• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مسلمان تاجر کیسا ہو؟؟؟

شمولیت
اپریل 06، 2015
پیغامات
9
ری ایکشن اسکور
2
پوائنٹ
43
از – مبصرالرحمن قاسمی (ریڈیو کویت)​
مسلمان تاجر کیسا ہو ؟​

دین اسلام نے جہاں حلال تجارت کرنے کی ترغیب دی وہیں تجارت کے پختہ اصول وضوابط بھی اپنے ماننے والوں کو بتائے ہیں ،اور دین کے اسلام کے آخری نبی محمد عربی ﷺ نے خود بھی تجارت فرمائی ، حضرت ابوبکرؓ ، حضرت عمرؓ ، حضرت عثمان ، حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ اور اکثر مہاجرین کا ذریعہ معاش تجارت ہی تھا ۔ حضرت علیؓ چونکہ حضورﷺ کی خدمت میں مشغول رہتے تھے اس لئے انہیں اس کا موقع کم ملا تاہم گاہے بگاہے انہوں نے بھی تجارت فرمائی ۔سرخیل فقہا امام ابوحنیفہ بڑے تاجروں میں تھے ۔ امام بخاریؒ بھی تجارت کیا کرتے تھے ۔ رسول اللہﷺ نے تاجر کے بارے میں فرمایا کہ : سچے اور امانت دار تاجر کا حشر قیامت میں انبیا ، صدیقین اور شہدا کے ساتھ ہوگا (ترمذی) رافع بن خدیجؓ سے مروی ہے کہ آپؐ سے دریافت کیا گیا کہ سب سے پاکیزہ کمائی کون سی ہے؟ آپ نے فرمایا: اپنے ہاتھ کا کام اور صحیح طریقہ پر تجارت (مسند احمد)

سرزمین ہندوستان میں اولین مسلمانوں کا جو قافلہ آیا تھا وہ بغرض تجارت ہی آیا تھا، گویا انھوں نے اپنی تجارت اور لین دین کے ذریعے لوگوں کو اسلام کا تعارف کرایا تھا، آج بھی کئی لوگ تجارت کے اسلامی اصولوں کو پڑھ کر اسلام میں داخل ہورہے ہیں، اگر ہر مسلمان تاجر اسلام تجارت میں اسلامی تعلیمات پر مکمل طور پر عمل کرنے لگے تو بعید نہیں کہ آج بھی مشرق ومغرب میں اسلام کا پرچم لہرا نے لگے گا لیکن آج اکثر مسلمان تاجروں نے دینی تعلیمات کو پس پشت ڈال رکھا ہے اور مال دولت کو ہی اپنا دین سمجھ لیا ہے، ایک مسلمان تاجر کی کیا خوبیاں ہوتی ہیں اور وہ کونسی خوبیاں ہیں جنھیں دیکھ کر لوگوں نے اسلام کو گلے لگایا،ذیل میں ہم پیش کررہے ہیں، امید کہ ہر تاجر ان خوبیوں اور صفات کو اپنے اندر پیدا کرنے کی کوشش کرے گا۔

۱- صحیح عقیدہ : ہر مسلمان تاجر کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے عقیدے کی اصلاح کرے، اللہ تعالی کے ایک ہونے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے آخری نبی ورسول ہونے کی شہادت پر ایمان ویقین رکھے اور اس بات کا علم رکھے کہ اللہ تعالی نے انسانوں کو صرف اور صرف اس کی عبادت کے لیے پیدا کیا ہے، ارشاد باری تعالی ہے : ترجمہ : میں نے جنات اورانسانوں کو محض اسی لیے پیدا کیا ہے کہ وه صرف میری عبادت کریں [الذاريات: ۵۶].

لہذا مسلمان تاجر پر ضروری ہے کہ وہ اپنی تجارت میں سارے کام اللہ تعالی کی وحدانیت پر یقین رکھتے ہوئے کرے اور شرک وریاء سے مکمل طور پر پرہیز کرے، کیونکہ شرک اور ریاء نیک اعمال کو ختم کردیتے ہیں۔ ارشاد باری تعالی ہے :ترجمہ: یقیناً تیری طرف بھی اور تجھ سے پہلے (کے تمام نبیوں) کی طرف بھی وحی کی گئی ہے کہ اگر تو نے شرک کیا تو بلاشبہ تیرا عمل ضائع ہو جائے گا اور بالیقین تو زیاںکاروں میں سے ہوجائے گا- بلکہ تو اللہ ہی کی عبادت کر اور شکر کرنے والوں میں سے ہو جا [الزمر: ۶۵، ۶۶].

مسلم شریف کی روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : اللہ تعالی فرماتا ہے : میں شرک والوں کے شرک سے بے پرواہ ہوں، جس میں میرے علاوہ میرا شریک ہو تو میں اسے اور اس کے شرک کو چھوڑ دیتا ہوں۔ (مسلم حديث ۲۹۸۵).

