یقیناً کسی مسلمان کا مسلمان کو کافر ومرتد قرار دینا اور اسے قتل کرنا گناہ کبیرہ اور فتنہ عظیم ہے۔ اس میں کسی شک کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔اسی طرح کسی مسلمان کی خارجیوں کی طرف نسبت کرنا کیا ہے؟ ابوبصیر صاحب آپ بتانا پسند کریں گے؟ یہ سوال میں نے آپ سے کیوں کیا؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ میں نے آپ سے متعدد بار یہ سوال کیا ہے کہ کیا آپ مجاہدین کی کسی تحریر اور تقریر سے یہ ثابت کرسکتے ہیں کہ مجاہدین نے عامۃ المسلمین کی تکفیر کی ہو۔مگر آپ ایک بھی ثبوت پیش کرنے میں ناکام رہے۔ہم علی الاعلان کہتے ہیں کہ جو لوگ قاعدۃ الجہاد اور تحریک طالبان کے مجاہدین پر اس قسم کی تہمت عائد کرتے ہیں وہ پکے بہتان باز اور کذاب ہیں یہ لوگ آج تک ایک بھی ثبوت پیش نہیں کرسکے اور نہ ہی ان شاء اللہ کرسکیں گے۔ کیونکہ مجاہدین کی قیادت سے ہم نے کبھی بھی کسی تقریر اور کسی بھی تحریر میں اس بات کو نہیں پایا ہے۔لہٰذا جو شخص بھی مجاہدین کو تکفیری اور خوارج قرار دیتا ہے وہ خود ہی تکفیریوں اور خارجیوں میں سے ہے۔آپ نے ایک پوسٹر اسی فورم پر اپ لوڈ کیا تھا جس میں آپ نے دیوبندیوں سے اختلاف کرتے ہوئے ان کے خلاف سورۃ المائدۃ کی آیت نمبر ۴۴ کو کوڈ کرتے ہوئے ان کی تکفیر کی تھی ۔ جس پر میں نے آپ کو کہا تھا یہ کھلی تکفیر آپ نے کی ہے دیوبندیوں کی جس پر آپ نے چپ سادھ لی اور کوئی جواب نہیں دیا میرے پوسٹ کا ۔ ابھی تک آپ کے پاس میرے کسی پوسٹ کا جواب نہیں بن سکا ہے۔ حالانکہ آپ نے اپنے معاونین کو بھی اس فورم پر طلب کیا لیکن الحمد للہ باطل باطل ہی ہوتا ہے اور وہ حق کے سامنے کسی طور ٹھہر نہیں سکتا۔اس طرح آپ نے دیوبندیوں کی تکفیر کرکے اپنے تکفیری ہونے کا ثبوت فراہم کردیا ہے جو کہ اسی فورم پر موجود ہے۔اور آپ تکفیری ہونے کا بہتان مجاہدین پر تھوپتے ہو۔ نہایت ہی افسوس کا مقام ہے۔ کہ تکفیر مسلمانوں کی آپ خود کررہے ہو ۔اور بدنام مجاہدین کو کررہے ہو۔
اور اس حدیث کو پیش کرکے آپ طاغوتی حکمرانوں کو بچانہیں سکتے کیونکہ احادیث سے ثابت ہے کہ اگر حکمران کفر بواح کا مرتکب ہو تو اس کے خلاف خروج واجب ہوجاتا ہے۔اس بارے میں ہم کچھ احادیث نقل کئے دیتے ہیں تاکہ کسی قسم کا کوئی ابہام نہ رہے کیونکہ عصر حاضر میں خوارج نماتکفیری مرجئوں نے تلبیس کرتے ہوئے احادیث کو اپنے من مانی تاویلات کا شکار بنایا ہوا ۔ انہوں نے ایسا کیوں کیا؟ انہوں نے ایسا اس لئے کیا تاکہ وہ ان تاویلات کے ذریعے سے اپنے طواغیت کی بچت کرسکیں۔
رسول اللہ ﷺنے امام جائر یعنی ظالم حکمران کے بارے میں فرمایا:
(( ان شرالرعاء الحطمة،فایاک ان تکون منھم ))
''بدترین حاکم رعایاپر''ظلم ''کرنے والے ہیں ،پس تم اس بات سے بچو کہ تم ان میں سے ہو''۔
صحیح البخاری ومسلم ،رواہ البزار،مجمع الزوائدج:5ص:239.
