سید طہ عارف
مشہور رکن
- شمولیت
- مارچ 18، 2016
- پیغامات
- 737
- ری ایکشن اسکور
- 142
- پوائنٹ
- 118
ب۔ حدیث سے:
۱۔ حدیثِ انسؓ:
عَنْ أنَسٍص قَالَ: قَدِمَ النَّبِیُّ ﷺ الْمَدِیْنَۃَ وَلَہُمْ یَوْمَانِ یَلْعَبُوْنَ فِیْہِمَا فَقَالَ: مَا ہٰذانِ الْیَوْمَانِ؟ قَالُوْا: کُنَّا نَلْعَبُ فِیْہِمَا فِی الْجَاہِلِیَّۃِ۔ فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ: إنَّ اللّٰہَ قَدْ أبْدَلَکُمْ بِہِمَا خَیْراً مِنْہُمَا یَوْمَ الأضْحیٰ وَیَوْمَ الْفِطْرِ۔
(رواہ أبو داود: کتاب الصلوٰۃ، باب صلاۃ العیدین رقم الحدیث ۱۱۳۴۔ والنسائی: صلوٰۃ العیدین رقم الحدیث ۱۵۵۶، وأحمد: رقم ۱۱۵۹۵، وصححہ الألبانی فی صحیح أبی داود رقم الحدیث ۲۱۰، وفی السلسلۃ الصحیحۃ رقم الحدیث ۲۰۲۱)
روایت انس ؓ سے، کہا: نبی ﷺ مدینہ تشریف لائے ، تو لوگوں کے دو تہوار تھے جن میں وہ کھیل تماشا کرتے۔ آپ ﷺنے فرمایا: اِن دو دنوں کی کیا حقیقت ہے؟ انہوں نے عرض کی: ان دو مواقع پر جاہلیت میں ہم کھیل تماشا کر لیتے تھے۔ تب رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: بے شک اللہ نے اُن دونوں کو بدل کر تمہیں ان سے بہتر تہوار دے دیے ہیں: عید الاضحی اور عید الفطر۔
یہ حدیث جسے ابوداود کے علاوہ نسائی اور احمد نے بھی روایت کیا ہے، صحت کے لحاظ سے مسلم کی شرط پر پوری اترتی ہے۔
اب اِس حدیث کے حوالہ سے جو وجہِ دلالت ہے، ذرا اس کو سمجھ لو:
یہ جو دو جاہلی تہوار تھے، ظاہر ہے رسول اللہ ﷺ نے مسلمانوں کو اس پر سندِ اقرار نہ دیا۔ اور نہ ان کو اس معاملہ میں اپنے حال پر چھوڑا کہ چلیں ایک چیز چل رہی ہے تو چلتی رہے (حالانکہ بے شمار معاملات میں آپ ا نے لوگوں کو ان کے حال پر چھوڑا بھی ہے)۔ بلکہ فرمایا: إنَّ اللّٰہَ قَدْ أبْدَلَکُمْ بِہِمَا یَوْمَیْنِ آخَرَیْنِ ’’اللہ تعالیٰ نے ان دونوں کو بدل تمہیں ان سے بہتر تہوار دے دیے ہیں‘‘۔
اِس حدیث میں تم دیکھتے ہو، لفظ اِبدال آیا ہے، جس کا مطلب ہے: to replace ؛ ایک چیز کو ہٹا کر دوسری چیز لانا۔ جس سے پچھلی چیز کا ترک کرانا خودبخود لازم آتا ہے۔ اب یہ تصور کہ پچھلی چیز بھی رہے اور نئی چیز بھی چلے، اِس پر اِبدال کا لفظ صادق ہی نہ آئے گا۔ اِبدال کا لفظ جب آئے گا پچھلی چیز کے زائل ہو جانے کا معنیٰ لازماً دے گا۔ (یہاں امام صاحب قرآن مجید اور احادیث سے اِبدال کے مادہ پر بہت سے لغوی شواہد لے کر آتے ہیں؛ جو ہم یہاں ذکر نہیں کر رہے) ۔
اب یہاں ایک چیز پر غور کر لو تو اِس موضوع پر اسلامی طرزِ عمل کی پوری حقیقت تم پر کھل جائے گی:
یہ تو تم جانتے ہو کہ انسؓ کی حدیث میں جن دو جاہلی تہواروں کا ذکر ہوا ، وہ مکمل طور پر مٹ گئے اور نبی ﷺکے یہ فرمادینے کے بعد ان تہواروں کا کوئی نام و نشان بھی باقی نہ رہا۔ اگر تم سماجیات سے کچھ بھی واقف ہو تو اِس پر سوچو کہ اتنا بڑا واقعہ مدینہ میں یکلخت کیسے رونما ہوگیا۔ تصور تو کرو، ایک قوم کے تہوار یکسر نابود ہوجاتے ہیں! ان کا کوئی ادنیٰ ترین تسلسل بھی تو سننے پڑھنے میں نہیں آتا! صدیوں سے چلی آتی ایک چیز معاشرے میں ختم ہوکر رہ جائے، یہ کوئی آسان بات نہیں۔ ’تہوار‘ وہ چیز ہے جو ایک قوم کی رگ رگ میں اتری ہوتی ہے؛ بچہ بچہ اس کے لیے جوش وخروش رکھتا ہے، حتیٰ کہ پورا پورا سال انتظار ہوتا ہے، مگر قربان جائیے، نبیﷺ کی مدینہ آمد کے بعد اِن تہواروں کا ذکر تک نہیں ملتا! ایسی چیزوں کو معاشروں سے چھڑوالینے میں تو بڑے بڑے بادشاہ ناکام ہوتے دیکھے گئے ہیں۔ تو پھر خود سوچو، اہل مدینہ نے نبی ﷺکے الفاظ ’’إنَّ اللّٰہَ قَدْ أبْدَلَکُمْ بِہِمَا‘‘ سے اگر ’’ممانعت‘‘ کا معنیٰ ہی نہ سمجھا ہوتا تو وہ تہوار اُتنے جوش و خروش سے نہ سہی کچھ نہ کچھ تو باقی رہتے! سب سے مشکل کام کوئی ہے تو وہ یہ کہ معاشروں کے منہ کو لگی ایک چیز ان سے چھڑوادی جائے؛ خصوصاً عورتوں اور بچوں سے!یہ رسول اللہﷺ کی قوی ممانعت کا ہی اثر ہوسکتا تھا؛ ورنہ ایسا معجزہ ہوجانے کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ اب یہاں کوئی شخص یہ نکتہ نکالے کہ حدیثِ انسؓ سے تو ایک چیز کی ممانعت ہی ثابت نہیں ہوتی تو تم سمجھ سکتے ہو کہ وہ صرف شریعت سے ہی ناواقف نہیں سماجیات سے بھی نابلد ہے۔
یہ ایک ہی بات تم پر واضح ہوجائے تو اس مسئلہ کا سارا اِشکال چلا جاتا ہے۔
اب ایک اور چیز سمجھ لو۔ مسلم معاشرے میں دینِ جاہلیت کا چلن ہونے سے ڈرنا بے شک ضروری ہے مگر جاہلی عادات و اطوار اور جاہلی تہواروں کا چلن ہوجانے سے ڈرنا اس سے کہیں بڑھ کر ضروری ہے۔ کیونکہ؛ جہاں تک اُن کے دین کا تعلق ہے تو ہمیں احادیث سے معلوم ہے کہ زمانۂ آخر تک ایسا ہونے والا نہیں کہ ہم اسلام کو چھوڑ کر کسی اور دین میں چلے جائیں۔ پس یہ خطرہ تو بہت کم ہے کہ مسلم معاشرے سیدھا سیدھا عیسائیت یا یہودیت یا بت پرستی کا مذہب قبول کر لیں۔ البتہ یہ خطرہ بے حد زیادہ ہے، جیساکہ احادیث میں بھی جابجا خبردار کیا گیا ہے، کہ مسلم معاشرے یہود و نصاریٰ کی سنتوں کا اتباع کرنے لگیں۔
۲۔ حدیثِ ثابت بن ضحاکؓ:
عَنْ ثَابِتٍ بْنِ الضَّحَّاکِ، قَالَ: نَذَرَ رَجُلٌ عَلیٰ عَہْدِ رَسُوْلِ اللّٰہِ ﷺ أنْ یَنْحَرَ إبِلاً بِبُوَانَۃَ، فَأتیٰ النَّبِیَّ ﷺ فَقَالَ: إنِّیْ نَذَرْتُ أنْ أنْحَرَ إبِلاً بِبُوَانَۃَ۔ فَقَالَ النَّبِیُّ ﷺ: ہَلْ کَانَ فِیْہَا وَثَنٌ مِنْ أوْثَانِ الْجَاہِلِیَّۃِ یُعْبَدُ؟ قَالُوْا: لا۔ قَالَ ﷺ: فَہَلْ کَانَ فِیْہَا عِیْدٌ مِنْ أعْیَادِہِمْ؟ قَالُوْا: لا۔ قَالَﷺ: أوْفِ بِنَذْرِکِ، فَإنَّہٗ لا وَفَاءَ لِنَذْرٍ فِیْ مَعْصِیَۃِ اللّٰہِ، وِلا فِیْمَا لا یِمْلِکُ ابْنُ آدَمَ۔ (رواہ أبو داود کتاب الأیمان والنذور رقم: ۳۳۱۳، وأحمد، وابن ماجۃ)
ثابت بن ضحاکؓ سے روایت ہے، کہا: رسول اللہ ا کے عہد میں ایک آدمی نے نذر مانی کہ وہ بوانہ کے مقام پر کچھ اونٹ ذبح کرے گا۔ تب وہ نبی ا کے پاس حاضر ہوا اور عرض کی: میں نے نذر مان لی ہے کہ بوانہ کے مقام پر اونٹ ذبح کروں۔ آپ انے فرمایا: کیا وہاں جاہلیت کے بتوں میں سے کوئی بت تھا جس کی عبادت ہوتی ہو؟ صحابہؓ نے عرض کی: نہیں۔ آپ انے فرمایا: کیا وہاں اُن کے تہواروں میں سے کوئی تہوار تھا؟ صحابہؓ نے عرض کی: نہیں۔ تب آپ انے فرمایا: اپنی نذر پوری کرلو؛ کیونکہ ایسی نذر کا پورا کرنا (اسلام میں) نہیں جو اللہ کی معصیت میں ہو، یا جو آدمی کے بس سے باہر ہو
(البانی نے سنن ابی داود کی تخریج میں اِس حدیث کو صحیح کہا ہے (صحیح سنن ابی داود رقم: ۲۸۳۴)، خود امام ابن تیمیہ اس حدیث کو ذکر کرنے کے بعد کہتے ہیں: اِس حدیث کی اصل صحیحین میں ہے، اور یہ اسناد صحیحین کی شرط پر پوری اترتی ہے، اس کی اسناد میں سب راوی ثقہ اور مشہور ہیں، یہ متصل ہے اور اس کی سند میں کوئی عنعنۃ نہیں)
(اِس کے بعد امام ابن تیمیہ انہی الفاظ سے ملتے جلتے الفاظ پر مبنی کچھ دیگر روایاتِ حدیث بھی لے کر آتے ہیں، مگر ہم نے ایک ہی روایت کے ذکر پر اکتفاء کیا ہے)
اِس حدیث میں وجہِ دلالت:
رسول اللہ ﷺ اس شخص کو نذر پوری کرنے کی اجازت دینے سے پہلے جو دو سوال پوچھتے ہیں، وہ اِس موضوع پر فیصلہ کن ہیں۔ ایک یہ دریافت فرمایا کہ: کیا وہاں اہل جاہلیت کا کوئی بت تو نہیں پوجا جاتا تھا؟ دوسرا یہ کہ: کیا وہاں اہل جاہلیت کا کوئی تہوار تو منعقد نہیں ہوتا تھا؟ جب دونوں سوالوں کا جواب نفی میں ملا تو آپ ا نے اُس کو وہاں اپنی نذر پوری کرنے کی اجازت دی۔ اور پھر جو الفاظ آپﷺ نے بولے وہ بھی قابل غور ہیں: فإنہ لا وَفَاءَ لِنَذْرٍ فِیْ مَعْصِیَۃِ اللّٰہِ یعنی ’’نذر میں خدا کی معصیت ہو تو اس کو پورا کرنا درست نہیں‘‘۔ پس واضح ہوا جاہلیت کی عید اور تہوار خدا کی معصیت میں آتا ہے۔ حالانکہ نذر کو پورا کرنے کی بابت رسول اللہ ﷺکہاں تک گنجائش دیتے ہیں، اس کا اندازہ ایک دوسری حدیث سے کیجئے:
عَنْ عَمْروٍ بْنِ شُعَیْبٍ عَنْ أبِیْہِ عَنْ جَدِّہٖ، أنَّ امْرأۃً أتَتِ النَّبِیَّ ﷺ فَقَالَتْ: یَا رَسُوْلُ اللّٰہِ إنِّیْ نَذَرْتُ أنْ أضْرِبَ عَلیٰ رَأسِکَ بِالدُّفِّ۔ قَالَ: أوْفِیْ بِنَذْرِکِ۔ قَالَتْ: إنِّیْ نَذَرْتُ أنْ أذْبَحَ بِمَکَانِ کَذَا کَذَا _ مَکَانٌ کَانَ یَذْبَحُ فِیْہِ أہْلُ الْجَاہِلِیَّۃِ _ قَالَ: لِصَنَمٍ؟ قَالَتْ: لا۔ قَالَ: لِوَثَنٍ؟ قَالَتْ: لا۔ قَالَ: أوْفِیْ نَذْرَکِ۔ (أبو داود، رقم الحدیث ۳۳۱۲، وأحمد۔صححہ الالبانی فی صحیح أبی داود ۲۸۳۳)
عمرو بن شعیب اپنے والد سے، اور ان کے والد ان کے دادا (عبد اللہ بن عمروؓ) سے روایت کرتے ہیں: ایک عورت نبی ﷺکے پاس حاضر ہوئی اور کہا کہ میں نے نذر مان لی کہ (اللہ آپ کو بہ سلامت غزوہ سے واپس لے آئے تو) میں آپ کے سرہانے دف بجاؤں گی۔ آپﷺ نے فرمایا: اپنی نذر پوری کر لو۔ وہ کہنے لگی: میں نے نذر مان لی ہے کہ میں فلاں مقام پر جانور ذبح کرو، یہ ایک ایسی جگہ ہے جہاں اہل جاہلیت اپنے جانور ذبح کر لیا کرتے تھے۔ آپ ﷺنے پوچھا: وہ کسی صنم (بت) کے لیے ذبح کیا کرتے تھے؟ کہنے لگی: نہیں۔ آپ ﷺنے پوچھا: وہ کسی وثن (غیر مرئی بت) کے لیے ذبح کیا کرتے تھے؟ کہنے لگی: نہیں۔ آپﷺ نے فرمایا: اپنی نذر پوری کر لو۔
چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ۔۔۔: ایک عورت رسول اللہ ﷺکے سرہانے کھڑی ہو کر دف (ہلکی ڈھولکی قسم کی چیز) بجانے کی نذر مان لیتی ہے تو آپ ﷺ اُس کو نذر پوری کرنے کی اجازت دے دیتے ہیں (اِس عمرو بن شعیب والی حدیث میں)۔ جبکہ (ثابت بن ضحاک والی حدیث میں) جاہلیت کے تہوار کی جگہ پر جا کر نذر پوری کرنے کی اجازت نہیں دیتے۔ ظاہر ہے اُس صحابی نے معاذ اللہ کوئی غیر اللہ کے نام پر تو اونٹ ذبح نہیں کرنے تھے۔ مگر جاہلی تہوار کی شناعت ایسی بری ہے کہ خدا کے نام کی مانی ہوئی ایک نذر بھی وہاں پر ممنوع ٹھہرے گی۔
اب ذرا سوچو۔۔۔ جاہلی تہوار کے لیے مخصوص ایک جگہ کی یہ شناعت ہے تو خود اس تہوار ہی کی کیسی شناعت ہوگی؟ خود اُس تہوار ہی میں جا شرکت کرنا شنیع کیوں نہ ہوگا؟ اس تہوار کی مناسبت سے جو اعمال مختص سمجھے جاتے ہیں اُن میں سے بعض اعمال کا ارتکاب کر لینا شریعت میں کیوں مذموم نہ ہوگا؟
پھر ایک اور بات پر غور کرو۔۔۔ حدیث کے الفاظ ہیں فَہَلْ کَانَ فِیْہَا عِیْدٌ مِنْ أعْیَادِہِمْ؟ ’’کیا وہاں اہل جاہلیت کے تہواروں میں سے کوئی تہوار (منایا جاتا) تھا‘‘۔ یعنی آپ ﷺ ماضی کے بارے میں دریافت فرما رہے ہیں نہ کہ حال کے بارے میں۔ حدیث کے بعض دیگر طرق سے معلوم ہو جاتا ہے کہ آدمی نے نبی ا سے یہ سوال حجۃ الوداع کے موقع پر کیا تھا۔ یعنی وہ وقت جب جزیرۂ عرب اسلام کے زیرنگیں آچکا تھا اور وہاں کے سب جاہلی تہوار موت کی نیند سلائے جا چکے تھے۔ لہٰذا آپ ﷺ کا سوال تب ماضی ہی کی بابت ہو سکتا تھا۔ مراد یہ کہ اب تو کسی جاہلی تہوار کا سوال ہی کہاں رہ گیا، یہ بتاؤ کیا ماضی میں بھی وہاں جاہلیت کے تہواروں میں سے کوئی تہوار تو نہیں منایا جاتا تھا؟ پس واضح ہوا کہ ماضی میں بھی اگر کہیں پر جاہلی تہوار منعقد ہوتا تھا تو ایسے مقام کی یہ شناعت ہے۔جب ایسا ہے تو پھر ایک حاضر باش جاہلی تہوار میں شرکت کرنے چل پڑنا کیوں شنیع نہ ہوگا؟
اندازہ کر لیجئے، ایک خطہ پوری طرح اسلام کے زیرنگیں آجاتا ہے اور جاہلیت کا سب کچھ وہاں پر قصۂ پارینہ بنا دیا جاتا ہے۔ پھر بھی آپ ﷺ یہ تنبیہ فرما رہے ہیں کہ مبادا کسی جاہلی عمل یا جاہلی مظہر کو مسلم معاشرے میں ازسرنو زندگی مل جائے۔
پھر جبکہ یہ بھی ذہن میں رہے کہ جس تہوار کی بابت آپﷺ دریافت فرما رہے ہیں وہ زیادہ سے زیادہ کوئی میلہ قسم کی چیز ہوگا، جہاں عربوں کا کھیل تماشا ہو جاتا ہوگا۔ خود مدینہ کے جو دو تہوار تھے (جن کا ذکر پچھلی حدیث میں گزرا) اُس میں بھی انصارؓ نے آپﷺ کے دریافت فرمانے پر کسی بت یا کسی عبادت کی مناسبت ذکر نہیں کی، صرف اتنا کہا کہ اس دن ہم اپنا کھیل تماشا کر لیتے تھے (کُنَّا نَلْعَبُ فِیْہِمَا فِی الْجَاہِلِیَّۃِ)۔ یعنی اس کی کوئی مذہبی مناسبت ہمیں نہیں ملتی(۶) ۔ یہ تو رہا مدینہ والے تہوار کا معاملہ۔ پھر اِس (بوانہ والے) مسئلے کی بابت تو آپ دیکھتے ہیں رسول اللہ ﷺ ’’بت‘‘ کی بابت علیحدہ پوچھتے ہیں (کہ آیا بوانہ کے مقام پر جاہلیت کا کوئی بت تو نصب نہ تھا) اور پھر ’’تہوار‘‘ کی بابت علیحدہ پوچھتے ہیں (کہ آیا وہاں اہل جاہلیت کا کوئی تہوار تو نہ تھا)۔ یہ واضح دلیل ہوئی کہ جاہلیت کے تہواروں کے ساتھ مختص اشیاء میں سے کسی بھی شےء کو کسی بھی انداز میں کرنا شدید منع ہے۔
مزیدبرآں، پچھلی حدیث کے ضمن میں ہم نے ایک بات خاص مدینہ کے حوالے سے ذکر کی تھی۔ مگر اب یہاں غور کرو کہ پورے جزیرۂ عرب میں ہی عیدین سعیدین کے سوا کوئی تہوار باقی نہیں رہنے دیا گیا۔ کیا تم اِس میں ہرگز کوئی دلالت نہیں دیکھتے؟ سوچنے کی بات ہے کہ کتنے ان گنت تہوار ہوں گے جو جزیرۂ عرب میں ہمیشہ کے لیے موت کی نیند سلادیے گئے۔ ایک پوری قوم کی زندگی سے، اُس کے صدیوں سے چلتے آئے تہواروں کو حرفِ غلط کی طرح مٹا ڈالنا کیا کوئی معمولی بات ہے؟ بغیر ’’شدید ممانعت‘‘ کے اتنی بڑی چیز کہاں ختم ہونے والی تھی؟ اِس پر ذرا تدبر کرو، تو کوئی شک ہی نہیں رہ جاتی کہ امام المتقین ﷺنے __ میری ماں اور باپ آپؐ پر قربان ہوں __ اِن سب جاہلی رسوم اور تہواروں کو جزیرۂ عرب کے اندر باقاعدہ ختم کروایا تھا۔
جیساکہ کتاب کے شروع میں بھی یہ بات گزری ہے۔۔۔ رسول اللہﷺ تو اُن نیکیوں یا اُن مباحات کے معاملہ میں جو دوملتوں کے مابین کسی وجہ سے ’’مشترک‘‘ ہیں، کچھ نہ کچھ ایسے ’’فرق‘‘ جاری فرما دیتے ہیں کہ جہاں اشتراک ہے وہاں بھی ایک فاصلہ قائم ہو جائے۔ اور یہ بات تم شریعت میں جابجا دیکھو گے۔ تو پھر جس شریعت میں اِس بات پر پورا زور صرف کردیا گیا ہو کہ اشتراک والی جگہوں پر بھی ’’فرق‘‘ کو نمایاں کرکے رکھا جائے وہ اُن امور میں ’’موافقت‘‘ کی روادار کیسے ہوسکتی ہے جن میں ہے ہی مخالفت؟! بات نہایت واضح ہے؛ شریعتِ اسلام نے تمہاری ایک ضرورت کا شدید خیال رکھا ہے: تمہارے اور اصحابِ دوزخ کے مابین فاصلہ جتنا زیادہ رہے گا اُتنا ہی تمہارا، اصحابِ دوزخ کے اعمال میں جاپڑنا، دُور از امکان رہے گا۔
۳۔ حدیثِ عائشہؓ:
