• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مشاہیر قراء کرام کا تذکرہ

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
اِمام شاطبی﷫
آپ کا اِسم گرامی اَبومحمد قاسم بن خلف بن اَحمد الرعینی الشاطبی الاندلسی الشافعی ہے۔
۵۳۸ھ کے آواخر میں آپ اپنے آبائی شہر الشاطبہ میں پیدا ہوئے۔یہی پر الشیخ ابی عبداللہ محمد بن ابی لعاص النفزی﷫ سے قراء ات پڑھیں اور خوب حفظ کیا۔
بعد اَزاں بلنسہ جو شاطبہ کے قریب ہی واقع تھا تشریف لے گئے وہاں الشیخ اَبی الحسن بن ھذیل، اَبی الحسن بن نعمہ، ابی عبداللہ بن سعادۃ، ابی محمد عاشر بن محمد، ابی عبداللہ بن عبدالرحیم، علیم بن عبدالعزیز اور ابی عبداللہ بن حمید﷭ سے علم قراء ات اور علم حدیث پڑھا۔
اس کے بعد آپ سفرِ حج کے لیے روانہ ہوئے تو مصر کے شہر اَسکندریہ میں شیخ اَبوطاہر السلفی سے ملاقات ہوئی آپ نے اُن سے سماعِ حدیث فرمایا۔ حج سے واپسی پر جب آپ مصر پہنچے تو شائقین علوم قرآن و حدیث میں آپ کی آمد کی اِطلاع پھیل گئی لہٰذا مصر کے اَطراف و اَکناف سے طالبانِ علوم نبوت جوق در جوق حاضر ہوئے۔اس بات کا جب حاکم شہر قاضی فاضل کوپتہ چلا تو وہ آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ کو مدرسہ فاضلیۃ کا شیخ مقرر کرنے کی درخواست کی۔ آپ نے قبول فرمائی۔ اسی زمانہ میں آپ نے اَپنے مشہورِ زمانہ کتاب قصیدۃ الشاطبیۃ تحریر فرمائی۔ جب فصحاء بلغاء نے اُسے دیکھا تو اس جیسی پرمغز اور لطیف کلام دیکھ کر محو حیرت ہوگئے۔
شیخ ابوالحسن بن فیرہ، ابوموسیٰ عیسیٰ بن یوسف المقدسی اور شیخ ابوالقاسم عبدالرحمن بن سعید ﷭آپ کے حافظہ کے عجیب و غریب قصے بیان کرتے ہیں اور علماء آپ کو آیۃ من ایات اﷲ مانتے ہیں۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
٭ ابن صلاح﷫ فرماتے ہیں :
’’ آپ ایک صالح، متقی معروف اور مقری کبیر تھے آپ نے بہترین قصیدہ لکھا ہے۔ آپ کے وقت میں مصر میں کوئی اَیسا شخص نہیں تھا جو آپ سے زیادہ فنون میں ماہر ہو۔‘‘
٭ ابن خلکان﷫ فرماتے ہیں :
’’جب آپ پر بخاری اور مؤطا پڑھی جاتی تو آپ اپنے حافظہ سے اس کی تصحیح کرواتے۔‘‘(معرفۃ القراء الکبار: ۳؍۱۱۱۴)
امام شاطبی﷫ نے چار مختلف علوم میں قصائد تحریر فرماتے ہیں جو اَپنی مثال آپ ہیں۔ یہ اصل میں دیگر کتب کو نظم کیا گیا ہے مثلاً قصیدہ شاطبیہ یہ اِمام دانی﷫ کی کتاب التیسر کی نظم ہے عقیلہ یہ المقنع کی نظم ہے۔ اسی طرح آپ اِمام دانی﷫ کی کتاب البیان فی عدآی القرآن کوبھی ناظمۃ الزھر کے نام سے نظم فرمایا ہے۔ نیز ابن عبدالبر﷫ کی کتاب التمہید کوقصیدہ دالیہ میں نظم فرما دیا ہے۔