((وان شرالناس منزلة یوم القیمة امام جائرخرق))
''اورلوگوں میں بدترین قیامت کے دن درجے کے اعتبار سے جھوٹا ظالم حکمران ہوگا''۔
شعب الایمان ج:6ص16،رقم الحدیث7371.
''بے شک''ظالم ''حکمران قیامت کے دن اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ مبغوض اور اس کے شدید ترین عذاب میں مبتلا ہوگا''۔
((عن سعید الخدریقال قال رسول اللّٰہ ﷺاشد الناس عذابا یوم القیمة امام جائر))
المعجم الاوسط ج:5ص:239رقم الحدیث5196،معجم ابی یعلی ج:1ص:129رقم الحدیث 192.
'' قیامت کے دن شدید ترین عذاب میں ''ظالم''حکمران مبتلا کیا جائے گا ''۔
((وعن ابن مسعودقال قال رسول اللّٰہﷺان اشد اھل النارعذابا یوم القیامة من قتل نبیا أو قتلہ نبی أو امام جائر(وفی روایة )وامام ضلالة))
''حضرت ابن مسعود فر ماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:اہل جہنم میں سب سے زیادہ عذاب روزِ قیامت اس کو ہوگا جس نے قتل کیا نبی کویا نبی کے ہاتھوں قتل ہوا اور ''ظالم حکمران''(ایک روایت میں ہے کہ )گمراہ کرنے والا حکمران''۔
الطبرانی،مجمع الزوائد ج:5ص:236،مسند البزارورجالہ ثقات.
((وعن عبداللّٰہ بن عمرو ان النبیﷺقال ثلاثةلاینظراللّٰہ الیھم یوم القیامة ولایزکیھم ولھم عذاب الیم رجل اتی قوما علی اسلام دامج فشق عصاھم حتی استحلواالمحارم وسفکوالدماء وسلطان جائر))
''حضرت عبدا للہ بن عمرو سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺنے فرمایا تین آدمیوں کی طرف اللہ تعالیٰ روزِ قیامت نہ تو نظر کرم فرمائے گا اور نہ ان کو پاک کرے گا اور ان کو شدید عذاب دے گا۔ایک شخص جو کسی قوم میں داخل ہوا پکے اسلا م کی حالت میں پھر ان کے گناہ اس پر حاوی ہوگئے یہاں تک کہ اس نے حرام کردہ چیزوں کو حلال جان لیا اورجس نے خون بہایااور''ظالم''حکمران''۔
رواہ الطبرانی فی الاوسط،مجمع الزوائدج:5ص:237،وفیہ ابراھیم بن بشارالرمادی وھوصدوق کثیر الوھم وبقیة رجالہ ثقات.
یہ تو تھی ظالم حکمرانوں کے بارے وعیدوں کا بیان جو کہ ہم نہایت ہی اختصار کے ساتھ بیان کیا ہے ۔جوکہ اہل علم اور اہل بصیرت کے لئے کافی وشافی ہوگا ان شاء اللہ ۔ اب ہم ذیل میں ان ظالم حکمرانوں کے کے بارے میں سلف وصالحین کا ذاتی طرز عمل بیان کرتے ہیں۔
امام سفیان ثوری فرماتے ہیں:
''ان دعوک لتقرا علیھم :قل ھو اللّٰہ احد ،فلا تأ تھم
''اگر(ظالم )حکمران تمہیں اس لئے بلائیں کہ تم انہیں (قل ھو اللّٰہ احد)پڑھ کر سناؤ تو پھر بھی نہ جانا ''۔
بھیقی.
