• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مسلمانوں کے خلاف یہود کی مدد کفرہے: 15 ممالک کے 100 علماء کا فتویٰ

باربروسا

مشہور رکن
شمولیت
اکتوبر 15، 2011
پیغامات
311
ری ایکشن اسکور
1,078
پوائنٹ
106
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

الحمد لله رب العالمين والصلاة والسلام على نبينا محمد وعلى آله وصحبه أجمعين أما بعد.


غزہ میں ہمارے بھائیوں پر بدترین محاصرے کی شکل میں ظلم جاری ہے، جس میں غذا اور ادویات سے لیکر عام ضرورت کی تمام چیزوں کی بندش شامل ہے۔یہودی اس محاصرے کو دو سال سے جاری رکھے ہوئے ہیں۔ عالم کفر کے ممالک بھی ان کے پشت پناہ ہیں اور بعض عرب ممالک بھی رفح کراسنگ کو بند اور سرنگوں کو تباہ کر کے اس میں پورا تعاون کر رہے ہیں۔کراسنگ کی بندش پر اصرار غزہ پر حملے کے بعد بھی جاری ہے۔نتیجہ یہ ہے کہ غزہ میں ہمارے بھائیوں کو اسلحہ،غذا اور ادویات کچھ بھی نہیں پہنچ رہا۔اسرائیلی حملوں میں سینکڑوں افراد شہید اور ہزاروں زخمی ہو چکے ہیں، بجلی اور پانی اور ایندھن کے ذرائع ختم ہو چکے ہیں لیکن تمام مسلمانوں کے اصرار اور چیخ و پکار کے باوجود رفح کراسنگ نہیں کھولی جا رہی۔

یہ عمل غزہ میں ہمارے بھائیوں کے قتل میں یہودی دشمن سے صاف طور پر تعاون کرنا ہے، اس لیے کہ مجاہدین کی قوت کو توڑنا اور غزہ میں ان کودیوار سے لگانا اور اپنے دفاع سے عاجز کر دینارفح کراسنگ اور سرنگوں کی بندش اور ضروریات زندگی کی فراہمی ختم کیے بغیر ممکن نہیں ہے۔ پس یہ تاریخ میں امت کے ساتھ کی گئی عظیم کھلی خیانتوں میں سے ایک ہے۔بے شک علمائے اسلام کا اتفاق ہے کہ مسلمانوں کے خلاف کفار کا ساتھ دینا کفر اور اسلام سے ارتداد ہے، اور امام محمد بن عبدالوہاب رحمہ اللہ نے اس چیز کو دس متفقہ نواقضِ اسلام(اسلام کو ختم کر دینے والے کاموں) میں آٹھویں نمبر پر شمار کیا ہے۔ شنید ہے کہ مندرجہ ذیل اعمال اور لوگ بھی اسی حکم میں داخل ہیں:
1) کراسنگ یا سرنگوں کو بند کرنے میں تعاون کرنے والےاور امدادکو (اہل غزہ تک )پہنچنے سے روکنے یا نشاندہی کرنے والے اور اس کام میں شریک ہر سپاہی پر تمام شہداء کے قتل، زخمیوں اور مساجد کی شہادت اور گھروں کی تباہی کا گناہ ہے، اور افواج میں سے کسی کی یہ حجت قابل قبول نہیں ہے کہ "ہم تو حکم کے بندے ہیں!"کیونکہ بندگی صرف اکیلے اللہ کے لیے ہے اور خالق کی نافرمانی میں مخلوق کی اطاعت جائز نہیں ہے۔

2) کراسنگ پوائنٹس کو یہود یا ان کی طرف دارعالمی افواج کے حوالے کرنا۔

3) غزۃ کے مجاہدین فی سبیل اللہ کے خلاف یہود کے ساتھ اکٹھے ہونے والے افراد، تنظیمیں اور ذرائع ابلاغ۔


جہاد فلسطین، مکمل طور پر شرعی جہاد ہے اور مال ، جان اور اسلحہ سے اس کی مدد واجب ہے۔ جبکہ فلسطین میں یہودی حربی ہیں:ان کے جان و مال حلال ہیں اور مسلمانوں کے لیے انکے مردوں کا قتل اور مال لینا جائز ہے ،اسی طرح فلسطین میں ان کے اداروں کو تباہ کرنا بھی جائز ہے۔

جہاں تک کفار سے تعاون کرنے والے کے کفر پر علماء کے اجماع کا تعلق ہے تو اس پر کثیر تعداد میں دلائل موجو دہیں:
اللہ رب العزت فرماتے ہیں:" لاَّ يَتَّخِذِ الْمُؤْمِنُونَ الْكَافِرِينَ أَوْلِيَاء مِن دُوْنِ الْمُؤْمِنِينَ وَمَن يَفْعَلْ ذَلِكَ فَلَيْسَ مِنَ اللَّهِ فِي شَيْءٍ.. ".
مومنین اہل ایمان کو چھوڑ کر کافروں کو اپنا رفیق اور دوست ہرگز نہ بنائیں جو ایسا کرے گا اس کا اللہ سے کوئی تعلق نہیں ہاں یہ معاف ہے کہ تم ان کے ظلم سے بچنے کے لیے بظاہر ایسا طرز عمل اختیار کر جاؤ مگر اللہ تمہیں اپنے آپ سے ڈراتا ہے اور تمہیں اسی کی طرف پلٹ کر جانا ہے۔(آل عمران28)
سورہ نساء میں فرمایا:" بَشِّرِ الْمُنَافِقِينَ بِأَنَّ لَهُمْ عَذَاباً أَلِيماً (138) الَّذِينَ يَتَّخِذُونَ الْكَافِرِينَ أَوْلِيَاء مِن دُونِ الْمُؤْمِنِينَ أَيَبْتَغُونَ عِندَهُمُ الْعِزَّةَ فَإِنَّ العِزَّةَ لِلّهِ جَمِيعاً" ).
اور جو منافق اہل ایمان کو چھوڑ کر کافروں کو اپنا رفیق بناتے ہیں انہیں یہ مثردہ سنا دو کہ اُن کے لیے دردناک سزا تیار ہے۔ کیا یہ لوگ عزت کی طلب میں اُن کے پاس جاتے ہیں؟ حالانکہ عزت تو ساری کی ساری اللہ ہی کے لیے ہے۔(النساء138،139)

اسی طرح سورہ مائدہ میں بیان اور بھی واضح ہے:" يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ لاَ تَتَّخِذُواْ الْيَهُودَ وَالنَّصَارَى أَوْلِيَاء بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاء بَعْضٍ وَمَن يَتَوَلَّهُم مِّنكُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ إِنَّ اللَّهَ لاَ يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ" ).
اے لوگو جو ایمان لائے ہو! یہودیوں اور عیسائیوں کو اپنا رفیق نہ بناؤ، یہ آپس ہی میں ایک دوسرے کے رفیق ہیں اور اگر تم میں سے کوئی ان کو اپنا رفیق بناتا ہے تو اس کا شمار بھی پھر انہی میں ہے، یقیناً اللہ ظالموں کو اپنی رہنمائی سے محروم کر دیتا ہے۔(المائدة 51)