عَنْ عَاءِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا، قَالَتْ: دَخَلَ عَلَیَّ أبُوْ بَکْرٍ ص وَعِنْدِیْ جَارِیَتَانِ مِنْ جَوَارِیْ الأنْصَارِ تُغَنِّیَانِ بِمَا تَقَاوَلَتْ بِہٖ الأنْصَارِ، یَوْمَ بُعَاثٍ۔ قَالَتْ: وَلَیْسَتَا بِمُغَنِّیَتَیْنِ۔ فَقَالَ أبُوْ بَکْرٍ أبِمَزْمُوْرِ الشَّیْطَانِ فِیْ بَیْتِ رَسُوْلِ اللّٰہِ ﷺ ؟ وَذٰلِکَ یَوْمُ عِیْدٍ۔ فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ: یَا أبَا بَکْرٍ إنَّ لِکُلِّ قَوْمٍ عِیْداً وَہٰذَا عِیْدُنَا (متفق علیہ)
عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، کہا: ابوبکر ؓ میرے ہاں تشریف لائے جبکہ میرے پاس دو انصاری لڑکیاں تھیں جو گا رہی تھیں اُن رجزیہ اشعار پر جو انصار نے جنگ بعاث کے موقع پر گائے تھے۔ عائشہؓ کہتی ہیں: یہ دونوں کوئی (باقاعدہ) گانے والیاں نہ تھیں۔ تب ابوبکرؓ بولے: کیا اللہ کے رسولﷺ کے گھر میں شیطان کے راگ؟ جبکہ یہ عید کا دن تھا۔ تب رسول اللہ ﷺنے فرمایا: ابوبکر! ہر قوم کی عید ہوتی ہے، اور آج ہماری عید ہے۔
اِس حدیث میں وجہِ دلالت تین پہلوؤں سے ہے:
۱۔ ہر قوم کی عید اپنی اپنی۔ إنَّ لِکُلِّ قَوْمٍ عِیْداً اِس حدیث کے الفاظ اور اِن دو قرآنی آیتوں کے الفاظ کے مابین مماثلت پر ذرا غور کرو: وَلِکُلٍّ وِجْہَۃٌ ہُوَ مُوَلِّیْہَا (البقرۃ: ۱۴۸) ’’ہر کسی کی کوئی سمت ہے جس کی طرف اُس کو رخ کرنا ہوتا ہے‘‘۔ اور لِکُلٍّ جَعَلْنَا مِنکُمْ شِرْعَۃً وَمِنْہَاجاً (المائدۃ: ۴۸) ’’تم میں سے ہر کسی کے لیے ہی ہم نے ایک شریعت اور ایک منہاج ٹھہرا دیا ہے‘‘ اول الذکر آیت، قبلہ سے متعلق ہے اور لِکُلّ کا لفظ بول کر ہر امت کا الگ الگ اختصاص واضح کیا گیا ہے، اِسی لیے ہم دیکھتے ہیں وہاں پر یہ بھی فرمایا گیا: وَمَا أَنتَ بِتَابِعٍ قِبْلَتَہُمْ وَمَا بَعْضُہُم بِتَابِعٍ قِبْلَۃَ بَعْضٍ (البقرۃ: ۱۴۶) ’’اور تم اُن کے قبلہ کی پیروی کرنے والے نہیں ہو، اور وہ بھی ایک دوسرے کے قبلہ کی پیروی کرنے والے نہیں‘‘۔ چنانچہ اِن دو آیتوں کی طرح حدیث (لِکُلِّ قَومٍ) میں بھی لام اختصاص کا آیا ہے۔ یعنی جس طرح از روئے آیت قبلہ میں شرعی اختصاص ہے (ہر امت کا اپنا اپنا قبلہ) ویسے ہی از روئے حدیث عید میں شرعی اختصاص ثابت ہوتا ہے؛ یعنی یہود کی اپنی عید، نصاریٰ کی اپنی، اور مسلمانوں کی اپنی۔ جب اختصاص ہے تو کوئی کسی دوسرے کے قبلہ کی طرف جائے گا اور نہ دوسرے کی عید کی طرف۔
۲۔ رسول اللہﷺ کا فرمانا: وَإنَّ عِیْدَنَا ہٰذَا الیَوم ’’اور ہماری عید آج ہے‘‘، اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ہمارے تہوار اِن دو مواقع کے اندر محصور ہیں۔ الیَوم پر جو الف لام ہے وہ استغراق کا فائدہ دیتا ہے؛ جیسے فرمایا: تَحْرِیْمُہَا التَّکْبِیْرُ وَتَحْلِیْلُہَا التَّسْلِیْمُ ’’نماز کی تحریم، تکبیر ہے اور تحلیل، تسلیم‘‘۔ (تکبیر پر ال کا فائدہ یہ ہوا کہ: تکبیر ہی سے نماز کی تحریم ہوگی۔ اور تسلیم پر ال کا فائدہ یہ کہ: سلام سے ہی نماز کی تحلیل ہوگی۔ یعنی ایسا نہیں کہ تکبیر سے بھی تحریم ہوجاتی ہو البتہ تکبیر کے علاوہ کسی چیز سے بھی تحریم ہو جاتی ہو، یا یہ کہ سلام کے علاوہ کسی لفظ سے بھی نماز کی تحلیل ہو جاتی ہو۔ یہ فائدہ ہوا استغراق کے ’’ال‘‘ کا)۔ جبکہ لفظ ہٰذا سے رسول اللہ ﷺ کا اشارہ روزِ عید کی جنس کی طرف ہے نہ کہ عین کی طرف؛ لہٰذا عید الفطر کے ساتھ عید الاضحیٰ ( اپنے پورے ایام کے ساتھ) خود بخود شامل ہوگی؛ جیساکہ ابوداود اور نسائی میں عقبہ بن عامرؓ کی روایت میں رسول اللہﷺ کا فرمان ہے: یَوْمُ عَرَفَۃَ وَیَوْمُ النَّحْرِ وَأیَّامُ مِنیٰ عِیْدُنَا أہْلِ الإسْلَامِ، وَہِیَ أیَّامُ أکْلٍ وَشُرْبٍ ’’یومِ عرفہ، یومِ قربان، اور منیٰ کے ایام ہم اہل اسلام کی عید ہیں، اور یہ کھانے پینے کے دن ہیں‘‘۔
۳۔ إنَّ لِکُلِّ قَوْمٍ عِیْداً کے الفاظ نبی ا نے بچیوں کے گانے وغیرہ پر رخصت دینے کے سیاق میں ارشاد فرمائے ہیں۔ پس یہ رخصت اِس مناسبت سے ہوگی کہ یہ ’’مسلمانوں کی عید‘‘ ہے۔ کسی اور ’’عید‘‘ کے لیے یہ احکام ہی نہ ہوں گے۔ ورنہ ایک بات کی اگر ہر وقت ہی گنجائش ہے تو خاص یہ لفظ بول کر کہ ’’ابوبکر! ہر قوم کی عید ہوتی ہے‘‘ کوئی خصوصی گنجائش بتانے کا کوئی معنیٰ ہی نہیں رہ جاتا۔
۴۔ ابوہریرہ و حذیفہ رضی اللہ عنہما کی (ہفتہ وار عید والی) حدیث سے ایک اہم استدلال:
عَنْ أبِیْ ہُرَیْرَۃَ ؓ أنَّہٗ سَمِعَ النَّبِیَّ ﷺ یَقُوْلُ: نَحْنُ الآخِرُوْنَ السَّابِقُوْنَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ، بَیْدَ أنَّہُمْ أوْتُوْا الْکِتَابَ مِنْ قَبْلِنَا، وَأوْتِیْنَاہُ مِنْ بَعْدِہِمْ ثُمَّ ہٰذَا یَوْمُہُمُ الَّذِیْ فَرَضَ اللّٰہُ عَلَیْہِمْ، فَاخْتَلَفُوْا فِیْہِ فَہَدَانَا اللّٰہُ لَہٗ، فَالنَّاسُ لَنَا فَیْہِ تَبْعٌ: الْیَہُوْدُ غَداً وَالنَّصَاریٰ بَعْدَ غَدٍ (متفق علیہ)
ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ میں نے نبی ﷺکو فرماتے سنا: ’’ہم (دنیا میں) میں آخری ہیں اور قیامت کے روز پہلے۔باوجود اس کے کہ اُن کو کتاب ہم سے پہلے ملی اور ہمیں اُن کے بعد، دن اُن کا بھی یہی (جمعہ) تھا جو اُن پر فرض کیا گیا، تو اُنہوں نے اس کے معاملے میں اختلاف کر لیا، تب اللہ نے ہمیں اس کی راہنمائی کردی۔ پس لوگ ہمارے پیچھے ہوں گے، یہود کل، تو نصاریٰ پرسوں‘‘
وَفِیْ حَدِیْثِ حُذَیْفَۃَؓ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ: أضَلَّ اللّٰہُ عَنِ الْجُمْعَۃَ مَنْ کَانَ قَبْلَنَا فَکَانَ لِلْیَہُوْدِ یَوْمُ السَّبْتِ، وَکَانَ لِلنَّصَاریٰ یَوْمُ الأحَدِ، فَجَاءَ اللّٰہُ بِنَا فَہَدَانَا لِیَوْمِ الْجُمُعَۃِ، فَجَعَلَ الْجُمُعَۃَ وَالسَّبْتَ وَالأحَدَ، وَکَذٰلِکَ ہُمْ تَبْعٌ لَنَا یَوْمَ الْقِیَامَۃِ، نَحْنُ الآخِرُوْنَ مِنْ أہْلِ الدُّنْیَا، وَالأوَّلُوْنَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ الْمَقْضِیُّ لَہَمْ _ وِفِیْ رِوَایَۃٍ بَیْنَہُمْ _ قَبْلَ الْخَلَاءِقِ (رواہ مسلم)
حدیثِ حذیفہؓ: فرمایا رسول اللہ ا نے: ’’اللہ تعالیٰ نے ہم سے پہلوں کو روزِ جمعہ سے بھٹکا دیا، چنانچہ یہود کا ہفتہ ہوا، نصاریٰ کا اتوار۔ تب اللہ ہمیں لایا اور ہم کو روزِ جمعہ کی ہدایت فرما دی اور (ترتیب) رکھی: جمعہ، ہفتہ، اتوار۔ ایسے ہی وہ قیامت کے روز ہم سے پیچھے ہوں گے۔ دنیا میں ہم آخری ہیں مگر قیامت کے روز ہم مخلوق میں وہ پہلے لوگ ہوں گے جن کے مابین فیصلہ کیا جائے گا‘‘
یہاں؛ آپ دیکھتے ہیں ہفتہ وار تہوار کے معاملہ میں امتوں کا اختصاص باربار کس وضاحت سے بیان ہوتا ہے۔ (لامِ اختصاص کی تکرار پر ذرا غور کرو)۔ یعنی یہود کا، ہفتہ۔ عیسائیوں کا، اتوار۔ مسلمانوں کا، جمعہ۔ لغت میں: اگر تم کہو: ’یہ کپڑا رہا زید کا، یہ رہابکر کا، اور یہ رہا عمرو کا‘۔۔۔ تو اس سے زید، بکر اور عمرو تینوں میں سے ہر ایک کے لیے الگ الگ ایک کپڑا ہونے کا معنیٰ لازم آئے گا۔ اِسی کو اختصاص کہا جاتا ہے۔ لہٰذا؛ اہل جمعہ کا، اہل سبت یا اہل اتوار کے ساتھ ’’شامل‘‘ ہونا آپ سے آپ باطل ہو جاتا ہے ورنہ اِس حدیث کا کوئی معنیٰ باقی نہ رہے گا۔ تو پھر اگر ہفتہ وار عید (۷)کا یہ معاملہ ہے تو سالانہ عید کا یہ معاملہ کیوں نہ ہوگا، بلکہ سالانہ عید کے لیے تو امتوں کا جوش و خروش کہیں بڑھ کر ہوتا ہے۔