۲- اللہ تعالی پر حسن توکل :

مسلم تاجر کے لیے چاہیے کہ وہ اللہ تعالی پر بھروسہ رکھے، اپنے لیے اور اپنےاہل خانہ کی ضروریات کی تکمیل کے لیے حلال رزق کے ذرائع اختیار کرے، ارشاد باری تعالی ہے : ترجمہ : اس ہمیشہ زنده رہنے والے اللہ تعالیٰ پر توکل کریں جسے کبھی موت نہیں اور اس کی تعریف کے ساتھ پاکیزگی بیان کرتے رہیں، وه اپنے بندوں کے گناہوں سے کافی خبردار ہے۔ [الفرقان: ۵۸]. اور ارشاد ہے : اور جو شخص اللہ پر توکل کرے گا اللہ اسے کافی ہوگا۔ [الطلاق: ۳].

ترمذی میں حضرت عمر بن خطاب کی روایت ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اگر تم لوگ اللہ پر بھروسہ کریں، جیسا کہ اس پر بھروسہ کرنے کا حق ہے تو تمہیں بھی اسی طرح رزق دیا جائے گا جس طرح پرندوں کو رزق دیا جاتا ہے، وہ (پرندے) صبح کو خالی پیٹ نکلتے ہیں اور شام کو پیٹ بھر کر واپس آتے ہیں۔ (صحيح الترمذي للألباني حديث ۱۹۱۱).

۳- دعاوں کی کثرت :

دعاء غمزدوں کا سہارا ہے، پرہیزگاروں کی جائے پناہ ہے اور نیک لوگوں کا طریقہ ہے، جب کسی نیک صفت اور ڈرنے والے کے دل سے دعاء کی پکار نکلتی ہے تو رب رحیم وکریم کی جانب سے بھی اس کی قبولیت کی گونج سنائی دیتی ہے۔ مسلم تاجر کو ہر وقت اللہ تعالی سے مانگنا چاہیے، خصوصا فارغ اوقات میں دعاوں کا اہتمام کرے، اللہ تعالی قرآن کی کئی آیتوں میں اور نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اپنی احادیث میں دعاء کرنے کی تاکید کی ہے۔

ارشاد باری تعالی ہے : (ترجمہ) جب میرے بندے میرے بارے میں آپ سے سوال کریں تو آپ کہہ دیں کہ میں بہت ہی قریب ہوں ہر پکارنے والے کی پکار کو جب کبھی وه مجھے پکارے، قبول کرتا ہوں اس لئے لوگوں کو بھی چاہئے کہ وه میری بات مان لیا کریں اور مجھ پر ایمان رکھیں، یہی ان کی بھلائی کا باعث ہے- [البقرة: 186]. اور ارشاد ہے : (ترجمہ) بے کس کی پکار کو جب کہ وه پکارے، کون قبول کرکے سختی کو دور کر دیتا ہے؟ اور تمہیں زمین کا خلیفہ بناتا ہے، کیا اللہ تعالیٰ کے ساتھ اور معبود ہے؟ تم بہت کم نصیحت وعبرت حاصل کرتے ہو۔[النمل: 62]. اور ارشاد باری تعالی ہے :(ترجمہ) اور تمہارے رب کا فرمان (سرزد ہوچکا ہے) کہ مجھ سے دعا کرو میں تمہاری دعاؤں کو قبول کروں گا یقین مانو کہ جو لوگ میری عبادت سے خودسری کرتے ہیں وه ابھی ابھی ذلیل ہوکر جہنم میں پہنچ جائیں گے۔[غافر: 60].

حضرت سلمان فارسی سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : بیشک اللہ تعالی بڑے کریم اور شرمیلے ہیں جب کوئی بندہ ان کی طرف ہاتھ پھیلاتا ہے تو اس بات سے شرماتے ہیں کہ ان کو خالی واپس کریں۔ (صحيح أبي داود للألباني حديث ۱۳۲۳). اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : اللہ تعالی سے دعاء کرو، اس حال میں کہ تمہیں قبولیت دعاء کا پورا یقین ہو، اور جان لو کہ اللہ تعالی غافل بے پرواہ دل کی دعاء قبول نہیں کرتا۔(صحيح الترمذي للألباني حديث ۲۷۶۶).

۴- مسجدکی جماعت کے ساتھ پانچ وقت کی نمازوں کا پڑھنا :

پانچ وقت کی فرض نمازوں کی مسجد میں ادائیگی ہر ایسے بالغ مرد کے لیے واجب ہے، جو مسجد جانے کی طاقت رکھتا ہو، اگرچہ اسے مسجد جانے کے لیے دوسروں کی مدد ہی کیوں نہ لینا پڑے، سوائے شرعی عذر کے مسجد میں باجماعت نماز نہ پڑھنا جائز نہیں ہے۔