مزید ارشاد ہوتا ہے:" تَرَى كَثِيراً مِّنْهُمْ يَتَوَلَّوْنَ الَّذِينَ كَفَرُواْ لَبِئْسَ مَا قَدَّمَتْ لَهُمْ أَنفُسُهُمْ أَن سَخِطَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ وَفِي الْعَذَابِ هُمْ خَالِدُونَ (80) وَلَوْ كَانُوا يُؤْمِنُونَ بِالله والنَّبِيِّ وَمَا أُنزِلَ إِلَيْهِ مَااتَّخَذُوهُمْ أَوْلِيَاء وَلَكِنَّ كَثِيراً مِّنْهُمْ فَاسِقُونَ" ).
آج تم اُن میں بکثرت ایسے لوگ دیکھتے ہو جو (اہل ایمان کے مقابلہ میں) کفار کی حمایت و رفاقت کرتے ہیں یقیناً بہت برا انجام ہے جس کی تیاری اُن کے نفسوں نے اُن کے لیے کی ہے، اللہ اُن پر غضب ناک ہو گیا ہے اور وہ دائمی عذاب میں مبتلا ہونے والے ہیں۔ اگر فی الواقع یہ لوگ اللہ اور پیغمبرؐ اور اُس چیز کے ماننے والے ہوتے جو پیغمبر پر نازل ہوئی تھی تو کبھی (اہل ایمان کے مقابلے میں) کافروں کو اپنا رفیق نہ بناتے مگر ان میں سے تو بیشتر لوگ خدا کی اطاعت سے نکل چکے ہیں۔(المائدة81،80)


شیخ عبدالعزیز بن باز رحمہ اللہ فرماتے ہیں : علماء اسلام کا اس پراجماع ہے کہ جس نے بھی مسلمانوں کے مقابلہ میں کفار کی مدد ومعاونت کی اورکسی بھی طریقہ سے ان کی مدد کی وہ بھی ان کی طرح ہی کافر ہے ۔ جیسا کہ اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے:
’’ اے ایمان والو تم یہود ونصاری کو دوست نہ بناؤ یہ تو آپس میں ہی ایک دوسرے کے دوست ہیں ، تم میں سے جو بھی ان میں سے کسی سے دوستی کرے وہ بے شک انہيں میں سے ہے ، ظالموں کو اللہ تعالی ہرگز راہ راست نہيں دکھاتا ‘‘ (المائدۃ:51) فتاویٰ ابن باز رحمہ اللہ (274/1

اسی طرح محدث دیار مصرعلامہ احمد شاکر رحمہ اللہ اپنی کتاب کلمہ حق (126تا137)میں مسلمانوں پر حملے کے دوران انگریز اور فرانسیسیوں سے تعاون کے بارے میں طویل فتویٰ کا عنوان کچھ یوں قائم کرتے ہیں "مصری قوم اور بالخصوص ساری عرب اقوام اور مسلم امہ کے لیے بیان"،پھر اس فتویٰ میں فرماتے ہیں:" جہاں تک انگریز کے ساتھ کسی بھی قسم کےتعاون کا تعلق ہے،کم ہو یا زیادہ،ایسا تعاون بدترین ارتداد اور واضح کفر ہے جس کے ساتھ کوئی معذرت اور کوئی تاویل قابل قبول نہیں اور نہ ہی اس سے احمقانہ عصبیت، بھونڈی سیاست یا خوش کن منافقانہ باتوں جیسا کوئی بہانہ بچا سکتا۔بھلے یہ افراد میں ہو، حکومتوں میں ہو یا راہنماؤں میں سب کے سب کفر اور ارتداد میں برابر ہیں۔البتہ اگر کوئی شخص جاہل یا غلطی پر ہو اور پھر اسے احساس ہو جائے اوروہ توبہ کر کے اہل ایمان کا راستہ اختیار کر لے تو اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کی توبہ جلد قبول فرمانے والے ہیں ،اگروہ واقعتا اللہ کے لیے مخلص ہو جائیں،سیاست یا عوام کے لیے نہیں !"

علامہ عبداللہ بن حمید رحمہ اللہ(اعلیٰ عدالتی کونسل سعودی عرب اور المجمع الفقہی کے سابق سربراہ)"الدر السنیۃ "15 / 479میں رقمطراز ہیں:"۔۔۔ جہاں تک "تولی" کا تعلق ہے تو اس سے مراد اُن (کفار)کا اکرام و تعریف کرنا،ان میں گھل ملنا،مسلمانوں کے خلاف ان کے معاونت اور نصرت کرنا اور ان سے لاتعلقی کا اظہار نہ کرنا ہے،سویہ ایسا کرنے والے کا ارتداد ہے جس سے اس پر مرتدین کے احکام جاری ہوجاتے ہیں جیسا کہ کتاب و سنت اور پیروی کیے جانے والے ائمہ کا اجماع اس بات پر دلیل ہیں"

جامعہ ازہر کی فتویٰ کمیٹی کا فتویٰ جو 1917ء میں مجلہ"الفتح"،شمارہ846 ، صفحہ10 پر شائع ہوا: "کوئی شک نہیں کہ اُن(کفار) کی معاونت میں بھاگ دوڑ اورانکے ان مقاصد کے لیے دست و بازو بننا اور آسانیاں پیدا کرنازیادہ بڑا گناہ ہےجن(سرگرمیوں) کے نتیجے میں مسلمان ذلیل و خوار ہوتےہیں او ر ان کی وحدت وریاست کو ختم کیا جاتا ہے۔یہ اعمال صرف "موالات" کی نسبت کہیں زیادہ نقصان پہنچانے والےاور جو لوگ کھلم کھلا اسلام اور مسلمانوں سے دشمنی کا اظہار کرتے ہیں انکی دشمنی سے بھی کہیں زیادہ سخت ہیں۔ چنانچہ جوشخص اس بارے میں اللہ کا حکم واضح ہو جانے کے بعد ان میں سے کسی چیز کو مباح سمجھے وہ دین اسلام سے مرتد ہو جاتا ہے، اس کی بیوی سے جدائی کروا دی جائے گی کہ بیوی کے لیے اِس شخص سے تعلق رکھنا اب حرام ہے، نہ اس کا نماز جنازہ پڑھا جائے گا اور نہ اسے مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کیا جائے گا"

ربيع الاول 1380 ھ میں جاری شیخ الازہر علامہ محمود شلتوت رحمہ اللہ کا دستخط شدہ بیان ملاحظہ ہو: سو اگر کوئی شخص کسی باغی گروہ کی طرف دستِ تعاون دراز کرنا چاہے ،(وہ گروہ) جسے استعمار نے بطور پُل بنایا ہو تاکہ اسکے ذریعہ اپنےاہداف تک رسائی حاصل کرے ،تو اگر کسی نے یوں کرنا چاہا تو اسکا عمل بذاتِ خود دین سے بغاوت شمار ہوگا "(مجلہ الازہر ،جلد 32/3،32/2 ص263)

