• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مسیحی خانقاہ میں عیسائیوں کیلئے پیغمبر اسلام ﷺ کا عہد نامہ ؟

Naeem Mukhtar

رکن
شمولیت
اپریل 13، 2016
پیغامات
81
ری ایکشن اسکور
25
پوائنٹ
32
السلام علیکم مجھے اس تحریر اور ساتھ میں لف تصویر کے بارے میں معلومات درکار ہیں ۔ رہنمائی فرما دیں


اس خط پر آپؐ کے دست مبارک کا نشان ہے‘ عیسائی اس خط کو نبی اکرمؐ کاکووننٹ ٹسیٹامنٹ جبکہ مسلمان عہد نامہ کہتے ہیں‘ یہ دنیا میں واحد ایسی دستاویز ہے جس پررسول اللہ ﷺ کے دست مبارک کا نشان موجود ہے۔

ایک روایت کے مطابق خانقاہ سینٹ کیتھرائن کے چند متولی مدینہ آئے‘ نبی اکرمؐ نے ان کی میزبانی فرمائی‘ متولیوں نے رخصت ہونے سے پہلے عرض کیا‘ہمیں خطرہ ہے مسلمان جب طاقتور ہو جائیں گے تو یہ ہمیں قتل اور ہماری عبادت گاہوں کو تباہ کر دیں گے‘ آپؐ نے جواب دیا‘ آپ لوگ مجھ سے اور میری امت کے ہاتھوں سے محفوظ رہیں گے‘ متولیوں نے عرض کیا‘ ہم لوگ جب بھی کسی سے معاہدہ کرتے ہیں تو ہم وہ لکھ لیتے ہیں‘ آپ بھی ہمیں اپنا عہد تحریر فرما کر عنایت کر دیں تاکہ ہم مستقبل میں آپ کے امتیوں کو آپؐ کی یہ تحریر دکھا کر امان حاصل کر سکیں‘

آپؐ نے تحریر لکھوائی‘ تصدیق کیلئے کاغذ پر اپنے دست مبارک کا نشان لگایا اور عہدنامہ ان کے حوالے کر دیا‘ وہ لوگ واپس آئے اور یہ معاہدہ سینٹ کیتھرائن میں آویزاں کر دیا‘ مسلمان حکمرانوں نے اس کے بعد جب بھی مصر فتح کیا اور یہ سینا اور کوہ طور تک پہنچے تو خانقاہ کے متولی نبی اکرمؐ کا عہد نامہ لے کر گیٹ پر آ گئے‘ فاتحین نے عہد نامے کو بوسا دیا‘ خانقاہ اور مصر کے عیسائیوں کو پناہ دی اور واپس لوٹ گئے‘ وہ عہد نامہ کیا تھا‘ میں اس کا ترجمہ آپ کی نذر کرتا ہوں۔

”یہ خط رسول اللہ ﷺ ابن عبداللہ کی جانب سے تحریر کیا گیا ہے جنہیں اللہ کی طرف سے مخلوق پر نمائندہ بنا کر بھیجا گیاتاکہ خدا کی طرف کوئی حجت قائم نہ ہو‘ بے شک اللہ قادر مطلق اور دانا ہے‘ یہ خط اسلام میں داخل ہونے والوں کیلئے ہے‘ یہ معاہدہ ہمارے اوردورو نزدیک‘ عربی اور عجمی‘ شناسا اور اجنبی‘ عیسائیوں اور حضرت عیسیٰ ؑ کے پیروکاروں کے درمیان ہے‘ یہ خط ایک حلف نامہ ہے اور جو اس کی خلاف ورزی کرے گا‘ وہ کفر کرے گا‘ وہ اس حکم سے روگردانی کا راستہ اختیار کرے گا‘ معاہدے کی خلاف ورزی کرنے والا خدا اور اس کے حکم کا نافرمان ہو گا‘ اس (خط) حکم کی نافرمانی کرنے والا بادشاہ یا عام آدمی خدا کے قہر کا حق دار ہوگا‘

جب کبھی عیسائی عبادت گزار اور راہب ایک جگہ جمع ہوں‘ چاہے وہ کوئی پہاڑ ہو یا وادی‘ غار ہو یا کھلا میدان‘ کلیساء ہو یا گھر میں تعمیر شدہ عبادت گاہ ہو تو بے شک ہم (مسلمان) ان کی حفاظت کیلئے ان کی پشت پر کھڑے ہوں گے‘ میں‘ میرے دوست اور میرے پیروکار ان لوگوں کی جائیدادوں اور ان کی رسوم کی حفاظت کریں گے‘ یہ (عیسائی) میری رعایا ہیں اور میری حفاظت میں ہیں‘ ان پر ہر طرح کا جزیہ ساقط ہے جو دوسرے ادا کرتے ہیں‘ انہیں کسی طرح مجبور‘ خوفزدہ‘ پریشان یا دباؤ میں نہیں لایا جائے گا‘ ان کے قاضی اپنے فیصلے کرنے میں آزاد ہیں‘ ان کے راہب اپنے مذہبی احکام اور اپنی رہبانیت کے مقامات میں آزاد ہیں‘