اللہ تعالی نے ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا ہے کہ آپ اپنے صحابہ کے ساتھ جنگ کی حالت میں بھی جماعت سے نماز پڑھے، ارشاد باری تعالی ہے :( ترجمہ ) جب تم ان میں ہو اور ان کے لئے نماز کھڑی کرو تو چاہئے کہ ان کی ایک جماعت تمہارے ساتھ اپنے ہتھیار لئے کھڑی ہو، پھر جب یہ سجده کر چکیں تو یہ ہٹ کر تمہارے پیچھے آجائیں اور وه دوسری جماعت جس نے نماز نہیں پڑھی وه آجائے اور تیرے ساتھ نماز ادا کرے اور اپنا بچاؤ اور اپنے ہتھیار لئے رہے، کافر چاہتے ہیں کہ کسی طرح تم اپنے ہتھیاروں اور اپنے سامان سے بے خبر ہو جاؤ تو وہ تم پر اچانک دھاوا بول دیں، ہاں اپنے ہتھیار اتار رکھنے میں اس وقت تم پر کوئی گناه نہیں جب کہ تمہیں تکلیف ہو یا بوجہ بارش کے یا بسبب بیمار ہو جانے کے اور اپنے بچاؤ کی چیزیں ساتھ لئے رہو، یقیناً اللہ تعالیٰ نے منکروں کے لئے ذلت کی مار تیار کر رکھی ہے۔[النساء: ۱۰۲].

یہ آیت اس بات کی دلیل ہے کہ حالت امن میں باجماعت نماز پڑھنا پہلے درجہ کا واجب ہے۔

بخاری ومسلم میں حضرت ابوہریرہ کی روایت ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے میں نے ارادہ کیا ہے کہ لکڑیاں اکٹھا کرنے کا حکم دوں (جلانے کے لیے) پھر نماز کا حکم دوں اور اس کے لیے اذان دی جائے پھر ایک شخص کو حکم دوں کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائے پھر میں ان لوگوں کے پاس جاوں ( جو جماعت میں حاضر نہیں ہوتے) پھر انھیں ان کے گھروں سمیت جلادوں اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے تم میں سے اگر کسی کو معلوم ہوجائے کہ وہاں گوشت کی موٹی ہڈی یا بکری کے دو اچھے کھر ملیں گے تو وہ ضرور عشاء ( کی جماعت) میں حاضر ہو۔ (البخاري حديث 644 / مسلم حديث ۶۵۱).

ابن حجر عسقلانی کہتے ہیں : اس باب کی یہ حدیث باجماعت نماز کے فرض عین ہونے پر دلالت کرتی ہے، کیونکہ باجماعت نماز اگر سنت ہوتی تو اس کے چھوڑنے والے کے لیے جلانے کی وعید نہیں دی جاتی ۔ (فتح الباري لابن حجر العسقلاني جـ ۲ صـ ۱۴۸).

حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک نابینا شخص آیا اور کہنے لگا : یارسول اللہ ! میرے پاس کوئی ایسا شخص نہیں ہے جو مسجد تک مجھے لے کر آئے، اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت مانگی کہ وہ گھر پر ہی نماز پڑھ لیا کرے، آپ نے اسے اجازت دے دی، جب وہ واپسی کے لیے مڑا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے بلایا اور پوچھا کہ کیا تم اذان کی آواز سنتے ہو؟ (یعنی تمہارے گھر تک اذان کی آواز آتی ہے) اس نے کہا ہاں ! فرمایا کہ پھر اس کا جواب دیتے ہوئے مسجد حاضر ہوا کرو( گویا تمہیں بھی گھر پر نماز پڑھنے کی اجازت نہیں ہے)۔ (مسلم حديث 653). ابن قدامہ کہتے ہیں : جب ایسے نابینا شخص کو اجازت نہیں ملی جسے مسجد لانے والا کوئی نہیں ہے تو پھر دوسرے لوگوں کے لیے تو زیادہ اولی ہے کہ وہ باجماعت مسجد میں نماز پڑھیں۔ (مغنی ابن قدامہ جـ ۳ صـ ۴۰۶).

ابن ماجہ میں ابن عباس کی روایت ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جس نے اذان سنی اور نماز کو نہیں آیا تو اس کی نماز نہیں ہوئی، الا یہ کہ اسے کوئی عذر ہو ۔ (صحيح ابن ماجہ للألباني حديث ۶۴۵).

امام شافعی رحمہ اللہ کہتے ہیں: باجماعت نماز میں شرکت پر کسی کو طاقت ہو اور پھر بھی وہ مسجد نہ آئے میں اسے گھر میں نماز پڑھنے کی اجازت نہیں دیتا ہوں، الا یہ کہ کوئی عذر ہو۔ (الأم للشافعي جـ ۱ صـ ۱۵۴).

