بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
الحمد لله رب العالمين والصلاة والسلام على نبينا محمد وعلى آله وصحبه أجمعين أما بعد.
غزہ میں ہمارے بھائیوں پر بدترین محاصرے کی شکل میں ظلم جاری ہے، جس میں غذا اور ادویات سے لیکر عام ضرورت کی تمام چیزوں کی بندش شامل ہے۔یہودی اس محاصرے کو دو سال سے جاری رکھے ہوئے ہیں۔ عالم کفر کے ممالک بھی ان کے پشت پناہ ہیں اور بعض عرب ممالک بھی رفح کراسنگ کو بند اور سرنگوں کو تباہ کر کے اس میں پورا تعاون کر رہے ہیں۔کراسنگ کی بندش پر اصرار غزہ پر حملے کے بعد بھی جاری ہے۔نتیجہ یہ ہے کہ غزہ میں ہمارے بھائیوں کو اسلحہ،غذا اور ادویات کچھ بھی نہیں پہنچ رہا۔اسرائیلی حملوں میں سینکڑوں افراد شہید اور ہزاروں زخمی ہو چکے ہیں، بجلی اور پانی اور ایندھن کے ذرائع ختم ہو چکے ہیں لیکن تمام مسلمانوں کے اصرار اور چیخ و پکار کے باوجود رفح کراسنگ نہیں کھولی جا رہی۔
یہ عمل غزہ میں ہمارے بھائیوں کے قتل میں یہودی دشمن سے صاف طور پر تعاون کرنا ہے، اس لیے کہ مجاہدین کی قوت کو توڑنا اور غزہ میں ان کودیوار سے لگانا اور اپنے دفاع سے عاجز کر دینارفح کراسنگ اور سرنگوں کی بندش اور ضروریات زندگی کی فراہمی ختم کیے بغیر ممکن نہیں ہے۔ پس یہ تاریخ میں امت کے ساتھ کی گئی عظیم کھلی خیانتوں میں سے ایک ہے۔بے شک علمائے اسلام کا اتفاق ہے کہ مسلمانوں کے خلاف کفار کا ساتھ دینا کفر اور اسلام سے ارتداد ہے، اور امام محمد بن عبدالوہاب رحمہ اللہ نے اس چیز کو دس متفقہ نواقضِ اسلام(اسلام کو ختم کر دینے والے کاموں) میں آٹھویں نمبر پر شمار کیا ہے۔ شنید ہے کہ مندرجہ ذیل اعمال اور لوگ بھی اسی حکم میں داخل ہیں:
1) کراسنگ یا سرنگوں کو بند کرنے میں تعاون کرنے والےاور امدادکو (اہل غزہ تک )پہنچنے سے روکنے یا نشاندہی کرنے والے اور اس کام میں شریک ہر سپاہی پر تمام شہداء کے قتل، زخمیوں اور مساجد کی شہادت اور گھروں کی تباہی کا گناہ ہے، اور افواج میں سے کسی کی یہ حجت قابل قبول نہیں ہے کہ "ہم تو حکم کے بندے ہیں!"کیونکہ بندگی صرف اکیلے اللہ کے لیے ہے اور خالق کی نافرمانی میں مخلوق کی اطاعت جائز نہیں ہے۔
2) کراسنگ پوائنٹس کو یہود یا ان کی طرف دارعالمی افواج کے حوالے کرنا۔
3) غزۃ کے مجاہدین فی سبیل اللہ کے خلاف یہود کے ساتھ اکٹھے ہونے والے افراد، تنظیمیں اور ذرائع ابلاغ۔
جہاد فلسطین، مکمل طور پر شرعی جہاد ہے اور مال ، جان اور اسلحہ سے اس کی مدد واجب ہے۔ جبکہ فلسطین میں یہودی حربی ہیں:ان کے جان و مال حلال ہیں اور مسلمانوں کے لیے انکے مردوں کا قتل اور مال لینا جائز ہے ،اسی طرح فلسطین میں ان کے اداروں کو تباہ کرنا بھی جائز ہے۔
جہاں تک کفار سے تعاون کرنے والے کے کفر پر علماء کے اجماع کا تعلق ہے تو اس پر کثیر تعداد میں دلائل موجو دہیں:
اللہ رب العزت فرماتے ہیں:" لاَّ يَتَّخِذِ الْمُؤْمِنُونَ الْكَافِرِينَ أَوْلِيَاء مِن دُوْنِ الْمُؤْمِنِينَ وَمَن يَفْعَلْ ذَلِكَ فَلَيْسَ مِنَ اللَّهِ فِي شَيْءٍ.. ".
