ابوالبیان رفعت
رکن
- شمولیت
- جون 25، 2014
- پیغامات
- 61
- ری ایکشن اسکور
- 13
- پوائنٹ
- 59
بسم اللہ الرحمن الرحیم
(مسلمانوں کے موجودہ تفرق کا سبب)
از افادات علامہ عبید اللہ رحمانی مبارکپوری ؒ
پیشکش:ابوالبیان رفعت ؔ سلفی
آج مسلمانوں کے تفرق و انتشار کی یہ وجہ نہیں کہ وہ کسی ایک طریق اتباع (مسلک )پر متفق نہیں ہیں ۔ دین میں فکرو نظرکی آزادی کے سبب طرق اتباع کا مختلف ہونا ایک ضروری اور فطری امر ہے اور اگر بالفرض وہ کسی ایک صورت اتباع پر متفق بھی ہوجائیں تو بھی اس بنیاد پر ان میں وہ اجتماع پیدا نہیں ہو سکتا جو امت کو مطلوب ہے ۔ زیادہ سے زیادہ عمل میں نماز اور حج جیسی یک رنگی ویکسانیت وجود میں آسکتی ہے جو صورت اجتماع ہے ، حقیقت اجتماع نہیں ، حقیقت اجتماع تو اسلام کے نظام سمع و طاعت ہی سے پیدا ہو سکتی ہے جس سے آج ہم محروم ہیں، اب اسے غلط فہمی سے تعبیر کریں یا مجبوری و مایوسی قرار دیںکہ آج امت مسلمہ کے تمام گروہوں نے اپنی اپنی جماعت کی بنیاد صرف اپنے اپنے پسندیدہ ''طرق اتباع''مسالک پر رکھ لی ہے اور اسی کے دائرے میں ان کی تمام دینی مساعی صرف ہو رہی ہیں ،''کل حزب بما لدیہم فرحون '' ہر گروہ اپنے مخصوص طریق اتباع میں مگن ہے ''اور تبلیغ و دعوت دین اور اتحاد امت کے لئے صر اپنے اپنے طریق اتباع کی دعوت دے رہا ہے ۔صحابہ اور سلف سالحین نے نہ کبھی اختلاف مسلک کو کوئی خاص اہمیت دی نہ مختلف فیہ دینی مسائل کی تبلیغ کو اپنادینی مشن جانااور نہ اس بنیاد پر گروہ سازی کی ۔
افسوس کہ آج امت کے تمام گروہوں نے اتباع کے باب میںبھی اتباع کامل کو چھوڑ کر صرف جزوی اتباع پر قناعت اختیار کر لی ہے بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ ان کا کل اتباعی کاروبار کتاب الصلوۃ یا زیادہ سے زیادہ کتاب العبادات تک محدود ہو کر رہ گیا ہے ، اور ان کی معاشرتی و معاملاتی زندگی تو شریعت کے اتباع اور اوامر الٰہیہ کی طاعت سے یکسر خالی ہو چکی ہے ۔ اور اب اس کی جگہ طاغوتی شریعت کا اتباع اور طاغوتی نظام امروطاعت کا سلسلہ جاری ہے ،حالانکہ انہیں ایمان باللہ کے ساتھ ہی طاغوت کے کفر و انکار کا حکم کیا گیا ہے۔
[اسلام کا اجتماعی نظام ص:٢٠،٢١۔علامہ عبید اللہ رحمانی مبارکپوری ؒ
(مسلمانوں کے موجودہ تفرق کا سبب)
از افادات علامہ عبید اللہ رحمانی مبارکپوری ؒ
پیشکش:ابوالبیان رفعت ؔ سلفی
آج مسلمانوں کے تفرق و انتشار کی یہ وجہ نہیں کہ وہ کسی ایک طریق اتباع (مسلک )پر متفق نہیں ہیں ۔ دین میں فکرو نظرکی آزادی کے سبب طرق اتباع کا مختلف ہونا ایک ضروری اور فطری امر ہے اور اگر بالفرض وہ کسی ایک صورت اتباع پر متفق بھی ہوجائیں تو بھی اس بنیاد پر ان میں وہ اجتماع پیدا نہیں ہو سکتا جو امت کو مطلوب ہے ۔ زیادہ سے زیادہ عمل میں نماز اور حج جیسی یک رنگی ویکسانیت وجود میں آسکتی ہے جو صورت اجتماع ہے ، حقیقت اجتماع نہیں ، حقیقت اجتماع تو اسلام کے نظام سمع و طاعت ہی سے پیدا ہو سکتی ہے جس سے آج ہم محروم ہیں، اب اسے غلط فہمی سے تعبیر کریں یا مجبوری و مایوسی قرار دیںکہ آج امت مسلمہ کے تمام گروہوں نے اپنی اپنی جماعت کی بنیاد صرف اپنے اپنے پسندیدہ ''طرق اتباع''مسالک پر رکھ لی ہے اور اسی کے دائرے میں ان کی تمام دینی مساعی صرف ہو رہی ہیں ،''کل حزب بما لدیہم فرحون '' ہر گروہ اپنے مخصوص طریق اتباع میں مگن ہے ''اور تبلیغ و دعوت دین اور اتحاد امت کے لئے صر اپنے اپنے طریق اتباع کی دعوت دے رہا ہے ۔صحابہ اور سلف سالحین نے نہ کبھی اختلاف مسلک کو کوئی خاص اہمیت دی نہ مختلف فیہ دینی مسائل کی تبلیغ کو اپنادینی مشن جانااور نہ اس بنیاد پر گروہ سازی کی ۔
افسوس کہ آج امت کے تمام گروہوں نے اتباع کے باب میںبھی اتباع کامل کو چھوڑ کر صرف جزوی اتباع پر قناعت اختیار کر لی ہے بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ ان کا کل اتباعی کاروبار کتاب الصلوۃ یا زیادہ سے زیادہ کتاب العبادات تک محدود ہو کر رہ گیا ہے ، اور ان کی معاشرتی و معاملاتی زندگی تو شریعت کے اتباع اور اوامر الٰہیہ کی طاعت سے یکسر خالی ہو چکی ہے ۔ اور اب اس کی جگہ طاغوتی شریعت کا اتباع اور طاغوتی نظام امروطاعت کا سلسلہ جاری ہے ،حالانکہ انہیں ایمان باللہ کے ساتھ ہی طاغوت کے کفر و انکار کا حکم کیا گیا ہے۔
[اسلام کا اجتماعی نظام ص:٢٠،٢١۔علامہ عبید اللہ رحمانی مبارکپوری ؒ