جب بعض دکاندار نماز کے وقت اپنی دکانوں کو بند کردیتے ہیں یا پھر دکان پر (نماز کے لیے بند) کا بینر لگاتے ہیں تو کتنا اچھا لگتا ہے، یقینا جب موذن اذان میں اللہ اکبر اللہ اکبر کے کلمات کہتا ہے تو اس کا مطلب یہی ہے کہ اللہ تعالی کی ذات مال سے، گھر سے خاندان سے اور بچوں سے بڑی ہے اور اللہ تعالی کی ذات ہر چیز سے بڑی ہے۔

۵- تمام مخلوقات کے رزق کے سلسلے میں اللہ تعالی پر ایمان :

ارشاد باری تعالی ہے : (ترجمہ) اور تمہاری روزی اور جو تم سے وعده کیا جاتا ہے سب آسمان میں ہے - آسمان وزمین کے پروردگار کی قسم! کہ یہ بالکل برحق ہے ایسا ہی جیسے کہ تم باتیں کرتے ہو [الذاريات: ۲۲، ۲۳]. اور ارشاد ہے : (ترجمہ) زمین پر چلنے پھرنے والے جتنے جاندار ہیں سب کی روزیاں اللہ تعالیٰ پر ہیں وہی ان کے رہنے سہنے کی جگہ کو جانتا ہےاور ان کے سونپے جانے کی جگہ کو بھی، سب کچھ واضح کتاب میں موجود ہے[ہود:۶].

حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے لوگو! اللہ سے ڈرو اور اچھے طریقے سے (اعتدال کے ساتھ) روزی طلب کرو کیونکہ کوئی انسان اپنا رزق پورا کیے بغیر نہیں مرے گا اگرچہ اس (رزق کے حصول) میں دیر ہو جائے۔ چنانچہ اللہ سے ڈرو اور اچھے طریقے سے روزی طلب کرو۔ جو حلال ہے، وہ لے لو اور جو حرام ہے، وہ چھوڑ دو۔(سنن ابن ماجہ ۲۱۴۴) اور حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : بے شک رزق بندے کو تلاش کرتا ہے جیسے اس کی موت اسے تلاش کرتی ہے۔ (صحیح ابن حبان،کتاب الزکاة، ۴/۹۸،)

۶- دین کی سمجھ اور تجارت سے متعلق شرعی مسائل کی معرفت :

مسلم تاجر کے لیے چاہیے کہ وہ جتنا ممکن ہوسکے دین کی اتنی سمجھ بوجھ حاصل کرے، جس کےذریعے عقیدے اور عبادت کی صحت میں مدد حاصل کرسکے، ماضی میں اکثر ایسے تاجر گذرے ہیں جو بیک وقت عالم دین بھی تھےاور کامیاب تاجر بھی، لہذا آج بھی ضرورت ہے کہ تجارت پیشہ افراد تجارت سے متعلق شرعی مسائل اور احکام کا علم کریں، تجارت کے میدان میں پیش آنے والے مسائل کو علماء کرام سے حل کریں تاکہ شبہات اور حرام چیزوں سے حفاظت ہوسکے۔علم کا حصول انسان کو بندوں میں بھی عالی مقام بناتا ہے اور خدائے باری تعالی کے پاس بھی اس کی قدر کی جاتی ہے، ارشاد باری تعالی ہے : (ترجمہ) اللہ تعالیٰ تم میں سے ان لوگوں کے جو ایمان لائے ہیں اور جنھیں علم دیا گیا ہے درجے بلند کر دے گا۔ [المجادلہ:۱۱].اور ارشاد ہے : (ترجمہ) اللہ سے اس کے وہی بندے ڈرتے ہیں جو علم رکھتے ہیں[فاطر: ۲۸].

حضرت معاویہ بن سفیان سےمروی کہ ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : اللہ تعالی جس کے ساتھ بھلائی چاہتا ہے اسے دین کی سمجھ عطا کرتا ہے۔ (البخاري حديث ۷۱ / مسلم حديث ۱۰۳۷).

۷- مسلم تاجر اپنے لیے اچھے معاونین کا انتخاب کرتا ہے :

مسلم تاجر کے لیے چاہیے کہ وہ اپنے لیے قابل اور باصلاحیت معاونین کا انتخاب کرے، ساتھ ہی وہ ان کی دینی حالت پر بھی نظر رکھے ، کہ ان میں صدق وسچائی ہو اور امانتداری کا پاس ولحاظ ہو اور نماز کا اہتمام کرتے ہوں، کیونکہ انسان اپنے ساتھ رہنے والوں سے متاثر ہوتا ہے، حدیث میں حضرت سعید خدری روایت کرتے ہیں کہ انھوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا : صحبت اختیار مت کرو مگر مومن کی اور تمہارا کھانا نہ کھائے مگر پرہیز گار آدمی۔ (صحيح الترمذي للألباني حديث ۱۹۵۲). اور ایک روایت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے : آدمی اپنے دوست کے دین (روش) پر ہوتا ہے لہذا چاہیے کہ تم میں سے ہر ایک دیکھے کہ وہ کس سے دوستی کرتا ہے۔ (صحيح أبي داود للألباني حديث ۴۰۴۶).

