• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مسلمانوں کے لیے واحد نسخۂ کامرانی -نبوی منہج

شمولیت
مئی 20، 2011
پیغامات
182
ری ایکشن اسکور
522
پوائنٹ
90
مسلمانوں کے لیے واحد نسخۂ کامرانی -نبوی منہج

از قلم محمد تنزیل الصدیقی الحسینی​


آج مسلمان فرقہ پرستی ، مسلکی عصبیت اور فقہی تصلّب و جمود کے قعرِ مذلّت میں جا گرے ہیں ۔ آفرید کارِ عالمِ انسانیت نے انسانیت کے لیے نسخہ سلامتی صرف اسلام میں مضمر کر رکھا ہے مگر یہ کچھ کم حیرت انگیز نہیں کہ آج جبکہ من حیث المجموعی تمام اقوام و ملل شدید ترین بحران کا شکار ہیں ، مسلمان اس بحرانی کنوئیں کے سب سے نچلے مقام پر ہیں ۔ جن کے پاس نسخہ شفا کی دولت ہے وہی پنجۂ مرض کے سب سے زیادہ گھائل ہیں ۔

ان کی طبیعتوں میں شقاوت کا ایسا زنگ لگ چکا ہے کہ سعادت کی کوئی بات سمجھنے کے لیے تیار نہیں ۔ وہ ظلمت کے اس قدر عادی ہوگئے ہیں کہ نور کی ایک کرن بھی ان کی آنکھوں پر بوجھ بن جاتی ہے ۔ دلوں پر غفلت کے پردے ہیں اور آنکھیں ظلمتوں کے زیرِ حجاب۔

ان کے تصور ہی سے یہ بالا ہے کہ کوئی مسلمان کسی مسلک یا فرقے سے بالاتر بھی ہوسکتا ہے ۔ ان کے حاشیہ خیال میں بھی نہیں آتا کہ کوئی دعوت یا فکر کسی گروہی عصبیت سے ماوراء ہوکر بھی دی جاسکتی ہے ۔لیکن مسلمان خواہ ظلمتوں کی انتہائی تاریکی میں جا پہنچیں یا شقاوتوں کی انتہائی پستی میں جا اتریں ۔ وہ اس وقت تک نہ کامیاب ہو سکتے ہیں اور نہ ہی کامران جب تک کہ وہ اپنے عقیدے و فکر کو اللہ کے رسولﷺ کے عقیدے و فکر کے مطابق نہ بنالیں ۔ فرقہ پرستوں اور اپنے اپنے اکابر کے نظریات کی پیروی کرنے والوں کی مثال ایسی ہی ہے جیسے :
’’ الَّذِیْنَ ضَلَّ سَعْیُہُمْ فِیْ الْحَیَاةِ الدُّنْیَا وَ ہُمْ یَحْسَبُونَ أَنَّہُمْ یُحْسِنُونَ صُنْعاً ‘‘ (الکہف: ١٠٤)
'' جولوگ حیات دنیوی میں اپنی مساعی میں گم رہے اور گمان کرتے رہے کہ وہ بہت اچھا کام کر رہے ہیں ۔''
دین تو اس راہِ مستقیم کا نام ہے جو دل کی ہر کجی کو اور ذہن کی ہر پراگندگی کو دور کردیتا ہے ۔ جب تک ہم صرف '' کتاب '' و سنّت '' کو اپنا میزان و فیصل نہ بنالیں ہمارا ایمان کامل نہیں ہو سکتا ۔
’’ فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِیْ شَیْ ئٍ فَرُدُّوْہُ اِلَی اللّٰہِ وَ الرَّسُوْلِ ، اِن کُنتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللّٰہِ وَ الْیَوْمِ الآخِرِ ، ذَلِکَ خَیْْر وَ أَحْسَنُ تَأْوِیْلاً ‘‘ ( النساء :٥٩)
'' پس جب تم میں کسی امر میں کوئی تنازع ہوتو اسے اللہ اور رسول پر پیش کرو ، اگر تم اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتے ہو ۔ یہ بہتر طریقہ اور اچھا نتیجہ ہے ۔ ''
اللہ ربّ العزت نے بتادیا کہ یہی مآخذِ شریعت ہے اور یہی مطلوب طریقت ۔ یہی تقاضا ئے ایمان ہے اور یہی سرمایۂ آخرت ۔

