَارَی)فَفِی ھَذَا الْحَدِیثِ أَنَّ رَسُولَ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بَعَثَہُ عَلَی الصَّدَقَةِ،وَأَمَرَہُ أَنْ لَا یُعَشِّرَ الْمُسْلِمِینَ،وَقَالَ لَہُ:إنَّمَا الْعُشُورُ عَلَی الْیَہُودِ وَالنَّصَارَی ۔فَدَلَّ ذَلِکَ أَنَّ الْعُشُورَ الْمَرْفُوعَةَ عَنْ الْمُسْلِمِینَ ، ھِیَ خِلَافُ الزَّکَاةِ ‘‘
’’حرب بن عبد اللہ سے روایت کرتے ہیں اپنے ماموں زاد بھائیوں میں سے کسی سے کہ رسول اللہﷺ نے ان کو عامل بنایا صدقہ پر اوران کو اسلام کی تعلیمات سکھائیں اور ان کو خبر دی کہ ان کو کیا لینا ہے ۔پس انہوں نے کہا کہ یارسول اللہﷺ!تمام اسلام کی باتیں آپ نے ہمیں سکھلادیں سوائے صدقہ کے ۔کیا میں مسلمانوں سے عشر لوں؟پس کہا رسول اللہﷺنے ،عشر(تجارتی ٹیکس)صرف یہود ونصاریٰ سے لیا جاتا ہے ۔پس اس حدیث میں رسول اللہﷺنے صدقہ پر ترغیب دی اور ان کو حکم دیا کہ وہ مسلمانوں سے عشر (ٹیکس)نہ لیں اور ان سے فرمایا عشور صرف یہود ونصاریٰ پر ہے ۔پس یہ بات دلالت کرتی ہے کہ عشور(تمام ٹیکس) مسلمانوں سے اٹھالیئے گئے اور یہ زکوۃ کے خلاف ہے‘‘۔
(شرح معانی الآثار،ج:۲ص:۱۳)
امام جلال الدین سیوطی رحمہ اللہ سورۃ الاعراف کی آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں:
’’{وَلاَ تَقْعُدُواْ بِکُلِّ صراط}طریق{تُوعِدُونَ}تخوّفون الناس بأخذ ثیابہم أو المکس منہم{وَتَصُدُّونَ}تصرفون{عَن سَبِیلِ اللّٰہ}دینہ(مَنْ ءَامَنَ بِہِ)بتوعدکم إیاہ بالقتل{وَتَبْغُونَہَا}تطلبون الطریق{عِوَجَاً}معوَّجة{واذکروا إِذْ کُنتُمْ قَلِیلاً فَکَثَّرَکُمْ وانظروا کَیْفَ کَانَ عاقبة المفسدین }قبلکم بتکذیبہم رسلہم :أی آخر أمرھم من الہلاک ۔‘‘
’’اور نہ بیٹھو ہر راستے پر یعنی ایساراستہ جس پر تم لوگوں کو ڈراؤاور ان کے کپڑے لے کر یا ان سے ٹیکس لے کر اور تم نہ روکواللہ کے راستے سے ،اس کے دین سے ،اور جو اس پر ایمان لے آیا تم اس کو قتل کرنے کی دھمکی دینے سے اور تم گمراہی کے راستے نہ ڈھونڈو اور یاد کروجب تم تھوڑے تھے تو اللہ تعالیٰ نے تمہیں زیادہ کردیا اور دیکھو فساد پھیلانے والوں کا کیسا انجام ہوا تم سے پہلے جب انہوں نے اپنے رسولوں کی تکذیب کی‘‘۔
(تفسیرالجلالین،ج:۳ص:۳۹)
صاحب فیض القدیرامام مناوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
(((لا یدخل الجنة صاحب مکس)المراد بہ العشار وھو الذی یأخذ الضریبة من الناس قال البیہقی :المکس النقصان فإذا انتقص العامل من حق أھل الزکاة فہو صاحب مکس))
