القول السدید
رکن
- شمولیت
- اگست 30، 2012
- پیغامات
- 348
- ری ایکشن اسکور
- 970
- پوائنٹ
- 91
السلام و علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاۃ
جو لوگ علامہ ناصر الدین البارنی ؒ کو توصحیح العقیدہ مانتے ہیں لیکن دوسری طرف کلمہ گو مشرک اور غیر کلمہ گو مشرک میں فرق نہیں کرتے،جو کبیرہ گناہ کے مرتکب مسلمان اور کافر میں فرق نہیں کرتے جو خطاکار مسلم اور کافر کو ایک ہی جیسا سمجھتے ہیں ان کے لیے یہ مضمون نہایت ہی شاندار ہے۔جس میں فضیلۃ الشیخ علامہ ناصر الدین البانی ؒ نے نہایت عمدہ انداز سے ان کی وضاحت کی ہے۔
خطبہ مسنونہ
(تمام تعریفیں اللہ رب العالمین کے لیے ہیں ،ہم اسی کی تعریف کرتے ہیں ، اسی سے مدد اورگناہوں کی بخشش چاہتے ہیں، ہم اپنے نفس اور اپنے برے اعمال کے شر سے اللہ کی پناہ چاہتے ہیں ،جسے اللہ ہدایت دیدے اسے کوئی گمراہ نہیں کر سکتا اور جسے وہ گمراہ کر دے اسے کوئی ہدایت نہیں دے سکتا اور میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں ، وہ اکیلا ہے اسکا کوئی شریک نہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد ﷺاس کے بندے اور رسول ہیں۔
﴿يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ حَقَّ تُقٰتِہ وَلَا تَمُوْتُنَّ اِلَّا وَاَنْتُمْ مُّسْلِمُوْنَ﴾
(آل عمران: 102)
(اے ایمان والو: اللہ سے ڈرو جس طرح اس سے ڈرنے کا حق ہے اور تمہیں ہرگز موت نہ آئے مگر اس حالت میں کہ تم مسلمان ہو)
﴿يٰٓاَيُّھَا النَّاسُ اتَّقُوْا رَبَّكُمُ الَّذِيْ خَلَقَكُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَةٍ وَّخَلَقَ مِنْھَا زَوْجَهَا وَبَثَّ مِنْهُمَا رِجَالًا كَثِيْرًا وَّنِسَاء ۚوَاتَّقُوااللّٰهَ الَّذِيْ تَسَاۗءَلُوْنَبِهوَالْاَرْحَامَۭاِنَّاللّٰهَكَانَ عَلَيْكُمْ رَقِيْبًا﴾ (النساء: 1)
(اے لوگو: اپنے رب سے ڈرو جس نے تمہیں ایک جان سے پیداکیا اور اسی سے اسکا جوڑا پیدا کیااور پھر اس جوڑے سے بے شمار مرد اورعورتیں پیدا کر کے پھیلادیں،اور ڈرو اس اللہ سے جس کے نام پر تم ایک دوسرے سے سوال کرتے ہو ،بے شک اللہ تم سب پر نگہبان ہے)
﴿يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَقُوْلُوْا قَوْلًا سَدِيْدًا، يُّصْلِحْ لَكُمْ اَعْمَالَكُمْ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوْبَكُمْ ۭوَمَنْيُّطِعِاللّٰهَوَرَسُوْلَه فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِيْمًا﴾ (الاحزاب: 70-71)
(اے ایمان والو: اللہ سے ڈرو اور سیدھی اور سچی بات کہو اللہ تمہارے اعمال درست کردے گا اور تمہارے گناہ بخشش دے گااور جس نے اللہ اور اسکے رسول کی اطاعت کی تو اس نے عظیم کامیابی حاصل کرلی)
امابعد: بے شک سب سے بہترین کلام ،اللہ کا کلام ہےاور سب سے بہتر رہنمائی ،محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رہنمائی ہے اور سب سے برا کام دین کے اندر نئی باتیں پیدا کرنا ہے ہر نئی چیز بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے اور ہر گمراہی آگ میں لے جانے والی ہے۔
محترم ابراہیم بھائی کا میرے بارے میں جو حسن ظن ہے اس پر میں ان کا بے حد شکر گزار ہوں،دراصل آپ کا یہ بھائی(شیخ البانی)آپ کی خدمت میں صرف اللہ کا دین سیکھنے اور سکھانے کے لیے حاضر ہوا ہے۔
توحید ہی تمام انبیاء کرام علیہم السلام کی دعوت کی بنیاد تھی
دوسری اہم بات جس کی طرف ابراہیم بھائی نے بھی اشارہ کیا ہے وہ یہ ہے کہ تمام انبیاء کی دعوت کی بنیاداللہ تعالی وحدہ لاشریک کی خالص عبادت ہے ۔ اللہ تعالی نے جو نبی اور جو رسول بھی کسی قوم کی طرف بھیجا اس نے سب سے پہلے ان لوگوں کو اس چیز کی طرف دعوت دی کہ﴿اعْبُدُوا اللّٰهَ وَاجْتَنِبُوا الطَّاغُوْتَ﴾)النحل: 36) (ایک اللہ کی عبادت کرو اور طاغوت سے بچو)۔رسول اللہﷺبھی یہی دعوت لے کردنیا میں تشریف لائے اور اسی بات پر انکا اپنی قوم سے اختلاف اور نزاع بھی رہا۔ آپ سب لوگ بخوبی جانتے ہیں کہ مشرکین مکہ اللہ تعالی کے ساتھ اور بھی کئی معبودات کی عبادت کرتے تھے ۔ جب اللہ کے رسوﷺنے انہیں اس بات کی دعوت دی کہ ایک اللہ کی عبادت کروجسکا کوئی شریک نہیںاور میرے ہم آواز ہو کر یہ اعلان کروکہ "لا الہ الا اللہ" (اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں)تو وہ بگڑ گئے اور کہنے لگے:
﴿اَجَعَلَ الْاٰلِـهَةَاِلٰــهًاوَّاحِدًااِنَّھٰذَالَشَيْءٌعُجَابٌ﴾(ص: 5)
(کیا اس نے تمام معبودوں کی جگہ ایک ہی معبود بنا ڈالا ،یہ تو بڑی انوکھی بات ہوئی)
توحید سے متعلق دعوت نبوی ﷺ
اسی طرح نبی کریم ﷺنے بھی توحید سے اپنی دعوت کا آغاز کیا ۔نبی کریم ؐ کی عادت مبارکہ تھی کہ جب بھی عرب کے کسی قبیلے کی طرف دعوت اسلام کی غرض سے اپنا کو ئی قاصد یا نمائندہ بھیجتے تووہ قاصد بھی لوگوں کو کسی ایسے اسلام کی طرف دعوت نہیں دیتے تھے جو غیر واضح اور مبہم ہو،بلکہ رسول اللہﷺ کے قاصداور داعی ،لوگوں کو وہی دعوت دیتے تھے جو خود اللہ کے رسول ﷺ کی دعوت ہوتی تھی کہ ،ایک اللہ کی عبادت کرو جس کا کوئی شریک نہیں، رسول اللہﷺ نے اپنے صحابہ کرام کو دعوت دین کا یہی طریقہ سکھلایا ۔صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں سیدنا انس بن مالک ؓ کی یہ روایت آئی ہے کہ جب رسول اللہﷺنے معاذ بن جبل ؓ کو دعوت اسلام کی غرض سے یمن کی طرف روانہ کیااور آپ کے علم میں ہوگا کہ اس زمانے میں یمن میں مشرکین کے علاوہ اہل کتاب عیسائی بھی آباد تھے جو اللہ کے ساتھ سیدنا عیسی ابن مریم علیہ السلام کو بھی پکارتے تھےچنانچہ رسول اللہﷺ نے سیدنا معاذ بن جبل ؓ کو یمن کی طرف روانہ کرتے ہوئے فرمایا (یہ ایک زبردست دلیل ہے جسے ذہن میں رکھنا چاہئے)
انَّكَ تَأْتِي قَوْمًا مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ، فَادْعُهُمْ إِلَى شَهَادَةِ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَنِّي رَسُولُ اللَّهِ، فَإِنْ هُمْ أَطَاعُوا لِذَلِكَ، فَأَعْلِمْهُمْ أَنَّ اللَّهَ افْتَرَضَ عَلَيْهِمْ خَمْسَ صَلَوَاتٍ فِي كُلِّ يَوْمٍ وَلَيْلَةٍ۔۔۔
تم ایک اہل کتاب قوم کی طرف جارہے ہو تو سب سے پہلے ان کو اس بات کی دعوت دینا کہ وہ اس امرکی گواہی دیں کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور محمدﷺاللہ کے رسول ہیں، پس اگر وہ تمہاری بات مان لیں تو پھر انہیں پنج وقتہ نماز کا حکم دینا۔۔۔)۔
اس حدیث ، گذشتہ آیت قرآنی اور اس قسم کی دیگر آیات سے یہ بات پوری طرح واضح ہوتی ہے کہ تمام انبیاء کرام اور انکے پیروکاروں نے ہمیشہ لوگوں کو اسی کلمہ توحید"لا الہ الا اللہ"کی طرف دعوت دی ہے اور انکی دعوت میں سب سے زیادہ زور اسی نقطہ توحید پر ہوتا تھا۔
مسلمانوں کی اکثریت کلمے کے صحیح مفہوم سے ناآشنا ہے
لیکن آج مسلمان اس حقیقی دین اسلام سے بہت دور ہوچکے ہیں جو اللہ کے رسولﷺ لیکر آئے ،وہ ایک صاف ستھرا اور شفاف دین تھا جیسا کہ حدیث میں آتا ہے کہ''لَيْلُهَا كَنَهَارِهَا ''یعنی اس کی رات بھی دن کی طرح روشن اور منور ہے، اور اس وسیع دوری کا سبب آج کے مسلمانوں کی اپنے دین سے دوری ہے۔
آج اسلام کے فروعی مسائل تو کجا اس کے اصولی نظریات اوربنیادی عقائدمیں بھی ایسی نئی چیزیں داخل ہو چکی ہیں جن کا قرون اولی کے مسلمانوں کے ہاں کوئی تصور ہی نہیں تھا۔
آپ سب حضرات جانتے ہیں کہ اللہ تعالی نے قرآن کریم محمدرسول اللہﷺ پر نازل فرمایا اور جو لوگ اسکے اولین مخاطب تھے وہ خالص عرب تھے اور وہ قرآن کریم کی اکثرآیات و بیانات کوکسی تشریح کے بغیر سمجھ سکتے تھے، ہاں جن آیات کا کسی خاص شرعی مسئلے سے کوئی تعلق ہوتا تو اس کی وضاحت کے لیے اللہ کے رسول ﷺسے اسکی تشریح فرما دیتے تھے۔
لیکن آج چونکہ ہم عربوں کی زبان میں مختلف سائنسی علوم وفنون داخل ہو چکے ہیں اس لیے ہم آج عربی زبان کے اعتبار سے قرآ ن کریم کی عبارت کو برا ہ راست اس انداز میں نہیں سمجھ سکتے جس طرح کہ قرون اولی کے عرب سمجھ سکتے تھے۔یہی حال عرب کے ان مشرکین کا تھا جنہوں نے دعوت توحید کی مخالفت کی جیسے ابو جہل ،ابو لھب، عتبہ، شیبہ وغیرہ۔جب اللہ کے رسولﷺ نے ان سے فرمایا کہ: ''أُمِرْتُ أَنْ أُقَاتِلَ النَّاسَ حَتَّى يَشْهَدُوا أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ (مجھے حکم دیا گیا ہے کہ اس وقت تک لوگوں سے جنگ کرتا رہوں جب تک کہ وہ اس بات کی گواہی نہ دیدیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں) وہ اچھی طرح سمجھتے تھے کہ اس گواہی کا مطلب یہ ہے کہ اس وقت(یعنی عہد نبوت میں)روئے زمین پر اللہ کے سوا جتنے بھی معبود وں کی پرستش ہو رہی ہے ان سب کی معبودیت کاانکار کر دیا جائے اور اعلان کردیا جائے کہ ایک اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں۔کیونکہ یہ تمام مشرکین اللہ کے ساتھ دوسرے معبودوں کی عبادت بھی کرتے تھے۔
وہ عربی زبان جس میں قرآن کریم نازل ہوا اس میں لفظ(الہ) کا جو حقیقی مفہوم ہے اور جو مفہوم اسکا ان عربوں نے سمجھا جن کی طرف اللہ کے رسول ﷺ مبعوث کیے گئے تھے ، اس مفہوم کو آج اکثر مسلمان پوری طرح نہیں سمجھتے بلکہ وہ اس لفظ سے ایک ایسا معنی مراد لیتے ہیں جو کہ لفظ (الہ) کا مترادف نہیں بلکہ وہ مفہوم اس معنی کا جزء ہے جو معنی لفظ الہ ادا کر رہا ہے۔
آج اکثر مسلمان جن میں بعض ایسے مسلمان بھی ہیں جو خود کو دین کا داعی اور مبلغ سمجھتے ہیں ان کا خیال یہ ہے کہ الہ کا معنی ہے رب (یعنی پالنے والا) اور وہ کلمہ طیبہ لا الہ الا اللہ ،جو کہ پورے دین اسلام کی بنیاد ہے، کی تشریح بھی اسی انداز میں کرتے ہیں۔ ان کے نزدیک لا الہ الا اللہ کا معنی ہے لا رب الا اللہ (یعنی اللہ کے سوا کوئی رب نہیں)اور یہ اس کلمہ طیبہ کا بالکل ناقص اور نامکمل ایک جزوی مفہوم ہے۔