اِس بیان کا مقصد کراسنگ کو بند کرنے اور مسلمانوں کے خلاف یہود کے ساتھ تعاون کے جرم کا حکم بتا کر اللہ سے ڈرا نا ہے۔ہم جہاد فی سبیل اللہ کے خلاف سیاسی، میڈیا اور عملی محاذ پر کھڑے ہونے والوں اور غزہ کے لیے امداد و اسلحہ کی سپلائی روکنے والے تمام لوگوں کو اللہ کے حضور توبہ کا اعلان کرنے کی طرف بلاتے ہیں اور بالخصوص مصری صدر سے کہتے ہیں کہ بلا کسی شرط یا قید کے رفح کراسنگ کو کھولے اور مقامی سرنگیں جوں کی توں چھوڑ کر ان کی تلاش روک دے۔

آخر میں ہم منافقین کی باتوں سے متاثر ہو کر غزہ میں مجاہدین فی سبیل اللہ کو شہادتوں اور نقصانات کا ذمہ دار خیال کرنے والوں کو اللہ کی اس آیت سے نصیحت کرتے ہیں کہ:الَّذِينَ قَالُواْ لإِخْوَانِهِمْ وَقَعَدُواْ لَوْ أَطَاعُونَا مَا قُتِلُوا قُلْ فَادْرَؤُوا عَنْ أَنفُسِكُمُ الْمَوْتَ إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ"
"یہ وہی لوگ ہیں جو خود تو بیٹھے رہے او ران کے جو بھائی بند لڑنے گئے اور مارے گئے ان کے متعلق انہوں نے کہہ دیا کہ
ا گر وہ ہماری بات مان لیتے تو نہ مارے جاتے ،ان سے کہو اگر تم اپنے قول میں سچے ہو تو خود تمہاری موت جب آئے اُسے ٹال کر دکھا دینا۔"(آل عمران 168)

ہم اللہ تعالیٰ کے حضور دعا گو ہیں کہ وہ غزہ میں ہمارے بھائیوں کی حفاظت فرمائیں،انہیں صبر سے نوازیں، ثابت قدمی عطا فرمائیں اور یہود اور منافقین کے خلاف ان کی مدد فرمائیں۔ آمین

(یہ فتویٰ غزۃ کیے محاصرے کے دو سال بعددیا گیا تھا، جسے اب دوبارہ شائع کیا گیا ہے۔فتوی دینے والے علماء میں سعودی عرب، مصر، کویت، یمن، سوڈان اور دوسرے علاقوں کے 100 سے زیادہ علماء شامل ہیں مثلا شیخ
عبداللہ بن حمود التویجری،
شیخ زھیر الشاویش،
محدث عبداللہ بن عبدالرحمان السعد،
شیخ نبیل العوضی،
شیخ عبدالعزیز بن محمد آل عبد اللطیف،
محمد بن سعید القحطانی

اور دیگر علماء اور اسلامی تحریکوں کے زعماء، جن کی تفصیل اور اصل عربی متن اس لنک پر دیکھا جا سکتا ہے۔)
http://www.almokhtsar.com/node/9306

اردو ترجمہ:عبداللہ آدم(باربروسا)
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,859
ری ایکشن اسکور
41,096
پوائنٹ
1,155
جزاک اللہ خیرا بھائی
لیکن آپ نے جس نقطہ نظر کو بیان کیا ہے اس پر ایک اور تحریر میں میں نے اعتراضات پڑھے ہیں، میں ان اعتراضات کو بیان کر دیتا ہوں، آپ ان کے مدلل جوابات دیں تاکہ دونوں موقف واضح ہو سکیں، اور عوام الناس کو سمجھنے میں آسانی ہو کہ کون سا موقف حق پر مبنی ہے، کیونکہ یکطرفہ موقف سن کر کوئی فیصلہ کرنا درست نہیں۔
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,859
ری ایکشن اسکور
41,096
پوائنٹ
1,155
نمبر 1
، اور امام محمد بن عبدالوہاب رحمہ اللہ نے اس چیز کو دس متفقہ نواقضِ اسلام(اسلام کو ختم کر دینے والے کاموں) میں آٹھویں نمبر پر شمار کیا ہے
تحریر میں اس بات پر اعتراض تھا کہ متقدمین علماء نے جو اجمالا نواقضِ اسلام کو اجاگر کیا تھا متاخرین علماء جیسے امام محمد بن عبدالوھاب رحمہ اللہ نے اسے مفصلا بیان کر کے ایک فتنہ و فساد کو ہوا دی ہے، اور اس سے بعض کلمہ گو خطاکاروں کا خون جائز سمجھ لیا گیا ہے، جیسے متقدمین علماء نے توحید کی تین اقسام، (ربوبیت، اسماء و صفات، الوہیت) کو بیان کیا تو متاخرین علماء نے مفصلا ذکر کر کے ایک چوتھی قسم "توحید حاکمیت" کو واضح کیا اور اسی پوائنٹ کو لے کر فتنہ و فساد پھیلایا۔ جی اس نکتے کا کیا جواب ہے؟
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,859
ری ایکشن اسکور
41,096
پوائنٹ
1,155
نمبر 2
اسی طرح سورہ مائدہ میں بیان اور بھی واضح ہے:" يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ لاَ تَتَّخِذُواْ الْيَهُودَ وَالنَّصَارَى أَوْلِيَاء بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاء بَعْضٍ وَمَن يَتَوَلَّهُم مِّنكُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ إِنَّ اللَّهَ لاَ يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ" ).
اے لوگو جو ایمان لائے ہو! یہودیوں اور عیسائیوں کو اپنا رفیق نہ بناؤ، یہ آپس ہی میں ایک دوسرے کے رفیق ہیں اور اگر تم میں سے کوئی ان کو اپنا رفیق بناتا ہے تو اس کا شمار بھی پھر انہی میں ہے، یقیناً اللہ ظالموں کو اپنی رہنمائی سے محروم کر دیتا ہے۔(المائدة 51)
آیت ولایت میں سے جو مفہوم آپ کے نقطہ نظر میں ہے، اس پر بھی ایک اعتراض یہ سامنے آیا ہے کہ اس کو غلط سمجھا گیا ہے، اس کی دو بڑی وجوہات بیان کی گئی ہیں۔

پہلی توجیہ
یہ کہ اس آیت کے سیاق سباق میں منافقین کا تذکرہ ہے، لہذا یہ آیات منافقین کے بارے میں نازل ہوئی ہے، اور اس کا اطلاق انہی پر ہوتا ہے، چونکہ آج ہم یہ نہیں جان سکتے کہ کون اعتقادی منافق ہے اسی لئے ہم صرف عملی نفاق کا اطلاق کریں گے

