سوال : ميرا ايك بچہ ہے اور ميرى بہن كى بچى ہے ميں اپنے بيٹے كو اپنى بہن كا دودھ پلانا چاہتى ہوں تا كہ وہ آپس ميں رضاعى بھائى بن جائيں، اور ان كے ليے ايك دوسرے سے ملنا ميں كوئى حرج نہيں رہے اور آسانى سے ايك دوسرے كے پاس جاسكيں.
تو كيا اس كے ليے پستان سے منہ لگا كر دودھ پينا شرط ہے يا كہ دودھ نكل كر بچے كو پلايا جا سكتا ہے، اور اگر وہ كسى علاقہ ميں ہو تو فريج ميں محفوظ كر كے اسے پلايا جا سكتا ہے يا نہيں ؟
الحمد للہ:
اول:
بہن يا بھائى يا كسى دوسرے كے بيٹے كو دودھ پلانے ميں كوئى حرج نہيں؛ تا كہ وہ دودھ پلانے والى عورت اور اس كے بچوں كے ليے محرم بن سكے اور ان كا ايك دوسرے كے پاس جانا آسان ہو.
عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا جسے چاہتيں كہ وہ ان كے پاس آيا جايا كرے تو عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا جنہيں اپنے پاس آنا پسند كرتيں ان كے متعلق اپنى بھتيجيوں اور بھانجيوں كو حكم ديتى كہ وہ انہيں دودھ پلائيں تا كہ وہ ان كے پاس آ سكيں "
سنن ابو داود حديث نمبر ( 2061 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح ابو داود ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.
دوم:
حرمت ثابت كرنے والى رضاعت پستان سے منہ لگا كر دودھ پينے پر موقوف نہيں، بلكہ اگر كسى برتن ميں ڈال كر بچے كو پلا ديا جائے تو بھى اس سےحرمت ثابت ہو جاتى ہے، جمہور علماء كرام كے ہاں معتبر يہى ہے.
ابن قدامہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" امام شافعى رحمہ اللہ كہتے ہيں: اور ناك كے ذريعہ دودھ پلانا اور پستان كو منہ لگائے بغير بچے كے حلق ميں دودھ ڈال دينا بھى رضاعت كى طرح ہى ہے.
السعوط: ناك كے ذريعہ خوراك دينا، اور الوجور: حلق ميں دودھ ڈالنے كو كہتے ہيں.
اور ان دونوں طريقوں سے حرمت ثابت ہونے كى روايت ميں اختلاف ہے: دونوں روايتوں ميں صحيح ترين يہى ہے كہ اس سے بھى اسى طرح حرمت ثابت ہو جاتى ہے جس طرح رضاعت سے ثابت ہوتى ہے.
شعبى اور ثورى اور اصحاب الرائے كا يہى قول ہے، اور حلق ميں ڈالنے كے متعلق امام مالك بھى يہى كہتے ہيں.
اور دوسرى روايت يہ ہے كہ: اس سے حرمت ثابت نہيں ہوتى، ابو بكر نے يہى اختيار كيا ہے، اور داود كا يہى مسلك ہے، اور عطاء خراسانى ناك كے ذريعہ دودھ كى خوراك لينے كے متعلق كہتے ہيں يہ رضاعت نہيں، بلكہ اللہ تعالى اور اس كے رسول نے رضاعت سے حرمت ثابت كى ہے.
اس كى حرمت كى دليل عبد اللہ بن مسعود رضى اللہ تعالى عنہما كى يہ روايت ہے:
نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" رضاعت وہى ہے جس سے ہڈى پيدا ہو اور گوشت بنے "
اسے ابو داود نے روايت كيا ہے.
اور اس ليے بھى كہ يہ اس طريقہ سے بھى دودھ وہى پہنچتا ہے جہاں رضاعت كے ليے پہنچتا ہے، اور اس طرح خوراك لينے سے بھى گوشت بنتا اور ہڈى بنتى ہے جس طرح پستان سے رضاعت ميں پيدا ہوتى ہے، اس ليے اسے حرمت ميں بھى برابر ہونى چاہيے " انتہى بتصرف
ديكھيں: المغنى ( 8 / 139 ).
سوم:
حرمت كے ليے رضاعت ميں شرط يہ ہے كہ پانچ رضاعت ہوں اور بچہ دو برس كى عمر سے تجاوز نہ كرے.
اور يہاں پانچ رضاعت كا حساب اس طرح لگايا جائيگا كہ برتن ميں دودھ ڈال كر بچے كو پانچ مختلف اوقات ميں پلايا جائے.
ابن قدامہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" جب دودھ ايك ہى بار برتن ميں نكال ليا جائے يا پھر كئى بار نكالا جائے اور پھر اسے پانچ اوقات ميں بچے كو پلايا جائے تو يہ پانچ رضاعت ہونگى، اور اگر ايك ہى وقت ميں پلا ديا جائے تو يہ ايك شمار ہو گى، كيونكہ بچے كے پينے كا اعتبار ہو گا، اور اسى سے حرمت ثابت ہو گى، اس ليے اس كا متفرق اور اجتماع كے فرق كا اعتبار كريں " انتہى
ديكھيں: الكافى ( 5 / 65 ).
واللہ اعلم .
الاسلام سوال و جواب