امام سفیان ثوریمزید فرماتے ہیں:
''ان فجار القراء اتخذوا الی الدنیا فقالوا: ندخل علی الأمراء نفرج عن مکروب ونکلم فی محبوس''
''فاجر علماء نے دنیا تک (رسائی کے لئے)ایک بہانہ ڈھونڈ لیا ہے اور کہتے ہیں :ہم حکمرانوں کے یہاں جائیں گے تاکہ کسی مصیبت زدہ کو نجات دلائیں اور کسی قیدی کی سفارش کریں''۔
امام قرطبی فرماتے ہیں :''کچھ لوگ کہتے ہیں جب تک امام کفر نہ کرے اسے ہٹایا نہیں جائے گا یا نماز ترک نہ کرے یا اور کوئی شریعت کاکام ترک نہ کردے جیسا کہ عبادہ سے مروی حدیث میں ہے:الایہ کہ تم اما م میں واضح کفر دیکھ لو جس پر تمہارے پاس دلیل ہو''۔ قرطبی:2/115-116.
کفر و ارتداد کے مرتکب حکمران کے بارے میں سلف کا متفقہ فیصلہ :
ابن تیمیہ فرماتے ہیں :
''اگر یہ عقیدہ رکھتا ہو کہ نبی ﷺکی رحلت کے بعد کسی اور کو حلال حرام قرار دینے کا حق ہے جو نبی ﷺکی زندگی میں نہیں تھا ۔یاکسی حد کولازمی قرار دے جو نبی ﷺکے زمانے میں نہیں تھی یا ایسا شرعی قانون بناتا ہے جو نبی ﷺکی زندگی میں نہیں تھا تو وہ شخص کافر مشرک ہے اس کی جان ومال کا حکم مرتد کا ہے''۔مجموع الفتاوی:28/524.
حافظ ابن حجرفرماتے ہیں:
''خلاصہ ٔ کلام یہ کہ اس بات پر اہل علم کا اجماع ہے کہ حکمران کفر کی بناءپر (ازخود)معزول ہوجاتاہے اور ہر مسلمان پر اس کے خلاف خروج میں حصہ ڈالنا واجب ہوجاتاہے ۔پھر جو اس کی قدرت رکھے اور اس کے خلاف اٹھ کھڑا ہو وہ ثواب کا مستحق ہوگا،اور جو کوئی (قدرت کے باوجود)مداہنت و مصالحت کا رویہ اپنائے وہ گناہ گار ٹھرے گا اور جو کوئی اس کافر حکمران کے خلاف اٹھنے کی قدرت نہ رکھے ،اس پر واجب ہے کہ وہ اس سرزمین سے ہجرت کرجائے''۔فتح الباری،13/123.
ملا علی قاری فرماتے ہیں:
''اجمعوا علی ان الامامة لا تنعقد لکافر ولو طرأ علیہ الکفر انعزل وکذا لوترک اقامة الصلوات والدعاء الیھا وکذا البدعة''
''اس بات پر علماء کا اجماع ہے کہ کوئی کافر مسلمانوں کا حاکم نہیں بن سکتا اور حاکم بننے کے بعد کفر کا ارتکاب کرے تو معزول قرار پائے گا ۔اسی طرح اگر وہ نماز قائم کرنا اور اس کی طرف دعوت دینا چھوڑ دے یا بدعت جاری کرے تب بھی اس کو یہی حکم ہے''۔ مرقاة المفاتیح؛ج:11،ص:303.
قاضی عیاضفرماتے ہیں:
''اس بات پر مسلمانوں کا اجماع ہے کہ کوئی کافر مسلمانوں کا امام (حکمران )نہیں بن سکتا اور اسی طرح اگر امام بننے کے بعد کوئی حاکم (قولی یا فعلی کفر و ارتداد کی وجہ سے)کافر ہوجائے تب بھی فوراًمعزول ٹھیرے گا ۔نیز اگر وہ نماز قائم کرنا اور اس کی طرف دعوت دینا چھوڑ دے تب بھی معزول قرار پائے گا ''۔ شرح النووی علی مسلم ؛ج:6،ص:314.
قاضی عیاض مزید فرماتے ہیں:
''اگر کوئی حکمران کفر کا ارتکاب کرے ،یا شریعت میں کوئی ردوبدل کرے ،یا کوئی بدعت جاری کرے تو وہ بطور حکمران باقی نہیں رہتا ،اس کی اطاعت''ساقط ''ہوجاتی ہے اور مسلمانوں پر واجب ہوجاتاہے کہ اگر وہ قدرت رکھتے ہوں تو اس کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں اور اسے ہٹاکر اس کی جگہ کوئی عادل حکمران مقرر کریں ۔نیز اگر پوری امت میں سے محض کوئی ایک گروہ یہ قدرت رکھتا ہو تو اس گروہ پر واجب ہوگا کہ وہ اس کافر حاکم کو اس کے منصب سے ہٹائے ۔یہ تو کافر حکمران کا معاملہ تھا ،رہا بدعتی حکمران کو ہٹانا،تو تبھی واجب ہوگا جب اس بات کا غالب امکان ہو کہ اس پر غلبہ پالیاجائے گا ۔اگر یہ بات ثابت ہوجائے کہ مسلمان(بدعتی حکمران کے خلاف)اتنی قدرت بھی نہیں رکھتے تو ایسے حکمران کے خلاف خروج واجب نہیں ہوگا ۔ایسی صورت میں ایک مسلمان کا فرض بنتاہے کہ اور وہ اپنے دین کو بچاتے ہوئے اس سرزمین سے نکل جائے''۔شرح النووی علی مسلم ؛ج:6،ص:314.
شاہ ولی اللہ محدث دہلوی فرماتے ہیں :
''اگر کوئی ایسا شخص حکمران بن جائے جس میں تمام شروط مکمل طور پر نہیں پائی جاتیں تو اسکی مخالفت میں جلدی نہیں کرنی چاہیے اس لئے کہ اس مخالفت سے ملک میں لڑائی جھگڑے فسادات پیدا ہوں گے جو کہ ملک و قوم کے مصلحت کے خلاف ہے بلکہ بہت زیادہ بگاڑ کاسبب بنیں گے لیکن اگر حکمران نے کسی اہم ''دینی امر''کی مخالفت کی تو اس کے خلاف قتال جائز ہوگا بلکہ واجب ہوگا ۔ اس لئے کہ اب اس نے اپنی افادیت ختم کر دی ہے اور قوم کے لئے مزید'' فساد و بگاڑ'' کا سبب بن رہا لہٰذا اس کے خلاف قتال ''جہاد فی سبیل اللہ'' کہلائے گا۔'' حجة اللّٰہ البالغة،ج:2ص:399.
رسول اللہﷺنے فرمایا:
((عن طلحة بن عبید اﷲ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ قال سمعت رسول اللہﷺ یقول:ألا أیھا الناس لایقبل اللہ صلاة امام حکم بغیر ماأنزل اﷲ))
''حضرت طلحہ بن عبید اللہفرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺکو یہ فرماتے ہوئے سناکہ :آگاہ ہوجاؤ!اللہ اُس امام کی نماز قبول نہیں کرتاجوکہ اللہ کی نازل کردہ (شریعت )کے سوا فیصلے جاری کرے''۔مستدرک الحاکم للصحیحین،ج:16ص:330رقم :7108۔ ھذا حدیث صحیح الاسنادولم یخرجاہ.