۵۔ حدیثِ ام سلمہ ؓ :
عن کریبٍ مولی ابن عباس رضی اللہ عنہما، قال: أرسلنی ابن عباس وناسٌ من أصحاب النبی ﷺ إلی أم سلمۃ رضی اللہ عنہا، أسألہا: أیُّ الأیَّامِ کَانَ النَّبِیُّ ﷺ أکْثَرَہَا صِیَاماً؟ قَالَتْ: کَانَ یَصُوْمُ یَوْمَ السَّبْتِ وَیَوْمَ الأحَدِ أکْثَرَ مَا یَصُوْمُ مِنَ الأیَّامِ، وَیَقَوْلُ: إنَّہُمَا یَوْمَا عِیْدٍ لِلْمُشْرِکِیْنَ فَأنَا أحِبُّ أنْ أخَالِفَہُمْ۔ (رواہ أحمد والنسائی وابن أبی عاصم... وصححہ بعض الحفاظ)
ابن عباس رضی اللہ عنہما کے غلام کریب سے روایت ہے، کہا: مجھے ابن عباسؓ اور کچھ دیگر صحابؓ نے ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے پاس یہ دریافت کرنے کے لیے بھیجا کہ نبی ﷺکونسے دنوں کا روزہ سب سے زیادہ رکھا کرتے تھے؟ ام المومنینؓ نے جواب دیا: سب سے زیادہ آپ ﷺہفتہ اور اتوار کا روزہ رکھتے اور فرماتے: یہ دونوں مشرکین کی عید کے ایام ہیں اور مجھے پسند ہے کہ میں اُن کی مخالفت کروں
یہ حدیث بھی اِس بات پر نص ہوئی کہ اہل کتاب کی مخالفت، چاہے کسی وقت ازراہِ استحباب ہو، شریعت کے مقاصد اور اعتبارات میں بہرحال شامل ہے.. اور یہ کہ اہل کفر کے تہواروں پر کوئی کام کرنے کا ہے تو وہ یہ ان کی مخالفت کی جائے نہ کہ اُن کی موافقت۔ اِس حدیث کے حوالے سے جو کئی سارے سوال اٹھتے ہیں، مثلاً یہ کہ ایک دوسری حدیث میں سبت کا روزہ منع ہے (البتہ علت وہاں بھی یہی بیان ہوئی کہ اس سے یہود کی مخالفت مقصود ہے، لہٰذا مقصد کے لحاظ سے صومِ سبت سے منع کرنا بھی وہی فائدہ دیتا ہے جو یہ حدیثِ ام سلمہؓ یہاں دے رہی ہے) اور یہ کہ.. آیا سبت کا روزہ مطلق منع ہے یا مفرد طور پر (یعنی بغیر کوئی دن ساتھ ملائے)۔۔۔ تو ان فقہی سوالوں(۸) کا جواب ہم کتاب میں آگے چل کر دیں گے۔ یہاں یہ بات سمجھ لو کہ سبت کے روزہ پر علماء کا جو بھی اختلاف ہے، اِس پر سب کا اتفاق ہے کہ سبت کے معاملہ میں یہود کی مخالفت کرنا مستحسن ہے۔ جو عالم اُس دن روزہ کا قائل ہے وہ اِس اعتبار سے کہ یہ اُن کی عید کی مخالفت ہے۔ اور جو اِس سے ممانعت کرتا ہے وہ اِس اعتبار سے کہ اِس روز کوئی خصوصی عبادت کر لینے سے یہود کی مخالفت ایسا ایک مقصدِ دین متاثر ہوتا ہے۔ لہٰذا اِس مسئلہ پر علمائے اسلام کے فریقین میں جو بھی فقہی اختلاف ہو، ہمارے بیان کردہ اِس (اہل کتاب کی مخالفت والے) مبحث کی ہردو جانب سے تائید ہی ہوتی ہے۔
ج۔ رسول اللہ ﷺ اور صحابہ ؓ کا اپنا تعامل:
یہ تصور کرنا درست نہیں کہ نبی ﷺ اور صحابہ ؓکے آس پاس یہود و نصاریٰ کہیں پائے ہی نہیں گئے اور آج پہلی بار ہمیں ہی یہ دیکھنا ہے کہ اپنے آس پاس پائے جانے والے یہودونصاریٰ کے اِن تہواروں پر کیا طرزِ عمل اختیار کرنا چاہئے! یہ درست ہے کہ نبی ﷺ اور صحابہؓ نے محارب یہودونصاریٰ سے جنگیں کیں، مگر غیر حربی یہودونصاریٰ کے ساتھ بھی اُن کو ہرہر شہر اور ہر ہر ملک میں واسطہ رہا ہے۔ تو پھر اگر نبی ﷺ اور صحابہ ؓ کو بھی یہودونصاریٰ کے ساتھ (اُن کے تہواروں سمیت) واسطہ پیش آیا ہے تو کیا سب سے بڑھ کر یہ ضروری نہیں کہ ہم دیکھیں اِس مسئلہ میں رسول اللہ ﷺ اور آپؐ کے اصحاب ثدین اسلام پر کس طرح عمل پیرا ہوئے؟
خوب جان لو: سرزمین عرب میں زمانۂ اول سے لے کر آج تک یہودونصاریٰ پائے گئے ہیں۔ یہود حضرت عمرؓ کے دور تک جزیرۂ عرب میں موجود رہے یہاں تک کہ خلیفۂ دوم نے انہیں جزیرہ سے نکالا۔ نبی ﷺکے عہد مبارک میں یہود کی ایک بڑی تعداد تھی۔ آپﷺ نے اُن سے ایک معاہدہ بھی فرمایا یہاں تک کہ اُن کی طرف سے پے در پے عہدشکنی ہوئی جس کے بعد اُن کی بڑی تعداد مدینہ سے نکال دی گئی پھر بھی اُن کے کچھ لوگ باقی رہے۔ آپﷺ نے رحلت فرمائی تو زرہ مبارک ایک یہودی کے پاس ہی رہن تھی۔ یمن یہودیوں سے بھرا ہوا تھا۔ نجران میں عیسائیوں کی کوئی حد نہ تھی۔ بحرین میں فارسیوں کی بہتات تھی۔ اور یہ دورِ نبوت کی بات ہے۔ اور یہ تو ہر شخص کو معلوم ہے کہ اِن سب ملتوں کے تہوار بھی ہوتے تھے!
اب یہاں ایک قاعدہ ازبر کرلو: ایک چیز کا قوی محرک نبیﷺ کے سامنے باقاعدہ انداز میں پیش آیا مگر آپ ا نے اس کو اختیار کرنے سے احتراز ہی فرمائے رکھا۔۔۔ تو اُس چیز کو اختیار نہ کرنا ہی دین ہوگا۔
تو پھر؛ نبی ﷺاور اصحاب ؓ کی جانب سے کسی بھی انداز کی شرکت اپنے ’ہم وطن‘ اہل کفر کے تہواروں میں اگر مروی نہیں ہے۔۔۔ کیا اِس قضیہ کا فیصلہ کردینے کے لیے یہی ایک بات کافی نہیں؟
اور جہاں تک معاشرہ میں اِس کے لیے داعیہ پائے جانے کی بات ہے۔۔۔ تو کیا یہ تصور ہوسکتا ہے کہ یہودی اور عیسائی اپنے تہوار منارہے ہوں،اچھے اچھے پکوان، زرق برق لباس، رنگارنگ اشیاء، باجے، بھنگڑے، نفیریاں، کھیلیں اور کبڈیاں سب چل رہی ہوں۔۔۔ اور ادھر معاشرے کے عام بچوں، عورتوں اور فارغ طبقوں کو اُس کی طرف توجہ اور میلان تک نہ ہو!
اب جس شخص کو سیرت پر کچھ بھی اطلاع ہے وہ یقینی طور پر جانتا ہے کہ عہدِ نبوت میں مسلمان، کافروں کی ایسی کسی بات میں شریک نہیں ہوتے تھے۔ کفار کے تہواروں کی خاطر اپنا کوئی ایک بھی معمول نہیں چھوڑتے تھے۔ رسول اللہ ا اور صحابہ ث کے لیے کفار کا تہوار ہر ہر پہلو سے باقی دنوں جیسا ہی ایک دن تھا؛ اِن دنوں کے لیے اُن کے ہاں کسی ایک چیز کا اہتمام نہ ہوتا۔ ہاں کچھ اہتمام تھا تو ان عیدوں کی مخالفت کے حوالہ سے، مثل روزہ وغیرہ!
پس اگر ایسا نہ ہوتا کہ وہ دین ہی جسے دورِ اول کے مسلمانوں نے اپنے نبی ا سے سیکھا اور سمجھا تھا اِس امر میں شدید مانع ہو۔۔۔ (حتیٰ کہ اِس ممانعت کے سمجھنے میں کوئی کمی رہ گئی ہوتی)۔۔۔ تو عہدِ اول کے مسلمانوں کی ایک تعداد تو ضرور ہی ایسی ہوتی جو اِن چیزوں میں بدستور شرکت کر رہی ہوتی! کیونکہ ایک چیز کا محرک صحابہؓ کی زندگیوں میں قوی طور پر موجود تھا؛ اِس حقیقت پر عقل، منطق، تاریخ سب شاہد ہیں۔ کیونکہ یہ ایک معلوم امر ہے کہ کافر ملتوں کے تہوار بہت پیچھے سے چلے آرہے تھے اور قوموں کا جوش وخروش اپنی عیدوں اور تہواروں کے لیے کبھی کم نہیں ہوتا!
خلفائے راشدین کا پورا عہد، یہی دستور رہا۔
عہدِ اول میں اِس حوالہ سے جو زیادہ سے زیادہ بے قاعدگی پائی گئی وہ یہ کہ مسلمانوں میں سے بعض لوگ ازراہِ تجسس و تماشا ان کے میلوں کی رونق دیکھنے چلے جاتے۔ اس کا ذکر ضرور ملتا ہے.. اور اِس پر عمر ؓ کی سرزنش بھی! چنانچہ حضرت عمرؓ اور دیگر علمائے صحابہؓ سے اِس بات کی ممانعت ملتی ہے کہ مسلمان، ذمیوں کے میلوں کا تماشا وغیرہ دیکھنے مت جائیں (جس کی کچھ تفصیل ہم آگے چل کر بتائیں گے)۔ اب آپ خود اندازہ کرلیں حضرت عمر ؓ تو اُن کے تہواروں کی خالی سیر کرلینے سے ہی مسلمانوں کو روکتے ہوں جبکہ اُن تہواروں میں سیدھی سیدھی شرکت کر آنے میں حرج کی بات ہی نہ ہو! حضرت عمر ؓ نے اِس معاملہ میں جتنی بے قاعدگی دیکھی اُتنا نوٹس لیا، یعنی مسلمانوں کو وہاں تفریح سے ہی روک دیا۔ لیکن کیا خیال ہے کوئی مسلمان اُن اعمال اور تقریبات ہی میں ہی باقاعدہ شریک ہو کر آتا، اس کو حضرت عمر ؓ چھوڑ دیتے؟!
