• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مسند احمد بن حنبل --- احمد بن حنبل --- روح کا جسم میں واپس لوٹ آنا

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,899
پوائنٹ
436
musnad ahmed ki riwayat rooh ko lotana.jpg




مسند احمد بن حنبل --- احمد بن حنبل --- روح کا جسم میں واپس لوٹ آنا


یہ پوری روایت اس طرح ہے -

مسند احمد:جلد ہشتم:حدیث نمبر 479

براء رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ ہم لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ انصاری کے جنازے میں نکلے ہم قبر کے قریب پہنچے تو ابھی لحد تیار نہیں ہوئی تھی اس لئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھ گئے ہم بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اردگرد بیٹھ گئے ایسا محسوس ہوتا تھا کہ ہمارے سروں پر پرندے بیٹھے ہوئے ہوں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دست مبارک میں ایک لکڑی تھی جس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم زمین کو کرید رہے تھے پھر سر اٹھا کر فرمایا اللہ سے عذاب قبر سے بچنے کے لئے پناہ مانگو، دو تین مرتبہ فرمایا۔ پھر فرمایا کہ بندہ مؤمن جب دنیا سے رخصتی اور سفر آخرت پر جانے کے قریب ہوتا ہے تو اس کے آس پاس سے روشن چہروں والے ہوتے ہیں آتے ہیں ان کے پاس جنت کا کفن اور جنت کی حنوط ہوتی ہے تاحد نگاہ وہ بیٹھ جاتے ہیں پھر ملک الموت آکر اس کے سرہانے بیٹھ جاتے ہیں اور کہتے ہیں اے نفس مطمئنہ ! اللہ کی مغفرت اور خوشنودی کی طرف نکل چل چنانچہ اس کی روح اس بہہ کر نکل جاتی ہے جیسے مشکیزے کے منہ سے پانی کا قطرہ بہہ جاتا ہے ملک الموت اسے پکڑ لیتے ہیں اور دوسرے فرشتے پلک جھپکنے کی مقدار بھی اس کی روح کو ملک الموت کے ہاتھ میں نہیں رہنے دیتے بلکہ ان سے لے کر اسے اس کفن لپیٹ کر اس پر اپنی لائی ہوئی حنوط مل دیتے ہیں اور اس کے جسم سے ایسی خوشبو آتی ہے جیسے مشک کا ایک خوشگوار جھونکا جو زمین پر محسوس ہوسکے ۔ پھر فرشتے اس روح کو لے کر اوپر چڑھ جاتے ہیں اور فرشتوں کے جس گروہ پر بھی ان کا گذر ہوتا ہے وہ گروہ پوچھتا ہے کہ یہ پاکیزہ روح کون ہے؟ وہ جواب میں اس کا وہ بہترین نام بتاتے ہیں جس سے دنیا میں لوگ اسے پکارتے تھے حتی کہ وہ اسے لے کر آسمان دنیا تک پہنچ جاتے ہیں اور دروازے کھلواتے ہیں جب دروازہ کھلتا ہے تو ہر آسمان کے فرشتے اس کی مشایعت کرتے ہیں اگلے آسمان تک اسے چھوڑ کر آتے ہیں اور اس طرح وہ ساتویں آسمان تک پہنچ جاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میرے بندے کانامہ اعمال " علیین " میں لکھ دو اور اسے واپس زمین کی طرف لے جاؤ کیونکہ میں نے اپنے بندوں کو زمین کی مٹی ہی سے پیدا کیا ہے اسی میں لوٹاؤں گا اور اسی سے دوبارہ نکالوں گا۔چنانچہ اس کی روح جسم میں واپس لوٹادی جاتی ہے پھر اس کے پاس دو فرشتے آتے ہیں وہ اسے بٹھاکر پوچھتے ہیں کہ تیرا رب کون ہے؟ وہ جواب دیتا ہے میرا رب اللہ ہے وہ اس سے پوچھتے ہیں کہ تیرا دین کیا ہے ؟ وہ جواب دیتا ہے کہ میرا دین اسلام ہے وہ پوچھتے ہیں کہ یہ کون شخص ہے جو تمہاری طرف بھیجا گیا تھا؟ وہ جواب دیتا ہے کہ وہ اللہ کے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم ہیں وہ اس سے پوچھتے ہیں کہ تیرا علم کیا ہے ؟ وہ جواب دیتا ہے کہ میں نے اللہ کی کتاب پڑھی اس پر ایمان لایا اور اس کی تصدیق کی ، اس پر آسمان سے ایک منادی پکارتا ہے کہ میرے بندے نے سچ کہا اس کے لئے جنت کا بستر بچھادو اسے جنت کا لباس پہنادو اور اس کے لئے جنت کا ایک دروازہ کھول دو چنانچہ اسے جنت کی ہوائیں اور خوشبوئیں آتی رہتیں ہیں اور تاحدنگاہ اس کی قبر وسیع کردی جاتی ہے اور اس کے پاس ایک خوبصورت لباس اور انتہائی عمدہ خوشبو والا ایک آدمی آتا ہے اور اس سے کہتا ہے کہ تمہیں خوشخبری مبارک ہو یہ وہی دن ہے جس کا تم سے وعدہ کیا جاتا تھا وہ اس سے پوچھتاے کہ تم کون ہو؟ کہ تمہارا چہرہ ہی خیر کا پتہ دیتا ہے وہ جواب دیتا ہے کہ میں تمہارا نیک عمل ہوں اس پر وہ کہتا ہے کہ پروردگار! قیامت ابھی قائم کردے تاکہ میں اپنے اہل خانہ اور مال میں واپس لوٹ جاؤں ۔ اور جب کوئی کافر شخص دنیا سے رخصتی اور سفر آخرت پر جانے کے قریب ہوتا ہے تو اس کے پاس آسمان سے سیاہ چہروں والے فرشتے اتر کر آتے ہیں جن کے پاس ٹاٹ ہوتے ہیں وہ تاحد نگاہ بیٹھ جاتے ہیں پھر ملک الموت يآکر اس کے سرہانے بیٹھ جاتے ہیں اور اس سے کہتے ہیں کہ اے نفس خبیثہ ! اللہ کی ناراضگی اور غصے کی طرف چل یہ سن کر اس کی روح جسم میں دوڑنے لگتی ہے اور ملک الموت اسے جسم سے اس طرح کھینچتے ہیں جیسے گیلی اون سے سیخ کھینچی جاتی ہے اور اسے پکڑ لیتے ہیں فرشتے ایک پلک جھپکنے کی مقدار بھی اسے ان کے ہاتھ میں نہیں چھوڑتے اور اس ٹاٹ میں لپیٹ لیتے ہیں اور اس سے مردار کی بدبوجیسا ایک ناخوشگوار اور بدبودار جھونکا آتا ہے۔ پھر وہ اسے لے کر اوپر چڑھتے ہیں فرشتوں کے جس گروہ کے پاس سے ان کا گذر ہوتا ہے وہی گروہ کہتا ہے کہ یہ کیسی خبیث روح ہے؟ وہ اس کا دنیا میں لیا جانے والا بدترین نام بتاتے ہیں یہاں تک کہ اسے لے کر آسمان دنیا میں پہنچ جاتے ہیں ۔ در کھلواتے ہیں لیکن دروازہ نہیں کھولاجاتا پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت تلاوت فرمائی " ان کے لئے آسمان کے دروازے کھولے جائیں گے اور نہ ہی وہ جنت میں داخل ہوں گے تاوقتیکہ اونٹ سوئی کے ناکے میں داخل ہوجائے " اور اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ اس کانامہ اعمال " سجین " میں سے نچلی زمین میں لکھ دو چنانچہ اس کی روح کو پھینک دیا جاتا ہے پھر یہ آیت تلاوت فرمائی جو اللہ کے ساتھ شرک کرتا ہے وہ ایسے ہے جیسے آسمان سے گرپڑا پھر اسے پرندے اچک لیں یا ہوا اسے دوردراز کی جگہ میں لے جاڈالے ۔ " پھر اس کی روح جسم میں لوٹادی جاتی ہے اور اس کے پاس دو فرشتے آکر اسے بٹھاتے ہیں اور اس سے پوچھتے ہیں کہ تیرا رب کون ہے ؟ وہ جواب دیتا ہے ہائے افسوس ! مجھے کچھ پتہ نہیں ، وہ اس سے پوچھتے ہیں کہ تیرا دین کیا ہے ؟ وہ پھر وہی جواب دیتا ہے وہ پوچھتے ہیں کہ وہ کون شخص تھا جو تمہاری طرف بھیجا گیا تھا؟ وہ پھر وہی جواب دیتا ہے اور آسمان سے ایک منادی پکارتا ہے کہ یہ جھوٹ بولتا ہے ، اس کے لئے آگ کا بستر بچھادو اور جہنم کا ایک دروازہ اس کے لئے کھول دو چنانچہ وہاں کی گرمی اور لو اسے پہنچنے لگتی ہے اور اس پر قبر تنگ ہوجاتی ہے حتیٰ کہ اس کی پسلیاں ایک دوسرے میں گھس جاتی ہیں پھر اس کے پاس ایک بدصورت آدمی گندے کپڑے پہن کر آتا ہے جس سے بدبو آرہی ہوتی ہے اور اس سے کہتا ہے کہ تجھے خوشخبری مبارک ہویہ وہی دن ہے جس کا تجھ سے وعدہ کیا جاتا ہے وہ پوچھتا ہے کہ تو کون ہے ؟ کہ تیرے چہرے ہی سے شر کی خبر معلوم ہوتی ہے وہ جواب دیتا ہے کہ میں تیراگندہ عمل ہوں تو اللہ کی اطاعت کے کاموں میں سست اور اس کی نافرمانی کے کاموں میں چست تھا لہٰذا اللہ نے تجھے برا بدلہ دیاہے پھر اس پرا ایک ایسے فرشتے کو مسلط کردیا جاتا ہے جواندھا، گونگا اور بہرا ہو اس کے ہاتھ میں اتنا بڑا گرز ہوتا ہے کہ اگر کسی پہاڑ پر مارا جائے تو وہ مٹی ہوجائے اور وہ اس گرز سے اسے ایک ضرب لگاتا ہے اور وہ ریزہ ریزہ جاتا ہے پھر اللہ اسے پہلے والی حالت پر لوٹادیتا ہے پھر وہ اسے ایک اور ضرب لگاتا ہے جس سے وہ اتنی زور سے چیخ مارتا ہے کہ جن و انس کے علاوہ ساری مخلوق اسے سنتی ہے پھر اس کے لئے جہنم کا ایک دروازہ کھول دیا جاتا ہے اور آگ کا فرش بچھادیا جاتاہے۔گذشتہ حدیث اس دوسری سند سے بھی مروی ہے -