کسی کو حق نہیں یہ ان کو لوٹے‘ ان کی عبادت گاہوں اور کلیساؤں کو تباہ کرے اور ان (عمارتوں) میں موجود اشیاء کو اسلام کے گھر میں لائے‘ جو ایسا کرے گا وہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ سے حلف کی خلاف ورزی کرے گا‘ ان کے قاضی‘ راہب اور عبادت گاہوں کے رکھوالوں پر بھی جزیہ نہیں ہے‘ ان سے کسی قسم کا جرمانہ یا ناجائز ٹیکس وصول نہیں کیا جائے گا‘ بے شک میں ان سے وعدے کی پاسداری کروں گا‘ چاہے یہ زمین میں ہیں یا سمندر میں‘ مشرق میں ہیں یا مغرب میں‘ شمال میں ہیں یا جنوب میں‘ یہ میری حفاظت میں ہیں‘ ہم اپنے مذہبی خدا کی عبادت میں زندگی وقف کرنے والوں (راہبوں) اور اپنی مقدس زمینوں کو زرخیز کرنے والوں (چرچ کے زیر انتظام زمینوں) سے کوئی ٹیکس یا آمدن کا دسواں حصہ نہیں لیں گے‘

کسی کو حق نہیں کہ وہ ان کے معاملات میں دخل دے یا ان کے خلاف کوئی اقدام کرے‘ ان کے زمیندار‘ تاجر اور امیر لوگوں سے لیا جانے والا ٹیکس 12 درہم(دراچما) سے (موجودہ 200 امریکی ڈالر) سے زائد نہیں ہو گا‘ ان کو کسی طرح کے سفر (نقل مکانی) یا جنگ میں حصہ لینے (فوجی بھرتی) پر بھی مجبور نہیں کیا جائے گا‘ کوئی ان سے جھگڑا یا بحث نہ کرے‘ ان سے قرآن کے احکام کے سوا کوئی بات نہ کرو ”اور اہل کتاب سے نہ جھگڑو مگر ایسے طریقے سے جو عمدہ ہو“ (سورۃ العنکبوت آیت 46)

پس یہ مسلمانوں کی جانب سے ہر طرح کی پریشانی سے محفوظ ہیں‘ چاہے یہ عبادت گاہ میں ہیں یا کہیں اور‘کسی عیسائی عورت کی مسلمان سے اس کی مرضی کے خلاف شادی نہیں ہو سکتی‘ اس کو اس کے کلیساء جانے سے نہیں روکا جا سکتا‘ ان کے کلیساؤں کا احترام ہو گا‘ ان کی عبادت گاہوں کی تعمیر یا مرمت پر کوئی پابندی نہیں ہو گی اور انہیں ہتھیار اٹھانے پر مجبور نہیں کیا جائے گا۔ ہر مسلمان پر لازم ہے کہ وہ قیامت تک اور اس دنیا کے اختتام تک اس حلف کی پاسداری کرے“۔عہد نامے کے نیچے نبی اکرم ؐ کے دست مبارک کا نقش ہے‘ یہ نقش رسول اللہ ﷺ کے دستخط کی حیثیت رکھتا ہے۔


Sent from my SM-G570F using Tapatalk
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
جس پررسول اللہ ﷺ کے دست مبارک کا نشان موجود ہے۔
باقی ساری باتوں سے قطع نظر یہاں جو امیج لگایا گیا ہے، اس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دست مبارک کا نشان تو نہیں، بلکہ یہاں تو پینٹنگ یعنی مصوری کے ذریعے ہاتھ بنایا ہوا ہے۔
 

Naeem Mukhtar

رکن
شمولیت
اپریل 13، 2016
پیغامات
81
ری ایکشن اسکور
25
پوائنٹ
32
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!

