• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مسٹر غلام احمد پرویز کے کفریہ عقائد

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,396
پوائنٹ
891
پرويز كے نزديك ’جنت‘ سے مراد


مسٹرپرويز جہنم كى طرح جنت كے بارہ ميں بھی اپنا ايسا ہى باطل نظریہ اپنے حواريوں پر ٹھونستے ہوئے لکھتے ہیں:
”جہنم كى طرح اُخروى جنت بھی كسى مقام كا نام نہیں، كيفيت كا نام ہے-“ (جہانِ فردا:ص٢٧٠)
ادھر قرآنِ كريم جنت كے متعلق لفظ ہى ’مقام‘ كا استعمال كرتا ہے، ارشادِ بارى تعالىٰ ہے:
﴿اِنَّ الْمُتَّقِيْنَ فِىْ مَقَامٍ اَمِيْنِ فِىْ جَنَّاتٍ وَّعُيُوْنٍ﴾ (الدخان:٥١، ٥٢)
” پرہيزگار لوگ اَمن كے مقام جنت اور اس كے چشموں ميں ہوں گے-“

بلکہ قرآنِ مجيد تو جنت كے دروازوں كا ذكر بھی كرتا ہے، سورہ زمر ميں ہے:
﴿وَسِيْقَ الَّذِيْنَ اتَّقَوْا رَبَّہمْ اِلىٰ الْجَنَّةِ زُمَرًا حَتّٰى اِذَا جَاءُ وْہا وَفُتِحَتْ اَبْوَابُہا وَقَالَ لَہمْ خَزَنَتھا سَلاَمٌ عَلَيْكُمْ طِبْتُمْ فَادْخُلُوْہا خَالِدِيْنَ﴾ (سورئہ زمر:٧٣)
”جو لوگ اپنے ربّ سے ڈر كر زندگى گذارتے رہے، ان كو گروہ در گروہ جنت كى طرف روانہ كيا جائے، جب وہ اسكے پاس پہنچيں گے اور ا سكے دروازے کھول ديئے جائيں، تو جنت كے فرشتے ان سے كہیں گے تم پر سلام ہو، تم بہت اچھے رہے، اب اس جنت ميں ہميشہ كے لئے داخل ہوجاؤ-“

غور كيجئے، دروازے ايسى چيز كے ہوتے ہیں جو جوہر اور قائم بالذات ہو- مسٹر پرويز دل كى كيفيت كو جنت بناتے ہیں جو عرض ہے ،جس كے لئے دروازوں كا ہونا ناممكن ہے- اور وہ چونکہ چور دروازے سے داخل ہو كر مفكر قرآن بنے ہیں، اس لئے ان كے نزديك ممكن اور ناممكن ميں كوئى فرق نہیں تھا، اور وہ محال چيز كو ممكن کہنے سے بھی دريغ نہیں كيا كرتے تھے، یہ بات ان كى تاليفات سے واضح ہے جيسا کہ ايك مقام پر وہ اپنے حجرے ميں بيٹھے قلم كے زور سے جنت كو عالم بالا سے دنيا ميں کھينچ لانے كى كوشش كرتے ہوئے رقم طراز ہیں:

”جنت كى آسائشيں اور زيبائشيں وہاں كى فراوانياں اور خوشحالياں اس دنيا كى زندگى ميں حاصل ہوجاتى ہیں، مرنے كے بعد كى جنت كے سلسلہ ميں ان كا بيان تمثيلى ہے-“(نظامِ ربوبيت:ص٨٢)
مسٹر پرويز كى دنياوى جنت چونکہ خود ساختہ ہے اور خلافِ قرآن بھی، اس لئے قرآنِ كريم كى روشنى ميں پرويزى جنت پنپ نہیں سكتى، كيونکہ قرآنى جنت تو وہ ہے جو موت كے بعد قيامت كے دن حاصل ہوگى اور اس جنت ميں داخل ہونے كے بعد كبھی موت كا سامنا نہیں كرنا پڑے گا، اور نہ ہى جنتى كو اس سے كبھی نكالاجائے گا،

جيسا کہ ارشادِ بارى تعالىٰ ہے:
﴿لاَيَذُوْقُوْنَ فِیہا الْمَوْتَ اِلاَّ الْمَوْتَةَ الْاُوْلىٰ وَوَقٰہمْ عَذَابَ الْجَحِيْمِ﴾ (الدخان:٥٦)
”يعنى پہلى (دنيا كى)موت كے بعد اس ميں اہل جنت موت كا شكار نہیں ہوں گے اور اللہ تعالىٰ انہیں جہنم كے عذاب سے بچا لے گا-“

مسٹر پرويز نے اس جنت كو جو دنياوى موت ﴿اَلْمَوْتَةَ الْاُوْلىٰ﴾ كے بعد تھى، موت سے پہلے ہى دنيا كى زندگى ميں تراشنے كى سعى لاحاصل كى ہے جو قرآنِ كريم كى آيات كے خلاف ہے- ان كے دل ميں اگر خوفِ خدا كى رمق باقى ہوتى تو وہ ايسا غلط نظریہ پيش كرنے كى جسارت ہرگز نہ كرتے اور غير قرآنى چيز كوقرآنى بنانے كى كوشش نہ كرتے، اس پر مستزاد یہ کہ مسٹر مذكور نے مرنے كے بعد حاصل ہونے والى جنت كے متعلق قرآنى آيات كو تمثيل قرار دے كر…معاذ اللہ… اللہ تعالىٰ كو ڈرامہ باز بنانے كى حماقت كى ہے كيونکہ عربى لغت ميں’تمثيل‘ كا معنى ڈرامہ ہے۔

جس كى كوئى حقيقت نہیں ہوتى، لہذا ايسے شخص كو جو اللہ تعالىٰ كے فرامين كو حقائق پر محمول كرنے كى بجائے انہیں تمثيلى قرار دے ، دين اسلام كے بارے ميں ہرگز مخلص تسليم نہیں كيا جاسكتا-
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,396
پوائنٹ
891
جنت وجہنم كا خالق كون؟


پرويز چونکہ اپنى خيالى دنيا ميں جنت اور جہنم كو اس دنيا ميں لے آئے تھے، اس لئے لازم تھا کہ وہ اس جنت او رجہنم كو تيار كرنے والا بھی خود انسان كوبناتے، لہذا وہ اس بات كا اعلان كرتے ہوئے لکھتے ہیں :

”اس كے یہ معنى نہیں کہ یہ كوئى ايسى چيز ہے، جسے خدا نے وہاں اپنے طور پر الگ تيار كر رکہا ہے، اس كا مفہوم وہى ہے جسے اوپر بيان كيا گيا ہے، يعنى ہر شخص اپنى جنت يا جہنم زندگى كے ہر سانس ميں ساتھ كے ساتھ تيار كرتا رہتا ہے-“ (لغات القرآن: ج٣، ص١١٢٩)
مسٹر مذكور كا یہ نظریہ بھی قرآنى نصوص سے متصادم ہے، قرآن كريم كى وضاحت كے مطابق جنت وجہنم كو تيار كرنے والا كوئى انسان نہیں، بلکہ اللہ تعالىٰ ہے جيسا کہ ارشادِ بارى تعالىٰ ہے:

﴿اَعَدَّ اللہ لَہمْ جَنّٰتٍ تَّجْرِىْ مِنْ تَحْتھا الاَنْہارُ خَالِدِيْنَ فِیہا ذٰلِكَ الْفَوْزُ الْكَبِيْرُ﴾
”يعنى ان(كامياب ہونے والوں) كے لئے جنت كے مقامات اللہ تعالىٰ نے خود تيار كئے ہیں، جن ميں نہريں بہتى ہیں، وہ ان ميں ہميشہ رہیں گے یہ ان كى بڑى كاميابى ہوگى-“ (التوبة:٨٩)

نيز فرمان بارى تعالىٰ ہے: ﴿رَضِىَ اللہ عَنْہمْ وَرَضُوْا عَنْہ وَأَعَدَّ لَہمْ جَنّٰتٍ تَجْرِىْ مِنْ تَحْتھا الاَنْہارُ خَالِدِيْنَ فِیہا اَبَدًا﴾( التوبہ:١٠٠)
”ان مہاجرين و انصار سے اللہ تعالىٰ راضى ہوگيا، اور وہ اس پر راضى ہوئے او راس (اللہ) نے ان كے لئے جنت كے مقامات تيار كئے ہیں، جن ميں نہريں بہتى ہیں، اور وہ ان ميں ہميشہ ہميشہ رہیں گے-“

او رجہنم كے بارے ميں فرمانِ الٰہى ہے:
﴿وَغَضِبَ اللہ عَلَیہمْ وَلَعَنَہمْ وَاَعَدَّ لَہمْ جہنم وَسَاءَ تْ مَصِيْرًا﴾ (الفتح:٦)
”اور اللہ تعالىٰ ان (منافقوں اور مشركوں) پر غصہ ہوا اور اس نے ان پر لعنت كى، اور ان كے لئے جہنم تيار كى ہے، اور وہ بہت بُرى جگہ ہے-“