1 - پہلی بات تو یہ کہ یہ روایت ہی قرآن کے خلاف ہے - قرآن میں الله فرماتا ہے کہ

یقیناً ہم نے انسان کو مٹی کے جوہر سے پیدا کیا۔ پھر ہم نے اسے نطفہ کی صورت میں ایک محفوظ مقام (رحم) میں رکھا۔ پھر ہم نے نطفہ کو منجمد خون بنایا اور پھر ہم نے اس منجمد خون کو گوشت کا لوتھڑا بنایا پھر اس لوتھڑے سے ہڈیاں پیدا کیں پھر ان ہڈیوں پر گوشت چڑھایا پھر ہم نے (اس میں روح ڈال کر) ایک دوسری مخلوق بنا دیا۔ پس بڑا بابرکت ہے وہ اللہ جو بہترین خالق ہے۔ پھر تم اس کے بعد ضرور مرنے والے ہو۔ پھر اس کے بعد تم قیامت کے دن اٹھائے جاؤگے -


(سورة المؤمنون:12 تا 16)

معلوم ہوا کہ ہر مرنے والے کو قیامت کے دن اٹھایا جائے گا، پھر قیامت سے پہلے مرنے والا اس قبر کے اندر کیسے زندہ ہو گیا ؟
در اصل قبر میں مردہ کے جسم میں روح کے لوٹائے جانے کی روایت شریعت جعفریہ کی روایت ہے جو اس روایت کے راوی زاذان (شیعہ) نے وہاں سے لے کر براء بن عازب (رض) سے منسوب کر دی ہے -

2 - اس کی سند دیکھئیے تو اس کے اندر ضعفاء، مجروحین، متروکیں اور شیعہ ملیں گے -

اس روایت کا راوی "منھال بن عمرو" اور اس پر جرح
------------------------------------------------------

قُلْتُ: حَدِيْثُهُ فِي شَأْنِ القَبْرِ بِطُوْلِهِ فِيْهِ نَكَارَةٌ وَغَرَابَةٌ، يَرْوِيْهِ عَنْ: زَاذَانَ، عَنِ البَرَاءِ - (سير أعلام النبلاء، ذہبی، جزء 8، 64-المِنْهَالُ بنُ عَمْرٍو أَبُو عَمْرٍو الأَسَدِيُّ مَوْلاَهُم


[خ، 4] الكُوْفِيُّ 9 /211، الناشر:مؤسسة الرسالة)

ترجمہ : میں کہتا ہوں کہ منھال بن عمرو کی قبر کے معاملہ کے متعلق طویل حدیث میں غرابت اور نکارت پائی جاتی ہے جس کو کہ یہ روایت کرتا ہے زاذن سے اور وہ براء بن عازب سے -


وَقَالَ ابْنُ حَزْمٍ: لَيْسَ بِالقَوِيِّ.

ابن حزم نے کہا: وہ مضبوط نہیں ہے - (ایضاً)


ترك شعبة المنهال بن عمرو على عمد. قال أبو محمد لانه سمع من داره صوت قراءة بالتطريب -


(الجرح و تعدیل، الرازی، جزء 8، 357)

ترجمہ : شعبة نے منھال بن عمرو کو عمداً ترک کر دیا - ابو محمد کہتے ہیں اس لئے کہ ان کے گھر سے گانے کی آواز سنی -


وقال الحاكم : غمزه يحيى بن سعيد . وقال الجوزجانى في الضعفاء : له سيئ المذهب - وكذا تكلم فيه ابن حزم ، ولم يحتج بحديثه الطويل في فتان القبر -


(ميزان الاعتدال فی نقد الرجال، ذہبی، جزء 4، 8806)

ترجمہ : حاکم کا کہنا ہے کہ منھال کی حثیت یحییٰ بن سعید گراتے ہیں - الجوزجانی نے اپنی کتاب "الضعفاء" میں لکھا ہے کہ وہ بدمذہب تھا - اسی طرح ابن حزم نے اس کی تضعیف کی ہے اور اس کی قبر کی آزمائش اور سوال و جواب والی روایت کوناقابل احتجاج ٹھرایا ہے -

بن معين يضع من شأن المنهال بن عمرو وقال الجوزجاني سيء المذهب وقد جرى حديثه - وقال الحاكم المنهال بن عمرو غمزة يحيى القطان - وقال أبو الحسن بن القطان كان أبو محمد بن حزم يضعف المنهال ورد من روايته حديث البراء -


(تہذیب التہذیب، ابن ہجر عسقلانی، جزء 10، 556)

ترجمہ : ابن معین منھال کی شان کو گراتے تھے - الجوزجانی نے کہا کہ وہ بدمذہب ہے.ہرچند کہ اس کی روایتیں بوھت پھیل گئی ہیں - حکیم کہتے ہیں کہ یحییٰ القطان اس کی شان گراتے ہیں - ابوالحسن بن القطان نے کہا کہ ابو محمد بن حزم اس کو ضعیف گردانتے تھے اور اس کی اس روایت کو جو وہ براء بن عازب (رض) تک پہنچاتا تھا رد کرتے تھے -

اس روایت کا راوی "زاذان " اور اس پر جرح

قال شعبة قلت للحكم مالك لم تحمل عن زاذان قال كان كثير الكلام - وقال بن حبان في الثقات كان يخطىء كثيرا -


(تہذیب التہذیب، ابن ہجر عسقلانی، جزء 3، 565)

ترجمہ : شعبہ کہتے ہیں کہ میں نے الحکم سے کہا کہ آپ زاذان سے کیوں روایت نہیں لیتے-انہوں نے کہا وہ باتیں بہت کرتا ہے - ابن حبان نے کہا کہ بہت غلطیاں کرتا تھا -

سلمة بن كهيل عنه ، فقال : أبوالبخترى أعجب إلى منه - وقال أبو أحمد الحاكم : ليس بالمتين عندهم -


(ميزان الاعتدال فی نقد الرجال، الذہبی، جزء 2، 2817)

ترجمہ : سلمہ بن کہیل نے کہا کہ ابو البختری کو میں اس سے اچھا سمجھتا ہوں - ابو احمد الحاکم کہتے ہیں کہ اہل علم کے نزدیک وہ مظبوط نہیں ہے -

فيه شيعية - (تقریب التہذیب، جزء 1، 1982:307/1 - دارالمكتبة العلمية بيروت، لبنان)

ترجمہ : زاذان میں شیعت ہے -

در اصل اسی شیعت کا اظہار زاذان نے زیر بحث روایت میں عقیدہ عود روح کو براء بن عازب (رض) سے غلط طور پر منسوب کر کے کیا ہے جبکہ یہ ایک حقیقت ہے کہ جسم میں روح کے لوٹائے جانے کا باطل عقیدہ خالص شیعی عقیدہ ہے - ملاحظہ کیجئے شریعت جعفریہ کی سب سے معتمد علیہ کتاب "الکافی" کا ایک حوالہ -

4724 - 12 - محمد بن يحيى، عن أحمد بن محمد بن عيسى، عن الحسين بن سعيد، عن القاسم ابن محمد، عن علي بن أبي حمزة، عن أبي بصير، عن أبي عبدالله (عليه السلام) قال: إن المؤمن إذا اخرج من بيته شيعته الملائكة إلى قبره يزدحمون عليه حتى إذا انتهى به إلى قبره قالت له الارض: مرحبا بك وأهلا أما والله لقد كنت احب ان يمشي علي مثلك لترين ما أصنع بك فتوسع له مد بصره ويدخل عليه في قبره ملكا القبر وهما قعيدا القبر منكر ونكير فيلقيان فيه الروح إلى حقويه فيقعدانه ويسألانه فيقولان له: من ربك؟ فيقول:
الله، فيقولان: ما دينك؟ فيقول: الاسلام، فيقولان: ومن نبيك؟ فيقول: محمد (صلى الله عليه وآله)، فيقولان: ومن إمامك؟ فيقول: فلان، قال: فينادي مناد من السماء: صدق عبدي افرشوا له في قبره من الجنة وافتحوا له في قبره بابا إلى الجنة وألبسوه من ثياب الجنة -


(الکافی، الکلینی، الجزء الثالث، کتاب الجنائز، باب المسألة في القبر ومن يسأل ومن لا يسأل، 239)

ترجمہ : ابو بصیر ابو عبدالله علیہ السلام (امام جعفر صادق) سے روایت کرتے ہیں کہ امام نے فرمایا کہ جب مومن کی میت اس کے گھر سے نکالی جاتی ہے تو فرشتوں کا ازدحام ہو جاتا ہے اور اس کے ساتھ اس کی قبر تک جاتے ہیں اور جب وہ میت قبر تک پہنچتی ہے تو قبر کی زمین اس کو خوش آمدید کہتی ہے اور گویا ہوتی ہے کہ والله مجھے اس بات سے خوشی ہوتی تھی جب تیرا جیسا کوئی مجھ پر چلتا تھا اب تو دیکھے گا کہ میں تیرے ساتھ کیا سلوک کرتی ہوں - پھر وہ اس میت کے لئے حد نگاہ تک وسیع ہو جاتی ہے اور قبر کے دونوں فرشتے جو قبر پر مقرر ہیں اور منکر اور نکیر کہلاتے ہیں، داخل ہوتے ہیں - یہ دونوں اس میت میں حقویہ (دونوں کولھوں) تک روح ڈال کر اس کو بٹھا دیتے ہیں اور پوچھتے ہیں کہ تیرا رب کون ہے - وہ کہتا ہے الله - پھر سوال کرتے ہیں کہ تیرا دین کیا ہے - وہ جواب دیتا ہے اسلام - پھر دونوں فرشتے پوچھتے ہیں کہ تیرا نبی کون ہے - وہ جواب دیتا ہے کہ محمد (ص) - پھر وہ (چوتھا) سوال کرتے ہیں کہ تیرا امام کون ہے - وہ کہتا ہے کہ فلاں - اب امام جعفر صادق نے فرمایا کہ اس وقت آسمان سے ایک منادی کرنے والا آواز دیتا ہے کہ میرے بندے نے سچ کہا - اس کی قبر میں جنت کے فرش بچھا دو اور جنت کی طرف ایک دروازہ کھول دو، اور اس کو جنت کے لباس سے آراستہ کرو-----

زاذان کا اپنے مخصوص فاسد عقیدے کا اظہار ثابت کرتا ہے کہ محدثین کا یہ اصول بلکل صحیح ہے کہ دیگر روایات کا صادق اللحجہ راوی بھی اگر کوئی ایسی روایت لائے جو اس کے اپنے مخصوص بدعتی عقیدے کی تائید کرتی ہو تو اسے صحیح مذہب کے مقابلے میں رد کر دیا جائے گا -


إن روى ما يقوى بدعته فيرد على المذهب المختار - (نخبة الفكر في مصطلح أهل الأثر، ابن ہجر عسقلانی)

ترجمہ : اور ایسا راوی جو حدیث میں اپنے فاسد عقیدے کی تائید میں روایت لائے تو اسکی یہ روایت رد کر دی جائے گی اور صحیح مذہب برقرار رکھا جائے گا -

اور یہ بات یاد رہے کہ "زاذان" کو شیعہ کہنے والے صرف "ابن ہجر عسقلانی" ہی نہیں ہیں بلکہ "ابو البشر الدولابی (المتوفی 310 ھ)" کہتے ہیں کہ زاذان فارسی النسل اور شیعان علی میں سے تھا - (اکمال مغلطائی ٢ / الورقہ ٣١) بشار (ڈاکٹر بشار عواد معروف) کہتے ہیں کہ شیعوں نے اپنی کتابوں میں زاذان کی روایات عطاء بن سائب کے واسطے سے درج کی ہیں - (اس کے لئے ملاحظہ کیجئے الکافی فی القضاء ولا حکام:٢، باب النوادر ١٩ حدیث رقم ١٢، والتھذیب:باب الزیادات فی القضایاوالاحکام، حدیث رقم ٨٠٤) - (تعلیقات تھذیب الکمال، جلد ٩، صفحہ ٢٦٥)

ابو البشر الدولابی کی زاذان کے متعلق اس رائے کے بعد زاذان کا بیان کردہ وہ واقعہ بھی ملاحظہ ہو جو ان کی شیعت کو واضح کرتا ہے - جس کا حوالہ ڈاکٹر بشار عواد معروف نے دیا ہے -


672، 14 - 12 الحسين بن محمد، عن أحمد بن علي الكاتب، عن إبراهيم بن محمد الثقفي، عن عبدالله بن أبي شيبة، عن حريز، عن عطاء بن السائب، عن زاذان قال: استودع رجلان امرأة وديعة وقالا لها: لا تدفعيها إلى واحد منا حتى نجتمع عندك ثم انطلقا فغابا فجاء أحدهما إليها فقال: أعطيني وديعتي فإن صاحبي قد مات فأبت حتى كثر اختلافه ثم أعطته، ثم جاء الآخر فقال: هاتي وديعتي، فقالت: أخذها صاحبك وذكر أنك قد مت فارتفعها إلى عمر فقال لها عمر: ما أراك إلا وقد ضمنت، فقالت المرأة: اجعل عليا (عليه السلام) بيني وبينه، فقال عمر: اقض بينهما، فقال علي (عليه السلام): هذه الوديعة عندي وقد أمرتماها أن لا تدفعها إلى واحد منكما حتى تجتمعا عندها فائتني بصاحبك فلم يضمنها وقال (عليه السلام): إنما أرادا أن يذهبا بمال المرأة -

(الکافی، الکلینی، الجزء ٧، كتاب القضاء والاحكام، باب النوادر، ٤٢٨، - ٤٢٩) -

(تھذیب الاحکام، الجزء ٦، كتاب القضايا والاحكام، باب من الزيادات في القضايا والاحكام)

ترجمہ : زاذان کہتے ہیں کہ دو آدمیوں نے ایک عورت کے پاس ایک امانت رکھوائی اور اس سے کہا کہ جب تک ہم دونوں تیرے پاس نہ آئیں واپس نہ کرنا یہ که کر وہ دونوں چلے گئے - پھر ان میں سے ایک آدمی اس عورت کے پاس آیا اور کہا کہ میرا ساتھی مر چکا ہے لہٰذا میری امانت واپس کر دو عورت نے انکار کیا دو ان کے درمیان کافی اختلاف پیدا ہوا آخر کار عورت نے اس شخص کو امانت واپس کر دی - اس کے بعد دوسرا شخص اس عورت کے پاس آ کر اپنی امانت کا تقاضا کرنے لگا تو عورت نے کہا کہ تیرا ساتھی امانت لے جا چکا ہے اور اس نے بتایا تھا کہ تو مر چکا ہے - پھر دونوں عمر (رض) کے پاس پھنچے عمر (رض) نے عورت سے کہا اس کی محض تو ذمے دار ہے - عورت نے کہا کہ اس شخص اور میرے درمیان علی علیہ السلام کو مصنف مقرر کر دیجئے - عمر (رض) نے علی (رض) سے کہا کہ ان دونوں کے درمیان فیصلہ کر دو علی (رض) نے کہا کہ میرے نزدیک یہ امانت ہے - تم دونوں نے یہ حکم دیا تھا کہ یہ امانت تم میں سے کسی ایک کو واپس نہ کی جائے یہاں تک کہ تم دونوں اکٹھے ہو جاؤ - بس تم جاؤ اپنے ساتھی کو میرے پاس لے کر آؤ پس علی (رض) نے عورت کو ذمے دار قرار نہ دیا اور کہا ان دونوں آدمیوں نے یہ چاہا تھا کہ اس عورت کا مل غضب کر لیں -

ظاہر ہے کہ یہ واقعہ بیان کر کے زاذان نے امیر المومنین عمر (رض) کے تدبر کی تنقیص اور علی (رض) کی تفضیل کا مقصد حاصل کرنے کی کوشش کی ہے - عمر (رض) کی تنقیص کی یہ جسارت شیعت ہی کا نتیجہ ہے - ابو البشر الدولابی اور ابن ہجر عسقلانی کی زاذان کے متعلق شیعت کی وضاحت سے یہ بات قطعاً ثابت ہوتی ہے کہ ان کی زاذان کے بارے میں یہ رائے حتمی ہے نہ کہ سہو یا فرو گزاشت -

 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,588
پوائنٹ
791
بڑے افسوس کی بات ہے آپ نے صحابہ کرام کے شاگرد جناب زاذان کوشیعہ بنادیا ،اور شیعہ بھی موجودہ دور کے روافض جیسا ! معاذاللہ
اور بھرتی کےلئے رافضیوں کی کتابوں سےملبہ لے کر تلمیذعلی پر ڈال دیا، ہم جانتے ہیں یہ ڈاکٹر عثمانی کی خباثت ہے ،جو گندے کیچڑ کی طرح اچھالی جارہی ہے، کبھی کس عالم پر اور کبھی کس پر ۔۔۔۔۔۔۔واللہ علیم بما تصنعون
حافظ ابن حجر ۔۔جن کا نام بھی آپ نے غلط لکھا ہے،اگر آپ انہی سے پوچھ لیتے تو کیا ہی اچھا ہوتا ۔۔۔
لیکن آپ اورآپ کے بیک ڈور چینل کو پتا ہی نہیں ،کہ ’‘ فيه شيعية ’‘کا مطلب کیا ہے،واللہ لا یہدی کید الخائنین
پھر آپ کی بزدلی کی انتہا کہ جہاں سے جرح نقل کی وہیں ان توثیق بھی تھی اس کا ذکر بھی نہیں کیا

زاذان 3.jpg
 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,899
پوائنٹ
436
بڑے افسوس کی بات ہے آپ نے صحابہ کرام کے شاگرد جناب زاذان کوشیعہ بنادیا ،اور شیعہ بھی موجودہ دور کے روافض جیسا ! معاذاللہ
اور بھرتی کےلئے رافضیوں کی کتابوں سےملبہ لے کر تلمیذعلی پر ڈال دیا، ہم جانتے ہیں یہ ڈاکٹر عثمانی کی خباثت ہے ،جو گندے کیچڑ کی طرح اچھالی جارہی ہے، کبھی کس عالم پر اور کبھی کس پر ۔۔۔۔۔۔۔واللہ علیم بما تصنعون
حافظ ابن حجر ۔۔جن کا نام بھی آپ نے غلط لکھا ہے،اگر آپ انہی سے پوچھ لیتے تو کیا ہی اچھا ہوتا ۔۔۔
لیکن آپ اورآپ کے بیک ڈور چینل کو پتا ہی نہیں ،کہ ’‘ فيه شيعية ’‘کا مطلب کیا ہے،واللہ لا یہدی کید الخائنین
پھر آپ کی بزدلی کی انتہا کہ جہاں سے جرح نقل کی وہیں ان توثیق بھی تھی اس کا ذکر بھی نہیں کیا

9474 اٹیچمنٹ کو ملاحظہ فرمائیں
میرے بھائی ایک تو آپ میں صبر نہیں ہے - میں نے یہ تحقیق نہیں لکھی - میری ایک بندے سے اس مسلے پر بحث چل رہی ہے - یہ اس نے لکھی ہے - میں نے اس تحقیق کا پوچھنا تھا کہ یہ صحیح ہے یا نہیں - لیکن آپ ہیں کہ فتویٰ پر فتویٰ لگا رہے ہیں -

میں نے @کفایت الله بھائی سے بھی اس مسلے والی احادیث کی تحقیق کا پوچھا ہوا ہے

http://forum.mohaddis.com/threads/مسند-احمد-بن-حنبل-احمد-بن-حنبل-انبیاء-ع-کے-جسد-کو-مٹی-نہیں-کھاتی.25510/


http://forum.mohaddis.com/threads/زمین-نبیوں-کے-جسموں-کو-نہیں-کھاتی.25500/


لیکن ابھی تک انہوں نے جواب نہیں دیا تو میں نے یہاں اس وجہ سے لگائی کہ اس کے متعلق پوچھ لوں -

ابھی آپ سے گزارش ہے کہ مجھے یہ بتا دیں کہ میں اس بندے کی اس تحقیق کا کیا جواب دوں - اس نے اس تحقیق میں کیا ڈنڈی ماری -
 
Last edited:

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,588
پوائنٹ
791
میرے بھائی ایک تو آپ میں صبر نہیں ہے - میں نے یہ تحقیق نہیں لکھی - میری ایک بندے سے اس مسلے پر بحث چل رہی ہے - یہ اس نے لکھی ہے - میں نے اس تحقیق کا پوچھنا تھا کہ یہ صحیح ہے یا نہیں - لیکن آپ ہیں کہ فتویٰ پر فتویٰ لگا رہے ہیں -
میں نے @کفایت الله بھائی سے بھی اس مسلے والی احادیث کی تحقیق کا پوچھا ہوا ہے-
میرے بھائی ۔۔۔۔۔۔۔۔ محترم کفایت اللہ صاحب نے اس کا جواب دے رکھا ہے ،اور یہ جواب وہاں لکھا ہواہے جہاں سے آپ نے حافظ طاہر اسلام کی توفیق ہدایت والی بات کا جواب بھی دیا ہے ،لیکن آپ چونکہ اپنے ٹارگٹ اور مشن میں بغیر کچھ دیکھے دوڑے جا رہے ہیں اس لئےآپ کو کچھ نظر نہیں آرہا ،،خیر۔۔۔۔۔ جب صحابہ کرام کے شاگردوں کے خلاف کوئی زبان وقلم چلانا چاہتا ہے ،تو یہی ہذیانی کیفیت شریفہ طاری ہوتی ہے ،
محترم کفایت اللہ صاحب کا جواب ملاحظہ کریں >
<<حدیث براء رضی اللہ عنہ بالکل صحیح ہے جس وقت میں نے مذکورہ جواب دیا تھا اس وقت بھی حدیث براء رضی اللہ عنہ کا مجھے علم تھا۔
بلکہ جمعہ کے خطبات میں ناچیز نے متعدد بار براء رضی اللہ عنہ کی یہ حدیث پیش کی ہے۔ہمارے نزدیک یہ حدیث صحیح ہے۔>>
----------------------------------
اور یہ بھی خوب کہی کہ ((یہ تحقیق کسی اور نے لکھی ہے ))

بلی تھی ،تھیلے سے باہر کود پڑی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دھوکے کا نام : تحقیق :: دھوکہ دیتے ہیں یہ بازی گر کھلا
 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,899
پوائنٹ
436
@
یہ شخص گم راہ ہے ؛حدیث براء ؓ کو نہیں مانتا۔
کتنی احادیث پیش کی میں نے - اور یہی کہا ہے کہ یہ برزخ کا معاملا ہے - لیکن شاہد میری بات کو غلط سمجھا گیا -

مجھ پر تو آپ نے فتویٰ لگا دیا کہ میں گمراہ ہوں - کیا آپ کا یہ فتویٰ شریف احناف پر بھی لگا ہے جو کھلے عام یہاں پر اپنی فقہ شریف کو بچانے کی خاطر احادیث کا رد کرتے ہیں - پیشاب سے سوره فاتحہ لکھنے کا فتویٰ بھی فقہ حنفی شریف مین موجود ہے - لیکن آپ کی زبان فتویٰ دینے سے گریز کرتی ہے -

http://forum.mohaddis.com/threads/مسئلہ-پیشاب-سے-سورہ-فاتحہ-لکھنا.6116/


احناف نے حدیث رسول صلی الله وسلم سے کھلی بغاوت کی - لیکن آپ کا فتویٰ نہیں لگا کیوں کہ شاہد آپ مجبور ہیں -

http://forum.mohaddis.com/threads/حنفیوں-کی-حدیث-رسول-صلی-الله-وسلم-سے-کھلی-بغاوت.24944/

 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,899
پوائنٹ
436
یہ شخص گم راہ ہے ؛حدیث براء ؓ کو نہیں مانتا۔

میرا موقف بلکل واضح ہے - میں اک بار پھر اپنا موقف لکھ رہا ہوں - اس کے باوجود اگر آپ فتویٰ لگاتے ہیں تو آپ کا فتویٰ کی کوئی اہمیت نہیں - امید ہے کہ احناف کے خلاف بھی آپ کا فتویٰ جلدی آ رہا ہے - آپ کب فتویٰ ریلیز کرتے ہیں انتظار رہے گا - ابتسامہ


میرا موقف جو میں نے پہلے بھی پیش کیا اور اب بھی پیش کر رہا ہوں - اب اگر کوئی فتویٰ لگاتا ہے تو شوق سے لگا دے -


neend mout hai.jpg


دیگر انسانوں بشمول انبیاء کرام کا معاملہ بھی دیکھتے ہیں، اور اس حوالے سے بھی صحیح بخاری میں ایک بڑی تفصیلی حدیث ملتی ہے جس سے ہمیں یہ علم ہوتا ہے کہ تمام اچھے اور برے انسان بشمول انبیاء اور مومنین عالمِ برزخ میں زندہ ہیں جہاں وہ اکٹھے راحت و عذاب کے سلسلے سے گزارے جاتے ہیں ۔ اسی طرح اس حدیث سے ہمیں یہ بھی علم ہوتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی اپنی مدینہ والی قبر میں نہیں بلکہ جنت کے سب سے اعلی گھر میں زندہ ہیں اور اس حدیث کے مطابق انہیں اپنا یہ مقام دکھایا گیا جہاں اپنی وفات کے بعد انہوں نے رہنا تھا۔ یہ حدیث کافی لمبی ہے لیکن انتہائی اہمیت کی حامل ہے
سمرہ بن جندبؓ نے روایت کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم صلوٰۃ الفجر پڑھنے کے بعد (عموماً) ہماری طرف منہ کر کے بیٹھ جاتے اور پوچھتے کہ آج رات کسی نے کوئی خواب دیکھا ہو تو بیان کرو۔ راوی نے کہا کہ اگر کسی نے کوئی خواب دیکھا ہوتا تو اسے وہ بیان کر دیتا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی تعبیر اللہ کو جو منظور ہوتی بیان فرماتے۔ ایک دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے معمول کے مطابق ہم سے دریافت فرمایا کیا آج رات کسی نے تم میں کوئی خواب دیکھا ہے؟ ہم نے عرض کی کہ کسی نے نہیں دیکھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا لیکن میں نے آج رات ایک خواب دیکھا ہے کہ دو آدمی میرے پاس آئے۔ انہوں نے میرے ہاتھ تھام لیے اور وہ مجھے ارض ِمقدس کی طرف لے گئے۔ اور وہاں سے عالم ِبالا کی مجھ کو سیر کرائی ، وہاں کیا دیکھتا ہوں کہ ایک شخص تو بیٹھا ہوا ہے اور ایک شخص کھڑا ہے اور اس کے ہاتھ میں لوہے کا آنکس تھا جسے وہ بیٹھنے والے کے جبڑے میں ڈال کر اس کے سرکے پیچھے تک چیردیتا پھر دوسرے جبڑے کے ساتھ بھی اسی طرح کرتا تھا۔ اس دوران میں اس کا پہلا جبڑا صحیح اور اپنی اصلی حالت پر آ جاتا اور پھر پہلے کی طرح وہ اسے دوبارہ چیرتا۔ میں نے پوچھا کہ یہ کیاہو رہا ہے؟ میرے ساتھ کے دونوں آدمیوں نے کہا کہ آگے چلو۔ چنانچہ ہم آگے بڑھے تو ایک ایسے شخص کے پاس آئے جو سر کے بل لیٹا ہوا تھا اور دوسرا شخص ایک بڑا سا پتھر لیے اس کے سر پر کھڑا تھا۔ اس پتھر سے وہ لیٹے ہوئے شخص کے سر کو کچل دیتا تھا۔ جب وہ اس کے سر پر پتھر مارتا تو سر پر لگ کر وہ پتھر دور چلا جاتا اور وہ اسے جا کر اٹھا لاتا۔ ابھی پتھر لے کر واپس بھی نہیں آتا تھا کہ سر دوبارہ درست ہو جاتا۔ بالکل ویسا ہی جیسا پہلے تھا۔ واپس آ کر وہ پھر اسے مارتا۔ میں نے پوچھا کہ یہ کون لوگ ہیں؟ ان دونوں نے جواب دیا کہ ابھی اور آگے چلو۔ چنانچہ ہم آگے بڑھے تو ایک تنور جیسے گڑھے کی طرف چلے۔ جس کے اوپر کا حصہ تو تنگ تھا لیکن نیچے سے خوب فراخ۔ نیچے آگ بھڑک رہی تھی۔ جب آگ کے شعلے بھڑک کر اوپر کو اٹھتے تو اس میں جلنے والے لوگ بھی اوپر اٹھ آتے اور ایسا معلوم ہوتا کہ اب وہ باہر نکل جائیں گے لیکن جب شعلے دب جاتے تو وہ لوگ بھی نیچے چلے جاتے۔ اس تنور میں ننگے مرد اور عورتیں تھیں۔ میں نے اس موقع پر بھی پوچھا کہ یہ کیا ہے؟ لیکن اس مرتبہ بھی جواب یہی ملا کہا کہ ابھی اور آگے چلو ' ہم آگے چلے۔ اب ہم خون کی ایک نہر کے اوپر تھے نہر کے اندر ایک شخص کھڑا تھا اور اس کے بیچ میں ایک شخص تھا۔ جس کے سامنے پتھر رکھا ہوا تھا۔ نہر کا آدمی جب باہر نکلنا چاہتا تو پتھر والا شخص اس کے منہ پر اتنی زور سے پتھر مارتاکہ وہ اپنی پہلی جگہ پر چلا جاتا اور اسی طرح جب بھی وہ نکلنے کی کوشش کرتا وہ شخص اس کے منہ پر پتھر اتنی ہی زور سے پھر مارتاکہ وہ اپنی اصلی جگہ پر نہر میں چلا جاتا۔ میں نے پوچھا یہ کیاہو رہا ہے؟ انہوں نے جواب دیا کہ ابھی اور آگے چلو۔ چنانچہ ہم اور آگے بڑھے اور ایک ہرے بھرے باغ میں آئے۔ جس میں ایک بہت بڑا درخت تھا اس درخت کی جڑ میں ایک بڑی عمر والے بزرگ بیٹھے ہوئے تھے اور ان کے ساتھ کچھ بچے بھی بیٹھے ہوئے تھے۔ درخت سے قریب ہی ایک شخص اپنے آگے آگ سلگا رہا تھا۔ وہ میرے دونوں ساتھی مجھے لے کر اس درخت پر چڑھے۔ اس طرح وہ مجھے ایک ایسے گھر میں لے گئے کہ اس سے زیادہ حسین و خوبصورت اور بابرکت گھر میں نے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ اس گھر میں بوڑھے، جوان ' عورتیں اور بچے (سب ہی قسم کے لوگ) تھے۔ میرے ساتھی مجھے اس گھر سے نکال کر پھر ایک اور درخت پر چڑھا کر مجھے ایک اور دوسرے گھر میں لے گئے جو نہایت خوبصورت اور بہتر تھا۔ اس میں بھی بہت سے بوڑھے اور جوان تھے۔ میں نے اپنے ساتھیوں سے کہا تم لوگوں نے مجھے رات بھر خوب سیر کرائی۔ کیا جو کچھ میں نے دیکھا اس کی تفصیل بھی کچھ بتلاؤ گے؟ انہوں نے کہا ہاں وہ جو تم نے دیکھا تھا اس آدمی کا جبڑا لوہے کے آنکس سے پھاڑا جا رہا تھا تو وہ جھوٹا آدمی تھا جو جھوٹی باتیں بیان کیا کرتا تھا۔ اس سے وہ جھوٹی باتیں دوسرے لوگ سنتے۔ اس طرح ایک جھوٹی بات دور دور تک پھیل جایا کرتی تھی۔ اسے قیامت تک یہی عذاب ہوتا رہے گا۔ جس شخص کو تم نے دیکھا کہ اس کا سر کچلا جا رہا تھا تو وہ ایک ایسا انسان تھا جسے اللہ تعالیٰ نے قرآن کا علم دیا تھا لیکن وہ رات کو پڑا سوتا رہتا اور دن میں اس پر عمل نہیں کرتا تھا۔ اسے بھی یہ عذاب قیامت تک ہوتا رہے گا اور جنہیں تم نے تنور میں دیکھا تو وہ زناکار تھے۔ اور جس کو تم نے نہر میں دیکھا وہ سود خوار تھا اور وہ بزرگ جو درخت کی جڑ میں بیٹھے ہوئے تھے وہ ابراہیم علیہ السلام تھے اور ان کے اردگرد والے بچے ' لوگوں کی نابالغ اولاد تھی اور جو شخص آگ جلارہا تھا وہ دوزخ کا داروغہ تھا اور وہ گھر جس میں آپ پہلے داخل ہوئے جنت میں عام مومنوں کا گھر تھا اور یہ گھر جس میں تم اب کھڑے ہو ' یہ شہداء کا گھر ہے اور میں جبرائیل ہوں اور یہ میرے ساتھ میکائیکل ہیں۔ اچھا اب اپنا سر اٹھاؤ میں نے جو سر اٹھایا تو کیا دیکھتا ہوں کہ میرے اوپر بادل کی طرح کوئی چیز ہے۔ میرے ساتھیوں نے کہا کہ یہ تمہارا مکان ہے۔ اس پر میں نے کہا کہ پھر مجھے اپنے مکان میں جانے دو۔
انہوں نے کہا کہ ابھی تمہاری عمر باقی ہے جو تم نے پوری نہیں کی
اگر آپ وہ پوری کر لیتے تو اپنے مکان میں آ جاتے۔
صحیح بخاری ، کتاب الجنائز
چونکہ انبیاء کرام کا خواب بھی وحی ہوتا ہے ہمارے لئے اس حدیث کی روشنی میں مندرجہ ذیل باتوں کی تصدیق ہوتی ہے۔
۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو جنت میں وہ مقام دکھا دیا گیا جہاں انہیں اپنی دفات کے بعد رہنا تھا۔