آپ﷫ کے مشہور تلامذہ میں سے اِمام ابوالحسن علی بن محمد السخاوی، ابوعبداللہ محمد بن عمر الکروی، عیسیٰ بن یوسف بن اسماعیل المقدسی، ابوعمرو عثمان بن عمر بن الحاجب، عبداللہ بن محمد بن عبدالوارث﷭ شامل ہیں
آپ﷫ کو حرمین کے بعد بیت المقدس کی زیارت کابہت اِشتیاق تھا اور اس کی آپ دعا بھی کیا کرتے تھے۔ جب سلطان صلاح الدین نے بیت المقدس کو فتح کیاتو آپ وہاں تشریف لے گئے رمضان وہاں گزارا اِعتکاف فرمایا بعد اَز زیارت دوبارہ مصر تشریف لائے اور درس وتدریس میںمشغول ہوگئے لیکن رفیق الاعلیٰ کی طرف سے بلاوا آگیا اور آپ نے ۵۹۰؍ھ کو اپنی جان جاں آفرین کے سپرد کردی۔ رحمۃ اﷲ علیہ رحمۃً واسعۃً۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
اِمام ذہبی﷫
آپ کا نام شمس الدین ابی عبدالرحمن محمد بن اَحمد بن عثمان بن الذہبی الدمشقی الشافعی ہے۔
آپ ۶۷۳؍ھ کو دمشق شام میں پیدا ہوئے یہاں آپ کے دادا نورالدین زنگی کے دور میں آئے تھے اور پھر یہاں ہی کے ہوکر رہ گئے۔
آپ کو اللہ رب العزّت نے اِتنا علم عطا فرمایا کہ ہم عصروں میں سے کوئی بھی آ پ کے مرتبہ کو نہ پہنچ سکا۔ اللہ رب العزّت نے ذکاء فہم اور ضبط اس قدر وافر عطا کیا تھا کہ معاصرین میں سے کسی کو اِس قدر نہیں ملا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو وُسعتِ فہم سے بحرالعلوم بنا دیا تھا اس وجہ سے آپ شیخ العلم حامل لواء العلم اور حافظ الحدیث مشہور ہوئے۔ لوگوں کے دلوں میں آپ کے لیے بے پناہ محبت تھی طلباء آپ کی مجالس میں ذوق و شوق سے شامل ہوتے اور عوام الناس آپ کی مجالس کو اعلیٰ اَخلاق اور محبت کا گنجینہ سمجھتے تھے اور گفتگو اس قدر پُراَثر ہوگی کہ جی چاہتا سنتے ہی جائیں۔
اِمام ذہبی﷫ نے اپنی باقاعدہ تعلیم کا آغاز بہت بڑے اَدیب علاء الدین علی بن محمد الحلبی المعروف البصیص﷫سے کیا یہ بہت بڑے خطاط تھے اور بچوں کے بہترین معلم کے طور پر مشہور تھے۔ ان سے بنیادی تعلیم حاصل کرنے کے بعد حفظِ قرآن کے لیے مسعود بن عبداللہ الاغازازی﷫ کی خدمت میں حاضر ہوئے ان سے قرآن حفظ کرنے کے بعد چالیس مرتبہ قرآن کریم مکمل سنایا۔
مزید علومِ دینہ کے حصول کے لیے دیگر شیوخ کے حلقات کی طرف رجوع شروع کردیا۔ صدر الدین محمد بن عمر بن مکی العثمانی سے سب سے پہلے دارالحدیث میں صحیح مسلم کا سماع کیا، اس کے بعد باقاعدہ اِہتمام کے ساتھ علم قراء ات کی تعلیم شیخ القراء جمال الدین اَبی اِسحاق ابراہیم بن داؤد العسقلانی الدمشقی المعروف الفاضلی﷫ سے حاصل کی۔ یہ اِمام سخاوی﷫ کے تلامذہ میں سے ہیں۔ اِس کے علاوہ اِمام ذہبی﷫نے جمال الدین ابراہیم بن عالب شاور البدوی الحمیری﷫سے اور ابی عبداللہ بن جبرئیل المصری﷫ سے علم قراء ات پڑھا اس کے علاوہ دیگر بہت سارے شیوخ سے علم قراء ات میں اِجازے حاصل کئے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
