• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مسلم معاشرے میں مروج کچھ غلط اعتقادات

شمولیت
جنوری 17، 2018
پیغامات
26
ری ایکشن اسکور
2
پوائنٹ
36
#مسلم_معاشرے_میں_مروج_کچھ_غلط_اعتقادات_
محمود حَمِید پاکوڑی

ہم جس علاقے سے تعلق رکھتے ہیں وہ ایک اہلِ حدیث اکثریتی علاقہ ہے ؛ میں بات کر رہا ہوں جھارکھنڈ کے پاکوڑ و صاحب گنج اور مغربی بنگال کے مرشد آباد ضلعوں کی ۔ یہ گھنی مسلم آبادی والا علاقہ ہے اور ان میں بھی سلفیوں کی تعداد بنسبت دوسرے مسالک والوں کے کافی زیادہ ہے ۔ یہاں بکثرت مدارس و جامعات کا جال بھی بچھا ہوا ہے جہاں سے ہر سال سیکڑوں طلبہ فارغ ہو کر منبر و محراب اور مسندِ درس کی زینت بنتے ہیں ؛ عوام الناس کی اصلاح و تربیت کے لیے بکثرت دینی و اصلاحی جلسے بھی منعقد ہوا کرتے ہیں ؛ مسلم لڑکیوں کی تعلیم و تربیت کے واسطے کچھ مدرسے بھی قائم کیے گیے ہیں ؛ لیکن ان ساری کوششوں کے باوجود بھی جہاں لوگ اعلی تعلیم ، مستقل روزگار ، مناسب شفاخانے اور پکے مکانات جیسی بنیادی سہولیات سے محروم ہیں ؛ وہیں لوگوں کی اکثریت صفائی ستھرائی ، منظم لائحہ عمل ، صحیح عقیدے اور دین کی بنیادی معلومات سے بھی نابلد ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اہلِ حدیث ہونے کے باوجود یہاں کے بہت سے افراد غیر شرعی رسم و رواج میں ملوث ہیں ، وہ غیر معقول حکایات و اقوال کے دلدادہ ہیں اور بعض ایسے عقیدے رکھتے ہیں جو شریعت سے متصادم ہوتے ہیں ۔
اس تحریر میں انہی غلط ، مضحکہ خیز اور غیر شرعی عقیدوں کا جائزہ لیا گیا ہے جو ہمارے علاقے میں مروج ہیں ۔ ان میں سے ترتیب وار دس چیزوں کو بیان کیا جا رہا ہے :
(۱) بعض افراد کا یہ عقیدہ ہوتا ہے کہ دوا لینے سے قبل بسم اللہ نہیں پڑھنا چاہیے ورنہ بیمار شخص کو اپنی بیماری سے شفا نہیں ملے گی ؛ وہ اس کی وجہ یہ بتاتے ہیں کہ چونکہ بسم اللہ کہنے سے ہر چیز میں برکت ہوتی ہے اس لیے دوا لیتے وقت بسم اللہ کہہ دینے سے مرض میں بھی برکت یعنی بڑھوتری ہو جائے گی ؛ حالانکہ رسول اللہ ﷺ عموماً ہر چیز کی ابتدا بسم اللہ سے کرتے تھے ، اور دوائی بھی اسی حکم میں شامل ہے ؛ خود رسول اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے کہ درد والی جگہ پر دایاں ہاتھ رکھ کر تین مرتبہ بسم اللہ کہنا چاہیے پھر یہ دعا پڑھنی چاہیے «أعوذ بعزة الله وقدرته من شر ما أجد وأحاذر» [صحیح مسلم : 2202]
(٢) مسلم خواتین میں یہ بات کافی مشہور ہے کہ ولادت کے فوراً بعد زچہ بچہ کے جو گندے کپڑے مٹی میں دفنانے کے لیے لے جایا جاتا ہے ، اس طرف کسی کو نہیں دیکھنا چاہیے بلکہ آنکھیں بند کر لینی چاہیے کیونکہ اگر کسی چھوٹے بچے نے اس طرف دیکھ لیا تو اس کی آنکھوں کی روشنی چلی جائے گی ۔ اللہ کی پناہ ؛ اس طرح کے غلط عقیدوں سے مسلم معاشرے کو پاک صاف رکھنا از حد ضروری ہے ۔
(٣) انسانی فائدے کے لیے اللہ تعالٰی نے بہت سی چیزیں ایجاد کی ہیں، انہی میں سے ایک بانس بھی ہے ۔ علاقے میں مروج غلط اعمال میں سے ایک یہ بھی ہے کہ بانسوں کا مالک اتوار کے روز بانس کاٹنے کی اجازت نہیں دیتا بلکہ خریدار کو اگلے دن بانس کاٹنے کا حکم دیتا ہے ۔ یہ چیز عموماً تمام بانس مالکوں میں پائی جاتی ہے ؛ صرف میت کی قبر کو اوپر سے ڈھانپنے کے لیے ہی بانس کاٹنے کی اجازت ملتی ہے باقی کاموں کے لیے اتوار کے دن بانس کاٹنا ممنوع سمجھا جاتا ہے ۔ جب کہ شریعت کی رو سے اس طرح کا عقیدہ رکھنا مردود و باطل ہے ۔
