• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مسلمانوں سے وصول کئے جانے والے ٹیکس کی شرعی حیثیت

شمولیت
فروری 07، 2013
پیغامات
453
ری ایکشن اسکور
924
پوائنٹ
26
نبی کرم ﷺا ور صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کی ٹیکس لینے والوں پر لعنت

نبی کرم ﷺا ور صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کی ٹیکس لینے والوں پر لعنت

((عن عَمْرِو بن دِینَارٍ،أَنَّہُ صَحِبَ ابْنَ عُمَرَ فِی السَّفَرِ فَکَانَ إِذَا طَلَعَ سُھَیْلٌ، قَالَ:لَعَنَ اللَّہُ سُھَیْلا،فَإِنِّی سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ،یَقُول:کَانَ عَشَّارًا،ویَغْصِبُھُمْ أَمْوَالَھُمْ،فَمَسَخَہُ اللَّہُ شِھَابًا،فَجَعَلَہُ حَیْثُ تَرَوْنَ))
’’عمر وبن دینار رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میں ایک سفر میں حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھا تو جب سھیل(نامی ستارہ)نمودار ہوا تو آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اللہ نے لعنت کی سھیل پر، پس میں نے سنا رسول اللہﷺسے وہ فرمارہے تھے کہ(یہ)وہ(شخص تھا جو) علانیہ لوگوں سے ٹیکس لیتا تھا اور ان پر ظلم کرتا تھا اور ان کے مالوں کو غصب کرتا تھا پھر اللہ نے اس کو مسخ کردیا جھلساکراور اس کو معلق کردیا وہاں جہاں تم اس کو دیکھتے ہو‘‘۔
(المعجم الکبیر للطبرانی،ج:۱۱،ص:۲۶۸،رقم:۵۵۵۔المعجم الاوسط للطبرانی،ج:۱۵،ص:۳۹۶،رقم:۷۳۲۰۔مجمع الزوائد،ج:۳ص:۸۸۔ الجامع الصغیرللسیوطی،ج:۱ص:۱۵۳)

((عَنْ عَلِیِّ بن أَبِی طَالِبٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ،أَنّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ :لَعَنَ اللَّہُ سُہَیْلا ،ثَلاثَ مِرَارٍ،فَإِنَّہُ کَانَ یُعْشِرُ النَّاسَ فِی الأَ رْضِ فَمَسَخَہُ اللَّہُ شِہَابًا))
’’حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسو ل اللہﷺنے فرمایا کہ لعنت ہو اللہ کی سہیل پر تین دفعہ بے شک وہ لوگوں سے ٹیکس لینے والاتھا زمین پر پس اللہ نے اس کو مسخ کردیا‘‘۔
(المعجم الکبیر للطبرانی،ج:۱،ص:۸۹،رقم:۱۷۹۔مجمع الزوائد،ج:۳ص:۸۸وفیہ جابر الجعفی وفیہ کثیر وقد وثقہ شعبةؒ وسفیان الثوریؒ،)

((عن ابی طفیل أن علیارضی اللّٰہ عنہ کان اذا رأی سھیلا سبہ وقال انہ کان عشاراظاھرا یبخس بین الناس بالظلم فمسخہ اللّٰہ شھابا))
’’حضرت ابوطفیل سے حضرت علی رضی اللہ عنہ نے جب سہیل(نامی ستارے)کی طرف دیکھا تو اس کو برا بھلا کہا اور فرمایا کہ وہ علانیہ دسواں حصہ لینے والا تھا ،کمی کرتا تھا لوگوں کے مال میں ظلم کرکے پس اللہ تعالیٰ نے مسخ کردیا اس کو جھلساکر‘‘۔
(کنز العمال،ج:۷ص:۱۴۹رقم:۱۸۴۵۷۔العظمة،ج:۴ص:۱۲۱۶رقم:۶۸۹۱۰)

((عن ابی طفیل قال قال رسول اللّٰہ ﷺ لعن اللّٰہ سھیلا کان عشارایعشر فی الأرض بالظلم فمسخہ اللّٰہ شھابا))
’’ابو طفیل سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺنے فرمایا اللہ نے لعنت کی سہیل پر ،وہ ٹیکس لینے والا تھا دسواں حصہ لیتا تھا زمین میں ظلم کرکے پس اللہ تعالیٰ نے اس کو جھلساکر مسخ کردیا‘‘۔
(العظمة،ج:۴ص:۱۲۱۷رقم الحدیث:۶۹۱۲۱)
 
شمولیت
فروری 07، 2013
پیغامات
453
ری ایکشن اسکور
924
پوائنٹ
26
اللہ کی ایک نعمت …ٹیکس فری معاشرہ

اللہ کی ایک نعمت …ٹیکس فری معاشرہ

((عَنْ سَعِیدِ بْنِ زَیْدٍ قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ یَا مَعْشَرَ الْعَرَبِ احْمَدُوا اللَّہَ الَّذِی رَفَعَ عَنْکُمْ الْعُشُورَ))
’’حضرت سعید بن زیدرضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ فرماتے ہیں میں نے رسو ل اللہ ﷺسے سنا کہ آپ فرمارہے تھے اے گروہ عرب!اللہ کا شکر ادا کیا کرو کہ اس نے تم سے ٹیکس اٹھا دیئے‘‘۔
(مسند احمد،ج:۴ص:۷۷رقم:۱۵۶۶۔مسند ابی یعلی،ج:۲ص:۴۷۱،رقم:۹۲۸۔مجمع الزوائد،ج:۳ص:۸۷)
 
شمولیت
فروری 07، 2013
پیغامات
453
ری ایکشن اسکور
924
پوائنٹ
26
ٹیکس لینے والے کے قتل کا حکم

ٹیکس لینے والے کے قتل کا حکم

((عَنْ مَالِکِ بْنِ عَتَاھِیَةَ قَالَ سَمِعْتُ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ إِذَا لَقِیتُمْ عَاشِرًا فَاقْتُلُوہُ))
’’حضرت مالک بن عتاھیہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے اگر تم ٹیکس وصول کرنے والے کو دیکھو تو اسے قتل کر دو‘‘۔
(مسند احمد،ج:۳۷،ص:۵رقم :۱۷۳۶۵۔کنز العمال،ج:۶،ص:۸۳،رقم:۱۴۹۴۴)

((عن مالک بن عتاھیة ؓ قال سمعت النبی ﷺ یقول اذارأیتم عاشرا فاقتلوہ یعنی بذلک الصدقة علی غیر حقھا))
’’حضرت مالک بن عتاہیہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ فرماتے ہیں کہ میں نے سنا رسول اللہ ﷺسے کہ جب تم دیکھو ٹیکس لینے والے کو تو اسے قتل کردو ،یعنی وہ شخص جو کہ صدقہ لینے والاہو لوگوں کے مال سے ناحق ‘‘۔
(مجمع الزوائد،ج:۳ص:۸۷)
 
شمولیت
فروری 07، 2013
پیغامات
453
ری ایکشن اسکور
924
پوائنٹ
26
حضرت عمر بن عبد العزیزرحمہ اللہ کا دورخلافت اور ٹیکس