ان قرآنى آيات ميں اس بات كى صراحت پائى جاتى ہے کہ جنت و جہنم كو تيار كرنے والا اللہ تعالىٰ ہے، ا س كے برعكس مسٹر پرويز كے مذكورہ اقتباس كو ديکھئے کہ وہ كيسے سينہ زورى سے قرآن كريم كى صريح آيات كى مخالفت كرتے ہیں اور جنت او رجہنم كا خالق اور ان كاتيار كرنے والا انسان كو بنانے كى كوشش ميں ہیں-
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,396
پوائنٹ
891
جہنم كے حق دار كون؟


مسٹر پرويز اپنى سارى زندگى مسلمانوں كو ہى گمراہ بناتے رہے، اور اہل اسلام كے اسلاف كو سازشى قرار ديتے رہے، جس كا نتيجہ یہ ہوا کہ انہوں نے جہنم كے حقدار بھی مسلمانوں كوہى بنا ڈالا جس كا اظہار كرتے ہوئے وہ لکھتے ہیں:
”قرآن كريم نے جو کہا تھا کہ جہنم ميں اكثريت ان لوگوں كى ہوگى جو اپنے جرائم كا بوجھ بھی اپنى پيٹھ پر لادے ہوں گے، اور ان لوگوں كے جرائم كا بوجھ بھی جو ان كى وجہ سے غلط راہوں پر چل نكلے تو مجھے تو اس كے مخاطب ہم مسلمان ہى دکھائى ديتے ہیں-“(نظام ربوبيت ، ص٢٦٧)
مسٹر پرويز ہميشہ اسى تگ و دو ميں رہتے تھے کہ آياتِ قرآنیہ كى وعيد كو مسلمانوں پر ہى منطبق كر ديں، اور مسلمانوں كو لوگوں كے سامنے مجرم بنا كر پيش كريں، جيسا کہ اس مقام پر آپ ديکھ رہے ہیں کہ وہ دنياوى زندگى ميں كمزور ہونے كى وجہ سے مسلمانوں كو ہى جہنمى بنانے كے درپے ہیں ، جس كا سبب یہ ہے کہ ان كے نزديك دنيا كى آسائشيں اور دنياوى خوشحالياں ہى بنيادى چيزيں ہیں جنہیں وہ جنتى زندگى سمجھتے ہیں، لہذا جو شخص ان آرائشوں اور زيبائشوں سے محروم ہے، وہ اس كے نزديك جنت كى نعمتوں سے بھی محروم ہے، اور جہنم كا حقدار بھی ہے- ليكن ان كا یہ نظریہ اس وقت خاك ميں مل جاتاہے جب ہم قرآنِ كريم ميں سابقہ قوموں كے واقعات كا مطالعہ كرتے ہیں، انہیں دنيا كى خوشحالياں حاصل ہونے كے باوجود ان كے جرائم كى و جہ سے عذاب نازل كركے نيست و نابود اور دنيا سے بے دخل كر دياگيا، حالانکہ وہ دنيا كى پرويزى جنت ميں مزے لے رہے تھے، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ دنيا كى زندگى خواہ كتنى ہى خوشحال ہو اسے جنت قرار نہیں دياجاسكتا، اس لئے مسٹر پرويز كا یہ کہنا کہ

”آج ہميں یہ كوشش كرنى چاہئے کہ كسى طرح اس دنيا كى جہنم جنت سے بدل جائے-“ (لغات القرآن: ج١/ ص٤٤٩)
یہ ان كى بے فائدہ كوشش ہے كيونکہ پرويزى جنت سے موت آنے پر بہرحال بے دخل ہونا پڑے گا، جبکہ وہ جنت جو اللہ تعالىٰ نے اپنے فرمانبردار بندوں كے لئے آخرت ميں تيار كى ہے، اس ميں نہ موت ہے اور نہ ہى اس ميں جانے والے كوكبھی اس سے بے دخل ہى كيا جائے گا بلکہ وہ ﴿خَالِدِيْنَ فِیہا﴾ كے تحت اس ميں ہميشہ رہے گا۔
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,396
پوائنٹ
891
جنت اور دوزخ ، دنيا ميں يا آخرت ميں؟


تمام مسلمانوں كا اس بات پر اجماع ہے کہ جنت اور دوزخ كا تعلق آخرت كى زندگى سے ہے، اور قرآن و سنت نيز اجماعِ امت سے یہ بات بھی مسلم ہے کہ آخرت كى زندگى قيامت قائم ہونے كے بعد شروع ہوگى اور اس وقت اس دنيا كا سارا سلسلہ درہم برہم كرديا جائے گا، اس كے برعكس پرويز كى جہنم اور جنت اس دنيا كى زندگى سے ہى تعلق رکہتى ہے، بلکہ پرويزيوں كى قيامت اور آخرت بھی اس دنيا سے ہى شروع ہوجاتى ہے،

جيسا کہ وہ خود لکھتے ہیں:
يوم القيامۃسے مراد ہوگا وہ انقلابى دور جو قرآن كى رو سے سامنے آيا تھا-“ (جہانِ فردا: ص١٣٣)
حالانکہ قرآن كى رو سے جو انقلابى دور رسول اللہ كى زندگى ميں سامنے آيا تھا، اس ميں آپس كے دشمن باہمى محبت و مودّت كے رشتے ميں منسلك ہوگئے تھے، اور جو پشت در پشت خون كے پياسے تھے وہ اس انقلاب كے بعد ايك دوسرے كے غمخوار اور غمگسار بن گئے تھے، اور ان ميں مثالى موٴاخاة اور بھائى چارہ قائم ہوگيا تھا، لہذا ايسے دور كو ’يوم القيامہ‘ كيسے کہا جاسكتا ہے؟

حالانکہ قيامت كے دن تمام رشتے ناطے ٹوٹ جائيں گے اور ہرايك كو اپنى جان كى ہى فكر ہوگى، كوئى شخص كسى دوسرے كا پرسانِ حال نہیں ہوگا-جيسا کہ قرآن كريم نے قيامت كا منظر پيش كيا ہے:
﴿اِذْ تَبَرَأ الَّذِيْنَ اتُّبِعُوْا مِنَ الَّذِيْنَ اتَّبَعُوْا وَرَأوُا الْعَذَابَ وَتَقَطَّعَتْ بِہمُ الاَسْبَابَ﴾
”اس (قيامت كے) دن پيشوا لوگ اپنے پيرؤوں سے بيزار ہوجائيں گے اور وہ عذابِ الٰہى ديکھ ليں گے اور ان كے آپس كے تعلقات منقطع ہوجائيں گے-“ (البقرة:١٦٦)

يومِ قيامت كب؟ بنابريں قرآن كى رو سے سامنے آنے والے انقلابى دور كو يوم القيامۃ نہیں کہا جاسكتاجو خوشحاليوں كا مجموعہ تھا جبکہ قيامت تو بڑى آفتوں پر مشتمل ہوگى- بعض قرآنى آيات ميں اسى روزِ قيامت كے لئے الساعة كا لفظ بھی استعمال ہوا ہے، اور پرويز اپنى عادت كے مطابق اس لفظ كى بھی تحريف معنوى كرتے ہوئے لکھتے ہیں :

”الساعۃ“ سے مراد حق و باطل كى وہ آخرى جنگ ہوتى ہے جس ميں باطل كى قوتيں شكست کھا كر برباد ہوجاتى ہیں-“ (لغات القرآن، ج٢، ص٩١٨)
ليكن پرويز كى اس اختراع پر سوا ل پيدا ہوتا ہے کہ صاحب ِقرآن سے جب الساعۃ كے بارہ ميں پوچہا جاتاتھا تو آپ اس كا علم اللہ تعالىٰ كى طرف لوٹايا كرتے تھے، جيسا کہ سورہ احزاب ميں ہے:

﴿يَسْألُكَ النَّاسُ عَنِ السَّاعَةِ قُلْ اِنَّمَا عِلْمُہا عِنْدَ اللہ﴾ (الاحزاب:٦٣)
”يعنى لوگ آپ سے الساعۃ (قيامت) كے بار ے ميں دريافت كرتے ہیں، کہہ دو اس كا علم اللہ تعالىٰ ہى كو ہے-“

جب قيامت كا علم صرف اللہ تعالىٰ كو ہے، تو مسٹر پرويز كو كيسے معلوم ہوا کہ یہ حق و باطل كے درميان ہونے والى جنگوں ميں سے آخرى جنگ ہے جس ميں باطل كى قوتيں شكست کھا جائيں گى-اس پر مستزاد یہ کہ اہل حق اور اہل باطل تو ہر دور ميں موجود رہتے ہیں، او رحق و باطل كى جنگيں بھی ہر زمانہ ميں ہوتى رہتى ہیں او ریہ سلسلہ آئندہ بھی چلتا جائے گا، تو مسٹر مذكور نے اسے آخرى جنگ كيسے بنا ديا؟ جبکہ یہ جنگى سلسلہ كبھی منقطع ہونے والا نہیں ہے-