یہاں تک دیکھ لو کہ جب بعض مسلمانوں کے ہاں یہ رجحان نظر آیا کہ وہ کفار کے تہواروں کے دن روزہ رکھیں گے اور جبکہ اس سے اُن کے پیش نظر کفار کی مخالفت کرنا ہی تھا.. تو فقہاء کی ایک بڑی تعداد نے اِس رجحان کی حوصلہ شکنی کی؛ کیونکہ اِس سے بھی مسلمانوں کے یہاں کفار کے تہواروں کی ایک خصوصی حیثیت بن جانے کا اندیشہ پیدا ہورہا تھا۔ کیا اِن حقائق سے یہ چیز واضح نہیں ہوجاتی کہ عہدِ اول کے مسلمانوں نے اپنے نبی ا سے جو دین لیا اُس میں کفار کے تہواروں میں ’’شریک‘‘ ہونے کی دور دور تک کوئی گنجائش نہیں؟
Sent from my SM-N9005 using Tapatalk
۱۔ حدیثِ انسؓ:
عَنْ أنَسٍص قَالَ: قَدِمَ النَّبِیُّ ﷺ الْمَدِیْنَۃَ وَلَہُمْ یَوْمَانِ یَلْعَبُوْنَ فِیْہِمَا فَقَالَ: مَا ہٰذانِ الْیَوْمَانِ؟ قَالُوْا: کُنَّا نَلْعَبُ فِیْہِمَا فِی الْجَاہِلِیَّۃِ۔ فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ: إنَّ اللّٰہَ قَدْ أبْدَلَکُمْ بِہِمَا خَیْراً مِنْہُمَا یَوْمَ الأضْحیٰ وَیَوْمَ الْفِطْرِ۔
(رواہ أبو داود: کتاب الصلوٰۃ، باب صلاۃ العیدین رقم الحدیث ۱۱۳۴۔ والنسائی: صلوٰۃ العیدین رقم الحدیث ۱۵۵۶، وأحمد: رقم ۱۱۵۹۵، وصححہ الألبانی فی صحیح أبی داود رقم الحدیث ۲۱۰، وفی السلسلۃ الصحیحۃ رقم الحدیث ۲۰۲۱)
روایت انس ؓ سے، کہا: نبی ﷺ مدینہ تشریف لائے ، تو لوگوں کے دو تہوار تھے جن میں وہ کھیل تماشا کرتے۔ آپ ﷺنے فرمایا: اِن دو دنوں کی کیا حقیقت ہے؟ انہوں نے عرض کی: ان دو مواقع پر جاہلیت میں ہم کھیل تماشا کر لیتے تھے۔ تب رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: بے شک اللہ نے اُن دونوں کو بدل کر تمہیں ان سے بہتر تہوار دے دیے ہیں: عید الاضحی اور عید الفطر۔
یہ حدیث جسے ابوداود کے علاوہ نسائی اور احمد نے بھی روایت کیا ہے، صحت کے لحاظ سے مسلم کی شرط پر پوری اترتی ہے۔
اب اِس حدیث کے حوالہ سے جو وجہِ دلالت ہے، ذرا اس کو سمجھ لو:
یہ جو دو جاہلی تہوار تھے، ظاہر ہے رسول اللہ ﷺ نے مسلمانوں کو اس پر سندِ اقرار نہ دیا۔ اور نہ ان کو اس معاملہ میں اپنے حال پر چھوڑا کہ چلیں ایک چیز چل رہی ہے تو چلتی رہے (حالانکہ بے شمار معاملات میں آپ ا نے لوگوں کو ان کے حال پر چھوڑا بھی ہے)۔ بلکہ فرمایا: إنَّ اللّٰہَ قَدْ أبْدَلَکُمْ بِہِمَا یَوْمَیْنِ آخَرَیْنِ ’’اللہ تعالیٰ نے ان دونوں کو بدل تمہیں ان سے بہتر تہوار دے دیے ہیں‘‘۔
اِس حدیث میں تم دیکھتے ہو، لفظ اِبدال آیا ہے، جس کا مطلب ہے: to replace ؛ ایک چیز کو ہٹا کر دوسری چیز لانا۔ جس سے پچھلی چیز کا ترک کرانا خودبخود لازم آتا ہے۔ اب یہ تصور کہ پچھلی چیز بھی رہے اور نئی چیز بھی چلے، اِس پر اِبدال کا لفظ صادق ہی نہ آئے گا۔ اِبدال کا لفظ جب آئے گا پچھلی چیز کے زائل ہو جانے کا معنیٰ لازماً دے گا۔ (یہاں امام صاحب قرآن مجید اور احادیث سے اِبدال کے مادہ پر بہت سے لغوی شواہد لے کر آتے ہیں؛ جو ہم یہاں ذکر نہیں کر رہے) ۔
اب یہاں ایک چیز پر غور کر لو تو اِس موضوع پر اسلامی طرزِ عمل کی پوری حقیقت تم پر کھل جائے گی:
یہ تو تم جانتے ہو کہ انسؓ کی حدیث میں جن دو جاہلی تہواروں کا ذکر ہوا ، وہ مکمل طور پر مٹ گئے اور نبی ﷺکے یہ فرمادینے کے بعد ان تہواروں کا کوئی نام و نشان بھی باقی نہ رہا۔ اگر تم سماجیات سے کچھ بھی واقف ہو تو اِس پر سوچو کہ اتنا بڑا واقعہ مدینہ میں یکلخت کیسے رونما ہوگیا۔ تصور تو کرو، ایک قوم کے تہوار یکسر نابود ہوجاتے ہیں! ان کا کوئی ادنیٰ ترین تسلسل بھی تو سننے پڑھنے میں نہیں آتا! صدیوں سے چلی آتی ایک چیز معاشرے میں ختم ہوکر رہ جائے، یہ کوئی آسان بات نہیں۔ ’تہوار‘ وہ چیز ہے جو ایک قوم کی رگ رگ میں اتری ہوتی ہے؛ بچہ بچہ اس کے لیے جوش وخروش رکھتا ہے، حتیٰ کہ پورا پورا سال انتظار ہوتا ہے، مگر قربان جائیے، نبیﷺ کی مدینہ آمد کے بعد اِن تہواروں کا ذکر تک نہیں ملتا! ایسی چیزوں کو معاشروں سے چھڑوالینے میں تو بڑے بڑے بادشاہ ناکام ہوتے دیکھے گئے ہیں۔ تو پھر خود سوچو، اہل مدینہ نے نبی ﷺکے الفاظ ’’إنَّ اللّٰہَ قَدْ أبْدَلَکُمْ بِہِمَا‘‘ سے اگر ’’ممانعت‘‘ کا معنیٰ ہی نہ سمجھا ہوتا تو وہ تہوار اُتنے جوش و خروش سے نہ سہی کچھ نہ کچھ تو باقی رہتے! سب سے مشکل کام کوئی ہے تو وہ یہ کہ معاشروں کے منہ کو لگی ایک چیز ان سے چھڑوادی جائے؛ خصوصاً عورتوں اور بچوں سے!یہ رسول اللہﷺ کی قوی ممانعت کا ہی اثر ہوسکتا تھا؛ ورنہ ایسا معجزہ ہوجانے کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ اب یہاں کوئی شخص یہ نکتہ نکالے کہ حدیثِ انسؓ سے تو ایک چیز کی ممانعت ہی ثابت نہیں ہوتی تو تم سمجھ سکتے ہو کہ وہ صرف شریعت سے ہی ناواقف نہیں سماجیات سے بھی نابلد ہے۔
یہ ایک ہی بات تم پر واضح ہوجائے تو اس مسئلہ کا سارا اِشکال چلا جاتا ہے۔
اب ایک اور چیز سمجھ لو۔ مسلم معاشرے میں دینِ جاہلیت کا چلن ہونے سے ڈرنا بے شک ضروری ہے مگر جاہلی عادات و اطوار اور جاہلی تہواروں کا چلن ہوجانے سے ڈرنا اس سے کہیں بڑھ کر ضروری ہے۔ کیونکہ؛ جہاں تک اُن کے دین کا تعلق ہے تو ہمیں احادیث سے معلوم ہے کہ زمانۂ آخر تک ایسا ہونے والا نہیں کہ ہم اسلام کو چھوڑ کر کسی اور دین میں چلے جائیں۔ پس یہ خطرہ تو بہت کم ہے کہ مسلم معاشرے سیدھا سیدھا عیسائیت یا یہودیت یا بت پرستی کا مذہب قبول کر لیں۔ البتہ یہ خطرہ بے حد زیادہ ہے، جیساکہ احادیث میں بھی جابجا خبردار کیا گیا ہے، کہ مسلم معاشرے یہود و نصاریٰ کی سنتوں کا اتباع کرنے لگیں۔
۲۔ حدیثِ ثابت بن ضحاکؓ:
عَنْ ثَابِتٍ بْنِ الضَّحَّاکِ، قَالَ: نَذَرَ رَجُلٌ عَلیٰ عَہْدِ رَسُوْلِ اللّٰہِ ﷺ أنْ یَنْحَرَ إبِلاً بِبُوَانَۃَ، فَأتیٰ النَّبِیَّ ﷺ فَقَالَ: إنِّیْ نَذَرْتُ أنْ أنْحَرَ إبِلاً بِبُوَانَۃَ۔ فَقَالَ النَّبِیُّ ﷺ: ہَلْ کَانَ فِیْہَا وَثَنٌ مِنْ أوْثَانِ الْجَاہِلِیَّۃِ یُعْبَدُ؟ قَالُوْا: لا۔ قَالَ ﷺ: فَہَلْ کَانَ فِیْہَا عِیْدٌ مِنْ أعْیَادِہِمْ؟ قَالُوْا: لا۔ قَالَﷺ: أوْفِ بِنَذْرِکِ، فَإنَّہٗ لا وَفَاءَ لِنَذْرٍ فِیْ مَعْصِیَۃِ اللّٰہِ، وِلا فِیْمَا لا یِمْلِکُ ابْنُ آدَمَ۔ (رواہ أبو داود کتاب الأیمان والنذور رقم: ۳۳۱۳، وأحمد، وابن ماجۃ)
ثابت بن ضحاکؓ سے روایت ہے، کہا: رسول اللہ ا کے عہد میں ایک آدمی نے نذر مانی کہ وہ بوانہ کے مقام پر کچھ اونٹ ذبح کرے گا۔ تب وہ نبی ا کے پاس حاضر ہوا اور عرض کی: میں نے نذر مان لی ہے کہ بوانہ کے مقام پر اونٹ ذبح کروں۔ آپ انے فرمایا: کیا وہاں جاہلیت کے بتوں میں سے کوئی بت تھا جس کی عبادت ہوتی ہو؟ صحابہؓ نے عرض کی: نہیں۔ آپ انے فرمایا: کیا وہاں اُن کے تہواروں میں سے کوئی تہوار تھا؟ صحابہؓ نے عرض کی: نہیں۔ تب آپ انے فرمایا: اپنی نذر پوری کرلو؛ کیونکہ ایسی نذر کا پورا کرنا (اسلام میں) نہیں جو اللہ کی معصیت میں ہو، یا جو آدمی کے بس سے باہر ہو
(البانی نے سنن ابی داود کی تخریج میں اِس حدیث کو صحیح کہا ہے (صحیح سنن ابی داود رقم: ۲۸۳۴)، خود امام ابن تیمیہ اس حدیث کو ذکر کرنے کے بعد کہتے ہیں: اِس حدیث کی اصل صحیحین میں ہے، اور یہ اسناد صحیحین کی شرط پر پوری اترتی ہے، اس کی اسناد میں سب راوی ثقہ اور مشہور ہیں، یہ متصل ہے اور اس کی سند میں کوئی عنعنۃ نہیں)
(اِس کے بعد امام ابن تیمیہ انہی الفاظ سے ملتے جلتے الفاظ پر مبنی کچھ دیگر روایاتِ حدیث بھی لے کر آتے ہیں، مگر ہم نے ایک ہی روایت کے ذکر پر اکتفاء کیا ہے)