حضرت عمر بن عبد العزیزرحمہ اللہ کا دورخلافت اور ٹیکس

حضرت عمر بن عبد العزیزرحمہ اللہ جن کو عمر ثانی بھی کہا جاتا ہے اور سلف میں سے بعض ان کے دور خلافت کو خلافت راشدہ میں شمار کرتے ہیں ۔جب انہوں نے خلافت کا بار اٹھایا تو ان سے پہلے اموی خلفاء نے مسلمانوں پر مختلف چیزوں پر ٹیکس لگا رکھے تھے۔آپ رحمہ اللہ نے فوراًتمام ٹیکس ختم کرنے کے احکامات جاری کردیئے ۔

(( ان عمر بن عبد العزیزکتب الی عامل المدینة أن یضع المکس فانہ لیس بالمکس البخس،قال اللّٰہ تعالی’’وَلَا تَبْخَسُوْا‘‘))
’’حضرت عمر بن عبد العزیزرحمہ اللہ نے مدینے کے عامل (گورنر)کو لکھا کہ (مسلمانوں پر سے )ٹیکس کو ختم کردواس لئے کہ ٹیکس دراصل گھٹاناہے اور اللہ تعالیٰ کا فرمان مبارک ہے کہ ’’اور نہ گھٹاؤ (لوگوں کا مال )‘‘۔
(المدونة الکبری ج:۲ص:۲۷۹)

((عن محمد بن قیس قال لما ولی عمر بن عبد العزیزوضع المکس عن کل أرض ووضع الجزیة عن کل مسلم))
’’محمد بن قیس سے روایت ہے کہ فرمایا جب حضرت عمر بن عبد العزیزرحمہ اللہ خلیفہ بنے تو انہوں نے ٹیکس ختم کردیئے ہر زمین پر اور جزیہ بھی ہر مسلمان پر سے ختم کردیا‘‘۔
(الطبقات الکبری ج:۵ص:۳۴۵)

((أن عمربن عبد العزیزؒ کتب الی عاملہ عبد اللّٰہ بن عون علی فلسطین ان أرکب الی البیت الذی یقال لہ المکس فأھدمہ ثم أحملہ الی البحر فأنسفہ فی الیم))
’’حضرت عمر بن عبد العزیزرحمہ اللہ نے اپنے عامل عبد اللہ بن عون کو لکھا جو فلسطین میں تھے کہ اُس گھر کے پاس جاؤ جس کو مکس(ٹیکس گھر)کہاجاتا ہے اور اس کو گرادوپھر اس کو سمندر میں بہادو‘‘۔
(حلیة الأولیاء ج:۵ص:۳۰۶)
 
شمولیت
فروری 07، 2013
پیغامات
453
ری ایکشن اسکور
924
پوائنٹ
26
محدثین اور فقہاء کا ٹیکس اور اس کے وصول کرنے والے کے بارے میں فتاویٰ

محدثین اور فقہاء کا ٹیکس اور اس کے وصول کرنے والے کے بارے میں فتاویٰ

امام طحاوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’أَنَّ الْعُشْرَ الَّذِی کَانَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ رَفَعَہُ عَنْ الْمُسْلِمِینَ،ھُوَ الْعَشْرُ الَّذِی کَانَ یُؤْخَذُ فِی الْجَاھِلِیَّةِ،وَھُوَ خِلَافُ الزَّکَاةِ،وَکَانُوا یُسَمُّونَہُ الْمَکْسَ‘‘
’’وہ عشر جس کو رسول اللہﷺ نے مسلمانوں سے اٹھالیا تھایہ وہ عشر تھا جس کو جاہلیت میں لیا جاتا تھا اور وہ زکوۃ کے خلاف ہے اور انہوں نے اس کانام مکس رکھا تھا‘‘۔
(شرح معانی الآثار،ج:۲ص:۴۵۳)

’’أَنَّ الْمَکْس مِنْ أَقْبَح الْمَعَاصِی وَالذُّنُوب الْمُوبِقَات ‘‘
’’بے شک مکس گناہوں میں بدترین گناہ اور ہلاک کرنے والے گناہوں میں سے ہے ‘‘۔
(شرح النووی علی صحیح مسلم،ج:۱۱ص:۲۰۳)

امام ابن الحجرالھیثمی رحمہ اللہ نے فرمایا:
’’ٹیکس لینے والا خواہ وہ ٹیکس وصول کرنے والا ہو، خواہ وہ اس کے ساتھ لکھنے والا ہو،خواہ وہ اس کا گواہ ہو یا خواہ وہ اس کا ناپ تول کرنے والا ہو یہ سب ظالموں کے بڑے کارندے اور مددگار ہیں۔ بلکہ وہ خود بھی ظالم ہیں کیونکہ جس چیز کا وہ حق نہیں رکھتے وہ چھین کر اسے دیتے ہیں جو اسکا مستحق نہیں‘‘۔
(اقتباس از فتویٰ ’’کسٹم میں کام کرنے کے بارے میں شرعی حکم‘‘منبر التوحید والجہاد)

((صاحب مکس وھو من یأخذ من التجار اذامرو مکسا أيضریبة باسم العشر وفیہ ان المکس أعظم الذنوب ))
’’صاحب مکس وہ ہے جو تاجروں سے لے ٹیکس عشر کے نام سے جب کہ تاجر اس کے پاس سے گذریں اور اسی سے معلوم ہو ا کہ مکس(ٹیکس لینا)بڑے گناہوں میں سے ہے ‘‘۔
(شرح سنن ابن ماجہ،ج:۱ص:۲۶۴)

((حدثنا مالک بن دینارؒقال دخلت علی جار لی فی مرضہ وکان عشارا فقال کلمنی راحم المساکین(ﷺ)فی المنام وقال ان ارحم المساکین غضبان علیک قال انک لست منی ولست منک))
’’ہم سے مالک بن دیناررحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میں اپنے پڑوسی کے پاس اس کی بیماری کے زمانے میں گیا اور وہ ٹیکس لینے والا تھا ۔پس اس نے کہا کہ راحم المساکین (ﷺ)نے مجھ سے خواب میں کلام کیا اور فرمایا کہ ارحم المساکین (یعنی اللہ)تجھ پر غضبناک ہے اور فرمایا کہ بے شک تم نہ مجھ سے ہواور نہ میں تجھ سے‘‘۔
(کتاب الزھدلابن أبی عاصم،ج:۱ص:۳۲۶)

((قال الغزالی:مھما رأیت إنسانا یسء الظن بالناس طالبا للعیوب فاعلم أنہ خبیث فی الباطن وأن ذلک خبث یترشح منہ وإنما یری غیرہ من حیث ھو فإن المؤمن یطلب المعاذیر والمنافق یطلب العیوب والمؤمن سلیم الصدر فی حق الکافة،وفیہ إیذان بعظم جرم المکس فإنہ من الجرائم العظام))
’’امام غزالی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میں نے بہت سے انسانوں کو دیکھا ہے لوگوں کے بارے میں بُرا گمان کرنے رکھنے والا اور عیوب کی تلاش میں رہتا ہے ۔پس جان لوکہ اس کے باطن میں خبث ہے اور یہ خبث ظاہر ہوتا ہے اس سے جب وہ اپنے علاوہ کو اس جگہ دیکھتاہے جس جگہ وہ خود ہے ۔پس مومن (اچھا گمان رکھنے کے)بہانے تلاش کرتا ہے اور منافق عیوب تلاش کرتاہے اور مومن سلیم الصدر ہوتا ہے اوراس میں اعلان ہے ٹیکس کے جرم کے عظیم ہونے کا پس بے شک وہ بڑے گناہوںمیں سے ہے‘‘۔
(فیض القدیر،ج:۶ص:۷۳)

