یعنی ان طاغوتی حکمرانوں کو کم سے کم کافر اور واجب القتل سمجھنا ہمارے لئے ضروری ہے- باقی اس پر عمل درآمد حکمت عملی کے تحت ہو تو بہتر ہے -
محترم بھائی آپ کی اوپر ہائلائٹ بات سے مجھے اتفاق نہیں کیونکہ آپ خود تو ان طاغوتی حکمرانوں کو کافر کہ سکتے ہیں اور میں بھی اپنے شیخ امین اللہ پشاوری حفظہ اللہ کے فتوی کی روشنی میں انکو کافر ہی سمجھتا ہوں اور انکو کافر قرار نہ دینے والوں کو غلطی پر تصور کرتا ہوں اور انکے دلائل کو کمزور سمجھتا ہوں لیکن میرے نزدیک چونکہ انکے کفر پر کچھ مخلص علماء کے تحفظات ہیں اور وہ انکی تکفیر نہیں کرتے پس انکو اور انکی پیروی کرنے والے عامی مسلمانوں کو میں گمراہ نہیں سمجھتا لیکن آپ نے تو اوپر ان کافر قرار دینا ضروری اور کم سے کم درجہ قرار دے دیا ہے جو میرے نزدیک درست نہیں
جواد بھائی اگر حکمران بھی حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی طرح مصلیحت سے کام لے رہے ہوں تو پھر بھی کافر ہیں؟
محترم بھائی حقیقی مصلحت ہونے اور مصلحت کو ڈھال بنانے میں فرق کرنا چاہئے
اگر ہم ہر کسی کو مصلحت کو ڈھال بنانے کی اجازت دے دیں تو کشمیر میں انڈیا کے مسلمان فوجی اور انڈیا میں انڈیا کے مسلمان فوجی اور عمر عبداللہ اور میر جعفر اور میر صادق اور افغانستان میں کرزئی کے مسلمان فوجی اور امریکہ کی فوج میں شامل مسلمان اور کون کون نہیں اس مصلحت سے فائدہ اٹھائے گا
دوسری انتہائی اہم بات یہ کسی مصلحت کے درست ہونے اور ڈھال ہونے پتا اس سے بھی چلایا جا سکتا ہے کہ اس مصلحت کی اجازت سب کو برابر دی جائے اور دوغلی پالیسی نہ ہو پس اگر کوئی مصلحت کی بات کرتا ہے لیکن دوغلی پالیسی اپناتا ہے تو اسکی مصلحت کا اعتبار نہیں بلکہ یہ سمجھا جائے گا کہ وہ مصلحت کو صرف ڈھال بنا رہا ہے
مثلا جو انسان عمر عبداللہ اور حامد کرزئی کو مصلحتا انڈیا اور امریکہ کی تابعداری میں مسلمانوں کو مارنے کی اجازت دیتا ہے اور اسکو مصلحت سمجھتا ہے تو وہ اگر پاکستان کے حکمرانوں کے بارے میں بھی ایسا سوچتا ہے تو درست ہو سکتا ہے
لیکن اگر وہ عمر عبداللہ اور نور المالکی اور حامد کرزئی وغیرہ کو تو مصلحت کی اجازت نہیں دیتا کیونکہ ان کو کافر قرار دینے پر اس کا کوئی نقصان نہیں ہوتا لیکن ان حکمرانوں کے لئے اس مصلحت پر زور دے رہا ہےتو ایک بچہ بھی سمجھ جائے گا کہ ایسی مصلحت دراصل ڈھال ہے واللہ اعلم