حدیث میں آتا ہے من شھد ان لا الہ الا اللہ (کہ جس نے یہ گواہی دی کہ اللہ کے سوا کوئی معبودبرحق نہیں)مذکورہ تشریح کے مطابق اس کے معنی یہ ہونگے کہ من شھد ان لا رب الا اللہ(کہ جس نے یہ گواہی دی کہ اللہ کے سوا کوئی رب نہیں) یعنی صرف اللہ کے سوا کوئی رب نہیں، اس لفظ صرف کو اچھی طرح سمجھنے کی ضرورت ہے، دراصل میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ لا الہ کا صرف یہ مطلب لینا کہ اللہ کے سوا کوئی رب نہیں، اللہ کے سوا کوئی خالق نہیں، یہ عربی لغت کے اعتبار سے درست نہیں۔
ہر مسلمان کے لیے کلمہ طیبہ لا الہ الا اللہ کی گواہی دینا ضروری ہے ، اس لیے ہر مسلمان کے لیے یہ بات اشد ضروری ہے کہ وہ اس کلمہ حق کی شھادت دینے سے پہلے اور اس کلمہ طیبہ کو اپنا عقیدہ اور ایمان کی بنیاد بنانے سے پہلے یہ بات اچھی طرح سمجھ لے کہ اس کلمہ کا معنی یہ ہے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں، پس جب اس نے یہ صحیح فہم حاصل کرلیا اور اس کلمے کے معنی اچھی طرح سمجھ لیے تو وہ جادہ حق پر گامزن ہو گیا اور کامیابی کی ڈور کا پہلا سرا اس کے ہاتھ آ گیا۔اب اسے چاہیے کہ اس نے اس کلمہ طیبہ سے جو مفہوم سمجھا ہے اور جس چیز پر وہ ایمان لایا ہے اور جس حقیقت کی اس نے تصدیق کی ہے اسے اپنی عملی زندگی میں لاگو کرے اور اپنے عمل سے اس حقیقت کو ثابت کرے کہ وہ ایک اللہ کا عبادت گزار ہے جو یکتا ہے اور جس کا کوئی شریک نہیں۔
عبادت کے صحیح مفہوم سے جہالت
بہت سے لوگوں کایہ خیال ہے کہ عبادت صرف اللہ کے لیے نمازپڑھنے کا نام ہے۔باقی اگر آپ کبھی کسی غیر اللہ کے سامنے رکوع یا سجدہ کریں یا مصیبت کے وقت اگر کبھی کسی غیر اللہ کو مدد کے لیے پکار لیں تو اس سے شھادت توحید میں کوئی فرق نہیں پڑتا اور آپ اسی طرح مومن اور موحد ہی رہتے ہیں۔اسی طرح بہت سے لوگوں کا یہ خیال ہے کہ مصائب اور پریشانیوں میں غیر اللہ سے مدد مانگنا شھادت توحید کے منافی نہیں، یہ بہت بڑی غلطی ہے۔کیونکہ اس شہادت کا مطلب ہی یہ ہے کہ ایک اللہ عزوجل کے سوا اس پوری کائنات میں کوئی دوسرا معبود برحق نہیں،لیکن جب آپ نے مصیبت کے وقت کسی غیر اللہ سے فریاد کی یا مدد مانگی ، جب کہ حقیقت یہ ہے کہ کوئی انسان خواہ وہ زندہ ہو یا مردہ مصیبت میں آپ کی کوئی مدد نہیں کر سکتا، تو آپ نے اس غیر اللہ کو اللہ کا شریک بنا دیا، اس طرح آپ نے اس شہادت کو مجروح کر دیا اور جس طرح اس شہادت پر ایمان لانے کا حق تھا اس طرح آپ اس پر ایمان نہیں لائے۔
آپ یہ بات اچھی طرح جانتے ہیں کہ آج جتنے بھی مسلمان نماز پڑھتے ہیں ان میں سے کسی کی نماز بھی اس وقت تک درست نہیں ہوتی جب تک کہ وہ اس میں سورۂ فاتحہ نہ پڑھے، اور اس سورۂ فاتحہ کے شروع میں ہر مسلمان اپنے رب سے مخاطب ہو کر یہ اعلان کرتا ہے کہ:
﴿اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَاِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ﴾
(ہم صرف تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور صرف تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں)
اکثر لوگ اتنی بات سمجھتے ہیں کہ اللہ کے سوا کسی اور کی عبادت جائز نہیں،اور یہی اس کلمہ طیبہ کی بنیاد اور اساس ہے جسے سمجھنا ہر مسلمان کے لیے ضروری ہے۔لیکن وہ یہ بات نہیں سمجھتے کہ اسی آیت میں یہ بھی ہے ﴿وَاِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ﴾ جسکا مطلب یہ ہے اللہ عزوجل کے سوا کسی اور سے مدد مانگنا ایک اللہ کی عبادت کے منافی ہے۔چنانچہ جب ہم بعض لوگوں کو سنتے یا دیکھتے ہیں کہ وہ مصیبت میں انبیاء اولیاء اور بزرگوں سے مدد مانگ رہے ہیں ، حالانکہ وہ یہ بات جانتے ہیں کہ وہ اللہ کے نیک بندے خود اپنے آپ کو بھی کسی قسم کا کوئی نفع یا نقصان پہنچانے پر قادر نہیں ہیں تو یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ وہ لا الہ الا اللہ کا صحیح مفہوم نہیں سمجھ سکے۔لیکن دور نبوت کے مشرکین اس کلمے کی معنوی حقیقت کو اچھی طرح سمجھتے تھے یہی وجہ ہے کہ وہ نہ تو اس کلمے کے سامنے جھکے اور نہ اس پر ایمان لائے،بلکہ انہوں نے اللہ کے رسول ؐ کے سامنے تعجب کا اظہارکیا اور کہنے لگے(کیا اس شخص نے تمام معبودوں کی جگہ ایک ہی معبود بنا ڈالا، یہ تو بڑی انوکھی بات ہے)۔
کلمہ گو مشرکین اور قدیم مشرکین میں فرق
آج کے مسلمانوں اور قدیم زمانے کے مشرکین میں یہ فرق ہے کہ عرب کے مشرکین اس شہادت حق کا معنی و مطلب اچھی طرح سمجھتے اور جانتے تھے لیکن اس پر ایما ن نہیں رکھتے تھے، جب کہ آج کے مسلمانوں کا حال یہ ہے کہ وہ اس کلمہ حق پر ایمان تو رکھتے ہیں لیکن اس کا صحیح مفہوم نہیں جانتے، مسلمانوں میں ایسے لوگ بہت کم ہیں جو اس کلمہ طیبہ اور اس شہادت حق کو صحیح معنوں میں سمجھتے اور اس پر ایمان رکھتے ہیں ورنہ اکثریت کا حال یہ ہے کہ محض زبان سے اس شہادت کو ادا کررہے ہیں لیکن دل اس شہادت کی حقیقت سے خالی ہیں۔جیسا کہ اللہ تعالی نے عرب کے بدؤوں کے متعلق فرمایا ہے کہ:
﴿ قَالَتِ الْأَعْرَابُ آمَنَّا قُل لَّمْ تُؤْمِنُوا وَلَـٰكِنقُولُواأَسْلَمْنَاوَلَمَّا يَدْخُلِ الْإِيمَانُ فِي قُلُوبِكُمْ﴾(الحجرات: 14)
(عرب کے بدو کہتے ہیں کہ ہم ایمان لے آئے ہیں ، اے نبی! آپ ان سے کہیں کہ ابھی تم نے ایمان قبول نہیں کیابلکہ تم کہو کہ ہم اسلام میں داخل ہوئے ہیں ابھی حقیقی ایمان تو تمہارے دلوں میں داخل ہی نہیں ہوا)
اور ایمان دو چیزوں سے دل میں اترتا ہے (١) صحیح فہم (٢) صحیح ایمان
اسی لیے اللہ تبارک وتعالی نے ایسے لوگوں کی سرزنش کی ہے جو قرآن کریم پڑھتے ہیں لیکن اسے سمجھتے نہیں، اللہ تعالی کا ارشاد ہے:
﴿اَفَلَا يَتَدَبَّرُوْنَ الْقُرْاٰنَ اَمْ عَلٰي قُلُوْبٍ اَقْفَالُهَا﴾محمد: 24)
کیا یہ لوگ قرآن میں غور وفکر نہیں کرتے یا ان کے دلوں پر تالے لگے ہوئے ہیں)۔
چنانچہ اسلام کے بنیادی مسائل میں سے ایک قرآن کریم کا صحیح فہم حاصل کرنا ہے۔قرآن کریم میں ارشاد باری تعالی ہے:
﴿فَاعْلَمْ اَنَّه لَآ اِلٰهَ اِلَّا اللّٰهُ﴾(محمد: 19)
پس جان لو کہ ایک اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں)۔
لہذا آج کے مسلمان بلاشبہ مسلمان تو ہیں کیونکہ وہ لا الہ الا اللہ کی شہادت دیتے ہیں،اس حیثیت سے وہ ان مشرکین سے جدا ہیں جنہوں نے اس کلمہ حق کی شہادت نہیں دی ، لیکن وہ مشرکین بھی یہ بات جانتے تھے کہ اگر انہوں نے اس شہادت کو اپنی زبان سے ادا کر دیا تو پھر اسکے تقاضوں کو پورا کرنا ان پر لازم ہو جائیگا۔اور اس بات کا اولین تقاضہ یہ ہے کہ ایک اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کی جائے ، اور اسی وجہ سے وہ اس شہادت کو زبان سے ادا کرنے سے صریح انکار کرتے تھے۔
مشرکین کا شرک آخر کیا تھا؟
چنانچہ قرآن کریم میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے:
﴿وَالَّذِيْنَ اتَّخَذُوْا مِنْ دُوْنِه اَوْلِيَاۗءَمَانَعْبُدُهُمْاِلَّالِيُقَرِّبُوْنَآاِلَىاللّٰهِزُلْفٰى﴾الزمر: 3
اور جن لوگوں نے اللہ کے سوا اوروں کو اپنا اولیاء (مددگار) بنایا ہوا ہے ان کا کہنا ہے کہ ہم تو ان کی عبادت صرف اس لیے کرتے ہیں تاکہ وہ ہمیں اللہ کے قریب کردیں۔
چنانچہ انہوں نے واضح طور پر تسلیم کیا کہ وہ اللہ تعالی کے ساتھ اور معبودوں کی پرستش بھی کرتے ہیں۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان کی عبادت کیا تھی؟کیا وہ ان معبودوں یاان بتوں کے لیے جن کی وہ عبادت کرتے تھے نماز پڑھتے تھے جب کہ یہ واضح ہے کہ ان کے ہا ں نماز کا کوئی تصور نہیں تھا،ظاہرہے کہ اس کا جواب نفی میں ہے۔لیکن سوال اپنی جگہ قائم ہے کہ پھر آخر وہ کونسی عبادت تھی جس کے متعلق قرآن کریم نے صراحت کے ساتھ ان کا اعتراف نقل کیا ہے کہ وہ ان معبودوں کی عباد ت کرتے تھے۔یہ عرب کے مشرکین بتوں کی کسی خصوصیت کی وجہ سے انکی عبادت نہیں کرتے تھے بلکہ ان کا مقصد صرف یہ تھا کہ وہ انہیں اللہ تعالی کے قریب کر دیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ دور جاہلیت کے یہ مشرک ان معبودان باطلہ کے ساتھ ایسا کونسا سلو ک کرتے تھے کہ جسے قرآن کریم نے عبادت قراردیااور اس پر اعتراض کیا۔
اس سوال کا جواب ہمیں قرآن کریم سے یہ ملتا ہے کہ وہ لوگ بتوں کے لیے جانور ذبح کرتے ،انکے لیے نذرونیاز دیتے اور چڑھاوے چڑھاتے تھے،مصائب اورمشکلات میں ان سے مدد مانگتے تھے۔لیکن جب کوئی ایسی مصیبت آتی جس کے بارے میں انہیں علم ہوتا کہ اللہ کے سوا انہیں اس سے کوئی بچانے والا نہیں تو پھر سارے معبودان باطلہ کو بھلا کر ایک اللہ کو پکارتے اور اسی سے پناہ طلب کرتے،ان کا یہ طرز عمل متعدد آیات میں مذکور ہے۔
لہذا ایک مسلمان کے لیے بہت ضروری ہے کہ وہ ان باتوں کا علم حاصل کرے جو توحید کے منافی ہیں تاکہ کہیں وہ غیر شعوری طور پراس گمراہی میں نہ گر پڑے۔چنانچہ بعض احادیث میں وارد ہے کہ:
من قال لا الہ الا اللہ وکفر بما سوی اللہ دخل الجنۃ
(جس نے لا الہ الا اللہ کا اقرار کیا اور غیر اللہ کا انکار کردیا وہ جنت میں داخل ہوگا) لہذا جنت میں داخلے کے لیے اللہ تعالی کی عبادت کا اقرار اور غیر اللہ کی عبادت کی نفی دونوں ہی ضروری ہیں۔
عبادات کا دائرہ بہت وسیع ہے اور اسکی بہت سی اقسام ہیں۔مختصر یہ کہ عبادت کے نام پر ہم اللہ تعالی کے لیے جو بھی عمل کرتے ہیں خواہ وہ فرائض ہوں ،واجبات ہوں، مستحبات ہوں ، نوافل ہوں یہ سب عبادت ہی کی شکلیں ہیں اور کسی مسلمان کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ اس طرح کا کوئی بھی عمل کسی غیراللہ کے لیے انجام دے۔
