ابو داؤد
رکن
- شمولیت
- اپریل 27، 2020
- پیغامات
- 569
- ری ایکشن اسکور
- 176
- پوائنٹ
- 77
مسلمانوں کے خلاف کافروں کی پشت پناہی و نصرت کرنے والے صلیبی حلیف و معاون مداخلہ
بسم اللہ الرحمن الرحیم
مدخلی فرقہ ایک گمراہ فرقہ ہے جو متعدد انواع واقسام کے ظاہری وباطنی کفریات وشرکیات و زندیقیت سے لبریز ہے جن میں سے ایک مسلمانوں کے خلاف کفار کی معاونت کرنا بالخصوص مجاہدین اسلام کے مقابلے میں کافروں کی مدد و نصرت کرنا ہے اور اس طریق ارتداد پر پوری مدخلیت گامزن ہیں چاہے وہ مدخلیوں کے سیکولر حکمران حفتر، سیسی اور بن سلمان ہو جو حکومتی سطح پر عراق، شام، یمن و دیگر ممالک میں مسلمانوں کے خلاف جنگ میں امریکا کے اتحادی بن مسلمانوں کے قتل میں صلیبیوں کا ساتھ دیتے ہیں۔
یا پھر ان سیکولر حکمرانوں کی چاپلوسی کرنے والے مداخلہ جو مجاہدین اسلام پر خوارج کی تہمت لگا کر امریکا کے پشت پناہ طواغیت کو اولی الامر باور کراتے، امریکی جارحیت کو امن پسندی اور اسلامی جہاد کو دہشتگردی قرار دیکر مسلمانوں کا مجاہدین اسلام کا خون حلال کرتے ہیں اور اپنے بیانات و فتاویٰ کے ذریعے مجاہدین کے مقابلے میں کفار سے دوستی و موالات کرتے اور مسلمانوں کے خلاف کافروں کی معاونت جائز قرار دیتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :
لَّا يَتَّخِذِ الْمُؤْمِنُونَ الْكَافِرِينَ أَوْلِيَاءَ مِن دُونِ الْمُؤْمِنِينَ ۖ وَمَن يَفْعَلْ ذَٰلِكَ فَلَيْسَ مِنَ اللَّهِ فِي شَيْءٍ
مومنوں کو چاہیے کہ ایمان والوں کو چھوڑ کر کافروں کو اپنا دوست نہ بنائیں اور جو ایسا کرے گا اس کا اللہ تعالیٰ سے کوئی تعلق نہیں ہوگا۔
[سورة آل عمران، آیت: ۲۸]
امام ابن جرير الطبری رحمہ اللہ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں:
ومعنى ذلك: لا تَتَّخِذوا أيها المؤمنون الكفار ظَهْرًا وأنصارًا، تُوالونهم على ديِنهم، وتُظاهرونهم على المسلمين من دونِ المؤمنين، وتَدلُّونهم على عوراتهم، فإنه مَن يَفْعَلْ ذلك ﴿فَلَيْسَ مِنَ اللَّهِ فِي شَيْءٍ﴾، يعنى بذلك: فقد برِئَ مِن الله، وبَرِئَ الله منه، بارتدادِه عن دينِه، ودخولِه في الكفرِ
اس کا مطلب یہ ہے کہ اے ایمان والو، کافروں کو حامی و مددگار نہ بناؤ۔ تم ان کے دین میں ان کی حمایت کرتے ہو، مسلمانوں کے مقابلے میں تم ان کی حمایت کرتے ہو، اور ان کے محارم کی طرف دشمنوں کی تحریض کرتے ہو۔ جو بھی ایسا کرتا ہے اس کا اللہ سے کوئی تعلق نہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اللہ سے بری ہو گیا ، اور اللہ بھی اس سے بری ہوگیا، اس لیے کہ وہ اس کے دین سے بری ہوگیا۔
[تفسير الطبري جامع البيان - ت التركي، ج: ٥، ص: ٣١٥]
چونکہ مدخلی فرقہ بھی ان کے ہم منہج فرقہ قادیانی کی طرح ایک بزدل اور ڈرپوک فرقہ ہے اس لئے ان مداخلہ میں اتنی ہمت و جرت تو نہیں ہوتی کہ عملی میدان میں آکر مجاہدین اسلام کا مقابلہ کر سکے یا علمی میدان میں ہی ان کے سامنے آکر گفتگو کر لے، اسلئے یہ مخنث مداخلہ حکومتی اداروں پولیس و انٹیلیجنس اجنسیوں کے لئے جاسوسی کر اسلامی شریعت کے نفاذ و خلاف کے قیام کی دعوت دینے والے مسلمانوں، یا کفار کے خلاف جہاد کرنے والے مجاہدین اسلام کی مخبری کر انہیں پکڑوانے اور گرفتار کرانے میں کافروں کی معاونت کرتے ہیں۔
مدخلیوں کے ایک بڑے مولوی احمد بن یحی نجمی سے سوال ہوا :
هل يجوز مساعدة الكفار في إلقاء القبض على من يدعون حقًّا أو باطلا أنَّهم من منظمي هذه العمليات؟ وما الحكم إذا كان منظمي هذه العمليات من المسلمين ؟