((قال البغوی یریدبصاحب المکس الذی یأخذ من التجار اذا مروا علیہ مکسا باسم العشر،قال الحافظ أما الآن فانھم یأخذون مکسا باسم العشر ومکوسا أخر لیس لھااسم بل شیء یأخذونہ حراما وسحتا ویأکلونہ فی بطونھم نارا حجتھم فیہ داحضة ثم ربھم وعلیھم غضب ولھم عذاب شدید))
’’امام بغوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ صاحب مکس سے مراد وہے جو تاجروں سے لیتا ہے ٹیکس عشر کے نام سے ۔حافظ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ بہرحال اس زمانے میں وہ ٹیکس عشر کے نام سے لیتے ہیں اوراس کے علاوہ دوسرے دوسرے ٹیکس بھی جس کا کوئی نام نہیں ہے ۔دراصل جو چیز وہ لیتے ہیں حرام اور ’’رشوت‘‘ہے اور اپنے پیٹوں میں آگ بھڑکاتے ہیں اور اس(ٹیکس لینے کے )معاملے میں ان کی دلیل باطل ہے پھر اِن پر ان کے رب کا غصہ ہے اور ان کے لئے شدید عذاب ہے‘‘۔
(الترغیب والترھیب،ج:۱ص:۳۲۰،رقم ۱۱۷۲)

’’عَنْ حَرْبِ بْنِ عُبَیْدِ اللَّہِ،عَنْ رَجُلٍ مِنْ أَخْوَالِہِ أَنَّ رَسُولَ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اسْتَعْمَلَہُ عَلَی الصَّدَقَةِ،وَعَلَّمَہُ الْإِسْلَامَ،وَأَخْبَرَہُ بِمَا یَأْخُذُ فَقَالَ:یَا رَسُولَ اللَّہِ کُلُّ الْإِسْلَامِ قَدْ عَلِمْتہ إلَّا الصَّدَقَةَ،أَفَأُعْشِرُ الْمُسْلِمِینَ؟فَقَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إنَّمَا یُعْشَرُ الْیَہُودِوَالنَّصَارَی)فَفِی ھَذَا الْحَدِیثِ أَنَّ رَسُولَ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بَعَثَہُ عَلَی الصَّدَقَةِ،وَأَمَرَہُ أَنْ لَا یُعَشِّرَ الْمُسْلِمِینَ،وَقَالَ لَہُ:إنَّمَا الْعُشُورُ عَلَی الْیَہُودِ وَالنَّصَارَی ۔فَدَلَّ ذَلِکَ أَنَّ الْعُشُورَ الْمَرْفُوعَةَ عَنْ الْمُسْلِمِینَ ، ھِیَ خِلَافُ الزَّکَاةِ ‘‘
’’حرب بن عبد اللہ سے روایت کرتے ہیں اپنے ماموں زاد بھائیوں میں سے کسی سے کہ رسول اللہﷺ نے ان کو عامل بنایا صدقہ پر اوران کو اسلام کی تعلیمات سکھائیں اور ان کو خبر دی کہ ان کو کیا لینا ہے ۔پس انہوں نے کہا کہ یارسول اللہﷺ!تمام اسلام کی باتیں آپ نے ہمیں سکھلادیں سوائے صدقہ کے ۔کیا میں مسلمانوں سے عشر لوں؟پس کہا رسول اللہﷺنے ،عشر(تجارتی ٹیکس)صرف یہود ونصاریٰ سے لیا جاتا ہے ۔پس اس حدیث میں رسول اللہﷺنے صدقہ پر ترغیب دی اور ان کو حکم دیا کہ وہ مسلمانوں سے عشر (ٹیکس)نہ لیں اور ان سے فرمایا عشور صرف یہود ونصاریٰ پر ہے ۔پس یہ بات دلالت کرتی ہے کہ عشور(تمام ٹیکس) مسلمانوں سے اٹھالیئے گئے اور یہ زکوۃ کے خلاف ہے‘‘۔
(شرح معانی الآثار،ج:۲ص:۱۳)

امام جلال الدین سیوطی رحمہ اللہ سورۃ الاعراف کی آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں:
’’{وَلاَ تَقْعُدُواْ بِکُلِّ صراط}طریق{تُوعِدُونَ}تخوّفون الناس بأخذ ثیابہم أو المکس منہم{وَتَصُدُّونَ}تصرفون{عَن سَبِیلِ اللّٰہ}دینہ(مَنْ ءَامَنَ بِہِ)بتوعدکم إیاہ بالقتل{وَتَبْغُونَہَا}تطلبون الطریق{عِوَجَاً}معوَّجة{واذکروا إِذْ کُنتُمْ قَلِیلاً فَکَثَّرَکُمْ وانظروا کَیْفَ کَانَ عاقبة المفسدین }قبلکم بتکذیبہم رسلہم :أی آخر أمرھم من الہلاک ۔‘‘
’’اور نہ بیٹھو ہر راستے پر یعنی ایساراستہ جس پر تم لوگوں کو ڈراؤاور ان کے کپڑے لے کر یا ان سے ٹیکس لے کر اور تم نہ روکواللہ کے راستے سے ،اس کے دین سے ،اور جو اس پر ایمان لے آیا تم اس کو قتل کرنے کی دھمکی دینے سے اور تم گمراہی کے راستے نہ ڈھونڈو اور یاد کروجب تم تھوڑے تھے تو اللہ تعالیٰ نے تمہیں زیادہ کردیا اور دیکھو فساد پھیلانے والوں کا کیسا انجام ہوا تم سے پہلے جب انہوں نے اپنے رسولوں کی تکذیب کی‘‘۔
(تفسیرالجلالین،ج:۳ص:۳۹)

صاحب فیض القدیرامام مناوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
(((لا یدخل الجنة صاحب مکس)المراد بہ العشار وھو الذی یأخذ الضریبة من الناس قال البیہقی :المکس النقصان فإذا انتقص العامل من حق أھل الزکاة فہو صاحب مکس))
’’جنت میں ٹیکس لینے والا داخل نہیں ہوگا ،(حدیث میں )اس سے وہ دسواں حصہ لینے والا مراد ہے جولوگوں سے ٹیکس لیتا ہے ۔امام بیہقی رحمہ اللہ نے فرمایا :مکس کے معنی نقصان کے ہیں۔جب عامل زکوٰۃ دینے والوں سے ان کا مال (ٹیکس لینے کی صورت میں )کم کردے تو وہ ٹیکس لینے والا ہے ‘‘۔
(فیض القدیر،ج:۶ص:۴۴۹)

’’ قال الطیبی:وفیہ أن المکس من أعظم الموبقات وعدہ الذھبی من الکبائر ثم قال :فیہ شبہة من قاطع الطریق وھو شر من اللص‘‘

’’علامہ طیبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اس حدیث میں جو ارشاد ہے اس سے معلوم ہوا کہ ٹیکس ہلاک کرنے والے گناہوں میں سے ہے اور امام ذہبی رحمہ اللہ نے اس کوگناہ کبیرہ میں شمار کیا ہے پھر فرمایا یہ (ٹیکس لینا)مشابہ ہے راستوںکوقطع کرنے والے ڈاکوؤں کی مانند اور چور سے زیادہ بدترہے‘‘۔
(فیض القدیر،ج:۶ص:۵۸۱)

