lovelyalltime
سینئر رکن
- شمولیت
- مارچ 28، 2012
- پیغامات
- 3,735
- ری ایکشن اسکور
- 2,899
- پوائنٹ
- 436
مسند احمد بن حنبل --- احمد بن حنبل --- روح کا جسم میں واپس لوٹ آنا
مسند احمد:جلد ہشتم:حدیث نمبر 479
1 - پہلی بات تو یہ کہ یہ روایت ہی قرآن کے خلاف ہے - قرآن میں الله فرماتا ہے کہ
یقیناً ہم نے انسان کو مٹی کے جوہر سے پیدا کیا۔ پھر ہم نے اسے نطفہ کی صورت میں ایک محفوظ مقام (رحم) میں رکھا۔ پھر ہم نے نطفہ کو منجمد خون بنایا اور پھر ہم نے اس منجمد خون کو گوشت کا لوتھڑا بنایا پھر اس لوتھڑے سے ہڈیاں پیدا کیں پھر ان ہڈیوں پر گوشت چڑھایا پھر ہم نے (اس میں روح ڈال کر) ایک دوسری مخلوق بنا دیا۔ پس بڑا بابرکت ہے وہ اللہ جو بہترین خالق ہے۔ پھر تم اس کے بعد ضرور مرنے والے ہو۔ پھر اس کے بعد تم قیامت کے دن اٹھائے جاؤگے -
(سورة المؤمنون:12 تا 16)
معلوم ہوا کہ ہر مرنے والے کو قیامت کے دن اٹھایا جائے گا، پھر قیامت سے پہلے مرنے والا اس قبر کے اندر کیسے زندہ ہو گیا ؟
در اصل قبر میں مردہ کے جسم میں روح کے لوٹائے جانے کی روایت شریعت جعفریہ کی روایت ہے جو اس روایت کے راوی زاذان (شیعہ) نے وہاں سے لے کر براء بن عازب (رض) سے منسوب کر دی ہے -
2 - اس کی سند دیکھئیے تو اس کے اندر ضعفاء، مجروحین، متروکیں اور شیعہ ملیں گے -
اس روایت کا راوی "منھال بن عمرو" اور اس پر جرح
------------------------------------------------------
قُلْتُ: حَدِيْثُهُ فِي شَأْنِ القَبْرِ بِطُوْلِهِ فِيْهِ نَكَارَةٌ وَغَرَابَةٌ، يَرْوِيْهِ عَنْ: زَاذَانَ، عَنِ البَرَاءِ - (سير أعلام النبلاء، ذہبی، جزء 8، 64-المِنْهَالُ بنُ عَمْرٍو أَبُو عَمْرٍو الأَسَدِيُّ مَوْلاَهُم
[خ، 4] الكُوْفِيُّ 9 /211، الناشر:مؤسسة الرسالة)
ترجمہ : میں کہتا ہوں کہ منھال بن عمرو کی قبر کے معاملہ کے متعلق طویل حدیث میں غرابت اور نکارت پائی جاتی ہے جس کو کہ یہ روایت کرتا ہے زاذن سے اور وہ براء بن عازب سے -
وَقَالَ ابْنُ حَزْمٍ: لَيْسَ بِالقَوِيِّ.