مومنین اہل ایمان کو چھوڑ کر کافروں کو اپنا رفیق اور دوست ہرگز نہ بنائیں جو ایسا کرے گا اس کا اللہ سے کوئی تعلق نہیں ہاں یہ معاف ہے کہ تم ان کے ظلم سے بچنے کے لیے بظاہر ایسا طرز عمل اختیار کر جاؤ مگر اللہ تمہیں اپنے آپ سے ڈراتا ہے اور تمہیں اسی کی طرف پلٹ کر جانا ہے۔(آل عمران28)
سورہ نساء میں فرمایا:" بَشِّرِ الْمُنَافِقِينَ بِأَنَّ لَهُمْ عَذَاباً أَلِيماً (138) الَّذِينَ يَتَّخِذُونَ الْكَافِرِينَ أَوْلِيَاء مِن دُونِ الْمُؤْمِنِينَ أَيَبْتَغُونَ عِندَهُمُ الْعِزَّةَ فَإِنَّ العِزَّةَ لِلّهِ جَمِيعاً" ).
اور جو منافق اہل ایمان کو چھوڑ کر کافروں کو اپنا رفیق بناتے ہیں انہیں یہ مثردہ سنا دو کہ اُن کے لیے دردناک سزا تیار ہے۔ کیا یہ لوگ عزت کی طلب میں اُن کے پاس جاتے ہیں؟ حالانکہ عزت تو ساری کی ساری اللہ ہی کے لیے ہے۔(النساء138،139)
اسی طرح سورہ مائدہ میں بیان اور بھی واضح ہے:" يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ لاَ تَتَّخِذُواْ الْيَهُودَ وَالنَّصَارَى أَوْلِيَاء بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاء بَعْضٍ وَمَن يَتَوَلَّهُم مِّنكُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ إِنَّ اللَّهَ لاَ يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ" ).
اے لوگو جو ایمان لائے ہو! یہودیوں اور عیسائیوں کو اپنا رفیق نہ بناؤ، یہ آپس ہی میں ایک دوسرے کے رفیق ہیں اور اگر تم میں سے کوئی ان کو اپنا رفیق بناتا ہے تو اس کا شمار بھی پھر انہی میں ہے، یقیناً اللہ ظالموں کو اپنی رہنمائی سے محروم کر دیتا ہے۔(المائدة 51)
مزید ارشاد ہوتا ہے:" تَرَى كَثِيراً مِّنْهُمْ يَتَوَلَّوْنَ الَّذِينَ كَفَرُواْ لَبِئْسَ مَا قَدَّمَتْ لَهُمْ أَنفُسُهُمْ أَن سَخِطَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ وَفِي الْعَذَابِ هُمْ خَالِدُونَ (80) وَلَوْ كَانُوا يُؤْمِنُونَ بِالله والنَّبِيِّ وَمَا أُنزِلَ إِلَيْهِ مَااتَّخَذُوهُمْ أَوْلِيَاء وَلَكِنَّ كَثِيراً مِّنْهُمْ فَاسِقُونَ" ).