اسلام نے توحیدِ کامل کی دعوت فکرِ انسانی پرپیش کردی۔ انسان کو انسانوں کی بندگی سے نکال کر ایک معبود ِواحد کی بندگی کے دائرے میں داخل کر کے انسانیت کے مرتبے کو بلند کیا ۔ مگر اس روح کی سیاہ بختی اور اس ذات کی پامالی ، جس کا فہم اس مرتبے کے ادراک سے محروم ہے ۔اسلام اس ایک نکتے پر کبھی سمجھوتہ نہیں کر سکتا کہ اللہ کی حیثیت کو کسی مقام ، کسی صورت ، کسی دائرے اور کسی پیمانے پر کسی دوسری ذات میں منتقل کردیا جائے ۔اور دین کی تعبیر وہی ہے جو اللہ کے رسولﷺنے بیان فرمادی ۔ '' ما انا علیہ و اصحابی '' کی راہ پر گام فرسا ہوئے بغیر نہ ابدی نجات ممکن ہے اور نہ دنیاوی سعادت کا اکتساب ۔

اسلام کو کل کے طاغوت سے کو ئی خطرہ لاحق تھا اور نہ آج کے طاغوت سے کو ئی خطرہ لاحق ہے ۔ دنیا کی بقا کے لیے جس قدر حق کا وجود ضروری ہے ، اسی قدر باطل بھی ناگزیر ہے۔ دونوں میں کسی ایک کا خاتمہ ہی وقتِ موعود کی آمد باعث ہو گا۔ کسی سرکش کی سرکشی اور کسی شقی کی شقاوت ، اسلام کو ذرہ برابر بھی گزند نہیں پہنچا سکتی لیکن اسلام کے اصل مجرم مسلمان ہیں جنہوں نے اپنے اللہ اور رسولﷺ سے بے وفائی کا جرم کیا ہے ۔ جرم کی یہ سنگینی کس درجہ بڑھ چکی ہے کہ احساسِ جرم ہی مفقود ہوچکا ہے ۔

آئیے صرف ایک بار دیانتاً اللہ اور اس کے رسولﷺ کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق اس سے رجوع کرکے دیکھیں سعادتوں کے دروازے نہ کھل جائیں ایسا ہو نہیں سکتا ۔

مجلہ الواقعۃ شمارہ نمبر 10 ربیع الاول 1434ھ کے لئے محمد تنزیل الصدیقی الحسینی کا لکھا گیا اداریہ
 
شمولیت
مئی 20، 2011
پیغامات
182
ری ایکشن اسکور
522
پوائنٹ
90
ہمارے سلفی بھائیوں کو کیا ہوگیا ہے اگر آمین یا رفع یدین اور دیگر فروعی مسائل پر شیئر کرتا تو رسپانس کی لائن لگ جاتی لیکن جو عین توحید اور منہج نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے اس پر کوئی اپنی رائے نہیں دے رہا اور نہ ہی اس کے مشاہدے کی تعداد زیادہ ہے ۔
ہم کہاں جا رہے ہیں ؟
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,397
پوائنٹ
891
ہمارے سلفی بھائیوں کو کیا ہوگیا ہے اگر آمین یا رفع یدین اور دیگر فروعی مسائل پر شیئر کرتا تو رسپانس کی لائن لگ جاتی لیکن جو عین توحید اور منہج نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے اس پر کوئی اپنی رائے نہیں دے رہا اور نہ ہی اس کے مشاہدے کی تعداد زیادہ ہے ۔
ہم کہاں جا رہے ہیں ؟
ثاقب بھائی،
آپ کا شکوہ بھی بجا ہے۔ لیکن بات یہ بھی ہے کہ جو مسائل متفقہ ہیں، جن میں اختلاف رائے پایا ہی نہیں جاتا، اس میں مشارکت کرنے والے ہمیشہ کم ہی ہوتے ہیں۔ کسی بھی قسم کے اصلاحی موضوعات میں یہی رویہ دیکھا جا سکتا ہے۔ جبکہ خلافی مباحث میں اپنی تائید یا فریق مخالف کی تردید میں زور قلم صرف کیا جاتا ہے تو ریسپانس بڑھ جاتا ہے۔
 

