مسجد میں بلا عذر نمازِ جنازہ کاجواز
لیکن خارج از مسجد
نمازِ جنازہ پڑھنے کی افضلیت، علما کی نظر میں
مشاہیر علما میں سے امام ابن قدامہ مقدسیؒ (۶۲۰ھ) فرماتے ہیں:
’’اگر مسجدکی آلودگی کا خوف نہ ہو تو مسجد میں میت پر نمازِ جنازہ پڑھنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ یہ امام شافعی، امام اسحاق، امام ابوثور اور امام داود رحمہم اللہ کا قول ہے۔ امام مالک اور امام ابوحنیفہ رحمہماللہ نے اس کو مکروہ قرار دیا ہے،
کیونکہ ’مسند‘ میں نبیﷺ سے مروی ہے:
من صلی علی جنازة في المسجد فلاشيئ له۔ لیکن ہمارے نزدیک وہ حدیث حجت ہے جس کی روایت امام مسلمؒ وغیرہ نے حضرت عائشہؓ سے کی ہے، فرماتی ہیں کہ ’’رسول اللہ ﷺ نے سہیل بن بیضاؓ کی نمازِ جنازہ مسجد ہی میں پڑھائی تھی۔‘‘ (پھر حضرت عائشہؓ کی مکمل حدیث بروایت ِامام مالکؒ اور حضرات ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کے جنازوں کی مسجدمیں نمازوں سے متعلق دو روایات نقل کرتے ہیں، پھر فرماتے ہیں کہ ) یہ تمام واقعات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی موجودگی میں ہوئے اور انہوں نے اس پر کوئی نکارت نہیں کی، لہٰذا اس پر اجماعِ صحابہ ہوگیا۔ چونکہ نمازِ جنازہ بھی نماز ہی کی ایک قسم ہے، اس لئے انہوں نے دوسری تمام نمازوں کی طرح (اسے بھی مسجد میں پڑھنے سے) منع نہیں کیا۔‘‘(۹۴)
امام ابوعیسیٰ ترمذی (۲۷۹ھ) اپنی سند کے ساتھ حضرت عائشہؓ سے مروی حدیث بیان کرنے کے بعد لکھتے ہیں:
’’یہ حدیث حسن ہے اور اسی پر بعض اہل علم کا عمل ہے۔ امام شافعیؓ کا قول ہے کہ امام مالکؒ فرماتے ہیں کہ مسجد میں میت پر نمازِ جنازہ نہ پڑھی جائے، مگر خود امام شافعیؒ فرماتے ہیں کہ مسجد میں میت پر نمازِ جنازہ پڑھی جائے گی اور اسی حدیث کو وہ اپنے قول کی دلیل بناتے ہیں۔‘‘(۹۵)
امام ابی الفرج ابن جوزیؒ (۵۹۷ھ) فرماتے ہیں کہ :
’’مسجد میں میت پر نمازِ جنازہ پڑھنا مکروہ نہیں ہے، لیکن امام ابوحنیفہ اور امام مالک رحمہما اللہ کا قول ہے کہ مکروہ ہے۔‘‘(۹۶)
امام خطابیؒ (۳۸۸ھ) فرماتے ہیں کہ :
’’یہ ثابت ہے کہ حضرات ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما دونوں کی نمازِ جنازہ مسجد میں پڑھی گئی تھیں اور یہ بات معلوم ہے کہ ان دونوں خلفاء کے جنازوں کی نمازوں میں عام مہاجرین اور انصار شریک تھے۔ پس انکا اس فعل پر ترکِ نکارت اسکے جواز کی دلیل ہوئی۔‘‘(۹۷)
امام نوویؒ (۶۷۶ھ) فرماتے ہیں:
’’مسجد میں میت پر نماز جنازہ پڑھنا جائز ہے۔‘‘(۹۸)