باقی ساری باتوں سے قطع نظر یہاں جو امیج لگایا گیا ہے، اس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دست مبارک کا نشان تو نہیں، بلکہ یہاں تو پینٹنگ یعنی مصوری کے ذریعے ہاتھ بنایا ہوا ہے۔
وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ و برکاتہ
اور جو ساتھ واقعہ منسوب ہے اس کے بارے میں آپ کیا کہیں گے
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
آپؐ نے تحریر لکھوائی‘ تصدیق کیلئے کاغذ پر اپنے دست مبارک کا نشان لگایا اور عہدنامہ ان کے حوالے کر دیا‘ وہ لوگ واپس آئے اور یہ معاہدہ سینٹ کیتھرائن میں آویزاں کر دیا‘ مسلمان حکمرانوں نے اس کے بعد جب بھی مصر فتح کیا اور یہ سینا اور کوہ طور تک پہنچے تو خانقاہ کے متولی نبی اکرمؐ کا عہد نامہ لے کر گیٹ پر آ گئے‘ فاتحین نے عہد نامے کو بوسا دیا‘ خانقاہ اور مصر کے عیسائیوں کو پناہ دی اور واپس لوٹ گئے‘ وہ عہد نامہ کیا تھا‘ میں اس کا ترجمہ آپ کی نذر کرتا ہوں۔
یہ بات خلاف واقعہ معلوم ہوتی ہے؛ مصر کو مسلمانوں نے سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں فتح کیا، اور اسے اسلامی ریاست کا حصہ بنایا!
اس حوالہ سے ایک تحریر اس فورم پر موجود ہے، اسے ملاحظہ فرمائیں:
حضرت عبادۃ بن صامت رضی اللہ عنہ کی شاہ مقوقس کے دربار میں تقریر :
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں حضرت عمرو بن العاص مصر فتح کرنے کے لیے روانہ ہوئے ، قلعہ کا محاصرہ کیا ، جب کئی مہینے اسی طرح گزر گئے ، شاہ مقوقس نے تنگ آگر مسلمانوں کو دھمکی اور لالچ دونوں طرح ٹالنا چاہا ، کہا ، تمہارے پیچھے دریائے نیل ہے ، آگے رومی اور قبطی لشکر جرار ، اور تم چند ہزار بدو عرب ، کیوں خودکشی بر مصر ہو ، میرے پاس ابنے بندے بھیج دو ، ہم مصالحت کرلیتے ہیں ، آپ کا بھی فائدہ ، ہم بھی زحمت سے بچ جائیں گے ، حضرت عمرو نے عبادۃ الصامت رضی اللہ عنہما کی سربراہی میں کچھ لوگ بھیجے ، اگلی کاروائی ملاحظہ کیجیے :
فأرسل المقوقس إلى عمرو... ثم رد عمرو إلى المقوقس رسله ...وأن لا يجيبهم إلى شىء دعوه إليه إلا إلى إحدى هذه الخصال الثلاث.
فتقدم إليه عبادة فقال: قد سمعت مقالتك، وإن فيمن خلفت من أصحابى ألف رجل كلهم أشد سوادا منى وأفظع منظرا، ولو رأيتهم لكنت أهيب لهم منك لى، وأنا قد وليت وأدبر شبابى، وإنى مع ذلك، بحمد الله، ما أهاب مائة رجل من عدوى ولو استقبلونى جميعا، وكذلك أصحابى، وذلك أنا إنما رغبتنا وهمتنا الجهاد فى الله واتباع رضوانه، وليس غزونا عدونا ممن حارب الله لرغبة فى دنيا، ولا طلبا للاستكثار منها، إلا أن الله، عز وجل، قد أحل لنا ذلك، وجعل ما غنمنا منه حلالا، وما يبالى أحدنا أكان له قنطار من الذهب أم كان لا يملك إلا درهما؛ لأن غاية أحدنا من الدنيا أكلة يأكلها يسد بها جوعته لليله ونهاره، وشملة يلتحفها، فإن كان أحدنا لا يملك إلا ذلك كفاه، وإن كان له قنطار من ذهب أنفقه فى طاعة الله تعالى واقتصر على هذا الذى يتبلغ به ما كان فى الدنيا؛ لأن نعيم الدنيا ليس بنعيم ورخاءها ليس برخاء، إنما النعيم والرخاء فى الآخرة، وبذلك أمرنا ربنا، وأمرنا به نبينا، وعهد إلينا أن لا تكون همة أحدنا من الدنيا إلا ما يمسك جوعته، ويستر عورته، وتكون همته وشغله فى رضى ربه وجهاده عدوه.
فقال عبادة بن الصامت: يا هذا لا تغرن نفسك ولا أصحابك، أما ما تخوفنا به من جمع الروم وعددهم وكثرتهم، وأنا لا نقوى عليهم، فلعمرى ما هذا بالذى يخوفنا، ولا بالذى يكسرنا عما نحن فيه، إن كان ما قلتم حقا فذلك والله أرغب ما يكون فى قتالكم، وأشد لحرصنا عليكم؛ لأن ذلك أعذر لنا عند ربنا إذا قدمنا عليه، وإن قتلنا من آخرنا كان أمكن لنا فى رضوانه وجنته، وما من شىء أقر لأعيننا ولا أحب إلينا من ذلك، وإنا منكم حينئذ على إحدى الحسنيين: إما أن تعظم لنا بذلك غنيمة الدنيا إن ظفرنا بكم، أو غنيمة الآخرة إن ظفرتم بنا، وإنها لأحب الخصلتين إلينا بعد الاجتهاد منا، وإن الله عز وجل قال لنا فى كتابه: كَمْ مِنْ فِئَةٍ قَلِيلَةٍ غَلَبَتْ فِئَةً كَثِيرَةً بِإِذْنِ اللَّهِ وَاللَّهُ مَعَ الصَّابِرِينَ [البقرة: 249] ، وما منا من رجل إلا وهو يدعو ربه صباحا ومساء أن يرزقه الله الشهادة وألا يرده إلى بلاده ولا إلى أرضه ولا إلى أهله وولده، وليس لأحد منا همّ فيما خلفه، وقد استودع كل واحد منا ربه فى أهله وولده، وإنما همنا ما أمامنا، وأما قولك: إنا فى ضيق وشدة من معاشنا وحالنا، فنحن فى أوسع السعة، لو كانت الدنيا كلها لنا ما أردنا منها لأنفسنا أكثر مما نحن عليه، فانظر الذى تريد فبينه لنا، فليس بيننا وبينك خصلة نقبلها منك ولا نجيبك إليها إلا خصلة من ثلاث، فاختر أيها شئت ولا تطمع نفسك بالباطل، بذلك أمرنى الأمير، وبه أمره أمير المؤمنين، وهو عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم من قبل إلينا: إما أجبتم إلى الإسلام الذى هو الدين الذى لا يقبل الله غيره، وهو دين أنبيائه ورسله وملائكته، أمرنا أن نقاتل من خالفه ورغب عنه حتى يدخل فيه، فإن فعل كان له ما لنا وعليه ما علينا، وكان أخانا فى دين الله، فإن قبلت ذلك أنت وأصحابك فقد سعدتم فى الدنيا والآخرة، ورجعنا عن قتالكم، ولم نستحل أذاكم ولا التعرض لكم، وإن أبيتم إلا الجزية فأدوا إلينا الجزية عن يد وأنتم صاغرون، نعاملكم على شىء نرضى به نحن وأنتم فى كل عام أبدا ما بقينا وبقيتم، ونقاتل عنكم من ناوأكم وعرض لكم فى شىء من أرضكم ودمائكم وأموالكم، ونقوم بذلك عنكم إذ كنتم فى ذمتنا، وكان لكم به عهد علينا، وإن أبيتم فليس بيننا وبينكم إلا المحاكمة بالسيف حتى نموت من آخرنا أو نصيب ما نريد منكم. هذا ديننا الذى ندين الله تعالى به، ولا يجوز لنا فيما بيننا وبينكم غيره، فانظروا لأنفسكم.
فرفع عبادة يديه فقال: لا ورب هذه السماء، ورب هذه الأرض، وربنا، ورب كل شىء، ما لكم عندنا خصلة غيرها، فاختاروا لأنفسكم.
الاكتفاء بما تضمنه من مغازي رسول الله - صلى الله عليه وسلم - والثلاثة الخلفاء (2/ 330۔335)
حضرت عبادۃ رضی اللہ عنہ نے بادشاہ کی چکنی چپڑی سننے کے بعد کہا ، تمہاری بات میں نے سن لی ، ہمارے جیسے چند لوگوں کو دیکھ کر تمہاری ہیبت و بزدلی کا یہ حال ہے ، حالانکہ ہمارے لشکر میں ہزار کے قریب ایسے لوگ ہیں ، جو ہم سے بھی زیادہ خوفناک ہیں ، میں گو جوانی کی عمر گزار چکا ، لیکن اس کے باوجو اس سن کہولت میں بھی اللہ کے فضل سے دشمن کے سو آدمیوں کے مد مقابل نکلنے کا جگر رکھتا ہوں ، ہماری رغبت و ہمت جہاد فی سبیل اللہ اور اللہ کی خوشنودی ہے ، ہم دشمنوں سے دنیاوی لالچ یا اس کی عیاشیاں حاصل کرنے کے لیے نہیں لڑتے ، گو اللہ تعالی نے اس کے نتیجے میں حاصل ہونے والے مال و زر کو ہمارے لیے حلال اور مال غنیمت قرار دیا ہے ، لیکن ہمیں اس بات کی کوئی پرواہ نہیں کہ ہمارے پاس سونے کا پہاڑ ہو یا صرف چاندی کا ایک درہم ، ، کیونکہ دنیاوی مال سے ہمارے لیے ایک لقمہ کافی ہے ، جو بھوک مٹا سکے ، ایک چادر کافی ہے جو تن چھپا سکے ، اگر اس سے مزید کچھ حاصل ہوتا ہے تو اللہ کی راہ میں لٹا دیتے ہیں ، کیونکہ حقیقی نعمتیں اور کشادگی تو آخرت کی ہے ، اس دنیا میں کیا رکھا ہے ،
یہ باتیں سن کر مقوقس حیرت و استعجاب میں کبھی اپنی رعایا کی طرف ، کبھی عبادہ کی طرف دیکھتا ہے ، اور پھروہی پرانی دھمکی اور لالچ ، حضرت عبادت جوابا پھر گویا ہوتے ہیں :
اوئے ! تم اور تمہارے ساتھی کسی دھوکے میں نہ رہیں ، رومیوں کی کثرت ، ان کی جنگی صلاحیت سے خوف دلانا اگر درست ہے تو یہ کسی اور کو ڈرانا ، ہم پر یہ وار اثر نہیں کرتے ، اگر واقعتا رومی اسی طرح ہیں ، تو ہم اپنے مد مقابل ایسے لوگ ہی چاہتے ہیں ، یا تو کشتوں کے پشتے لگادیں ، یا پھر اللہ کی جنتوں کے مہمان بن جائیں گے ، جیت گئے تو دنیاوی غنیمتیں ہیں ، ہار گئے تو أخروی نعمتیں ہماری منتظر ہیں ، اللہ عزوجل فرماتے ہیں ، کتنی ہی چھوٹی ٹولیاں بڑے لشکروں کو فنا کرکے رکھ دیتی ہیں ۔
اور ہم میں سے ہر ایک کا تو حال یہ ہے کہ صبح و شام شہادت کی دعائیں مانگتے ہیں ، اللہ کےر ستے میں نکلے ہیں تو گھربار سے بے فکر ہو کر نکلے ہیں ، اہل و عیال کو الواداعی سلام کرکے اللہ کے حوالے کر آئے ہیں ، اب ہمیں کسی چیز کی فکر ہے تو یہاں کی ۔
اور سن ! ہمیں معاشی تنگی ، اور بد حالی کے طعنے دینے کی ضرورت نہیں ، ہمارے پاس ساری دنیا بھی آجائے تو ہم اس میں سے وہی کچھ لیں گے ، جو اب ہمیں میسر ہے ، لہذا ہماری فکر چھوڑ اور اپنی بات کر ، دھوکے سے باہر نکلو ، تمہارے لیے تین میں سے ایک آپشن ہے :
1۔ ایمان لے آؤ ، ہمارے بھائی بن جاؤ ، جو ہمارا وہ تمہارا ، تمہارا دفاع ہماری ذمہ داری ، اور دنیاوی و اخروی کامیابی تمہارا مقدر ۔
2۔ جزیہ دو ، اور صلح کر لو ، اپنے دین پر قائم رہو ، لیکن معاہدہ کی بنا بر تمہاری حفاظت ہم پر حق ہے ۔
3۔ یا پھر قتال کے لیے تیار ہو جاؤ ، ہمارے درمیان فیصلہ تلوار کرے گی ، یا ہم مارے جائیں گے ، یا تمہیں مار ڈالیں گے ۔
یہی ہمارا دین ہے ، یہ اللہ کا حکم اس کے رسول کو ، رسول کا امیر المؤمنین کو ، امیر المومنین کا امیرلشکر کو ، اور اسی کے ہم پابند ہیں ۔ اس کے سوا کوئی چوتھا راستہ نہیں ۔ جو پسند ہے اختیار کرلو ۔
مقوقس نے پھر کہا ، اس کے علاوہ کوئی گنجائش نہیں نکل سکتی ؟
اب کی بار حضرت عبادہ نے ہاتھ بلند کرکے فرمایا ، زمین و آسمان اور ان کے درمیان ہر چیز، اور ہمارے رب کی قسم ، ہمارے پاس ان سے ہٹ کر کوئی آپشن نہیں ۔اسی میں سے ایک اختیار کرنا پڑے گا۔​
میرے علم کے مطابق تو اس خط کی کوئی حقیقت نہیں!
مزید تفصیل کے لئے @اسحاق سلفی ، @خضر حیات اور @اشماریہ کی خدمات کا انتظار کرتے ہیں!
 