’’جنت میں ٹیکس لینے والا داخل نہیں ہوگا ،(حدیث میں )اس سے وہ دسواں حصہ لینے والا مراد ہے جولوگوں سے ٹیکس لیتا ہے ۔امام بیہقی رحمہ اللہ نے فرمایا :مکس کے معنی نقصان کے ہیں۔جب عامل زکوٰۃ دینے والوں سے ان کا مال (ٹیکس لینے کی صورت میں )کم کردے تو وہ ٹیکس لینے والا ہے ‘‘۔
(فیض القدیر،ج:۶ص:۴۴۹)
’’ قال الطیبی:وفیہ أن المکس من أعظم الموبقات وعدہ الذھبی من الکبائر ثم قال :فیہ شبہة من قاطع الطریق وھو شر من اللص‘‘
’’علامہ طیبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اس حدیث میں جو ارشاد ہے اس سے معلوم ہوا کہ ٹیکس ہلاک کرنے والے گناہوں میں سے ہے اور امام ذہبی رحمہ اللہ نے اس کوگناہ کبیرہ میں شمار کیا ہے پھر فرمایا یہ (ٹیکس لینا)مشابہ ہے راستوںکوقطع کرنے والے ڈاکوؤں کی مانند اور چور سے زیادہ بدترہے‘‘۔
(فیض القدیر،ج:۶ص:۵۸۱)
امام ابوبکر الجصاص الحنفی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’وَکَذَلِکَ حُکْمُ مَنْ یَأْخُذُ أَمْوَالَ النَّاسِ مِنْ الْمُتَسَلِّطِینَ الظَّلَمَةِ وَآخِذِی الضَّرَائِبِ وَاجِبٌ عَلَی کُلِّ الْمُسْلِمِینَ قِتَالُہُمْ وَقَتْلُہُمْ إذَا کَانُوا مُمْتَنِعِینَ،وَھَؤُلَاء ِ أَعْظَمُ جُرْمًا مِنْ آکِلِی الرِّبَا لِانْتِہَاکِہِمْ حُرْمَةَ النَّہْیِ وَحُرْمَةَ الْمُسْلِمِینَ جَمِیعًا.وَآکِلُ الرِّبَا إنَّمَا انْتَہَکَ حُرْمَةَ اللَّہِ تَعَالَی فِی أَخْذِ الرِّبَا وَلَمْ یَنْتَہِکْ لِمَنْ یُعْطِیہِ ذَلِکَ حُرْمَة؛لِأَ نَّہُ أَعْطَاہُ بِطِیبَةِ نَفْسِہِ۔وَآخِذُو الضَّرَائِبِ فِی مَعْنَی قُطَّاعِ الطَّرِیقِ الْمُنْتَہِکِینَ لِحُرْمَةِ نَہْیِ اللَّہِ تَعَالَی وَحُرْمَةِ الْمُسْلِمِینَ؛إذْ کَانُوا یَأْخُذُونَہُ جَبْرًا وَقَہْرًا لَا عَلَی تَأْوِیلٍ وَلَا شُبْہَةٍ،فَجَائِزٌ لِمَنْ عَلِمَ مِنْ الْمُسْلِمِینَ إصْرَارَ ھَؤُلَاء ِ عَلَی مَا ھُمْ عَلَیْہِ مِنْ أَخْذِ أَمْوَالِ النَّاسِ عَلَی وَجْہِ الضَّرِیبَةِ أَنْ یَقْتُلَہُمْ کَیْفَ أَمْکَنَہُ قَتْلُہُمْ،وَکَذَلِکَ أَتْبَاعُہُمْ وَأَعْوَانُہُمْ الَّذِینَ بِہِمْ یَقُومُونَ عَلَی أَخْذِ الْأَمْوَالِ .‘‘