قرآن کریم میں اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ:
﴿قُلْ اِنَّ صَلَاتِيْ وَنُسُكِيْ وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِيْ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَو لَا شَرِيْكَ لَه﴾
الانعام: 162-163
(اے نبی آپ کہہ دیجیے کہ میری نماز اور میری قربانی اور میرا مرنا اور میرا جینا سب کچھ ا س اللہ رب العالمین لیے ہے جس کا کوئی شریک نہیں)
تواسکامطلب یہ ہوا کہ جس نے غیر اللہ کے لیے قربانی کی یا جانور ذبح کیا تو گویا اس نے غیر اللہ کی عبادت کی،دیکھیں عبادت کے لیے یہ ضروری نہیں کہ غیراللہ کے لیے نماز بھی پڑھی جائے،بلکہ شرک کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ کوئی غیر اللہ کے لیے جانور ذبح کرے یا اس کے نام کی نذر ونیاز دے یا اس کے نام کی قسم کھائے۔یہ تمام باتیں حرام اور ناجائز بلکہ شرک ہیں اور ایسی متعددصحیح احادیث موجود ہیں جن میں رسول اللہﷺ نے ایسا کام کرنے والے پر لعنت فرمائی ہے۔رسول اللہﷺ کا ارشاد ہے: ''من ذبح لغیر اللہ فھو ملعون،من ذبح لغیر اللہ فھو ملعون،من ذبح لغیر اللہ فھو ملعون''
جس نے غیر اللہ کے لیے جانور ذبح کیا وہ ملعون ہے، جس نے غیر اللہ کے لیے جانور ذبح کیا وہ ملعون ہے،جس نے غیر اللہ کے لیے جانور ذبح کیا وہ ملعون ہے۔
اللہ کی رحمت سے دور ہے، آخر کیوں؟کیونکہ اس نے ایک ایسے عمل کے ذریعے غیر اللہ کا قرب حاصل کرنے کی کوشش کی جو صرف اللہ تعالی کے لیے مخصوص ہے۔اس لیے میرے بھائیو، اللہ تعالی آپ کو برکت دے، یہ کسی طرح مناسب نہیں کہ آپ صرف زبان سے کلمہ توحیدادا کریں،صبح وشام نمازیں پڑھیں،اللہ کی تسبیح وتہلیل کریں اسکی حمدوثناء کریں اور صرف زبان سے کلمہ توحید پڑھتے رہیں لیکن اسکے معنی کو نہ سمجھیں ،اور نہ یہ مناسب ہے کہ ایک طرف توکلمہ توحید کا ورد آپ کی زبان پرہو اور دوسری طرف آپ ایسے کام کرتے رہیں جو کہ توحید کے منافی ہیں۔
شرک میں ملوث کلمہ گو لوگوں کو کیسے دعوت دی جائے
آج اکثر مسلمانوں کا جو حال ہے اسکی بعض مثالیں میں نے آپ کے سامنے پیش کی ہیں۔یہ مثالیں جو میں نے آپ کے سامنے پیش کی ہیں یہ محض خیالی یافرضی باتیں نہیں بلکہ حقیقت ہیں اور انتہائی افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ آج اکثر مسلمانوں کے اندر یہ سارے امراض نظر آرہے ہیں۔اور نہ صرف عام لوگوں میں بلکہ خاص لوگوں میں بھی یہ چیزیں موجود ہیں جو اگر خود نہیں بھی کرتے تو کم ازکم ا ن جہالتوںکی تائید ضرورکرتے ہیں۔یہ لوگ بڑے آرام سے کہہ دیتے ہیں کہ انہیں ان کے حال پہ چھوڑ دو انہیں کچھ نہ کہو ، ان کی نیت اچھی ہے،یہ نری گمراہی ہے ۔ یہ لوگ دراصل اس شرک کی تائید کر رہے ہیں جس میں بعض جاہل مسلمان اپنی جہالت اور ناسمجھی کی وجہ سے مبتلا ہیں۔چاہیے تو یہ تھا کہ یہ لوگ انہیں سمجھاتے اور انہیں ان گمراہیوں سے بازرکھنے کی کوشش کرتے ،لیکن اسکے بجائے انہوں نے یہ طرز عمل اپنایا کہ انہیں انکے حال پہ چھوڑ دینا مناسب سمجھا۔
ہاں اس میں کوئی حرج نہیں کہ یہ لوگ ان کو پیار سے ،محبت سے، خیر خواہی اور ہمدردی سے سمجھائیں اور بتائیں کہ میرے بھائی تم فلاں بزرگ کی نذرونیاز کیوں دیتے ہواور اسکی قبر پہ چڑھاوے کیوں چڑھاتے ہو ؟ کیا تم اس طرح اس خدا کے نیک اور صالح بندے کی عزت وتوقیر کرنا چاہتے ہو ؟ اگر یہ بات ہے تو یہ اسکا مناسب طریقہ نہیں ، کیونکہ یہ کیسے ممکن ہے کہ ہم اللہ تعالی کے اولیاء اور نیک بندوں کے نظریات وعقائد کو جھٹلا کر اور انکے خیالات کی نفی کر کے اورانکے طرز عمل کے خلاف عمل کرکے یہ سمجھیں کہ ہم ان کی عزت افزائی کر رہے ہیں ، انکا احترام وتکریم کر رہے ہیں اور انکی عظمت لوگوں کے دلوں میں اجاگر کر رہے ہیں۔میرے محترم بھائی اس طرح اولیاء اللہ کی قطعاً کوئی تعظیم نہیں ہوتی یہ تو فی الحقیقت انکی سراسر توہین ہے۔
اللہ کے نیک اور برگزیدہ بندے اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہیں کرتے ، نہ وہ اللہ کے سوا کسی کے لیے جانور ذبح کرتے یا قربانی کرتے ہیں، نہ وہ اللہ کے سوا کسی اور کی نذرونیاز دیتے ہیں اور نہ وہ اللہ کے سوا کسی اور کے نام کی قسم کھاتے ہیں، یہ ہے اللہ والوں کا کردار،اس لیے میرے مسلمان بھائی آپ نہ کسی قبر والے کے لیے جانور ذبح کریں اور نہ ہی کسی ولی کے لیے ذبح کریں ، اگر آپ نے جانور ذبح کرنا ہے تو صرف اللہ تعالی کے نام پر ذبح کریں اور اپنے قلب وزبان سے یہ گواہی دیں کہ میری نماز میری قربانی میرا مرنا اور میرا جینا سب اللہ رب العالمین کے لیے ہے جس کا کوئی شریک نہیں۔
مسلم معاشروں میں رائج بعض مشہور شرکیہ امور
دیکھیے اللہ تعالی نے نماز کے ساتھ قربانی کو کس طرح ملایا ہے(میری نماز میری قربانی میرا مرنا اور میرا جینا سب اللہ رب العالمین کے لیے ہے) لہذا کسی مسلمان کے لیے جائز نہیں کہ وہ مسلمان نماز اور قربانی میں فرق کرے اور یہ کہے کہ میں تو اللہ کے لیے نماز پڑھتا ہوں (اور دوسری طرف غیر اللہ کے لیے قربانیاںکرتا رہے) بلکہ مناسب یہ ہے کہ جو بات وہ زبان سے کہتا ہے اسے اپنے عمل سے بھی ثابت کرے اور نما ز کی طرح قربانی بھی اللہ ہی کے لیے مخصوص کرے اور اللہ کے سوا کسی اور کے لیے قربانی نہ کرے۔کیونکہ صحیح مسلم کی ایک صحیح حدیث میں جس کی صحت میں کوئی شک نہیں، اس میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ: ''لَعَنَ اللَّهُ مَنْ لَعَنَ وَالِدَهُ، وَلَعَنَ اللَّهُ مَنْ ذَبَحَ لِغَيْرِ اللَّهِ، وَلَعَنَ اللَّهُ مَنْ آوَى مُحْدِثًا، وَلَعَنَ اللَّهُ مَنْ غَيَّرَ مَنَارَ الْأَرْضِ''
(اللہ تعالی نے لعنت کی اس شخص پر جو اپنے والد (یاوالدین)پر لعنت کرے، اور اس پر بھی لعنت فرمائی جو غیراللہ کےلیے ذبح کرے، اور اس پر بھی کہ جو کسی بدعتی کو پناہ دے، اور اس پر بھی کہ جو زمین کے ملکیتی نشانات تبدیل کرے)۔ اس حدیث میں کچھ تفصیل بھی ہے لیکن ہمارے لیے اتنی دلیل کافی ہے کہ:(جس نے غیر اللہ کے لیے جانور ذبح کیا وہ ملعون ہے ) اور دوسری حدیث میں فرمایا: ''لَا تَحْلِفُوا بِآبَائِكُمْ، مَنْ كَانَ حَالِفًا فَلْيَحْلِفْ بِاللَّهِ أَوْ لِيَصْمُتْ''
اپنے آباء کے نام کی قسمیں مت کھایا کرو، جس نے قسم کھانی ہو وہ اللہ کے نام کی قسم کھائے یا خاموش رہے۔
اور فرمایا: ''مَنْ حَلَفَ بِغَيْرِ اللَّهِ فَقَدْ كَفَرَ أَوْ أَشْرَكَ''
(جس نے غیر اللہ کی قسم کھائی اس نے کفر کیا یا شرک کیا)۔
لیکن آج عرب معاشرے میں غیر اللہ کی قسمیں کھانے کا عام رواج ہے،یہ انتہائی عجیب بات ہے کہ یہ رواج بعض عجمی ممالک سے بھی زیادہ ہے،حالانکہ یہ عرب ہی تھے جنہوں نے سب سے پہلے اس دعوت توحید کو قبول کیا،اس کی حفاظت کی اور یہی انہیں کرنا بھی چاہیے ۔ اور موجودہ دور میں بھی سب سے پہلے یہ ذمہ داری انہی پر عائد ہوتی ہے، کیونکہ اللہ اور اسکے رسول ﷺ کے پیغام کو صحیح طور پر براہ راست وہی سمجھ سکتے ہیں۔
اور یہ دلیل بھی یاد رکھیں کہ یہ کلمہ طیبہ لا الہ الا اللہ جس کی برکت سے مسلمان دنیا میں اس بات سے محفوظ ہو جاتا ہے کہ اس سے جنگ کی جائے یا اس پر جزیہ فرض کیا جائے اور وہ ذلیل ہو کر یہ جزیہ ادا کرتا رہے، اور قیامت میں دائمی عذاب جہنم سے نجات پاتا ہے۔ یہ کلمہ طیبہ انسان کو اس وقت فائدہ دیتاہے جب وہ اس کوصحیح طور پر سمجھے اورپھر اس صحیح فہم پر خلوص دل سے ایمان لائے اورپھر اس کلمے کو اپنی پوری زندگی اور اپنے پورے وجود پرنافذکرے۔ اس لیے اس تقریر کے آخر میں سیدنا حذیفہ بن الیمان ؓ کی یہ بات پلے باندھ لیجیے ، وہ فرماتے ہیں کہ: ''كَانَ النَّاسُ يَسْأَلُونَ رَسُولَ اللَّهِ عَنِ الْخَيْرِ وَكُنْتُ أَسْأَلُهُ عَنِ الشَّرِّ مَخَافَةَ أَنْ يُدْرِكَنِي'' ( لوگ رسول اللہﷺ سے خیر اور بھلائی کی باتیں پوچھا کرتے تھے جبکہ میں آپﷺ سے ہمیشہ شراور فتنے کے متعلق دریافت کیا کرتا تھااس ڈر سے کہ کہیں میں اس میں مبتلا نہ ہوجاؤں)۔ اس لیے آپ کو بھی چاہیے کہ آپ ان شرکیہ باتوں کے متعلق دریافت کیاکریں جو عقیدہ توحید کے منافی ہیں تا کہ یہ عقیدہ توحید آپ کے دل ودماغ میں اچھی طرح بیٹھ جائے اور راسخ ہو جائے اورآپ کی پوری زندگی اس صحیح عقیدے اور صحیح ایمان پر قائم ہو جائے۔
چنانچہ دونوں باتیں بہت ضروری ہیں، ایک اللہ وحدہ لا شریک کی عبادت پر ایمان بھی ضروری ہے اور ان شرکیہ عقائد واعمال کاجاننا بھی ضروری ہے کہ جو عقیدہ توحید کے منافی ہیں۔
اب میں آخری بات کہنا چاہتا ہوں کہ آج عام مسلمان اور خاص طور پر داعی حضرات لوگوں کو یہ با ت سمجھانے کی بالکل کوشش نہیں کرتے کہ لا الہ الا اللہ کی شہادت کیا ہے اور اس کے کیا تقاضے ہیں اور کون کون سی باتیں اس کے منافی ہیں۔وہ سمجھتے ہیں کہ آج کے دور میں الحمد للہ سب مسلمان مومن موحد ہیں، وہ یہ بات بھول جاتے ہیں کہ جب عربی زبان میں عجمی اثرات داخل ہو گئے اور عرب کے لوگوں میں مشرکانہ رسوم وروایات اور عقائد ونظریات پھیلنا شروع ہوئے اور ایسی ایسی مشرکانہ باتیں اسلام میں داخل ہو گئیں جن کا اسلام سے دور کا بھی واسطہ نہ تھا اور قرون اولی کے مسلمانوں نے جن کا کبھی تصور بھی نہیں کیا تھا تو قرآن وسنت کے ماہر محقق علماء کرام نے عقیدہ توحید کا گہرائی سے جائزہ لیا اور توحید کی تین قسمیں بیان کیں۔
توحید کی تین اقسام
(1) توحید ربوبیت:
اور میں یہاں یہ بتاتا چلوں کہ توحید ربوبیت توحید کی پہلی قسم ہے اور یہ توحید کی دوسری اور تیسری قسم کی بنیاد ہے۔ اس توحید پر قد یم زمانے کے مشرکین بھی ایمان رکھتے تھے لیکن کیا ان کو اس سے کچھ فائدہ ہوا ؟ نہیں ، کیوں؟ اس لیے کہ وہ توحید کی دوسری قسم توحید عبادت کا انکار کرتے تھے، اور ابھی میں نے آپ کو بتایا کہ وہ کہتے تھے(ہم تو ان اولیاء کی عبادت اس لیے کرتے ہیں تا کہ وہ ہمیں اللہ کے قریب کر دیں) اور یہ بات قرآن وسنت کےبہت سی نصوص میں وارد ہے کہ وہ توحید ربوبیت پر ایمان رکھتے تھے ۔مثلاً قرآن کریم میں ایک جگہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
﴿وَلَىِٕنْ سَاَلْتَهُمْ مَّنْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ لَيَقُوْلُنَّ اللّٰهُ﴾(لقمان: 25)
اے نبی! اگر آپ ان سے یہ پوچھیں کہ زمین و آسمان کو کس نے پیدا کیاہے تو یقیناًکہیں گے کہ اللہ نے۔
تو گویا وہ اس بات کا اعتراف کرتے تھے کہ زمین وآسمان کا خالق ایک ہی رب ہے جو وحدہ لاشریک ہے ، اس طرح کی اور بھی بہت سی آیات ہیں جن سے یہ حقیقت ثابت ہوتی ہے ۔لیکن میں آپ کو حدیث رسول ﷺ کی روشنی میں بتاؤں گا کہ توحید ربوبیت پر ایمان رکھنے کے با وجود وہ غیر اللہ کی عبادت کا ارتکاب کیسے کرتے تھے ۔
ان میں سے جب کوئی بیت اللہ کا طواف کرتا تو سیدنا ابراہیم و اسماعیل علیہما السلام اور ان کے پیروکاروں کی طرح وہ بھی تلبیہ پڑھتا ''لَبَّيْكَ لَا شَرِيكَ لَكَ'' (اے اللہ میں حاضرہوں میں تیرا کوئی شریک نہیں) یہاں تک تو یہ و ہی موحدین والا تلبیہ ہے لیکن اس کے بعد شرک اور گمراہی کی وجہ سے اپنے پاس سے یہ کہتے ''إِلَّا شَرِيكًا هُوَ لَكَ تَمْلِكُهُ وَمَا مَلَكَ'' (سوائے اس شریک کے جس کا تو مالک ہے اور جس چیز کا وہ (شریک) مالک ہے اس کا بھی تو ہی مالک ہے)۔
رسول اللہﷺ جب مکہ میں تھے تو آپﷺ نے ان مشرکین کو دن رات اس بات کی دعوت دی کہ ایک اللہ کے سوا کسی اور کی عبادت نہ کرو۔آپ ﷺ جب بھی کسی مشرک کو تلبیہ کے دوران یہ کہتے ہوئے سنتے کہ وہ لا شریک لک کے بعد جملہ استثنائیہ کہنا چاہتا ہیں تو آپ فوراً فرماتے کہ بس بس اس سے آگے یہ مت کہنا کہ: إِلَّا شَرِيكًا هُوَ لَكَ تَمْلِكُهُ وَمَا مَلَكَ(سوائے اس شریک کے جس کا تو مالک ہے اور جس چیز کا وہ (شریک) مالک ہے اس کا بھی تو ہی مالک ہے)۔
اب ذرا ان کی گمراہی کو دیکھیے اور ساتھ ہی اس شریک کی حیثیت کو بھی مد نظر رکھیے جس کو انہوں نے اللہ کا شریک بنایا ہوا ہے ، حالانکہ یہ شریک اللہ تعالی کا بندہ اور ملکیت ہے لیکن اس کے باوجود انہوں نے اسے اللہ کا شریک بنا دیا، بلاشبہ یہ نری گمراہی ہے ۔
اس لیے علماء کرام نے توحید کی تین قسمیں بیان کی ہیں:
(1) توحید ربوبیت ، جس پر مشرکین عرب بھی ایمان رکھتے تھے۔
(2) توحید العبادۃ، اسے توحید الوہیت بھی کہا جاتا ہے ، یعنی اللہ کے سوا اس پوری کائنات میں کوئی معبود برحق نہیں اور اللہ کے سوا کسی اور کے لیے کسی بھی طرح کی عبادت جائز نہیں۔
(3) توحید الاسماء والصفات، یعنی جس طرح اللہ تعالی اپنی ذات میں یکتا اور لا شریک ہے اسی طرح وہ اپنی الوہیت میں ، اپنی معبودیت میں، اپنے ناموں اور صفات میں بھی یکتا اور لا شریک ہے کوئی اس کا کسی بھی طرح شریک وسہیم نہیں اور نہ اس کے سوا کوئی عبادت کے لائق ہے۔
﴿لَيْسَ كَمِثْلِه شَيْءٌ وَهُوَ السَّمِيْعُ الْبَصِيْرُ﴾(الشوری: 11)
(اس جیسی کوئی چیز نہیں اور وہ سنتا اور دیکھتا ہے)
یہاں تھوڑی دیر رک کر ایک بات کو اچھی طرح سمجھ لینا بہت ضروری ہے ، اگرچہ بات ذرا لمبی ہو جائیگی لیکن چونکہ یہ بات بہت اہم ہے اس لیے اسے ترک کر دینا مناسب نہیں۔
آج بہت سے مسلمان اس شرک فی الاسماء والصفات میں مبتلا ہیں، بہت سے لوگ اور خصوصاً وہ لوگ جونام نہاد تصوف اور صوفیاء کی طرف مائل ہیں ان کا بعض اولیاء کرام اور بزرگوں کے متعلق یہ خیال ہے کہ وہ دل کی پوشیدہ باتوں اور علم غیب سے واقف ہیں، ان لوگوں نے صرف اسی گمراہی پر اکتفاء نہیں کیا بلکہ یہ لوگ اللہ کے کسی بندے کو الہی صفات سے موصوف کرنا اللہ کے تقرب کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔میری مراد قصیدہ بردہ میں امام بوصیری کا یہ قول ہے جس میں وہ نبی کریم ﷺ کو مخاطب کرتے ہوے کہتے ہیں:
فإن من جودک الدنیا وضرتھا
ومن علومک علم اللوح والقلم
(بے شک یہ دنیا اور اس دنیا کی تمام دولت اور خزانے سب آپ ہی کا دَین ہے، اور لوح وقلم کا علم بھی آپ ہی کے علم کا ایک حصہ ہے )
بتائیں اس مداح رسول ﷺ نے اللہ کے لیے کیا چھوڑا، یہاں حرف من عربی گرائمر کے لحاظ سے من تبعیضیہ ہے جس کا معنی علماء لغت کے نزدیک یہ ہے ، اے اللہ کے رسول ﷺ لوح وقلم کا علم بھی آپ کے علوم کا حصہ ہے۔ اب بتائیں کہ اس مداح رسول ﷺ نے اس شعر میں اللہ تعالی کے لیے کیا چھوڑا، حالانکہ اللہ تعالی کا ارشاد ہے:
﴿قُلْ لَّا يَعْلَمُ مَنْ فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ الْغَيْبَ اِلَّا اللّٰهُ﴾(النمل: 65)
( اے نبی ! کہہ دیجیے کہ زمین اور آسمانوں میں جتنی بھی مخلوقات ہیں کوئی بھی اللہ کے سوا غیب نہیں جانتا)
جو لوگ علامہ ناصر الدین البارنی ؒ کو توصحیح العقیدہ مانتے ہیں لیکن دوسری طرف کلمہ گو مشرک اور غیر کلمہ گو مشرک میں فرق نہیں کرتے،جو کبیرہ گناہ کے مرتکب مسلمان اور کافر میں فرق نہیں کرتے جو خطاکار مسلم اور کافر کو ایک ہی جیسا سمجھتے ہیں ان کے لیے یہ مضمون نہایت ہی شاندار ہے۔جس میں فضیلۃ الشیخ علامہ ناصر الدین البانی ؒ نے نہایت عمدہ انداز سے ان کی وضاحت کی ہے۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الحمد للہ رب العالمین ،افضل الصلاۃ واتم التسلیم علی رسول اللہ، صلی اللہ علیہ وعلی آلہ واصحابہ اجمعین، امابعد:
برادران گرامی :ہم اپنے شیخ، نامورعالم د ین ، عظیم محدث ومفسر ، علامہ ناصر الدین البانی حفظہ اللہ تعالی اور ان کی معیت میں تشریف لانے والے تمام احبابو رفقاء کو تہہ دل سے خوش آمدید کہتے ہیں اور اللہ تعالی سے دعا کرتے ہیں کہ اللہ تعالی انہیں جزاء خیر عطا فرمائے کہ انہوں نے محض اللہ تعالی کی رضا اور خوشنودی کے لیے اس قدر مشقت برداشت کی اور سفر کی صعوبتیں گوارا کرکے یہاں تشریف لائے۔
برادران ِگرامی: ہم نے آج کی گفتگو کے لیے''اسلامی عقیدہ'' کوموضوع چنا ہے جو ایک ایسا بنیادی اور اساسی موضوع ہے کہ اگر یہ عقیدہ ،انسان کے دل ودماغ میں راسخ ہو جائے تو اسکی زندگی کے تمام معاملات میں درستگی اور پاکیزگی آجاتی ہے اور اسکی زندگی کا سارا سفراللہ تعالی کی حفاظت اور نگرانی کی بدولت بالکل محفوظ ہو جاتا ہے۔
اللہ تعالی کی طرف سے مختلف قوموں اور امتوں کی طرف مبعوث کیے گئے تمام انبیاء کرام کو جس بنیادی مسئلے کا سامنا کرنا پڑا وہ تھا شرک (یعنی اللہ تعالی کے ساتھ دوسروں کو شریک ٹھہرانا)اور اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے انبیاء کرام کے پاس ''عقیدۂ توحید ''ہی ہتھیار تھا ۔
شرک ایک مرض اورایک روحانی بیماری ہے اوراللہ تعالی کی توحید کا صاف ستھرا، شفاف عقیدہ اس مرض کہن کا علاج ہے۔ علماء کرام کو یہ مشن انبیاء کرام سے ورثہ میں ملا ہے تاکہ جس شخص کو بھی یہ مرض لاحق ہو اسکی خدمت میں یہ علاج پیش کریں۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ جب تک انسان اپنی زندگی میں توحید کا عقیدہ شامل نہ کرے وہ روحانی اور دینی اعتبار سے کبھی بھی تندرست اور صحتمند نہیں ہو سکتا۔لہذا میرے محترم بھائیو: اسی سبب سے علماء امت نے یہ امانت اور ذمہ داری اپنے کندھوں پر اٹھار کھی ہے اور وہ اس عظیم مشن کو سر انجام دے رہے ہیں۔اب یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم دین کا علم حقیقی اہل علم سے حاصل کریں۔کیونکہ اسلام کا صاف و شفاف اور صحیح عقیدہ توحید سمجھنے کا واحد طریقہ یہی ہے کہ ہم یہ عقیدہ ان لوگوں سے سیکھیں جنہوں نے اسے قرآن و سنت سے براہ راست اخذ کیا ہے۔ میری مراد قرآن وسنت کے جید علماء کرام سے ہے۔
اللہ تعالی سے دعاہے کہ وہ اس معاملے میں ہماری رہنمائی فرمائے ، ہمیں علم عطا فرمائے ، ہم پربھی اس علم کا فیض عام فرمائے جو علم اللہ تعالی نے اس امت کے جلیل القدر علماء کو عنایت فرمایا ،جن میں شیخ علامہ ناصرالدین البانی کی ذات گرامی بھی ہے۔اللہ کریم ہم سب کی طرف سے انہیں اجر جزیل عطا فرمائے۔
(آمین ثم آمین)
علامہ ناصر الدین البانی رحمہ اللہ کی تقریرکا متنالحمد للہ رب العالمین ،افضل الصلاۃ واتم التسلیم علی رسول اللہ، صلی اللہ علیہ وعلی آلہ واصحابہ اجمعین، امابعد:
برادران گرامی :ہم اپنے شیخ، نامورعالم د ین ، عظیم محدث ومفسر ، علامہ ناصر الدین البانی حفظہ اللہ تعالی اور ان کی معیت میں تشریف لانے والے تمام احبابو رفقاء کو تہہ دل سے خوش آمدید کہتے ہیں اور اللہ تعالی سے دعا کرتے ہیں کہ اللہ تعالی انہیں جزاء خیر عطا فرمائے کہ انہوں نے محض اللہ تعالی کی رضا اور خوشنودی کے لیے اس قدر مشقت برداشت کی اور سفر کی صعوبتیں گوارا کرکے یہاں تشریف لائے۔
برادران ِگرامی: ہم نے آج کی گفتگو کے لیے''اسلامی عقیدہ'' کوموضوع چنا ہے جو ایک ایسا بنیادی اور اساسی موضوع ہے کہ اگر یہ عقیدہ ،انسان کے دل ودماغ میں راسخ ہو جائے تو اسکی زندگی کے تمام معاملات میں درستگی اور پاکیزگی آجاتی ہے اور اسکی زندگی کا سارا سفراللہ تعالی کی حفاظت اور نگرانی کی بدولت بالکل محفوظ ہو جاتا ہے۔
اللہ تعالی کی طرف سے مختلف قوموں اور امتوں کی طرف مبعوث کیے گئے تمام انبیاء کرام کو جس بنیادی مسئلے کا سامنا کرنا پڑا وہ تھا شرک (یعنی اللہ تعالی کے ساتھ دوسروں کو شریک ٹھہرانا)اور اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے انبیاء کرام کے پاس ''عقیدۂ توحید ''ہی ہتھیار تھا ۔