علم قراء ات میں متفق ہونے کے بعد شیخ محمد بن عبدالعزیز الدمیاطی﷫نے اُنہیں اپنی جگہ جامع الاموی میں مسندِ تدریس پر بٹھا دیا۔
علم قراء ات میں دسترس حاصل کرنے کے بعد اِمام ذہبی﷫حدیث اور علوم حدیث کی طرف متوجہ ہوئے اور پھر اس فن کے ماہرین کے سامنے زانوئے تلمذ طے کیے جن میں اَبی حفص عمر بن عبدالمنعم ابن القواس، ابی الفضل اَحمد بن ہبۃ اﷲ بن عساکر، یوسف بن اَحمد الغسولی، اسی طرح مصر میں ابی العباس اَحمد بن محمد بن عبداللہ الحلبی المعروف بابن الطاہری، ابی المعالی احمد بن اسحاق الاہرقوہی ، ابن دقیق العید ابی الفتح محمد بن علی، شرف الدین عبدالمؤمن بن خلف الدمیاطی، تاج الدین ابی الحسن علی بن حمد بن عبدالمحسن الہاشمی الغرافی، اسی طرح بعلبک میں تاج الدین عبدالخالق بن عبدالسلام البعلب کی حلب میں مستقر بن عبداللہ الزینی بعلبک میں زینب بنت عمر الکندیہ نے بھی حدیث میں اِستفادہ کیا، نابلس میں عماد الدین عبدالحافظ بن بدران النابلسی مکہ میں فخرالدین اَبی عمرو عثمان بن محمد التوزی﷭ سے بھی اِستفادہ کیا ہے۔
اِمام ذہبی﷫ حدیث ، علوم حدیث ، قراء ات ، علوم قرآن ،تاریخ، عقائد ، تراجم اور دیگر بے شمار علوم میں ماہر تھے انہوں نے ان جمیع علوم میں تقریباً دو سو کتب تحریر کی ہیں جن کی تفصیلی فہرست الدکتور طیا لسی﷫ نے معرفۃ القراء کے شروع میں ذکر کی ہے۔
اِمام ذہبی﷫ نے مطالعہ کی اس قدر زیادتی کی اور اس قدر علمی کام کیا کہ اواخر عمر میں اپنی بینائی سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے۔ اِمام ذہبیa کے معروف تلمیذ تاج الدین السبکی﷫ کہتے ہیں:
’’ آپ بروز سوموار ۳ ؍ذیقعدہ ۷۴۸ ہجری میں مدرسہ اُم صالح کے ایک ہال میں اللہ کو پیارے ہوئے۔‘‘ رحمہ اﷲ
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
الشیخ شہاب الدین ابوشامۃ﷫
اِسم گرامی ابومحمد عبدالرحمن بن اسماعیل بن ابراہیم بن عثمان بن ابی بکر بن عباس المقدسی الدمشقی الشافعی۔
آپ بہت بڑے مقری، ماہرِ لغت و اعراب، عظیم محدث، نابغۂ روزگار، فقیہہ او رمایہ ناز مؤرخ تھے۔ آپ ۵۹۹ھ میں دمشق میں پیداہوئے۔ اَوائل عمری ہی میں آپ نے قراء ات پڑھنا شروع کردیں اور بہت جلد تکمیل فرما لی۔ آپ نے جلیل القدر قراء و محدثین کے سامنے زانوائے تلمذ طے کئے جن میں الشیخ علم الدین السخاوی﷫ تلمیذ اِمام شاطبی﷫، اِمام ابوالقاسم بن عیسیٰ﷫، داؤد بن ملاہب﷫، اَحمدبن عبداللہ السلمی﷫ اور الشیخ مؤفق الدین المقدسی﷫ شامل ہیں۔
