مقبول احمد سلفی
سینئر رکن
- شمولیت
- نومبر 30، 2013
- پیغامات
- 1,400
- ری ایکشن اسکور
- 463
- پوائنٹ
- 209
مسلم پرسنل لا ء اور یکساں سول کوڈ پہ ہمارا موقف
مقبول احمد سلفی /داعی اسلامک دعوہ سنٹر-طائف
اسلام نے ہمیں زندگی کے تمام امور کی طرف رہنمائی کی ہے ،اس نے ہمیں عائلی قانون اور پرسنل لا ءبھی دیا ہے ۔ہمارا یہ پرسنل لا ءانسانوں کا وضع کیا ہوا نہیں ہے بلکہ اللہ کا بنایا ہواقانون ہے ، ہم مسلمان اللہ کے فطری قانون یعنی پرسنل لاء کوکبھی نہیں چھوڑ سکتے یا اس میں ذرہ برابر بھی تبدیلی برداشت نہیں کرسکتے یا کوئی مسلم پرسنل لاء کی جگہ یکساں سول کوڈ کی بات کرے تو قطعی اسے منظور نہیں کرسکتے ۔ اللہ کا حکم ہے : الا لہ الخلق والامر تبارک اللہ رب العالمین(الاعراف:54)
ترجمہ: یاد رکھواللہ ہی کے لئے خاص ہے خالق ہونا اور حاکم ہونا،بڑی خوبیوں سے بھرا ہواہے اللہ جو تمام عالم کا پروردگار ہے ۔
یہاں سب سے پہلے ایک اہم چیز جان لیں کیونکہ میں نے اکثریت کو اس سے غافل دیکھا ہے ۔جب میں نے این ڈی ٹی وی پہ طلاق ثلاثہ کا ایک ڈیبیٹ دیکھا جس میں نئی دنیا کاایڈیٹر شاہد صدیقی نے بیان دیا ہے کہ مسلم پرسنل لا ء انگریزوں کا بنایاہواقانون ہے تو مجھے کافی دکھ ہوا اور ایسے صحافی کی جہالت پہ بہت افسوس بھی ہوا۔اس لئے میں چاہتاہوں کہ آپ کو ایک اہم جانکاری دیتا چلوں ۔
مسلم پرسنل لاء : مسلم قوم کے معنی میں،پرسنل کا معنی شخصی وذاتی اور لاء کا معنی ہے قانون یعنی مسلمانوں کا شخصی قانون۔ اس سے مراد ہمارے خاندانی اور عائلی زندگی کے مسائل ۔ اس کے دائرے میں نکاح،طلاق،عدت،نان ونفقہ،خلع،ظہار،ایلاء،فسخ،مہر،حق پرورش، ولایت، میراث،رضاعت، حضانت، وصیت،ہبہ،والدین،اولاد اور زوجین کے حقوق،تعددازدواج ،شفعہ،وقف وغیرہ جو عائلی امور ہیں اس میں سب داخل ہیں۔اسی کو اردو میں اسلامی عائلی قانون، عربی میں احوال شخصیہ اور انگریزی میں مسلم پرسنل لاءکہاجاتا ہے ۔
تو مسلم پرسنل لاء ہمارا شرعی عائلی قانون ہے ۔ اور ایک ہے مسلم پرسنل لاء بورڈ، اس کا پورا نام آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ ہے ۔یہ ایک تنظیم ہے جومسلم پرسنل لاء( جوکہ ہمارا عائلی قانون ہے) اس کے تحفظ کے لئے تمام مسلمانوں نے مل کر قائم کیا ہے۔ 1973 میں یہ بورڈ قائم ہوا، اب تک اس بورڈ کے چوالیس سال ہوگئے ،شروع سے آج تک اس پہ حنفیت کی اجارہ داری رہی ۔ بورڈ کی ذیلی شاخیں،اس کا سہ ماہی رسالہ "خبرنامہ"سب فقہ حنفی کی ترجمانی میں منہمک ہیں ۔ اس بورڈ نے عائلی قانون پہ ایک مجموعہ ترتیب دیا ہے "مجموعہ قوانین اسلامی"کے نام سے جو خالص فقہ حنفی کی روشنی میں ہے ۔جب کورٹ میں مسلمانوں کا کوئی مقدمہ کیا جاتا ہے تومسلم وکلاء اسی مجموعہ کی روشنی میں اپنا بیان دیتے ہیں۔ یہ بورڈ ایک مجلس کی تین طلاق کو تین ہی مانتا ہے جو کہ قرآن وحدیث کے خلاف ہے ،اسی طرح حلالہ کوبھی تسلیم کرتاہے جوکہ ایک لعنتی فعل ہے ۔ بورڈ کے اس موقف سے ہم اتفاق نہیں رکھتے ۔باوجود کہ یہ بورڈ حنفیت کا شکارہے جبکہ اس بورڈ پہ سارے مسلمانوں کا حق ہےپھربھی ہم مسلمان اس کے ساتھ ہیں البتہ اس بورڈ کے جو مسائل قرآن وحدیث کے خلاف ہیں مثلا طلاق ثلاثہ اور حلالہ تو ہم ان مسائل میں اس بورڈکے ساتھ اتفاق نہیں رکھتے ۔
خلاصہ یہ کہ مسلم پرسنل لاء ہمارا شرعی عائلی قانون ہے اور مسلم پرسنل لاء بورڈ ایک تنظیم کا نام ہے جودراصل مسلم پرسنل لاء کے تحفظ کے لئے ہی قائم کیاگیاہے۔کتاب وسنت سے مخالف مسائل میں ہم بورڈ کے ساتھ نہیں لیکن مجموعی اعتبار سے اس بورڈ کے ساتھ ہیں ۔
یہاں اب یکساں سول کوڈ کا مفہوم بھی واضح کرتاچلوں۔
ہندوستانی قوانین کی دو اہم قسمیں ہیں ۔
(1) دیوان سے متعلق قانون کو سول کوڈکہاجاتاہے۔
(2) جرم کی سزا اور بعض انتظامی امور سے متعلق قانون کوکریمنل کوڈکہاجاتاہے۔
دوسری قسم میں تمام ملک والوں کے لئے یکساں قانون ہے ،رنگ ونسل اور مذہب کی بنیاد پر کسی قسم کی تفریق نہیں رکھی گئی ہے البتہ پہلی قسم سول کوڈ جس کا تعلق معاشرتی ،تمدنی اور معاملاتی مسائل سے ہے اس کا ایک حصہ پرسنل لا ءہے ۔ اس کے تحت بعض اقلیتوں جن میں مسلمان بھی داخل ہیں اختیار ہے کہ نکاح ،طلاق ،عدت، خلع،وقف،میراث وغیرہ سے متعلق کورٹ میں اگر مقدمہ کیا گیا اور دونوں فریق مسلمان ہیں تواسلام کے مطابق فیصلہ ہوگااسی کا نام مسلم پرسنل لاءہے ۔
دولفظوں میں یہاں یہ جان لیں کہ بھارتیہ لا ءکمیشن چاہتی ہے کہ ہندوستان میں ایک جیسا قانون نافذ ہویعنی کسی مذہب کے ماننے والے کاکوئی قانون نہ ہوگا،سب کے لئے نکاح ووراثت وغیرہ کا قانون ایک جیسا ہوگاخواہ وہ قانون کسی کے مذہب کے خلاف ہی کیوں نہ ہو۔
ہندوستان میں مسلمانوں نے پانچ سوسال حکومت کی اس دوران کسی ہندو کو مسلم پرسنل لا ءیا یکساں کوڈ کا پابند نہیں بنایا گیا بلکہ ہندو اپنے مذہب کے مطابق عمل کرتے تھے ۔اسی طرح انگریز کے ایک سو پچہترسالہ(175) نظام حکومت میں ہندوکو ہندوپرسنل لاء اورمسلم کو مسلم پرسنل لا ءپر عمل کرنے کی آزادی رہی مگر ملک کی آزادی کے بعد مسلمانوں کے پرسنل لا ءمیں بارہا مداخلت کی کوشش کی گئی بلکہ آزادی سے پہلے سے ہی مسلمانوں کو اپنے پرسنل لا ءکے متعلق کافی تشویش لاحق تھی ۔ اس لئے اس تشویش کو ختم کرنے کی غرض سے 1931 میں کانگریس ورکنگ کمیٹی نے ایک قرار داد منظور کیا کہ آزاد ہندوستان میں پرسنل لا ءکوخصوصی تحفظ دیا جائے مگرآزادی سے لیکر آج تک مسلم پرسنل لا ءکو کوئی خصوصی تحفظ فراہم نہیں ہوسکا ، آئے روزمسلم پرسنل لا ءمیں مداخلت اور یکساں سول کوڈ کی بات اٹھاکرمسلمانوں میں بے چینی پھیلائی جاتی ہے جبکہ دستورہند کے دفعہ (25) کی روشنی میں ہرمذہب والے کو اپنے مذہب پر عمل کرنے کی مکمل آزادی ہے ۔
یکساں سول کوڈ اور آئین ہند: آئین ہند کے دفعہ (44) میں یوں لکھا گیا ہے کہ ریاست کوشش کرے گی کہ پورے ملک میں یکساں شہری قانون ہو۔یہی وجہ ہے کہ ابتدائے آزادی سے ہی ملک میں یکساں سول کوڈ کے نفاذ کی راہ ہموار کی جارہی ہے جو سراسر اسلام سے متصادم ہے اور دفعہ (25) کے مخالف بھی ۔
یکساں سول کوڈ کے نفاذ کا بہانہ : کامن سول کوڈ کے نفاذ کی اصل وجہ مسلمانوں کو نقصان پہنچانا ہے مگر بہانے کے طور پر یہ بات کہی جاتی ہے کہ یکساں سول کوڈ سے قومی یک جہتی پیدا ہوگی اور یورپ کی مثال کی پیش کی جاتی ہے کہ جب وہاں تمام اقوام کے لئے یکساں قانون ہوسکتا ہے تو ہندوستان میں کیوں نہیں؟
ہندوستان کثیرالمذاہب اور مختلف تہذیب وثقافت کا حامل ہے جس کی نظیرنہ یورپ میں ہے نہ افریقہ میں ۔ یہاں یکساں سول کوڈ کی بات کرنا پاگل پنی ہوگی ۔ اس سے قومی یک جہتی نہیں فرقہ وارانہ فساد پھیلے گا جو ملک وقوم کو تباہ وبرباد کردے گا۔
یکساں سول کوڈ کے تدریجی مراحل اور مسلم پرسنل لاء میں مداخلت: ملک میں شروع سے یکساں سول کوڈ کی بات کی گئی اس وجہ سے مسلم دشمن پارٹی اور حکومت اس قانون کو نافذکرنے کے لئے ہمیشہ راہ ہموار کرتی رہی ۔ 1950 میں جب ہندو کوڈ بل پاس کیا گیا تو اس وقت کے وزیر قانون مسٹر یائسکر نے کہا تھا کہ ہندو قوانین میں جو اصلاحات کی جارہی ہیں وہ مستقبل قریب میں ہندوستان کی تمام اقوام پر نافذ کی جائے گی ۔ 1963میں مرکزی حکومت نے مسلم پرسنل لا میں اصلاح کے لئے کمیشن بٹھایایہاں تک کہ 1972 میں متبنی کا اسلام مخالف بل پاس ہوا۔متبنی بل کی رو سے اگر کسی کوئی بچہ گود لیا تو اسے اصل اولاد کی حیثیت حاصل ہوگی اورمیراث میں برابرکا شریک ہوگا۔مسلمانوں نے اس کے خلاف ملک گیرآواز اٹھائی بالآخر جنتا پارٹی کی حکومت میں 1978 کو یہ بل مسترد کیا گیا۔پھرپانچ ماہ بعد کانگریس کی حکومت میں 1978 ہی کودوبارہ یہ بل پیش کیا گیا مگر منظور نہ ہوسکا۔ 1985 میں شاہ بانوکیس میں سپریم کورٹ نے یہ فیصلہ دیا کہ جس مرد نے اپنی بیوی کو طلاق دیا ہے اسے عدت کے بعد بھی دوسری شادی ہونے تک نان ونفقہ برداشت کرنا پڑےگا۔مسلمانوں کے جدوجہد سے ایک سال بعد 1986کو یہ قرارداد ختم ہوئی ۔
کچھ دنوں پہلے اتراکھنڈکی سائرہ بانوجسے اس کے شوہرنے بذریعہ خط تین طلاق دیاتھااس کے رد عمل میں اس نے سپریم کورٹ میں تین طلاق اور حلالہ کو ختم کرنے کی اپیل کی ہے ۔سائرہ بانو کے اس اقدام سے ملک میں ایک بار پھر یکساں سول کوڈ کی بات بڑے شدومد سے اٹھنی شروع ہوگئی ہے ۔حکومت کو ایک بار پھریکساں سول کوڈ کے نفاذ کا بہانہ مل گیا۔ عوامی سطح پر یکساں کوڈ کے متعلق کانفرنسیں ہورہیں ،کہیں پر ہندومسلمان سارے اس کے متعلق سیمنار کررہے ہیں۔ پورے ملک میں ایک بار پھر بے چینی کی لہر پھیل گئی ہے ۔
یکساں سول کوڈ کے پیچھے حکومت کا مقصد: حکومت اس قسم کا موقع تلاش کررہی ہےکہ کس طرح یکساں سول کوڈ کے نفاذ کا جواز فراہم کیا جاسکے ۔یکساں سول کوڈ اسلام دشمن کوڈ ہے اسے ہم مسلمان کسی بھی قیمت پر تسلیم نہیں کریں گے جولوگ اسے نافذ کرنا چاہتے ہیں وہ اسلام اور مسلمانوں کے دشمن ہیں ،اس کے پیچھے ان کا مقصد مسلمانوں کو اپنے دین سے دور کرناہے، کفروالحاد کو مسلمانوں میں داخل کرنا ہے تاکہ مسلمان اپنا ایمان واسلام کھوبیٹھے، ان میں اور ہندوقوم میں کوئی فرق نہ رہ جائے ۔گویا یکساں سول کوڈ مسلمانوں کو ہندو بنانے کی ایک گہری شازش ہے ۔مسلمانوں کی بڑھتی آبادی سے کفار کو خطرہ لاحق ہے اس لئے وہ کبھی ہمارے اوپر زبردستی فیملی پلاننگ تھوپنا چاہتے ہیں تو کبھی فرقہ پرستی کو ہوادے کرمسلمانوں کا قتل عام کررہےہیں جیسے گجرات میں کیا۔ آج ہندوتو کاایجنڈا مسلمانوں کو ہندو بنانے کا ہے ۔وی ایچ پی اوربجرنگ دل کا دعوی ہے کہ 2020 تک ہم سارے مسلمانوں کو ہندو بنادیں گے ۔ بی جے پی جو ان جیسے تمام متشدد ہندو تنظیموں کی سرپرستی کررہی ہے ا س نے بھی ہندوتوکے اس مقصد کی برآوری کے لئے اپنے ایجنڈے میں یکساں سول کوڈ کا نفاذ رکھا ہے ۔ اور جب سے یہ حکومت برسرے اقتدار ہوئی ہے اسی وقت سے مسلم پرسنل لاء میں مداخلت اور یکساں سول کوڈ کے نفاذ کی پوری کوشش کررہی ہے ۔گجرات ہائی کورٹ نے مرکزی حکومت کو باقاعدہ حکم دے دیا ہےکہ وہ یکساں سول کوڈ نافذ کرے ۔
یکساں سول کوڈ کی خرابیاں : ہندوستان مختلف اقوام وملل کا مجموعہ ہے ، اس ملک میں ہندو، مسلم،سکھ،یہودی، عیسائی،شیعہ ،قادیانی،بودھ،جین،پارسی سیکڑوں قومیں رہتی ہیں پھر ان قوموں میں بھی کئی کئی فرقے ہیں،ان سب قوموں اور فرقوں کا مذہبی طورطریقہ اور عائلی ومعاشرتی قانون الگ الگ ہے ۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک جیساعائلی قانون ان ساری قوموں پر تھوپ دیا جائے ۔ نہ ہی اس کا امکان ہے اور نہ ہی یہ اقوام یکساں خاندانی قانون چاہیں گی ۔ اور اگر بالجبرنافذ بھی کردیا گیا تو ملک کی یک جہتی پارہ پارہ ہوکر رہ جائے گی ، قوموں کے درمیان اختلاف وانتشار پھیلے گا،فرقہ پرستی کو ہوا ملے گی اور قتل وغارت گری کا بازارگرم ہوجائے گاکیونکہ یکساں سول کوڈ مذہب کے خلاف ہے ، یکساں سول کوڈ آئین ہندکے خلاف ہے، یکساں سول کوڈ ملک کی یک جہتی اور سالمیت کے خلاف ہے۔ آج ہم دیکھتے ہیں کہ ایک مذہب کا لڑکا دوسرے مذہب کی لڑکی سے شادی کرلیتا ہے تو پورے سماج میں تناؤ پیدا ہوجاتا ہے ،قتل وخون تک نوبت پہنچ جاتی ہے ۔ہندوستان مختلف قوم، مختلف تہذیب،مختلف زبان اور مختلف رنگ ونسل کا گہوارہ ہے یہی اس کا حسن ہے ۔یکساں سول کوڈ اس حسن کے خاتمہ کا نام ہے ۔یکساں سول کوڈ کے متعلق میری یہ حتمی رائے ہے کہ وہ کوڈ ہندوانہ ہوگاجیساکہ 1950 میں اس وقت کے وزیرقانون مسٹر یائسکرنے کہا تھا کہ آج جو اصلاحات ہندو قوانین میں کی جارہی ہیں وہ عنقریب ہندوستان کے تمام لوگوں پر نافذ کیا جائے گا۔ اس کی رو سے ہمیں صبح صبح اللہ کا نام لینے کی بجائے وندے ماترم کا مشرکانہ ترانہ گانا پڑے گا، سوریہ نمسکار کرنا ہوگا، گائے ، زمین ،سورج ،چاند،ستارے ساری چیزوں کو معبود ماننا پڑے گااور ان کی بھکتی کرنی پڑے گی ، اسپیشل میریج ایکٹ،انڈین سیکشین ایکٹ کے ماتحت کوئی کسی بھی مذہب میں بلاروک ٹوک شادی کرسکتا ہے پھراسلامی نکاح، طلاق،خلع، عدت،مہر،نان ونفقہ وغیرہ کا کوئی اسلامی تصور نہیں رہ جائے گا۔ لے پالک اصل اولاد مانی جائے گی ،میراث میں حصہ دارہوگا۔ہم جنسی کا فروغ ہوگا۔ اسلامی حجاب،عورتوں کے حقوق، مردوعورت کے درمیان فرق ساری چیزیں بے معنی ہوجائیں گی ۔ہمارے مذہبی ادارے، مقدس مقامات سب کو خطرہ لاحق ہوجائے گا۔
اس لئے مسلمان ہونے کے ناطے کبھی بھی ہم یکساں سول کوڈ کو قبول نہیں کرسکتے ،اسے قبول کرکے ہم مسلمان ہی نہیں رہ سکتے ۔
اللہ تعالی کا فرمان ہے:
اللہ تعالی کا فرمان ہے :
فَلاَ وَرَبِّکَ لَا یُؤْمِنُوْنَ حَتّٰی یُحَکِّمُوْکَ فِیْمَا شَجَرَ بَیْنَہُمْ ثُمَّ لَا یَجِدُوْا فِیْ أَنْفُسِہِمْ حَرَجًا مِمَّا قَضَیْتَ وَیُسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا(النساء: 65)
ترجمہ: نہیں! تیرے رب کی قسم لوگ بالکل مسلمان نہیں ہوسکتے جب تک کہ وہ آپ کو اپنے درمیان کے جھگڑوں میں فیصل تسلیم نہ کرلیں۔ پھر جو آپ فیصلہ کریں اس کے بارے اپنے دل میں کوئی تنگی بھی محسوس نہ کریں اور اسے دل وجان سے تسلیم کرلیں۔
اللہ کا فرمان ہے :
وَمَن يَبْتَغِ غَيْرَ الْإِسْلَامِ دِينًا فَلَن يُقْبَلَ مِنْهُ وَهُوَ فِي الْآخِرَةِ مِنَ الْخَاسِرِينَ (آل عمران:85)