اِس حدیث میں وجہِ دلالت:
رسول اللہ ﷺ اس شخص کو نذر پوری کرنے کی اجازت دینے سے پہلے جو دو سوال پوچھتے ہیں، وہ اِس موضوع پر فیصلہ کن ہیں۔ ایک یہ دریافت فرمایا کہ: کیا وہاں اہل جاہلیت کا کوئی بت تو نہیں پوجا جاتا تھا؟ دوسرا یہ کہ: کیا وہاں اہل جاہلیت کا کوئی تہوار تو منعقد نہیں ہوتا تھا؟ جب دونوں سوالوں کا جواب نفی میں ملا تو آپ ا نے اُس کو وہاں اپنی نذر پوری کرنے کی اجازت دی۔ اور پھر جو الفاظ آپﷺ نے بولے وہ بھی قابل غور ہیں: فإنہ لا وَفَاءَ لِنَذْرٍ فِیْ مَعْصِیَۃِ اللّٰہِ یعنی ’’نذر میں خدا کی معصیت ہو تو اس کو پورا کرنا درست نہیں‘‘۔ پس واضح ہوا جاہلیت کی عید اور تہوار خدا کی معصیت میں آتا ہے۔ حالانکہ نذر کو پورا کرنے کی بابت رسول اللہ ﷺکہاں تک گنجائش دیتے ہیں، اس کا اندازہ ایک دوسری حدیث سے کیجئے:
عَنْ عَمْروٍ بْنِ شُعَیْبٍ عَنْ أبِیْہِ عَنْ جَدِّہٖ، أنَّ امْرأۃً أتَتِ النَّبِیَّ ﷺ فَقَالَتْ: یَا رَسُوْلُ اللّٰہِ إنِّیْ نَذَرْتُ أنْ أضْرِبَ عَلیٰ رَأسِکَ بِالدُّفِّ۔ قَالَ: أوْفِیْ بِنَذْرِکِ۔ قَالَتْ: إنِّیْ نَذَرْتُ أنْ أذْبَحَ بِمَکَانِ کَذَا کَذَا _ مَکَانٌ کَانَ یَذْبَحُ فِیْہِ أہْلُ الْجَاہِلِیَّۃِ _ قَالَ: لِصَنَمٍ؟ قَالَتْ: لا۔ قَالَ: لِوَثَنٍ؟ قَالَتْ: لا۔ قَالَ: أوْفِیْ نَذْرَکِ۔ (أبو داود، رقم الحدیث ۳۳۱۲، وأحمد۔صححہ الالبانی فی صحیح أبی داود ۲۸۳۳)
عمرو بن شعیب اپنے والد سے، اور ان کے والد ان کے دادا (عبد اللہ بن عمروؓ) سے روایت کرتے ہیں: ایک عورت نبی ﷺکے پاس حاضر ہوئی اور کہا کہ میں نے نذر مان لی کہ (اللہ آپ کو بہ سلامت غزوہ سے واپس لے آئے تو) میں آپ کے سرہانے دف بجاؤں گی۔ آپﷺ نے فرمایا: اپنی نذر پوری کر لو۔ وہ کہنے لگی: میں نے نذر مان لی ہے کہ میں فلاں مقام پر جانور ذبح کرو، یہ ایک ایسی جگہ ہے جہاں اہل جاہلیت اپنے جانور ذبح کر لیا کرتے تھے۔ آپ ﷺنے پوچھا: وہ کسی صنم (بت) کے لیے ذبح کیا کرتے تھے؟ کہنے لگی: نہیں۔ آپ ﷺنے پوچھا: وہ کسی وثن (غیر مرئی بت) کے لیے ذبح کیا کرتے تھے؟ کہنے لگی: نہیں۔ آپﷺ نے فرمایا: اپنی نذر پوری کر لو۔
چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ۔۔۔: ایک عورت رسول اللہ ﷺکے سرہانے کھڑی ہو کر دف (ہلکی ڈھولکی قسم کی چیز) بجانے کی نذر مان لیتی ہے تو آپ ﷺ اُس کو نذر پوری کرنے کی اجازت دے دیتے ہیں (اِس عمرو بن شعیب والی حدیث میں)۔ جبکہ (ثابت بن ضحاک والی حدیث میں) جاہلیت کے تہوار کی جگہ پر جا کر نذر پوری کرنے کی اجازت نہیں دیتے۔ ظاہر ہے اُس صحابی نے معاذ اللہ کوئی غیر اللہ کے نام پر تو اونٹ ذبح نہیں کرنے تھے۔ مگر جاہلی تہوار کی شناعت ایسی بری ہے کہ خدا کے نام کی مانی ہوئی ایک نذر بھی وہاں پر ممنوع ٹھہرے گی۔
اب ذرا سوچو۔۔۔ جاہلی تہوار کے لیے مخصوص ایک جگہ کی یہ شناعت ہے تو خود اس تہوار ہی کی کیسی شناعت ہوگی؟ خود اُس تہوار ہی میں جا شرکت کرنا شنیع کیوں نہ ہوگا؟ اس تہوار کی مناسبت سے جو اعمال مختص سمجھے جاتے ہیں اُن میں سے بعض اعمال کا ارتکاب کر لینا شریعت میں کیوں مذموم نہ ہوگا؟
پھر ایک اور بات پر غور کرو۔۔۔ حدیث کے الفاظ ہیں فَہَلْ کَانَ فِیْہَا عِیْدٌ مِنْ أعْیَادِہِمْ؟ ’’کیا وہاں اہل جاہلیت کے تہواروں میں سے کوئی تہوار (منایا جاتا) تھا‘‘۔ یعنی آپ ﷺ ماضی کے بارے میں دریافت فرما رہے ہیں نہ کہ حال کے بارے میں۔ حدیث کے بعض دیگر طرق سے معلوم ہو جاتا ہے کہ آدمی نے نبی ا سے یہ سوال حجۃ الوداع کے موقع پر کیا تھا۔ یعنی وہ وقت جب جزیرۂ عرب اسلام کے زیرنگیں آچکا تھا اور وہاں کے سب جاہلی تہوار موت کی نیند سلائے جا چکے تھے۔ لہٰذا آپ ﷺ کا سوال تب ماضی ہی کی بابت ہو سکتا تھا۔ مراد یہ کہ اب تو کسی جاہلی تہوار کا سوال ہی کہاں رہ گیا، یہ بتاؤ کیا ماضی میں بھی وہاں جاہلیت کے تہواروں میں سے کوئی تہوار تو نہیں منایا جاتا تھا؟ پس واضح ہوا کہ ماضی میں بھی اگر کہیں پر جاہلی تہوار منعقد ہوتا تھا تو ایسے مقام کی یہ شناعت ہے۔جب ایسا ہے تو پھر ایک حاضر باش جاہلی تہوار میں شرکت کرنے چل پڑنا کیوں شنیع نہ ہوگا؟
اندازہ کر لیجئے، ایک خطہ پوری طرح اسلام کے زیرنگیں آجاتا ہے اور جاہلیت کا سب کچھ وہاں پر قصۂ پارینہ بنا دیا جاتا ہے۔ پھر بھی آپ ﷺ یہ تنبیہ فرما رہے ہیں کہ مبادا کسی جاہلی عمل یا جاہلی مظہر کو مسلم معاشرے میں ازسرنو زندگی مل جائے۔
پھر جبکہ یہ بھی ذہن میں رہے کہ جس تہوار کی بابت آپﷺ دریافت فرما رہے ہیں وہ زیادہ سے زیادہ کوئی میلہ قسم کی چیز ہوگا، جہاں عربوں کا کھیل تماشا ہو جاتا ہوگا۔ خود مدینہ کے جو دو تہوار تھے (جن کا ذکر پچھلی حدیث میں گزرا) اُس میں بھی انصارؓ نے آپﷺ کے دریافت فرمانے پر کسی بت یا کسی عبادت کی مناسبت ذکر نہیں کی، صرف اتنا کہا کہ اس دن ہم اپنا کھیل تماشا کر لیتے تھے (کُنَّا نَلْعَبُ فِیْہِمَا فِی الْجَاہِلِیَّۃِ)۔ یعنی اس کی کوئی مذہبی مناسبت ہمیں نہیں ملتی(۶) ۔ یہ تو رہا مدینہ والے تہوار کا معاملہ۔ پھر اِس (بوانہ والے) مسئلے کی بابت تو آپ دیکھتے ہیں رسول اللہ ﷺ ’’بت‘‘ کی بابت علیحدہ پوچھتے ہیں (کہ آیا بوانہ کے مقام پر جاہلیت کا کوئی بت تو نصب نہ تھا) اور پھر ’’تہوار‘‘ کی بابت علیحدہ پوچھتے ہیں (کہ آیا وہاں اہل جاہلیت کا کوئی تہوار تو نہ تھا)۔ یہ واضح دلیل ہوئی کہ جاہلیت کے تہواروں کے ساتھ مختص اشیاء میں سے کسی بھی شےء کو کسی بھی انداز میں کرنا شدید منع ہے۔
مزیدبرآں، پچھلی حدیث کے ضمن میں ہم نے ایک بات خاص مدینہ کے حوالے سے ذکر کی تھی۔ مگر اب یہاں غور کرو کہ پورے جزیرۂ عرب میں ہی عیدین سعیدین کے سوا کوئی تہوار باقی نہیں رہنے دیا گیا۔ کیا تم اِس میں ہرگز کوئی دلالت نہیں دیکھتے؟ سوچنے کی بات ہے کہ کتنے ان گنت تہوار ہوں گے جو جزیرۂ عرب میں ہمیشہ کے لیے موت کی نیند سلادیے گئے۔ ایک پوری قوم کی زندگی سے، اُس کے صدیوں سے چلتے آئے تہواروں کو حرفِ غلط کی طرح مٹا ڈالنا کیا کوئی معمولی بات ہے؟ بغیر ’’شدید ممانعت‘‘ کے اتنی بڑی چیز کہاں ختم ہونے والی تھی؟ اِس پر ذرا تدبر کرو، تو کوئی شک ہی نہیں رہ جاتی کہ امام المتقین ﷺنے __ میری ماں اور باپ آپؐ پر قربان ہوں __ اِن سب جاہلی رسوم اور تہواروں کو جزیرۂ عرب کے اندر باقاعدہ ختم کروایا تھا۔
جیساکہ کتاب کے شروع میں بھی یہ بات گزری ہے۔۔۔ رسول اللہﷺ تو اُن نیکیوں یا اُن مباحات کے معاملہ میں جو دوملتوں کے مابین کسی وجہ سے ’’مشترک‘‘ ہیں، کچھ نہ کچھ ایسے ’’فرق‘‘ جاری فرما دیتے ہیں کہ جہاں اشتراک ہے وہاں بھی ایک فاصلہ قائم ہو جائے۔ اور یہ بات تم شریعت میں جابجا دیکھو گے۔ تو پھر جس شریعت میں اِس بات پر پورا زور صرف کردیا گیا ہو کہ اشتراک والی جگہوں پر بھی ’’فرق‘‘ کو نمایاں کرکے رکھا جائے وہ اُن امور میں ’’موافقت‘‘ کی روادار کیسے ہوسکتی ہے جن میں ہے ہی مخالفت؟! بات نہایت واضح ہے؛ شریعتِ اسلام نے تمہاری ایک ضرورت کا شدید خیال رکھا ہے: تمہارے اور اصحابِ دوزخ کے مابین فاصلہ جتنا زیادہ رہے گا اُتنا ہی تمہارا، اصحابِ دوزخ کے اعمال میں جاپڑنا، دُور از امکان رہے گا۔
۳۔ حدیثِ عائشہؓ:
عَنْ عَاءِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا، قَالَتْ: دَخَلَ عَلَیَّ أبُوْ بَکْرٍ ص وَعِنْدِیْ جَارِیَتَانِ مِنْ جَوَارِیْ الأنْصَارِ تُغَنِّیَانِ بِمَا تَقَاوَلَتْ بِہٖ الأنْصَارِ، یَوْمَ بُعَاثٍ۔ قَالَتْ: وَلَیْسَتَا بِمُغَنِّیَتَیْنِ۔ فَقَالَ أبُوْ بَکْرٍ أبِمَزْمُوْرِ الشَّیْطَانِ فِیْ بَیْتِ رَسُوْلِ اللّٰہِ ﷺ ؟ وَذٰلِکَ یَوْمُ عِیْدٍ۔ فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ: یَا أبَا بَکْرٍ إنَّ لِکُلِّ قَوْمٍ عِیْداً وَہٰذَا عِیْدُنَا (متفق علیہ)
عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، کہا: ابوبکر ؓ میرے ہاں تشریف لائے جبکہ میرے پاس دو انصاری لڑکیاں تھیں جو گا رہی تھیں اُن رجزیہ اشعار پر جو انصار نے جنگ بعاث کے موقع پر گائے تھے۔ عائشہؓ کہتی ہیں: یہ دونوں کوئی (باقاعدہ) گانے والیاں نہ تھیں۔ تب ابوبکرؓ بولے: کیا اللہ کے رسولﷺ کے گھر میں شیطان کے راگ؟ جبکہ یہ عید کا دن تھا۔ تب رسول اللہ ﷺنے فرمایا: ابوبکر! ہر قوم کی عید ہوتی ہے، اور آج ہماری عید ہے۔
اِس حدیث میں وجہِ دلالت تین پہلوؤں سے ہے:
۱۔ ہر قوم کی عید اپنی اپنی۔ إنَّ لِکُلِّ قَوْمٍ عِیْداً اِس حدیث کے الفاظ اور اِن دو قرآنی آیتوں کے الفاظ کے مابین مماثلت پر ذرا غور کرو: وَلِکُلٍّ وِجْہَۃٌ ہُوَ مُوَلِّیْہَا (البقرۃ: ۱۴۸) ’’ہر کسی کی کوئی سمت ہے جس کی طرف اُس کو رخ کرنا ہوتا ہے‘‘۔ اور لِکُلٍّ جَعَلْنَا مِنکُمْ شِرْعَۃً وَمِنْہَاجاً (المائدۃ: ۴۸) ’’تم میں سے ہر کسی کے لیے ہی ہم نے ایک شریعت اور ایک منہاج ٹھہرا دیا ہے‘‘ اول الذکر آیت، قبلہ سے متعلق ہے اور لِکُلّ کا لفظ بول کر ہر امت کا الگ الگ اختصاص واضح کیا گیا ہے، اِسی لیے ہم دیکھتے ہیں وہاں پر یہ بھی فرمایا گیا: وَمَا أَنتَ بِتَابِعٍ قِبْلَتَہُمْ وَمَا بَعْضُہُم بِتَابِعٍ قِبْلَۃَ بَعْضٍ (البقرۃ: ۱۴۶) ’’اور تم اُن کے قبلہ کی پیروی کرنے والے نہیں ہو، اور وہ بھی ایک دوسرے کے قبلہ کی پیروی کرنے والے نہیں‘‘۔ چنانچہ اِن دو آیتوں کی طرح حدیث (لِکُلِّ قَومٍ) میں بھی لام اختصاص کا آیا ہے۔ یعنی جس طرح از روئے آیت قبلہ میں شرعی اختصاص ہے (ہر امت کا اپنا اپنا قبلہ) ویسے ہی از روئے حدیث عید میں شرعی اختصاص ثابت ہوتا ہے؛ یعنی یہود کی اپنی عید، نصاریٰ کی اپنی، اور مسلمانوں کی اپنی۔ جب اختصاص ہے تو کوئی کسی دوسرے کے قبلہ کی طرف جائے گا اور نہ دوسرے کی عید کی طرف۔
۲۔ رسول اللہﷺ کا فرمانا: وَإنَّ عِیْدَنَا ہٰذَا الیَوم ’’اور ہماری عید آج ہے‘‘، اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ہمارے تہوار اِن دو مواقع کے اندر محصور ہیں۔ الیَوم پر جو الف لام ہے وہ استغراق کا فائدہ دیتا ہے؛ جیسے فرمایا: تَحْرِیْمُہَا التَّکْبِیْرُ وَتَحْلِیْلُہَا التَّسْلِیْمُ ’’نماز کی تحریم، تکبیر ہے اور تحلیل، تسلیم‘‘۔ (تکبیر پر ال کا فائدہ یہ ہوا کہ: تکبیر ہی سے نماز کی تحریم ہوگی۔ اور تسلیم پر ال کا فائدہ یہ کہ: سلام سے ہی نماز کی تحلیل ہوگی۔ یعنی ایسا نہیں کہ تکبیر سے بھی تحریم ہوجاتی ہو البتہ تکبیر کے علاوہ کسی چیز سے بھی تحریم ہو جاتی ہو، یا یہ کہ سلام کے علاوہ کسی لفظ سے بھی نماز کی تحلیل ہو جاتی ہو۔ یہ فائدہ ہوا استغراق کے ’’ال‘‘ کا)۔ جبکہ لفظ ہٰذا سے رسول اللہ ﷺ کا اشارہ روزِ عید کی جنس کی طرف ہے نہ کہ عین کی طرف؛ لہٰذا عید الفطر کے ساتھ عید الاضحیٰ ( اپنے پورے ایام کے ساتھ) خود بخود شامل ہوگی؛ جیساکہ ابوداود اور نسائی میں عقبہ بن عامرؓ کی روایت میں رسول اللہﷺ کا فرمان ہے: یَوْمُ عَرَفَۃَ وَیَوْمُ النَّحْرِ وَأیَّامُ مِنیٰ عِیْدُنَا أہْلِ الإسْلَامِ، وَہِیَ أیَّامُ أکْلٍ وَشُرْبٍ ’’یومِ عرفہ، یومِ قربان، اور منیٰ کے ایام ہم اہل اسلام کی عید ہیں، اور یہ کھانے پینے کے دن ہیں‘‘۔
۳۔ إنَّ لِکُلِّ قَوْمٍ عِیْداً کے الفاظ نبی ا نے بچیوں کے گانے وغیرہ پر رخصت دینے کے سیاق میں ارشاد فرمائے ہیں۔ پس یہ رخصت اِس مناسبت سے ہوگی کہ یہ ’’مسلمانوں کی عید‘‘ ہے۔ کسی اور ’’عید‘‘ کے لیے یہ احکام ہی نہ ہوں گے۔ ورنہ ایک بات کی اگر ہر وقت ہی گنجائش ہے تو خاص یہ لفظ بول کر کہ ’’ابوبکر! ہر قوم کی عید ہوتی ہے‘‘ کوئی خصوصی گنجائش بتانے کا کوئی معنیٰ ہی نہیں رہ جاتا۔
۴۔ ابوہریرہ و حذیفہ رضی اللہ عنہما کی (ہفتہ وار عید والی) حدیث سے ایک اہم استدلال:
عَنْ أبِیْ ہُرَیْرَۃَ ؓ أنَّہٗ سَمِعَ النَّبِیَّ ﷺ یَقُوْلُ: نَحْنُ الآخِرُوْنَ السَّابِقُوْنَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ، بَیْدَ أنَّہُمْ أوْتُوْا الْکِتَابَ مِنْ قَبْلِنَا، وَأوْتِیْنَاہُ مِنْ بَعْدِہِمْ ثُمَّ ہٰذَا یَوْمُہُمُ الَّذِیْ فَرَضَ اللّٰہُ عَلَیْہِمْ، فَاخْتَلَفُوْا فِیْہِ فَہَدَانَا اللّٰہُ لَہٗ، فَالنَّاسُ لَنَا فَیْہِ تَبْعٌ: الْیَہُوْدُ غَداً وَالنَّصَاریٰ بَعْدَ غَدٍ (متفق علیہ)
ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ میں نے نبی ﷺکو فرماتے سنا: ’’ہم (دنیا میں) میں آخری ہیں اور قیامت کے روز پہلے۔باوجود اس کے کہ اُن کو کتاب ہم سے پہلے ملی اور ہمیں اُن کے بعد، دن اُن کا بھی یہی (جمعہ) تھا جو اُن پر فرض کیا گیا، تو اُنہوں نے اس کے معاملے میں اختلاف کر لیا، تب اللہ نے ہمیں اس کی راہنمائی کردی۔ پس لوگ ہمارے پیچھے ہوں گے، یہود کل، تو نصاریٰ پرسوں‘‘
وَفِیْ حَدِیْثِ حُذَیْفَۃَؓ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ: أضَلَّ اللّٰہُ عَنِ الْجُمْعَۃَ مَنْ کَانَ قَبْلَنَا فَکَانَ لِلْیَہُوْدِ یَوْمُ السَّبْتِ، وَکَانَ لِلنَّصَاریٰ یَوْمُ الأحَدِ، فَجَاءَ اللّٰہُ بِنَا فَہَدَانَا لِیَوْمِ الْجُمُعَۃِ، فَجَعَلَ الْجُمُعَۃَ وَالسَّبْتَ وَالأحَدَ، وَکَذٰلِکَ ہُمْ تَبْعٌ لَنَا یَوْمَ الْقِیَامَۃِ، نَحْنُ الآخِرُوْنَ مِنْ أہْلِ الدُّنْیَا، وَالأوَّلُوْنَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ الْمَقْضِیُّ لَہَمْ _ وِفِیْ رِوَایَۃٍ بَیْنَہُمْ _ قَبْلَ الْخَلَاءِقِ (رواہ مسلم)
حدیثِ حذیفہؓ: فرمایا رسول اللہ ا نے: ’’اللہ تعالیٰ نے ہم سے پہلوں کو روزِ جمعہ سے بھٹکا دیا، چنانچہ یہود کا ہفتہ ہوا، نصاریٰ کا اتوار۔ تب اللہ ہمیں لایا اور ہم کو روزِ جمعہ کی ہدایت فرما دی اور (ترتیب) رکھی: جمعہ، ہفتہ، اتوار۔ ایسے ہی وہ قیامت کے روز ہم سے پیچھے ہوں گے۔ دنیا میں ہم آخری ہیں مگر قیامت کے روز ہم مخلوق میں وہ پہلے لوگ ہوں گے جن کے مابین فیصلہ کیا جائے گا‘‘
یہاں؛ آپ دیکھتے ہیں ہفتہ وار تہوار کے معاملہ میں امتوں کا اختصاص باربار کس وضاحت سے بیان ہوتا ہے۔ (لامِ اختصاص کی تکرار پر ذرا غور کرو)۔ یعنی یہود کا، ہفتہ۔ عیسائیوں کا، اتوار۔ مسلمانوں کا، جمعہ۔ لغت میں: اگر تم کہو: ’یہ کپڑا رہا زید کا، یہ رہابکر کا، اور یہ رہا عمرو کا‘۔۔۔ تو اس سے زید، بکر اور عمرو تینوں میں سے ہر ایک کے لیے الگ الگ ایک کپڑا ہونے کا معنیٰ لازم آئے گا۔ اِسی کو اختصاص کہا جاتا ہے۔ لہٰذا؛ اہل جمعہ کا، اہل سبت یا اہل اتوار کے ساتھ ’’شامل‘‘ ہونا آپ سے آپ باطل ہو جاتا ہے ورنہ اِس حدیث کا کوئی معنیٰ باقی نہ رہے گا۔ تو پھر اگر ہفتہ وار عید (۷)کا یہ معاملہ ہے تو سالانہ عید کا یہ معاملہ کیوں نہ ہوگا، بلکہ سالانہ عید کے لیے تو امتوں کا جوش و خروش کہیں بڑھ کر ہوتا ہے۔
۵۔ حدیثِ ام سلمہ ؓ :