امام ابوبکر الجصاص الحنفی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’وَکَذَلِکَ حُکْمُ مَنْ یَأْخُذُ أَمْوَالَ النَّاسِ مِنْ الْمُتَسَلِّطِینَ الظَّلَمَةِ وَآخِذِی الضَّرَائِبِ وَاجِبٌ عَلَی کُلِّ الْمُسْلِمِینَ قِتَالُہُمْ وَقَتْلُہُمْ إذَا کَانُوا مُمْتَنِعِینَ،وَھَؤُلَاء ِ أَعْظَمُ جُرْمًا مِنْ آکِلِی الرِّبَا لِانْتِہَاکِہِمْ حُرْمَةَ النَّہْیِ وَحُرْمَةَ الْمُسْلِمِینَ جَمِیعًا.وَآکِلُ الرِّبَا إنَّمَا انْتَہَکَ حُرْمَةَ اللَّہِ تَعَالَی فِی أَخْذِ الرِّبَا وَلَمْ یَنْتَہِکْ لِمَنْ یُعْطِیہِ ذَلِکَ حُرْمَة؛لِأَ نَّہُ أَعْطَاہُ بِطِیبَةِ نَفْسِہِ۔وَآخِذُو الضَّرَائِبِ فِی مَعْنَی قُطَّاعِ الطَّرِیقِ الْمُنْتَہِکِینَ لِحُرْمَةِ نَہْیِ اللَّہِ تَعَالَی وَحُرْمَةِ الْمُسْلِمِینَ؛إذْ کَانُوا یَأْخُذُونَہُ جَبْرًا وَقَہْرًا لَا عَلَی تَأْوِیلٍ وَلَا شُبْہَةٍ،فَجَائِزٌ لِمَنْ عَلِمَ مِنْ الْمُسْلِمِینَ إصْرَارَ ھَؤُلَاء ِ عَلَی مَا ھُمْ عَلَیْہِ مِنْ أَخْذِ أَمْوَالِ النَّاسِ عَلَی وَجْہِ الضَّرِیبَةِ أَنْ یَقْتُلَہُمْ کَیْفَ أَمْکَنَہُ قَتْلُہُمْ،وَکَذَلِکَ أَتْبَاعُہُمْ وَأَعْوَانُہُمْ الَّذِینَ بِہِمْ یَقُومُونَ عَلَی أَخْذِ الْأَمْوَالِ .‘‘
’’اسی طرح ان ظالموں کاحکم بھی یہی ہے جو لوگوں پر مسلط ہوکر ان کے مال ناحق چھینتے ہیں اور ان سے ناجائز محصولات(ٹیکس)بٹورتے ہیں ۔اگر یہ لوگ طائفہ ممتنعہ(طاقتورگروہ) کی صورت میں ہوں تو ان کے خلاف قتال کرنا اور انہیں قتل کرنا تمام مسلمانوں پر واجب ہوگا۔ یہ لوگ تو سودخوروں سے بھی بڑے مجرم ہیں، کیونکہ یہ نہ صرف اللہ تعالیٰ کے احکامات کی حرمت پامال کرتے ہیں ،بلکہ مسلمانوں کی حرمت کا بھی پاس نہیں کرتے۔اس کے برعکس سود خور حکم الٰہی کی حرمت تو یقینا پامال کرتا ہے ،لیکن سود دینے والے کی حرمت پامال نہیں کرتا،کیونہ وہ توا پنی رضا سے سود دیتا ہے ۔ناحق محصولات لینے والے ان ظالموں کا حکم تو اُن رہزنوں(قطاع الطریق)کا سا ہے جو اللہ کی حدود کو بھی روندتے ہیں اور مسلمانوں (کے اموال)کی حرمت بھی پامال کرتے ہیں ۔یہ بھی رہزنوں کی طرح کسی تاویل یا شبہے کے بغیر جبراً وقہراً(مسلمانوں کا)مال غصب کرے ہیں۔پس جو مسلمان بھی ایسے لوگوں کو جانتاہوجو محصولات کے نام پر مسلمانوں کا مال ناحق لوٹتے ہوں اور اس پر مصر بھی رہیں ،اس کے لئے جائز ہے کہ (ٹیکس دینے کے بجائے )کسی بھی ممکنہ طریقے سے ان ظالموں کو قتل کرڈالے ۔اسی طرح ہر مسلمان کے لئے ان کے پیروکاروں و مدد گاروں کو قتل کرنا بھی جائز ہوگا کہ جن کے بل پر یہ عام لوگوں سے ناحق مال چھیننے کی قابل ہوتے ہیں‘‘۔
(احکام القرآن للجصاص:ج۳،ص:۱۹۱)

عصر حاضر میں وہ علماء سوء جن کے مقدر میں طواغیت کی چاپلوسی ہی کرنا رہ گیا ہے ،وہ ان طواغیت کی جانب سے مسلط کردہ ٹیکسوں کے ’’رفاہ عامہ ‘‘کے عنوان کے تحت یہ کہہ کر جائز قرار دیتے ہیں کہ ان سے حاصل ہونی والی رقوم عوام کی فلاح وبہبود پر خرچ ہونگی۔اس کے ساتھ ساتھ وہ مسلمانوں کے ان ٹیکسوں کی ادائیگی کو واجب قراردیتے ہیں بلکہ ان کی ادئیگی نہ کرنے والوں مطعون اور گناہ گار سمجھتے ہیں۔

چناچہ اس مغالطے کا جواب استاذ المجاہدین امام ابومحمد عاصم المقدسی فک اللہ اسرہٗ یوں دیتے ہیں:
’’اور رہا مسئلہ سلاطین کے کسی عالم کا ٹیکس کے محکموں میں کام کرنے کو جائز قرار دینا (کہ اس میں کوئی حرج نہیں)۔ اس دعوے کی بنیاد پر کہ مکس (ٹیکس)تو اسے کہا جاتا ہے جو چور اور ڈاکو بغیر کسی حق اور معاوضے کے زبردستی لیتے ہیں۔ یہ تو ناجائز ہے البتہ آج کل کی حکومتیں جو ٹیکس لیتی ہیں وہ (اس کے گمان کے مطابق)’’رفاہ عامہ‘‘کے کاموں میں خرچ کرتی ہیں۔ جیسے سڑکیں، پل، ہسپتال وغیرہ بنانے اور تعلیم وغیرہ پر…یہاں تک کہ وہ(عالم) اس نتیجے پر پہنچا کہ یہ تمام قسم کے ٹیکس یعنی وہ جبری ٹیکس نہیں (جس سے شریعت میں منع کیا گیا ہے)۔ لہٰذا ان کا ادا کرنا واجب ہے اور ان کی ادائیگی سے کترانا جائز نہیں۔تو بلاشبہ یہ بصیرت کی کمی اورمسئلے کی حقیقت سے دوری کا نتیجہ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جب کوئی اسلام کے بنیادی اصول کو ہی بدل دے تو یہ لازمی طور پر ایسے فروعی مسائل میں بھی خرابی پیدا کرے گا۔تو ہرصاحب بصیرت کو یہ صاف نظرآتا ہے کہ آج کل کے ملکوں میں انتہائی معمولی سی رقم ان (رفاہ عامہ کے)کاموں میں خرچ کی جاتی ہے کہ جن کا ذکر اس عالم نے کیا ہے۔ اورباقی سب تو حکام اوران کی حکومتوں کی شہوتوں کے لئے خرچ کیا جاتا ہے اور ان (حکام و حکومتوں)کی اکثریت پر تو اللہ تعالی کا یہ فرمان صادق آتا ہے:
إِنَّ الَّذِینَ کَفَرُوا یُنْفِقُونَ أَمْوَالَہُمْ لِیَصُدُّوا عَنْ سَبِیلِ اللَّہِ
’’یقینا وہ لوگ جو کافر ہیں اپنے اموال کو اللہ کے راستے سے روکنے کے لئے خرچ کرتے ہیں‘‘۔(الأنفال:۳۶)

