• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مسنون نمازِ جنازہ ا ور مسجد میں نمازِ جنازہ پڑھنے کا حکم

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,564
پوائنٹ
791
جنازہ کے آگے یا پیچھے بآوازِ بلند ذکر وغیرہ کرنا کیسا ہے ؟


تحریر: غلام مصطفےٰ ظہیر امن پوری
جنازہ کے آگے یا پیچھے بآوازِ بلند ذکر وغیرہ کرنا “قبیح بدعت” ہے ،قرآن و حدیث میں اس کی کوئی اصل نہیں ہے ، یہ رسول اللہ ﷺ ، خلفائے راشدین ، صحابہ کرام ، تابعینِ عظام ، ائمہ دین اور سلف صالحین سے ثابت نہیں ہے ۔

اس کے باوجود “قبوری فرقہ” اس کو جائز سمجھتا ہے ، جنازہ کے آگے یا پیچھے بآوازِ بلند ذکر یا قرآن خوانی کرنا نیکی کا کام ہوتا یا شریعت کی روسے میت کو کوئی فائدہ پہنچتا تو صحابہ کرام اور سلف صالحین جو سب سے بڑھ کر قرآن و حدیث کے معانی ، مفاہیم و مطالب اور تقاضوں کو سمجھنے والے اوران کے مطابق زندگیوں کو ڈھالنے والے تھے، وہ ضرور اس کا اہتمام کرتے۔

٭٭٭٭چاروں اماموں سے بھی اس کا جواز یا استحباب منقول نہیں ہے ، احمد یار خان نعیمی گجراتی لکھتے ہیں:
“ہم مسائلِ شرعیہ میں امام صاحب (ابوحنیفہ) کا قول و فعل اپنے لیے دلیل سمجھتے ہیں اور دلائلِ شرعیہ پر نظر نہیں کرتے ۔” (جاء الحق از احمد یار خان بریلوی : ۱۵/۱)
اب بریلویوں پر لازم ہے کہ وہ اپنے امام ابوحنیفہ سے باسندِ صحیح اس کا استحباب ثابت کریں ، ورنہ ماننا پڑے گا کہ اس فرقہ کا امام ابوحنیفہ سے کوئی تعلق نہیں اور “اجلی الاعلام بان الفتویٰ مطلقا علی قول الامام” کے نام سے رسالے لکھنے والوں کو شعرانی جو انتہائی گمراہ کن انسا ن تھا ، اس کے خلافِ شرع اقوال پیش کرنے سے اجتناب کرنا چاہیے۔
واضح رہے کہ بعض حنفیوں اماموں نے جنازہ کے ساتھ بآوازِ بلند ذکر کے عدمِ جواز اور بدعتِ قبیحہ ہونے کی صراحت بیان کی ہے :
۱٭ طحطاوی حنفی لکھتے ہیں: ولا یرفع صوتہ بالقرائۃ ولا بالذّکر، ولا یغتر بکثرۃ من یفعل ذلک، وامّا ما یفعلہ الجھّال فی القرائۃ علی الجنازۃ من رفع الصّوت و التّمطیط فیہ فلا یجوز بالاجماع، ولا یسع أحدا یقدر علی انکارہ أن یسکت عنہ ولا ینکر علیہ، وعلیھم الصّمت و نحو ذلک کالأذکار المتعارفۃ بدعۃ قبیحۃ.
ترجمہ: “جنازہ کے ساتھ قراءت اور ذکر کے وقت آواز بلند نہ کرے ، جو لوگ یہ بلند آواز سے ذکر کرتے ہیں، ان کی کثرت دیکھ کر دھوکے میں نہ آجائے ، جنازہ کے ساتھ جاہل لوگ اونچی آواز سے اور کھینچ کھینچ کر کرتے ہیں ، یہ بالاجماع جائز نہیں ہے ، کسی انسان کے لیے جائز نہیں کہ اس کے انکار پر قدرت و طاقت رکھتا ہو ، پھر خاموش رہے اور اس پر انکار نہ کرے ، لوگوں پر خاموشی لازم ہے ، اسی طرح جنازہ کے ساتھ اذکارِ متعارفہ بدعتِ قبیحہ ہیں۔” (حاشیۃ الطحطاوی :۳۳۲)
۲٭ ترکمانی حنفی لکھتے ہیں: ومن البدع ما یفعل بین یدی المیّت من قرائۃ و ذکر و حمل خبز و خرفان، الکلّ لا یرضی الواحد الدّیّان.
“میت کے آگے قراءت و ذکر کرنا، روٹیاں اور بکری کا بچہ اٹھانا، بدعت کے کاموں میں سے ہے، ان ساری چیزوں پر کوئی ایک بھی دیندار انسان راضی نہیں ہوسکتا ۔” (کتاب اللمع فی الحوادث و البدع از ترکمانی” ۲۳۲)
نیز لکھتے ہیں: وکذلک الذّکر جھرا یکرہ فعلہ خلف الجنازۃ ، ولیس فیہ أجر للذّاکر ولا للمیّت.
“اسی طرح جنازہ کے پیچھے اونچی آواز سے ذکر کرنا مکروہ ہے ، اس میں ذاکر (ذکر کرنے والے) اور میت کے لئے کوئی اجر نہیں ہے ۔” (کتاب اللمع: ۲۱۶)
۳٭حنفی مذہب کی معتبر ترین کتابوں میں لکھا ہے:
“جنازے کے ساتھ جانے والوں کو خاموش رہنا واجب ہے اور بلند آواز ذکر کرنا اور قرآن پڑھنا مکروہ ہے ،اگر اللہ کا ذکر کرنا چاہیں تو اپنے دل میں کریں۔” (فتاویٰ عالمگیری: ۱۶۲/۱ ، فتاویٰ قاضی خان : ۹۲/۱، بحوالہ جاء الحق از نعیمی: ۴۰۸/۱)

٭ ایک حنفی امام لکھتے ہیں: رفع الصّوت بالذّکر وقرائۃ القرآن وقولھم کلّ حیّ یموت و نحو ذلک خلف الجنازۃ بدعۃ.
“جنازہ کےساتھ بآوازِ بلند ذکر اور قراءتِ قرآن اور لوگوں کا یہ کہنا کہ ہر زندہ مرے گا، اور اس طرح کی باتیں بدعت ہیں۔” (فتاویٰ سراجیہ: ۲۳)
محمد رکن دین بریلوی لکھتے ہیں:

“سوال : جولوگ جنازہ کے ہمراہ ہوں ان کوکلمہ طیبہ راستہ میں پڑھنا کیسا ہے ؟
جواب: پکار کر پڑھنا تو مکروہ ہے ، دل میں اگر پڑھیں تو مضائقہ نہیں ، بہتر خاموشی ہے ۔(عالمگیری)” (رکن دین : ۲۰۶)


ایک شبہ اور اس کا ازالہ:
احمد یار نعیمی گجراتی صاحب لکھتے ہیں:
“جن فقہاء نے میت کے ساتھ ذکر بالجہر کو مکروہ فرمایا، ان کی مراد مکروہ تنزیہی ہے ۔” (جاء الحق ؛ ۴۱۰/۱)
جناب بریلوی صاحب دھینگا مشتی کرتے ہوئے اپنے “فقہاء ” کی عبارت کا مفہوم بگاڑنے میں سرگرداں ہیں کہ مکروہ سے مراد مکروہِ تنزیہی ہے ، جبکہ بعض”فقہاء” نے اس کو بدعتِ قبیحہ کہا ہے، ابن نجیم حنفی ج کو ابوحنیفہ ثانی کے لقب سے ملقب کیا گیا ہے ، وہ لکھتے ہیں:
وینبغی لمن تبع الجنازۃ أن یطیل الصّمت ویکرہ رفع الصّوت بالذّکر وقرائۃ القرآن وغیرھما فی الجنازۃ و الکراھۃ فیھا کراھۃ تحریم.
“جنازہ کے پیچھے چلنے والوں کے لئے مناسب یہ ہے کہ لمبی خاموشی اختیار کریں ، جنازہ کے ساتھ اونچی آواز سے ذکر اور قراءتِ قرآن وغیرہ مکروہ ہے ، اس میں کراہت تحریمی ہے ۔” (البحر الرائق : ۱۹۹/۲)
ثابت ہوا کہ “مفتی ” صاحب کی توجیہ باطل ہے اور محض بدعت کو کمزور سہارا دینے والی بات ہے۔
حافظ نووی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: “جان لو ! درست اور مختار مذہب یہ ہے کہ جس پرسلف رضی اللہ عنہم کا عمل رہا ہے کہ جنازہ کے ساتھ چلتے وقت سکوت اختیار کیا جائے ، قرآءت اور ذکر وغیرہ میں آواز بلند نہ کی جائے ، اس میں حکمت ظاہر ہے کہ خاموشی انسان کے دل کو مطمئن اور جنازے کے متعلق چیزوں کے بارے میں اس کی فکر کو جمع کردیتی ہے ، اس حالت سے یہی مطلوب ہے اور یہی حق بھی ہے ، اس کی مخالفت کرنے والوں کی کثرت دیکھ کر دھوکہ مت کھا۔” (الاذکار از نووی : ۱۳۶)
اسی طرح جب حافظ نووی سے سوال کیا گیا کہ دمشق میں بعض جاہل جنازے پر بری طرح کھینچ کھینچ کر ، حد سے زیادہ سر اور کلمات سے زائد حروف داخل کرکے قراءت کرتے ہیں، کیا ایساکرنا مذموم چیز ہے یا نہیں ؟
حافظ نووی جواب دیتے ہیں: “یہ واضح برائی اور انتہائی قابلِ مذمت چیز ہے ، اس کے حرام ہونے پر علماء کا اجماع ہے ، ماوردی اور دوسرے کئی ایک اماموں نے اس کے حرام ہونے پر اجماع نقل کیا ہے ، حاکمِ وقت اس فعل پر ان کو ڈانٹے اور تعزیرقائم کرے اور اس فعل سے توبہ کرائے ، ہر مکلّف جو اس کے انکار پر قدرت و طاقت رکھتا ہے ، اس پر انکار لازم ہے ۔” (فتاویٰ النووی : ۳۶)
۵٭ حافظ ابن تیمیہ رحمہ اللہ لکھتے ہیں: “جنازے کے ساتھ بآوازِ بلند ذکروغیرہ کرنا، یہ اہل کتاب اور عجمیوں کی عادت تھی ،لیکن اس امت کے بہت سارے لوگ بھی اس میں مبتلا ہوگئے ہیں۔” (اقتضاء الصراط المستقیم : ۳۱۶/۱)
نیز فرماتے ہیں: “جنازے کے ساتھ آواز بلند کرنا بالاتفاق مکروہ ہے ، خواہ قراءت ہی ہو۔” (الاختیارات الفقھیہ:۸۸)
۶٭ ابن النحاس (م ۸۱۴ ھ ) لکھتے ہیں: “اگر قراءت میں کھینچاؤ اور الحان نہ بھی ہو ، پھر بھی یہ مکروہ بدعت ہے ،کیونکہ نبیٔ کریم ﷺ اور سلف میں سے کسی انسان سے ایسا کرنا ثابت نہیں ہے ، اسی طرح جنازے کے ساتھ ذکر بھی مکروہ بدعت ہے ۔” (تنبیہ الغافلین عن اعمال الجاھلین و تحذیر السالکین من افعال الھالکین: ۴۸۱)
اہل بدعت کے دلائل
۱٭ اہل بدعت کا عمومی دلائل سے اس کا ثبوت پیش کرنا صحیح نہیں ہے ، کیونکہ بدعات یا تو عمومی دلائل کے تحت آتی ہی نہیں یا ان سے مستثنیٰ ہوتی ہے ۔
۲٭ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے ، کہتے ہیں:
لم یکن یسمع من رسول اللہ ﷺ وھو یمشی خلف الجنازۃ الا قول لا الہ الا اللہ مبدیا وراجعا.
“جب رسول اللہ ﷺ جنازے کے پیچھے چلنا شروع کرتے اور جب واپس لوٹتے تو ابن عمر رضی اللہ عنہما آپ سے لا الہ الا اللہ کے سوا کچھ بھی نہیں سنتے تھے۔” (الکامل لابن عدی : ۲۶۹/۱ ، ۱۶۰۸/۴)
تبصرہ:
یہ روایت موضوع (من گھڑت) ہے ، اس کے راوی ابراہیم بن احمد الحرانی کے بارے میں امام ابوعروبہ فرماتے ہیں: کان یضع الحدیث. “یہ حدیثیں گھڑتا تھا ۔” (الکامل لابن عدی : ۲۶۹/۱)
اس کے بارے میں تعدیل ثابت نہیں ہے لہٰذا ایسی موضوع (من گھڑت) روایت بدعت کے ثبوت میں پیش کرنا سراسر دھوکہ اور ظلم ہے ۔
احمد یار نعیمی لکھتے ہیں: “اگر یہ حدیث ضعیف بھی ہو ، پھر بھی فضائلِ اعمال میں معتبر ہے ۔” (جاء الحق: ۴۰۴/۱)
اولاً : یہ روایت من گھڑت ہے۔ ثانیاً: اس میں جنازے کے ساتھ بآوازِ بلند اجتماعی ذکر کا وجود نہیں ملتا ۔ ثالثاً: اس مسئلہ کا تعلق احکام کے ساتھ ہے نہ کہ فضائل کے ساتھ، چونکہ اختلاف اس بارے میں ہے کہ جنازے کے آگے یا پیچھے ذکر کرنا جائز ہے یا ناجائز ، نہ کہ اس کی فضیلت کے بارے میں۔
۳٭ عن عبداللہ بن محمد بن وھب، حدّثنی یحیی بن محمد بن صالح ، حدّثنا خالد بن مسلم القرشی ، حدّثنا یحیی بن أیوب عن یزید بن أبی حبیب عن سنان بن سعد عن أنس ، قال ؛ قال رسول اللہ ﷺ ؛ أکثروا فی الجنازۃ قول لا الہ اّلا اللہ.
“سیدنا انس عنہ سے روایت ہے کہ رسولِ کریم ﷺ نے فرمایا، جنازے کے ساتھ کثرت سے لاالہ الا اللہ پڑھو۔” (مسند الدیلمی : رضی اللہ۳۲/۱/۱، بحوالہ سلسلۃ الاحادیث الضعیفۃ: ۲۸۸/۱)
تبصرہ:
یہ روایت “ضعیف” ہے ، اس کے بعض راوی نامعلوم و مجہول ہیں ، محدث البانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ یحییٰ بن ایوب سے نیچے راویوں کا مجھے ذکر نہیں مل سکا۔
مجہول اور نامعلوم راویوں کی روایت سے استدلال اہل حق کو زیب نہیں دیتا ، دوسری بات یہ ہے کہ اس روایت میں ذکر بالجہر کا وجود تک نہیں ملتا۔
تنبیہ:
جناب اشرف علی تھانوی دیوبندی کہتے ہیں:
“ہمارے حضرت حاجی (امداد اللہ) صاحب قبلہ نے انتقال کے وقت مولوی اسماعیل صاحب سے فرمایا تھا کہ میرا جی چاہتا ہے کہ میرے جنازے کے ساتھ ذکر بالجہر کیا جائے ، انہوں نے کہا ، حضرت یہ تو نامناسب معلوم ہوتا ہے ، ایک نئی بات ہے ، جس کو فقہاء نے اس خیال سے کہ عوام سنت نہ سمجھ لیں ، پسند نہیں فرمایا ، فرمایا بہت اچھا ، جو مرضی ہو ، خیر بات آئی گئی ہو ئی اور کسی کو اس کی خبر بھی نہیں ہوئی ، کیونکہ خلوت میں گفتگو ہوئی تھی، مگر جب جنازہ اٹھا تو ایک عرب کی زبان سے نکلا، اذکروا اللہ بس پھر کیا تھا، سب لوگ باساختہ ذکر کرنے لگے اور لا الہ الا اللہ کی صدائیں برابر قبرستان میں بلند رہیں ، بعد میں مولوی اسماعیل صاحب اس گفتگو کو نقل کرکے کہتے ہیں کہ ہم نے حضرت (امداد اللہ) کو تو منوا دیا ، مگر اللہ تعالیٰ کو کیونکر منوائیں، اللہ تعالیٰ نے حضرت کی تمنا پوری کردی ۔” (قصص الاکابراز تھانوی : ۱۱۹، الافاضات الیومیۃ از تھانوی : ۲۷۷/۳، امداد المشتاق از تھانوی : ۲۰۴)
اس واقعہ سے مندرجہ ذیل باتیں ثابت ہوئیں:
۱٭ دیوبندیوں کے عقیدہ وحدت الوجود کے امام اور ان کے پیرو مرشد حاجی امداداللہ کے نزدیک بدعت اور بےاصل کام کی خواہش کرنا بھی صحیح ہے اور خلافِ شرع کام کی وصیت بھی۔
۲٭ جنازے کے آگے یا پیچھے بآوازِ بلند ذکر وغیرہ کی بدعت پر عمل کرنے میں تمام تقلید پرست متفق ہیں ، حالانکہ میت کے ساتھ اونچی آواز سے پڑھنا ہندؤوں کی رسمِ بد ہے ۔
۳٭ یہ لوگ اللہ تعالیٰ کی ذات پر بھی جھوٹ بولنے سے باز نہیں آتے ۔
الحاصل:
جناز ےکے آگے یا پیچھے بآوازِ بلند ذکر اور نعت خوانی وغیرہ بدعتِ قبیحہ، سیئہ اور مذمومہ ہے۔
٭٭٭٭٭٭
شکریہ
سیدنا نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :
من لم یشکر القلیل لم یشکر الکثیر ، ومن لم یشکر الناس لم یشکر اللہ عزوجل، والتحدیث بنعمۃ اللہ شکر ، وترکھا کفر، والجماعۃ رحمۃ ، والفرقۃ عذاب.
“جو تھوڑی نعمت کا شکریہ ادانہیں کرتا، وہ زیادہ کابھی شکریہ ادا نہیں کرتا، جو لوگوں کا شکریہ ادا نہیں کرتا، وہ اللہ تعالیٰ کا بھی شکریہ ادا نہیں کرتا، اللہ کی نعمت دوسرے سے بیان کرنا شکریہ ہے اور ایسانہ کرنا کفرانِ نعمت ہے ، جماعت رحمت ہے اور تفرقہ بازی عذاب ہے ۔” (مسند الامام احمد : ۲۸۷/۴، ۳۷۵، زوائد مسند الامام احمد : ۳۷۵/۴ ، السنۃ لا بن ابی عاصم : ۹۳، الشکر لا بن ابی الدنیا: ۶۴، وسندہ حسن)
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,564
پوائنٹ
791
کفن پر لکھنا بدعت ہے ؛


تحریر غلام مصطفٰے ظہیر امن پوری

قبر میں شجرہ یا غلاف کعبہ یا عہد نامہ یا دیگر ”تبرکات“ کا رکھنا، نیز مردے کے کفن یا پیشانی پر انگلی یا مٹی یا کسی اور چیز سے عہد نامہ یا کلمہ طیبہ لکھنا ناجائز اور بدعت سیہ اور قبیحہ ہے۔

یہ خانہ ساز دین، آسمانی دین کے خلاف ہے۔ قرآن و حدیث میں ان افعال قبیحہ پر کوئی دلیل نہیں، بلکہ سلف صالحین میں سے کوئی بھی ان کا قائل و فاعل نہیں۔ یہ بدعتیوں کی ایجادات ہیں۔ اہل سنت ان خرافات و بدعات سے بیزار ہیں، کیونکہ یہ انتہائی جرآت مندانہ اقدام دینِ الٰہی میں بگاڑ کا باعث ہے۔
ان افعال قبیحہ کے ثبوت پر پیش کیے گئے دلائل کا علمی جائزہ پیش خدمت ہے:

مولوی احمد یار خان نعیمی بریلوی (۱۳۲۴-۱۳۹۱ھ) لکھتے ہیں :
”قبر میں بزرگان دین کے تبرکات اور غلافِ کعبہ و شجرہ یا عہد نامہ رکھنا مردہ کی بخشش کا وسیلہ ہے۔ قرآن فرماتا ہے : وَابْتَغُوا إِلَيْهِ الْوَسِيلَةَ (المائدہ : 35) ( جاء الحق از احمد یار خان نعیمی : ۳۳۶/۱)
تبصرہ:
اس آیت کریمہ سے عہد نامہ وغیرہ کے جواز پر استدلال کرنا باطل ہے، کیونکہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور ائمہ دین میں سے کسی نے اس آیت کریمہ سے یہ استدلال نہیں کیا۔ لہٰذا یہ کلام الٰہی کی معنوی تحریف ہے۔
اس آیت میں بالاتفاق وسیلہ سے مراد نیک اعمال ہیں جیسا کہ مفسر قرآن حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ ( ۷۰۰-۷۷۴ ھ) اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں :
وھذا الذی قاله ھؤلاء الأئمَة، لا خلاف فيه بين المفسّرين
”ان ائمه نے جو کہا ہے ( کہ وسیلہ سے مراد نیک اعمال ہیں ) ، اس میں مفسرین کے درمیان کوئی اختلاف نہیں۔“ ( تفسیر ابن کثیر : ۵۳۵/۲)
بعض لوگ تمام مفسرین اور ائمہ اہل سنت کا اتفاقی معنیٰ ترک کر کے اپنی مرضی کا معنیٰ لیتے ہیں، لیکن پھر بھی ان کے سنی ہونے میں کوئی حرج واقع نہیں ہوتا، کیوں ؟
علامہ شاطبی رحمہ اللہ ( م ۷۹۰ ھ) لکھتے ہیں :
فكلّ من اتمد علی تقليد قول غير محقق أو رجع بغير معنی، فقد خلع الربقة، و استند إلی غير شرع، عافانا الله من ذلك بفضله، فھذه الطريقة في الفتيا من جملة البدع المحدثات في دين الله تعالیٰ كما أن تحكيم العقل علی الدين مطلقا محدث
”ہر شخص جو کسی غیر ثابت شدہ قول کی تقلید پر اعتماد کرتا ہے یا بغیر کسی وجہ کے اسے راجع قرار دے، اس نے ( اسلام کی ) رسی اتار دی اور شریعت کے علاوہ کسی اور چیز پر اعتماد کر لیا۔ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے ہمیں ایسے کاموں سے بچائے۔ فتویٰ میں یہ طریقہ اختیار کرنا ان بدعات میں سے ہے، جو اللہ تعالیٰ کے دین میں نکالی گئی ہیں، جیسا کہ عقل کو دین پر حاکمیت دینا مطلق طور بدعت ہے۔“ ( الاعتصام للشاطبی : ۱۷۹/۲)

نعیمی صاحب دوسری دلیل لکھتے ہیں :

”یوسف علیہ السلام نے بھائیوں سے فرمایا تھا :
اذْهَبُوا بِقَمِيصِي هَـٰذَا فَأَلْقُوهُ عَلَىٰ وَجْهِ أَبِي يَأْتِ بَصِيرًا (سورہ یوسف : 93)
”میری قمیض لے جا کر والد صاحب کے منہ پر ڈال دو، وہ انکھیارے ہو جائیں گے“، معلوم ہوا کہ بزرگوں کا لباس شفا بخشتا ہے، کیونکہ یہ ابراھیم علیہ السلام کی قمیض تھی، تو امید ہے کہ بزرگوں کا نام مردے کی عقل کھول دے اور جوابات یاد آ جائیں۔“ ( جاء الحق از نعیمی : ۳۳۶/1)
تبصرہ:


یہ پیغمبر کا معجزہ تھا۔ معجزہ سے شرعی احکام ثابت نہیں ہوتے، نیز سلف صالحین سے یہ بات ثابت نہیں، لہٰذا یہ دین نہیں۔
یہ کہنا کہ یہ ابراھیم علیہ السلام کی قمیض تھی، محض بے دلیل بات ہے، کیونکہ قرانِ مجید کی خلاف ورزی ہے۔
آیت کریمہ میں ہے کہ اذْهَبُوا بِقَمِيصِي هَـٰذَا ”میری یہ قمیض لے جاؤ“۔

نیز فرمایا :
وَجَاءُوا عَلَىٰ قَمِيصِهِ بِدَمٍ كَذِبٍ ( یوسف : ۱۸)

”وہ ( اخوانِ یوسف ) ان ( سیدنا یوسف علیہ السلام) کی قمیض پر جھوٹا خون لائے “۔

جناب نعیمی صاحب تیسری دلیل ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
”نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا تہبند شریف اپنی بیٹی سیدہ زینب رضی اللہ عنہا کے کفن میں شامل فرما دیا تھا۔“ ( جاء الحق از نعیمی : ۳۳۶/۱)
تبصرہ:
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی قمیض بطور تبرک دی تھی اور تبرک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی کے ساتھ خاص تھا، اب کسی اور کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم قیاس نہیں کیا جا سکتا، جیسا کہ علامہ شاطبی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
إنّ الصحابة بعد موته لم يقع من أحد منھم شيء من ذلك بالنسبة إلي من خلفة، إذ لم يترك النبی صلی الله عليه وسلم بعده فی الامة أفضل من أبی بكر صديق رضی الله عنه، فھو كان خليفته، ولم يفعل به شيء من ذلك، ولا عمر رضی الله عنه، وھو كان أفضل الأمة بعده، ثمّ كذلك عثمان، ثمّ علی، ثمّ سائر الصحابة الذين لا أحد أفضل منھم فی الأمة، ثمّ لم يثبت لو احد منھم من طريق صحيح معروف أن متبر كا تبرك به علی أحد تلك الوجوه أو نحوھا، بل اقتصروا فيھم علی الاقتداء بالافعال وألاقوال والسير الّتي اتّبعوا فيھا النبی صلی الله عليه وسلم، فھو إذا إجماع منھم علی ترك تلك الأشياء
”صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ کسی کے لیے یہ ( تبرک ) مقرر نہ کیا، کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد امت میں سب سے افضل سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد خلیفہ بھی تھے، ان کے ساتھ اس طرح کا کوئی معاملہ نہیں کیا گیا، نہ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے ہی ایسا کیا، وہ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے بعد امت میں سب سے افضل تھے، پھر اسی طرح سیدنا عثمان و علی رضی اللہ عنہما اور دوسرے صحابہ کرام تھے، کسی سے بھی باسند صحیح ثابت نہیں کہ کسی نے ان کے بارے میں اس طرح سے کوئی تبرک والا سلسلہ جاری کیا ہو، بلکہ ان ( صحابہ ) کے بارے میں انہوں ( دیگر صحابہ و تابعین ) نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اتباع پر مبنی اقوال و افعال اور طریقہ کار پر اکتفا کیا ہے، لہٰذا یہ ان کی طرف سے ترک تبرکات پر اجماع ہے۔“ (کتاب الاعتصام للشطابی : (9-8/2 )

مفتی صاحب بطور دلیل شاہ عبدالعزیز کے فتاویٰ کے حوالے سے ذکر کرتے ہیں :
”قبر میں شجرہ رکھنا بزرگان دین کا معمول ہے، لیکن اس کے دو طریقے ہیں۔ ایک یہ کہ مردے کے سینہ پر کفن کے اوپر یا نیچے رکھیں۔ اس کو فقہاء منع کرتے ہیں۔ دوسرے یہ کہ مردے کے سر کی طرف قبر میں طاقچہ بنا کر شجرہ کاغذ میں رکھیں۔“ ( جاء الحق : ۳۳۷/۱)

تبصرہ:


اگر بزرگان دین سے مراد سلف صالحین، ائمہ محدثین ہیں تو یہ سفید جھوٹ ہے اور اگر احناف مراد ہیں تو وہ قرآن و حدیث اور سلف صالحین کی مخالفت میں ہمیشہ کمربستہ نظر آتے ہیں۔

اگر کوئی ان ”بزرگان دین“ سے قرآن و حدیث سے دلیل مانگ لے تو کیا جواب ملے گا ؟ یہ جسے چاہیں ممنوع ٹھہرا دیں اور جسے چاہیں جائز قرار دیں۔، جیسا کہ مردے کے سینہ پر کفن کے اوپر یا نیچے شجرہ رکھنا ممنوع قرار دیا اور قبر میں طاقچہ بنا کر رکھنا جائز قرار دیا۔ کیوں ؟

جناب احمد یار خان نعیمی گجراتی بریلوی صاحب لکھتے ہیں :
”میت کی پیشانی یا کفن پر عہد نامہ یا کلمہ طیبہ لکھنا، اسی طرح عہد نامہ قبر میں رکھنا جائز ہے، خواہ تو انگلی سے لکھا جائے یا کسی اور چیز سے۔ امام ترمذی حکیم بن علی نے نوادرالاصول میں روایت کی کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : من كتب ھذا الدعاء و جعله بين صدر الميت و كفنه فی رقعة لم ينله عذاب القبر، ولا يری منكرا و نكيرا جو شخص اس دعا كو لكھے اور میت کے سینے اور کفن کے درمیان کاغذ میں لکھ کر رکھے تو اس کو عذاب قبر نہ ہو گا اور نہ منکر نکیر کو دیکھے گا۔“ ( جاء الحق ۳۳۸/۱)

تبصرہ:


یہ بدعات کے ثبوت پر دلیل ہے۔ لگتا ہے کہ یہ دلیل ان کو شیطان نے وحی کی ہے، ورنہ نوادرالاصول تو کجا، دنیا جہان کی کسی حدیث کی کتاب میں اس کا ذکر تک نہیں ہے۔