(٤) عموماً مدرسے کے چھوٹے طلبہ میں یہ بات مشہور ہے کہ قرآنِ مجید کو کھول کر رکھ دینے سے شیطان اس کی تلاوت کرلیتا ہے ؛ اس لیے اسے ہمیشہ بند کر کے رکھنا چاہیے ۔ یقیناً قرآنِ مجید جیسی عظیم الشان کتاب کی حفاظت کرنا، اس کی دیکھ بھال کرنا اور اسے گرد و غبار سے محفوظ رکھنے کے لیے بند رکھنا ایک مستحسن عمل ہے لیکن اس کے کھلے رہنے سے شیطان کے تلاوت کر لینے کا عقیدہ رکھنا سمجھ سے پرے ہے ۔
(٥) کچھ لوگوں میں، خصوصاً بچوں میں یہ بات بہت مشہور ہے کہ زمین کے نیچے ایک ماں اپنے ایک بیٹے کے ساتھ رہتی ہے، بیٹا صبح کے وقت اپنی آنکھیں بند کر کے روزانہ اپنی ماں سے پوچھتا ہے کہ کیا صبح ہو گئی ہے ؟ جس دن ماں کہہ دے گی کہ صبح ہو چکی ہے اس دن بچہ اپنی آنکھیں کھول دے گا اور اسی دن قیامت بھی قائم ہو جائے گی ـ یقیناً یہ ایک بناوٹی کہانی ہے جس کا شریعت سے کوئی لینا دینا نہیں ہے ۔ شریعت نے صرف قیامت کی نشانیوں سے آگاہ کیا ہے لیکن اس کے مقررہ وقت کا علم صرف اللہ تعالی کو ہے ۔ چنانچہ حدیثِ جبریل میں ہے کہ جبریل علیہ السلام نے رسول اکرم ﷺ سے سوال کیا کہ قیامت کب قائم ہوگی ؟ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جس سے سوال کیا گیا ہے وہ سائل سے زیادہ نہیں جانتا ، پھر جبریل علیہ السلام نے قیامت کی نشانیوں کے تعلق سے سوال کیا تو آپ ﷺ نے بعض نشانیوں کا تذکرہ فرمایا [صحیح مسلم : ٨].
(٦) معاشرے میں موجود بعض لوگوں کا عقیدہ ہوتا ہے کہ لال قسم کی چیونٹیاں ہندو ہوتی ہیں اور چھوٹی کالی چیونٹیاں مسلمان ہوتی ہیں ، اس لیے لوگ لال چیونٹیوں کو پیروں تلے روند ڈالتے ہیں جب کہ کالی چیونٹیوں کے ساتھ ایسا کرتے ہیں ـ یہ بھی ایک غیر معقول اور اٹکل پچو عمل ہے ۔ سارے حیوانات اللہ کے مطیع و فرماں بردار ہیں، ان میں سے کوئی بھی اللہ تعالیٰ کی عبادت سے انکار نہیں کرتا ۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے ﴿ أَلَمْ تَرَ أَنَّ اللَّهَ يَسْجُدُ لَهُ مَنْ فِي السَّمَاوَاتِ وَمَنْ فِي الْأَرْضِ وَالشَّمْسُ وَالْقَمَرُ وَالنُّجُومُ وَالْجِبَالُ وَالشَّجَرُ وَالدَّوَابُّ وَكَثِيرٌ مِنَ النَّاسِ ﴾ [ الحج : ١٨ ] ” کیا تم نے نہیں دیکھا کہ جو کوئی آسمانوں میں ہے اور جو کوئی زمین میں ہے اور سورج اور چاند اور ستارے اور پہاڑ اور درخت اور چوپائے اور بہت سے آدمی اللہ ہی کو سجدہ کرتے ہیں “ ۔
(٧) یہ بات بھی بعض لوگوں میں عام ہے کہ ہر گھر والوں کو ایک ہاتھ سلائی کانتھا( بستر) ضرور رکھنا چاہیے تاکہ میت کو اس پہ رکھا جا سکے ۔ در اصل یہ سمجھتے ہیں کہ مشین سے سلے ہوئے کانتھوں پر میت کو رکھنا جائز نہیں ہے بلکہ ہاتھ سے سلے ہوئے کانتھوں کا ہونا ضروری ہے ۔ یقیناً یہ بھی ایک بد عقیدگی ہے جس میں لوگ جانے انجانے میں ملوث ہیں ۔
(٨) بہت سے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ سیدھی انگلی سے قبروں کی جانب اشارہ نہیں کرنا چاہیے بلکہ پانچوں انگلیاں بھینچ کر پنجہ سے اشارہ کرنا چاہیے ـ یہ ایک غلط اعتقاد ہے جس سے بچنا ہر ایک کے لیے ضروری ہے ۔
(٩) ہمارے علاقے میں یہ بات بھی مشہور ہے کہ مصیبت کے وقت پیڑ پودوں نے ہندوؤں کو اپنے اندر پناہ دی تھی اس لیے ہندو لوگ پیڑ پودوں کی پوجا کرتے ہیں اور مسلمانوں کو گھر نے پناہ دی تھی اس لیے مسلمان مسجد میں عبادت کرتے ہیں ـ ہر باشعور انسان سمجھ سکتا ہے کہ یہ ایک ایسی بناوٹی اور فالتو بات ہے جس کا عقل و نقل سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔
(١٠) ایک اور عجیب و غریب عمل دیکھنے کو ملتا ہے کہ جب کسی نو مولود بچے کو پہلی مرتبہ کسی کے گھر لے جایا جاتا ہے تو اس گھر کی کوئی عورت اس بچے کے سر پر تیل مالش کرتی ہے ۔ شاید کہ عورتیں بغیر تیل کے آنے کو منحوس سمجھتی ہیں ۔