۸- استخارہ یعنی اللہ تعالی سے خیر چاہنا اور نیک لوگوں سے مشورہ لینا :

مسلمان تاجر کے لیے چاہیے کہ وہ اپنی زندگی کے تمام کاموں کے لیے استخارہ کا اہتمام کرے اور کوئی بھی کام کرنا ہوا اس سلسلے میں نیک لوگوں کا مشورہ لے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کو استخارہ کی تعلیم دیا کرتے تھے، حضرتجابر رضی اللہ عنہ نے بیان کیاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں تمام معاملات میں استخارہ کی تعلیم دیتے تھے، قرآن کی سورت کی طرح ( نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ) جب تم میں سے کوئی شخص کسی ( مباح ) کام کا ارادہ کرے ( ابھی پکا عزم نہ ہوا ہو ) تو دورکعات ( نفل ) پڑھے اس کے بعد یوں دعا کرے ” اے اللہ ! میں بھلائی مانگتا ہوں ( استخارہ ) تیری بھلائی سے ، تو علم والا ہے ، مجھے علم نہیں اور توتمام پوشید ہ باتوں کو جاننے والا ہے، اے اللہ ! اگر توجانتا ہے کہ یہ کام میرے لئے بہتر ہے، میرے دین کے اعتبار سے ، میری معاش اور میرے انجام کار کے اعتبار سے یا دعا ءمیں یہ الفاظ کہے ” فی عاجل امری وآجلہ “ تواسے میرے لئے مقدر کردے اور اگر تو جانتا ہے کہ یہ کام میرے لئے برا ہے میرے دین کے لئے ، میری زندگی کے لئے اورمیرے انجام کا ر کے لئے یا یہ الفاظ فرمائے ” فی عاجل امری وآجلہ “ تو اسے مجھ سے پھیر دے اور مجھے اس سے پھیر دے اور میرے لئے بھلائی مقدر کردے جہاں کہیں بھی وہ ہو اور پھر مجھے اس سے مطمئن کردے ( یہ دعا کرتے وقت ) اپنی ضرورت کو بیان کردینا چاہئے۔ (البخاري حديث ۶۳۸۲).

۹- رزق کی تلاش میں صبح سویرے بیدار ہونا :

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تاجر پیشہ صحابہ کو صبح سویرے تجارت کے لیے جانے کی ہدایت کرتے تھے اور خود بھی کسی کام کے کرنے یا سفر کا ارادہ کرتے تو صبح کے وقت کا انتخاب کرتے۔حضرت صخر الغامدی سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دعاء فرمائی : اے اللہ ! میری امت کے سویرے کے کاموں میں برکت فرما – حضرت صخر کہتے ہیں : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب کوئی چھوٹا یا بڑا لشکر روانہ فرماتے تو دن کے اول حصے میں (فجر کے فورا بعد) روانہ کرتے۔ حدیث کے راوی حضرت صخر خود تاجر تھے اور کوفہ میں رہتے تھے وہ اپنے نوکروں کو صبح ہی مارکیٹ روانہ کرتے تھے ، چنانچہ ان کی دولت میں خوب برکت آئی ۔ (صحيح الترمذي للألباني حديث ۹۶۸).

۱۰- حکمت اور نصیحت کے ساتھ نیکی کا حکم دینا اور برائی سے روکنا:

مسلم تاجر کے لیے چاہیے کہ وہ اپنی تجارت کے دوران اخلاص کے ساتھ دعوت کا بھی کام کرے، لوگوں کو اچھے کاموں کی ترغیب دے اور اپنی طاقت کے مطابق وعظ ونصیحت کے ذریعے برے کاموں سے روکے۔ارشاد باری تعالی ہے : ترجمہ : تم بہترین امت ہو جو لوگوں کے لئے پیدا کی گئی ہے کہ تم نیک باتوں کا حکم کرتے ہو اور بری باتوں سے روکتے ہو [آل عمران: ۱۱۰]،

اور ارشاد ہے : اپنے رب کی راه کی طرف لوگوں کو حکمت اور بہترین نصیحت کے ساتھ بلایئے [النحل: ۱۲۵].

حضرت سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : تم میں سے جو شخص خلاف شریعت کوئی بات دیکھے تو وہ اسے ہاتھ سے تبدیل کردے اگر اس کی قوت نہ ہو تو زبان ہی سے اس کی تردید کردے اگر اتنی بھی طاقت نہ ہو تو دل ہی سے اس چیز کو برا سمجھے اور یہ ایمان کا سب کمترین درجہ ہے۔ (مسلم حديث ۴۹).