دوسری توجیہ
یہ کہ اس آیت میں اور اس طرح دیگر اور آیات میں کافروں سے قلبی تعلقات استوار کرنے، ان سے دوستیاں کرنے کی ممانعت ہے تو اس سے مراد حربی کافر ہیں ناکہ عام کافر، اور دوسری بات کہ اگر کوئی کافروں کے دین پر راضی نہیں اور اسلام پر راضی ہے لیکن وہ کسی دنیاوی لالچ، خوف و ڈر، یا کسی اور وجوہات کی بنا پر ان کا ساتھ دیتا ہے یا دوستی رکھتا ہے تو وہ کافر نہیں۔ جی اس کا کیا جواب دیں گے آپ؟
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,859
ری ایکشن اسکور
41,096
پوائنٹ
1,155
دراصل میں سیکھنے اور علم حاصل کرنے کا شوقین ہوں، اور چاہتا ہوں کہ کسی بھی مسئلے میں طرفین کا موقف معلوم ہو تاکہ مسئلہ کھل کر سامنے آئے، اسی لئے مزید وضاحت کر رہا ہوں، اگر آپ کو برا لگے تو آپ نظرانداز کر دیں۔ جزاک اللہ خیرا
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,553
پوائنٹ
304
نمبر 2

آیت ولایت میں سے جو مفہوم آپ کے نقطہ نظر میں ہے، اس پر بھی ایک اعتراض یہ سامنے آیا ہے کہ اس کو غلط سمجھا گیا ہے، اس کی دو بڑی وجوہات بیان کی گئی ہیں۔

پہلی توجیہ
یہ کہ اس آیت کے سیاق سباق میں منافقین کا تذکرہ ہے، لہذا یہ آیات منافقین کے بارے میں نازل ہوئی ہے، اور اس کا اطلاق انہی پر ہوتا ہے، چونکہ آج ہم یہ نہیں جان سکتے کہ کون اعتقادی منافق ہے اسی لئے ہم صرف عملی نفاق کا اطلاق کریں گے

دوسری توجیہ
یہ کہ اس آیت میں اور اس طرح دیگر اور آیات میں کافروں سے قلبی تعلقات استوار کرنے، ان سے دوستیاں کرنے کی ممانعت ہے تو اس سے مراد حربی کافر ہیں ناکہ عام کافر، اور دوسری بات کہ اگر کوئی کافروں کے دین پر راضی نہیں اور اسلام پر راضی ہے لیکن وہ کسی دنیاوی لالچ، خوف و ڈر، یا کسی اور وجوہات کی بنا پر ان کا ساتھ دیتا ہے یا دوستی رکھتا ہے تو وہ کافر نہیں۔ جی اس کا کیا جواب دیں گے آپ؟

السلام علیکم و رحمت الله -

پہلی توجیہ کا جواب :

سوره المائدہ کی آیت ٥١ کے سیاق سباق میں منافقین کا تذکرہ ضرور ہے لیکن اس آیت میں يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا (اے لوگو جو ایمان لاے ہو) سے مراد مسلمانوں سے خطاب اور ان ہی کو حکم دیا جا رہا ہے کہ اگر تم نے - یہود و نصاریٰ کا ساتھ دیا تو تمہارا شمار بھی ان ہی میں ہو گا - اور منافقین یہود و نصاریٰ کا ساتھ دینے کی بنا پر پہلے ہی کافر ہوگئے تھے -

جیسا کہ سوره المائدہ کی اگلی آیت میں ہے :

فَتَرَى الَّذِينَ فِي قُلُوبِهِمْ مَرَضٌ يُسَارِعُونَ فِيهِمْ يَقُولُونَ نَخْشَىٰ أَنْ تُصِيبَنَا دَائِرَةٌ ۚ فَعَسَى اللَّهُ أَنْ يَأْتِيَ بِالْفَتْحِ أَوْ أَمْرٍ مِنْ عِنْدِهِ فَيُصْبِحُوا عَلَىٰ مَا أَسَرُّوا فِي أَنْفُسِهِمْ نَادِمِينَ سوره المائدہ ٥٢
پھر تو ان لوگوں کو دیکھے گا جن کے دلوں میں بیماری ہے (یعنی منافقین) ان میں دوڑ کر جا ملتے ہیں- کہتے ہیں کہ ہمیں ڈر ہے کہ ہم پر زمانے کی گردش نہ آ جائے سو قریب ہے کہ الله جلدی فتح ظاہر فرماد ے یا کوئی اور حکم اپنے ہاں سے ظاہر کرے پھر یہ اپنے دل کی چھپی ہوئی بات پر شرمندہ ہوں گے -

اور دنیا کے اصول کے مطابق فیصلہ انسان کے ظاہر پر ہوتا ہے نہ کہ باطن پر- دنیا میں کسی بھی جرم کی سزا کا قانون بھی یہی ہے - اب اگر کوئی کسی گھر میں ڈاکہ ڈالتا ہے تو اس کے ظاہری فعل کو دیکھ کر ہی اسے ڈاکو قرار دیا جائے گا - چاہے اس نے یہ ڈاکہ مجبوری کی حالت یا اپنی فاقہ کشی کی وجہ سے ڈالا ہو - یہی اصول یہود و نصاریٰ سے دوستی کے زمرے میں اے گا - دنیا میں فیصلہ ظاہر پر ہوتا ہے -دل کا حال تو الله جانتا ہے-

دوسری توجیہ کا جواب :

قلبی دوستی چاہے حربی کافر سے ہو یا عام کافر سے - دونوں سورتوں میں حرام ہے - الله کا قرآن میں ارشاد ہے کہ :

وَلَا تَرْكَنُوا إِلَى الَّذِينَ ظَلَمُوا فَتَمَسَّكُمُ النَّارُ وَمَا لَكُمْ مِنْ دُونِ اللَّهِ مِنْ أَوْلِيَاءَ ثُمَّ لَا تُنْصَرُونَ سوره ھود ١١٣
اور ان کی طرف مت جھکو جو ظالم ہیں پھر تمہیں بھی (دوزخ کی) آگ چھوئے گی اور الله کے سوا تمہارا کوئی مددگار نہیں ہوگا- پھر کہیں سے مدد نہ پاؤ گے-

یہ کیسے ممکن ہے کہ کسی دنیاوی لالچ یا یا دوسری وجوہات کی بنا پر ایک انسان کافروں سے قلبی ہمدردی بھی رکھتا ہو اور دوسری طرف وہ دین اسلام پر راضی بھی ہو؟؟؟ -

جو دین اسلام پر راضی ہوتا ہے اسے کسی کا لالچ یا خوف نہیں ہوتا سواے الله کے- اور وہ صرف الله کے دوستوں سے قلبی دوستی رکھتا ہے -