Last edited:

Naeem Mukhtar

رکن
شمولیت
اپریل 13، 2016
پیغامات
81
ری ایکشن اسکور
25
پوائنٹ
32
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!

یہ بات خلاف واقعہ معلوم ہوتی ہے؛ مصر کو مسلمانوں نے سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں فتح کیا، اور اسے اسلامی ریاست کا حصہ بنایا!
اس حوالہ سے ایک تحریر اس فورم پر موجود ہے، اسے ملاحظہ فرمائیں:

میرے علم کے مطابق تو اس خط کی کوئی حقیقت نہیں!
مزید تفصیل کے لئے @اسحاق سلفی ، @خضر حیات اور @اشماریہ کی خدمات کا انتظار کرتے ہیں!
اللہ رب العزت آپ کو جزائے خیر سے نوازے۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
بالکل من گھڑت ہے ۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جو وثیقے لکھوائے تھے وہ سارے کے سارے کتب احادیث و تاریخ میں موجود ہیں ۔
یہ تو پھر ایک پورے مذہب کو امان کی بات ہے ، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک فرد ابو شاہ کے لیے احادیث لکھنے کا حکم دیا تھا ، اس کا ذکر بھی احادیث میں موجود ہے ۔
زکاۃ وغیرہ کی تفصیلی احادیث کا ذکر مسلمانوں کے ہاں موجود ہے ۔
یہ ممکن نہیں کہ حضور نے اتنی اہم دستاویز لکھائی ہو ، اور کسی صحابی کے علم میں ہی نہ ہو ، اور خود کاتبین رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بات آگے منتقل نہ ہو ۔
اس وثیقے کو مستند ثابت کرنے کے لیے جو سب سے بڑا دعوی کیا گیا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ کا نقش اس بر موجود ہے ، اس کا ثبوت سرے سے اس وثیقے میں موجود ہی نہیں ۔ جو چھاپہ لگایا گیا ، وہ بالکل واضح ہے کہ بناوٹی ہے ۔
عیسائیوں وغیرہ کے اس قسم کے وثیقے متقدمین محدثین کے دور میں بھی پیش کرنے کی کوشش کی گئی ، لیکن محدثین نے انہیں من گھڑت ہونے کی بنا پر قبول نہیں کیا۔
 

Naeem Mukhtar

رکن
شمولیت
اپریل 13، 2016
پیغامات
81
ری ایکشن اسکور
25
پوائنٹ
32
بالکل من گھڑت ہے ۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جو وثیقے لکھوائے تھے وہ سارے کے سارے کتب احادیث و تاریخ میں موجود ہیں ۔
یہ تو پھر ایک پورے مذہب کو امان کی بات ہے ، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک فرد ابو شاہ کے لیے احادیث لکھنے کا حکم دیا تھا ، اس کا ذکر بھی احادیث میں موجود ہے ۔
زکاۃ وغیرہ کی تفصیلی احادیث کا ذکر مسلمانوں کے ہاں موجود ہے ۔
یہ ممکن نہیں کہ حضور نے اتنی اہم دستاویز لکھائی ہو ، اور کسی صحابی کے علم میں ہی نہ ہو ، اور خود کاتبین رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بات آگے منتقل نہ ہو ۔
اس وثیقے کو مستند ثابت کرنے کے لیے جو سب سے بڑا دعوی کیا گیا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ کا نقش اس بر موجود ہے ، اس کا ثبوت سرے سے اس وثیقے میں موجود ہی نہیں ۔ جو چھاپہ لگایا گیا ، وہ بالکل واضح ہے کہ بناوٹی ہے ۔
عیسائیوں وغیرہ کے اس قسم کے وثیقے متقدمین محدثین کے دور میں بھی پیش کرنے کی کوشش کی گئی ، لیکن محدثین نے انہیں من گھڑت ہونے کی بنا پر قبول نہیں کیا۔
رہنمائی کا شکریہ۔۔

جزاکم اللہ خیرا
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
میرے علم کے مطابق تو اس خط کی کوئی حقیقت نہیں!
مزید تفصیل کے لئے @اسحاق سلفی ، @خضر حیات اور @اشماریہ کی خدمات کا انتظار کرتے ہیں!
السلام علیکم ورحمۃ اللہ
ــــــــــــــــــــــــــــــ
پہلے آپ Saint Catherine's Monastery )خانقاۂ مقدسہ کیتھرین (عربی: دير القدّيسة كاترين؛ سینٹ کیتھرین، محافظہ جنوبی سینا، مصر
کا ایک بیرونی منظر دیکھئے :
سینٹ کیتھرین مصر-Katharinenkloster_Sinai.jpg