پھراگراس (عالم)کے گمان کو سچ مان بھی لیا جائے کہ یہ اموال انہیں کاموں میں خرچ کیئے جاتے ہیں جن کے بارے میں اس نے کہا ہے۔ تو پوچھا جائے کہ کسی مسلمان کا مال اس کی دلی رضامندی کے بغیر جبری طور پر کس حق کے تحت چھینا جاتا ہے۔ حالانکہ اس نے اسے رفاہ عامہ کے کاموں سڑکیں، پل، ہسپتال اور تعلیم وغیرہ میں خرچ کرنے کیلئے نہ تو صدقہ کیا اور نہ ہی اپنی دلی رضا مندی سے دیا اور یہ عالم کہاں بھاگ جاتا ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان سے:
’’کسی مسلمان کا مال اس کی دلی رضامندی کے بغیر لینا حلال نہیں‘‘۔

اوروہ عالم کہاں بھاگ جاتا ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان سے:
’’یقینا تمہارے خون اور تمہارے مال تمہارے لئے ایسے ہی حرمت والے ہیں کہ جیسے تمہارا یہ دن (حجۃالوداع کا دن)اور تمہارا یہ مہینہ (ذوالحجہ)اور تمہارا یہ شہر (مکۃ المکرمۃ)حرمت والا ہے‘‘۔

حقیقت یہ ہے کہ اس طرح کے فتووں سے کہ جن پرکسی بھی قسم کی کوئی شرعی دلیل نہیں ہوتی، صرف اور صرف حکمرانوں کی خوشنودی اور لوگوں کے اموال و حقوق پر ظالموں کے تسلط کو شریعت اور فتوے کے نام پر جائز بنانا مقصود ہوتا ہے‘‘۔
(اقتباس از فتویٰ ’’کسٹم میں کام کرنے کے بارے میں شرعی حکم‘‘منبر التوحید والجہاد)

ہر خاص وعام کو اور خاص کراہل علم حضرات کو احادیث کے ان نصوص اور سلف کے فتاویٰ پرغورکرنا چاہیے کہ جوکہ اس بات پر پوری طرح دلالت کرتے ہیں کہ مسلمانوں پر زکوۃ کی وصولی کے علاوہ کوئی اور ٹیکس نہیں ہے،وہ بھی جبکہ دار الاسلام ہویعنی حاکم بھی مسلمان ہو اور قوانین اسلامی کابھی مکمل اجراء ہو۔آج جبکہ ٹیکس کا نفاذ ہی عالمی یہودی مالیاتی نظامی یعنی IMFاور World Bankکے حکم پر ہورہا ہے تو کیا اہل علم اس مسئلہ کو عوام الناس کے سامنے بیان کریں گے…؟؟
 
شمولیت
فروری 07، 2013
پیغامات
453
ری ایکشن اسکور
924
پوائنٹ
26
اہل علم سے سوال

اہل علم سے سوال

آج پوری دنیا میں کہیں دین اسلا م کا نفاذ نہیں اور بلاد اسلامیہ پر حکومت کرنے والے اکثر حکمران کرپٹ اور عیاش ہونے کے ساتھ ساتھ کئی دروازوں سے کفر و ارتداد میں داخل ہوچکے ہیں مثلاًالحکم بغیر ماانزل اللہ کے حکومت کرنا ، شریعت کے نفاذ کے لئے کھڑے ہونے والوں کو تہہ تیغ کرنا،مسلمانوں کے قتل عام میں یہودو نصاری کا ساتھ دینا اور مجاہدین فی سبیل اللہ کے مقابلے میں یہود ونصاریٰ کو ہرطرح کی عسکری وغیر عسکری سہولیات فراہم کرنا وغیرہ۔

اس ساری صورتحال میں موجودہ نظامِ محصولات (System of Tax)جوکہ فی نفسہٖ خود ایک ظلم و استبداد پر مبنی نظام ہے اور دوسری طرف یہ بات بھی طے شدہ ہے کہ ان محصولات کو رائج شدہ کفریہ و شرکیہ قوانین اور نظام کو جاری وساری رکھنے اورنام نہاد دہشت گردی کے خلاف جنگ میں، جوکہ ایک صلیبی جنگ ہے،استعمال کیا جاتاہے ۔

جیسا کہ یہ ذکر آچکا ہے کہ محصولات یا ٹیکس کی ایک قسم تو وہ ہے جوکہ جبراً لی جاتی ہے مثلاً اشیاء خوردو نوش ، بجلی وگیس وغیرہ کے بلوں ،ڈیزل و پیٹرول کے فروخت پر،اور جس کی جبراً ادائیگی کے بغیر ایک محکوم و مجبور شخص کے لئے ضروریات زندگی کا حصول ناممکن ہوجاتا ہے اور دوسری قسم ٹیکس کی وہ ہے جس کی ادائیگی حکومت کو براہ راست کرنی پڑتی ہے اور حکومت اس کام کے لئے مختلف اداروں اور ان کے ماتحت کام کرنے والوں کو مقرر کرتی ہے،لہٰذا معاشرے کی عمومی روش بنائی جاچکی ہے کہ ٹیکس کی پوری ادائیگی کرنے والے کو ’’اچھا شہری‘‘تصورکیا جاتا ہے اور اس میں کمی بیشی کرنے والے کو ’’چور‘‘قرار دیا جاتا ہے ۔لہٰذاصورت مسؤلہ میں :
(۱) کیا ایک شخص کفریہ و شرکیہ نظام اور اس کی محافظ حکومت کی اعانت سے بچنے کے لئے معاشرے کے عرف کے مطابق ’’چور ‘‘بننا پسند کرے یا پھر اس کی اعانت کے ذریعہ ’’اچھا شہری ‘‘ہونا ثابت کرے…؟
(۲) کیاایسے حکمرانوں کی طرف سے عائد کردہ محصولات کو برضا و رغبت اداکرنا بطور ایک فرد امت محمدیہﷺکے جائز ہے…؟
(۳) کیا ان محصولات کی ادائیگی کفر و ارتداد اور شرک کے ساتھ اعانت نہیں ہے…؟
(۴) کیاان محصولات کی برضاورغبت ادائیگی کرنے والے کا ایمان سلامت رہتا ہے…؟
یہ ہیں وہ سوالات جوکہ اہل علم اور فقہاء وقت سے مطلوب ہیں تو ہے کوئی ان سوالوں کا جواب دینے والا…؟؟
{وما توفیقی الا باللّٰہ}
 
شمولیت
فروری 07، 2013
پیغامات
453
ری ایکشن اسکور
924
پوائنٹ
26
ٹیکس لینے والے سود خور سے بڑ ے مجرم ہیں