۱۱- شک وشبہ والی چیزوں سے دور رہنا :

مسلم تاجر کے لیے چاہیے کہ وہ حلال وحرام چیزوں کے سلسلے میں ناواقفیت کی صورت میں علماء کرام سے پوچھے اور خرید وفروخت میں شک وشبے والی چیزوں میں پڑنے سے بچے۔حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ حلال بھی ظاہر ہے اور حرام بھی ظاہرہے اور ان دونوں کے درمیان شبہ کی چیزیں ہیں جن کو بہت سے لوگ نہیں جانتے تو جو شخص ان مشتبہ چیزوں سے بچے تو گویا اس نے اپنے دین اور آبرو کو سلامت رکھا، او رجو ان شبہات (کی دلدل)میں پھنس گیا، وہ اس چرواہے کی طرح ہے جو (اپنے جانوروں کو)محفوظ چراگاہ کے آس پاس چراتا ہے ، ممکن ہے کہ وہ اپنے دھن میں اس چراگاہ میں جاگھسائے، اس طرح سن لو کہ ہر بادشاہ کی ایک چراگاہ ہوتی ہے ، یا درکھو کہ اللہ کی زمین میں اللہ کی چراگاہ اس کی حرام کردہ چیزیں ہیں اور سن لو کہ جسم کے اندر ایک گوشت کا ٹکڑا ہے، جب وہ سنور جاتا ہے تو سارا جسم سنور جاتا ہے اور جب وہ بگڑجاتا ہے تو پورا جسم بگڑجاتا ہے، سن لو کہ یہ (گوشت کا ٹکڑا) دل ہے۔(البخاري حديث ۵۲ / مسلم حديث ۱۵۹۹).

۱۲- ہر حال میں اللہ تعالی کا کثرت سے ذکر کرنا :

مسلم تاجر کے لیے چاہیے کہ وہ اپنی زبان کو ہر وقت اللہ تعالی کے ذکر سے تر رکھے، نمازوں کے اختتام پر، صبح وشام اور سفر کے دوران کے اذکار کا خیال رکھے، خصوصا ان اذکار کو پڑھے جو قرآن وحدیث سے ثابت ہے، ذکر کے سلسلے میں قرآن وحدیث میں بےشمار فضائل آئے ہیں۔

ارشاد باری تعالی ہے : (ترجمہ) اس لئے تم میرا ذکر کرو، میں بھی تمہیں یاد کروں گا، میری شکر گزاری کرو اور ناشکری سے بچو- [البقرة: ۱۵۲].

اور ارشاد ہے : (ترجمہ) جو لوگ ایمان لائے ان کے دل اللہ کے ذکر سے اطمینان حاصل کرتے ہیں۔ یاد رکھو اللہ کے ذکر سے ہی دلوں کو تسلی حاصل ہوتی ہے [الرعد: ۲۸]. اور ارشاد باری تعالی ہے :(ترجمہ) اور اے شخص! اپنے رب کی یاد کیا کر اپنے دل میں عاجزی کے ساتھ اور خوف کے ساتھ اور زور کی آواز کی نسبت کم آواز کے ساتھ صبح اور شام اور اہل غفلت میں سے مت ہونا- [الأعراف: ۲۰۵].

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اللہ عزوجل فرماتا ہے: میرے بارے میں میرا بندہ جو گمان کرتا ہے میں (اس کو پورا کرنے کے لیے) اس کے پاس ہوتا ہوں۔ جب وہ مجھے یاد کرتا ہے تو میں اس کے ساتھ ہوتا ہوں۔ اگر وہ مجھے اپنے دل میں یاد کرتا ہے تو میں اسے دل میں یاد کرتا ہوں اور اگر وہ مجھے (بھری) مجلس میں یاد کرتا ہے تو میں ان کی مجلس سے اچھی مجلس میں اسے یاد کرتا ہوں، اگر وہ ایک بالشت میرے قریب آتا ہے تو میں ایک ہاتھ اس کے قریب جاتا ہوں اور اگر وہ ایک ہاتھ میر قریب آتا ہے تو میں دونوں ہاتھوں کی پوری لمبارئی کے برابر اس کے قریب آتا ہوں، اگر وہ میرے پاس چلتا ہوا آتا ہے تو میں دوڑتا ہوا اس کے پاس جاتا ہوں۔" (البخاري حديث ۷۴۰۵ / مسلم حديث ۲۰۶۷).

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیاکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا دوکلمے جو زبان پر ہلکے ہیں ترازومیں بہت بھاری اور رحمان کو عزیز ہیں۔ سبحان اللہ العظیم سبحان اللہ وبحمدہ۔ (البخاري حديث ۶۴۰۶ / مسلم حديث ۲۰۲۷).

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، جس نے سبحان اللہ وبحمد ہ دن میں سو مرتبہ کہا، اس کے گناہ معاف کر دئیے جاتے ہیں ، خواہ سمندر کی جھاگ کے برابر ہی کیوں نہ ہوں۔ (البخاري حديث ۶۴۰۵ / مسلم حديث ۲۶۹۱).

معصب بن سعد سے روایت ہے، انہوں نے کہا: مجھے میرے والد (سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ) نے حدیث سنائی، انہوں نے کہا: ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر تھے کہ آپ نے فرمایا: "کیا تم میں سے کوئی شخص اس بات سے عاجز ہے کہ ہر روز ایک ہزار نیکیاں کمائے؟" آپ کے ساتھ بیٹھے ہوئے لوگوں میں سے ایک نے پوچھا ہم میں سے کوئی شخص ایک ہزار نیکیاں کس طرح کما سکتا ہے؟ آپ نے فرمایا: "وہ سو بار سبحان الله کہے۔ اس کے لیے ہزار نیکیاں لکھ دی جائیں گی اور اس کے سو گناہ مٹا دئیے جائیں گے۔" (مسلم حديث ۲۶۹۸).