نيز قرآن كريم كاادنىٰ طالب علم بھی جانتا ہے کہ الساعۃ (قيامت) كو بپا كرنا اللہ تعالىٰ كے قبضہ قدرت ميں ہے، كسى انسان يا انسانوں كے كسى گروہ كے اختيار ميں نہیں ہے کہ وہ قيامت كو قائم كردے جيسا کہ فرمانِ بارى تعالىٰ ہے:

﴿يَسْاَلُوْنَكَ عَنِ السَّاعَةِ أيَّانَ مُرْسٰہا قُلْ اِنَّمَا عِلْمُہا عِنْدَ رَبِّىْ لاَ يُجَلِّیہا لِوَقْتھا اِلاَّہوَ…﴾ (الاعراف:١٨٧)
”لوگ آپ سے قيامت كے بارہ ميں پوچھتے ہیں کہ وہ كب واقع ہوگى؟ کہہ دو کہ اس كا علم تو ميرے ربّ كو ہے، وہى اسے اس كے وقت پر ظاہر كرے گا-“

اس كے برعكس مسٹر پرويز نے قيامت كو اہل حق و باطل كے درميان آخرى جنگ قرار دے كر اس كے ظاہر كرنے كا اختيار بجائے اللہ تعالىٰ كے، لوگوں كے ہاتھ ميں دے ديا ہے، ايسے شخص كو مفكر ِقرآن کہنے كى بجائے محرفِ قرآن کہنا چاہئے جس نے اللہ تعالىٰ كى مقدس كتاب كو بازيچہ اطفال بنا رکھا تھا-
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,396
پوائنٹ
891
پرويز كى نظر ميں آخرت كيا ہے؟


چنانچہ اس محرفِ قرآن نے ساعت اور قيامت كى طرح ’آخرت‘ كے مفہوم كو بھی مسخ كرنے كى كوشش كى ہے، جيسا کہ وہ اپنے متبنّٰى سليم كو آخرت كا مفہوم سمجھاتے ہوئے لکھتا ہے :

”جو فائدہ پورى نوعِ انسانى كے اندر گردش كرتا ہوا افراد تك پہنچتا ہے، اسے مآلِ كار، آخرالامر يا مستقبل كا فائدہ کہا گيا ہے جس كے لئے قرآن ميں آخرت (مستقبل) كى اصطلاح آئى ہے-“ (سليم كے نام: ج١/ ص٢١٣)
سليم كو چاہئے تھا کہ وہ پرويز سے پوچھتا کہ یہ آخرت جو آپ نے پيش كى ہے، ان لوگوں كى ہے جو نوعِ انسانى كو فائدہ پہنچاتے ہیں، ليكن جو لوگ نوعِ انسانى كو راہ راست سے گمراہ كركے انہیں نقصان پہنچاتے ہیں ان كى آخرت كون سى ہے؟ كيا ايسے لوگ آخرت سے دوچار نہیں ہوں گے جو كسى بھی طرح لوگوں كونقصان پہنچاتے ہیں؟ چاہئے تو تھا کہ آخرت كى تعريف ايسى كى جاتى جونفع اور نقصان پہنچانے والے دونوں قسم كے لوگوں پر صادق آتى اور اہل شر كے انجام كو بھی شامل ہوتى، ليكن مسٹر پرويز نے ’آخرت‘كى ناقص بلکہ بھونڈى تعريف پيش كركے اپنے جہل مركب ميں گرفتار ہونے كا ثبوت ديا ہے-

پرويز كے ذہن پر چونکہ دنياوى مفاد اور دنياوى خوشحالياں سوار تہیں اور وہ دنيا كے عياش لوگوں كے مقابلہ ميں مسلمانوں كولتاڑا كرتے اور ان پر جہنمى ہونے كے فتوے داغا كرتے تھے، اسلئے انہوں نے ’آخرت‘ كى پہچان كرواتے ہوئے بھی اسكے مفہوم ميں دنيا كے سازوسامان كو داخل كرديا ہے جيسے کہ وہ کہتا ہے :

”سامانِ آخرت سے مقصود ہے وہ متاع جسے (انسان) آنے والى نسلوں كيلئے جمع كرتا ہے-“ (اسبابِ زوالِ امت: ص٢٦)
اگر قرآن كريم آخرت كى اصطلاح كو…بقولِ پرويز… اس متاع و سامان كے لئے استعمال كرتا ہے جسے اس دنيا ميں آنے والى نسلوں كے لئے جمع كيا جائے اور وہ پورى نوعِ انسانى ميں گردش كرتا ہوا تمام افراد تك پہنچے تو اس نظریہ كى مخالفت كا تصور صاحب ِقرآن سے نہیں كيا جاسكتا اورآپ اپنى امت بلکہ اپنے اہل بيت كے لئے مستقبل كے فائدہ (يعنى آخرت) كو چھوڑ كر ان پر مفادِ عاجلہ (يعنى دنيا كا سامان) پيش نہیں كرسكتے تھے، حالانکہ قرآنِ كريم ميں یہ صراحت موجود ہے کہ رسول اللہ كى ازواجِ مطہرات نے بنو قريظہ اور بنو نضير كى فتوحات كى وجہ سے مسلمانوں كے خوشحال ہوجانے كے بعد آپ سے نان و نفقہ بڑھانے كا مطالبہ كيا- رسول اللہ چونکہ تمام معاملات ميں سادگى پسند تھے،ا س لئے آپ كو ان كے اس مالى مطالبے پر سخت رنج ہوا اور آپ نے اپنى بيويوں سے عليحدگى اختيار كر لى جو ايك مہينے تك جارى رہى- تب اللہ نے درپيش مسئلہ كے بارہ ميں فيصلہ ديتے ہوئے یہ آيت نازل فرمائى:

﴿يٰاَیہا النَّبِىُّ قُلْ لاِزْوَاجِكَ: إنْ كُنْتُنَّ تُرِدْنَ الْحَيَاةَ الْدُّنْيَا وَزِيْنَتھا فَتَعَالَيْنَ اُمَتِّعْكُنَّ وَاُسَرِّحْكُنَّ سَرَاحًا جَمِيْلًا، وَاِنْ كُنْتُنَّ تُرِدْنَ اللہ وَرَسُوْلَہ وَالدَّارَ الاٰخِرَةَ فَاِنَّ اللہ اَعَدَّ لِلْمُحْسِنَاتِ مِنْكُنَّ اَجْرًا عَظِيْمًا﴾ (الاحزاب: ٢٨،٢٩)
”يعنى اے نبى ! اپنى بيويوں سے کہہ دو: اگر تم دنيا كى زندگى اور اس كى زيب و زينت كى طلبگار ہو تو آؤ ميں تمہیں (دنيا كا) مال دے كر اچھى طرح سے رخصت كردوں، اور اگر تم اللہ اور اس كے پيغمبر اور آخرت كے گہر كى طلبگار ہو تواللہ تعالىٰ نے تم ميں سے نيكوكار عورتوں كے لئے اجرعظيم تيار كر رکھا ہے-“

غور فرمائيے؛ اگر آخرت سے مراد وہ سامان ہو جو آنے والى نسلوں كے لئے جمع كيا جائے اور جو سارى نوعِ انسانى ميں گردش كرتا ہوا تمام افراد تك پہنچے تو كيا اللہ كے رسول جو قرآنى فكر كو لوگوں تك پہنچانے كے لئے مبعوث ہوئے ہیں، ايسى آخرت كو نظر انداز كركے اپنى اُمت كے لئے بلکہ اپنى ازواجِ مطہرات كے لئے مفادِ عاجلہ (الحياة الدنيا) كو اختيار كرسكتے تھے؟ اور كيا صاحب ِقرآن سے اس بات كا تصور كيا جاسكتا ہے کہ آپ اپنے اہل بيت كے لئے قرآنى آخرت چھوڑ كر اس كے برعكس دنيا كا سامان دينے كے لئے تيار ہوجائيں؟

مسٹر پرويز نے قرآنى اصطلاحات كے مفاہيم كو مسخ كرنے كے لئے ايسى تحريفات كى ہیں، جن كى زد سے خير القرون كے اہل اسلام بلکہ خود رسول كريم بھی نہ بچ سكے، ورنہ آپ كے بار ے ميں یہ كيسے باور كيا جاسكتا ہے کہ آپ اپنى ازواج كو مستقبل كا فائدہ (آخرت) چھوڑ كردنيا كا سامان دينے كے لئے آمادہ ہوجائيں، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ’آخرت‘ كا وہ مفہوم نہیں ہے جو مسٹر پرويز نے گھڑا ہے بلکہ اس سے اُخروى زندگى مراد ہے، جسے ہر دور كے مسلمان بالاتفاق تسليم كرتے چلے آرہے ہیں،اور جسے امام راغب نے بايں الفاظ ذكر كيا ہے :