امام باجوریؒ فرماتے ہیں:
’’سنت یہ ہے کہ میت پرنمازِ جنازہ مسجد میں پڑھی جائے۔‘‘(۹۹)
امام محمد بن رشد قرطبیؒ (۵۹۵ھ) فرماتے ہیں:
’’مسجد میں نمازِ جنازہ پڑھنے کے بارے میں علما کے درمیان اختلاف ہے۔ بعض علما نے اس کی اجازت دی ہے اور بعض نے اسے مکروہ بتایا ہے۔ ان علما میں امام ابوحنیفہؒ اور امام مالک کے بعض اصحاب شامل ہیں۔ امام مالکؒ سے بھی اس کی کراہت منقول ہے۔ ان کی تحقیق کے مطابق ایسا اس وقت ہے جبکہ جنازہ مسجد کے باہر ہو اور لوگ مسجد میں داخل ہوں۔ اس بارے میں اختلاف کا سبب حضرت عائشہؓ اور حضرت ابوہریرہؓ کی احادیث ہیں۔ حضرت عائشہؓ کی حدیث جس کی روایت امام مالکؒ نے کی ، میں مروی ہے (پھر حدیث عائشہ ؓ نقل کرتے ہیں) جبکہ حضرت ابوہریرہؓ کی حدیث میں مذکور ہے (پھر حدیث ابوہریرہؓ نقل کرتے ہیں)۔ حضرت عائشہؓ کی حدیث ثابت ہے جبکہ حضرت ابوہریرہؓ کی حدیث غیر ثابت یا ثبوت کے اعتبار سے متفق علیہ نہیں ہے۔‘‘(۱۰۰)
امام ابن حجر عسقلانیؒ (۸۵۲ھ) فرماتے ہیں:
’’امام بخاریؒ نے حضرت ابن عمرؓ کی حدیث سے مسجد میں جنازوں کی نماز کی مشروعیت پر استدلال کیا ہے۔ اس بات کو حضرت عائشہؓ کی ’صحیح مسلم‘ والی حدیث سے تقویت ملتی ہے جس میں مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺنے حضرت سہیل بن بیضاؓ کی نمازِجنازہ مسجد ہی میں پڑھائی تھی۔‘‘(۱۰۱)
امام ابن قیم جوزیؒ (۷۵۱ھ) فرماتے ہیں:
’’مسجدمیں نمازِ جنازہ پڑھنا رسول اللہ ﷺ کی مسلسل یا دائمی سنت نہیں تھی، بلکہ آپؐ جنازہ کی نماز مسجد کے باہر پڑھا کرتے تھے، لیکن کبھی کبھار آپؐ مسجد میں بھی نمازِ جنازہ پڑھ لیتے تھے، جس طرح کہ آپؐ نے حضرت سہیل بن بیضاؓ اور ان کے بھائی کی نمازِ جنازہ مسجد میں پڑھی تھی۔ لیکن یہ نہ آپؐ کا طریقہ تھا اور نہ ہی آپؐ کی عادت، بلکہ امام ابوداؤدؒ نے اپنی’سنن‘ میں ابوہریرہؓ سے صالح مولی التوأمہ کی حدیث روایت کی ہے، فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا:
من صلی علی جنازة في المسجد فلاشيئ له‘‘(۱۰۲)
امام شوکانیؒ (۱۲۵۰ھ) حضرت عائشہؓ کی حدیث کے متعلق فرماتے ہیں کہ
’’یہ حدیث مسجدمیں میت کے داخل کرنے اور مسجد ہی میں اس پر نمازِ جنازہ پڑھنے کے جواز پردلالت کرتی ہے۔ امام شافعیؒ، امام احمدؒ، امام اسحاقؒ اور جمہور کا یہی قول ہے۔ امام ابن عبدالبرؒ فرماتے ہیں۔ اہل مدینہ نے امام مالکؒ سے بھی ایک روایت کے مطابق ایسا ہی نقل کیا ہے۔ ابن حبیب مالکیؒ کا قول بھی یہی ہے، لیکن ابن ابی ذئب، امام ابوحنیفہؒ اور مشہور روایت کے مطابق امام مالکؒ، ہادویہ اور ان تمام لوگوں نے اس کی کراہت بیان کی ہے جو میت کی نجاست کے قائل ہیں۔‘‘(۱۰۳)