عکرمہ

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 27، 2012
پیغامات
658
ری ایکشن اسکور
1,870
پوائنٹ
157
محمد ثاقب بھائی۔۔۔۔۔ان معاملات میں مخالف فریق پر’’علمیت‘‘کی دھاک نہیں بیٹھانی ہوتی۔۔۔ہر کوئی چلتی گنگا میں ہاتھ دھونا چاہتا ہے۔۔۔۔اس لیے اس قس کے ٹاپک کو بائی پاس کردیا جاتا ہے۔
 

باربروسا

مشہور رکن
شمولیت
اکتوبر 15، 2011
پیغامات
311
ری ایکشن اسکور
1,078
پوائنٹ
106
السلام علیکم !

بھائی جان تحغریر اماشاء اللہ اچھی ہے لیکن اس پیرا گراف کی سمجھ نہیں آئی ::

اسلام کو کل کے طاغوت سے کو ئی خطرہ لاحق تھا اور نہ آج کے طاغوت سے کو ئی خطرہ لاحق ہے ۔ دنیا کی بقا کے لیے جس قدر حق کا وجود ضروری ہے ، اسی قدر باطل بھی ناگزیر ہے۔ دونوں میں کسی ایک کا خاتمہ ہی وقتِ موعود کی آمد باعث ہو گا۔ کسی سرکش کی سرکشی اور کسی شقی کی شقاوت ، اسلام کو ذرہ برابر بھی گزند نہیں پہنچا سکتی
یہاں آپ اسلام کو کن معنوں میں استعمال کر رہے ہیں ؟؟
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,859
ری ایکشن اسکور
41,096
پوائنٹ
1,155
مسلمانوں کے لیے واحد نسخۂ کامرانی -نبوی منہج

از قلم محمد تنزیل الصدیقی الحسینی​


آج مسلمان فرقہ پرستی ، مسلکی عصبیت اور فقہی تصلّب و جمود کے قعرِ مذلّت میں جا گرے ہیں ۔ آفرید کارِ عالمِ انسانیت نے انسانیت کے لیے نسخہ سلامتی صرف اسلام میں مضمر کر رکھا ہے مگر یہ کچھ کم حیرت انگیز نہیں کہ آج جبکہ من حیث المجموعی تمام اقوام و ملل شدید ترین بحران کا شکار ہیں ، مسلمان اس بحرانی کنوئیں کے سب سے نچلے مقام پر ہیں ۔ جن کے پاس نسخہ شفا کی دولت ہے وہی پنجۂ مرض کے سب سے زیادہ گھائل ہیں ۔

ان کی طبیعتوں میں شقاوت کا ایسا زنگ لگ چکا ہے کہ سعادت کی کوئی بات سمجھنے کے لیے تیار نہیں ۔ وہ ظلمت کے اس قدر عادی ہوگئے ہیں کہ نور کی ایک کرن بھی ان کی آنکھوں پر بوجھ بن جاتی ہے ۔ دلوں پر غفلت کے پردے ہیں اور آنکھیں ظلمتوں کے زیرِ حجاب۔