۱۳- تمام لین دین کے معاملوں میں سچائی اور دیانتداری کا اہتمام :

اللہ تعالی کے ساتھ اور لوگوں کے ساتھ سچائی کا معاملہ کرنا اور امانت کو اس کے مالک تک پہنچانا مسلم تاجر کی پہچان ہے، اللہ تعالی کا فرمان ہے : اے ایمان والو! اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور سچوں کے ساتھ رہو- [توبہ: ۱۱۹]،

اور فرمان باری ہے : اللہ تعالیٰ تمہیں تاکیدی حکم دیتا ہے کہ امانت والوں کی امانتیں انہیں پہنچاؤ! [نساء: ۵۸].

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، خریدنے اور بیچنے والوں کو اس وقت تک اختیار ( بیع ختم کردینے کا ) ہے جب تک دونوں جدا نہ ہوں یا آپ نے ( مالم یتفرقا کے بجائے ) حتی یتفرقا فرمایا۔ ( آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مزید ارشاد فرمایا ) پس اگر دونوں نے سچائی سے کام لیا اور ہر بات صاف صاف کھول دی تو ان کی خرید و فروخت میں برکت ہوتی ہے لیکن اگر کوئی بات چھپا رکھی یا جھوٹ کہی تو ان کی برکت ختم کر دی جاتی ہے۔ (البخاري حديث ۲۰۷۹).

۱۴- خریدوفروخت کے دوران اللہ تعالی کی قسم کھانے سے پیرہیز :

مسلمان تاجر کے لیے چاہیے کہ وہ اپنی بات میں سچا ہونے کے باوجود بھی قسم نہ کھائے، اس لیے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خریدوفروخت میں قسم کھانے سے ہمیں روکا ہے۔

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ ( سامان بیچتے وقت دکاندار کے ) قسم کھانے سے سامان تو جلدی بک جاتا ہے لیکن وہ قسم برکت کو مٹا دینے والی ہوتی ہے۔ (مسلم حديث ۱۶۰۶).

مسلمان تاجر کے لیے چاہیے کہ وہ اللہ کی قسم کھاکر حرام مال نہ خریدے اور نہ بیچے، ارشاد باری تعالی ہے : بے شک جو لوگ اللہ تعالیٰ کے عہد اور اپنی قسموں کو تھوڑی قیمت پر بیچ ڈالتے ہیں، ان کے لئے آخرت میں کوئی حصہ نہیں، اللہ تعالیٰ نہ تو ان سے بات چیت کرے گا نہ ان کی طرف قیامت کے دن دیکھے گا، نہ انہیں پاک کرے گا اور ان کے لئے دردناک عذاب ہے- [آل عمران: ۷۷].

۱۵- راہ خدا میں خرچ کرنا :

اللہ کی راہ میں خرچ کرنا ہی دنیا وآخرت کی فائدہ مند تجارت ہے، لہذا ہر مسلمان تاجر کو اپنے مال میں سےحسب استطاعت خیر کے کاموں میں خرچ کرنا چاہیے، خیر کے کام مختلف ہیں، جن میں مساجد کی تعمیر، دینی علوم پڑھنے والے طلباء کی مدد، فقراء ومساکین کی مدد، ضرورت مندوں اور یتیموں کی کفالت، رمضان میں روزے داروں کو افطار کرانا اور ان کے علاوہ خیر کے بے شمار کام ہیں۔

صدقہ وخیرات سے جہاں نیکیوں میں اضافہ ہوتا ہے وہیں مال میں بھی برکت آتی ہے، اللہ تعالی کا فرمان ہے : جو لوگ کتاب اللہ کی تلاوت کرتے ہیں اور نماز کی پابندی رکھتے ہیں اور جو کچھ ہم نے ان کو عطا فرمایا ہے اس میں سے پوشیده اور علانیہ خرچ کرتے ہیں وه ایسی تجارت کے امیدوار ہیں جو کبھی خساره میں نہ ہوگی - تاکہ ان کو ان کی اجرتیں پوری دے اور ان کو اپنے فضل سے اور زیاده دے بےشک وه بڑا بخشنے والا قدردان ہے- [فاطر: ۲۹، ۳۰].

اور ارشاد ہے : جو لوگ اپنا مال اللہ تعالیٰ کی راه میں خرچ کرتے ہیں اس کی مثال اس دانے جیسی ہے جس میں سے سات بالیاں نکلیں اور ہر بالی میں سودانے ہوں، اور اللہ تعالیٰ جسے چاہے بڑھا چڑھا کر دے اور اللہ تعالیٰ کشادگی والا اور علم والا ہے -[البقرة: ۲۶۱].