علامہ نور الدین ابوالحسن محمد بن عبدالہادی سندھی حنفیؒ (۱۱۳۹ھ) التعلیق علی المجتبیٰ میں حدیث ِعائشہ ؓکے الفاظ
إلافي المسجد کی شرح میں فرماتے ہیں:
’’بظاہر یہ حدیث مسجد میں نمازِ جنازہ کے جواز میں وارد ہے۔ چونکہ نبیﷺکی عادت مسجد سے باہر نمازِ جنازہ پڑھنا تھی، لہٰذا یہ کہنا زیادہ اقرب ہے کہ مسجد میں نمازِ جنازہ کے جواز کے باوجود مسجد کے باہر نمازِ جنازہ پڑھنا افضل ہے۔ واللہ أعلم‘‘(۱۰۴)
علامہ محمد ناصر الدین البانیؒ نے علامہ ابوالحسن سندھیؒ کا یہ قول ذرا تفصیل سے یوں نقل کیا ہے
’’پس یہ حدیث اس بیان کے لئے ہے کہ جس طرح دوسری فرض نمازوں کے مسجد میں پڑھنے پراجر ملتا ہے، اس طرح مسجد میں نمازِ جنازہ پڑھنے کاکوئی اضافی اجر محض اس وجہ سے نہیں ملتا ہے کہ وہ مسجد میں پڑھی گئی ہے مگر اصل نماز کااجر باقی رہتا ہے۔ جہاں تک اس حدیث سے استفادہ کرتے ہوئے بعض لوگوں کو یہ وہم ہوا ہے کہ مسجد میں ہونے کے باعث اس کا اجر سلب ہوجاتا ہے تو جاننا چاہئے کہ اس حدیث سے مسجد میں نمازِ جنازہ کی اباحت مستفاد ہوتی ہے اور یہ بھی کہ مسجد کے باہر نماز پڑھنے کے مقابلہ میں اس کی کوئی زیادہ فضیلت نہیں ہے۔ حسب ِموقع دلائل کے مابین تعارض کو دفع کرنے اور موافقت پیدا کرنے کی غرض سے اس احتمال کی تعیین بھی کرنی چاہئے۔ اس بنا پر مسجد میں نماز جنازہ کی کراہت کا قول دشوار ہے، البتہ یہ کہنا چاہئے کہ مسجد کے باہر نماز پڑھنا افضل ہے اور یہ اس بنا پر کہ آں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بیشتر حالات میں مسجد کے باہر ہی نماز پڑھتے تھے اور مسجد میں آپؐ کا یہ فعل صرف ایک یا دو بار تھا،
واللہ اعلم۔‘‘(۱۰۵)
میں کہتا ہوں کہ علامہ البانیؒ نے اسی قول کو پسند کیا ہے، چنانچہ حاشیہ نمبر ۷۳ کے متعلق اوپر گزری عبارت علامہ سندھیؒ کے اسی قول سے مستفاد ہے۔
علامہ محدث شمس الحق عظیم آبادیؒ (۱۳۲۹ھ) فرماتے ہیں کہ
’’سنن ابوداود کی اس باب کے تحت وارد دونوں حدیثیں مسجد میں نمازِ جنازہ پڑھے جانے کی مشروعیت پردلالت کرتی ہیں۔ حافظ ابن حجرؒ نے ’فتح الباری‘ میں لکھا ہے کہ :یہی جمہور کا قول ہے، لیکن امام مالکؒ فرماتے ہیں کہ مجھے یہ چیز پسند نہیں ہے اور امام ابوحنیفہؒ، ابن ابی ذئبؒ اور ان تمام لوگو ں نے جو میت کی نجاست کے قائل ہیں، اس بات کو مکروہ قرار دیا ہے۔ البتہ جو لوگ میت کے پاک ہونے کے قائل ہیں، ان میں سے بھی بعض مسجد کی آلودگی کا خدشہ بیان کرتے ہیں۔‘‘(۱۰۶)