اس طرح کی بے شمار غلط فہمیاں اور غیر شرعی و غیر معقول باتیں لوگوں میں مشہور و معروف ہیں ؛ خصوصاً عورتوں کے ہاں اس قسم کی بد عقیدگیاں زیادہ پائی جاتی ہیں ؛ ضرورت اس امر کی ہے کہ عوام الناس دین کا صحیح علم حاصل کریں، ہر سنی سنائی بات پر یقین نہ کریں اور علما اس طرح کی چیزوں کا جائزہ لیں، اپنی تقریر و تحریر میں ان کا رد پیش کریں اور اگر کسی شخص کو اس طرح کا اعتقاد رکھتے ہوئے پائے تو اسے ہر ممکن طریقے سے سمجھائیں ۔ دعا ہے کہ اللہ رب العالمین تمام مسلمانوں کو دین کی صحیح سمجھ عطا فرمائے، بدعات و خرافات سے محفوظ رکھے اور معاشرے سے ہر طرح کی برائی کو ختم کرنے کی توفیق عطا فرمائے ؛ آمین
 
شمولیت
ستمبر 21، 2015
پیغامات
2,697
ری ایکشن اسکور
760
پوائنٹ
290
میں آپکی ھر دعاء پر آمین کہتا ہوں ۔
اصل کردار کہانیاں ادا کرتی ہیں ، خصوصا نانیوں دادیوں والی کہانیاں جو ہمارے ذہنوں میں کہیں نہ کہیں محفوظ رہ جاتی ہیں ۔ اغیار سے درآمد قصے وغیرہ بھی ہمارے روز مرہ کی گفتگو کا حصہ ھوتے ہیں ، بعض محاورے بھی بیرونی فکر پر مبنی ھوتے ہیں ۔ ہمیں یہ بھی سمجھنا چاہیے کہ اکبر کا نام آتے ہی افسانوی کردار انارکلی ہماری آنکھوں کے سامنے آ ہی جاتی ھے ، بسا اوقات یوں محسوس ہوتا ہے کہ انارکلی ہی اکبر کی پہچان ھے اور یہ یقینا کہانیوں کا اثر ھے ۔
ہمیں ہر آن اپنی اصلاح کی کوششیں کرتے رھنا چاہئے ساتھ ہی ہر کہانی کو کہانی تک رکھا جانا چاہئے ۔ الف لیلوی داستانیں محض داستانیں ہی ہیں ۔
اللہ ہم سب کو عقل سلیم عطاء فرمائے، صیح و غلط کو سمجھنے کا شعور عطاء فرمائے ۔
 
Top