ـــــــــــــــــــــــــــــــــــ
مکتبہ شاملہ میں (فتاوی دار الافتاء المصریہ ) موجود ہے ، اس فتاویٰ میں اس عیسائی خانقاہ اور مذکورہ عہد نامہ کے متعلق ایک فتویٰ ملاحظہ فرمائیں :
جس کا مختصر خلاصہ یہ ہے کہ :
خانقاۂ مقدسہ کیتھرین :
جنوبی سینا، مصر میں واقع ایک مسیحی خانقاہ جو کلیسیائے سینا کے ماتحت اور ایک عالمی ثقافتی ورثہ ہے۔ یہ خانقاہ یہاں سے دریافت شدہ بائبل کے قدیم نسخے (نسخۂ سینا) کی وجہ سے خاصی معروف ہے۔ یہ خانقاہ ایک مسیحی شہید کیتھرین اسکندری کے نام پر ہے۔
جسٹنین اول ایک بازنطینی شہنشاہ نے (545 عیسوی ) میں بنوائی تھی۔ وہ 527ء میں قسطنطنیہ میں روما کے تخت پر بیٹھا۔ کسان کا بیٹا تھا۔ معمولی عہدے سے ترقی کرکے وزیر ہوا۔ اور شہشاہ جسٹن اول کے انتقال پر بادشاہ بن گیا۔
اس عیسائی خانقاہ میں عیسائیوں کے دعوے کے مطابق پیغبر اسلام ﷺ سے منسوب ایک عہد نامہ پایا جاتا ہے ، جو ان کے خیال میں نبی کریم ﷺ نے ان کو " امان " کے طور پر دیا تھا ؛
اس عہد نامہ کے متعلق مشہور ہے کہ ترکی کی عثمانی سلطنت کے سلطان سلیم نے (1517 ء) جب مصر فتح کیا تو یہ عہد نامہ ترکی لے گیا اور شاہی مکتبہ یا میوزیم واقع آستانہ میں رکھوادیا ، اس عہد نامہ کے مختلف نمونے یعنی نقول پائی جاتی ہیں ، بعض عربی میں ہیں ،اور بعض ترکی زبان میں ہیں ، اور یہ نقول ایک دوسرے سے بہت مختلف ہیں جس کی بناء پر بعض محققین نے ان عہد ناموں کی صحت و ثبوت کو مشکوک کہا ہے ،انہی محققین میں احمد زکی پااشا بھی ہیں جنہوں نے مستشرقین کی بین الاقوامی کانفرنس میں پیش کردہ اپنے مقالہ میں اس عہد نامہ کی صحت کی نفی کی ۔
international conference orientalist
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عهد لرهبان سيناء

المفتي الشیخ عطية صقر.
مايو 1997
ـــــــــــــــــــــــــــــــــ

لسؤال
هل صحيح أن هناك عهدا مكتوبا من النبى صلى الله عليه وسلم للرهبان فى طور سيناء ما زال موجودا إلى الآن، وهل هناك عهد من عمر أيضا لذلك؟