اور ایک روایت میں یہ الفاظ آتے ہیں:
((لا یقبل اﷲ صلاة امام حکم بغیر ماأنزل اﷲ ولایقبل اﷲ صلاة عبد بغیر طھور ولاصدقة من غلول))
''اللہ اُس امام کی نماز قبول نہیں کرتاجوکہ اللہ کی نازل کردہ (شریعت )کے سوا فیصلے جارے کرے(جیسے )اللہ قبول نہیں کرتا کسی بندے کی بغیر طہارت کے نماز اور وہ صدقہ جو غبن کئے ہوئے مال میں سے دیا جائے ''۔کنز العمال ،ج:6ص:40رقم:14762.
مندرجہ بالا عبارات میں صاف طور پر احادیث اور سلف کے اقوال سے ثابت کیا گیا ہے کہ ظالم فاسق اور کافر حکمران کے خلاف خروج واجب ہوجاتا ہے۔چنانچہ حدیث عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ بھی اسی پر دال ہے:
کہ رسول اللہ ﷺنے ایسے حکمران جو کھلم کھلا کفرکا حکم نہیں بلک صرف اس کاارتکاب کر بیٹھیں ، تو ان سے اطاعت کا ہاتھ کھینچ لینے اور ان سے تلوار سے نمٹنے کا حکم دیا ہے اور اسی بنیاد پر امت کے فقہا ءایسے حکمرانوں کے خلاف خروج کوہر مسلمان پر لازم اور''فرضِ عین''قرار دیتے ہیں۔عبادہ بن صامتسے مروی روایات کے الفاظ یوں ہیں ۔وہ کہتے ہیں:
((دعانا رسول اللّٰہ ﷺفبایعناہ فکان فیما اخذ علینا ان بایعنا والطاعة فی منشطناومکرھنا وعسرنا ویسرنا علینا وان لا ننازع الامر اھلہ قال الا ان تروا کفرا بواحاعندکم من اللّٰہ فیہ برھان))[1]
''ہمیں بلایا رسول اللہ ﷺ نے ۔پس آپ نے ہم سے اس بات پر بیعت لی کہ ہم سنیں گے اطاعت کریں گے چاہیں حالات سخت ہوں یا سازگار ،خوشی ہو یا غمی، ہم پر کسی کو ترجیح دی جائے پھر بھی اور ہم اہل حکومت سے اختیارات واپس نہ لیں سوائے اس صورت کے کہ ان سے ایسا ''واضح کفر ''سرزد ہوجائے جس کے کفر ہونے پر اللہ کے دین میں صریح دلیل موجود ہو''۔
درج بالا حدیث کے الفاظ پر اگر غور کیا جائے تو رسول اللہﷺنے''کفر بواح''کے صرف ارتکاب پرحاکم کو واجب العزل قرار دے دیا۔اسی طرح بعض احادیث کے مطابق اگروہ کھلم کھلا معصیت کا ''حکم ''بھی دینا شروع کردے جس کو فقہاء نے ''فسق متعدی''سے تعبیر کیا ہے اور اس کا حکم بھی ''کفر بواح''کا ہی ہے۔احادیث مبارکہ یوں ہیں:
((عن عبادة بن الصامت عن رسول اللّٰہ ﷺ ثم مثل ذلک قال مالم یأمروک باثم بواحا))[2]
''حضرت عبادہ بن صامتسے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے اسی طرح بیعت لی ۔اس کے بعد آپﷺ نے فرمایا :سوائے اس کے کہ وہ تمہیں کھلم کھلا گناہ کا حکم دے''۔
((الاان یأمرک باثم بواحاعندک تأویلہ من الکتاب))[3]
''سوائے اس کے کہ وہ حکم دے تم کھلے گناہ کا جس کی دلیل تمہارے پاس کتاب(و سنت)سے ہو''۔
((عبادة ابن صامت یقول: قال رسول اللّٰہ ﷺ! ثم یا عبادة،قلت لبیک،قال اسمع واطع فی عسرک ویسرک ومکرھک واثرة علیک اون اکلوامالک وضربواظھرک الا ان تکون معصیة اللّٰہ بواحا)) [4]
''حضرت عبادہ بن صامتکہتے ہیں۔رسول اللہﷺنے فرمایا:اے عبادۃ!انہوں نے کہا حاضرہیں۔ آپﷺ نے فرمایا سنو اور اطاعت کرو چاہے تمہیں آسان لگے یا مشکل اور چاہے تم پر دوسروں کو ترجیح دی جائے اور چاہے وہ تمہارے مال لے لے اور تمہاری پیٹھوں پر مارے سوائے اس کے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی کھلم کھلا نافرمانی کا حکم دے''۔
[1] صحیح مسلم ج:3ص:1470.