عن کریبٍ مولی ابن عباس رضی اللہ عنہما، قال: أرسلنی ابن عباس وناسٌ من أصحاب النبی ﷺ إلی أم سلمۃ رضی اللہ عنہا، أسألہا: أیُّ الأیَّامِ کَانَ النَّبِیُّ ﷺ أکْثَرَہَا صِیَاماً؟ قَالَتْ: کَانَ یَصُوْمُ یَوْمَ السَّبْتِ وَیَوْمَ الأحَدِ أکْثَرَ مَا یَصُوْمُ مِنَ الأیَّامِ، وَیَقَوْلُ: إنَّہُمَا یَوْمَا عِیْدٍ لِلْمُشْرِکِیْنَ فَأنَا أحِبُّ أنْ أخَالِفَہُمْ۔ (رواہ أحمد والنسائی وابن أبی عاصم... وصححہ بعض الحفاظ)
ابن عباس رضی اللہ عنہما کے غلام کریب سے روایت ہے، کہا: مجھے ابن عباسؓ اور کچھ دیگر صحابؓ نے ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے پاس یہ دریافت کرنے کے لیے بھیجا کہ نبی ﷺکونسے دنوں کا روزہ سب سے زیادہ رکھا کرتے تھے؟ ام المومنینؓ نے جواب دیا: سب سے زیادہ آپ ﷺہفتہ اور اتوار کا روزہ رکھتے اور فرماتے: یہ دونوں مشرکین کی عید کے ایام ہیں اور مجھے پسند ہے کہ میں اُن کی مخالفت کروں
یہ حدیث بھی اِس بات پر نص ہوئی کہ اہل کتاب کی مخالفت، چاہے کسی وقت ازراہِ استحباب ہو، شریعت کے مقاصد اور اعتبارات میں بہرحال شامل ہے.. اور یہ کہ اہل کفر کے تہواروں پر کوئی کام کرنے کا ہے تو وہ یہ ان کی مخالفت کی جائے نہ کہ اُن کی موافقت۔ اِس حدیث کے حوالے سے جو کئی سارے سوال اٹھتے ہیں، مثلاً یہ کہ ایک دوسری حدیث میں سبت کا روزہ منع ہے (البتہ علت وہاں بھی یہی بیان ہوئی کہ اس سے یہود کی مخالفت مقصود ہے، لہٰذا مقصد کے لحاظ سے صومِ سبت سے منع کرنا بھی وہی فائدہ دیتا ہے جو یہ حدیثِ ام سلمہؓ یہاں دے رہی ہے) اور یہ کہ.. آیا سبت کا روزہ مطلق منع ہے یا مفرد طور پر (یعنی بغیر کوئی دن ساتھ ملائے)۔۔۔ تو ان فقہی سوالوں(۸) کا جواب ہم کتاب میں آگے چل کر دیں گے۔ یہاں یہ بات سمجھ لو کہ سبت کے روزہ پر علماء کا جو بھی اختلاف ہے، اِس پر سب کا اتفاق ہے کہ سبت کے معاملہ میں یہود کی مخالفت کرنا مستحسن ہے۔ جو عالم اُس دن روزہ کا قائل ہے وہ اِس اعتبار سے کہ یہ اُن کی عید کی مخالفت ہے۔ اور جو اِس سے ممانعت کرتا ہے وہ اِس اعتبار سے کہ اِس روز کوئی خصوصی عبادت کر لینے سے یہود کی مخالفت ایسا ایک مقصدِ دین متاثر ہوتا ہے۔ لہٰذا اِس مسئلہ پر علمائے اسلام کے فریقین میں جو بھی فقہی اختلاف ہو، ہمارے بیان کردہ اِس (اہل کتاب کی مخالفت والے) مبحث کی ہردو جانب سے تائید ہی ہوتی ہے۔
ج۔ رسول اللہ ﷺ اور صحابہ ؓ کا اپنا تعامل:
یہ تصور کرنا درست نہیں کہ نبی ﷺ اور صحابہ ؓکے آس پاس یہود و نصاریٰ کہیں پائے ہی نہیں گئے اور آج پہلی بار ہمیں ہی یہ دیکھنا ہے کہ اپنے آس پاس پائے جانے والے یہودونصاریٰ کے اِن تہواروں پر کیا طرزِ عمل اختیار کرنا چاہئے! یہ درست ہے کہ نبی ﷺ اور صحابہؓ نے محارب یہودونصاریٰ سے جنگیں کیں، مگر غیر حربی یہودونصاریٰ کے ساتھ بھی اُن کو ہرہر شہر اور ہر ہر ملک میں واسطہ رہا ہے۔ تو پھر اگر نبی ﷺ اور صحابہ ؓ کو بھی یہودونصاریٰ کے ساتھ (اُن کے تہواروں سمیت) واسطہ پیش آیا ہے تو کیا سب سے بڑھ کر یہ ضروری نہیں کہ ہم دیکھیں اِس مسئلہ میں رسول اللہ ﷺ اور آپؐ کے اصحاب ثدین اسلام پر کس طرح عمل پیرا ہوئے؟
خوب جان لو: سرزمین عرب میں زمانۂ اول سے لے کر آج تک یہودونصاریٰ پائے گئے ہیں۔ یہود حضرت عمرؓ کے دور تک جزیرۂ عرب میں موجود رہے یہاں تک کہ خلیفۂ دوم نے انہیں جزیرہ سے نکالا۔ نبی ﷺکے عہد مبارک میں یہود کی ایک بڑی تعداد تھی۔ آپﷺ نے اُن سے ایک معاہدہ بھی فرمایا یہاں تک کہ اُن کی طرف سے پے در پے عہدشکنی ہوئی جس کے بعد اُن کی بڑی تعداد مدینہ سے نکال دی گئی پھر بھی اُن کے کچھ لوگ باقی رہے۔ آپﷺ نے رحلت فرمائی تو زرہ مبارک ایک یہودی کے پاس ہی رہن تھی۔ یمن یہودیوں سے بھرا ہوا تھا۔ نجران میں عیسائیوں کی کوئی حد نہ تھی۔ بحرین میں فارسیوں کی بہتات تھی۔ اور یہ دورِ نبوت کی بات ہے۔ اور یہ تو ہر شخص کو معلوم ہے کہ اِن سب ملتوں کے تہوار بھی ہوتے تھے!
اب یہاں ایک قاعدہ ازبر کرلو: ایک چیز کا قوی محرک نبیﷺ کے سامنے باقاعدہ انداز میں پیش آیا مگر آپ ا نے اس کو اختیار کرنے سے احتراز ہی فرمائے رکھا۔۔۔ تو اُس چیز کو اختیار نہ کرنا ہی دین ہوگا۔
تو پھر؛ نبی ﷺاور اصحاب ؓ کی جانب سے کسی بھی انداز کی شرکت اپنے ’ہم وطن‘ اہل کفر کے تہواروں میں اگر مروی نہیں ہے۔۔۔ کیا اِس قضیہ کا فیصلہ کردینے کے لیے یہی ایک بات کافی نہیں؟
اور جہاں تک معاشرہ میں اِس کے لیے داعیہ پائے جانے کی بات ہے۔۔۔ تو کیا یہ تصور ہوسکتا ہے کہ یہودی اور عیسائی اپنے تہوار منارہے ہوں،اچھے اچھے پکوان، زرق برق لباس، رنگارنگ اشیاء، باجے، بھنگڑے، نفیریاں، کھیلیں اور کبڈیاں سب چل رہی ہوں۔۔۔ اور ادھر معاشرے کے عام بچوں، عورتوں اور فارغ طبقوں کو اُس کی طرف توجہ اور میلان تک نہ ہو!
اب جس شخص کو سیرت پر کچھ بھی اطلاع ہے وہ یقینی طور پر جانتا ہے کہ عہدِ نبوت میں مسلمان، کافروں کی ایسی کسی بات میں شریک نہیں ہوتے تھے۔ کفار کے تہواروں کی خاطر اپنا کوئی ایک بھی معمول نہیں چھوڑتے تھے۔ رسول اللہ ا اور صحابہ ث کے لیے کفار کا تہوار ہر ہر پہلو سے باقی دنوں جیسا ہی ایک دن تھا؛ اِن دنوں کے لیے اُن کے ہاں کسی ایک چیز کا اہتمام نہ ہوتا۔ ہاں کچھ اہتمام تھا تو ان عیدوں کی مخالفت کے حوالہ سے، مثل روزہ وغیرہ!
پس اگر ایسا نہ ہوتا کہ وہ دین ہی جسے دورِ اول کے مسلمانوں نے اپنے نبی ا سے سیکھا اور سمجھا تھا اِس امر میں شدید مانع ہو۔۔۔ (حتیٰ کہ اِس ممانعت کے سمجھنے میں کوئی کمی رہ گئی ہوتی)۔۔۔ تو عہدِ اول کے مسلمانوں کی ایک تعداد تو ضرور ہی ایسی ہوتی جو اِن چیزوں میں بدستور شرکت کر رہی ہوتی! کیونکہ ایک چیز کا محرک صحابہؓ کی زندگیوں میں قوی طور پر موجود تھا؛ اِس حقیقت پر عقل، منطق، تاریخ سب شاہد ہیں۔ کیونکہ یہ ایک معلوم امر ہے کہ کافر ملتوں کے تہوار بہت پیچھے سے چلے آرہے تھے اور قوموں کا جوش وخروش اپنی عیدوں اور تہواروں کے لیے کبھی کم نہیں ہوتا!
خلفائے راشدین کا پورا عہد، یہی دستور رہا۔
عہدِ اول میں اِس حوالہ سے جو زیادہ سے زیادہ بے قاعدگی پائی گئی وہ یہ کہ مسلمانوں میں سے بعض لوگ ازراہِ تجسس و تماشا ان کے میلوں کی رونق دیکھنے چلے جاتے۔ اس کا ذکر ضرور ملتا ہے.. اور اِس پر عمر ؓ کی سرزنش بھی! چنانچہ حضرت عمرؓ اور دیگر علمائے صحابہؓ سے اِس بات کی ممانعت ملتی ہے کہ مسلمان، ذمیوں کے میلوں کا تماشا وغیرہ دیکھنے مت جائیں (جس کی کچھ تفصیل ہم آگے چل کر بتائیں گے)۔ اب آپ خود اندازہ کرلیں حضرت عمر ؓ تو اُن کے تہواروں کی خالی سیر کرلینے سے ہی مسلمانوں کو روکتے ہوں جبکہ اُن تہواروں میں سیدھی سیدھی شرکت کر آنے میں حرج کی بات ہی نہ ہو! حضرت عمر ؓ نے اِس معاملہ میں جتنی بے قاعدگی دیکھی اُتنا نوٹس لیا، یعنی مسلمانوں کو وہاں تفریح سے ہی روک دیا۔ لیکن کیا خیال ہے کوئی مسلمان اُن اعمال اور تقریبات ہی میں ہی باقاعدہ شریک ہو کر آتا، اس کو حضرت عمر ؓ چھوڑ دیتے؟!
یہاں تک دیکھ لو کہ جب بعض مسلمانوں کے ہاں یہ رجحان نظر آیا کہ وہ کفار کے تہواروں کے دن روزہ رکھیں گے اور جبکہ اس سے اُن کے پیش نظر کفار کی مخالفت کرنا ہی تھا.. تو فقہاء کی ایک بڑی تعداد نے اِس رجحان کی حوصلہ شکنی کی؛ کیونکہ اِس سے بھی مسلمانوں کے یہاں کفار کے تہواروں کی ایک خصوصی حیثیت بن جانے کا اندیشہ پیدا ہورہا تھا۔ کیا اِن حقائق سے یہ چیز واضح نہیں ہوجاتی کہ عہدِ اول کے مسلمانوں نے اپنے نبی ا سے جو دین لیا اُس میں کفار کے تہواروں میں ’’شریک‘‘ ہونے کی دور دور تک کوئی گنجائش نہیں؟
Sent from my SM-N9005 using Tapatalk