”ويعبر بالدار الاخرة عن النشأة الثانية كما يعبر بالدار الدنيا عن النشأة الاولىٰ“ (المفردات:ص١٣)
” آخرت كے گہر سے مراد دوسرى بار لوگوں كى تخليق ہے، جيسا کہ ان كى پہلى بار تخليق كو دارِ دنيا سے تعبير كيا جاتا ہے-“

پرويز اپنے قلم كى سائيڈ مارتے ہوئے ميدانِ محشر ميں اہل دنيا كے اجتماع سے بھی بائى پاس نكل جانا چاہتے ہیں او رلکھتے ہیں :
”یہ تصور صحيح نہیں کہ جتنے لوگ مرتے ہیں وہ مرنے كے بعد قبروں ميں روك لئے جاتے ہیں، اور پھر ان سب كو ايك دن اكٹھا اٹھايا جائے گا، اسے حشر يا قيامت كا دن کہا جاتا ہے-“ ( جہانِ فردا: ص١٨٠)
اور قيامت كے دن اللہ تعالىٰ سے انسان كى ملاقات كو جھٹلاتے ہوئے لکھتا ہے :
”وہ (خدا ) ہمارى رگِ جان سے بھی زيادہ قريب ہے، اس لئے اس سے جدا ہوكر دنيا ميں آنے اور مرنے كے بعد اس سے پھر جاكر ملنے كا تصور قرآنى نہیں-“ (جہانِ فردا: ص٣٤)
مسٹر مذكور يہاں بھی قرآنِ كريم كى صريح نص كى مخالفت كر رہے ہیں، اور قيامت كے دن اللہ تعالىٰ سے ملاقات كو قرآن كے نام سے ہى غير قرآنى بتلاتے ہیں، حالانکہ اللہ تعالىٰ اپنے صالح بندوں كى صفات ذكر كرتے ہوئے ان كى حسب ذيل خوبى بيان فرماتے ہیں:

﴿اَلَّذِيْنَ يَظُنُّوْنَ اَنہمْ مُلَاقُوْا رَبِّہمْ وَاَنہمْ اِلَیہ رَاجِعُوْنَ﴾ (البقرة:٤٦)
”وہ ايسے لوگ ہیں جنہیں یہ يقين ہے کہ وہ اپنے ربّ تعالىٰ سے ملنے والے ہیں اور اسى كى طرف لوٹ كر جانے والے ہیں-“

اور مرنے كے بعد قيامت كے دن لوگوں كے اكٹھا كئے جانے كے متعلق ارشادِ بارى تعالىٰ ہے:
﴿قُلِ اللہ يُحْيِيْكُمْ ثُمَّ يُمِيْتُكُمْ ثُمَّ يَجْمَعُكُمْ اِلٰى يَوْمِ الْقِيَامَةِ لاَ رَيْبَ فِیہ وَلٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُوْنَ﴾(الجاثیہ:٢٦)
”يعنى کہہ دو کہ اللہ ہى تمہیں زندگى بخشتا ہے پھر وہى تمہیں مارتا ہے پھر قيامت كے دن تمہیں اكٹھا كرے گا جس كے آنے ميں كوئى شك نہیں ہے، ليكن بہت سے لوگ اس سے بے علم ہیں-“

اور قيامت كے دن ميدانِ محشر ميں جمع كئے جانے سے متعلق فرمانِ بارى تعالىٰ ہے:

﴿وَيَوْمَ نُسَيِّرُ الْجِبَالَ وَتَرَى الاَرْضَ بَارِزَةً وَحَشَرْنَاہمْ فَلَمْ نُغَادِرْ مِنْہمْ اَحَدًا﴾ (الکہف: ٤٧)
”اس دن ہم پہاڑوں كو (اپنى جگہ سے) چلا ديں گے اور آپ زمين كوصاف ميدان ديکھو گے، اور سب لوگوں كو ہم اكٹھا كريں گے اور ان ميں سے كسى كو بھی پيچھے نہیں چھوڑيں گے-“

اس مقام پر ذكر ہونے والى آيات كو آخر تك پڑھا جائے تو ايك سچے مسلمان كو يقين ہوتا چلا جاتا ہے کہ قيامت كا دن برحق ہے او رمرنے كے بعد لوگ ميدانِ محشر ميں اپنے خالق و مالك اللہ تعالىٰ سے ملاقات كريں گے، اور اپنى زندگى كے اعمال كا حساب ديں گے اور مجرمانہ زندگى گذارنے والے لوگ اپنے نامہ اعمال كو ديکھ كر خوف زدہ ہوں گے جيسا کہ ارشاد بارى تعالىٰ ہے:

﴿وَوُضِعَ الْكِتَابُ فَتَرَى الْمُجْرِمِيْنَ مُشْفِقِيْنَ مِمَّا فِیہ وَيَقُوْلُوْنَ يٰوَيْلَتَنَا مَالِ ہٰذَا الْكِتَابِ لاَ يُغَادِرُ صَغِيْرَةً وَّلاَ كَبِيْرَةً اِلاَّ اَحْصَاہا وَوَجَدُوْا مَا عَمِلُوْا حَاضِرًا وَلاَ يَظْلِمُ رَبُّكَ اَحَدًا﴾ (الکہف:٤٩)
” عملوں كا دفتر کھول كر سامنے رکھ ديا جائے گا، آپ مجرموں كو ديكھیں گے کہ جو كچھ اس ميں لکھا ہوگا، اسے ديکھ كر خوف زدہ ہو رہے ہوں گے، اور كہیں گے: ہائے شامت! یہ كيسى كتاب ہے کہ نہ چھوٹى بات كو چھوڑتى ہے اور نہ ہى بڑى بات كو، ہمارے ہر عمل كو ہى اس كتاب نے لکھ رکھا ہے، اور انہوں نے جو عمل كئے ہوں گے، اپنے سامنے پائيں گے، اور آپكا پروردگار كسى پر ظلم نہیں كرے گا.“

اور مسٹر پرويز كے ہاں مسلمہ لغات ’المفردات‘ ميں ہے :
وسمى يوم القيامة يوم الحشر كما سمى يوم البعث ويوم النشر (ص ١٢٠)
”قيامت كے دن كو ہى حشر كا دن کہا جاتا ہے، جيسا کہ اسے بعث و نشور كے دن سے بھی موسوم كيا جاتا ہے-“

اور قيامت كے دن حساب و كتاب كے برحق ہونے كے متعلق امام راغب فرماتے ہیں :
الساعة الكبرىٰ وہى بعث الناس للمحاسبة (المفردات:ص ٢٤٨)
”يعنى قيامت ِكبرىٰ سے مراد لوگوں كا حساب و كتاب كے لئے اٹھايا جانا ہے-“

مسٹر پرويز كى گمراہى اور ضلالت كى وجہ دراصل مستشرقين كے آراء و افكار ہیں جنہیں وہ اَبدى حقيقت مان كر قرآنِ كريم كى نصوص كى تحريف كياكرتے تھے، اور قرآنى آيات كو مستشرقين كے افكار كے مطابق ڈھالنے ميں مصروف رہا كرتے تھے، ان كے حشر و نشر اور اُخروى جنت و جہنم نيز يوم الحساب سے انكار كا سبب بھی درحقيقت مستشرقين كے افكار ہیں جيسا کہ وہ يوم الحساب كى تاويل ’وہائٹ ہائڈ‘ سے نقل كرتے ہوئے لکھتے ہیں :

”يوم الحساب توہر آن ہمارے ساتھ لگا ہوا ہے-“ (انسان نے كيا سوچا؟: ص٤١٣)
پرويز اگر اسلام كے ساتھ مخلص ہوتے تو قرآنى آيات كو بنياد بنا كر ان كے خلاف آنے والے اہل استشراق كے آراء و افكار كو ردّ كرنے كى جرأت كرتے، اس كے برعكس انہوں نے خلاف قرآن ان افكار و اقوال كو اصل بنا ليا اور قرآنى آيات كى معنوى تحريف كركے كفر كا ارتكاب كيا ہے، اور گمراہ لوگوں كو اپنا پيشوا بنا كر غلامانہ ذہنيت كا ثبوت ديا ہے-
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,396
پوائنٹ
891
فرشتوں پر ايمان