شرک ایک مرض اورایک روحانی بیماری ہے اوراللہ تعالی کی توحید کا صاف ستھرا، شفاف عقیدہ اس مرض کہن کا علاج ہے۔ علماء کرام کو یہ مشن انبیاء کرام سے ورثہ میں ملا ہے تاکہ جس شخص کو بھی یہ مرض لاحق ہو اسکی خدمت میں یہ علاج پیش کریں۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ جب تک انسان اپنی زندگی میں توحید کا عقیدہ شامل نہ کرے وہ روحانی اور دینی اعتبار سے کبھی بھی تندرست اور صحتمند نہیں ہو سکتا۔لہذا میرے محترم بھائیو: اسی سبب سے علماء امت نے یہ امانت اور ذمہ داری اپنے کندھوں پر اٹھار کھی ہے اور وہ اس عظیم مشن کو سر انجام دے رہے ہیں۔اب یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم دین کا علم حقیقی اہل علم سے حاصل کریں۔کیونکہ اسلام کا صاف و شفاف اور صحیح عقیدہ توحید سمجھنے کا واحد طریقہ یہی ہے کہ ہم یہ عقیدہ ان لوگوں سے سیکھیں جنہوں نے اسے قرآن و سنت سے براہ راست اخذ کیا ہے۔ میری مراد قرآن وسنت کے جید علماء کرام سے ہے۔
اللہ تعالی سے دعاہے کہ وہ اس معاملے میں ہماری رہنمائی فرمائے ، ہمیں علم عطا فرمائے ، ہم پربھی اس علم کا فیض عام فرمائے جو علم اللہ تعالی نے اس امت کے جلیل القدر علماء کو عنایت فرمایا ،جن میں شیخ علامہ ناصرالدین البانی کی ذات گرامی بھی ہے۔اللہ کریم ہم سب کی طرف سے انہیں اجر جزیل عطا فرمائے۔
(آمین ثم آمین)
خطبہ مسنونہ
(تمام تعریفیں اللہ رب العالمین کے لیے ہیں ،ہم اسی کی تعریف کرتے ہیں ، اسی سے مدد اورگناہوں کی بخشش چاہتے ہیں، ہم اپنے نفس اور اپنے برے اعمال کے شر سے اللہ کی پناہ چاہتے ہیں ،جسے اللہ ہدایت دیدے اسے کوئی گمراہ نہیں کر سکتا اور جسے وہ گمراہ کر دے اسے کوئی ہدایت نہیں دے سکتا اور میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں ، وہ اکیلا ہے اسکا کوئی شریک نہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد ﷺاس کے بندے اور رسول ہیں۔
﴿يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ حَقَّ تُقٰتِہ وَلَا تَمُوْتُنَّ اِلَّا وَاَنْتُمْ مُّسْلِمُوْنَ﴾
(آل عمران: 102)
(اے ایمان والو: اللہ سے ڈرو جس طرح اس سے ڈرنے کا حق ہے اور تمہیں ہرگز موت نہ آئے مگر اس حالت میں کہ تم مسلمان ہو)
﴿يٰٓاَيُّھَا النَّاسُ اتَّقُوْا رَبَّكُمُ الَّذِيْ خَلَقَكُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَةٍ وَّخَلَقَ مِنْھَا زَوْجَهَا وَبَثَّ مِنْهُمَا رِجَالًا كَثِيْرًا وَّنِسَاء ۚوَاتَّقُوااللّٰهَ الَّذِيْ تَسَاۗءَلُوْنَبِهوَالْاَرْحَامَۭاِنَّاللّٰهَكَانَ عَلَيْكُمْ رَقِيْبًا﴾ (النساء: 1)
(اے لوگو: اپنے رب سے ڈرو جس نے تمہیں ایک جان سے پیداکیا اور اسی سے اسکا جوڑا پیدا کیااور پھر اس جوڑے سے بے شمار مرد اورعورتیں پیدا کر کے پھیلادیں،اور ڈرو اس اللہ سے جس کے نام پر تم ایک دوسرے سے سوال کرتے ہو ،بے شک اللہ تم سب پر نگہبان ہے)
﴿يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَقُوْلُوْا قَوْلًا سَدِيْدًا، يُّصْلِحْ لَكُمْ اَعْمَالَكُمْ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوْبَكُمْ ۭوَمَنْيُّطِعِاللّٰهَوَرَسُوْلَه فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِيْمًا﴾ (الاحزاب: 70-71)
(اے ایمان والو: اللہ سے ڈرو اور سیدھی اور سچی بات کہو اللہ تمہارے اعمال درست کردے گا اور تمہارے گناہ بخشش دے گااور جس نے اللہ اور اسکے رسول کی اطاعت کی تو اس نے عظیم کامیابی حاصل کرلی)
امابعد: بے شک سب سے بہترین کلام ،اللہ کا کلام ہےاور سب سے بہتر رہنمائی ،محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رہنمائی ہے اور سب سے برا کام دین کے اندر نئی باتیں پیدا کرنا ہے ہر نئی چیز بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے اور ہر گمراہی آگ میں لے جانے والی ہے۔
محترم ابراہیم بھائی کا میرے بارے میں جو حسن ظن ہے اس پر میں ان کا بے حد شکر گزار ہوں،دراصل آپ کا یہ بھائی(شیخ البانی)آپ کی خدمت میں صرف اللہ کا دین سیکھنے اور سکھانے کے لیے حاضر ہوا ہے۔
توحید ہی تمام انبیاء کرام علیہم السلام کی دعوت کی بنیاد تھی
دوسری اہم بات جس کی طرف ابراہیم بھائی نے بھی اشارہ کیا ہے وہ یہ ہے کہ تمام انبیاء کی دعوت کی بنیاداللہ تعالی وحدہ لاشریک کی خالص عبادت ہے ۔ اللہ تعالی نے جو نبی اور جو رسول بھی کسی قوم کی طرف بھیجا اس نے سب سے پہلے ان لوگوں کو اس چیز کی طرف دعوت دی کہ﴿اعْبُدُوا اللّٰهَ وَاجْتَنِبُوا الطَّاغُوْتَ﴾)النحل: 36) (ایک اللہ کی عبادت کرو اور طاغوت سے بچو)۔رسول اللہﷺبھی یہی دعوت لے کردنیا میں تشریف لائے اور اسی بات پر انکا اپنی قوم سے اختلاف اور نزاع بھی رہا۔ آپ سب لوگ بخوبی جانتے ہیں کہ مشرکین مکہ اللہ تعالی کے ساتھ اور بھی کئی معبودات کی عبادت کرتے تھے ۔ جب اللہ کے رسوﷺنے انہیں اس بات کی دعوت دی کہ ایک اللہ کی عبادت کروجسکا کوئی شریک نہیںاور میرے ہم آواز ہو کر یہ اعلان کروکہ "لا الہ الا اللہ" (اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں)تو وہ بگڑ گئے اور کہنے لگے:
﴿اَجَعَلَ الْاٰلِـهَةَاِلٰــهًاوَّاحِدًااِنَّھٰذَالَشَيْءٌعُجَابٌ﴾(ص: 5)
(کیا اس نے تمام معبودوں کی جگہ ایک ہی معبود بنا ڈالا ،یہ تو بڑی انوکھی بات ہوئی)
توحید سے متعلق دعوت نبوی ﷺ
اسی طرح نبی کریم ﷺنے بھی توحید سے اپنی دعوت کا آغاز کیا ۔نبی کریم ؐ کی عادت مبارکہ تھی کہ جب بھی عرب کے کسی قبیلے کی طرف دعوت اسلام کی غرض سے اپنا کو ئی قاصد یا نمائندہ بھیجتے تووہ قاصد بھی لوگوں کو کسی ایسے اسلام کی طرف دعوت نہیں دیتے تھے جو غیر واضح اور مبہم ہو،بلکہ رسول اللہﷺ کے قاصداور داعی ،لوگوں کو وہی دعوت دیتے تھے جو خود اللہ کے رسول ﷺ کی دعوت ہوتی تھی کہ ،ایک اللہ کی عبادت کرو جس کا کوئی شریک نہیں، رسول اللہﷺ نے اپنے صحابہ کرام کو دعوت دین کا یہی طریقہ سکھلایا ۔صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں سیدنا انس بن مالک ؓ کی یہ روایت آئی ہے کہ جب رسول اللہﷺنے معاذ بن جبل ؓ کو دعوت اسلام کی غرض سے یمن کی طرف روانہ کیااور آپ کے علم میں ہوگا کہ اس زمانے میں یمن میں مشرکین کے علاوہ اہل کتاب عیسائی بھی آباد تھے جو اللہ کے ساتھ سیدنا عیسی ابن مریم علیہ السلام کو بھی پکارتے تھےچنانچہ رسول اللہﷺ نے سیدنا معاذ بن جبل ؓ کو یمن کی طرف روانہ کرتے ہوئے فرمایا (یہ ایک زبردست دلیل ہے جسے ذہن میں رکھنا چاہئے)
انَّكَ تَأْتِي قَوْمًا مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ، فَادْعُهُمْ إِلَى شَهَادَةِ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَنِّي رَسُولُ اللَّهِ، فَإِنْ هُمْ أَطَاعُوا لِذَلِكَ، فَأَعْلِمْهُمْ أَنَّ اللَّهَ افْتَرَضَ عَلَيْهِمْ خَمْسَ صَلَوَاتٍ فِي كُلِّ يَوْمٍ وَلَيْلَةٍ۔۔۔
تم ایک اہل کتاب قوم کی طرف جارہے ہو تو سب سے پہلے ان کو اس بات کی دعوت دینا کہ وہ اس امرکی گواہی دیں کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور محمدﷺاللہ کے رسول ہیں، پس اگر وہ تمہاری بات مان لیں تو پھر انہیں پنج وقتہ نماز کا حکم دینا۔۔۔)۔
اس حدیث ، گذشتہ آیت قرآنی اور اس قسم کی دیگر آیات سے یہ بات پوری طرح واضح ہوتی ہے کہ تمام انبیاء کرام اور انکے پیروکاروں نے ہمیشہ لوگوں کو اسی کلمہ توحید"لا الہ الا اللہ"کی طرف دعوت دی ہے اور انکی دعوت میں سب سے زیادہ زور اسی نقطہ توحید پر ہوتا تھا۔
مسلمانوں کی اکثریت کلمے کے صحیح مفہوم سے ناآشنا ہے
لیکن آج مسلمان اس حقیقی دین اسلام سے بہت دور ہوچکے ہیں جو اللہ کے رسولﷺ لیکر آئے ،وہ ایک صاف ستھرا اور شفاف دین تھا جیسا کہ حدیث میں آتا ہے کہ''لَيْلُهَا كَنَهَارِهَا ''یعنی اس کی رات بھی دن کی طرح روشن اور منور ہے، اور اس وسیع دوری کا سبب آج کے مسلمانوں کی اپنے دین سے دوری ہے۔
آج اسلام کے فروعی مسائل تو کجا اس کے اصولی نظریات اوربنیادی عقائدمیں بھی ایسی نئی چیزیں داخل ہو چکی ہیں جن کا قرون اولی کے مسلمانوں کے ہاں کوئی تصور ہی نہیں تھا۔
آپ سب حضرات جانتے ہیں کہ اللہ تعالی نے قرآن کریم محمدرسول اللہﷺ پر نازل فرمایا اور جو لوگ اسکے اولین مخاطب تھے وہ خالص عرب تھے اور وہ قرآن کریم کی اکثرآیات و بیانات کوکسی تشریح کے بغیر سمجھ سکتے تھے، ہاں جن آیات کا کسی خاص شرعی مسئلے سے کوئی تعلق ہوتا تو اس کی وضاحت کے لیے اللہ کے رسول ﷺسے اسکی تشریح فرما دیتے تھے۔
لیکن آج چونکہ ہم عربوں کی زبان میں مختلف سائنسی علوم وفنون داخل ہو چکے ہیں اس لیے ہم آج عربی زبان کے اعتبار سے قرآ ن کریم کی عبارت کو برا ہ راست اس انداز میں نہیں سمجھ سکتے جس طرح کہ قرون اولی کے عرب سمجھ سکتے تھے۔یہی حال عرب کے ان مشرکین کا تھا جنہوں نے دعوت توحید کی مخالفت کی جیسے ابو جہل ،ابو لھب، عتبہ، شیبہ وغیرہ۔جب اللہ کے رسولﷺ نے ان سے فرمایا کہ: ''أُمِرْتُ أَنْ أُقَاتِلَ النَّاسَ حَتَّى يَشْهَدُوا أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ (مجھے حکم دیا گیا ہے کہ اس وقت تک لوگوں سے جنگ کرتا رہوں جب تک کہ وہ اس بات کی گواہی نہ دیدیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں) وہ اچھی طرح سمجھتے تھے کہ اس گواہی کا مطلب یہ ہے کہ اس وقت(یعنی عہد نبوت میں)روئے زمین پر اللہ کے سوا جتنے بھی معبود وں کی پرستش ہو رہی ہے ان سب کی معبودیت کاانکار کر دیا جائے اور اعلان کردیا جائے کہ ایک اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں۔کیونکہ یہ تمام مشرکین اللہ کے ساتھ دوسرے معبودوں کی عبادت بھی کرتے تھے۔