ان کے تصور ہی سے یہ بالا ہے کہ کوئی مسلمان کسی مسلک یا فرقے سے بالاتر بھی ہوسکتا ہے ۔ ان کے حاشیہ خیال میں بھی نہیں آتا کہ کوئی دعوت یا فکر کسی گروہی عصبیت سے ماوراء ہوکر بھی دی جاسکتی ہے ۔لیکن مسلمان خواہ ظلمتوں کی انتہائی تاریکی میں جا پہنچیں یا شقاوتوں کی انتہائی پستی میں جا اتریں ۔ وہ اس وقت تک نہ کامیاب ہو سکتے ہیں اور نہ ہی کامران جب تک کہ وہ اپنے عقیدے و فکر کو اللہ کے رسولﷺ کے عقیدے و فکر کے مطابق نہ بنالیں ۔ فرقہ پرستوں اور اپنے اپنے اکابر کے نظریات کی پیروی کرنے والوں کی مثال ایسی ہی ہے جیسے :


دین تو اس راہِ مستقیم کا نام ہے جو دل کی ہر کجی کو اور ذہن کی ہر پراگندگی کو دور کردیتا ہے ۔ جب تک ہم صرف '' کتاب '' و سنّت '' کو اپنا میزان و فیصل نہ بنالیں ہمارا ایمان کامل نہیں ہو سکتا ۔


اللہ ربّ العزت نے بتادیا کہ یہی مآخذِ شریعت ہے اور یہی مطلوب طریقت ۔ یہی تقاضا ئے ایمان ہے اور یہی سرمایۂ آخرت ۔

اسلام نے توحیدِ کامل کی دعوت فکرِ انسانی پرپیش کردی۔ انسان کو انسانوں کی بندگی سے نکال کر ایک معبود ِواحد کی بندگی کے دائرے میں داخل کر کے انسانیت کے مرتبے کو بلند کیا ۔ مگر اس روح کی سیاہ بختی اور اس ذات کی پامالی ، جس کا فہم اس مرتبے کے ادراک سے محروم ہے ۔اسلام اس ایک نکتے پر کبھی سمجھوتہ نہیں کر سکتا کہ اللہ کی حیثیت کو کسی مقام ، کسی صورت ، کسی دائرے اور کسی پیمانے پر کسی دوسری ذات میں منتقل کردیا جائے ۔اور دین کی تعبیر وہی ہے جو اللہ کے رسولﷺنے بیان فرمادی ۔ '' ما انا علیہ و اصحابی '' کی راہ پر گام فرسا ہوئے بغیر نہ ابدی نجات ممکن ہے اور نہ دنیاوی سعادت کا اکتساب ۔

اسلام کو کل کے طاغوت سے کو ئی خطرہ لاحق تھا اور نہ آج کے طاغوت سے کو ئی خطرہ لاحق ہے ۔ دنیا کی بقا کے لیے جس قدر حق کا وجود ضروری ہے ، اسی قدر باطل بھی ناگزیر ہے۔ دونوں میں کسی ایک کا خاتمہ ہی وقتِ موعود کی آمد باعث ہو گا۔ کسی سرکش کی سرکشی اور کسی شقی کی شقاوت ، اسلام کو ذرہ برابر بھی گزند نہیں پہنچا سکتی لیکن اسلام کے اصل مجرم مسلمان ہیں جنہوں نے اپنے اللہ اور رسولﷺ سے بے وفائی کا جرم کیا ہے ۔ جرم کی یہ سنگینی کس درجہ بڑھ چکی ہے کہ احساسِ جرم ہی مفقود ہوچکا ہے ۔

آئیے صرف ایک بار دیانتاً اللہ اور اس کے رسولﷺ کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق اس سے رجوع کرکے دیکھیں سعادتوں کے دروازے نہ کھل جائیں ایسا ہو نہیں سکتا ۔

مجلہ الواقعۃ شمارہ نمبر 10 ربیع الاول 1434ھ کے لئے محمد تنزیل الصدیقی الحسینی کا لکھا گیا اداریہ
جزاک اللہ خیرا
 
Top