آج تم اُن میں بکثرت ایسے لوگ دیکھتے ہو جو (اہل ایمان کے مقابلہ میں) کفار کی حمایت و رفاقت کرتے ہیں یقیناً بہت برا انجام ہے جس کی تیاری اُن کے نفسوں نے اُن کے لیے کی ہے، اللہ اُن پر غضب ناک ہو گیا ہے اور وہ دائمی عذاب میں مبتلا ہونے والے ہیں۔ اگر فی الواقع یہ لوگ اللہ اور پیغمبرؐ اور اُس چیز کے ماننے والے ہوتے جو پیغمبر پر نازل ہوئی تھی تو کبھی (اہل ایمان کے مقابلے میں) کافروں کو اپنا رفیق نہ بناتے مگر ان میں سے تو بیشتر لوگ خدا کی اطاعت سے نکل چکے ہیں۔(المائدة81،80)
شیخ عبدالعزیز بن باز رحمہ اللہ فرماتے ہیں : علماء اسلام کا اس پراجماع ہے کہ جس نے بھی مسلمانوں کے مقابلہ میں کفار کی مدد ومعاونت کی اورکسی بھی طریقہ سے ان کی مدد کی وہ بھی ان کی طرح ہی کافر ہے ۔ جیسا کہ اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے:
’’ اے ایمان والو تم یہود ونصاری کو دوست نہ بناؤ یہ تو آپس میں ہی ایک دوسرے کے دوست ہیں ، تم میں سے جو بھی ان میں سے کسی سے دوستی کرے وہ بے شک انہيں میں سے ہے ، ظالموں کو اللہ تعالی ہرگز راہ راست نہيں دکھاتا ‘‘ (المائدۃ:51) فتاویٰ ابن باز رحمہ اللہ (274/1
اسی طرح محدث دیار مصرعلامہ احمد شاکر رحمہ اللہ اپنی کتاب کلمہ حق (126تا137)میں مسلمانوں پر حملے کے دوران انگریز اور فرانسیسیوں سے تعاون کے بارے میں طویل فتویٰ کا عنوان کچھ یوں قائم کرتے ہیں "مصری قوم اور بالخصوص ساری عرب اقوام اور مسلم امہ کے لیے بیان"،پھر اس فتویٰ میں فرماتے ہیں:" جہاں تک انگریز کے ساتھ کسی بھی قسم کےتعاون کا تعلق ہے،کم ہو یا زیادہ،ایسا تعاون بدترین ارتداد اور واضح کفر ہے جس کے ساتھ کوئی معذرت اور کوئی تاویل قابل قبول نہیں اور نہ ہی اس سے احمقانہ عصبیت، بھونڈی سیاست یا خوش کن منافقانہ باتوں جیسا کوئی بہانہ بچا سکتا۔بھلے یہ افراد میں ہو، حکومتوں میں ہو یا راہنماؤں میں سب کے سب کفر اور ارتداد میں برابر ہیں۔البتہ اگر کوئی شخص جاہل یا غلطی پر ہو اور پھر اسے احساس ہو جائے اوروہ توبہ کر کے اہل ایمان کا راستہ اختیار کر لے تو اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کی توبہ جلد قبول فرمانے والے ہیں ،اگروہ واقعتا اللہ کے لیے مخلص ہو جائیں،سیاست یا عوام کے لیے نہیں !"
علامہ عبداللہ بن حمید رحمہ اللہ(اعلیٰ عدالتی کونسل سعودی عرب اور المجمع الفقہی کے سابق سربراہ)"الدر السنیۃ "15 / 479میں رقمطراز ہیں:"۔۔۔ جہاں تک "تولی" کا تعلق ہے تو اس سے مراد اُن (کفار)کا اکرام و تعریف کرنا،ان میں گھل ملنا،مسلمانوں کے خلاف ان کے معاونت اور نصرت کرنا اور ان سے لاتعلقی کا اظہار نہ کرنا ہے،سویہ ایسا کرنے والے کا ارتداد ہے جس سے اس پر مرتدین کے احکام جاری ہوجاتے ہیں جیسا کہ کتاب و سنت اور پیروی کیے جانے والے ائمہ کا اجماع اس بات پر دلیل ہیں"