یہ وضعی، بے سند اور من گھڑت روایت ان لوگوں کے ماتھے کا جھومر ہے۔ یہ لوگ دین میں بدعات جاری کرنے اور ان کے ثبوت پر جھوٹی روایات پیش کرنے یں اہل کتاب کو بھی پیچھے چھوڑ گئے ہیں۔
نیز ان کو یہ بھی خیال نہیں آیا کہ یہ ان کے اپنے قول کے بھی خلاف ہے، جیسا کہ انہوں نے اپنی کتاب کے پچھلے ہی صفحہ پر ذکر کیا ہے کہ ان کے ”فقہاء“ مردے کے سینے پر شجرہ یا عہد نامہ رکھنا ممنوع قرار دیتے ہیں۔ اگر نعیمی صاحب کے نزدیک یہ حدیث نبوی ہے تو ان کے ”فقہاء“ جو اس حدیث پر عمل کرنے سے منع کرتے ہیں، ان کا کیا حکم ہے ؟

مفتی صاحب ایک نئی دلیل پیش کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
”الحرف الحسن ( یہ احمد رضا خان صاحب کی تصنیف ہے ) میں ترمذی سے نقل کیا کہ صدیق اکبر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جو کوئی عہد نامہ پڑھے تو فرشتہ اسے مہر لگا کر قیامت تک کے لیے رکھ لے گا۔ جب بندے قبر سے اٹھائے جائیں گے تو فرشتہ وہ نوشتہ ساتھ لا کر ندا کرے گا کہ عہد والے کہاں ہیں ؟ ان کو یہ عہد نامہ دیا جائے گا۔ امام ترمذی نے فرمایا کہ عن طاؤس انّه أمر بھذه الكلمات، فكتب في كفنه ( الحف الحسن ) ( جاء الحق از نعيمي : ۳۳۹/۱)

تبصرہ:

یہ بے سند اور جھوٹی روایت ہے۔ شرعی احکام کی اس پر بنیاد ڈالنا اہل بدعت کا ہی وطیرہ ہو سکتا ہے۔ رہا طاؤس کا قول تو اس کا بھی حوالہ اور سند دونوں نہیں مل سکے۔

مفتی احمد یار خان نعیمی صاحب لکھتے ہیں :
”عہد نامہ یا کلمہ طیبہ لکھنا، یہ دونوں کام جائز اور احادیث صحیحہ، اقوال فقہاء سے ثابت ہیں۔“ ( جاء الحق از نعیمی : ۳۳۶/۱)

تبصرہ:


وہ احادیث صحیحہ کہاں ہیں ؟ اگر بے سند روایات کا نام احادیث صحیحہ ہے تو پھر جھوٹ کسے کہتے ہیں ؟


قارئین کرام ! آپ نے بدعات کے ثبوت پر دلائل ملاحظہ فرما لئے، اس کے باوجود نعیمی صاحب لکھتے ہیں : ”میت کے لیے کفن وغیرہ پر ضرور عہد نامہ لکھا جاوے۔“ ( جاء الحق از نعیمی : ۳۴۱/۱)


نعیمی صاحب ”فتاویٰ بزازیہ“ سے نقل کرتے ہیں :
”اگر میت کی پیشانی یا عمامہ یا کفن پر عہدنامہ لکھا تو امید ہے کہ اللہ اس کی بخشش کر دے اور اس کو عذاب قبر سے محفوظ رکھے۔ امام نصیر نے فرمایا کہ اس روایت سے معلوم ہوا کہ لکھنا جائز ہے اور مروی ہے کہ فاروق اعظم کے اصطبل کے گھوڑوں کی رانوں پر لکھا تھا : حُبِسَ في سبيل الله(جاء الحق از نعیمی : 340-339/1)

تبصرہ:


بدعات کے شیدائی دلائل سے تہی دست ہوتے ہیں۔ ”ڈوبتے کو تنکے کا سہارا“ کے مصداق ”مفتی“ صاحب نے کیسی دلیل پیش کی کہ فاروق اعظم کے اصطبل کے گھوڑوں کے رانوں پر لکھا تھا۔ یہ کائنات کا سب سے بڑا جھوٹ ہے۔ اس کا معتبر حوالہ اور سند پیش کی جائے۔ پھر بھی کہاں گھوڑوں کی رانوں پر مذکورہ الفاظ لکھنا اور کہاں میت کی پیشانی یا کفن پر کلمہ طیبہ لکھنا۔


إِنَّا لِلَّـهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ
 
Last edited:
Top