علامہ عبدالرحمن محدث مبارکپوریؒ (۱۳۵۲ھ) فرماتے ہیں:
’’جنازہ کی نماز مسجد میں پڑھنا جائز ودرست ہے، ’صحیح مسلم‘ میں حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺنے سہلؓ اور ان کے بھائی (سہیلؓ) کے جنازہ کی نماز مسجد میں پڑھی ہے اور حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ کے جنازہ کی نماز بھی مسجد ہی میں پڑھی گئی ہے۔ مگر مسجد میں نمازِ جنازہ پڑھنے کی عادت نہیں کرنی چاہئے، بلکہ نمازِ جنازہ کے واسطے مسجد کے علاوہ کوئی اور جگہ مقرر کرنی چاہئے ، جیسا کہ رسول اللہﷺ کے زمانہ میں مسجد نبوی کے علاوہ ایک خاص جگہ نمازِ جنازہ کے واسطے مقرر تھی۔‘‘(۱۰۷)
علامہ محدث مبارکپوریؒ امام مالکؒ کے قول بروایت ِامام شافعیؒ کو نقل کرتے ہوئے ایک مقام پر فرماتے ہیں:
’’یہ قول ابن ابی ذئبؒ، ا مام ابوحنیفہؒ اور ان تمام لوگوں کا ہے جو میت کے نجس ہونے کے قائل ہیں۔ یہ تمام حضرات حضرت ابوہریرہؓ کی مرفوع حدیث :
’’من صلی علی جنازة في المسجد فلاشيئ له‘‘رواہ ابوداود، سے دلیل پکڑتے ہیں۔ اور ان میں سے بعض اس بات سے دلیل پکڑتے ہیں کہ اس عمل کا متروک ہونا قرار پایا ہے، کیونکہ جن لوگوں نے حضرت عائشہؓ پرنکارت کی تھی وہ لوگ صحابہ کرامؓ تھے، لیکن حافظ ابن حجرؒ نے اس بات کی تردید یوں فرمائی ہے کہ جب حضرت عائشہؓ نے ان لوگوں کی نکارت کا انکار کیا تو ان لوگوں نے حضرت عائشہؓ کی بات تسلیم کرلی تھی، جو اس بات کی دلیل ہے کہ حضرت عائشہؓ کو وہ حکم یاد تھا جس کو وہ لوگ بھول چکے تھے۔‘‘(۱۰۸)
علامہ محدث مبارکپوریؒ امام شافعیؒ کے قول کہ مسجد میں میت پر نمازِ جنازہ پڑھی جائے گی اور حدیث الباب سے ان کے استدلال کی شرح میں فرماتے ہیں کہ
’’یہ قول امام احمدؒ، امام اسحاقؒ اور جمہور کا ہے۔یہ لوگ اس باب میں وارد حدیث سے استدلال کرتے ہیں اور اس بات سے بھی دلیل پکڑتے ہیں کہ نبیﷺ نے مصلیٰ میں نجاشی کی نمازِ جنازہ پڑھی تھی، جیساکہ ’صحیح البخاری‘ میں مروی ہے اور چونکہ مصلیٰ بھی مسجد کے حکم ہی میں داخل ہے، چنانچہ لائق اجتناب چیزوں سے اس میں بھی پرہیز مطلوب ہے۔ اس کی دلیل حضرت اُمّ عطیہ کی یہ حدیث ہے کہ :’’حائضہ عورت مصلیٰ سے دور رہے۔‘‘ حافظ ابن حجر ؒ ’فتح الباری‘ میں فرماتے ہیں کہ امام ابن ابی شیبہؒ وغیرہ نے روایت کی ہے کہ حضرت عمرؓ نے حضرت ابوبکرؓ کی نمازِ جنازہ مسجد میں پڑھائی، اسی طرح حضرت صہیبؓ نے حضرت عمرؓ کی نماز جنازہ مسجد میں پڑھائی تھی، بلکہ ایک روایت میں تو یہ زیادتی بھی ملتی ہے کہ : ’’اور جنازہ کو مسجد میں منبر کی جانب رکھا۔‘‘ اور یہ چیز اس کے جواز پر اِجماع کی متقاضی ہے۔ میں کہتاہوں کہ حق بات یہ ہے کہ یہ جائز ہے۔‘‘(۱۰۹)