جامعہ ازہر کی فتویٰ کمیٹی کا فتویٰ جو 1917ء میں مجلہ"الفتح"،شمارہ846 ، صفحہ10 پر شائع ہوا: "کوئی شک نہیں کہ اُن(کفار) کی معاونت میں بھاگ دوڑ اورانکے ان مقاصد کے لیے دست و بازو بننا اور آسانیاں پیدا کرنازیادہ بڑا گناہ ہےجن(سرگرمیوں) کے نتیجے میں مسلمان ذلیل و خوار ہوتےہیں او ر ان کی وحدت وریاست کو ختم کیا جاتا ہے۔یہ اعمال صرف "موالات" کی نسبت کہیں زیادہ نقصان پہنچانے والےاور جو لوگ کھلم کھلا اسلام اور مسلمانوں سے دشمنی کا اظہار کرتے ہیں انکی دشمنی سے بھی کہیں زیادہ سخت ہیں۔ چنانچہ جوشخص اس بارے میں اللہ کا حکم واضح ہو جانے کے بعد ان میں سے کسی چیز کو مباح سمجھے وہ دین اسلام سے مرتد ہو جاتا ہے، اس کی بیوی سے جدائی کروا دی جائے گی کہ بیوی کے لیے اِس شخص سے تعلق رکھنا اب حرام ہے، نہ اس کا نماز جنازہ پڑھا جائے گا اور نہ اسے مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کیا جائے گا"
ربيع الاول 1380 ھ میں جاری شیخ الازہر علامہ محمود شلتوت رحمہ اللہ کا دستخط شدہ بیان ملاحظہ ہو: سو اگر کوئی شخص کسی باغی گروہ کی طرف دستِ تعاون دراز کرنا چاہے ،(وہ گروہ) جسے استعمار نے بطور پُل بنایا ہو تاکہ اسکے ذریعہ اپنےاہداف تک رسائی حاصل کرے ،تو اگر کسی نے یوں کرنا چاہا تو اسکا عمل بذاتِ خود دین سے بغاوت شمار ہوگا "(مجلہ الازہر ،جلد 32/3،32/2 ص263)
اِس بیان کا مقصد کراسنگ کو بند کرنے اور مسلمانوں کے خلاف یہود کے ساتھ تعاون کے جرم کا حکم بتا کر اللہ سے ڈرا نا ہے۔ہم جہاد فی سبیل اللہ کے خلاف سیاسی، میڈیا اور عملی محاذ پر کھڑے ہونے والوں اور غزہ کے لیے امداد و اسلحہ کی سپلائی روکنے والے تمام لوگوں کو اللہ کے حضور توبہ کا اعلان کرنے کی طرف بلاتے ہیں اور بالخصوص مصری صدر سے کہتے ہیں کہ بلا کسی شرط یا قید کے رفح کراسنگ کو کھولے اور مقامی سرنگیں جوں کی توں چھوڑ کر ان کی تلاش روک دے۔
آخر میں ہم منافقین کی باتوں سے متاثر ہو کر غزہ میں مجاہدین فی سبیل اللہ کو شہادتوں اور نقصانات کا ذمہ دار خیال کرنے والوں کو اللہ کی اس آیت سے نصیحت کرتے ہیں کہ:الَّذِينَ قَالُواْ لإِخْوَانِهِمْ وَقَعَدُواْ لَوْ أَطَاعُونَا مَا قُتِلُوا قُلْ فَادْرَؤُوا عَنْ أَنفُسِكُمُ الْمَوْتَ إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ"
"یہ وہی لوگ ہیں جو خود تو بیٹھے رہے او ران کے جو بھائی بند لڑنے گئے اور مارے گئے ان کے متعلق انہوں نے کہہ دیا کہ
ا گر وہ ہماری بات مان لیتے تو نہ مارے جاتے ،ان سے کہو اگر تم اپنے قول میں سچے ہو تو خود تمہاری موت جب آئے اُسے ٹال کر دکھا دینا۔"(آل عمران 168)
ہم اللہ تعالیٰ کے حضور دعا گو ہیں کہ وہ غزہ میں ہمارے بھائیوں کی حفاظت فرمائیں،انہیں صبر سے نوازیں، ثابت قدمی عطا فرمائیں اور یہود اور منافقین کے خلاف ان کی مدد فرمائیں۔ آمین
(یہ فتویٰ غزۃ کیے محاصرے کے دو سال بعددیا گیا تھا، جسے اب دوبارہ شائع کیا گیا ہے۔فتوی دینے والے علماء میں سعودی عرب، مصر، کویت، یمن، سوڈان اور دوسرے علاقوں کے 100 سے زیادہ علماء شامل ہیں مثلا شیخ
عبداللہ بن حمود التویجری،
شیخ زھیر الشاویش،
محدث عبداللہ بن عبدالرحمان السعد،
شیخ نبیل العوضی،
شیخ عبدالعزیز بن محمد آل عبد اللطیف،
محمد بن سعید القحطانی
اور دیگر علماء اور اسلامی تحریکوں کے زعماء، جن کی تفصیل اور اصل عربی متن اس لنک پر دیکھا جا سکتا ہے۔)
http://www.almokhtsar.com/node/9306
اردو ترجمہ:عبداللہ آدم(باربروسا)
الحمد لله رب العالمين والصلاة والسلام على نبينا محمد وعلى آله وصحبه أجمعين أما بعد.
غزہ میں ہمارے بھائیوں پر بدترین محاصرے کی شکل میں ظلم جاری ہے، جس میں غذا اور ادویات سے لیکر عام ضرورت کی تمام چیزوں کی بندش شامل ہے۔یہودی اس محاصرے کو دو سال سے جاری رکھے ہوئے ہیں۔ عالم کفر کے ممالک بھی ان کے پشت پناہ ہیں اور بعض عرب ممالک بھی رفح کراسنگ کو بند اور سرنگوں کو تباہ کر کے اس میں پورا تعاون کر رہے ہیں۔کراسنگ کی بندش پر اصرار غزہ پر حملے کے بعد بھی جاری ہے۔نتیجہ یہ ہے کہ غزہ میں ہمارے بھائیوں کو اسلحہ،غذا اور ادویات کچھ بھی نہیں پہنچ رہا۔اسرائیلی حملوں میں سینکڑوں افراد شہید اور ہزاروں زخمی ہو چکے ہیں، بجلی اور پانی اور ایندھن کے ذرائع ختم ہو چکے ہیں لیکن تمام مسلمانوں کے اصرار اور چیخ و پکار کے باوجود رفح کراسنگ نہیں کھولی جا رہی۔
یہ عمل غزہ میں ہمارے بھائیوں کے قتل میں یہودی دشمن سے صاف طور پر تعاون کرنا ہے، اس لیے کہ مجاہدین کی قوت کو توڑنا اور غزہ میں ان کودیوار سے لگانا اور اپنے دفاع سے عاجز کر دینارفح کراسنگ اور سرنگوں کی بندش اور ضروریات زندگی کی فراہمی ختم کیے بغیر ممکن نہیں ہے۔ پس یہ تاریخ میں امت کے ساتھ کی گئی عظیم کھلی خیانتوں میں سے ایک ہے۔بے شک علمائے اسلام کا اتفاق ہے کہ مسلمانوں کے خلاف کفار کا ساتھ دینا کفر اور اسلام سے ارتداد ہے، اور امام محمد بن عبدالوہاب رحمہ اللہ نے اس چیز کو دس متفقہ نواقضِ اسلام(اسلام کو ختم کر دینے والے کاموں) میں آٹھویں نمبر پر شمار کیا ہے۔ شنید ہے کہ مندرجہ ذیل اعمال اور لوگ بھی اسی حکم میں داخل ہیں:
1) کراسنگ یا سرنگوں کو بند کرنے میں تعاون کرنے والےاور امدادکو (اہل غزہ تک )پہنچنے سے روکنے یا نشاندہی کرنے والے اور اس کام میں شریک ہر سپاہی پر تمام شہداء کے قتل، زخمیوں اور مساجد کی شہادت اور گھروں کی تباہی کا گناہ ہے، اور افواج میں سے کسی کی یہ حجت قابل قبول نہیں ہے کہ "ہم تو حکم کے بندے ہیں!"کیونکہ بندگی صرف اکیلے اللہ کے لیے ہے اور خالق کی نافرمانی میں مخلوق کی اطاعت جائز نہیں ہے۔
2) کراسنگ پوائنٹس کو یہود یا ان کی طرف دارعالمی افواج کے حوالے کرنا۔
3) غزۃ کے مجاہدین فی سبیل اللہ کے خلاف یہود کے ساتھ اکٹھے ہونے والے افراد، تنظیمیں اور ذرائع ابلاغ۔
جہاد فلسطین، مکمل طور پر شرعی جہاد ہے اور مال ، جان اور اسلحہ سے اس کی مدد واجب ہے۔ جبکہ فلسطین میں یہودی حربی ہیں:ان کے جان و مال حلال ہیں اور مسلمانوں کے لیے انکے مردوں کا قتل اور مال لینا جائز ہے ،اسی طرح فلسطین میں ان کے اداروں کو تباہ کرنا بھی جائز ہے۔
جہاں تک کفار سے تعاون کرنے والے کے کفر پر علماء کے اجماع کا تعلق ہے تو اس پر کثیر تعداد میں دلائل موجو دہیں:
اللہ رب العزت فرماتے ہیں:" لاَّ يَتَّخِذِ الْمُؤْمِنُونَ الْكَافِرِينَ أَوْلِيَاء مِن دُوْنِ الْمُؤْمِنِينَ وَمَن يَفْعَلْ ذَلِكَ فَلَيْسَ مِنَ اللَّهِ فِي شَيْءٍ.. ".
مومنین اہل ایمان کو چھوڑ کر کافروں کو اپنا رفیق اور دوست ہرگز نہ بنائیں جو ایسا کرے گا اس کا اللہ سے کوئی تعلق نہیں ہاں یہ معاف ہے کہ تم ان کے ظلم سے بچنے کے لیے بظاہر ایسا طرز عمل اختیار کر جاؤ مگر اللہ تمہیں اپنے آپ سے ڈراتا ہے اور تمہیں اسی کی طرف پلٹ کر جانا ہے۔(آل عمران28)
سورہ نساء میں فرمایا:" بَشِّرِ الْمُنَافِقِينَ بِأَنَّ لَهُمْ عَذَاباً أَلِيماً (138) الَّذِينَ يَتَّخِذُونَ الْكَافِرِينَ أَوْلِيَاء مِن دُونِ الْمُؤْمِنِينَ أَيَبْتَغُونَ عِندَهُمُ الْعِزَّةَ فَإِنَّ العِزَّةَ لِلّهِ جَمِيعاً" ).
اور جو منافق اہل ایمان کو چھوڑ کر کافروں کو اپنا رفیق بناتے ہیں انہیں یہ مثردہ سنا دو کہ اُن کے لیے دردناک سزا تیار ہے۔ کیا یہ لوگ عزت کی طلب میں اُن کے پاس جاتے ہیں؟ حالانکہ عزت تو ساری کی ساری اللہ ہی کے لیے ہے۔(النساء138،139)
اسی طرح سورہ مائدہ میں بیان اور بھی واضح ہے:" يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ لاَ تَتَّخِذُواْ الْيَهُودَ وَالنَّصَارَى أَوْلِيَاء بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاء بَعْضٍ وَمَن يَتَوَلَّهُم مِّنكُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ إِنَّ اللَّهَ لاَ يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ" ).
اے لوگو جو ایمان لائے ہو! یہودیوں اور عیسائیوں کو اپنا رفیق نہ بناؤ، یہ آپس ہی میں ایک دوسرے کے رفیق ہیں اور اگر تم میں سے کوئی ان کو اپنا رفیق بناتا ہے تو اس کا شمار بھی پھر انہی میں ہے، یقیناً اللہ ظالموں کو اپنی رہنمائی سے محروم کر دیتا ہے۔(المائدة 51)
مزید ارشاد ہوتا ہے:" تَرَى كَثِيراً مِّنْهُمْ يَتَوَلَّوْنَ الَّذِينَ كَفَرُواْ لَبِئْسَ مَا قَدَّمَتْ لَهُمْ أَنفُسُهُمْ أَن سَخِطَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ وَفِي الْعَذَابِ هُمْ خَالِدُونَ (80) وَلَوْ كَانُوا يُؤْمِنُونَ بِالله والنَّبِيِّ وَمَا أُنزِلَ إِلَيْهِ مَااتَّخَذُوهُمْ أَوْلِيَاء وَلَكِنَّ كَثِيراً مِّنْهُمْ فَاسِقُونَ" ).