وہ عربی زبان جس میں قرآن کریم نازل ہوا اس میں لفظ(الہ) کا جو حقیقی مفہوم ہے اور جو مفہوم اسکا ان عربوں نے سمجھا جن کی طرف اللہ کے رسول ﷺ مبعوث کیے گئے تھے ، اس مفہوم کو آج اکثر مسلمان پوری طرح نہیں سمجھتے بلکہ وہ اس لفظ سے ایک ایسا معنی مراد لیتے ہیں جو کہ لفظ (الہ) کا مترادف نہیں بلکہ وہ مفہوم اس معنی کا جزء ہے جو معنی لفظ الہ ادا کر رہا ہے۔
آج اکثر مسلمان جن میں بعض ایسے مسلمان بھی ہیں جو خود کو دین کا داعی اور مبلغ سمجھتے ہیں ان کا خیال یہ ہے کہ الہ کا معنی ہے رب (یعنی پالنے والا) اور وہ کلمہ طیبہ لا الہ الا اللہ ،جو کہ پورے دین اسلام کی بنیاد ہے، کی تشریح بھی اسی انداز میں کرتے ہیں۔ ان کے نزدیک لا الہ الا اللہ کا معنی ہے لا رب الا اللہ (یعنی اللہ کے سوا کوئی رب نہیں)اور یہ اس کلمہ طیبہ کا بالکل ناقص اور نامکمل ایک جزوی مفہوم ہے۔
حدیث میں آتا ہے من شھد ان لا الہ الا اللہ (کہ جس نے یہ گواہی دی کہ اللہ کے سوا کوئی معبودبرحق نہیں)مذکورہ تشریح کے مطابق اس کے معنی یہ ہونگے کہ من شھد ان لا رب الا اللہ(کہ جس نے یہ گواہی دی کہ اللہ کے سوا کوئی رب نہیں) یعنی صرف اللہ کے سوا کوئی رب نہیں، اس لفظ صرف کو اچھی طرح سمجھنے کی ضرورت ہے، دراصل میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ لا الہ کا صرف یہ مطلب لینا کہ اللہ کے سوا کوئی رب نہیں، اللہ کے سوا کوئی خالق نہیں، یہ عربی لغت کے اعتبار سے درست نہیں۔
ہر مسلمان کے لیے کلمہ طیبہ لا الہ الا اللہ کی گواہی دینا ضروری ہے ، اس لیے ہر مسلمان کے لیے یہ بات اشد ضروری ہے کہ وہ اس کلمہ حق کی شھادت دینے سے پہلے اور اس کلمہ طیبہ کو اپنا عقیدہ اور ایمان کی بنیاد بنانے سے پہلے یہ بات اچھی طرح سمجھ لے کہ اس کلمہ کا معنی یہ ہے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں، پس جب اس نے یہ صحیح فہم حاصل کرلیا اور اس کلمے کے معنی اچھی طرح سمجھ لیے تو وہ جادہ حق پر گامزن ہو گیا اور کامیابی کی ڈور کا پہلا سرا اس کے ہاتھ آ گیا۔اب اسے چاہیے کہ اس نے اس کلمہ طیبہ سے جو مفہوم سمجھا ہے اور جس چیز پر وہ ایمان لایا ہے اور جس حقیقت کی اس نے تصدیق کی ہے اسے اپنی عملی زندگی میں لاگو کرے اور اپنے عمل سے اس حقیقت کو ثابت کرے کہ وہ ایک اللہ کا عبادت گزار ہے جو یکتا ہے اور جس کا کوئی شریک نہیں۔
عبادت کے صحیح مفہوم سے جہالت
بہت سے لوگوں کایہ خیال ہے کہ عبادت صرف اللہ کے لیے نمازپڑھنے کا نام ہے۔باقی اگر آپ کبھی کسی غیر اللہ کے سامنے رکوع یا سجدہ کریں یا مصیبت کے وقت اگر کبھی کسی غیر اللہ کو مدد کے لیے پکار لیں تو اس سے شھادت توحید میں کوئی فرق نہیں پڑتا اور آپ اسی طرح مومن اور موحد ہی رہتے ہیں۔اسی طرح بہت سے لوگوں کا یہ خیال ہے کہ مصائب اور پریشانیوں میں غیر اللہ سے مدد مانگنا شھادت توحید کے منافی نہیں، یہ بہت بڑی غلطی ہے۔کیونکہ اس شہادت کا مطلب ہی یہ ہے کہ ایک اللہ عزوجل کے سوا اس پوری کائنات میں کوئی دوسرا معبود برحق نہیں،لیکن جب آپ نے مصیبت کے وقت کسی غیر اللہ سے فریاد کی یا مدد مانگی ، جب کہ حقیقت یہ ہے کہ کوئی انسان خواہ وہ زندہ ہو یا مردہ مصیبت میں آپ کی کوئی مدد نہیں کر سکتا، تو آپ نے اس غیر اللہ کو اللہ کا شریک بنا دیا، اس طرح آپ نے اس شہادت کو مجروح کر دیا اور جس طرح اس شہادت پر ایمان لانے کا حق تھا اس طرح آپ اس پر ایمان نہیں لائے۔
آپ یہ بات اچھی طرح جانتے ہیں کہ آج جتنے بھی مسلمان نماز پڑھتے ہیں ان میں سے کسی کی نماز بھی اس وقت تک درست نہیں ہوتی جب تک کہ وہ اس میں سورۂ فاتحہ نہ پڑھے، اور اس سورۂ فاتحہ کے شروع میں ہر مسلمان اپنے رب سے مخاطب ہو کر یہ اعلان کرتا ہے کہ:
﴿اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَاِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ﴾
(ہم صرف تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور صرف تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں)
اکثر لوگ اتنی بات سمجھتے ہیں کہ اللہ کے سوا کسی اور کی عبادت جائز نہیں،اور یہی اس کلمہ طیبہ کی بنیاد اور اساس ہے جسے سمجھنا ہر مسلمان کے لیے ضروری ہے۔لیکن وہ یہ بات نہیں سمجھتے کہ اسی آیت میں یہ بھی ہے ﴿وَاِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ﴾ جسکا مطلب یہ ہے اللہ عزوجل کے سوا کسی اور سے مدد مانگنا ایک اللہ کی عبادت کے منافی ہے۔چنانچہ جب ہم بعض لوگوں کو سنتے یا دیکھتے ہیں کہ وہ مصیبت میں انبیاء اولیاء اور بزرگوں سے مدد مانگ رہے ہیں ، حالانکہ وہ یہ بات جانتے ہیں کہ وہ اللہ کے نیک بندے خود اپنے آپ کو بھی کسی قسم کا کوئی نفع یا نقصان پہنچانے پر قادر نہیں ہیں تو یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ وہ لا الہ الا اللہ کا صحیح مفہوم نہیں سمجھ سکے۔لیکن دور نبوت کے مشرکین اس کلمے کی معنوی حقیقت کو اچھی طرح سمجھتے تھے یہی وجہ ہے کہ وہ نہ تو اس کلمے کے سامنے جھکے اور نہ اس پر ایمان لائے،بلکہ انہوں نے اللہ کے رسول ؐ کے سامنے تعجب کا اظہارکیا اور کہنے لگے(کیا اس شخص نے تمام معبودوں کی جگہ ایک ہی معبود بنا ڈالا، یہ تو بڑی انوکھی بات ہے)۔
کلمہ گو مشرکین اور قدیم مشرکین میں فرق
آج کے مسلمانوں اور قدیم زمانے کے مشرکین میں یہ فرق ہے کہ عرب کے مشرکین اس شہادت حق کا معنی و مطلب اچھی طرح سمجھتے اور جانتے تھے لیکن اس پر ایما ن نہیں رکھتے تھے، جب کہ آج کے مسلمانوں کا حال یہ ہے کہ وہ اس کلمہ حق پر ایمان تو رکھتے ہیں لیکن اس کا صحیح مفہوم نہیں جانتے، مسلمانوں میں ایسے لوگ بہت کم ہیں جو اس کلمہ طیبہ اور اس شہادت حق کو صحیح معنوں میں سمجھتے اور اس پر ایمان رکھتے ہیں ورنہ اکثریت کا حال یہ ہے کہ محض زبان سے اس شہادت کو ادا کررہے ہیں لیکن دل اس شہادت کی حقیقت سے خالی ہیں۔جیسا کہ اللہ تعالی نے عرب کے بدؤوں کے متعلق فرمایا ہے کہ:
﴿ قَالَتِ الْأَعْرَابُ آمَنَّا قُل لَّمْ تُؤْمِنُوا وَلَـٰكِنقُولُواأَسْلَمْنَاوَلَمَّا يَدْخُلِ الْإِيمَانُ فِي قُلُوبِكُمْ﴾(الحجرات: 14)
(عرب کے بدو کہتے ہیں کہ ہم ایمان لے آئے ہیں ، اے نبی! آپ ان سے کہیں کہ ابھی تم نے ایمان قبول نہیں کیابلکہ تم کہو کہ ہم اسلام میں داخل ہوئے ہیں ابھی حقیقی ایمان تو تمہارے دلوں میں داخل ہی نہیں ہوا)
اور ایمان دو چیزوں سے دل میں اترتا ہے (١) صحیح فہم (٢) صحیح ایمان
اسی لیے اللہ تبارک وتعالی نے ایسے لوگوں کی سرزنش کی ہے جو قرآن کریم پڑھتے ہیں لیکن اسے سمجھتے نہیں، اللہ تعالی کا ارشاد ہے:
﴿اَفَلَا يَتَدَبَّرُوْنَ الْقُرْاٰنَ اَمْ عَلٰي قُلُوْبٍ اَقْفَالُهَا﴾محمد: 24)
کیا یہ لوگ قرآن میں غور وفکر نہیں کرتے یا ان کے دلوں پر تالے لگے ہوئے ہیں)۔
چنانچہ اسلام کے بنیادی مسائل میں سے ایک قرآن کریم کا صحیح فہم حاصل کرنا ہے۔قرآن کریم میں ارشاد باری تعالی ہے:
﴿فَاعْلَمْ اَنَّه لَآ اِلٰهَ اِلَّا اللّٰهُ﴾(محمد: 19)
پس جان لو کہ ایک اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں)۔
لہذا آج کے مسلمان بلاشبہ مسلمان تو ہیں کیونکہ وہ لا الہ الا اللہ کی شہادت دیتے ہیں،اس حیثیت سے وہ ان مشرکین سے جدا ہیں جنہوں نے اس کلمہ حق کی شہادت نہیں دی ، لیکن وہ مشرکین بھی یہ بات جانتے تھے کہ اگر انہوں نے اس شہادت کو اپنی زبان سے ادا کر دیا تو پھر اسکے تقاضوں کو پورا کرنا ان پر لازم ہو جائیگا۔اور اس بات کا اولین تقاضہ یہ ہے کہ ایک اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کی جائے ، اور اسی وجہ سے وہ اس شہادت کو زبان سے ادا کرنے سے صریح انکار کرتے تھے۔
مشرکین کا شرک آخر کیا تھا؟
چنانچہ قرآن کریم میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے:
﴿وَالَّذِيْنَ اتَّخَذُوْا مِنْ دُوْنِه اَوْلِيَاۗءَمَانَعْبُدُهُمْاِلَّالِيُقَرِّبُوْنَآاِلَىاللّٰهِزُلْفٰى﴾الزمر: 3
اور جن لوگوں نے اللہ کے سوا اوروں کو اپنا اولیاء (مددگار) بنایا ہوا ہے ان کا کہنا ہے کہ ہم تو ان کی عبادت صرف اس لیے کرتے ہیں تاکہ وہ ہمیں اللہ کے قریب کردیں۔
چنانچہ انہوں نے واضح طور پر تسلیم کیا کہ وہ اللہ تعالی کے ساتھ اور معبودوں کی پرستش بھی کرتے ہیں۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان کی عبادت کیا تھی؟کیا وہ ان معبودوں یاان بتوں کے لیے جن کی وہ عبادت کرتے تھے نماز پڑھتے تھے جب کہ یہ واضح ہے کہ ان کے ہا ں نماز کا کوئی تصور نہیں تھا،ظاہرہے کہ اس کا جواب نفی میں ہے۔لیکن سوال اپنی جگہ قائم ہے کہ پھر آخر وہ کونسی عبادت تھی جس کے متعلق قرآن کریم نے صراحت کے ساتھ ان کا اعتراف نقل کیا ہے کہ وہ ان معبودوں کی عباد ت کرتے تھے۔یہ عرب کے مشرکین بتوں کی کسی خصوصیت کی وجہ سے انکی عبادت نہیں کرتے تھے بلکہ ان کا مقصد صرف یہ تھا کہ وہ انہیں اللہ تعالی کے قریب کر دیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ دور جاہلیت کے یہ مشرک ان معبودان باطلہ کے ساتھ ایسا کونسا سلو ک کرتے تھے کہ جسے قرآن کریم نے عبادت قراردیااور اس پر اعتراض کیا۔
اس سوال کا جواب ہمیں قرآن کریم سے یہ ملتا ہے کہ وہ لوگ بتوں کے لیے جانور ذبح کرتے ،انکے لیے نذرونیاز دیتے اور چڑھاوے چڑھاتے تھے،مصائب اورمشکلات میں ان سے مدد مانگتے تھے۔لیکن جب کوئی ایسی مصیبت آتی جس کے بارے میں انہیں علم ہوتا کہ اللہ کے سوا انہیں اس سے کوئی بچانے والا نہیں تو پھر سارے معبودان باطلہ کو بھلا کر ایک اللہ کو پکارتے اور اسی سے پناہ طلب کرتے،ان کا یہ طرز عمل متعدد آیات میں مذکور ہے۔
لہذا ایک مسلمان کے لیے بہت ضروری ہے کہ وہ ان باتوں کا علم حاصل کرے جو توحید کے منافی ہیں تاکہ کہیں وہ غیر شعوری طور پراس گمراہی میں نہ گر پڑے۔چنانچہ بعض احادیث میں وارد ہے کہ:
من قال لا الہ الا اللہ وکفر بما سوی اللہ دخل الجنۃ
(جس نے لا الہ الا اللہ کا اقرار کیا اور غیر اللہ کا انکار کردیا وہ جنت میں داخل ہوگا) لہذا جنت میں داخلے کے لیے اللہ تعالی کی عبادت کا اقرار اور غیر اللہ کی عبادت کی نفی دونوں ہی ضروری ہیں۔
عبادات کا دائرہ بہت وسیع ہے اور اسکی بہت سی اقسام ہیں۔مختصر یہ کہ عبادت کے نام پر ہم اللہ تعالی کے لیے جو بھی عمل کرتے ہیں خواہ وہ فرائض ہوں ،واجبات ہوں، مستحبات ہوں ، نوافل ہوں یہ سب عبادت ہی کی شکلیں ہیں اور کسی مسلمان کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ اس طرح کا کوئی بھی عمل کسی غیراللہ کے لیے انجام دے۔
قرآن کریم میں اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ:
﴿قُلْ اِنَّ صَلَاتِيْ وَنُسُكِيْ وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِيْ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَو لَا شَرِيْكَ لَه﴾
الانعام: 162-163
(اے نبی آپ کہہ دیجیے کہ میری نماز اور میری قربانی اور میرا مرنا اور میرا جینا سب کچھ ا س اللہ رب العالمین لیے ہے جس کا کوئی شریک نہیں)
تواسکامطلب یہ ہوا کہ جس نے غیر اللہ کے لیے قربانی کی یا جانور ذبح کیا تو گویا اس نے غیر اللہ کی عبادت کی،دیکھیں عبادت کے لیے یہ ضروری نہیں کہ غیراللہ کے لیے نماز بھی پڑھی جائے،بلکہ شرک کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ کوئی غیر اللہ کے لیے جانور ذبح کرے یا اس کے نام کی نذر ونیاز دے یا اس کے نام کی قسم کھائے۔یہ تمام باتیں حرام اور ناجائز بلکہ شرک ہیں اور ایسی متعددصحیح احادیث موجود ہیں جن میں رسول اللہﷺ نے ایسا کام کرنے والے پر لعنت فرمائی ہے۔رسول اللہﷺ کا ارشاد ہے: ''من ذبح لغیر اللہ فھو ملعون،من ذبح لغیر اللہ فھو ملعون،من ذبح لغیر اللہ فھو ملعون''
جس نے غیر اللہ کے لیے جانور ذبح کیا وہ ملعون ہے، جس نے غیر اللہ کے لیے جانور ذبح کیا وہ ملعون ہے،جس نے غیر اللہ کے لیے جانور ذبح کیا وہ ملعون ہے۔
اللہ کی رحمت سے دور ہے، آخر کیوں؟کیونکہ اس نے ایک ایسے عمل کے ذریعے غیر اللہ کا قرب حاصل کرنے کی کوشش کی جو صرف اللہ تعالی کے لیے مخصوص ہے۔اس لیے میرے بھائیو، اللہ تعالی آپ کو برکت دے، یہ کسی طرح مناسب نہیں کہ آپ صرف زبان سے کلمہ توحیدادا کریں،صبح وشام نمازیں پڑھیں،اللہ کی تسبیح وتہلیل کریں اسکی حمدوثناء کریں اور صرف زبان سے کلمہ توحید پڑھتے رہیں لیکن اسکے معنی کو نہ سمجھیں ،اور نہ یہ مناسب ہے کہ ایک طرف توکلمہ توحید کا ورد آپ کی زبان پرہو اور دوسری طرف آپ ایسے کام کرتے رہیں جو کہ توحید کے منافی ہیں۔
شرک میں ملوث کلمہ گو لوگوں کو کیسے دعوت دی جائے
آج اکثر مسلمانوں کا جو حال ہے اسکی بعض مثالیں میں نے آپ کے سامنے پیش کی ہیں۔یہ مثالیں جو میں نے آپ کے سامنے پیش کی ہیں یہ محض خیالی یافرضی باتیں نہیں بلکہ حقیقت ہیں اور انتہائی افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ آج اکثر مسلمانوں کے اندر یہ سارے امراض نظر آرہے ہیں۔اور نہ صرف عام لوگوں میں بلکہ خاص لوگوں میں بھی یہ چیزیں موجود ہیں جو اگر خود نہیں بھی کرتے تو کم ازکم ا ن جہالتوںکی تائید ضرورکرتے ہیں۔یہ لوگ بڑے آرام سے کہہ دیتے ہیں کہ انہیں ان کے حال پہ چھوڑ دو انہیں کچھ نہ کہو ، ان کی نیت اچھی ہے،یہ نری گمراہی ہے ۔ یہ لوگ دراصل اس شرک کی تائید کر رہے ہیں جس میں بعض جاہل مسلمان اپنی جہالت اور ناسمجھی کی وجہ سے مبتلا ہیں۔چاہیے تو یہ تھا کہ یہ لوگ انہیں سمجھاتے اور انہیں ان گمراہیوں سے بازرکھنے کی کوشش کرتے ،لیکن اسکے بجائے انہوں نے یہ طرز عمل اپنایا کہ انہیں انکے حال پہ چھوڑ دینا مناسب سمجھا۔
ہاں اس میں کوئی حرج نہیں کہ یہ لوگ ان کو پیار سے ،محبت سے، خیر خواہی اور ہمدردی سے سمجھائیں اور بتائیں کہ میرے بھائی تم فلاں بزرگ کی نذرونیاز کیوں دیتے ہواور اسکی قبر پہ چڑھاوے کیوں چڑھاتے ہو ؟ کیا تم اس طرح اس خدا کے نیک اور صالح بندے کی عزت وتوقیر کرنا چاہتے ہو ؟ اگر یہ بات ہے تو یہ اسکا مناسب طریقہ نہیں ، کیونکہ یہ کیسے ممکن ہے کہ ہم اللہ تعالی کے اولیاء اور نیک بندوں کے نظریات وعقائد کو جھٹلا کر اور انکے خیالات کی نفی کر کے اورانکے طرز عمل کے خلاف عمل کرکے یہ سمجھیں کہ ہم ان کی عزت افزائی کر رہے ہیں ، انکا احترام وتکریم کر رہے ہیں اور انکی عظمت لوگوں کے دلوں میں اجاگر کر رہے ہیں۔میرے محترم بھائی اس طرح اولیاء اللہ کی قطعاً کوئی تعظیم نہیں ہوتی یہ تو فی الحقیقت انکی سراسر توہین ہے۔
اللہ کے نیک اور برگزیدہ بندے اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہیں کرتے ، نہ وہ اللہ کے سوا کسی کے لیے جانور ذبح کرتے یا قربانی کرتے ہیں، نہ وہ اللہ کے سوا کسی اور کی نذرونیاز دیتے ہیں اور نہ وہ اللہ کے سوا کسی اور کے نام کی قسم کھاتے ہیں، یہ ہے اللہ والوں کا کردار،اس لیے میرے مسلمان بھائی آپ نہ کسی قبر والے کے لیے جانور ذبح کریں اور نہ ہی کسی ولی کے لیے ذبح کریں ، اگر آپ نے جانور ذبح کرنا ہے تو صرف اللہ تعالی کے نام پر ذبح کریں اور اپنے قلب وزبان سے یہ گواہی دیں کہ میری نماز میری قربانی میرا مرنا اور میرا جینا سب اللہ رب العالمین کے لیے ہے جس کا کوئی شریک نہیں۔
مسلم معاشروں میں رائج بعض مشہور شرکیہ امور
دیکھیے اللہ تعالی نے نماز کے ساتھ قربانی کو کس طرح ملایا ہے(میری نماز میری قربانی میرا مرنا اور میرا جینا سب اللہ رب العالمین کے لیے ہے) لہذا کسی مسلمان کے لیے جائز نہیں کہ وہ مسلمان نماز اور قربانی میں فرق کرے اور یہ کہے کہ میں تو اللہ کے لیے نماز پڑھتا ہوں (اور دوسری طرف غیر اللہ کے لیے قربانیاںکرتا رہے) بلکہ مناسب یہ ہے کہ جو بات وہ زبان سے کہتا ہے اسے اپنے عمل سے بھی ثابت کرے اور نما ز کی طرح قربانی بھی اللہ ہی کے لیے مخصوص کرے اور اللہ کے سوا کسی اور کے لیے قربانی نہ کرے۔کیونکہ صحیح مسلم کی ایک صحیح حدیث میں جس کی صحت میں کوئی شک نہیں، اس میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ: ''لَعَنَ اللَّهُ مَنْ لَعَنَ وَالِدَهُ، وَلَعَنَ اللَّهُ مَنْ ذَبَحَ لِغَيْرِ اللَّهِ، وَلَعَنَ اللَّهُ مَنْ آوَى مُحْدِثًا، وَلَعَنَ اللَّهُ مَنْ غَيَّرَ مَنَارَ الْأَرْضِ''
(اللہ تعالی نے لعنت کی اس شخص پر جو اپنے والد (یاوالدین)پر لعنت کرے، اور اس پر بھی لعنت فرمائی جو غیراللہ کےلیے ذبح کرے، اور اس پر بھی کہ جو کسی بدعتی کو پناہ دے، اور اس پر بھی کہ جو زمین کے ملکیتی نشانات تبدیل کرے)۔ اس حدیث میں کچھ تفصیل بھی ہے لیکن ہمارے لیے اتنی دلیل کافی ہے کہ:(جس نے غیر اللہ کے لیے جانور ذبح کیا وہ ملعون ہے ) اور دوسری حدیث میں فرمایا: ''لَا تَحْلِفُوا بِآبَائِكُمْ، مَنْ كَانَ حَالِفًا فَلْيَحْلِفْ بِاللَّهِ أَوْ لِيَصْمُتْ''
اپنے آباء کے نام کی قسمیں مت کھایا کرو، جس نے قسم کھانی ہو وہ اللہ کے نام کی قسم کھائے یا خاموش رہے۔
اور فرمایا: ''مَنْ حَلَفَ بِغَيْرِ اللَّهِ فَقَدْ كَفَرَ أَوْ أَشْرَكَ''
(جس نے غیر اللہ کی قسم کھائی اس نے کفر کیا یا شرک کیا)۔
لیکن آج عرب معاشرے میں غیر اللہ کی قسمیں کھانے کا عام رواج ہے،یہ انتہائی عجیب بات ہے کہ یہ رواج بعض عجمی ممالک سے بھی زیادہ ہے،حالانکہ یہ عرب ہی تھے جنہوں نے سب سے پہلے اس دعوت توحید کو قبول کیا،اس کی حفاظت کی اور یہی انہیں کرنا بھی چاہیے ۔ اور موجودہ دور میں بھی سب سے پہلے یہ ذمہ داری انہی پر عائد ہوتی ہے، کیونکہ اللہ اور اسکے رسول ﷺ کے پیغام کو صحیح طور پر براہ راست وہی سمجھ سکتے ہیں۔
اور یہ دلیل بھی یاد رکھیں کہ یہ کلمہ طیبہ لا الہ الا اللہ جس کی برکت سے مسلمان دنیا میں اس بات سے محفوظ ہو جاتا ہے کہ اس سے جنگ کی جائے یا اس پر جزیہ فرض کیا جائے اور وہ ذلیل ہو کر یہ جزیہ ادا کرتا رہے، اور قیامت میں دائمی عذاب جہنم سے نجات پاتا ہے۔ یہ کلمہ طیبہ انسان کو اس وقت فائدہ دیتاہے جب وہ اس کوصحیح طور پر سمجھے اورپھر اس صحیح فہم پر خلوص دل سے ایمان لائے اورپھر اس کلمے کو اپنی پوری زندگی اور اپنے پورے وجود پرنافذکرے۔ اس لیے اس تقریر کے آخر میں سیدنا حذیفہ بن الیمان ؓ کی یہ بات پلے باندھ لیجیے ، وہ فرماتے ہیں کہ: ''كَانَ النَّاسُ يَسْأَلُونَ رَسُولَ اللَّهِ عَنِ الْخَيْرِ وَكُنْتُ أَسْأَلُهُ عَنِ الشَّرِّ مَخَافَةَ أَنْ يُدْرِكَنِي'' ( لوگ رسول اللہﷺ سے خیر اور بھلائی کی باتیں پوچھا کرتے تھے جبکہ میں آپﷺ سے ہمیشہ شراور فتنے کے متعلق دریافت کیا کرتا تھااس ڈر سے کہ کہیں میں اس میں مبتلا نہ ہوجاؤں)۔ اس لیے آپ کو بھی چاہیے کہ آپ ان شرکیہ باتوں کے متعلق دریافت کیاکریں جو عقیدہ توحید کے منافی ہیں تا کہ یہ عقیدہ توحید آپ کے دل ودماغ میں اچھی طرح بیٹھ جائے اور راسخ ہو جائے اورآپ کی پوری زندگی اس صحیح عقیدے اور صحیح ایمان پر قائم ہو جائے۔
چنانچہ دونوں باتیں بہت ضروری ہیں، ایک اللہ وحدہ لا شریک کی عبادت پر ایمان بھی ضروری ہے اور ان شرکیہ عقائد واعمال کاجاننا بھی ضروری ہے کہ جو عقیدہ توحید کے منافی ہیں۔
اب میں آخری بات کہنا چاہتا ہوں کہ آج عام مسلمان اور خاص طور پر داعی حضرات لوگوں کو یہ با ت سمجھانے کی بالکل کوشش نہیں کرتے کہ لا الہ الا اللہ کی شہادت کیا ہے اور اس کے کیا تقاضے ہیں اور کون کون سی باتیں اس کے منافی ہیں۔وہ سمجھتے ہیں کہ آج کے دور میں الحمد للہ سب مسلمان مومن موحد ہیں، وہ یہ بات بھول جاتے ہیں کہ جب عربی زبان میں عجمی اثرات داخل ہو گئے اور عرب کے لوگوں میں مشرکانہ رسوم وروایات اور عقائد ونظریات پھیلنا شروع ہوئے اور ایسی ایسی مشرکانہ باتیں اسلام میں داخل ہو گئیں جن کا اسلام سے دور کا بھی واسطہ نہ تھا اور قرون اولی کے مسلمانوں نے جن کا کبھی تصور بھی نہیں کیا تھا تو قرآن وسنت کے ماہر محقق علماء کرام نے عقیدہ توحید کا گہرائی سے جائزہ لیا اور توحید کی تین قسمیں بیان کیں۔