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا مَنْ يَرْتَدَّ مِنْكُمْ عَنْ دِينِهِ فَسَوْفَ يَأْتِي اللَّهُ بِقَوْمٍ يُحِبُّهُمْ وَيُحِبُّونَهُ أَذِلَّةٍ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ أَعِزَّةٍ عَلَى الْكَافِرِينَ يُجَاهِدُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَلَا يَخَافُونَ لَوْمَةَ لَائِمٍ ۚ ذَٰلِكَ فَضْلُ اللَّهِ يُؤْتِيهِ مَنْ يَشَاءُ ۚ وَاللَّهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ سوره المائدہ ٥٤
اے ایمان والو جو کوئی تم میں سے اپنے دین سے پھر جائے گا تو عنقریب الله ایسی قوم کو لائے گا کہ الله ان کو چاہتا ہے اور وہ اس کو چاہتے ہیں مسلمانوں پر نرم دل ہوں گے اور کافروں پر زبردست الله کی راہ میں لڑیں گے اور کسی کی ملامت سے نہیں ڈریں گے یہ الله کا فضل ہے جسے چاہے دیتا ہے اور الله کشائش والا جاننے والا ہے-

باقی کوئی اور بھائی اس میں اپنی راے پیش کرنا چاہیں تو خوشی ہو گی -
 
Last edited:

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,859
ری ایکشن اسکور
41,096
پوائنٹ
1,155
السلام علیکم و رحمت الله -

پہلی توجیہ کا جواب :

سوره المائدہ کی آیت ٥١ کے سیاق سباق میں منافقین کا تذکرہ ضرور ہے لیکن اس آیت میں يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا (اے لوگو جو ایمان لاے ہو) سے مراد مسلمانوں سے خطاب اور ان ہی کو حکم دیا جا رہا ہے کہ اگر تم نے - یہود و نصاریٰ کا ساتھ دیا تو تمہارا شمار بھی ان ہی میں ہو گا - اور منافقین یہود و نصاریٰ کا ساتھ دینے کی بنا پر پہلے ہی کافر ہوگئے تھے -

جیسا کہ سوره المائدہ کی اگلی آیت میں ہے :

فَتَرَى الَّذِينَ فِي قُلُوبِهِمْ مَرَضٌ يُسَارِعُونَ فِيهِمْ يَقُولُونَ نَخْشَىٰ أَنْ تُصِيبَنَا دَائِرَةٌ ۚ فَعَسَى اللَّهُ أَنْ يَأْتِيَ بِالْفَتْحِ أَوْ أَمْرٍ مِنْ عِنْدِهِ فَيُصْبِحُوا عَلَىٰ مَا أَسَرُّوا فِي أَنْفُسِهِمْ نَادِمِينَ سوره المائدہ ٥٢
پھر تو ان لوگوں کو دیکھے گا جن کے دلوں میں بیماری ہے (یعنی منافقین) ان میں دوڑ کر جا ملتے ہیں- کہتے ہیں کہ ہمیں ڈر ہے کہ ہم پر زمانے کی گردش نہ آ جائے سو قریب ہے کہ الله جلدی فتح ظاہر فرماد ے یا کوئی اور حکم اپنے ہاں سے ظاہر کرے پھر یہ اپنے دل کی چھپی ہوئی بات پر شرمندہ ہوں گے -

اور دنیا کے اصول کے مطابق فیصلہ انسان کے ظاہر پر ہوتا ہے نہ کہ باطن پر- دنیا میں کسی بھی جرم کی سزا کا قانون بھی یہی ہے - اب اگر کوئی کسی گھر میں ڈاکہ ڈالتا ہے تو اس کے ظاہری فعل کو دیکھ کر ہی اسے ڈاکو قرار دیا جائے گا - چاہے اس نے یہ ڈاکہ مجبوری کی حالت یا اپنی فاقہ کشی کی وجہ سے ڈالا ہو - یہی اصول یہود و نصاریٰ سے دوستی کے زمرے میں اے گا - دنیا میں فیصلہ ظاہر پر ہوتا ہے -دل کا حال تو الله جانتا ہے-

دوسری توجیہ کا جواب :

قلبی دوستی چاہے حربی کافر سے ہو یا عام کافر سے - دونوں سورتوں میں حرام ہے - الله کا قرآن میں ارشاد ہے کہ :

وَلَا تَرْكَنُوا إِلَى الَّذِينَ ظَلَمُوا فَتَمَسَّكُمُ النَّارُ وَمَا لَكُمْ مِنْ دُونِ اللَّهِ مِنْ أَوْلِيَاءَ ثُمَّ لَا تُنْصَرُونَ سوره ھود ١١٣
اور ان کی طرف مت جھکو جو ظالم ہیں پھر تمہیں بھی (دوزخ کی) آگ چھوئے گی اور الله کے سوا تمہارا کوئی مددگار نہیں ہوگا- پھر کہیں سے مدد نہ پاؤ گے-

یہ کیسے ممکن ہے کہ کسی دنیاوی لالچ یا یا دوسری وجوہات کی بنا پر ایک انسان کافروں سے قلبی ہمدردی بھی رکھتا ہو اور دوسری طرف وہ دین اسلام پر راضی بھی ہو؟؟؟ -

جو دین اسلام پر راضی ہوتا ہے اسے کسی کا لالچ یا خوف نہیں ہوتا سواے الله کے- اور وہ صرف الله کے دوستوں سے قلبی دوستی رکھتا ہے -

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا مَنْ يَرْتَدَّ مِنْكُمْ عَنْ دِينِهِ فَسَوْفَ يَأْتِي اللَّهُ بِقَوْمٍ يُحِبُّهُمْ وَيُحِبُّونَهُ أَذِلَّةٍ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ أَعِزَّةٍ عَلَى الْكَافِرِينَ يُجَاهِدُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَلَا يَخَافُونَ لَوْمَةَ لَائِمٍ ۚ ذَٰلِكَ فَضْلُ اللَّهِ يُؤْتِيهِ مَنْ يَشَاءُ ۚ وَاللَّهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ سوره المائدہ ٥٤
اے ایمان والو جو کوئی تم میں سے اپنے دین سے پھر جائے گا تو عنقریب الله ایسی قوم کو لائے گا کہ الله ان کو چاہتا ہے اور وہ اس کو چاہتے ہیں مسلمانوں پر نرم دل ہوں گے اور کافروں پر زبردست الله کی راہ میں لڑیں گے اور کسی کی ملامت سے نہیں ڈریں گے یہ الله کا فضل ہے جسے چاہے دیتا ہے اور الله کشائش والا جاننے والا ہے-

باقی کوئی اور بھائی اس میں اپنی راے پیش کرنا چاہیں تو خوشی ہو گی -
جزاک اللہ خیرا بھائی
آپ کی باتوں میں وزن ہے
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,859
ری ایکشن اسکور
41,096
پوائنٹ
1,155
محمد علی جواد بھائی! ایک اور اعتراض "نمبر 1" کے تحت درج ہے، اگر آپ کو اس موضوع کے متعلق علم ہو تو یہاں شئیر کریں۔ جزاک اللہ خیرا
نمبر 3
مزید ایک اور اعتراض اس حوالے سے بھی سامنے آیا کہ "مسلمانوں کے خلاف کفار کی معاونت کرنے والا کافر ضرور ہے لیکن وہ ہر صورت میں کافر نہیں ہے، بلکہ کچھ صورتحال ایسی ہیں جن میں وہ باوجود اس کام کے مرتکب ہونے کے وہ مسلمان ہی رہے گا"
اس کی پانچ صورتیں ہیں
  1. جہالت
  2. اکراہ
  3. تاویل
  4. خوف و ڈر
  5. طمع و لالچ

پہلے دو پوائنٹس پر تو میری بھی یہی ریسرچ ہے کہ ایسا حکمران جو مسلمانوں کے خلاف کفار کی معاونت جیسے امور کے ارتکاب سے دائرہ اسلام سے خارج ہونے والے شرعی مسئلے سے لا علم ہو تو ایسا حکمران اس صورت میں کافر نہیں ، اسی طرح کسی حکمران کو مجبور کر دیا جائے تو شاید کراہت کی وجہ سے وہ کافر نہ ہو، لیکن اگر میری ریسرچ کمزور ہو تو یہاں بھی آپ اصلاح کر دیں۔

لیکن تھرڈ، فورتھ اینڈ فائیو پوائنٹس پر آپ بتائیں کہ دنیاوی لالچ، ڈر و خوف اینڈ تاویل کی بنا پر اگر کوئی مسلمانوں کے خلاف کفار کی معاونت کرتا ہے تو اس صورت میں وہ کافر ہو گا یا نہیں؟
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,553
پوائنٹ
304
محمد علی جواد بھائی! ایک اور اعتراض "نمبر 1" کے تحت درج ہے، اگر آپ کو اس موضوع کے متعلق علم ہو تو یہاں شئیر کریں۔ جزاک اللہ خیرا
نمبر 3
مزید ایک اور اعتراض اس حوالے سے بھی سامنے آیا کہ "مسلمانوں کے خلاف کفار کی معاونت کرنے والا کافر ضرور ہے لیکن وہ ہر صورت میں کافر نہیں ہے، بلکہ کچھ صورتحال ایسی ہیں جن میں وہ باوجود اس کام کے مرتکب ہونے کے وہ مسلمان ہی رہے گا"
اس کی پانچ صورتیں ہیں
  1. جہالت
  2. اکراہ
  3. تاویل
  4. خوف و ڈر
  5. طمع و لالچ

پہلے دو پوائنٹس پر تو میری بھی یہی ریسرچ ہے کہ ایسا حکمران جو مسلمانوں کے خلاف کفار کی معاونت جیسے امور کے ارتکاب سے دائرہ اسلام سے خارج ہونے والے شرعی مسئلے سے لا علم ہو تو ایسا حکمران اس صورت میں کافر نہیں ، اسی طرح کسی حکمران کو مجبور کر دیا جائے تو شاید کراہت کی وجہ سے وہ کافر نہ ہو، لیکن اگر میری ریسرچ کمزور ہو تو یہاں بھی آپ اصلاح کر دیں۔

لیکن تھرڈ، فورتھ اینڈ فائیو پوائنٹس پر آپ بتائیں کہ دنیاوی لالچ، ڈر و خوف اینڈ تاویل کی بنا پر اگر کوئی مسلمانوں کے خلاف کفار کی معاونت کرتا ہے تو اس صورت میں وہ کافر ہو گا یا نہیں؟
السلام علیکم -

محترم ارسلان بھائی-

اس معاملے میں آپ کی بیان کردہ استثنائی کیفیات کو دیکھنا ہوگا -کیوں کہ نہ ہر طرح کی جہالت قابل عذر ہوتی ہے اور نہ ہر طرح کی مجبوری قابل عذر ہو سکتی ہے - اگر ان تمام بیان کردہ عذروں کو مان لیا جائے تو پھر تو کسی کو یہود و نصاریٰ کی دوستی یا معاونت پر کافر قرار دینا انتہائی مشکل بلکہ نا ممکن ہو جائے گا - آج کے مسلم حکمران اسی بات کا رونا روتے ہیں کہ ہم یہود و نصاریٰ سے دوستی کے لئے مجبور ہیں - وہ ہم کو مزید نقصان پہنچا سکتے ہیں- ورنہ ہمیں ان سے دوستی کا کوئی شوق نہیں- اور جہاں تک جہالت کی بات ہے تو یہ ممکن نہیں کہ حکمران یہود و نصاریٰ کی دوستی کے بارے میں احکامات کے بارے میں مکمل طور پر لاعلم ہوں- کیوں کہ ایک مسلم حکمران کے لئے ضروری ہے کہ وہ اسلام کے بنیادی عقائد سے مکمل آگاہ ہو- اور یہود و نصاریٰ سے دشمنی اسلام کی اساس ہے- جو اس معاملے کو جانتا ہی نہیں وہ مسلمانوں کا حکمران بننے کا مستحق ہی نہیں - خلفاء ثلاثہ مسلمانوں کے حکمران ہونے کے ساتھ ساتھ خود بھی مجتہد تھے - تبھی تو یہود و نصاریٰ ان کے زیر نگیں آگئے تھے- اور اگر معاملہ خوف و طمع کا ہے -تو اگر حکمران خود خوف کی حالت میں ہو تو وہ اپنے مسلمانوں کی کیا حفاظت سر انجام دے گا -

البتہ عام مسلمانوں کا یہود و نصاریٰ یا کفار سے دوستی کے معاملے کا ذرا تفصیلی جائزہ لینا پڑے گا- یہ بات ذہن میں رہے کہ مسلمانوں کو یہ بات کسی بھی ذرا بھی زیب نہیں دیتی کہ کہ اگر حکمران فاسق و فجر ہو تو عوام بھی اس کے فسق فجور میں اس کا ساتھ دے - قرآن میں الله نے ان کو جہنمی قرار دیا ہے جو اپنے بڑوں کے کہنے پر چلتے تھے -خوشی سے یا مجبوری سے -

وَقَالُوا رَبَّنَا إِنَّا أَطَعْنَا سَادَتَنَا وَكُبَرَاءَنَا فَأَضَلُّونَا السَّبِيلَا سوره ٦٧
اور کہیں گے اے ہمارے رب ہم نے اپنے سرداروں اور بڑوں کا کہا مانا سو انہوں نے ہمیں گمراہ کیا -