ٹیکس لینے والے سود خور سے بڑ ے مجرم ہیں

’’اسی طرح ان ظالموں کاحکم بھی یہی ہے جو لوگوں پر مسلط ہوکر ان کے مال ناحق چھینتے ہیں اور ان سے ناجائز محصولات(ٹیکس)بٹورتے ہیں ۔اگر یہ لوگ طائفہ ممتنعہ(طاقتورگروہ)کی صورت میں ہوں تو ان کے خلاف قتال کرنا اور انہیں قتل کرنا تمام مسلمانوں پر واجب ہوگا۔ یہ لوگ تو سودخوروں سے بھی بڑے مجرم ہیں، کیونکہ یہ نہ صرف اللہ تعالیٰ کے احکامات کی حرمت پامال کرتے ہیں ،بلکہ مسلمانوں کی حرمت کا بھی پاس نہیں کرتے۔اس کے برعکس سود خور حکم الٰہی کی حرمت تو یقینا پامال کرتا ہے ،لیکن سود دینے والے کی حرمت پامال نہیں کرتا،کیونہ وہ توا پنی رضا سے سود دیتا ہے ۔ناحق محصولات لینے والے ان ظالموں کا حکم تو اُن رہزنوں(قطاع الطریق)کا سا ہے جو اللہ کی حدود کو بھی روندتے ہیں اور مسلمانوں (کے اموال)کی حرمت بھی پامال کرتے ہیں ۔یہ بھی رہزنوں کی طرح کسی تاویل یا شبہے کے بغیر جبراً وقہراً(مسلمانوں کا)مال غصب کرے ہیں۔پس جو مسلمان بھی ایسے لوگوں کو جانتاہوجو محصولات کے نام پر مسلمانوں کا مال ناحق لوٹتے ہوں اور اس پر مصر بھی رہیں ،اس کے لئے جائز ہے کہ (ٹیکس دینے کے بجائے )کسی بھی ممکنہ طریقے سے ان ظالموں کو قتل کرڈالے ۔اسی طرح ہر مسلمان کے لئے ان کے پیروکاروں و مدد گاروں کو قتل کرنا بھی جائز ہوگا کہ جن کے بل پر یہ عام لوگوں سے ناحق مال چھیننے کی قابل ہوتے ہیں‘‘۔
(امام ابوبکر الجصاص الحنفی رحمہ اللہ)

بشکریہ:
الموحدین ویب سائٹ
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,497
پوائنٹ
964
یہ موضوع تو اچھا ہے لیکن لگتا ہے احادیث کی صحت وضعف کا کوئی خیال نہیں رکھا گیا ۔ صاحب کتاب کو ہی چاہیے تھا کہ تمام احادیث کی تحقیق بھی شامل کتاب رکھتا ۔

نبی کرم ﷺا ور صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کی ٹیکس لینے والوں پر لعنت

((عن عَمْرِو بن دِینَارٍ،أَنَّہُ صَحِبَ ابْنَ عُمَرَ فِی السَّفَرِ فَکَانَ إِذَا طَلَعَ سُھَیْلٌ، قَالَ:لَعَنَ اللَّہُ سُھَیْلا،فَإِنِّی سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ،یَقُول:کَانَ عَشَّارًا،ویَغْصِبُھُمْ أَمْوَالَھُمْ،فَمَسَخَہُ اللَّہُ شِھَابًا،فَجَعَلَہُ حَیْثُ تَرَوْنَ))
’’عمر وبن دینار رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میں ایک سفر میں حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھا تو جب سھیل(نامی ستارہ)نمودار ہوا تو آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اللہ نے لعنت کی سھیل پر، پس میں نے سنا رسول اللہﷺسے وہ فرمارہے تھے کہ(یہ)وہ(شخص تھا جو) علانیہ لوگوں سے ٹیکس لیتا تھا اور ان پر ظلم کرتا تھا اور ان کے مالوں کو غصب کرتا تھا پھر اللہ نے اس کو مسخ کردیا جھلساکراور اس کو معلق کردیا وہاں جہاں تم اس کو دیکھتے ہو‘‘۔
(المعجم الکبیر للطبرانی،ج:۱۱،ص:۲۶۸،رقم:۵۵۵۔المعجم الاوسط للطبرانی،ج:۱۵،ص:۳۹۶،رقم:۷۳۲۰۔مجمع الزوائد،ج:۳ص:۸۸۔ الجامع الصغیرللسیوطی،ج:۱ص:۱۵۳)

((عَنْ عَلِیِّ بن أَبِی طَالِبٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ،أَنّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ :لَعَنَ اللَّہُ سُہَیْلا ،ثَلاثَ مِرَارٍ،فَإِنَّہُ کَانَ یُعْشِرُ النَّاسَ فِی الأَ رْضِ فَمَسَخَہُ اللَّہُ شِہَابًا))
’’حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسو ل اللہﷺنے فرمایا کہ لعنت ہو اللہ کی سہیل پر تین دفعہ بے شک وہ لوگوں سے ٹیکس لینے والاتھا زمین پر پس اللہ نے اس کو مسخ کردیا‘‘۔
(المعجم الکبیر للطبرانی،ج:۱،ص:۸۹،رقم:۱۷۹۔مجمع الزوائد،ج:۳ص:۸۸وفیہ جابر الجعفی وفیہ کثیر وقد وثقہ شعبةؒ وسفیان الثوریؒ،)

((عن ابی طفیل أن علیارضی اللّٰہ عنہ کان اذا رأی سھیلا سبہ وقال انہ کان عشاراظاھرا یبخس بین الناس بالظلم فمسخہ اللّٰہ شھابا))
’’حضرت ابوطفیل سے حضرت علی رضی اللہ عنہ نے جب سہیل(نامی ستارے)کی طرف دیکھا تو اس کو برا بھلا کہا اور فرمایا کہ وہ علانیہ دسواں حصہ لینے والا تھا ،کمی کرتا تھا لوگوں کے مال میں ظلم کرکے پس اللہ تعالیٰ نے مسخ کردیا اس کو جھلساکر‘‘۔
(کنز العمال،ج:۷ص:۱۴۹رقم:۱۸۴۵۷۔العظمة،ج:۴ص:۱۲۱۶رقم:۶۸۹۱۰)

((عن ابی طفیل قال قال رسول اللّٰہ ﷺ لعن اللّٰہ سھیلا کان عشارایعشر فی الأرض بالظلم فمسخہ اللّٰہ شھابا))
’’ابو طفیل سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺنے فرمایا اللہ نے لعنت کی سہیل پر ،وہ ٹیکس لینے والا تھا دسواں حصہ لیتا تھا زمین میں ظلم کرکے پس اللہ تعالیٰ نے اس کو جھلساکر مسخ کردیا‘‘۔
(العظمة،ج:۴ص:۱۲۱۷رقم الحدیث:۶۹۱۲۱)
دیگر احادیث کا تو مجھے علم نہیں البتہ درج ذیل حدیث کے متن کی وجہ سے مجبورا ایک دوجگہ دیکھنا پڑا تو پتہ چلا ہے کہ روایت صرف ضعیف نہیں بلکہ ضعیف جدا ہے ۔

طبرانی کی اس روایت کو امام سیوطی نے ذم المکس ( ص ١٠٦ ط دار الصحابۃ )میں ذکر کیا ہے جس پر محقق نے درج ذیل تعلیق لگائی ہے ۔
حديث ضعيف جداً. أورده الهيثمي في مجمع الزوائد (3/ 88) وقال: رواه البزار، والطبراني في الكبير، والأوسط، وضعفه البزار لأن في روايته إبراهيم بن يزيد الخوزي، وهو متروك، وفي الأخرى ميسر بن عبيد، وهو متروك أيضاً.
* وأخرجه الطبراني (181) في الكبير من طريق أبي حذيفة عن سفيان عن جابر عن أبي الطفيل عن علي بن أبي طالب.
قال الهيثمي في المجمع (3/ 89): فيه جابر الجعفي، وفيه كلامٌ كثير، قلت: هو من الضعفاء كما هو واضح من ترجمته.

