- شمولیت
- اپریل 27، 2013
- پیغامات
- 26,584
- ری ایکشن اسکور
- 6,762
- پوائنٹ
- 1,207
مسلم وحدت: مابین فقہائے اسلام.. و ’’المورد‘‘
ای میل پر ایک دوست نے روزنامہ جنگ (22 جنوری) کا ایک مضمون بھیجااور مشورہ دیا کہ اس میں پیش کیے گئے بعض مغالطوں پر کچھ لکھ دیا جائے۔ مضمون کا عنوان ہے ’’اسلام اور ریاست: ایک جوابی بیانیہ‘‘ مؤلفہ جاوید احمد غامدی۔ تفصیلی گفتگو تو ظاہر ہے یہاں ممکن نہیں، حتیٰ کہ سب نکات کو زیربحث لانا بھی ممکن نہیں۔ ان میں سے ہر موضوع ایک تفصیل چاہتا ہے، جس کا یہ مقام نہیں۔ یہاں فی الوقت ’’مسلم وحدت‘‘ کے موضوع پر ان کا فقہاء کی بابت ایک دعوىٰ ہمارے زیرغور آئے گا۔ لکھتے ہیں: ’’جن ملکوں میں مسلمانوں کی اکثریت ہے ، وہ اپنی ایک ریاست ہائے متحدہ قائم کرلیں۔ یہ ہم میں سے ہر شخص کا خواب ہوسکتا ہے اور ہم اس کو شرمندہ تعبیر کرنے کی جدوجہد بھی کرسکتے ہیں، لیکن اس خیال کی کوئی بنیاد نہیں ہے کہ یہ اسلامی شریعت کا کوئی حکم ہے جس کی خلاف ورزی سے مسلمان گناہ کے مرتکب ہورہے ہیں۔ ہرگز نہیں، نہ خلافت کوئی دینی اصطلاح ہے اور نہ عالمی سطح پر اس کا قیام اسلام کا کوئی حکم ہے۔ پہلی صدی ہجری کے بعد ہی ، جب مسلمانوں کے جلیل القدر فقہا ان کے درمیان موجود تھے، ان کی دو سلطنتیں ، دولت عباسیہ بغداد اور دولت امویہ اندلس کے نام پر قائم ہوچکی تھیں اور کئی صدیوں تک قائم رہیں، مگر ان میں سے کسی نے اسے اسلامی شریعت کے کسی حکم کی خلاف ورزی قرار نہیں دیا، اس لئے کہ اس معاملے میں سرے سے کوئی حکم قرآن و حدیث میں موجود ہی نہیں ہے۔ خط کشیدہ الفاظ فقہائے اسلام کی بابت ایک دعوىٰ ہے۔ مضمون نگار پاکستان کے غیر علماء طبقہ میں بےشک ایک بڑی مقبولیت رکھتے ہیں، جس کے بےشمار اسباب ہوں گے۔ لیکن طبقۂ علماء کے ہاں معاملہ اس کے برعکس ہے۔ کوئی وجہ ہونی چاہئے کہ ایک فکر کی بابت علمائے شریعت کے ہاں غیرعلماء طبقہ کی نسبت ایک یکسر مختلف رائے پائی جائے اور وہ اس کا کوئی علمی وزن لگانے پر آمادہ نہ ہوں۔ ایک جیالا ذہن (جو دنیوی علوم میں بےشک بہت پڑھا لکھا ہوگا) اِس ظاہرہ phenomenon کی تفسیر میں وہ بنیاد بھی اختیار کرنے چلا جاتا ہے جو مسیح نے علمائےبنی اسرائیل کی بابت اختیار فرمائی تھی، اور جس کی ہمسری میں مرزا قادیانی نے علمائے امتِ خاتم المرسلینؐ کی بابت ایک مخصوص لہجہ اور ذہن بھی تشکیل دے ڈالا۔ تاہم یہ سوال اپنی جگہ ہے کہ ہمارے ملک کے تقریباً تمام علمائےاسلام بلاتفریقِ مکاتب فکر، ’’المورد‘‘ نام سے سامنے آنے والے ایک نئے ڈسکورس کا علمی وزن لگانے پر آمادہ کیوں نہیں ہیں۔ کم فہمی کا عارضہ لاحق ہے یا کتمانِ حق ہو رہا ہے؟ آخر کچھ تو ہے۔ چند ایک کی بات بھی نہیں ہو رہی؛ آخر سبھی علماء کو کیا ہو گیا ہے؟ یا مسئلہ خود اِس نئے ڈسکورس کے ساتھ ہے؟ کسی ایک جانب کچھ مسئلہ ضرور ہے؛ اور کسی ایک کو معاملے پر نظرثانی کرنا ہوگی۔ ’’مسلم وحدت‘‘ کے موضوع پر فقہائے اسلام کے متعلق کیے گئے اِس دعویٰ سے ہی آپ کو اندازہ ہو جاتا ہے کہ حدیث یا فقہ پر مضمون نگار کے خیالات طبقۂ علماء کے ہاں توجہ نہیں پاتے تو اس کی کیا وجہ ہو سکتی ہے۔