ماریہ انعام
مشہور رکن
- شمولیت
- نومبر 12، 2013
- پیغامات
- 498
- ری ایکشن اسکور
- 377
- پوائنٹ
- 164
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
تمہیدی گفتگو کے بعد حدیث پر کچھ بات چیت کر لیتے ہیں
زیرِ نظر حدیث میں ایک مسلمان کے دوسرے مسلمان کے حوالے سے چھ فرائض بیان کیے گئے ہیں
پہلا اور سب سے اہم فرض سلام کرنا ہے
سلام کو ایک آیت کے مطابق تحفے سے تشبیہ دی گئی ہے۔۔۔گویا سلام ایک تحفہ ہے جو ہم اپنے مسلمان بہن بھائی کو دیتے ہیں آیت ملاحظہ کریں
وَإِذا حُيّيتُم بِتَحِيَّةٍ فَحَيّوا بِأَحسَنَ مِنها أَو رُدّوها ۗ إِنَّ اللَّـهَ كانَ عَلىٰ كُلِّ شَىءٍ حَسيبًا ﴿٨٦﴾
اور جب تمہیں تحفہ کیا جائے تو تم اس سے اچھا جواب دو یا اتنا ہی لوٹا دو، بے شبہ اللہ تعالیٰ ہر چیز کا حساب لینے واﻻ ہے (86)
تفسیر کے مطابق یہاں تحفے سے مراد سلام بھی ہے
تحفے کے بارے میں آپﷺ نے فرمایا
وتَهادوا تحابُّوا
ترجمہ: تم باہم تحفے دو تمہاری آپس کی محبت میں اضافہ ہو گا
لہذا سلام کے تحفے سے مسلمانوں کی باہم محبت بڑھتی ہے۔۔۔۔اور یہ عملی تجربے کی بات ہے۔۔۔آپ جس کے خلاف دل میں میل محسوس کریں اسے پورے دل سے سلام کریں میل دم دبا کر بھاگ جائے گا
بلکہ ایک حدیث میں توسلام کرنے کو جنت میں داخلے کی شرط بتایا گیا ہے
و الذي نَفسي بيدِهِ ! لا تَدْخُلوا الجنةَ حتى تُسْلِمُوا ، ولا تُسْلِمُوا حتى تَحابُّوا ، و أَفْشُوا السلامَ تَحابُّوا ،
ترجمہ:اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے تم جنت میں داخل نہیں ہو سکتے یہاں تک کہ تم سلام کرو ‘ تم سلام نہیں کر سکتے حتی کہ تم آپس میں محبت کرو اور تم سلام کو پھیلاؤ تمہاری باہم محبت میں اضافہ ہو گا
سلام نہ صرف تحفہ ہے بلکہ یہ بہت خوبصورت دعابھی ہے۔۔۔ہماری ایک خالہ کو اس بات پر اتنا یقین ہے کہ ایک دفعہ ان کے بیٹے کا معمولی سا ایکسڈنٹ ہو گیا۔۔۔انھیں پتہ چلا تو پورے تیقن سے کہنے لگیں
مجھے یقین ہے آج اس نے گھر سے نکلتے ہوئے سلام نہیں کیا ہو گا
سلام کرنا ایک ایسا عمل ہے جسے اللہ تعالی نے صرف مسلمانوں کے لیے مخصوص کر دیا۔۔غیر مسلموں کی تالیفِ قلب کی خاطرزکاۃ میں ان کے لیے ایک مدّ رکھ دی۔۔ان کی عیادت کی جا سکتی ہے ۔۔۔ان کے ساتھ حسنِ سلوک سے پیش آنے کی تاکید کی(بشرطیکہ محارب نہ ہوں)اورتو اورپاکدامن اہلِ کتاب عورتوں سے نکاح کرنا جائز کر دیا۔۔۔لیکن سلام کا معاملہ ایسا ہے کہ اس کے مخصوص الفاظ غیر مسلموں پر پیش نہیں کیے جا سکتے
- عَنْ عَبْدِ الله بنِ عُمَرَ رَضي الله عَنْهُمَا أنَّ رَسُولَ الله - صلى الله عليه وسلم - قَالَ
أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «لَا تَبْدَءُوا الْيَهُودَ وَلَا النَّصَارَى بِالسَّلَامِ، فَإِذَا لَقِيتُمْ أَحَدَهُمْ فِي طَرِيقٍ، فَاضْطَرُّوهُ إِلَى أَضْيَقِهِ»
ترجمه:تم یہود ونصاری کے ساتھ سلام میں پہل نہ کرو جب تم ان میں سے کسی سے راستے میں ملو تو اسے تنگ راستے پر مجبور کر دو
پہل نہیں کرنی لیکن اگر کوئی اہلِ کتاب خود سلام کر دے تو آپﷺ نے اس کا یہ حل پیش کیا
أَنَّ أَصْحَابَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالُوا لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّ أَهْلَ الْكِتَابِ يُسَلِّمُونَ عَلَيْنَا فَكَيْفَ نَرُدُّ عَلَيْهِمْ؟ قَالَ: «قُولُوا وَعَلَيْكُمْ»
ترجمہ: صحابہ نے آپﷺ سے پوچھا کہ اگر اہلِ کتاب ہمیں خود سلام کر دیں تو ہم ان کو کیسے جواب دیں آپﷺ نے فرمایا: انھیں علیکم کہہ دیا کرو
چنانچہ آج سے ہم نے عہد کرنا ہے کہ ہر مسلمان خواہ وہ جان پہچان والا ہو یا اجنبی ہو اس کو سلام کرنا ہے۔۔ آپﷺ نے قیامت کی نشانیوں کمیں سے اسک یہ بھی بیان فرمائی ہے کہ لوگ صرف اپنے جاننے والوں کو سلام کیا کریں گے۔۔۔
آخر میں سلام کے حوالے سے ایک آزمودہ نسخہ پیشِ خدمت ہے۔۔۔تکبّر ایک ایسی بیماری ہے جس میں انسان خالی ہاتھ ہوتے ہوئے بھی خود کو کوئی توپ سمجھنے لگتا ہے اور یہ کیفیت اکثر وپیشتر انسان پر وارد ہوتی رہتی ہے ۔۔۔۔۔جب ایسا محسوس ہو فوراً اپنے سے کسی ادنی شخص کو سلام کر لیں ان شاء اللہ ایسے پریشان کن خیالات دم دبا کر بھاگ جائیں گے
تمہیدی گفتگو کے بعد حدیث پر کچھ بات چیت کر لیتے ہیں
زیرِ نظر حدیث میں ایک مسلمان کے دوسرے مسلمان کے حوالے سے چھ فرائض بیان کیے گئے ہیں
پہلا اور سب سے اہم فرض سلام کرنا ہے
سلام کو ایک آیت کے مطابق تحفے سے تشبیہ دی گئی ہے۔۔۔گویا سلام ایک تحفہ ہے جو ہم اپنے مسلمان بہن بھائی کو دیتے ہیں آیت ملاحظہ کریں
وَإِذا حُيّيتُم بِتَحِيَّةٍ فَحَيّوا بِأَحسَنَ مِنها أَو رُدّوها ۗ إِنَّ اللَّـهَ كانَ عَلىٰ كُلِّ شَىءٍ حَسيبًا ﴿٨٦﴾
اور جب تمہیں تحفہ کیا جائے تو تم اس سے اچھا جواب دو یا اتنا ہی لوٹا دو، بے شبہ اللہ تعالیٰ ہر چیز کا حساب لینے واﻻ ہے (86)
تفسیر کے مطابق یہاں تحفے سے مراد سلام بھی ہے
تحفے کے بارے میں آپﷺ نے فرمایا
وتَهادوا تحابُّوا
ترجمہ: تم باہم تحفے دو تمہاری آپس کی محبت میں اضافہ ہو گا
لہذا سلام کے تحفے سے مسلمانوں کی باہم محبت بڑھتی ہے۔۔۔۔اور یہ عملی تجربے کی بات ہے۔۔۔آپ جس کے خلاف دل میں میل محسوس کریں اسے پورے دل سے سلام کریں میل دم دبا کر بھاگ جائے گا
بلکہ ایک حدیث میں توسلام کرنے کو جنت میں داخلے کی شرط بتایا گیا ہے
و الذي نَفسي بيدِهِ ! لا تَدْخُلوا الجنةَ حتى تُسْلِمُوا ، ولا تُسْلِمُوا حتى تَحابُّوا ، و أَفْشُوا السلامَ تَحابُّوا ،