اس روایت کی تفصيلی حالت شیخ البانی نے بایں الفاظ بیان کی ہے :
4196 - (كان إذا رأى سهيلا قال: لعن الله سهيلا؛ فإنه كان عشارا فمسخ) .
موضوع
رواه ابن السني في "عمل اليوم والليلة" (رقم 644) عن إسرائيل ابن يونس، عن جابر، عن أبي الطفيل، عن علي مرفوعا.
قلت، وهذا إسناد موضوع؛ آفته جابر هذا - وهو الجعفي - وهو كذاب؛ كما سبق غير مرة، ومع ذلك فقد سود به السيوطي "الجامع الصغير"!
وقد روي بلفظ آخر، وهو:
"لعن الله سهيلا (ثلاث مرات) ؛ فإنه كان يعشر الناس في الأرض؛ فمسخه الله شهابا".
رواه الطبراني في "الكبير" (1/ 12/ 1) ، ومشرق بن عبد الله الفقيه في "حديثه" (65/ 1) عن سفيان، عن جابر به مرفوعا.
والحديث أورده ابن الجوزي في "الموضوعات" وقال:
"لا يصح؛ مداره على جابر الجعفي وهو كذاب، ورواه وكيع عن الثوري موقوفا، وهو الصحيح".
قلت: وعليه؛ فهو من الإسرائيليات؛ رفعه هذا الكذاب!
وقد تعقبه السيوطي في "اللآلي" (1/ 160) بأمرين:
الأول: أن جابرا وثقه شعبة وطائفة.
قلت: وقد كذبه آخرون من الأئمة؛ منهم ابن معين، وأحمد، وزائدة وحلف على ذلك، وغيرهم.والجرح مقدم على التعديل؛ فما فائدة التعقب بالتوثيق المذكور بعد الجرح المفسر؟!
الثاني: أن له طريقا أخرى؛ ساقها من رواية أبي الشيخ في "العظمة" بسند له فيه جهالة، عن إسحاق بن سليمان، عن عمر بن قيس، عن يحيى بن عبد الله، عن أبي الطفيل مرفوعا به.
قلت: وسكت عنه السيوطي فأساء؛ لأنه مع الجهالة التي أشرنا إليها؛ فإن عمر بن قيس - وهو أبو جعفر المعروف بـ "سندل" -؛ متفق على تضعيفه،
وقال البخاري:
"منكر الحديث". وقال أحمد:
"أحاديثه بواطيل".
قلت: فمثله لا يستشهد به ولا كرامة.
وللحديث شاهد شر من هذه؛ أخرجه ابن السني أيضا (رقم 646) عن عثمان ابن عبد الرحمن: حدثنا إبراهيم بن يزيد، عن عمرو بن دينار، عن عبد الله بن عمر مرفوعا نحوه.
وهذا إسناد موضوع؛ عثمان بن عبد الرحمن - هو الوقاصي -؛ وهو كذاب، وقد مضى مرارا.
وشيخه إبراهيم بن يزيد؛ الظاهر أنه الخوزي وهو ضعيف جدا؛ قال أحمد والنسائي:
"متروك". وقال ابن معين:
"ليس بثقة". وقال البخاري:
"سكتوا عنه".
ثم رأيته عند البزار (1/ 427/ 902) من طريق عبد الأعلى - وهو ابن عبد الأعلى السامي الثقة -: حدثنا إبراهيم بن يزيد به.
ثم رواه (903) من طريق مبشر بن عبيد، عن زيد بن أسلم، عن ابن عمر.
ومبشر؛ كذاب.
( الضعیفۃ ج ٩ ص ٢٠٧ و ما بعدہا )
 
شمولیت
فروری 07، 2013
پیغامات
453
ری ایکشن اسکور
924
پوائنٹ
26
یہ موضوع تو اچھا ہے لیکن لگتا ہے احادیث کی صحت وضعف کا کوئی خیال نہیں رکھا گیا ۔ صاحب کتاب کو ہی چاہیے تھا کہ تمام احادیث کی تحقیق بھی شامل کتاب رکھتا ۔

دیگر احادیث کا تو مجھے علم نہیں البتہ درج ذیل حدیث کے متن کی وجہ سے مجبورا ایک دوجگہ دیکھنا پڑا تو پتہ چلا ہے کہ روایت صرف ضعیف نہیں بلکہ ضعیف جدا ہے ۔

طبرانی کی اس روایت کو امام سیوطی نے ذم المکس ( ص ١٠٦ ط دار الصحابۃ )میں ذکر کیا ہے جس پر محقق نے درج ذیل تعلیق لگائی ہے ۔
حديث ضعيف جداً. أورده الهيثمي في مجمع الزوائد (3/ 88) وقال: رواه البزار، والطبراني في الكبير، والأوسط، وضعفه البزار لأن في روايته إبراهيم بن يزيد الخوزي، وهو متروك، وفي الأخرى ميسر بن عبيد، وهو متروك أيضاً.
* وأخرجه الطبراني (181) في الكبير من طريق أبي حذيفة عن سفيان عن جابر عن أبي الطفيل عن علي بن أبي طالب.
قال الهيثمي في المجمع (3/ 89): فيه جابر الجعفي، وفيه كلامٌ كثير، قلت: هو من الضعفاء كما هو واضح من ترجمته.