توحید کی تین اقسام
(1) توحید ربوبیت:
اور میں یہاں یہ بتاتا چلوں کہ توحید ربوبیت توحید کی پہلی قسم ہے اور یہ توحید کی دوسری اور تیسری قسم کی بنیاد ہے۔ اس توحید پر قد یم زمانے کے مشرکین بھی ایمان رکھتے تھے لیکن کیا ان کو اس سے کچھ فائدہ ہوا ؟ نہیں ، کیوں؟ اس لیے کہ وہ توحید کی دوسری قسم توحید عبادت کا انکار کرتے تھے، اور ابھی میں نے آپ کو بتایا کہ وہ کہتے تھے(ہم تو ان اولیاء کی عبادت اس لیے کرتے ہیں تا کہ وہ ہمیں اللہ کے قریب کر دیں) اور یہ بات قرآن وسنت کےبہت سی نصوص میں وارد ہے کہ وہ توحید ربوبیت پر ایمان رکھتے تھے ۔مثلاً قرآن کریم میں ایک جگہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
﴿وَلَىِٕنْ سَاَلْتَهُمْ مَّنْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ لَيَقُوْلُنَّ اللّٰهُ﴾(لقمان: 25)
اے نبی! اگر آپ ان سے یہ پوچھیں کہ زمین و آسمان کو کس نے پیدا کیاہے تو یقیناًکہیں گے کہ اللہ نے۔
تو گویا وہ اس بات کا اعتراف کرتے تھے کہ زمین وآسمان کا خالق ایک ہی رب ہے جو وحدہ لاشریک ہے ، اس طرح کی اور بھی بہت سی آیات ہیں جن سے یہ حقیقت ثابت ہوتی ہے ۔لیکن میں آپ کو حدیث رسول ﷺ کی روشنی میں بتاؤں گا کہ توحید ربوبیت پر ایمان رکھنے کے با وجود وہ غیر اللہ کی عبادت کا ارتکاب کیسے کرتے تھے ۔
ان میں سے جب کوئی بیت اللہ کا طواف کرتا تو سیدنا ابراہیم و اسماعیل علیہما السلام اور ان کے پیروکاروں کی طرح وہ بھی تلبیہ پڑھتا ''لَبَّيْكَ لَا شَرِيكَ لَكَ'' (اے اللہ میں حاضرہوں میں تیرا کوئی شریک نہیں) یہاں تک تو یہ و ہی موحدین والا تلبیہ ہے لیکن اس کے بعد شرک اور گمراہی کی وجہ سے اپنے پاس سے یہ کہتے ''إِلَّا شَرِيكًا هُوَ لَكَ تَمْلِكُهُ وَمَا مَلَكَ'' (سوائے اس شریک کے جس کا تو مالک ہے اور جس چیز کا وہ (شریک) مالک ہے اس کا بھی تو ہی مالک ہے)۔
رسول اللہﷺ جب مکہ میں تھے تو آپﷺ نے ان مشرکین کو دن رات اس بات کی دعوت دی کہ ایک اللہ کے سوا کسی اور کی عبادت نہ کرو۔آپ ﷺ جب بھی کسی مشرک کو تلبیہ کے دوران یہ کہتے ہوئے سنتے کہ وہ لا شریک لک کے بعد جملہ استثنائیہ کہنا چاہتا ہیں تو آپ فوراً فرماتے کہ بس بس اس سے آگے یہ مت کہنا کہ: إِلَّا شَرِيكًا هُوَ لَكَ تَمْلِكُهُ وَمَا مَلَكَ(سوائے اس شریک کے جس کا تو مالک ہے اور جس چیز کا وہ (شریک) مالک ہے اس کا بھی تو ہی مالک ہے)۔
اب ذرا ان کی گمراہی کو دیکھیے اور ساتھ ہی اس شریک کی حیثیت کو بھی مد نظر رکھیے جس کو انہوں نے اللہ کا شریک بنایا ہوا ہے ، حالانکہ یہ شریک اللہ تعالی کا بندہ اور ملکیت ہے لیکن اس کے باوجود انہوں نے اسے اللہ کا شریک بنا دیا، بلاشبہ یہ نری گمراہی ہے ۔
اس لیے علماء کرام نے توحید کی تین قسمیں بیان کی ہیں:
(1) توحید ربوبیت ، جس پر مشرکین عرب بھی ایمان رکھتے تھے۔
(2) توحید العبادۃ، اسے توحید الوہیت بھی کہا جاتا ہے ، یعنی اللہ کے سوا اس پوری کائنات میں کوئی معبود برحق نہیں اور اللہ کے سوا کسی اور کے لیے کسی بھی طرح کی عبادت جائز نہیں۔
(3) توحید الاسماء والصفات، یعنی جس طرح اللہ تعالی اپنی ذات میں یکتا اور لا شریک ہے اسی طرح وہ اپنی الوہیت میں ، اپنی معبودیت میں، اپنے ناموں اور صفات میں بھی یکتا اور لا شریک ہے کوئی اس کا کسی بھی طرح شریک وسہیم نہیں اور نہ اس کے سوا کوئی عبادت کے لائق ہے۔
﴿لَيْسَ كَمِثْلِه شَيْءٌ وَهُوَ السَّمِيْعُ الْبَصِيْرُ﴾(الشوری: 11)
(اس جیسی کوئی چیز نہیں اور وہ سنتا اور دیکھتا ہے)
یہاں تھوڑی دیر رک کر ایک بات کو اچھی طرح سمجھ لینا بہت ضروری ہے ، اگرچہ بات ذرا لمبی ہو جائیگی لیکن چونکہ یہ بات بہت اہم ہے اس لیے اسے ترک کر دینا مناسب نہیں۔
آج بہت سے مسلمان اس شرک فی الاسماء والصفات میں مبتلا ہیں، بہت سے لوگ اور خصوصاً وہ لوگ جونام نہاد تصوف اور صوفیاء کی طرف مائل ہیں ان کا بعض اولیاء کرام اور بزرگوں کے متعلق یہ خیال ہے کہ وہ دل کی پوشیدہ باتوں اور علم غیب سے واقف ہیں، ان لوگوں نے صرف اسی گمراہی پر اکتفاء نہیں کیا بلکہ یہ لوگ اللہ کے کسی بندے کو الہی صفات سے موصوف کرنا اللہ کے تقرب کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔میری مراد قصیدہ بردہ میں امام بوصیری کا یہ قول ہے جس میں وہ نبی کریم ﷺ کو مخاطب کرتے ہوے کہتے ہیں:
فإن من جودک الدنیا وضرتھا
ومن علومک علم اللوح والقلم
(بے شک یہ دنیا اور اس دنیا کی تمام دولت اور خزانے سب آپ ہی کا دَین ہے، اور لوح وقلم کا علم بھی آپ ہی کے علم کا ایک حصہ ہے )
بتائیں اس مداح رسول ﷺ نے اللہ کے لیے کیا چھوڑا، یہاں حرف من عربی گرائمر کے لحاظ سے من تبعیضیہ ہے جس کا معنی علماء لغت کے نزدیک یہ ہے ، اے اللہ کے رسول ﷺ لوح وقلم کا علم بھی آپ کے علوم کا حصہ ہے۔ اب بتائیں کہ اس مداح رسول ﷺ نے اس شعر میں اللہ تعالی کے لیے کیا چھوڑا، حالانکہ اللہ تعالی کا ارشاد ہے:
﴿قُلْ لَّا يَعْلَمُ مَنْ فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ الْغَيْبَ اِلَّا اللّٰهُ﴾(النمل: 65)
( اے نبی ! کہہ دیجیے کہ زمین اور آسمانوں میں جتنی بھی مخلوقات ہیں کوئی بھی اللہ کے سوا غیب نہیں جانتا)
تو پھر قرآن کریم کی اس شہادت سے ثابت ہوا کہ جناب مصطفیﷺ جو تمام انبیاء ورسل کے سردار ہیں وہ غیب کاعلم نہیں جانتے۔نیز صحیح بخاری ومسلم کی ایک لمبی حدیث میں ام المومنین عائشہؓ کا یہ قول مروی ہے : ''وَمَنْ زَعَمَ أَنَّهُ يَعْلَمُ مَا فِي غَدٍ فَقَدْ أَعْظَمَ الْفِرْيَةَ عَلَى اللَّهِ'' (جو شخص تم سے یہ کہے کہ اللہ کے رسول ﷺکل کے بارے میں جانتے تھے تو اس نے اللہ پر بہت بڑا بہتان باندھا)پھر ام المؤمنین ؓ نے یہ آیت تلاوت کی (اے نبی! کہہ دیجیے کہ زمین اور آسمانوں میں جتنی بھی مخلوقات ہیں کوئی بھی اللہ کے سوا غیب نہیں جانتا)۔ اور صحیح بخاری میں ایک روایت یہ بھی ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ انصار کی ایک لڑکی کے پاس سے گذرے جویہ شعر پڑھ رہی تھی ''وَفِينَا نَبِيٌّ يَعْلَمُ مَا فِي غَدٍ'' ( ہمارے درمیان ایک ایسے نبی ہیں جوکل کی باتیں جانتے ہیں)۔تو رسول اللہﷺ نے یہ سن کر فرمایا کہ: (اللہ کے سوا کوئی غیب نہیں جانتا) ''لَا تَقُولِي هَكَذَا وَقُولِي مَا كُنْتِ تَقُولِينَ'' (یہ مت پڑھو بلکہ جواشعار تم اللہ کے رسول کی شان میں پہلے پڑھ رہی تھی وہی پڑھو) جیسا کہ اللہ تعالی نے انکی قرآن کریم میں تعریف کی ہے مثلاً آپ اخلاق کے بلند ترین مقام پرہیں۔لہذا آپ اس بات کو اچھی طرح ذھن نشین کر لیں اور سمجھ لیں کہ توحید کی تین اقسام ہیں:
(1) توحید ربوبیت ، یہ بنیادی اور اساسی توحید ہے جس کے بغیر گذارہ نہیں۔
(2) توحید عبادت ، اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم کسی بھی اعتبار سے غیراللہ کی عبادت نہ کریں خواہ وہ غیر اللہ کے نام کی قسم ہی ہو، اور یہ چیز آج مسلمانو ں میں بہت زیادہ ہے۔
(3) توحید فی الاسماء والصفات،اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالی کو اسکی ذات وصفات میں یکتا ولاشریک سمجھا جائے اور کسی بھی انسان کو خواہ وہ کتنا ہی برگزیدہ ومحترم ہو اسے کسی ایسی صفت سے متصف نہ کیا جائے جو اللہ تعالی کے ساتھ مخصوص ہے۔مثلاً یہ تصور کرنا کہ اللہ کے برگزیدہ بندے، انبیاء ،اولیاء غیب جانتے ہیں ، بلکہ ہمیں اس طرح کے تمام مسائل میں قرآن وسنت کی طرف رجوع کرنا چاہیے اور قرآن وسنت کا واضح اعلان یہ ہے کہ اللہ کے سوا کوئی بھی غیب نہیں جانتا۔
یہ ساری خرابیا ں سلف صالحین کے طریقے سے ہٹنے کی وجہ سے پیدا ہوتی ہیں اس لیے اگر آپ لوگ قرآن وسنت کے صحیح راستے پر گامزن ہونا چاہتے ہیں تو اسکا ایک ہی طریقہ ہے کہ کتاب وسنت اور سلف صالحین کا طریقہ اختیار کریں اسی میں ہر مسلمان کی فلاح اور کامیابی ہے ۔اللہ تعالی ہم سب کو کتاب وسنت اور سلف صالحین کے منہج پر کاربند ہونے کی توفیق بخشے ۔
وآخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین
(1) توحید ربوبیت ، یہ بنیادی اور اساسی توحید ہے جس کے بغیر گذارہ نہیں۔
(2) توحید عبادت ، اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم کسی بھی اعتبار سے غیراللہ کی عبادت نہ کریں خواہ وہ غیر اللہ کے نام کی قسم ہی ہو، اور یہ چیز آج مسلمانو ں میں بہت زیادہ ہے۔
(3) توحید فی الاسماء والصفات،اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالی کو اسکی ذات وصفات میں یکتا ولاشریک سمجھا جائے اور کسی بھی انسان کو خواہ وہ کتنا ہی برگزیدہ ومحترم ہو اسے کسی ایسی صفت سے متصف نہ کیا جائے جو اللہ تعالی کے ساتھ مخصوص ہے۔مثلاً یہ تصور کرنا کہ اللہ کے برگزیدہ بندے، انبیاء ،اولیاء غیب جانتے ہیں ، بلکہ ہمیں اس طرح کے تمام مسائل میں قرآن وسنت کی طرف رجوع کرنا چاہیے اور قرآن وسنت کا واضح اعلان یہ ہے کہ اللہ کے سوا کوئی بھی غیب نہیں جانتا۔
یہ ساری خرابیا ں سلف صالحین کے طریقے سے ہٹنے کی وجہ سے پیدا ہوتی ہیں اس لیے اگر آپ لوگ قرآن وسنت کے صحیح راستے پر گامزن ہونا چاہتے ہیں تو اسکا ایک ہی طریقہ ہے کہ کتاب وسنت اور سلف صالحین کا طریقہ اختیار کریں اسی میں ہر مسلمان کی فلاح اور کامیابی ہے ۔اللہ تعالی ہم سب کو کتاب وسنت اور سلف صالحین کے منہج پر کاربند ہونے کی توفیق بخشے ۔
وآخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین