مقبول احمد سلفی
سینئر رکن
- شمولیت
- نومبر 30، 2013
- پیغامات
- 1,400
- ری ایکشن اسکور
- 463
- پوائنٹ
- 209
مسلکی اختلاف کی وجہ سے ایک عالمہ کا بطورنرس کام کرنا
تحریر: مقبول احمد سلفی
اسلامک دعوۃ سنٹر، شمالی طائف(مسرہ)
سوال : ایک بہن کا سوال ہے کہ میں نے عربی لائن سے عالمہ کورس کیا پھر کئی بار پڑھانے کی کوشش کی مگر اختلاف کی شدت کی وجہ سے سمجھ نہیں آتا کہ کون سا مسلک صحیح اور کون سا غلط ہے؟ اسی طرح ضعیف، صحیح اور قوی وغیرہ ۔ان ساری باتوں کی وجہ سے پڑھانے کا دل نہیں کیا اور سب کچھ چھوڑکر نرسنگ کورس کیا اور بہت اچھے ڈھنگ سے جاب بھی کیا مگر اس جاب میں اسکارف منع ہے ایسی صورت میں ہم کیا کریں ؟
جواب: اللہ کا شکر ہے کہ اس نے آپ کو دین کی تعلیم حاصل کرنے کی توفیق دی ورنہ فتنے کے اس دور میں دینی تعلیم سے لوگ کوسوں دور ہیں اور خواتین میں دینی تعلیم کا گراف توبہت ہی کم ہے ۔ احادیث رسول کی روشنی میں جہاں مردوخاتون کے لئے دینی تعلیم حصول کرنا فرض ہے وہیں امت مسلمہ کے ہرفردبشر پہ دین کی تبلیغ حسب استطاعت اور بقدرعلم واجب بھی ہے ۔ قیامت میں ہرکسی سے پوچھ ہوگی کہ اس نے کتنا علم حاصل کیا اور اس پر کتنا عمل کیا۔ جو علم حاصل کرتا ہے اس کے ذمہ عمل کے ساتھ اس علم کی تبلیغ بھی ہوتی ۔ نبی ﷺ کا فرمان ہے : میری ایک بات بھی کسی کو معلوم ہو وہ اسے دوسروں تک پہنچائے ۔
شرعی آداب کا لحاظ کرتے ہوئے نرس کا پیشہ اختیار کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے لیکن جس پیشے میں حجاب کی اجازت نہ ہو وہ پیشہ اختیار کرنا اسلامی اعتبار سے جائز نہیں ہے۔ آپ ایک عالمہ ہیں ، خواتین میں دینی تعلیم ، دینی شعور اور علم وعمل کی کمی ہے ایسے میں آپ جیسے خوش نصیب عالمہ کا فریضہ دعوت دین کے تئیں کافی بڑھ جاتا ہے ۔ مجھے آپ کے گھریلو اخراجات ووسائل کا علم نہیں ہے مگر یہ ہمیں معلوم ہے کہ ایک عورت کی کفالت شادی سے پہلے والد کی اور شادی کے بعد شوہر کی ہے ۔ اس ناحیہ سے آپ مزید خوش نصیب ہیں کہ معاشی تگ ودو سے آزاد ہیں ، فقط گھریلو امور کی انجام دہی آپ کے سر ہے اس کے بعد دین کے لئے متفرغ ہیں ۔گھریلو کام میں بھی کافی مصروفیت ہوتی ہے مگر جنہیں کچھ کرنے کا جذبہ ہو وہ اپنے اوقات کی تنظیم سازی کرتا ہے اور شب وروز کو اس تنظیم کے حساب سے گزارتا ہے ۔
میں نرس کا پیشہ اختیار کرنے سے منع نہیں کرتا ہوں مگراپنے ناقص علم کی روشنی میں ایک فکر دینا چاہتا ہوں کہ نرسنگ کا جاب کرتے ہوئےکیا آپ دینی علم کا حق ادا کر پارہی ہیں جسے کافی محنت سے سیکھا ہے؟ اوریقین کریں جب دینی مشغلہ اپنائیں گی خواہ تدریس ہو یا دعوت وتبلیغ تو اس میں جو خوشی ہوگی یا دلی راحت وسکون ملے گا اور اللہ کی مدد آئے گی ، اس طرح دوسرے وظیفہ میں اجر وثواب اور راحت وخوشی کا احساس کبھی نہ ہوگا۔
اگر معاشی پریشانی یا بغیر کسی پریشانی کے دنیاوی جاب کرنا چاہتے ہیں تو بھی میں اس سے نہیں روکتا تاہم تین اہم باتوں کا خیال رکھنا آپ کے لئے ضروری ہے ۔ پہلی بات آپ کے سر جو عائلی حقوق وفرائض ہیں ان کی انجام دہی میں کوتاہی نہ کریں ، دوسری بات دین کا جو علم حاصل کیا ہے اس پہ عمل کرنے ساتھ دوسروں کو دعوت دینے کے لئے کچھ وقت نکالیں اورتیسری بات یہ ہے کہ ایسا جاب تلاش کریں جہاں عورت ومرد کا اختلاط نہ ہو، شرعی حجاب کی پابندی ہو اور آپ کی عزت وناموس کی حفاظت ہو۔
آپ نے مسلکی اختلاف کا ذکر کیا کہ اس وجہ سے پڑھانے کی طرف دل مائل نہیں ہوا۔ آپ تعلیم حاصل کرنے کے بعد یہ بات کررہی ہیں کچھ اچھا نہیں لگ رہاہے ۔ فقہی مسائل اور نصوص کی فہم میں اہل علم کے درمیان اختلاف ہےضرور ہے مگرجو اصل دین ہے اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے ،اللہ نے یہاں تک فرما دیا کہ اگر یہ قرآن اللہ کے علاوہ کی طرف سے ہوتا تو اس میں تمہیں کافی اختلاف ملتا ۔ الحمد للہ ہمارے دین میں کوئی اختلاف نہیں ہے ۔ جہاں تک اہل علم کی بصیرت وفہم میں اختلاف کا معاملہ ہے ۔ اس اختلاف کو کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ پر پیش کریں گے جو قرآن وحدیث کے موافق ہوا اختیار کریں گے اور جو مخالف ہوا چھوڑ دیں گے چاہئے کسی کا بھی قول ہو۔ یہی وجہ ہے کہ دین میں کسی امام معین یا شخصیت کی تقلید جائز نہیں ہے ۔
ابھی جس دور میں جی رہے ہیں وہ علم اور ٹکنالوجی کا ہے ، اس وقت حق کی معرفت ، حق کی تلاش اور حق تک پہنچ بہت آسان ہے ۔ گھر بیٹھے ایک اختلافی مسئلہ کو بڑی آسانی سے حل کرسکتے ہیں ۔ سارے علوم اکٹھے ہیں ، مراجع ومصادر کی طرف رجوع نہایت آسان ہے ،ایک ایک ایپ میں ہزاروں کتابیں، متعددفتاوی اور مختلف زبان کی سہولیات دستیاب ہیں، کونے کونےسے علماء سے رابطہ سہل ہوگیا ہے ۔ ان سہولیات کی بدولت آج حق تلاش کرنا نہایت آسان ہوگیاہے اورنہ صرف مسلمان مردوخواتین کو صحیح دین کی سمجھ آرہی ہے بلکہ غیربھی جوق درجوق اسلام میں داخل ہورہے ہیں ۔
جہاں آپ کو کسی مسئلہ میں شدیداختلاف لگے ، خود سے کسی نتیجہ تک رسائی حاصل کرنا دشوار لگے تو اس مسئلے میں کبارعلماء کی طرف رجوع کریں جیساکہ اللہ کا فرمان ہے کہ اگر تمہیں کسی بات کو علم نہ ہو تو اسے اہل علم سے پوچھو۔ اس طرح جب چند علماء کے مختلف فتاوی اور دلائل آپ کے سامنے آئیں گے تو ان میں کہیں دلائل کی قوت اور حق کا پہلو غالب نظر آئے گا اسے اختیار کریں ۔ اور یہ محض فروعی مسائل میں آپ کو دشواری ہوگی جبکہ اصل دین میں ، دین پر عمل کرنے میں اور اس کی دعوت دینےمیں اس قدر دشواری کا سامنا نہ ہوگا۔ اللہ سے دین کی سمجھ پانے کی دعا بھی کریں ،وہ سینوں کو کھولنے والا، حق تک پہنچانے والا اور دلوں میں سچی بات بٹھانے والا ہے ۔