اس روایت کی تفصيلی حالت شیخ البانی نے بایں الفاظ بیان کی ہے :
4196 - (كان إذا رأى سهيلا قال: لعن الله سهيلا؛ فإنه كان عشارا فمسخ) .
موضوع
رواه ابن السني في "عمل اليوم والليلة" (رقم 644) عن إسرائيل ابن يونس، عن جابر، عن أبي الطفيل، عن علي مرفوعا.
قلت، وهذا إسناد موضوع؛ آفته جابر هذا - وهو الجعفي - وهو كذاب؛ كما سبق غير مرة، ومع ذلك فقد سود به السيوطي "الجامع الصغير"!
وقد روي بلفظ آخر، وهو:
"لعن الله سهيلا (ثلاث مرات) ؛ فإنه كان يعشر الناس في الأرض؛ فمسخه الله شهابا".
رواه الطبراني في "الكبير" (1/ 12/ 1) ، ومشرق بن عبد الله الفقيه في "حديثه" (65/ 1) عن سفيان، عن جابر به مرفوعا.
والحديث أورده ابن الجوزي في "الموضوعات" وقال:
"لا يصح؛ مداره على جابر الجعفي وهو كذاب، ورواه وكيع عن الثوري موقوفا، وهو الصحيح".
قلت: وعليه؛ فهو من الإسرائيليات؛ رفعه هذا الكذاب!
وقد تعقبه السيوطي في "اللآلي" (1/ 160) بأمرين:
الأول: أن جابرا وثقه شعبة وطائفة.
قلت: وقد كذبه آخرون من الأئمة؛ منهم ابن معين، وأحمد، وزائدة وحلف على ذلك، وغيرهم.والجرح مقدم على التعديل؛ فما فائدة التعقب بالتوثيق المذكور بعد الجرح المفسر؟!
الثاني: أن له طريقا أخرى؛ ساقها من رواية أبي الشيخ في "العظمة" بسند له فيه جهالة، عن إسحاق بن سليمان، عن عمر بن قيس، عن يحيى بن عبد الله، عن أبي الطفيل مرفوعا به.
قلت: وسكت عنه السيوطي فأساء؛ لأنه مع الجهالة التي أشرنا إليها؛ فإن عمر بن قيس - وهو أبو جعفر المعروف بـ "سندل" -؛ متفق على تضعيفه،
وقال البخاري:
"منكر الحديث". وقال أحمد:
"أحاديثه بواطيل".
قلت: فمثله لا يستشهد به ولا كرامة.
وللحديث شاهد شر من هذه؛ أخرجه ابن السني أيضا (رقم 646) عن عثمان ابن عبد الرحمن: حدثنا إبراهيم بن يزيد، عن عمرو بن دينار، عن عبد الله بن عمر مرفوعا نحوه.
وهذا إسناد موضوع؛ عثمان بن عبد الرحمن - هو الوقاصي -؛ وهو كذاب، وقد مضى مرارا.
وشيخه إبراهيم بن يزيد؛ الظاهر أنه الخوزي وهو ضعيف جدا؛ قال أحمد والنسائي:
"متروك". وقال ابن معين:
"ليس بثقة". وقال البخاري:
"سكتوا عنه".
ثم رأيته عند البزار (1/ 427/ 902) من طريق عبد الأعلى - وهو ابن عبد الأعلى السامي الثقة -: حدثنا إبراهيم بن يزيد به.
ثم رواه (903) من طريق مبشر بن عبيد، عن زيد بن أسلم، عن ابن عمر.
ومبشر؛ كذاب.
( الضعیفۃ ج ٩ ص ٢٠٧ و ما بعدہا )
محترم خضر حیات صاحب السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ آپ نے بالکل صحیح فرمایا ہے۔احادیث کی صحت اور ضعف کے بارے میں۔ لیکن جب میں دیکھا علی بن زید بن جدعان کی حدیث کی موافقت دوسری حدیث سے ہورہی ہے۔اور عطاء بن السائب کی احادیث کی متابعت میں دیگر دوسری احادیث بھی ہیں تو میں نے ان روایات سے صرف نظر کرلیا۔ لیکن میں نے جس سائٹ سے یہ کتاب اٹھائی ہے ان کو ان احادیث کی صحت اور ضعف کے بارے میں آگاہ کردیا ہے۔جیسے ہی مجھے جواب موصول ہوا میں ان شاء اللہ آپ کو مطلع کروں گا۔
آپ کے پیغام کا بہت بہت شکریہ ۔ ویسے بھی مجھے اہل علم سے بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملتا ہے الحمد للہ۔
 

کیلانی

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 24، 2013
پیغامات
347
ری ایکشن اسکور
1,110
پوائنٹ
127
اہل علم سے سوال

آج پوری دنیا میں کہیں دین اسلا م کا نفاذ نہیں اور بلاد اسلامیہ پر حکومت کرنے والے اکثر حکمران کرپٹ اور عیاش ہونے کے ساتھ ساتھ کئی دروازوں سے کفر و ارتداد میں داخل ہوچکے ہیں مثلاًالحکم بغیر ماانزل اللہ کے حکومت کرنا ، شریعت کے نفاذ کے لئے کھڑے ہونے والوں کو تہہ تیغ کرنا،مسلمانوں کے قتل عام میں یہودو نصاری کا ساتھ دینا اور مجاہدین فی سبیل اللہ کے مقابلے میں یہود ونصاریٰ کو ہرطرح کی عسکری وغیر عسکری سہولیات فراہم کرنا وغیرہ۔

اس ساری صورتحال میں موجودہ نظامِ محصولات (System of Tax)جوکہ فی نفسہٖ خود ایک ظلم و استبداد پر مبنی نظام ہے اور دوسری طرف یہ بات بھی طے شدہ ہے کہ ان محصولات کو رائج شدہ کفریہ و شرکیہ قوانین اور نظام کو جاری وساری رکھنے اورنام نہاد دہشت گردی کے خلاف جنگ میں، جوکہ ایک صلیبی جنگ ہے،استعمال کیا جاتاہے ۔

جیسا کہ یہ ذکر آچکا ہے کہ محصولات یا ٹیکس کی ایک قسم تو وہ ہے جوکہ جبراً لی جاتی ہے مثلاً اشیاء خوردو نوش ، بجلی وگیس وغیرہ کے بلوں ،ڈیزل و پیٹرول کے فروخت پر،اور جس کی جبراً ادائیگی کے بغیر ایک محکوم و مجبور شخص کے لئے ضروریات زندگی کا حصول ناممکن ہوجاتا ہے اور دوسری قسم ٹیکس کی وہ ہے جس کی ادائیگی حکومت کو براہ راست کرنی پڑتی ہے اور حکومت اس کام کے لئے مختلف اداروں اور ان کے ماتحت کام کرنے والوں کو مقرر کرتی ہے،لہٰذا معاشرے کی عمومی روش بنائی جاچکی ہے کہ ٹیکس کی پوری ادائیگی کرنے والے کو ’’اچھا شہری‘‘تصورکیا جاتا ہے اور اس میں کمی بیشی کرنے والے کو ’’چور‘‘قرار دیا جاتا ہے ۔لہٰذاصورت مسؤلہ میں :
(۱) کیا ایک شخص کفریہ و شرکیہ نظام اور اس کی محافظ حکومت کی اعانت سے بچنے کے لئے معاشرے کے عرف کے مطابق ’’چور ‘‘بننا پسند کرے یا پھر اس کی اعانت کے ذریعہ ’’اچھا شہری ‘‘ہونا ثابت کرے…؟
(۲) کیاایسے حکمرانوں کی طرف سے عائد کردہ محصولات کو برضا و رغبت اداکرنا بطور ایک فرد امت محمدیہﷺکے جائز ہے…؟
(۳) کیا ان محصولات کی ادائیگی کفر و ارتداد اور شرک کے ساتھ اعانت نہیں ہے…؟
(۴) کیاان محصولات کی برضاورغبت ادائیگی کرنے والے کا ایمان سلامت رہتا ہے…؟
یہ ہیں وہ سوالات جوکہ اہل علم اور فقہاء وقت سے مطلوب ہیں تو ہے کوئی ان سوالوں کا جواب دینے والا…؟؟
{وما توفیقی الا باللّٰہ}
اسلامی حکمرانوں کاٹیکس عا ئد کرنا شرعی نقطہءنظرسے حقیقتا ایک بہت بڑا جرم ہےاس کی سگینی کے حوالے سے برادرم نے جو نصوص نقل فرمائی ہیں وہ باالکل بجاہیں تاہم اس سلسلے میں چند ایک معرضات پیش کرناضروری سمجھتاہوں اول یہ کہ ٹیکس اس وقت الینا جائز ہے جب اسلامی حکومت کی مجبوری ہوکیونکہ مجبوری میں شرعی احکام حلال ہوجاتے ہیں البتہ موجودہ حکومتیں کہاں تک مجبور ہیں یہ ایک الگ مسئلہ ہے دوسری بات یہ ہے کہ مجودہ اسلامی ریاستوں کے سربراہان کی بعض خلاف شرع امور کی بناپر تکفیروتردید کرنا محل نظرہے ۔
 
Top