ترجمہ: جو شخص اسلام کے سوا اور دین تلاش کرے اس کا دین قبول نہ کیا جائے گا اور وہ آخرت میں نقصان پانے والوں میں سے ہوگا۔
اللہ کا فرمان ہے :
وَمَا آتٰکُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْہُ وَمَا نَہٰکُمْ عَنْہُ فَانْتَہُوْہُ(الحشر:7)
ترجمہ: اور جو آپ ﷺ دیں اسے لے لو اور جس چیز سے منع فرمائیں اس سے باز رہو۔
سر کٹادیں گے مگر جس قانون سے اللہ کی نافرمانی ہوتی ہے اس کے آگے سر نہیں جھکائیں گے ۔نبی ﷺ کا فرمان ہے :
لاطاعۃ فی معصیۃ اللہ ،انما الطاعۃ فی المعروف(صحیح مسلم: 1840)
ترجمہ: اللہ کی معصیت میں کسی قسم کی اطاعت قبول نہیں کی جائے گی ،اطاعت تو صرف بھلی باتوں میں ہے۔
حکومت ہند کو چاہئے کہ ملک میں ترقی کا کام کرے اور جن چیزوں سے ملک کھوکھلا ہورہاہے یا ملک میں تباہی پھیلی ہوئی ہے ان کا سد باب کرے ۔آج پورے ملک میں اسقاط حمل ،زنا،رشوت،قتل،گھوٹالہ،ناانصافی،ظلم،تشدد،بھوک مری،بے روزگاری،غریبی،خودکشی اور فرقہ پرستی عام ہے،حکومت کو ان چیزوں کی اصلاح کرنی چاہئے۔
اس وقت ملک میں کم ازکم بارہ کروڑ افراد بے روزگارہیں،جرائم کا سترفیصد حصہ بے روزگاری کی وجہ سے ہے۔ بھارت میں ہرایک گھنٹے کے بعد ایک عورت جہیز کی وجہ سے ماری جاتی ہے یا مرجاتی ہے ۔ ماں کے پیٹ میں ہرسات سکنڈ میں ایک بچے کا قتل ہوتاہے،بعض رپورٹ کے مطابق ہرروز 2000 بچیوں کا قتل کیاجارہاہے ۔ ایک سروے کے مطابق ہرپندر ہ منٹ پہ ایک زناہوتاہے اور ہمارامہان ملک ان دس بڑے ملکوں میں سے ایک ہے جہاں زنا کی شرح سب سے زیادہ ہے ۔ ہندوستان کی سواارب کی آبادی میں مسلمانوں کی تعداد تقریبا چودہ فیصدہے لیکن ایک تازہ سرکاری رپورٹ کے مطابق ملک میں بھیک مانگنے والا ہرچوتھا شخص مسلمان ہے ۔اسی طرح مسلمانوں پراس قدر مظالم ڈھائے جارہے ہیں کہ انہیں بغیرثبوت کے سالوں جیل میں قیدکردیاجاتا ہے ،جب ان کی آدھی عمر ختم ہوجاتی ہے ، ان کے بال بچے اور گھرپریوارتہس نہس ہوجاتے ہیں تو انہیں بری قرار دے کرجیل سے رہاکیاجاتاہے۔لگ بھگ پچیس فیصد مسلمان جیل میں بند ہیں۔ایک رپورٹ کے مطابق ہرچوتھا مسلمان جیل میں ہے۔ ہندوستان میں ہرآٹھ گھنٹے میں ایک کسان خودکشی کرنے پر مجبور ہے ۔
حکومت ان جیسے مسائل کوحل کرنے کی کوشش کرے نہ کہ یکساں سول کوڈ کا نفاذکرکے ہندوستانی کرائم میں مزید اضافہ کرے ۔ہم مسلمانوں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ آئین ہند کے تحت ہمیں جو حقوق واختیارات ملے ہیں ان میں تصرف نہ کرنے دیں اور نہ ہی ہم کسی طور پر یکساں سول کوڈ کو منظور کریں گے ۔