اس طرح (جہادی) کاروائیوں میں شامل لوگوں کو گرفتار کرانے میں کیا کفار کی مدد کرنا جائز ہے خواہ ان لوگوں کا دعوی حق ہو یا باطل؟ اور واقعی اس میں شامل افراد مسلمانوں میں سے ہوں تو اس کا کیا حکم ہے؟
اس کے جواب میں مدخلی مولوی احمد بن یحییٰ نجمی کہتا ہے :
يجوز التعاون مع الكفار غير المحاربين على أصحاب العمليات الإرهابية ؛ سواء كانوا من المسلمين أو الكفار ؛ لأنَّ السكوت عنهم يلحق الضرر بالإسلام والمسلمين ، فيظن أنَّ الإسلام دين إرهاب
ان دہشت گرد کاروائیوں میں ملوث افراد کے خلاف ان غیر محارب کفار کا تعاون کرنا بالکل جائز ہے، خواہ وہ لوگ مسلمان ہوں یا کافر، کیونکہ کفار کی مدد نہ کرنے کی صورت میں اسلام و مسلمانوں کو مزید نقصان ہوگا، اور کفار یہ گمان کریں گے اسلام ایک دہشت گرد دین ہے۔
[الفتاوى الجلية عن المناهج الدعوية، ج: ٢، ص: ٥٧]
یہاں سوال کرنے والے نے مجاہدین کی گرفتاری میں مساعدة الكفار یعنی کفار کی مدد کے تعلق سے سوال کیا اور آگے یہ بھی وضاحت کر دی تھی کہ کفار کے خلاف کارروائی کرنے والے "من المسلمين" مسلمانوں میں سے ہیں۔
اس کے باوجود اس بدبخت مدخلی نجمی نے فتویٰ دیا کہ "يجوز التعاون مع الكفار" یعنی کفار کی معاونت کرنا جائز ہے! اور اپنی زندیقیت کی مزید تصدیق کرتے ہوئے نجمی نے یہ بھی کہہ دیا کہ "كانوا من المسلمين" چاہے وہ لوگ مسلمانوں میں سے ہی ہو۔ ان کے خلاف کفار کی معاونت جائز! یہ ہے ان مدخلی زنادقہ کا کفر وارتداد اور اسلام دشمنی۔
امام محمد بن عبد الوھاب رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
اعلم أن من أعظم نواقض الإسلام عشرة … الثامن : مظاهرة المشركين ومعاونتهم على المسلمين
جان لیجیۓ اسلام کے بڑے نواقض (وہ امور جن کے ارتکاب سے انسان دائرہ اسلام سے خارج ہو جاتا ہے) دس ہیں۔۔۔۔ جن میں سے آٹھواں کام مسلمانوں کے مقابلے میں مشرکین کو غالب کرنا اور ان کی مدد کرنا ہے۔
[الدرر السنية في الأجوبة النجدية، ج: ١٠، ص: ٩١-٩٢]
شیخ ابو محمد امین اللہ الپشاوری حفظہ اللہ فرماتے ہیں:
اعلم أن مظاهرة المشركين ومعاونتهم على المسلمين كفر بإجماع المسلمين وهو الناقض الثامن الذى ذكره الشيخ محمد بن عبد الوهاب رحمه الله والدليل قوله تعالى : ومن يتولهم منكم فإنه منهم المائدة : ٥١
یہ امر معلوم رہنا چاہیے کہ مسلمانوں کے خلاف مشرکوں کی مدد و نصرت کرنا کفر ہے اور اس پر اہل اسلام کا اجماع و اتفاق ہے۔ شیخ محمد بن عبد الوہاب رحمہ اللہ نے نواقض اسلام کی بحث میں اسے آٹھویں ناقض کے طور پر بیان کیا ہے۔ اس کی دلیل اللہ عزوجل کا یہ ارشاد ہے: ﴿وَمَن يَتَوَلَّهُم مِّنكُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ﴾ [المائدة: ۵۱] ”اور اگر تم میں سے کوئی ان کو اپنار پشت پناہ بناتا ہے، تو اس کا شمار پھر انھی میں ہے۔“
[فتاوى الدين الخالص، ج: ٩، ص: ٢١٩]
پس مسلمانوں کے خلاف کفار کی مدد و نصرت کرنے والے مداخلہ بالاجماع کفر بواح کے مرتکب ہیں۔ اب یہاں اس مدخلی مولوی احمد بن یحییٰ نجمی نے "غیر محاربین" کہہ کر ایک فریب دینا چاہا ہے اس سے کوئی دھوکے میں نہ پڑے کہ نجمی کی مراد یہاں جنگجو کافر نہیں ہے! مجاہدین کی گرفتاری میں جن کفار کی معاونت کے جواز کا فتویٰ اس بدبخت نے دیا ہے ان کو غیر محاربین قرار دینا خود اس نجمی کی خباثت کا ایک ثبوت ہے۔
شیخ ابو عبداللہ المہاجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
أن كل كافر ليس له أمان من أهل الإسلام : فهو حربي بالذات وجدت منه المحاربة أم لا.