فرشتوں پرايمان لانا بھی مسلمانوں كے بنيادى عقائد ميں شامل ہے- اور قرآن كريم كے متعدد مقامات پر اس با ت كى صراحت موجود ہے کہ فرشتے اپنا خارجى وجود اور ذاتى تشخص رکھتے ہیں- وہ غيبى مخلوق ہیں- صحيح مسلم ميں حضرت عائشہ صديقہ رضى اللہ تعالىٰ عنہا، كى روايت كے مطابق فرشتے نور سے تخليق كئے گئے ہیں، لہذا ان پرايمان لانا ايمان بالغيب كا ايك جز ہے- سب فرشتے اللہ تعالىٰ كى عبادت كرنے والے ہیں، اور ا ن ميں سے كسى ميں بھی خدائى صفات نہیں پائى جاتيں، اللہ تعالىٰ نے انہیں اپنى طاعت اور فرمانبردارى كے لئے پيدا فرمايا ہے، وہ اللہ تعالىٰ كے برگزيدہ بندے ہیں، اور كسى بات ميں اللہ تعالىٰ كے حكم سے سرتابى نہیں كرتے، بلکہ وہ ہميشہ اللہ تعالىٰ كے تابع فرمان رہتے ہیں-

وہ آسمان سے نيچے بھی اُترتے ہیں، اور زمين سے اوپر آسمان كو بھی چڑھتے ہیں، جبرئيل  اور ميكائيل  انہى ميں سے ہیں- پھر كچھ فرشتے دو دو، تين تين، چار چار پروں والے بھی ہیں، فرشتوں نے بدر كے ميدان ميں اللہ تعالىٰ كے حكم سے مسلمانوں كى نصرت بھی كى تھى- یہ سب چيزيں اس بات پر دلالت كرتى ہیں کہ فرشتوں كا خارجى وجود ہے، ليكن چونکہ وہ محسوسات اور مشاہدات كى زَد سے باہر ہیں، اس لئے بعض لوگ ان كے خارجى وجود كو ماننے كے لئے تيار نہیں ہیں جيساکہ فرشتوں كے خارجى وجود سے انكار كرتے ہوئے پرويز لکھتے ہیں:

”ملائکہ ہمارى اپنى داخلى قوتيں ہیں يعنى ہمارے اعمال كے وہ اثرات جو ہمارى ذات پر مرتب ہوتے رہتے ہیں-“ (ابليس و آدم از پرويز: ص١٦٢)
پرويز كے نزديك ’فرشتے‘كيا ہیں؟
مسٹر پرويز كے بقول ملائکہ (فرشتے) انسانوں سے الگ مخلوق نہیں ہیں، بلکہ انسان كى اندرونى قوتوں اور نفسياتى توانائيوں كو ہى ملائکہ کہا گيا ہے، ا س كے برعكس قرآنِ كريم ميں انسانوں سے بالكل الگ تھلگ مخلوق كو ’ملائکہ‘ سے تعبير كيا گيا ہے،

ارشادِ بارى تعالىٰ ہے:
﴿اِنَّ اللہ وَمَلَائِكَتَہ يُصَلُّوْنَ عَلَى النَّبِىِّ يٰاَیہا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَیہ وَسَلِّمُوْا تَسْلِيْمًا﴾ (الاحزاب:٥٦)
”يعنى اے جماعت ِموٴمنين! ديکھو خدا اور اس كے فرشتے سب نبى پر درودو سلام بہيجتے ہیں، اے ايمان والو! تم بھی پيغمبر پر درودوسلام بھیجا كرو-“

بنابريں اگر ملائکہ (فرشتوں) سے مراد ہمارى داخلى قوتيں ہوتيں جيساکہ مسٹرپرويز كا دعوى ہے تو آيت ِمذكورہ ميں ملائکہ (فرشتوں) كو مسلمانوں كے ساتھ خطاب سے الگ ذكر كرنے اور ان كے درود كو مسلمانوں كے درود سے جدا بيان كرنے كى ضرورت نہیں تھى، كيونکہ اہل اسلام كے درود بھیجنے كے حكم ميں ان كى داخلى قوتيں… جنہیں پرويز صاحب ملائکہ اور فرشتے سمجھتے ہیں…بھی شامل تھیں، اس كے برعكس ملائکہ كو اہل ايمان سے الگ ذكر كرنا اس بات كى واضح دليل ہے کہ ملائکہ (فرشتے) انسان كى داخلى قوتوں كا نام نہیں بلکہ انسانوں سے الگ نورانى مخلوق ہے جس كا وجود انسانى وجود سے بالكل جداگانہ ہے-

مسٹر پرويز كا ذہن چونکہ مادّى تھا، اس لئے وہ كسى ايسى ذات كو ماننے كے لئے ذہنى طور پر آمادہ نہیں تھے جو غير مرئى ہو اور ان كى یہ جسارت يہاں تك جاپہنچى تہى کہ وہ اللہ تعالىٰ كو بھی ايك مرئى اور محسوس پيرائے ميں پيش كرنے كى تگ و دو كرتے رہے جيسا کہ ايك مقام پر وہ کہتے ہیں:

”اللہ سے مراد وہ معاشرہ جو قانونِ خداوندى كو نافذ كرنے كيلئے متشكل ہو“ (نظام ربوبيت: ص١٥٨)
غور فرمائيں؛ جس شخص كى ذہنى آوارگى سے اللہ تعالىٰ كى مقدس ذات محفوظ نہیں رہ سكى، لفظ ’ملائکہ‘ اس كى ذہنى اُپج سے كيسے بچ سكتا تھا-چنانچہ وہ ملائکہ كى بھی ايسى ہى مادّى توجیہ كرتے ہوئے فرماتے ہیں:
”ملائکہ يعنى كائنات كى قوتيں جن سے رِزق پيدا ہوتا ہے، انسان كے تابع فرمان ہیں-“ (’ابليس و آدم‘ از پرويز: ص٥٢)
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,396
پوائنٹ
891
اس طرح نبى كريم كو بھی فرشتہ ہونا چاہئے!

ليكن اس پر یہ سوال پيدا ہوتا ہے کہ اگر واقعى ملائکہ سے مراد رزق پيدا كرنے والى قوتيں ہیں اور ’ابليس و آدم‘ كے سابقہ اقتباس كے مطابق یہ انسان كى داخلى قوتيں ہیں اور بقول پرويز یہ ملائکہ كا قرآنى مفہوم بھی ہے تو صاحب ِقرآن كو اس قرآنى مفہوم كے ساتھ بدرجہ اَتم متصف ہونا چاہئے تھا، كم ازكم آپ كو تو اپنے مَلك(فرشتہ) از ملائکہ ہونے كى نفى نہیں كرنا چاہئے تھى كيونکہ آپ عملى ميدان ميں قرآنى مفاہيم و مطالب كى چلتى پھرتى تصوير تھے او رجب رِزق پيدا كرنے والى قوتيں (ملائکہ) آپ ميں مكمل طورپر موجود تھیں تو آپ خواہ مخواہ ’ملك‘ از ملائکہ قرار پاتے ہیں -

مگر اس كے برعكس قرآنِ كريم ميں یہ وضاحت موجود ہے کہ رسول كريم ببانگ ِدہل اپنے ملك از ملائکہ ہونے كى نفى كرتے تھے- ارشادِ بارى تعالىٰ ہے:
﴿قُلْ لاَ اَقُوْلُ لَكُمْ عِنْدِىْ خَزَائِنُ اللہ وَلاَ اَعْلَمُ الْغَيْبَ وَلاَ اَقُوْلُ لَكُمْ اِنِّىْ مَلَكٌ، اِنْ اَتَّبِعُ اِلاَّ مَايُوْحىٰ اِلَىَّ… ﴾(الانعام: ٥٠)
”اے پيغمبر! تم ان لوگوں سے کہہ دو کہ ميں تم سے یہ نہیں کہتا کہ ميرے پاس اللہ تعالىٰ كے خزانے ہیں اور نہ ہى ميں غيب جانتا ہوں، اور نہ ہى ميں یہ کہتا ہوں کہ ميں ’ملك‘ ہوں، ميرى حيثيت تو فقط یہ ہے کہ اس بات پر چلتا ہوں جو خدا كى طرف سے مجھ پر وحى كى جاتى ہے-“
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,396
پوائنٹ
891
پھر ملائکہ كى دوسرى تعبير

مسٹر پرويز اندھيرے ميں تير چلانے اور نادانوں كى طرح ٹامك ٹوئياں مارنے كے بہت عادى تھے اسى وجہ سے ان كى تصنيفات، تضادات كا پلندہ ہیں- ان كى تاليفات كا مطالعہ كرنے والے كو ان ميں ايك خواب كى مختلف تعبيروں سے واسطہ پڑتا ہے، ہوسكتا ہے ايسے موقع پر پرويز صاحب كا كوئى عقيدت مند اور ان كا تقليد پسند تفنن كے نام سے اسے بخوشى قبول كرنے پر آمادہ ہوجائے، ليكن ايك حقيقت پسند شخص اس كے تضادات كو ديکھ كر حيران ہوجاتا ہے کہ وہ ان كى كس بات كا اعتبار كرے او ران كى كس رائے كو حتمى قرار دے- یہى كام انہوں نے ملائکہ كى تعبير سے متعلق دکھايا ہے- پہلے تو وہ انہیں انسان كى داخلى قوتيں بناتے رہے جن سے رزق پيدا ہوتا ہے ، ليكن اب وہ اسكے برخلاف انہیں خارجى قوتيں بناتے ہوئے لکھتے ہیں:

”فرشتے ’ملائکہ‘ وہ كائناتى قوتيں ہیں جو مشيت ِ خداوندى كے پروگرام كو بروئے كار لانے كے لئے زمانے كے تقاضوں كى شكل ميں سامنے آتى ہیں-“ (’اقبال او رقرآن‘ از پرويز : ص١٦٥)
ليكن متعدد قرآنى آيات سے نظریہٴ پرويز كى ترديد ہوتى ہے اوران سے ملائکہ كو كائناتى قوتيں بنانے كا عقيدہ باطل قرار پاتا ہے- ارشاد بارى تعالىٰ ہے:

﴿ اَلْحَمْدُ للہ فَاطِرِ السَّمٰوَاتِ وَالْأَرْضِ جَاعِلِ الْمَلَائِكَةِ رُسُلاً أولِى أَجْنِحَةٍ مَثْنَىٰ وَثُلٰثَ وَرُبٰعَ يَزِيدُ فِى الْخَلْقِ مَا يَشَاءُ إِنَّ اللہ عَلَىٰ كُلِّ شَيْىٍٴ قَدِيرٌ﴾ (سورة الفاطر:١)

”سب تعريفيں اللہ تعالىٰ ہى كے لئے سزا وار ہیں جو آسمانوں و زمين كو پيدا كرنے والا ہے اور فرشتوں كو قاصد بنانے والا ہے جن كے دو دو اور كسى كے تين تين اور كسى كے چار چار پرَ ہیں اور وہ اپنى مخلوق ميں جو چاہتا ہے اضافہ كرتا ہے، بے شك اللہ تعالىٰ ہر چيز پر قادر ہے-“

اس آيت ميں آنے والے لفظ اَجنحة كے متعلق مسٹر پرويز لکھتے ہیں:
”سورة فاطر ميں ’ملائکہ‘ كے متعلق کہا ہے أولى اجنحة (٣٥/١ )… ا س كے لفظى معنى ہیں بازوؤں (پروں) والے-“ (لغات القرآن: ج١/ ص٤٤٣)
اگرچہ اس كے بعد مسٹر پرويز نے اس لفظ كا مجازى معنى گھڑ كر ڈنڈى مارنے كى كوشش كى ہے ليكن ہميں اس كى چنداں ضرورت نہیں ہے- كيونکہ اہل اصول كے ہاں یہ بات طے شدہ ہے کہ حقيقى معنى كے ہوتے ہوئے مجاز كى طرف رجوع كرنا جائز نہیں ہے-

اسى طرح سورہ زخرف ميں ارشاد الٰہى ہے:
﴿وَجَعَلُوْا الْمَلٰئِكَةَ الَّذِيْنَ ہمْ عِبَادُ الرَّحْمٰنِ اِنَاثًا﴾ (زخرف: ١٩)
”يعنى انہوں نے فرشتوں كو جو اللہ تعالىٰ كے بندے ہیں، اس كى بيٹياں بنا ڈالا-“

نيز ارشادِ بارى تعالىٰ ہے:
﴿قُلْ يَتَوَفّٰكُمْ مَلَكُ الْمَوْتِ الَّذِىْ وُكِّلَ بِكُمْ ثُمَّ اِلٰى رَبِّكُمْ تُرْجَعُوْنَ﴾(السجدة:١١)
”يعنى اے نبى! بتاديں کہ موت كا فرشتہ جو تم پر مقرر كيا گيا ہے، تمہیں فوت كرتا ہے، اس كے بعد تم اپنے پروردگار كى طرف لوٹائے جاتے ہو-“

پرويز نے اس آيت ميں ’ملك‘ كامعنى كائناتى قوتوں سے كيا ہے ليكن سوال یہ ہے کہ ’ملك‘ كا لفظ واحد ہے جو قرآنِ كريم ميں ہے، اور كائناتى قوتيں’جمع‘ہے جو پرويز صاحب نے اس كا مفہوم بتايا ہے - تو كيا مسٹر پرويز یہ سمجھتے ہیں کہ معاذ اللہ، اللہ تعالىٰ سے ملائکہ كى بجائے لفظ ’ملك‘ لانے ميں ذہول ہوگياہے يا مسٹر پرويز ہى ’مفہوم القرآن‘ كے نام سے لوگوں كو گمراہ كرنے كے درپے ہیں-
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,396
پوائنٹ
891
من مانے مفہوم كى دليل لانے كى ايك ناكام كوشش

جس شخص كا عقيدہ اور عمل قرآن و سنت كے ٹھوس دلائل پر مبنى ہوتا ہے، وہ اسے علىٰ وجہ البصيرت اختيار كرتا ہے اور بادِمخالف اس كے اس نظریہ ميں كسى قسم كا تزلزل پيدا نہیں كرسكتى، ليكن جس شخص كے نظريات خود ساختہ ہوں جنہیں اہل علم و عقل آسانى سے قبول كرنے كے لئے تيار نہیں ہوتے تو اسے اپنے اعتقادات و نظريات كو لوگوں ميں مقبول بنانے كے لئے خارجى سہاروں كى ضرورت پيش آتى ہے، جيسا کہ مسٹر پرويز نے ملائکہ كے بارہ ميں اپنے خود ساختہ نظریہ كو لوگوں سے منوانے كے لئے مفتى محمد عبدہ كا سہارہ ليا ہے اور کہا :

”مفتى محمد عبدہ نے اپنى تفاسير ’المنار‘ ميں لکھاہے کہ یہ امر ثابت ہے کہ كائنات كى ہر شئى كے اندر ايك قوت ايسى ہے ، جس پر اس چيز كا دارومدار ہے اور جس كے ساتھ اس شے كا قوام و نظام قائم ہے- جو لوگ وحى پر ايمان نہیں رکھتے وہ ان قوتوں كو طبيعى قوتيں کہتے ہیں اور شريعت كى زبان ميں انہیں ملائکہ کہاجاتا ہے، ليكن انہیں ملائکہ کہئے ياكائناتى قوتيں، حقيقت ايك ہى ہے-“ (لغات القرآن: ج١/ ص٢٤٢)

تفسير ’المنار‘ ميں ’ملائکہ‘ كے بارہ ميں مختلف اقوال نقل كئے گئے ہیں، اور مذكورہ بالا قول اس تفسير كے ص ٢٦٨ سے نقل كيا گياہے، اور مفتى محمد عبدہ صاحب نے یہ قول صرف مادّہ پرست لوگوں كو مطمئن كرنے كے لئے پيش كيا ہے، جيسا کہ ان كے شاگردِ رشيد محمد رشيد رضا … جو اس تفسير كے مرتب ہیں… ان سے اس قول كو ذكر كرنے كى وجہ بيان كرتے ہوئے لکھتے ہیں:

”أراد بہذا أن يحتج على المادّيين و يقنعہم بصحة ما جاء بہ الوحى من طريق علمہم المسلم عندہم كما صرح بہ فيما مرفى صفحة٢٦٨“ (تفسير المنار: ج١ ص٢٧٤)

”صفحہ ٢٦٨ پر نقل ہونے والے اقتباس سے مفتى صاحب كا مقصد صرف یہ ہے کہ مادّہ پرست لوگوں پر حجت قائم كردى جائے اور انہیں اس بارہ ميں مطمئن كيا جائے کہ (فرشتوں كے بارہ ميں) جو كچھ وحى الٰہى ميں ثابت شدہ امر ہے، وہ اس كے ہاں مسلمہ علمى طريقے كے بھی مطابق ہے-“

اس نظریہ كوذكر كرنے سے مفتى صاحب كا مقصد اس كى تائيد كرنا نہیں ہے، بلکہ اسے وحى الٰہى كے قريب كرنامقصود ہے بايں طور کہ مادّہ پرست حضرات اگرچہ ملائکہ كے وجود سے انكاركرتے ہیں ليكن دوسرى طرف وہ ان كا نام ’كائناتى قوتيں‘ رکھ كر اسے ماننے پر بھی مجبور ہیں، جيساکہ سيد رشيد رضا اپنے استاد كے اس اقتباس پر اپنے ريماركس ديتے ہوئے فرماتے ہیں :