اور ایک جگہ ارشاد ہے : اگر تم اللہ کو اچھا قرض دو گے (یعنی اس کی راه میں خرچ کرو گے) تو وه اسے تمہارے لیے بڑھاتا جائے گا اور تمہارے گناه بھی معاف فرما دے گا۔ اللہ بڑا قدر دان بڑا بردبار ہے-[التغابن: ۱۷].

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "صدقے نے مال میں کبھی کوئی کمی نہیں کی اور معاف کرنے سے اللہ تعالیٰ بندے کو عزت ہی میں بڑھاتا ہے اور کوئی شخص (صرف اور صرف) اللہ کی خاطر تواضع (انکسار) اختیار نہیں کرتا مگر اللہ تعالیٰ اس کا مقام بلند کر دیتا ہے۔" (مسلم حديث ۲۵۸۸).

ممکن ہے شیطان آپ کے ذہن میں یہ بات ڈالے گا کہ مال خرچ نہ کر اور روکے رکھ ہوسکتا اولاد کی تربیت کے لیے تجھے ضرورت پڑے گی ، اللہ تعالی نے بھی سچ فرمایا : شیطان تمہیں فقیری سے دھمکاتا ہے اور بےحیائی کا حکم دیتا ہے، اور اللہ تعالیٰ تم سے اپنی بخشش اور فضل کا وعده کرتا ہے، اللہ تعالیٰ وسعت والا اور علم والا ہے-[البقرة: ۲۶۸].

۱۶- خریدوفروخت میں فیاضی اور نرمی سےکام لینا :

جابر بن عبداللہ انصاری رضی اللہ عنہ سےروایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، اللہ تعالیٰ ایسے شخص پر رحم کرے جو بیچتے وقت اور خریدتے وقت اور تقاضا کرتے وقت فیاضی اور نرمی سے کام لیتا ہے۔ (البخاري حديث ۲۰۷۶).

اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "نرمی جس چیز میں بھی ہوتی ہے اس کو زینت بخش دیتی ہے اور جس چیز سے بھی نرمی نکال دی جاتی ہے اسے بدصورت کر دیتی ہے۔"(مسلم حديث ۲۵۹۴).

۱۷- تنگدستوں کے ساتھ صبر سے کام لینا ، انھیں مہلت دینا اور درگز رگرنا:

مسلمان تاجر کی یہ خوبی ہے کہ وہ تنگدستوں اور پریشان حال لوگوں کے ساتھ صبر سے کام لیتا ہے اور انھیں مہلت دیتا ہے۔ارشاد باری تعالی ہے : اور اگر کوئی تنگی والا ہو تو اسے آسانی تک مہلت دینی چاہئے [البقرة: ۲۸۰].

تنگدستوں کو مہلت دینے اور ان کے ساتھ صبر کا معاملہ کرنے کا اللہ تعالی کے نزدیک قیامت کے دن بڑا مقام ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ایک تاجر لوگوں کو قرض دیا کرتا تھا جب کسی تنگ دست کو دیکھتا تو اپنے نوکروں سے کہہ دیتا کہ اس سے درگزر کر جاؤ۔ شاید کہ اللہ تعالیٰ بھی ہم سے ( آخرت میں ) درگزر فرمائے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ( اس کے مرنے کے بعد ) اس کو بخش دیا۔ (البخاري حديث ۲۰۷۸ / مسلم حديث ۱۵۶۲).

۱۸- شرعی وصیت کا اہتمام کرنا :

انسان کو یہ پتہ نہیں ہے کہ کب، کیسے اور کہاں اس کی موت آنے والی ہے، لہذا مسلمان تاجر کے لیے چاہیے کہ وہ ہر وقت اپنی وصیت لکھی رکھے، اس پر کیا قرض اور کس کس سے قرض وصول کرنا ہے، اپنی وصیت میں لکھا ہوا رکھے، اگر اچانک موت آجائے تو لوگوں کے حقوق ضائع نہیں ہونگے اور لوگوں کے پاس اس کے وارثوں کے جو حقوق ہونگے وہ بھی محفوظ ہوجائیں گے، ارشاد باری تعالی ہے :(ترجمہ) بے شک اللہ تعالیٰ ہی کے پاس قیامت کا علم ہے وہی بارش نازل فرماتا ہے اور ماں کے پیٹ میں جو ہے اسے جانتا ہے۔ کوئی (بھی) نہیں جانتا کہ کل کیا (کچھ) کرے گا؟ نہ کسی کو یہ معلوم ہے کہ کس زمین میں مرے گا۔ (یاد رکھو) اللہ تعالیٰ ہی پورے علم والا اور صحیح خبروں والا ہے- [لقمان: ۳۴].

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کسی مسلمان کے لئے جس کے پاس وصیت کے قابل کوئی بھی مال ہو درست نہیں کہ ۲/ رات بھی وصیت کو لکھ کر اپنے پاس محفوظ رکھے بغیر گزارے۔ (البخاري حديث ۲۷۳۸ / مسلم حديث ۱۶۲۷).

بشکریہ
http://mubassir2011rahman.blogspot.com/

 
Last edited by a moderator:
Top