آج تم اُن میں بکثرت ایسے لوگ دیکھتے ہو جو (اہل ایمان کے مقابلہ میں) کفار کی حمایت و رفاقت کرتے ہیں یقیناً بہت برا انجام ہے جس کی تیاری اُن کے نفسوں نے اُن کے لیے کی ہے، اللہ اُن پر غضب ناک ہو گیا ہے اور وہ دائمی عذاب میں مبتلا ہونے والے ہیں۔ اگر فی الواقع یہ لوگ اللہ اور پیغمبرؐ اور اُس چیز کے ماننے والے ہوتے جو پیغمبر پر نازل ہوئی تھی تو کبھی (اہل ایمان کے مقابلے میں) کافروں کو اپنا رفیق نہ بناتے مگر ان میں سے تو بیشتر لوگ خدا کی اطاعت سے نکل چکے ہیں۔(المائدة81،80)
شیخ عبدالعزیز بن باز رحمہ اللہ فرماتے ہیں : علماء اسلام کا اس پراجماع ہے کہ جس نے بھی مسلمانوں کے مقابلہ میں کفار کی مدد ومعاونت کی اورکسی بھی طریقہ سے ان کی مدد کی وہ بھی ان کی طرح ہی کافر ہے ۔ جیسا کہ اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے:
’’ اے ایمان والو تم یہود ونصاری کو دوست نہ بناؤ یہ تو آپس میں ہی ایک دوسرے کے دوست ہیں ، تم میں سے جو بھی ان میں سے کسی سے دوستی کرے وہ بے شک انہيں میں سے ہے ، ظالموں کو اللہ تعالی ہرگز راہ راست نہيں دکھاتا ‘‘ (المائدۃ:51) فتاویٰ ابن باز رحمہ اللہ (274/1
اسی طرح محدث دیار مصرعلامہ احمد شاکر رحمہ اللہ اپنی کتاب کلمہ حق (126تا137)میں مسلمانوں پر حملے کے دوران انگریز اور فرانسیسیوں سے تعاون کے بارے میں طویل فتویٰ کا عنوان کچھ یوں قائم کرتے ہیں "مصری قوم اور بالخصوص ساری عرب اقوام اور مسلم امہ کے لیے بیان"،پھر اس فتویٰ میں فرماتے ہیں:" جہاں تک انگریز کے ساتھ کسی بھی قسم کےتعاون کا تعلق ہے،کم ہو یا زیادہ،ایسا تعاون بدترین ارتداد اور واضح کفر ہے جس کے ساتھ کوئی معذرت اور کوئی تاویل قابل قبول نہیں اور نہ ہی اس سے احمقانہ عصبیت، بھونڈی سیاست یا خوش کن منافقانہ باتوں جیسا کوئی بہانہ بچا سکتا۔بھلے یہ افراد میں ہو، حکومتوں میں ہو یا راہنماؤں میں سب کے سب کفر اور ارتداد میں برابر ہیں۔البتہ اگر کوئی شخص جاہل یا غلطی پر ہو اور پھر اسے احساس ہو جائے اوروہ توبہ کر کے اہل ایمان کا راستہ اختیار کر لے تو اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کی توبہ جلد قبول فرمانے والے ہیں ،اگروہ واقعتا اللہ کے لیے مخلص ہو جائیں،سیاست یا عوام کے لیے نہیں !"
علامہ عبداللہ بن حمید رحمہ اللہ(اعلیٰ عدالتی کونسل سعودی عرب اور المجمع الفقہی کے سابق سربراہ)"الدر السنیۃ "15 / 479میں رقمطراز ہیں:"۔۔۔ جہاں تک "تولی" کا تعلق ہے تو اس سے مراد اُن (کفار)کا اکرام و تعریف کرنا،ان میں گھل ملنا،مسلمانوں کے خلاف ان کے معاونت اور نصرت کرنا اور ان سے لاتعلقی کا اظہار نہ کرنا ہے،سویہ ایسا کرنے والے کا ارتداد ہے جس سے اس پر مرتدین کے احکام جاری ہوجاتے ہیں جیسا کہ کتاب و سنت اور پیروی کیے جانے والے ائمہ کا اجماع اس بات پر دلیل ہیں"
جامعہ ازہر کی فتویٰ کمیٹی کا فتویٰ جو 1917ء میں مجلہ"الفتح"،شمارہ846 ، صفحہ10 پر شائع ہوا: "کوئی شک نہیں کہ اُن(کفار) کی معاونت میں بھاگ دوڑ اورانکے ان مقاصد کے لیے دست و بازو بننا اور آسانیاں پیدا کرنازیادہ بڑا گناہ ہےجن(سرگرمیوں) کے نتیجے میں مسلمان ذلیل و خوار ہوتےہیں او ر ان کی وحدت وریاست کو ختم کیا جاتا ہے۔یہ اعمال صرف "موالات" کی نسبت کہیں زیادہ نقصان پہنچانے والےاور جو لوگ کھلم کھلا اسلام اور مسلمانوں سے دشمنی کا اظہار کرتے ہیں انکی دشمنی سے بھی کہیں زیادہ سخت ہیں۔ چنانچہ جوشخص اس بارے میں اللہ کا حکم واضح ہو جانے کے بعد ان میں سے کسی چیز کو مباح سمجھے وہ دین اسلام سے مرتد ہو جاتا ہے، اس کی بیوی سے جدائی کروا دی جائے گی کہ بیوی کے لیے اِس شخص سے تعلق رکھنا اب حرام ہے، نہ اس کا نماز جنازہ پڑھا جائے گا اور نہ اسے مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کیا جائے گا"
ربيع الاول 1380 ھ میں جاری شیخ الازہر علامہ محمود شلتوت رحمہ اللہ کا دستخط شدہ بیان ملاحظہ ہو: سو اگر کوئی شخص کسی باغی گروہ کی طرف دستِ تعاون دراز کرنا چاہے ،(وہ گروہ) جسے استعمار نے بطور پُل بنایا ہو تاکہ اسکے ذریعہ اپنےاہداف تک رسائی حاصل کرے ،تو اگر کسی نے یوں کرنا چاہا تو اسکا عمل بذاتِ خود دین سے بغاوت شمار ہوگا "(مجلہ الازہر ،جلد 32/3،32/2 ص263)
اِس بیان کا مقصد کراسنگ کو بند کرنے اور مسلمانوں کے خلاف یہود کے ساتھ تعاون کے جرم کا حکم بتا کر اللہ سے ڈرا نا ہے۔ہم جہاد فی سبیل اللہ کے خلاف سیاسی، میڈیا اور عملی محاذ پر کھڑے ہونے والوں اور غزہ کے لیے امداد و اسلحہ کی سپلائی روکنے والے تمام لوگوں کو اللہ کے حضور توبہ کا اعلان کرنے کی طرف بلاتے ہیں اور بالخصوص مصری صدر سے کہتے ہیں کہ بلا کسی شرط یا قید کے رفح کراسنگ کو کھولے اور مقامی سرنگیں جوں کی توں چھوڑ کر ان کی تلاش روک دے۔
آخر میں ہم منافقین کی باتوں سے متاثر ہو کر غزہ میں مجاہدین فی سبیل اللہ کو شہادتوں اور نقصانات کا ذمہ دار خیال کرنے والوں کو اللہ کی اس آیت سے نصیحت کرتے ہیں کہ:الَّذِينَ قَالُواْ لإِخْوَانِهِمْ وَقَعَدُواْ لَوْ أَطَاعُونَا مَا قُتِلُوا قُلْ فَادْرَؤُوا عَنْ أَنفُسِكُمُ الْمَوْتَ إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ"
"یہ وہی لوگ ہیں جو خود تو بیٹھے رہے او ران کے جو بھائی بند لڑنے گئے اور مارے گئے ان کے متعلق انہوں نے کہہ دیا کہ
ا گر وہ ہماری بات مان لیتے تو نہ مارے جاتے ،ان سے کہو اگر تم اپنے قول میں سچے ہو تو خود تمہاری موت جب آئے اُسے ٹال کر دکھا دینا۔"(آل عمران 168)
ہم اللہ تعالیٰ کے حضور دعا گو ہیں کہ وہ غزہ میں ہمارے بھائیوں کی حفاظت فرمائیں،انہیں صبر سے نوازیں، ثابت قدمی عطا فرمائیں اور یہود اور منافقین کے خلاف ان کی مدد فرمائیں۔ آمین
(یہ فتویٰ غزۃ کیے محاصرے کے دو سال بعددیا گیا تھا، جسے اب دوبارہ شائع کیا گیا ہے۔فتوی دینے والے علماء میں سعودی عرب، مصر، کویت، یمن، سوڈان اور دوسرے علاقوں کے 100 سے زیادہ علماء شامل ہیں مثلا شیخ
عبداللہ بن حمود التویجری،
شیخ زھیر الشاویش،
محدث عبداللہ بن عبدالرحمان السعد،
شیخ نبیل العوضی،
شیخ عبدالعزیز بن محمد آل عبد اللطیف،
محمد بن سعید القحطانی
اور دیگر علماء اور اسلامی تحریکوں کے زعماء، جن کی تفصیل اور اصل عربی متن اس لنک پر دیکھا جا سکتا ہے۔)
http://www.almokhtsar.com/node/9306
اردو ترجمہ:عبداللہ آدم(باربروسا)