’’اسی طرح ان ظالموں کاحکم بھی یہی ہے جو لوگوں پر مسلط ہوکر ان کے مال ناحق چھینتے ہیں اور ان سے ناجائز محصولات(ٹیکس)بٹورتے ہیں ۔اگر یہ لوگ طائفہ ممتنعہ(طاقتورگروہ) کی صورت میں ہوں تو ان کے خلاف قتال کرنا اور انہیں قتل کرنا تمام مسلمانوں پر واجب ہوگا۔ یہ لوگ تو سودخوروں سے بھی بڑے مجرم ہیں، کیونکہ یہ نہ صرف اللہ تعالیٰ کے احکامات کی حرمت پامال کرتے ہیں ،بلکہ مسلمانوں کی حرمت کا بھی پاس نہیں کرتے۔اس کے برعکس سود خور حکم الٰہی کی حرمت تو یقینا پامال کرتا ہے ،لیکن سود دینے والے کی حرمت پامال نہیں کرتا،کیونہ وہ توا پنی رضا سے سود دیتا ہے ۔ناحق محصولات لینے والے ان ظالموں کا حکم تو اُن رہزنوں(قطاع الطریق)کا سا ہے جو اللہ کی حدود کو بھی روندتے ہیں اور مسلمانوں (کے اموال)کی حرمت بھی پامال کرتے ہیں ۔یہ بھی رہزنوں کی طرح کسی تاویل یا شبہے کے بغیر جبراً وقہراً(مسلمانوں کا)مال غصب کرے ہیں۔پس جو مسلمان بھی ایسے لوگوں کو جانتاہوجو محصولات کے نام پر مسلمانوں کا مال ناحق لوٹتے ہوں اور اس پر مصر بھی رہیں ،اس کے لئے جائز ہے کہ (ٹیکس دینے کے بجائے )کسی بھی ممکنہ طریقے سے ان ظالموں کو قتل کرڈالے ۔اسی طرح ہر مسلمان کے لئے ان کے پیروکاروں و مدد گاروں کو قتل کرنا بھی جائز ہوگا کہ جن کے بل پر یہ عام لوگوں سے ناحق مال چھیننے کی قابل ہوتے ہیں‘‘۔
(احکام القرآن للجصاص:ج۳،ص:۱۹۱)
عصر حاضر میں وہ علماء سوء جن کے مقدر میں طواغیت کی چاپلوسی ہی کرنا رہ گیا ہے ،وہ ان طواغیت کی جانب سے مسلط کردہ ٹیکسوں کے ’’رفاہ عامہ ‘‘کے عنوان کے تحت یہ کہہ کر جائز قرار دیتے ہیں کہ ان سے حاصل ہونی والی رقوم عوام کی فلاح وبہبود پر خرچ ہونگی۔اس کے ساتھ ساتھ وہ مسلمانوں کے ان ٹیکسوں کی ادائیگی کو واجب قراردیتے ہیں بلکہ ان کی ادئیگی نہ کرنے والوں مطعون اور گناہ گار سمجھتے ہیں۔
چناچہ اس مغالطے کا جواب استاذ المجاہدین امام ابومحمد عاصم المقدسی فک اللہ اسرہٗ یوں دیتے ہیں:
’’اور رہا مسئلہ سلاطین کے کسی عالم کا ٹیکس کے محکموں میں کام کرنے کو جائز قرار دینا (کہ اس میں کوئی حرج نہیں)۔ اس دعوے کی بنیاد پر کہ مکس (ٹیکس)تو اسے کہا جاتا ہے جو چور اور ڈاکو بغیر کسی حق اور معاوضے کے زبردستی لیتے ہیں۔ یہ تو ناجائز ہے البتہ آج کل کی حکومتیں جو ٹیکس لیتی ہیں وہ (اس کے گمان کے مطابق)’’رفاہ عامہ‘‘کے کاموں میں خرچ کرتی ہیں۔ جیسے سڑکیں، پل، ہسپتال وغیرہ بنانے اور تعلیم وغیرہ پر…یہاں تک کہ وہ(عالم) اس نتیجے پر پہنچا کہ یہ تمام قسم کے ٹیکس یعنی وہ جبری ٹیکس نہیں (جس سے شریعت میں منع کیا گیا ہے)۔ لہٰذا ان کا ادا کرنا واجب ہے اور ان کی ادائیگی سے کترانا جائز نہیں۔تو بلاشبہ یہ بصیرت کی کمی اورمسئلے کی حقیقت سے دوری کا نتیجہ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جب کوئی اسلام کے بنیادی اصول کو ہی بدل دے تو یہ لازمی طور پر ایسے فروعی مسائل میں بھی خرابی پیدا کرے گا۔