الجواب
يقول الأستاذ حسن محمد قاسم: يوجد فى صحراء سينا دير الروم الأرثوذكسى، بناه الإمبراطور "جستنياس" سنة 545 م، وهو فى سفح قمة على أحد فروع وادى الشيخ، ويعلو عن سطح الأرض بحوالى 5012 قدما ومساحة سور85 X75 مترا ويسكن فيه الآن (1934 م) ستون راهبا يرأسهم مطران وله وكيل. توجد فيه صورة عهد قديم منسوب إلى النبى صلى الله عليه وسلم -على زعمهم- كتبه لهم فى السنة الثانية للهجرة أمانًا لهم وللنصارى كافة. وأن السلطان سليم العثمانى عند فتحه لمصر سنة 923 هـ (1517 م) أخذه منهم وحمله إلى المكتبة السلطانية بالآستانة، وترك لهم صورة مع ترجمتها باللغة التركية، وتوجد منها عدة صور بالعربية والتركية، بعضها منسوخ فى كتاب صغير، وبعضها على رق غزال، وكل صورة منها تختلف بوضوح عن الأخرى، ويلى هذا العهد عهد آخر نسب إلى سيدنا عمر، وهو كالأول فى بنايته، ولذلك أنكر بعض الباحثين صحة ذلك عن النبى صلى الله عليه وسلم، ومنهم المحقق أحمد زكى باشا، وألقى فى ذلك محاضرة فى المؤتمر الدولى العام للمستشرقين.
ومما جاء فى فاتحة هذا العهد عن أصح صورة عندهم وأقدمها:
هذا كتاب كتبه محمد بن عبد الله إلى كافة الناس أجمعين بشيرا ونذيرا ومؤتمنا على وديعة الله فى خلقه، لئلا يكون للناس على الله حجة بعد الرسل وكان الله عزيزا حكيما، كتبه لأهل ملته ولجميع من ينتحل دين النصرانية من مشارق الأرض ومغاربها. وجاء فى آخره: وكتب على بن أبى طالب هذا العهد بخطه فى مسجد النبى صلى الله عليه وسلم بتاريخ الثالث من المحرم ثانى سنى الهجرة، وذكر فى أسماء الصحابة الذين وقعوا على هذا العهد: غاز بن ياسينى - معظم بن قرشى - عبد العظيم ابن حسن -ثابت بن نفيس من أسماء أخرى.
وجاء فى خاتمة العهد العمرى: تمت وسطرت هذه النسخة فى ثانى رجب المرجب سنة 968 (19 مارس 1561 م) ما تضمنته هذه العهدة تامة المنسوبة إلى أمير المؤمنين عمر بن الخطاب فى حق طائفة القسس والرهبان على وفق الشروط، والله أعلم بالصواب (الختم) طه بن محمد سعد.
نص العهد العمرى هذا ما أعطى عبد الله عمر أمير المؤمنين أهل إيلياء من الأمان، أعطاهم أمانًا لأنفسهم وأموالهم ولكنائسهم وصلبانهم، وسقيمها وبريئها وسائر ملتها، أنه لا تسكن كنائسهم ولا تهدم ولا ينقص منها ولا خبزها ولا من صليبهم ولا من شىء من أموالهم، ولا يكرهون على دينهم ولا يضار أحد منهم، ولا يسكن بإيلياء معهم أحد من اليهود، وعلى أهل إيلياء أن يعطوا الجزية كما يعطى أهل المدائن، وعليهم أن يخرجوا منها الروم واللصوت، فمن خرج منهم فإنه آمن على نفسه وماله حتى يبلغوا مأمنهم، ومن أقام منهم فهو آمن، وعليه مثل ما على أهل إيلياء من الجزية، ومن أحب من أهل إيلياء أن يسير بنفسه وماله مع الروم ويخلِّى بيعهم وصلبهم فإنهم آمنون على أنفسهم وعلى بيعهم وصلبهم حتى يبلغوا مأمنهم، ومن كان بها من أهل الأرض قبل مقتل فلان فمن شاء منهم قعدوا عليه مثل ما على أهل إيلياء من الجزية، ومن شاء سار مع الروم، ومن شاء رجع إلى أهله، فإنه لا يؤخذ منهم شىء حتى يحصد حصادهم. وعلى ما في هذا الكتاب عهد الله وذمة رسوله وذمة الخلفاء وذمة المؤمنين إذا أعطوا الذى عليهم من الجزية، شهد على ذلك خالد بن الوليد وعمرو بن العاص وعبد الرحمن بن عوف ومعاوية بن أبى سفيان، وكتب وحفر سنة خمس عشرة "مجلة الرسالة الإِسلامية -بيروت فى 26 / 2 / 1979 م".
 

Naeem Mukhtar

رکن
شمولیت
اپریل 13، 2016
پیغامات
81
ری ایکشن اسکور
25
پوائنٹ
32
السلام علیکم ورحمۃ اللہ
ــــــــــــــــــــــــــــــ
پہلے آپ Saint Catherine's Monastery )خانقاۂ مقدسہ کیتھرین (عربی: دير القدّيسة كاترين؛ سینٹ کیتھرین، محافظہ جنوبی سینا، مصر
کا ایک بیرونی منظر دیکھئے :
20069 اٹیچمنٹ کو ملاحظہ فرمائیں
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــ
مکتبہ شاملہ میں (فتاوی دار الافتاء المصریہ ) موجود ہے ، اس فتاویٰ میں اس عیسائی خانقاہ اور مذکورہ عہد نامہ کے متعلق ایک فتویٰ ملاحظہ فرمائیں :
جس کا مختصر خلاصہ یہ ہے کہ :
خانقاۂ مقدسہ کیتھرین :
جنوبی سینا، مصر میں واقع ایک مسیحی خانقاہ جو کلیسیائے سینا کے ماتحت اور ایک عالمی ثقافتی ورثہ ہے۔ یہ خانقاہ یہاں سے دریافت شدہ بائبل کے قدیم نسخے (نسخۂ سینا) کی وجہ سے خاصی معروف ہے۔ یہ خانقاہ ایک مسیحی شہید کیتھرین اسکندری کے نام پر ہے۔
جسٹنین اول ایک بازنطینی شہنشاہ نے (545 عیسوی ) میں بنوائی تھی۔ وہ 527ء میں قسطنطنیہ میں روما کے تخت پر بیٹھا۔ کسان کا بیٹا تھا۔ معمولی عہدے سے ترقی کرکے وزیر ہوا۔ اور شہشاہ جسٹن اول کے انتقال پر بادشاہ بن گیا۔
اس عیسائی خانقاہ میں عیسائیوں کے دعوے کے مطابق پیغبر اسلام ﷺ سے منسوب ایک عہد نامہ پایا جاتا ہے ، جو ان کے خیال میں نبی کریم ﷺ نے ان کو " امان " کے طور پر دیا تھا ؛
اس عہد نامہ کے متعلق مشہور ہے کہ ترکی کی عثمانی سلطنت کے سلطان سلیم نے (1517 ء) جب مصر فتح کیا تو یہ عہد نامہ ترکی لے گیا اور شاہی مکتبہ یا میوزیم واقع آستانہ میں رکھوادیا ، اس عہد نامہ کے مختلف نمونے یعنی نقول پائی جاتی ہیں ، بعض عربی میں ہیں ،اور بعض ترکی زبان میں ہیں ، اور یہ نقول ایک دوسرے سے بہت مختلف ہیں جس کی بناء پر بعض محققین نے ان عہد ناموں کی صحت و ثبوت کو مشکوک کہا ہے ،انہی محققین میں احمد زکی پااشا بھی ہیں جنہوں نے مستشرقین کی بین الاقوامی کانفرنس میں پیش کردہ اپنے مقالہ میں اس عہد نامہ کی صحت کی نفی کی ۔
international conference orientalist
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عهد لرهبان سيناء