ہر وہ کافر جس کو اہل اسلام سے امان حاصل نہیں: وہ حربی ہے، خواہ وہ جنگ لڑنے والا ہو یا نہ ہو۔
[مسائل من فقه الجهاد، ص: ٤٣]
جس کافر کو اہل اسلام سے امان حاصل نہ ہو وہ محارب ہوتا ہے چاہے وہ بذات خود جنگ لڑے یا نہ لڑے تو عراق، شام، یمن، افغانستان میں اسلام و مسلمانوں کے خلاف جنگ لڑنے والے امریکا اور اس کے اتحادی جن کے پاس نہ امان ہیں بلکہ وہ بذات خود مسلمانوں کے علاقوں پر حملہ آور ہوکر انہیں اپنی جارحیت کا نشانہ بنا رہے ہیں وہ بدرجہ اولی محاربین میں شمار ہوتے ہیں۔
لیکن اسلام کے خلاف حرب میں شامل ان کافروں کو مداخلہ غیر محاربین قرار دیتے ہیں اس کی وجہ مدخلیوں کے طواغیت ہیں جنہیں مداخلہ اولی الامر باور کراتے ہیں وہ خود امریکا کے اتحادی بنے ہوئے ہیں، یہود و نصاریٰ سے ولاء رکھتے ہیں اور مسلمانوں کے خلاف جنگ میں ایک دوسرے کے معاون بازو اور محافظ ہیں۔
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا الْيَهُودَ وَالنَّصَارَىٰ أَوْلِيَاءَ ۘ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ ۚ وَمَن يَتَوَلَّهُم مِّنكُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ ۗ إِنَّ اللَّهَ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ
اے ایمان والو! تم یہود و نصاریٰ کو دوست نہ بناؤ یہ تو آپس میں ہی ایک دوسرے کے دوست ہیں۔ تم میں سے جو بھی ان میں سے کسی سے دوستی کرے وہ بیشک انہی میں سے ہے، ظالموں کو اللہ تعالیٰ ہرگز راہ راست نہیں دکھاتا۔
[سورۃ المائدہ، آیت : ٥١]
اب اس مدخلی مولوی احمد نجمی کے اس غیر محاربین والے مغالطے کا پردہ چاک کرنے کے لئے ہم آپ کو اس نجمی کا ہی ایک بیان پیش کر رہے ہیں جس میں اس نے مسلمانوں کو تکفیری کا طعنہ دیکر ان کو گرفتار کروانے میں اسلام دشمن کافر فرانسیسی حکومت کی معاونت کرنے کا فتویٰ دیا ملاحظہ فرمائیں:
یہ بات سبھی کو معلوم ہے کہ فرانس امریکہ کا پرانا اتحادی ہے اور اس نے مجاہدین کے خلاف جنگ میں امریکہ کا بھرپور ساتھ دیا ہے تو اس قسم کے کفار جو اسلام و مسلمانوں کے خلاف جاری حرب میں سرفہرست ہیں مدخلی مولوی نجمی کا انہیں غیر محارب قرار دینا اور مجاہدین کی گرفتاری میں ان کی معاونت کو جائز قرار دینا اس نجمی مدخلی کی مکاری و کفر کی دلیل ہے یہ مداخلہ واضح طور پر کفر و ارتداد کے مرتکب ہیں۔
شیخ امین اللہ الپشاوری حفظہ اللہ فرماتے ہیں:
وأنت تعلم أن الحملة الصليبية الكافرة التي يقودها الأمريكان وأولياؤهم من الكفرة الآخرين والمنافقين تستهدف الإسلام والمسلمين فمن أعانهم بأى إعانة في حربهم - سواء كانت هذه الإعانة بالبدن أو بالسلاح أو باللسان أو بالقلب أو بالقلم أو بالمال أو بالرأى أو بغير ذلك - فهى كفر وردة عن الإسلام والعياذ بالله!
اربابِ نظر اس حقیقت سے بخوبی واقف ہیں کہ امریکا اور اس کے حواری کفار و منافقین کی قیادت میں جاری صلیبی حملوں کا اصل ہدف اسلام اور مسلمان ہی ہیں؛ پس جو شخص اس حرب میں ان صلیبیوں کی مدد کرتا ہے، وہ کفر و ارتداد کا مرتکب ٹھہرتا ہے۔ یہ اعانت کسی بھی نوعیت کی ہو ؛ خواہ جسم سے ہو یا اسلحہ سے، زبان و قلب سے ہو یا قلم و قرطاس سے ، مال و دولت سے ہو یا مشورے و رائے یا اور کسی بھی دوسرے طریقے سے ، ہر صورت میں اسے کفر و ارتداد ہی قرار دیا جائے گا۔ والعیاذ باللہ۔
[فتاوى الدين الخالص، ج: ٩، ص: ٢١٩]