مولانا عبدالتواب محدث ملتانی ؒ (۱۳۶۶ھ) حضرت عائشہؓ سے مروی ’صحیح مسلم‘ کی حدیث کی شرح میںلکھتے ہیں:
’’حدیث ِہذا دلیل ہے اس پر کہ مسجد میں جنازہ پڑھنا جائز ہے۔ یہی قول ہے جمہور علما کا، لیکن ابوحنیفہؒ و مالکؒ نے کہا کہ درست نہیں اور حدیث کی ایک بعید تاویل کرتے ہیں۔‘‘(۱۱۰)
مولانا عطاء اللہ حنیف بھوجیانیؒ فرماتے ہیں کہ
’’حنفیہ اس کی کراہت ِتحریمی کے قائل ہیں، جیسا کہ اکثر احناف کا قول ہے، یا کراہت ِتنزیہی ہے، جیسا کہ ابن ہمامؒ اور صاحب تعلیق الممجد(مولانا محمد عبدالحئ لکھنوی حنفیؒ ۱۳۰۴ھ)کی رائے ہے، لیکن بظاہر یہ جائز ہے، جیسا کہ علامہ سندھیؒ نے بیان کیا ہے۔‘‘(۱۱۱)
علامہ شیخ محمد بن ابراہیم تویجری فرماتے ہیں:
’’سنت یہ ہے کہ جنازوں پر نماز اس جگہ پڑھی جائے جو کہ نمازِ جنازہ کے لئے مقرر کی گئی ہو۔ میت پر نمازِ جنازہ مسجد میں پڑھنا بھی جائز ہے۔‘‘(۱۱۲)
علامہ سید سابق فرماتے ہیں:
’’اگر پلیدی کا خدشہ نہ ہو تو مسجد میں نمازِ جنازہ پڑھنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ اس کی بنیاد’صحیح مسلم‘ کی حضرت عائشہؓ والی حدیث ہے جس میں مروی ہے کہ: نبی ﷺنے سہیل بن بیضاؓ کی نمازجنازہ مسجد میں پڑھی تھی۔ اسی طرح صحابہ کرامؓ نے حضرات ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہما کے جنازوں کی نمازیں مسجد میں ادا کیں، مگر کسی نے اس پر کوئی اعتراض نہیں کیا، کیونکہ نمازِ جنازہ بھی دوسری نمازوں کی طرح ایک نماز ہی ہے۔ امام ابوحنیفہؒ اور امام مالکؒ رسول اللہﷺکی ایک حدیث کے حوالہ سے اس کی اجازت نہیں دیتے۔ آں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ جو مسجد میں نماز جنازہ پڑھے اس کے لئے کچھ نہیں (کوئی اجر نہیں ) ہے۔ یہ حدیث رسول اللہﷺاور آپؐ کے اصحابؓ کے عمل کے خلاف ہے بلکہ دوسری وجوہ کے باعث ضعیف بھی ہے۔‘‘(۱۱۳)
علامہ سید سابق امام ابن قیمؒ سے ناقل ہیں کہ
’’مسجد میں نمازِ جنازہ پڑھنا نبیﷺکا بالعموم طریقہ نہ تھا، بلکہ عام طور پر آپؐ مسجدکے باہر نمازِ جنازہ پڑھا کرتے تھے، اِلا یہ کہ جب مسجد میں نمازِ جنازہ پڑھنے کا کوئی معقول سبب ہو، بعض موقعوں پر آپؐ نے مسجد میں نمازِ جنازہ پڑھی ہے جیسے کہ ابن بیضاؓ کا معاملہ میں ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ جنازہ کی نماز مسجد کے اندر و باہر ہر دو جگہ پڑھی جاسکتی ہے، لیکن مسجد کے باہر ایسا کرنا افضل ہے۔‘‘(۱۱۴)