ابن حزم نے کہا: وہ مضبوط نہیں ہے - (ایضاً)
ترك شعبة المنهال بن عمرو على عمد. قال أبو محمد لانه سمع من داره صوت قراءة بالتطريب -
(الجرح و تعدیل، الرازی، جزء 8، 357)
ترجمہ : شعبة نے منھال بن عمرو کو عمداً ترک کر دیا - ابو محمد کہتے ہیں اس لئے کہ ان کے گھر سے گانے کی آواز سنی -
وقال الحاكم : غمزه يحيى بن سعيد . وقال الجوزجانى في الضعفاء : له سيئ المذهب - وكذا تكلم فيه ابن حزم ، ولم يحتج بحديثه الطويل في فتان القبر -
(ميزان الاعتدال فی نقد الرجال، ذہبی، جزء 4، 8806)
ترجمہ : حاکم کا کہنا ہے کہ منھال کی حثیت یحییٰ بن سعید گراتے ہیں - الجوزجانی نے اپنی کتاب "الضعفاء" میں لکھا ہے کہ وہ بدمذہب تھا - اسی طرح ابن حزم نے اس کی تضعیف کی ہے اور اس کی قبر کی آزمائش اور سوال و جواب والی روایت کوناقابل احتجاج ٹھرایا ہے -
بن معين يضع من شأن المنهال بن عمرو وقال الجوزجاني سيء المذهب وقد جرى حديثه - وقال الحاكم المنهال بن عمرو غمزة يحيى القطان - وقال أبو الحسن بن القطان كان أبو محمد بن حزم يضعف المنهال ورد من روايته حديث البراء -
(تہذیب التہذیب، ابن ہجر عسقلانی، جزء 10، 556)
ترجمہ : ابن معین منھال کی شان کو گراتے تھے - الجوزجانی نے کہا کہ وہ بدمذہب ہے.ہرچند کہ اس کی روایتیں بوھت پھیل گئی ہیں - حکیم کہتے ہیں کہ یحییٰ القطان اس کی شان گراتے ہیں - ابوالحسن بن القطان نے کہا کہ ابو محمد بن حزم اس کو ضعیف گردانتے تھے اور اس کی اس روایت کو جو وہ براء بن عازب (رض) تک پہنچاتا تھا رد کرتے تھے -
اس روایت کا راوی "زاذان " اور اس پر جرح
قال شعبة قلت للحكم مالك لم تحمل عن زاذان قال كان كثير الكلام - وقال بن حبان في الثقات كان يخطىء كثيرا -
(تہذیب التہذیب، ابن ہجر عسقلانی، جزء 3، 565)
ترجمہ : شعبہ کہتے ہیں کہ میں نے الحکم سے کہا کہ آپ زاذان سے کیوں روایت نہیں لیتے-انہوں نے کہا وہ باتیں بہت کرتا ہے - ابن حبان نے کہا کہ بہت غلطیاں کرتا تھا -
سلمة بن كهيل عنه ، فقال : أبوالبخترى أعجب إلى منه - وقال أبو أحمد الحاكم : ليس بالمتين عندهم -
(ميزان الاعتدال فی نقد الرجال، الذہبی، جزء 2، 2817)
ترجمہ : سلمہ بن کہیل نے کہا کہ ابو البختری کو میں اس سے اچھا سمجھتا ہوں - ابو احمد الحاکم کہتے ہیں کہ اہل علم کے نزدیک وہ مظبوط نہیں ہے -
فيه شيعية - (تقریب التہذیب، جزء 1، 1982:307/1 - دارالمكتبة العلمية بيروت، لبنان)
ترجمہ : زاذان میں شیعت ہے -
در اصل اسی شیعت کا اظہار زاذان نے زیر بحث روایت میں عقیدہ عود روح کو براء بن عازب (رض) سے غلط طور پر منسوب کر کے کیا ہے جبکہ یہ ایک حقیقت ہے کہ جسم میں روح کے لوٹائے جانے کا باطل عقیدہ خالص شیعی عقیدہ ہے - ملاحظہ کیجئے شریعت جعفریہ کی سب سے معتمد علیہ کتاب "الکافی" کا ایک حوالہ -
4724 - 12 - محمد بن يحيى، عن أحمد بن محمد بن عيسى، عن الحسين بن سعيد، عن القاسم ابن محمد، عن علي بن أبي حمزة، عن أبي بصير، عن أبي عبدالله (عليه السلام) قال: إن المؤمن إذا اخرج من بيته شيعته الملائكة إلى قبره يزدحمون عليه حتى إذا انتهى به إلى قبره قالت له الارض: مرحبا بك وأهلا أما والله لقد كنت احب ان يمشي علي مثلك لترين ما أصنع بك فتوسع له مد بصره ويدخل عليه في قبره ملكا القبر وهما قعيدا القبر منكر ونكير فيلقيان فيه الروح إلى حقويه فيقعدانه ويسألانه فيقولان له: من ربك؟ فيقول:
الله، فيقولان: ما دينك؟ فيقول: الاسلام، فيقولان: ومن نبيك؟ فيقول: محمد (صلى الله عليه وآله)، فيقولان: ومن إمامك؟ فيقول: فلان، قال: فينادي مناد من السماء: صدق عبدي افرشوا له في قبره من الجنة وافتحوا له في قبره بابا إلى الجنة وألبسوه من ثياب الجنة -
(الکافی، الکلینی، الجزء الثالث، کتاب الجنائز، باب المسألة في القبر ومن يسأل ومن لا يسأل، 239)
ترجمہ : ابو بصیر ابو عبدالله علیہ السلام (امام جعفر صادق) سے روایت کرتے ہیں کہ امام نے فرمایا کہ جب مومن کی میت اس کے گھر سے نکالی جاتی ہے تو فرشتوں کا ازدحام ہو جاتا ہے اور اس کے ساتھ اس کی قبر تک جاتے ہیں اور جب وہ میت قبر تک پہنچتی ہے تو قبر کی زمین اس کو خوش آمدید کہتی ہے اور گویا ہوتی ہے کہ والله مجھے اس بات سے خوشی ہوتی تھی جب تیرا جیسا کوئی مجھ پر چلتا تھا اب تو دیکھے گا کہ میں تیرے ساتھ کیا سلوک کرتی ہوں - پھر وہ اس میت کے لئے حد نگاہ تک وسیع ہو جاتی ہے اور قبر کے دونوں فرشتے جو قبر پر مقرر ہیں اور منکر اور نکیر کہلاتے ہیں، داخل ہوتے ہیں - یہ دونوں اس میت میں حقویہ (دونوں کولھوں) تک روح ڈال کر اس کو بٹھا دیتے ہیں اور پوچھتے ہیں کہ تیرا رب کون ہے - وہ کہتا ہے الله - پھر سوال کرتے ہیں کہ تیرا دین کیا ہے - وہ جواب دیتا ہے اسلام - پھر دونوں فرشتے پوچھتے ہیں کہ تیرا نبی کون ہے - وہ جواب دیتا ہے کہ محمد (ص) - پھر وہ (چوتھا) سوال کرتے ہیں کہ تیرا امام کون ہے - وہ کہتا ہے کہ فلاں - اب امام جعفر صادق نے فرمایا کہ اس وقت آسمان سے ایک منادی کرنے والا آواز دیتا ہے کہ میرے بندے نے سچ کہا - اس کی قبر میں جنت کے فرش بچھا دو اور جنت کی طرف ایک دروازہ کھول دو، اور اس کو جنت کے لباس سے آراستہ کرو-----
زاذان کا اپنے مخصوص فاسد عقیدے کا اظہار ثابت کرتا ہے کہ محدثین کا یہ اصول بلکل صحیح ہے کہ دیگر روایات کا صادق اللحجہ راوی بھی اگر کوئی ایسی روایت لائے جو اس کے اپنے مخصوص بدعتی عقیدے کی تائید کرتی ہو تو اسے صحیح مذہب کے مقابلے میں رد کر دیا جائے گا -
إن روى ما يقوى بدعته فيرد على المذهب المختار - (نخبة الفكر في مصطلح أهل الأثر، ابن ہجر عسقلانی)
ترجمہ : اور ایسا راوی جو حدیث میں اپنے فاسد عقیدے کی تائید میں روایت لائے تو اسکی یہ روایت رد کر دی جائے گی اور صحیح مذہب برقرار رکھا جائے گا -
اور یہ بات یاد رہے کہ "زاذان" کو شیعہ کہنے والے صرف "ابن ہجر عسقلانی" ہی نہیں ہیں بلکہ "ابو البشر الدولابی (المتوفی 310 ھ)" کہتے ہیں کہ زاذان فارسی النسل اور شیعان علی میں سے تھا - (اکمال مغلطائی ٢ / الورقہ ٣١) بشار (ڈاکٹر بشار عواد معروف) کہتے ہیں کہ شیعوں نے اپنی کتابوں میں زاذان کی روایات عطاء بن سائب کے واسطے سے درج کی ہیں - (اس کے لئے ملاحظہ کیجئے الکافی فی القضاء ولا حکام:٢، باب النوادر ١٩ حدیث رقم ١٢، والتھذیب:باب الزیادات فی القضایاوالاحکام، حدیث رقم ٨٠٤) - (تعلیقات تھذیب الکمال، جلد ٩، صفحہ ٢٦٥)