المفتي الشیخ عطية صقر.
مايو 1997
ـــــــــــــــــــــــــــــــــ

لسؤال
هل صحيح أن هناك عهدا مكتوبا من النبى صلى الله عليه وسلم للرهبان فى طور سيناء ما زال موجودا إلى الآن، وهل هناك عهد من عمر أيضا لذلك؟

الجواب
يقول الأستاذ حسن محمد قاسم: يوجد فى صحراء سينا دير الروم الأرثوذكسى، بناه الإمبراطور "جستنياس" سنة 545 م، وهو فى سفح قمة على أحد فروع وادى الشيخ، ويعلو عن سطح الأرض بحوالى 5012 قدما ومساحة سور85 X75 مترا ويسكن فيه الآن (1934 م) ستون راهبا يرأسهم مطران وله وكيل. توجد فيه صورة عهد قديم منسوب إلى النبى صلى الله عليه وسلم -على زعمهم- كتبه لهم فى السنة الثانية للهجرة أمانًا لهم وللنصارى كافة. وأن السلطان سليم العثمانى عند فتحه لمصر سنة 923 هـ (1517 م) أخذه منهم وحمله إلى المكتبة السلطانية بالآستانة، وترك لهم صورة مع ترجمتها باللغة التركية، وتوجد منها عدة صور بالعربية والتركية، بعضها منسوخ فى كتاب صغير، وبعضها على رق غزال، وكل صورة منها تختلف بوضوح عن الأخرى، ويلى هذا العهد عهد آخر نسب إلى سيدنا عمر، وهو كالأول فى بنايته، ولذلك أنكر بعض الباحثين صحة ذلك عن النبى صلى الله عليه وسلم، ومنهم المحقق أحمد زكى باشا، وألقى فى ذلك محاضرة فى المؤتمر الدولى العام للمستشرقين.
ومما جاء فى فاتحة هذا العهد عن أصح صورة عندهم وأقدمها:
هذا كتاب كتبه محمد بن عبد الله إلى كافة الناس أجمعين بشيرا ونذيرا ومؤتمنا على وديعة الله فى خلقه، لئلا يكون للناس على الله حجة بعد الرسل وكان الله عزيزا حكيما، كتبه لأهل ملته ولجميع من ينتحل دين النصرانية من مشارق الأرض ومغاربها. وجاء فى آخره: وكتب على بن أبى طالب هذا العهد بخطه فى مسجد النبى صلى الله عليه وسلم بتاريخ الثالث من المحرم ثانى سنى الهجرة، وذكر فى أسماء الصحابة الذين وقعوا على هذا العهد: غاز بن ياسينى - معظم بن قرشى - عبد العظيم ابن حسن -ثابت بن نفيس من أسماء أخرى.
وجاء فى خاتمة العهد العمرى: تمت وسطرت هذه النسخة فى ثانى رجب المرجب سنة 968 (19 مارس 1561 م) ما تضمنته هذه العهدة تامة المنسوبة إلى أمير المؤمنين عمر بن الخطاب فى حق طائفة القسس والرهبان على وفق الشروط، والله أعلم بالصواب (الختم) طه بن محمد سعد.
نص العهد العمرى هذا ما أعطى عبد الله عمر أمير المؤمنين أهل إيلياء من الأمان، أعطاهم أمانًا لأنفسهم وأموالهم ولكنائسهم وصلبانهم، وسقيمها وبريئها وسائر ملتها، أنه لا تسكن كنائسهم ولا تهدم ولا ينقص منها ولا خبزها ولا من صليبهم ولا من شىء من أموالهم، ولا يكرهون على دينهم ولا يضار أحد منهم، ولا يسكن بإيلياء معهم أحد من اليهود، وعلى أهل إيلياء أن يعطوا الجزية كما يعطى أهل المدائن، وعليهم أن يخرجوا منها الروم واللصوت، فمن خرج منهم فإنه آمن على نفسه وماله حتى يبلغوا مأمنهم، ومن أقام منهم فهو آمن، وعليه مثل ما على أهل إيلياء من الجزية، ومن أحب من أهل إيلياء أن يسير بنفسه وماله مع الروم ويخلِّى بيعهم وصلبهم فإنهم آمنون على أنفسهم وعلى بيعهم وصلبهم حتى يبلغوا مأمنهم، ومن كان بها من أهل الأرض قبل مقتل فلان فمن شاء منهم قعدوا عليه مثل ما على أهل إيلياء من الجزية، ومن شاء سار مع الروم، ومن شاء رجع إلى أهله، فإنه لا يؤخذ منهم شىء حتى يحصد حصادهم. وعلى ما في هذا الكتاب عهد الله وذمة رسوله وذمة الخلفاء وذمة المؤمنين إذا أعطوا الذى عليهم من الجزية، شهد على ذلك خالد بن الوليد وعمرو بن العاص وعبد الرحمن بن عوف ومعاوية بن أبى سفيان، وكتب وحفر سنة خمس عشرة "مجلة الرسالة الإِسلامية -بيروت فى 26 / 2 / 1979 م".
بھائی عربی سے تو نابلد ہوں لیکن اردو کو پڑھ لیا۔

آپ کی کاوش کا شکریہ۔

جزاکم اللہ خیرا
 
Top