والسلام -
 

باربروسا

مشہور رکن
شمولیت
اکتوبر 15، 2011
پیغامات
311
ری ایکشن اسکور
1,078
پوائنٹ
106
@محمد ارسلان بھائی! ذرا یہ ایک پرانا مراسلہ ملاحظہ فرمائیں فی الوقت، باقی کل تفصیل سےبات کرنے کی کوشش کروں گا ان شاء اللہ، اور جہاں سے یہ توجیہات آپ نے لی ہیں اس "تحریر" پرکچھ کلام اس لنک پر موجود ہے اسے بھی تسلی سے دیکھ لیجئے گا، جزاک اللہ خیرا، پھر بات آگے چلاتے ہیں :
http://forum.mohaddis.com/threads/یٰاَیُّھَا-الَّذِیْنَ-اٰمَنُوْا-لَا-تَتَّخِذُوا-الْیَھُوْدَ-وَالنَّصَارٰی-اَوْلِیَاء-سے-مراد-عام.11297/
مجدد الدعوۃ الاسلامیہ محمد بن عبدالوہاب رحمہ اللہ فرماتے ہیں :

’’وَلَکِنَّھُمْ یُجَادِلُوْنَکُمْ الْیَوْمَ بِشُبْھَۃٍ وَّاحِدَہٍ ، فَاصْنَعُوْا لِجَوَابِھَا ، وَذٰلِکَ أَنَّھُمْ یَقُوْلُوْنَ کُلُّ ھٰذَا حَقٌّ نَشْھَدُ أَنَّہُ دِینُ ا للہ ِوَ رَسُوْلِہٖ اِلَّا التَّکْفِیْرَ وَالْقِتَالَ ، وَالْعَجَبْ مِمَّنْ یَّخْفٰی عَلَیْہِ ھٰذَا اِذَا أَقّرُّوْھَا أَنَّ ھَذَا دِیْنُ اللہِ وَ رَسُوْلِہٖ کَیْفَ لَا یُکَفَّرُ مَنْ أَنْکَرَہُ وَ قَتَلَ مَنْ أَمَرَ بِہِ وَ حَسْبَھُمْ کَیْفَ لَا یُکَفَّرُ مَنْ أَمَرَ بِہِ بِحَبْسِھِمْ کَیْفَ لَا یُکَفَّرُ مَنْ جَآءَ اِلٰی أَھْلِ الشِّرْکِ یَحُثُّھُم عَلٰی لُزُوْمِ دِیْنِھِمْ وَ تَزِیِیْنِہٖ لَھُمْ وَ یَحُثُّھُمْ عَلٰی قَتْلِ الْمُوْحِدِیْنَ وَ أَخْذِ أَمْوَالِھِمْ کَیْفَ لَا یُکَفِّرُ وَ ھُوَ یَشْھَدُ أَنَّ الَّذِیْ یَحُثُّ عَلَیہِ أَنَّ رَسُوْلَ اللہِﷺأَنْکَرَہُ وَ نَھٰی عَنْہُ وَ سَمَّاہُ الشِّرْکَ بِاللہِ وَیَشْھَدُ أَنَّ الَّذِیْ یُبْغِضُہُ وَ یُبْغِضُ أَھْلَہُ وَ یَامُرُ الْمُشْرِکِینَ بِقَتْلِھِمْ ھُوَ دِیْنُ اللہِ وَرَسُولِہِٗ وَاعْلَمُوْا أَنَّ الَّادِلَّۃَ عَلٰی تَکْفِیْرِ الْمُسْلِمِ الصَّالِحِ اِذَا أشْرَکَ بِا للہِ أَوْ صَارَ مَعَ الْمُشْرِکِیْنَ عَلَی الْمُوْحِّدِیْنَ وَ لَوْ لَمْ یُشْرِکَ أَکْثَرُ مِنْ أَنْ تُنحَصَرَ مِنْ کَلَامِ اللّہِ وَ کَلَامِ رَسُوْلِہوَکَلَامِ أَھْلِ الْعِلْمِ۔
وَأَنَا أَذْکُرُ لَکَ آیَۃً مِّنۡ کَلَامِ اﷲِ أَجْمَعَ أَھْلُ الْعِلمِ عَلٰی تَفْسِیرِھَا وَ أَنَّھَا فِی الْمُسْلِمِیْنَ وَ أَنَّ الرَّجُلَ اِذَا قَالَ ذَلِکَ فَھُوَ کَافِرٌ فِی أیِّ زَمَانٍ کَانَ ، قَالَ تَعَالٰی :﴿مَنْ کَفَرَ بِاﷲِ مِنْ بَعْدِ اِیْمَانِہٖ اِلَّا مَنْ اُکْرِہَ وَ قَلْبُہٗ مُطْمَئِنٌّ بِالْاِیْمَانِ وَلکِنْ مَّنْ شَرَحَ بِالْکُفْرِ صَدْرًا فَعَلَیْہِمْ غَضَبٌ مِّنَ اﷲِ وَ لَہُمْ عَذَابٌ عَظِیْمٌ﴾وَفِیْھَا ذِکْرُ أَنّھُمْ اسْتَحَبُّوْا الْحَیَاۃَ الدُّنْیَا عَلَی الْآخِرَۃِ۔
فَاِذَا کَانَ الْعُلْمَاءُ ذَکَرُوْا أَنَّھَا نَزَلَتْ فِی عَمَّارِ بْنِ یَاسِرِ رضِیَ اﷲُ عَنْہُ لَمَّا فَتَنَۃُ أَھْلُ مَکَّۃَ ، وَذَکَرُوْا أَنَّ الاِنْسَانَ اِذَا تَکَلَّمَ بِکَلَامِ الشِّرْکِ بِلِسَانِہٖ مَعَ بُغْضِہِ لِذٰلِکَ وَ عَدَاوَۃِ أَھْلِہٖ لٰکِنْ خَوْفًا مِّنْھُمْ فَھُوَ کَافِرٌ بَعَدَ اِیْمَانِہٖ۔‘‘


""بعض لوگ آج کل تم سے اس معاملہ میں بحث وتکرار اور جھگڑا کرتے ہوئے ایک شبہ پیش کرتے ہیں ۔وہ شبہ اور اس کا جواب خوب دل لگا کر پڑھ لیں ۔شبہ پیش کرنے والے بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ یہ ساری باتیں جو آپ لوگ بیان کرتے ہیں بالکل درست ہیں ۔ہم مانتے ہیں کہ آپ لوگ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺکا ہی دین ہمارے سامنے پیش کرتے ہیں ۔آپ کے ساتھ ہم درج ذیل دوباتوں کے سوا تمام باتوں میں اتفاق کرتے ہیں :
 کافروں کے ساتھ دوستی کرنے والوں کو کافر کہنے کے معاملہ میں اور
 ان کے ساتھ قتال کرنے کے معاملہ میں۔
اس کا جواب پیش خدمت ہے :انتہائی تعجب انگیز بات تویہی ہے کہ ایک ایسے شخص پراس شبہ کا جواب مخفی ہے جو اس بات کا اقرار بھی کرتا ہے کہ ہمارا موقف قرآن وسنت اور اللہ اور اس کے رسول کے دین کے مطابق ہے۔جب کوئی شخص صدق دل سے تسلیم کرتا ہے کہ اللہ اور اس کے رسولﷺکا دین ’’اسلام‘‘برحق دین ہے۔توپھر:

 وہ شخص اس کو کافر کیوں نہیں کہتا ؟جو اس دین کا انکار کرتا ہے ؟اس دین کی طرف دعوت دینے والے اور اس دین کو قائم کرنے والے ،داعی اورمجاہد کو قتل اور گرفتار کیوں کرتا ہے؟

 پھر وہ شخص اس شخص کوکافرکیوں نہیں کہتا ؟جو اپنی فوج اور انتظامیہ کو حکم دیتا ہے کہ ان مجاہدوں اور داعیوں کو گرفتار کرکے قید وبند کی صعوبتوں سے دوچار کردو؟

 پھر وہ اس شخص کو کافر کیوں نہیں کہتا ؟جومشرکوں کے پاس جاکر انہیں برانگیختہ کرتا ہے کہ تم اپنے دین پر ڈٹے رہو، تمہارا دین ومذہب نظریہ ومؤقف بہت ہی بہترین اور خوبصورت ہے۔

اس کے ساتھ ساتھ وہ مشرکوں اور کافروں کو خالص العقیدہ اہل توحید کے قتل اور ان کے اموال پر قبضہ کرنے )اکاؤنٹس منجمد کرنے(کے لیے ابھارتا ہے؟

 پھر وہ شخص اس شخص کے کافر ہونے کا عقیدہ کیوں نہیں رکھتا ؟حالانکہ وہ گواہی دیتاہے کہ کافروں اور مشرکوں کے پاس جاکر انہیں جس چیز پر برانگیختہ کرتا ہے ۔رسول اکرم جناب محمدﷺنے اس چیز کا انکار کیا ہے ، اس سے روکا ہے اور اس طرز عمل کو شرک قرار دیا ہے ۔علاوہ ازیں اس بات کی گواہی بھی دیتا ہے کہ اہل توحید اور مجاہدین کے جن اعمال واقدامات عقائد ونظریات کو وہ ناپسند کرتا ہے ۔اللہ کادین بہرحال یہی ہے اورمجاہدین اور مؤحدین ہی حقیقت میں دین کے اصل داعی اور نافذ کرنے والے ہیں ؟

یادرکھیے !کوئی کلمہ پڑھنے والانیک مسلمان جب اللہ کے ساتھ شرک کرنے لگ جائے اورموحدین کے مخالف ہوکر مشرکین کا ساتھی بن جائے وہ کافر ہوجاتا ہے اگرچہ وہ بذاتِ خود شرک کا ارتکاب نہ بھی کرے ۔قرآن مجید میں رسول اکرم ﷺکی احادیث مبارکہ میں اوراہل علم کی تالیفات وتصنیفات میں اس بارے میں اتنے دلائل ہیں کہ ان کو احاطہ تحریر میں لانا دشوار ہے۔

یہاں پر بطور مثال (For an Example)میں صرف قرآن مجید کی ایک آیت پیش کرنے پر اکتفا کروں گا ۔یہ وہ آیت ہے کہ تمام اہل علم نے اس کی تفسیر وتشریح بیان فرماتے ہوئے متفقہ طور پریہ بیان کیا ہے کہ آیت واقعتا ایک ایسے شخص کے بارے میں ہے جو پہلے کلمہ پڑھنے والا مسلمان ہو،پھر وہ کافروں اور مشرکوں کے ساتھ جاکر مل جائے اگر وہ ان کی طرح شرک بھی نہ کرے صرف مشرکوں کا ساتھی بن جانے کی بناپر وہ کافر ہوجاتا ہے ۔ایسے شخص پر اللہ تعالیٰ نے واضح طور پر لفظ ’’کفر ‘‘استعمال فرمایا ہے۔ایسا شخص کسی بھی زمانہ میں ہوکسی بھی علاقہ میں ہو اس پر کافر ہونے کا حکم لگتا ہے ۔اللہ تعالیٰ سورۃ النحل کی آیت :۱۰۶ میں ارشاد فرماتے ہیں:
’’جو شخص اپنے ایمان کے بعد اللہ تعالیٰ سے کفر کرے بجز اس کے جس پر جبر کیا جائے اور اس کا دل ایمان پر برقرار ہو۔مگر جو کھلے دل سے کفر کرے تو ان لوگوں پر اللہ کا غضب ہے اورانہی کے لیے بہت بڑا عذاب ہے ‘‘

سورۃ النحل کی مذکورہ بالا آیت سے اگلی آیت :۱۰۷ میں اللہ رب العزت نے ان ایمان لانے کے بعد کفر کرنے والوں کے کفر کا سبب بھی بیان فرمایا ہے۔ان کے کفر کرنے کی وجہ یہ تھی کہ انہوں نے دنیا کی زندگی کو آخرت پر ترجیح دی ۔




علماء کرام نے ذکر فرمایا ہے کہ یہ آیت سیدنا عمار بن یاسر کے بارے میں اس وقت نازل ہوئی جب اہل مکہ نے انہیں طرح طرح کی آزمائشوں اور ابتلاؤں میں مبتلارکھا تھا۔علماء کرام نے اس آیت کی تفسیر میں یہ بھی واضح کیا ہے کہ کوئی انسان جب اپنی زبان سے شرک اور کفر والی بات نکال دیتا ہے ۔حالانکہ اس انسان کے دل میں کفر اور شرک کی نفرت اور عداوت موجود ہے محض کافروں اور مشرکوں سے ڈرتے ہوئے وہ شرکیہ اورکفریہ بات کہہ ڈالتا ہے تو ایسا شخص بھی ایمان لانے کے بعد کافر ہوجاتا ہے۔""

الرسائل الشخصیہ ، القسم الخامس من مؤلفات الشیخ محمد بن عبدالوہاب:272

((دوستی اور دشمنی کا اسلامی معیار از عبدلحکیم حسان حفظہ اللہ۔
ترجمہ از اعجاز احمد تنویر حفظہ اللہ مدرس جامعۃ الدعوۃ الاسلامیہ، مریدکے))

اب دیکھ لیں کہ قرآن و سنت میں جو کفر کی وجوہات بیان ہو رہی ہیں الٹا ان کو ہی آج کل کفر کے لیے ڈھال بنایا جا رہا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ واللہ المستعان علی ما تصفون۔

ارے کفر کوئی شوقیہ چیز ہے کہ بندہ جان بوجھ کر خوشی سے کرتا ہے ہمیشہ !! کہیں تو اس کا سبب طمع و لالچ سے لیکر حرص و ہوس تک ہوتا ہے اور کہیں ڈر خوف اور اندیشہ ہائے دور دراز ہی ہوتے ہیں۔

اللھم ارنا الحق حقا وارزقنا اتباعہ وارنا الباطل باطلا وارزقنا اجتنابہ۔ آمین
 
Top