”ہذا ما كتبہ شيخنا فى توضيح كلامہ فيما يفہمہ علماء الكائنات من لفظ القوىٰ إلى ما يفہمہ علماء الشرع من لفظ الملائكة“ (تفسير المنار: ج١ ص٢٧٣)
” ہمارے استاذ نے یہ كلام اس لئے درج كيا ہے، تاکہ علماءِ سائنس كے ہاں فرشتوں كے لئے جو لفظ (قوتوں كا) استعمال كيا جاتا ہے، اسے لفظ ’ملائکہ‘ كے قريب كرديا جائے جو علماءِ شريعت كے ہاں متعارف ہے-“
ملائکہ كى بابت مفتى محمد عبدہ صاحب اپنا سلفى عقيدہ اس سے چند صفحات قبل آيت نمبر٣٠ كے تحت ذكركر آئے ہیں جسے نقل نہ كرنے ميں پرويز صاحب نے اپنى عافيت سمجھى ہے، مفتى صاحب فرماتے ہیں:

”أما الملئكة فيقول السلف فیہم أنہم خلق أخبرنا اللہ تعالىٰ بوجودہم وببعض عملہم فيجب علينا الايمان بہم ولايتوقف ذلك على معرفة حقيقتہم فنفوض علمہا إلى اللہ تعالىٰ فإذ ورد أن لہم اجنحة نوٴمن بذلك ولكننا نقول أنہا ليست أجنحة من الريش ونحوہ كأجنحة الطير“ (تفسير المنار: ج١/ ص٢٥٤)

”فرشتوں كے بارہ ميں سلف صالحين كا عقيدہ یہ ہے کہ وہ بھی (اللہ تعالىٰ كى) مخلوق ہیں- اللہ تعالىٰ نے ہميں ان كے موجود ہونے اور بعض ايسے كاموں كے بارہ ميں بتا ديا ہے جنہیں وہ سرانجام ديتے ہیں، لہذا ہم پر فرض ہے کہ ان پر ايمان لائيں او ریہ ضرورى نہیں کہ ان كى اصل حقيقت معلوم كركے ہى ان پر ايمان لايا جائے ، بنابريں فرشتوں كے متعلق (قرآن ميں) أجنحة (پروں) كا ذكر آيا ہے تو ہم اسے مانتے ہیں، ليكن یہ نہیں کہتے کہ فرشتوں كے پر پرندوں كے پروں كے مشابہ ہیں-“
غور فرمائيں؛ مفتى محمد عبدہ رحمہ اللہ نے فرشتوں كا جو تعارف پيش كيا ہے، بالكل وہى ہے جسے اہل اسلام ہميشہ سے تسليم كرتے آرہے ہیں، اوريہاں انہوں نے ملائکہ كو كائناتى قوتيں قرار دينے كے خود ساختہ نظریہ كو ذكر تك نہیں كيا، جس سے یہ بات پایہٴ ثبوت كو پہنچ جاتى ہے کہ مفتى صاحب اپنى تفسير ميں ملائکہ سے متعلق ديگر نظريات كو ذكر كرنے كے باوجود ان كے حامى نہیں ہیں- فرشتوں كے بارہ ميں ان كا عقيدہ بھی وہى ہے، جو ديگر مسلمانوں كے ہاں مسلم ہے، اور جس سے خروج اختيار كركے مسٹر پرويز اسلام كى نظرياتى سرحدوں سے ہى خارج ہوگئے ہیں-
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,396
پوائنٹ
891
ايمان بالقرآن


پرويزى لٹريچر كا مطالعہ كرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ مسٹر پرويز قرآنِ كريم كو ايك محفوظ كتاب تسليم كرتے ہیں جو وحى پر مشتمل ہے- اس حقيقت سے وہ انكار نہیں كرسكے اور اس كے اصول كو بھی وہ ابدى مانتے ہیں-

ليكن مسٹر پرويز چونکہ مطلبى آدمى تھے، لہذا انہوں نے قرآنِ كريم كو اگر وحى الٰہى تسليم كيا ہے تو اس سے اپنا مطلب نكالنے كے لئے ہى تسليم كيا ہے اور مستشرقين كے افكار كو قرآن كے نام سے مسلمانوں ميں پھيلانے كے لئے اسے ’وحى‘ مانا ہے اور اس پر ان كا پورا لٹريچر خاص طور پر ان كى ’مفہوم القرآن‘ جيسى كتابيں شاہد ہیں- ہم ديکھتے ہیں کہ مسٹر پرويز كى پورى زندگى كى تگ و دو كا محور صرف یہ تھا کہ وہ يورپين مفكرين اور مستشرقين كے نظريات سے كشيد كردہ افكار كو قرآن كے نام سے اسلامى معاشرے ميں پھيلانے كے لئے سرگرم رہے اور چند حدود كے اندر کھلى آزادى كو قرآنى نظام باور كراتے رہے، وہ خود اس بات كا اعتراف كرتے ہوئے لکھتے ہیں :

”قرآن كريم نے صرف اُصولى احكام ديئے ہیں او ریہ چيز انسانوں پر چھوڑ دى ہے کہ وہ اپنے اپنے زمانے كے تقاضوں كے مطابق ان اُصولوں كى روشنى ميں جزئى قوانين ايك نظام كے تابع خود مرتب كريں-“ (لغات القرآن: ج٢/ ص٤٧٩)
جبکہ ايك راسخ العقيدہ مسلمان كا ايمان اس بات پر ہے کہ اللہ تعالىٰ نے قرآنِ كريم جيسى مقدس كتاب نازل كرنے كے لئے حضرت محمد رسول اللہ كى ذاتِ گرامى كو منتخب فرمايا ہے اور اس كى تبيين وتوضيح كا فريضہ آپ كو تفويض كيا ہے، اور اس بات سے بھی انكار نہیں كيا جاسكتا کہ آپ قرآنى آيات سے مرادِ الٰہى كو بخوبى جانتے تھے، اور آپ كے بيان كردہ مفاہيم قرآن او رمطالب ِفرقان بلاريب منشاے الٰہى كے عين مطابق تھے اور آپ كا كوئى قول و فعل تقاضاے الٰہى كے خلاف نہ تھا، كيونکہ آپ كى ذات پر وحى خداوندى كا پہرہ ہر وقت موجو درہتا تھا، ارشادِ بارى تعالىٰ ہے:

﴿وَلَوْ تَقَوَّلَ عَلَيْنَا بَعْضَ الاَقَاوِيلِ لَاَخَذْنَا مِنْہ بِالْيَمِيْنِ ثُمَّ لَقَطَعْنَا مِنْہ الْوَتِيْنَ فَمَا مِنْكُمْ مِنْ اَحَدٍ عَنْہ حَاجِزِيْنَ﴾ (الحاقہ: ٤٤ تا ٤٧)
”اگر یہ رسول اپنى طرف سے كوئى بات بنا كر اسے ہمارى طرف منسوب كرتا تو ہم اسے دائيں ہاتھ كى محكم گرفت سے پكڑ ليتے پھر ہم اس كى رَگِ گردن كاٹ ديتے اورتم ميں سے كوئى ہميں اس سے روكنے والانہ ہوتا-“


اس قسم كى متعدد قرآنى آيات سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ كے تمام اقوال وافعال اور آپ كى ہمہ تقريرات مرادِ الٰہى كے عين مطابق تھیں جن پر وحى خداوندى كى نگرانى ہر وقت موجود رہتى تھى، او ریہ امتياز صرف صاحب ِقرآن كو ہى حاصل تھا- انسانوں ميں سے كوئى شخص بھی آپ كے ساتھ اس وصف ميں شامل نہیں ہے- اور اگر بالفرض یہ مان ليا جائے کہ قرآنِ كريم كى تعبير و تشريح سے متعلق اقوال وافعال …عام انسانوں كى طرح… آپ كى ذاتى آرا تھیں جن كا وحى الٰہى سے كوئى تعلق نہ تھا تو اس طرح آپ كے فرمودات كا، آپ كسى اُمتى كے قول و فعل سے كوئى فرق باقى نہیں رہتا، بلکہ بايں طور تو آپ كے زمانہ قبل از نبوت كے اقوال و افعال نيز نبوى دور كے فرامين ميں بھی كوئى امتياز باقى نہیں رہے گا ، جبکہ اس قسم كا تصور رکھنا مقامِ نبوت سے انكار كے مترادف ہے-