تو ہرصاحب بصیرت کو یہ صاف نظرآتا ہے کہ آج کل کے ملکوں میں انتہائی معمولی سی رقم ان (رفاہ عامہ کے)کاموں میں خرچ کی جاتی ہے کہ جن کا ذکر اس عالم نے کیا ہے۔ اورباقی سب تو حکام اوران کی حکومتوں کی شہوتوں کے لئے خرچ کیا جاتا ہے اور ان (حکام و حکومتوں)کی اکثریت پر تو اللہ تعالی کا یہ فرمان صادق آتا ہے:
إِنَّ الَّذِینَ کَفَرُوا یُنْفِقُونَ أَمْوَالَہُمْ لِیَصُدُّوا عَنْ سَبِیلِ اللَّہِ
’’یقینا وہ لوگ جو کافر ہیں اپنے اموال کو اللہ کے راستے سے روکنے کے لئے خرچ کرتے ہیں‘‘۔(الأنفال:۳۶)
پھراگراس (عالم)کے گمان کو سچ مان بھی لیا جائے کہ یہ اموال انہیں کاموں میں خرچ کیئے جاتے ہیں جن کے بارے میں اس نے کہا ہے۔ تو پوچھا جائے کہ کسی مسلمان کا مال اس کی دلی رضامندی کے بغیر جبری طور پر کس حق کے تحت چھینا جاتا ہے۔ حالانکہ اس نے اسے رفاہ عامہ کے کاموں سڑکیں، پل، ہسپتال اور تعلیم وغیرہ میں خرچ کرنے کیلئے نہ تو صدقہ کیا اور نہ ہی اپنی دلی رضا مندی سے دیا اور یہ عالم کہاں بھاگ جاتا ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان سے:
’’کسی مسلمان کا مال اس کی دلی رضامندی کے بغیر لینا حلال نہیں‘‘۔
اوروہ عالم کہاں بھاگ جاتا ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان سے:
’’یقینا تمہارے خون اور تمہارے مال تمہارے لئے ایسے ہی حرمت والے ہیں کہ جیسے تمہارا یہ دن (حجۃالوداع کا دن)اور تمہارا یہ مہینہ (ذوالحجہ)اور تمہارا یہ شہر (مکۃ المکرمۃ)حرمت والا ہے‘‘۔
حقیقت یہ ہے کہ اس طرح کے فتووں سے کہ جن پرکسی بھی قسم کی کوئی شرعی دلیل نہیں ہوتی، صرف اور صرف حکمرانوں کی خوشنودی اور لوگوں کے اموال و حقوق پر ظالموں کے تسلط کو شریعت اور فتوے کے نام پر جائز بنانا مقصود ہوتا ہے‘‘۔
(اقتباس از فتویٰ ’’کسٹم میں کام کرنے کے بارے میں شرعی حکم‘‘منبر التوحید والجہاد)
ہر خاص وعام کو اور خاص کراہل علم حضرات کو احادیث کے ان نصوص اور سلف کے فتاویٰ پرغورکرنا چاہیے کہ جوکہ اس بات پر پوری طرح دلالت کرتے ہیں کہ مسلمانوں پر زکوۃ کی وصولی کے علاوہ کوئی اور ٹیکس نہیں ہے،وہ بھی جبکہ دار الاسلام ہویعنی حاکم بھی مسلمان ہو اور قوانین اسلامی کابھی مکمل اجراء ہو۔آج جبکہ ٹیکس کا نفاذ ہی عالمی یہودی مالیاتی نظامی یعنی IMFاور World Bankکے حکم پر ہورہا ہے تو کیا اہل علم اس مسئلہ کو عوام الناس کے سامنے بیان کریں گے…؟؟