علامہ عبدالعزیز محمد سلمان فرماتے ہیں
’’اگر مسجد پلیدی سے محفوظ رہے تو میت پر مسجد میں نمازِ جنازہ پڑھنا مباح ہے جیسا کہ حضرت عائشہؓ سے مروی ہے، فرماتی ہیں کہ :’’اللہ کی قسم رسول اللہﷺنے بیضاؓ کے دو بیٹوں کی نمازِجنازہ مسجد میں پڑھی تھی اور سعید بن منصورؒ کی روایت ہے کہ حضرت ابوبکرؓ کی نمازِ جنازہ بھی مسجد میں پڑھی گئی تھی۔‘‘(۱۱۵)
علامہ محمدناصر الدین البانیؒ فرماتے ہیں:
’’جنازہ پر مسجد میں نماز پڑھنا حدیث ِعائشہؓ کی وجہ سے جائز ہے (پھر حدیث ِعائشہؓ اور اس کے مخرجین کی بابت ذکر کرتے ہیں) لیکن جنازہ پر مسجد کے باہر ایسی جگہ نماز پڑھنا افضل ہے جو نمازِ جنازہ کے لئے مقرر اور مخصوص ہو، جیسا کہ نبیﷺکے عہد ِمبارک میں ہوتا ہے اور بیشتر آپؐ کا معمول بھی یہی تھا۔‘‘(۱۱۶)
علامہ رحمہ اللہ مزید فرماتے ہیں:
’’میں کہتا ہوں کہ اس جمع و تطبیق کے بعد جو حدیث صالح و حدیث عائشہؓ کے درمیان بیان ہوئی اور یہ کہ دونوں حدیثیں مسجد میں نمازِ جنازہ کی اباحت پر دلالت کرتی ہیں اور اس بات پر بھی کہ مسجد سے باہر نماز پڑھنا افضل ہے تو اس امر میں کوئی شبہ نہیں کہ یہ جمع و تطبیق نفسانی خواہشات اور مسلکی تعصب سے پاک ہے اور اس کا ثبوت یہ ہے کہ یہی رسول اللہﷺ کا بیشتر معمول رہا ہے، جیسا کہ ’احکام الجنائز‘ میں واضح کیا گیا ہے۔‘‘(۱۱۷)
شیخ عبداللہ بن محمد الطیار فرماتے ہیں:
’’اگر تلویث (آلودگی) کا خوف نہ ہو تو مسجد میں میت پر نماز جنازہ پڑھنے میں کوئی حرج نہیں ہے یہ امام شافعی، امام اسحاق، امام ابوثور اور امام ابوداود رحمہم اللہ کا قول ہے ، جبکہ امام مالک اور امام ابوحنیفہ رحمہما اللہ نے اسے مکروہ بتایا ہے۔‘‘(۱۱۸)
نمازِ جنازہ کے لئے دورِ نبویﷺ میں مخصوص جگہ
1۔جہاں تک مسجد کے باہر نمازِ جنازہ کے لئے کسی جگہ کو مخصوص ومقرر کرنے کا تعلق ہے تو اس بارے میں امام بخاریؒ نے حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے یوں روایت کی ہے:
’’إن اليهود جاء وا إلی النبی ﷺ برجل منهم وامرأة زنيا فأمر بهما فرجما قريبًا من موضع الجنائز عند المسجد‘‘ (۱۱۹) ’’نبیﷺ کے پاس یہودی اپنوں ہی میں سے ایک مرد اور ایک عورت کو لے کر حاضر ہوئے جنہوں نے زنا کا ارتکاب کیا تھا۔ پس آپؐ نے ان کے بارے میں حکم فرمایا لہٰذا انہیں مسجد کے قریب جنازوں کی جگہ کے پاس سنگسار کیا گیا۔‘‘
امام ابن حجر عسقلانیؒ (۸۵۲ھ) فرماتے ہیں:
’’ابن بطالؒ نے ابن حبیبؒ سے نقل کیا ہے کہ مدینہ منورہ میں جنائز کی نماز پڑھنے کی جگہ مسجد النبیﷺسے جڑی ہوئی مشرق کی جانب تھی۔‘‘(۱۲۰)
علامہ البانیؒ نے عہد ِنبوی میں مسجد نبوی سے باہر جنائز کے لئے ایک جگہ مخصوص ہونے کی تائید میں چار احادیث ذکر کی ہیں جن میں سے پہلی حدیث تو یہی حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہما کی مذکورہ بالا’صحیح البخاری‘ والی حدیث ہے۔
2۔دوسری حدیث حضرت جابر بن عبداللہؓ سے یوں مروی ہے:
مات رجل، فغسلناه وکفناه وحنطناه ووضعناه لرسول الله ﷺ حيث توضع الجنائز عند مقام جبريل ثم آذنا رسول الله ﷺ بالصلاة عليه، فجاء معنا الخ(۱۲۱)
’’ایک شخص مرگیا تو ہم نے اسکو غسل دیا، اس کو کفن پہنایا اور اسے خوشبو لگائی، پھر رسول اللہﷺ کیلئے اسے مقامِ جبریل کے پاس جنازوں کے رکھے جانے کی جگہ رکھ دیا۔ پھر ہم نے رسو ل اللہ ا کو اسکی نماز جنازہ کیلئے بلایا۔ پس آپؐ ہمارے ساتھ تشریف لائے، الخ‘‘
3۔تیسری حدیث محمد بن عبداللہ بن جحش سے مروی ہے، فرماتے ہیں :
’’کنا جلوسا بفناء المسجد حيث توضع الجنائز ورسول اللهﷺجالس بين ظهرانينا فرفع رسول اللهﷺبصره إلی السماء … الخ‘‘(۱۲۲) ’’ہم مسجد کے سامنے کھلی اس جگہ بیٹھے ہوئے تھے جس جگہ جنازے رکھے جاتے تھے اور رسول اللہﷺ ہمارے درمیان تشریف فرما تھے۔ پس رسو ل اللہﷺنے اپنی نگاہ مبارک آسمان کی طرف اٹھائی… الخ‘‘
4۔اس بارے میں چوتھی حدیث بعض اصحاب النبیﷺ سے مروی ہے، فرماتے ہیں کہ:
’’اہل عوالی کی ایک مسکین عورت تھی جو بہت عرصہ سے بیمارتھی۔ رسول اللہﷺ اس کے پڑوسیوں میں سے جو آپﷺ کی خدمت میں حاضر ہوتے تھے، اس کی کیفیت معلوم کرتے اور حکم دیتے کہ اگر وہ مرجائے تو آپؐ کو خبر دیئے بغیر اسے دفن نہ کریں تاکہ آپؐ اس کی نمازِجنازہ پڑھا سکیں:
’’فتوفيت تلک المرأة ليلاً واحتملوها فأتوا بها مع الجنائز أوقال موضع الجنائز عند مسجد رسول اللهﷺليصلی عليها رسول اللهﷺ کما أمرهم فوجدوه قد نام بعد صلاة العشاء فکرهوا أن يهجدوا رسول اللهﷺمن نومه فصلوا عليها ثم انطلقوا بها… الخ‘‘
’’پس ایک رات یہ عورت مرگئی تو لوگ اسے جنازوں کے ساتھ آپؐ کے پاس لائے یا راوی نے یہ کہا کہ اسے مسجد ِنبویﷺ کے پاس جنائز کی جگہ لائے تاکہ آںﷺ اس کی نمازِ جنازہ پڑھا سکیں، جیسا کہ آں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حکم فرمایا تھا۔ جب لوگوں نے پایا کہ آپﷺ عشا کی نماز کے بعد سوگئے ہیں تو انہیں آںﷺ کو نیند سے جگانا بُرا محسوس ہوا، پس ان لوگوں نے اس کی نمازِ جنازہ پڑھی اور اسے لے کر چلے گئے…الخ‘‘