۔ تمام انسانی ارواح وفات کے بعداکٹھی یا ایک ہی جگہ پر یعنی عالمِ برزخ میں عذاب یا راحت کی منزلوں سے گزرتی ہیں۔
۔ ارواح کو ملنے والے برزخی اجسام خاص نوعیت کے ہیں جنہیں اگر نقصان پہنچے تو یہ دوبارہ بن جاتے ہیں۔
۔ وہ تمام زنا کار مرد اور عورتیں جو دنیا میں مختلف مقامات پر مرے اور دفنائے یا جلائے گئے وغیرہ ان سب کو برہنہ حالت میں ا یک ساتھ جمع کر کے ایک بڑے تنور میں جھونک دیا جاتا ہے اور آگ کے عذاب سے گزارا جاتا ہے جو قیامت تک جاری رہے گا۔
۔ نیک لوگ یا مومنین ، انبیاء اور شہداء بھی برزخ میں اکٹھے ہیں جہاں انہیں خاص جسم ملتے ہیں جیسے شہداء کو اڑنے والا جسم ملتا ہے۔​
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے حوالے سے ہمیں ایک اور صحیح حدیث بھی ملتی ہے جو انکی وفات سے ذرا پہلے کی ہے اور عائشہ رضی اللہ عنہ فرماتی ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا میں حاضر و نا ظر رہنے کی بجائے اللہ کی رفاقت کی دعا کی یعنی جنت میں دکھائے گئے مقام پر رہنے کو ترجیح دی ۔
عائشہ ؓ نے بیان کیا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب بیمار نہیں تھے تو فرمایا کرتے تھے کہ جب بھی کسی نبی کی روح قبض کی جاتی تو پہلے جنت میں اس کا ٹھکانا دکھا دیا جاتا ہے ، اس کے بعد اسے اختیار دیا جاتا ہے ( کہ چاہیں دنیا میں رہیں یا جنت میں چلیں) چنانچہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم بیمار ہوئے اور سرمبارک میری ران پر تھا ۔ اس وقت آپ پر تھوڑی دیر کے لئے غشی طاری ہوئی ۔ پھر جب آپ کو اس سے کچھ ہوش ہوا تو چھت کی طرف ٹکٹکی باندھ کر دیکھنے لگے ، پھر فرمایا ''اللھم الرفيق الاعلیٰ'' یعنی '' اے اللہ رفیق اعلیٰ '' ۔ میں نے سمجھ لیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اب ہم دنیا والوں (کی رفاقت) اختیار نہ کریں گے ۔ میں سمجھ گئی کہ جو بات نبی صلی اللہ علیہ وسلم صحت کے زمانے میں بیان فرمایا کرتے تھے ، یہ وہی بات ہے ۔ عائشہ ؓ نے بیان کیا کہ یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا آخری کلمہ تھا جو آپ نے زبان سے ادا فرمایا کہ
''اللھم الرفيق الاعلیٰ''۔

صحیح بخاری، کتاب الدعوات
لہذا اس طرح سے قران و صحیح حدیث کی روشنی میں یہ بالکل واضح ہو جاتا ہے کہ ہر انسان کی اصلی قبر عالمِ برزخ ہے​
 

طاہر اسلام

سینئر رکن
شمولیت
مئی 07، 2011
پیغامات
843
ری ایکشن اسکور
732
پوائنٹ
256
@


کتنی احادیث پیش کی میں نے - اور یہی کہا ہے کہ یہ برزخ کا معاملا ہے - لیکن شاہد میری بات کو غلط سمجھا گیا -

مجھ پر تو آپ نے فتویٰ لگا دیا کہ میں گمراہ ہوں - کیا آپ کا یہ فتویٰ شریف احناف پر بھی لگا ہے جو کھلے عام یہاں پر اپنی فقہ شریف کو بچانے کی خاطر احادیث کا رد کرتے ہیں - پیشاب سے سوره فاتحہ لکھنے کا فتویٰ بھی فقہ حنفی شریف مین موجود ہے - لیکن آپ کی زبان فتویٰ دینے سے گریز کرتی ہے -

http://forum.mohaddis.com/threads/مسئلہ-پیشاب-سے-سورہ-فاتحہ-لکھنا.6116/


احناف نے حدیث رسول صلی الله وسلم سے کھلی بغاوت کی - لیکن آپ کا فتویٰ نہیں لگا کیوں کہ شاہد آپ مجبور ہیں -

http://forum.mohaddis.com/threads/حنفیوں-کی-حدیث-رسول-صلی-الله-وسلم-سے-کھلی-بغاوت.24944/

آپ بتلائیں کہ کیا آپ اس حدیث کو مانتے ہیں یا نہیں؟؟آپ تو اسے خلاف قرآن قرار دیتے ہیں!
احناف کا یہ فتویٰ صریح ضلالت ہے لیکن تمام حنفی اسے نہیں مانتے بل کہ بہت سے صراحتاً اس کی تردید کرتے ہیں۔
 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,899
پوائنٹ
436
میرے بھائی ۔۔۔۔۔۔۔۔ محترم کفایت اللہ صاحب نے اس کا جواب دے رکھا ہے ،اور یہ جواب وہاں لکھا ہواہے جہاں سے آپ نے حافظ طاہر اسلام کی توفیق ہدایت والی بات کا جواب بھی دیا ہے ،لیکن آپ چونکہ اپنے ٹارگٹ اور مشن میں بغیر کچھ دیکھے دوڑے جا رہے ہیں اس لئےآپ کو کچھ نظر نہیں آرہا ،،خیر۔۔۔۔۔ جب صحابہ کرام کے شاگردوں کے خلاف کوئی زبان وقلم چلانا چاہتا ہے ،تو یہی ہذیانی کیفیت شریفہ طاری ہوتی ہے ،
محترم کفایت اللہ صاحب کا جواب ملاحظہ کریں >
<<حدیث براء رضی اللہ عنہ بالکل صحیح ہے جس وقت میں نے مذکورہ جواب دیا تھا اس وقت بھی حدیث براء رضی اللہ عنہ کا مجھے علم تھا۔
بلکہ جمعہ کے خطبات میں ناچیز نے متعدد بار براء رضی اللہ عنہ کی یہ حدیث پیش کی ہے۔ہمارے نزدیک یہ حدیث صحیح ہے۔>>
----------------------------------
اور یہ بھی خوب کہی کہ ((یہ تحقیق کسی اور نے لکھی ہے ))

بلی تھی ،تھیلے سے باہر کود پڑی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دھوکے کا نام : تحقیق :: دھوکہ دیتے ہیں یہ بازی گر کھلا
سوال گندم اور جواب چنا
 
Top