ترجمہ:اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے تم جنت میں داخل نہیں ہو سکتے یہاں تک کہ تم سلام کرو ‘ تم سلام نہیں کر سکتے حتی کہ تم آپس میں محبت کرو اور تم سلام کو پھیلاؤ تمہاری باہم محبت میں اضافہ ہو گا
سلام نہ صرف تحفہ ہے بلکہ یہ بہت خوبصورت دعابھی ہے۔۔۔ہماری ایک خالہ کو اس بات پر اتنا یقین ہے کہ ایک دفعہ ان کے بیٹے کا معمولی سا ایکسڈنٹ ہو گیا۔۔۔انھیں پتہ چلا تو پورے تیقن سے کہنے لگیں
مجھے یقین ہے آج اس نے گھر سے نکلتے ہوئے سلام نہیں کیا ہو گا
سلام کرنا ایک ایسا عمل ہے جسے اللہ تعالی نے صرف مسلمانوں کے لیے مخصوص کر دیا۔۔غیر مسلموں کی تالیفِ قلب کی خاطرزکاۃ میں ان کے لیے ایک مدّ رکھ دی۔۔ان کی عیادت کی جا سکتی ہے ۔۔۔ان کے ساتھ حسنِ سلوک سے پیش آنے کی تاکید کی(بشرطیکہ محارب نہ ہوں)اورتو اورپاکدامن اہلِ کتاب عورتوں سے نکاح کرنا جائز کر دیا۔۔۔لیکن سلام کا معاملہ ایسا ہے کہ اس کے مخصوص الفاظ غیر مسلموں پر پیش نہیں کیے جا سکتے
- عَنْ عَبْدِ الله بنِ عُمَرَ رَضي الله عَنْهُمَا أنَّ رَسُولَ الله - صلى الله عليه وسلم - قَالَ
أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «لَا تَبْدَءُوا الْيَهُودَ وَلَا النَّصَارَى بِالسَّلَامِ، فَإِذَا لَقِيتُمْ أَحَدَهُمْ فِي طَرِيقٍ، فَاضْطَرُّوهُ إِلَى أَضْيَقِهِ»
ترجمه:تم یہود ونصاری کے ساتھ سلام میں پہل نہ کرو جب تم ان میں سے کسی سے راستے میں ملو تو اسے تنگ راستے پر مجبور کر دو
پہل نہیں کرنی لیکن اگر کوئی اہلِ کتاب خود سلام کر دے تو آپﷺ نے اس کا یہ حل پیش کیا
أَنَّ أَصْحَابَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالُوا لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّ أَهْلَ الْكِتَابِ يُسَلِّمُونَ عَلَيْنَا فَكَيْفَ نَرُدُّ عَلَيْهِمْ؟ قَالَ: «قُولُوا وَعَلَيْكُمْ»
ترجمہ: صحابہ نے آپﷺ سے پوچھا کہ اگر اہلِ کتاب ہمیں خود سلام کر دیں تو ہم ان کو کیسے جواب دیں آپﷺ نے فرمایا: انھیں علیکم کہہ دیا کرو
چنانچہ آج سے ہم نے عہد کرنا ہے کہ ہر مسلمان خواہ وہ جان پہچان والا ہو یا اجنبی ہو اس کو سلام کرنا ہے۔۔ آپﷺ نے قیامت کی نشانیوں کمیں سے اسک یہ بھی بیان فرمائی ہے کہ لوگ صرف اپنے جاننے والوں کو سلام کیا کریں گے۔۔۔
آخر میں سلام کے حوالے سے ایک آزمودہ نسخہ پیشِ خدمت ہے۔۔۔تکبّر ایک ایسی بیماری ہے جس میں انسان خالی ہاتھ ہوتے ہوئے بھی خود کو کوئی توپ سمجھنے لگتا ہے اور یہ کیفیت اکثر وپیشتر انسان پر وارد ہوتی رہتی ہے ۔۔۔۔۔جب ایسا محسوس ہو فوراً اپنے سے کسی ادنی شخص کو سلام کر لیں ان شاء اللہ ایسے پریشان کن خیالات دم دبا کر بھاگ جائیں گے