ابو البشر الدولابی کی زاذان کے متعلق اس رائے کے بعد زاذان کا بیان کردہ وہ واقعہ بھی ملاحظہ ہو جو ان کی شیعت کو واضح کرتا ہے - جس کا حوالہ ڈاکٹر بشار عواد معروف نے دیا ہے -
672، 14 - 12 الحسين بن محمد، عن أحمد بن علي الكاتب، عن إبراهيم بن محمد الثقفي، عن عبدالله بن أبي شيبة، عن حريز، عن عطاء بن السائب، عن زاذان قال: استودع رجلان امرأة وديعة وقالا لها: لا تدفعيها إلى واحد منا حتى نجتمع عندك ثم انطلقا فغابا فجاء أحدهما إليها فقال: أعطيني وديعتي فإن صاحبي قد مات فأبت حتى كثر اختلافه ثم أعطته، ثم جاء الآخر فقال: هاتي وديعتي، فقالت: أخذها صاحبك وذكر أنك قد مت فارتفعها إلى عمر فقال لها عمر: ما أراك إلا وقد ضمنت، فقالت المرأة: اجعل عليا (عليه السلام) بيني وبينه، فقال عمر: اقض بينهما، فقال علي (عليه السلام): هذه الوديعة عندي وقد أمرتماها أن لا تدفعها إلى واحد منكما حتى تجتمعا عندها فائتني بصاحبك فلم يضمنها وقال (عليه السلام): إنما أرادا أن يذهبا بمال المرأة -
(الکافی، الکلینی، الجزء ٧، كتاب القضاء والاحكام، باب النوادر، ٤٢٨، - ٤٢٩) -
(تھذیب الاحکام، الجزء ٦، كتاب القضايا والاحكام، باب من الزيادات في القضايا والاحكام)
ترجمہ : زاذان کہتے ہیں کہ دو آدمیوں نے ایک عورت کے پاس ایک امانت رکھوائی اور اس سے کہا کہ جب تک ہم دونوں تیرے پاس نہ آئیں واپس نہ کرنا یہ که کر وہ دونوں چلے گئے - پھر ان میں سے ایک آدمی اس عورت کے پاس آیا اور کہا کہ میرا ساتھی مر چکا ہے لہٰذا میری امانت واپس کر دو عورت نے انکار کیا دو ان کے درمیان کافی اختلاف پیدا ہوا آخر کار عورت نے اس شخص کو امانت واپس کر دی - اس کے بعد دوسرا شخص اس عورت کے پاس آ کر اپنی امانت کا تقاضا کرنے لگا تو عورت نے کہا کہ تیرا ساتھی امانت لے جا چکا ہے اور اس نے بتایا تھا کہ تو مر چکا ہے - پھر دونوں عمر (رض) کے پاس پھنچے عمر (رض) نے عورت سے کہا اس کی محض تو ذمے دار ہے - عورت نے کہا کہ اس شخص اور میرے درمیان علی علیہ السلام کو مصنف مقرر کر دیجئے - عمر (رض) نے علی (رض) سے کہا کہ ان دونوں کے درمیان فیصلہ کر دو علی (رض) نے کہا کہ میرے نزدیک یہ امانت ہے - تم دونوں نے یہ حکم دیا تھا کہ یہ امانت تم میں سے کسی ایک کو واپس نہ کی جائے یہاں تک کہ تم دونوں اکٹھے ہو جاؤ - بس تم جاؤ اپنے ساتھی کو میرے پاس لے کر آؤ پس علی (رض) نے عورت کو ذمے دار قرار نہ دیا اور کہا ان دونوں آدمیوں نے یہ چاہا تھا کہ اس عورت کا مل غضب کر لیں -
ظاہر ہے کہ یہ واقعہ بیان کر کے زاذان نے امیر المومنین عمر (رض) کے تدبر کی تنقیص اور علی (رض) کی تفضیل کا مقصد حاصل کرنے کی کوشش کی ہے - عمر (رض) کی تنقیص کی یہ جسارت شیعت ہی کا نتیجہ ہے - ابو البشر الدولابی اور ابن ہجر عسقلانی کی زاذان کے متعلق شیعت کی وضاحت سے یہ بات قطعاً ثابت ہوتی ہے کہ ان کی زاذان کے بارے میں یہ رائے حتمی ہے نہ کہ سہو یا فرو گزاشت -