پرويز قرآنى آيات كى تعبير و تشريح كا حق مسلمانوں كو ہى نہیں بلکہ تمام انسانوں كو دينے پر كمر بستہ ہیں او روہ اصولِ قرآن كو سمجھانے كے لئے كسى مامور من اللہ (نبى يارسول) كى ضرورت بھی محسوس نہیں كرتے، جيسا کہ ايك مقام پر وہ لکھتے ہیں:
”قرآن كے اصول مكمل غير متبدل اور ابدى ہیں، اس لئے اب كسى نبى كى ضرورت نہیں- باقى رہا یہ تصور کہ ان اصولوں كو سمجھانے كے لئے كسى ايسے شخص كى ضرورت ہے جو خدا كى طرف سے ان اُصولوں كو سمجھنے كا علم حاصل كرے اور انہیں پھر دوسرے انسانوں كو سمجھائے تو یہ تصور يكسر غير قرآنى ہے- قرآن كريم نے كہیں یہ نہیں کہا کہ ميرى تعليم كو سمجھانے كے لئے بھی كسى مامور من اللہ يا مُلہم ربّانى كى ضرورت ہے-“ (قرآنى فيصلے: ج٣ /ص٢٦٠)
”قرآن كريم ميں اللہ تعالىٰ نے یہ تو کہا ہے کہ اس كتاب كابيان اور اس كے اُصولوں كى توضيح كى ذمہ دارى بھی ہمارى ہے-“ (القيامہ:١٩)
اور نزولِ قرآن كے لئے حضرت محمد رسول اللہ كى ذاتِ گرامى كا انتخاب بھی اسى لئے كيا گيا تاکہ آپ اپنى عملى زندگى كے ذريعہ سے اُمت كے لئے قرآنِ كريم پر چلنے كا ا يك راستہ متعين فرما ديں اور قرآنى مفاہيم و مطالب كوکھول كر لوگوں كے سامنے رکھ ديں، گويا آپ كى ذاتِ مقدس روئے زمين پر چلتا پھرتا قرآن تھا جس كا ہر قول و عمل قرآن كے رنگ ميں رنگا ہوا تھا، اور یہ بات بھی بلاشبہ مسلم ہے کہ مامور من اللہ ہى كونبى کہتے ہیں، جسے اس كتاب كى تفسير و تشريح كے لئے منتخب كيا گیا تھا جو اس پر نازل ہونے والى تھى-

ارشادِ بارى تعالىٰ ہے :
﴿وَاَنْزَلْنَا اِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلْنَّاسِ مَا نُزِّلَ اِلَیہمْ وَلَعَلَّہمْ يَتَفَكَّرُوْنَ﴾ (النحل:٤٤)
”اور ہم نے آپ پر یہ نصيحت نامہ (كتاب)اس لئے اتارى ہے تاکہ آپ لوگوں كى طرف نازل شدہ كتاب كو ان كے لئے کھول كر بيان كرديں اور تاکہ وہ سب اس پر غوروفكر كريں-“

منزل من اللہ كتاب كى تبيين و توضيح نبى كا ہى وظيفہ ہے كيونکہ اسے براہ راست اللہ تعالىٰ كى طرف سے تعليم دى جاتى تھى اور بذريعہ وحى اسے علومِ الٰہیہ سے آراستہ كيا جاتا تھا جيساکہ ارشادِ الٰہى ہے:

﴿وَاَنْزَلَ اللہ عَلَيْكَ الْكِتٰبَ وَالْحِكْمَةَ وَعَلَّمَكَ مَا لَمْ تَكُنْ تَعْلَمُ﴾ (النساء:١١٣)
”اور اللہ تعالىٰ نے آپ پر كتاب و حكمت نازل فرمائى ہے، اور اس نے آپ كو وہ كچھ سکھايا ہے جو آپ نہیں جانتے تھے-“

اللہ تعالىٰ سے علم وحى كا حاصل كرنا اور اس كى مراد ومرضى كے كاموں سے براہ راست باخبر ہونا صرف نبى اور رسول كى ہى خصو صيت ہے جومامور من اللہ ہے- اور ايسے نبوى منہج سے ہٹ كر جو شخص بھی مفكر ِقرآن بننے كى كوشش كرے گا تو بدیہى بات ہے کہ وہ قرآن كے نام سے ايسے آراء و افكار پيش كرے گا جن كا مرادِ الٰہى ہوناحتمى نہیں كيونکہ اس كے افكار پر وحى الٰہى كى نگرانى نہیں جس كے ذريعے سے ان كے صحيح اور درست ہونے كا فيصلہ كيا جاسكے ا س كے برعكس نبى اور رسول كے تمام اقوال و افعال مرادِ الٰہى ہیں- لہذاوہ دين ميں حجت ہیں بلکہ عين دين ہیں-

حقيقت یہ ہے کہ مسٹر پرويز اور ان كے فرقے كے ہاں سند او رحجت اللہ تعالىٰ كى كتاب قرآن كريم بھی نہیں ہے، اگرچہ پروپيگنڈے كى حد تك وہ یہى کہتے ہیں کہ قرآن محفوظ كتاب ہے اور اسے خالى الذہن ہو كر سمجھنے كى كوشش كرنى چاہئے ليكن دوسرى طرف مسٹر پرويز كى تاليفات سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ عملى ميدان ميں اپنے اس دعوے پر قائم نہیں رہے، او رانہوں نے خود ہى بہت سى غير قرآنى چيزوں كو ذہن ميں رکہ كر قرآنِ كريم كو ان غير اسلامى اشياكا محتاج بنائے رکھا، جيسا کہ وہ قرآنِ مجيد كے ايك مقام كو اناجيل محرفہ سے حل كرتے ہوئے لکھتے ہیں:

”قرآن كريم تك آنے سے پيشتر ہميں ايك بار پھر اناجيل پر غور كر لينا چاہئے، اناجيل جيسى كچھ بھی آج ہیں، بہرحال انہى كے بيانات كو سامنے رکھا جائے گا- اس كے سوا چارہ ہى كيا ہے؟“ (شعلہ مستور:ص ٩٨)
اگر ان لوگوں كے ہاں قرآن فہمى كے لئے ان اناجيل كے بغير كوئى چارہ نہیں ہے، جو صرف منسوخ ہى نہیں بلکہ تحريف شدہ بھی ہیں تو مسلمانوں كے ہاں صاحب ِقرآن كى ہدايات اور تعليمات كى روشنى ميں قرآن مجيد كو سمجھنے سے چين بجبيں ہونا غير معقول ہے-

دوسرے مقام پر وہ قرآنى الفاظ كو جاہلى كلام كا محتاج بناتے ہوئے رقم طراز ہیں:
”بہرحال شعراءِ جاہلیہ كے كلام كا بيشتر حصہ اپنے اصل الفاظ ميں عربى ادب كى كتابوں ميں مدوّن اور محفوظ ہوگيا … اس لئے ان اشعار كى مدد سے ان الفاظ كا وہ مفہوم بھی متعين كيا جاسكتا ہے جو ان سے زمانہٴ نزولِ قرآن ميں ليا جاتا تھا-“ (لغات القرآن: ج١/ ص١٢)
اگر زمانہٴ جاہليت كا كلام عربى ادب كى كتابوں ميں آج تك محفوظ رہ سكتا ہے او روہ جاہليت جسے قرآن مٹانے كے لئے نازل ہوا ہے، اس كے كلام سے قرآن كے مفاہيم متعين كئے جاسكتے ہیں تو تعليماتِ نبویہ اور احاديث ِرسول آج تك محفوظ كيوں نہیں رہ سكتيں او ران سے قرآنى مطالب متعين كرنے پر اعتراض كيوں ہے- اگر اب بھی كسى كو اصرار ہے کہ پرويز خالى الذہن ہو كر ہى قرآن ميں غوروفكر كرتے رہے ہیں تو ہميں بتايا جائے یہ كيا ہوتا رہا ہے کہ

”حقيقت یہ ہے کہ جس قوم پر صديوں سے سوچنا حرام ہوچكا ہو او رتقليد ِکہن زندگى كى محمود روش قرار پاچكى ہو، ان ميں فكرى صلاحيتيں بہت كم باقى رہ جاتى ہیں، لہذا ہميں اس مقصد كے لئے بھی مغرب كے محققين كى طرف ہى رجوع كرنا ہوگا-“ (سليم كے نام: ج٣ ص١٥١)
بتائيے؛ كيا یہ حسبنا كتاب اللہ پر عمل ہوتا رہا ہے؟
كيا حديث ِنبوى كى بجائے اناجيل محرفہ اور مغرب كے محققين كے افكار قرآن فہمى كے لئے ناگزير ہیں؟ فرض كيا ہمارے ہاں مغربى طرز كى بعض تحقيقات نہیں ہوئيں، ليكن اس كا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ چابك دستى سے مغربى افكار كو قرآنى آيات ميں ٹانكنا شروع كرديا جائے-اگر پرويز اور ا ن كے حواريوں كے ہاں كافرانہ افكار كے بغير چارہ نہیں تو وہ بڑى خوشى سے انہیں اختياركريں، ليكن دھوکہ اور فريب سے انہیں مسلمانوں پر مسلط كرنے كى اجازت نہیں دى جاسكتى-

یہ ہیں وہ چند عقائد و نظريات جنہیں اختيار كرنے كى وجہ سے مسٹر پرويز پر ايك ہزار علما نے ان كى زندگى ميں ہى ان پر كفر كا فتوىٰ لگايا تھا، اور ايسے باطل نظريات كے پيش نظر سعودى عرب كے مفتى اعظم اور امامِ كعبہ نے انہیں اسلام سے خارج قرار ديا ہے۔
 
Top