[2] مسند احمدج:5ص:321،رقم الحدیث22789.
[3] مسند الشامین ج:1ص:141،رقم الحدیث225.
[4] صحیح ابن حبان ج:10ص:428،رقم الحدیث4566.
اب قارئین کرام خود ہی فیصلہ کرسکتے ہیں کہ قرآن وحدیث میں وہ سب کچھ بیان کردیا گیا ہے کہ ایک مسلمان کو کہاں خروج کرنا اور کہاں خروج سے رکنا ہے۔ اگر ہم بے بصیرت لوگوں کی تفسیر پر عمل کرنے لگ جائیں جو اپنی خواہشات کی بنیاد پر حدیثوں کی غلط تاویل کرتے ہیں تاکہ اپنے اپنے طاغوتی حکمرانوں کو مسلمانوں کے خروج سے بچاسکیں۔تو اس طرح زمین میں فتنہ وفساد پھیل جائے گا۔اب کوئی بتائے ان حکمرانوں اس امت پر کتنے ہی ظالم ڈھائے ہیں ۔ انہوں مسلمانوں کی ولایت کو مجاہدین سے ختم کرکے فرعون عصر امریکہ کی طرف کردی ۔ لہٰذا اسی بناء پر پاکستان کی حکومت اور اس کی فوج نے افغانستان میں قائم امارت اسلامیہ سے ولایت کا سلسلہ توڑ کر مجاہدین سے براءت کرتے ہوئے اپنے ولاء کو امریکہ اور اس کے صلیبی لشکر ناٹو سے جوڑلیا۔اور ان کے صف اول کے اتحادی بن کر افغان مسلمانوں کو گاجر مولی کی طرح کاٹ کر رکھ دیا ۔ اگر کسی کو اس بات میں کوئی شک ہے تو وہ یوٹیوب پر افغان جنگ سے متعلق فلموں میں اس خوفناک بمباری کا مشاہدہ اپنی آنکھوں سے کرسکتا۔ کس نے مجاہدین کے ٹھکانوں سے امریکہ کو مطلع کیا آپ کے حکمرانوں اور آپ کی فوج نے ۔ کس نے نے افغانستان میں مجاہدین کے خفیہ معسکرات کی نشان دہی امریکہ کو کی آپ کی فوج اور اس کی خفیہ ایجنسیوں نے ۔ حتیٰ کہ آپ کے حکمرانوں نے تمام سفارتی آداب کو بلائے طاق رکھتے ہوئے امارت اسلامیہ کے سفیر کو بھی امریکیوں کے حوالے کردیا اور اس کے بدلے میں امریکیوں سے ڈالر وصول کئے ۔ کتنے جرائم آپ کے حکمرانوں اور آپ کی فوج نے کیے اگر ایک انسان ان کو لکھنے بیٹھ جائے تو دفتر کے دفتر کے درکار ہوں گے۔
اور حیرت ہے کہ ایسے حکمرانوں کے بارے میں آپ امت کے نوجوانوں کو یہ درس دے رہے ہیں کہ ان کے خلاف خروج کرنا جائز نہیں ہے۔ ہم نے احادیث اور سلف وصالحین کے اقوال سے آپ کے اس باطل نظریے کو تارعنکبوت کی مانند کرکے رکھ دیا ہے۔ ان شاء اللہ اس امت کے نوجوان اب تمہاری تلبیس کا شکار نہیں ہوں گے۔