آپ اِبتدا علم قراء ات و لغت کی طرف ہی اپنی توجہ مرکوز کئے ہوئے تھے۔ طلبِ حدیث کا شوق تقریباً چالیس سال کی عمر میں ہوا لہٰذا سب سے پہلے آپ نے محدث ابی اسحاق بن الخشوعی سے سماع کیا۔ فقہ میں آپ نے فخر بن عساکر﷫، ابن عبدالسلام﷫، سیف ا لآمدی﷫ اور موفق الدین بن قدامہ﷫ سے تحصیل علم کیا۔
آپ سے علم قراء ات الشیخ شہاب الدین حسین بن الکفری﷫، محمد بن موفق اللبان﷫، شیخ شرف الدین اَحمد بن سیاح الفزاری﷫ اور اِبراہیم بن فلاح الاسکندرانی﷫ نے حاصل کیا۔
آپ کے مناقب میں منقول ہے کہ یکتائے روزگار عالم تھے اور آپ نے کئی علوم میں کتب تصنیف فرمائیں ہیں۔ آپ بے حد فہیم، طبعاً منکسر المزاج اور تکلفات کے قائل نہ تھے۔
٭ تاج الدین الفزاری﷫ کہتے ہیں :
’’شیخ شہاب الدین ابوشامہ مجتہد کے درجہ پر فائز تھے اور بعض اَوقات اَشعار بھی کہا کرتے تھے۔ مختصر یہ کہ آپ کے زمانہ میں اَمانت و دیانت اور عفت و پاکدامنی میں آپ کا مثل کوئی نہ تھا۔ آپ کے علمی رُسوخ کا یہ حال تھاکہ آپ دارالحدیث الاشرفیہ میں تمام عمر تدریس کی مسند صدارت پر فائز رہے او ریہ وہ اعلیٰ منصب تھا کہ جس کے آپ کے بعد اِمام نووی﷫ مستحق ٹھہرے۔‘‘
آپ نے کئی کتب تصنیف فرمائیں جن میں سے چند اَشہر یہ ہیں۔ شرح کبیر علی حرز الأمانی، اَبراز المعانی عن حرزالأمانی، کتاب الرّد الی الأمر الاوّل، اختصار تاریخ دمشق، کتاب فی المبعث، کتاب فی الاسراء، کتاب الروضتین فی الدولتین، النوریہ والصلاصیۃ، الذیل علی ذلک، کتاب اِنکار البداع۔
آپ کو ۱۹ ؍رمضان المبارک ۶۶۵ھ کو شہید کردیا گیا۔ إناﷲ وإنا إلیہ راجعون۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
امام ابی عبداللہ﷫المعروف بشعلہ
اِمام ابی عبداللہ محمد بن اَحمد بن حسن الموصلی المقري الحنبلي المعروف بشعلہ۔ ۶۲۷ہجری کو اپنے آبائی شہر موصل میں پیدا ہوئے۔ آپ ایک صالح ، زَاہد کامل عارف اِنسان تھے۔ آپ نے علوم قراء ات چھوٹی عمر میں سیکھ لیے تھے۔ لغہ عربیہ میں مہارتِ تامہ رکھتے تھے۔
٭ امام ذہبی﷫ فرماتے ہیں:
’’ الشیخ الموصلی ایک محقق فاضل اور علم قراء ات میں ماہر تھے۔ علم نحو میں آپ کی نظیر نہ تھی۔ آپ کے اُستاد شیخ اَبوالحسن فرماتے ہیں کہ ایک روز ابوعبداللہ میرے قریب سو رہے تھے کہ َاچانک بیدار ہوئے اور کہنے لگے کہ مجھے ابھی خواب میں رسول اللہﷺملے ہیں اور میں نے ان سے علم کی دعا چاہی ہے اور آپ نے مجھے ایک کھجور کھلائی اسی وقت سے اللہ رب العزّت نے میرے اُوپر تمام علوم کے دروازے کھول دیئے۔‘‘
آپ﷫نے قصیدہ شاطبیہ کی ایک بہت ہی عمدہ شرح کنز المعانی فی شرح حرز الأمانی کے نام سے تحریر فرمائی ہے جو کہ اَہل علم کے ہاں بہت ہی مقبول ہے۔
آپ ماہ صفر ۶۵۶ہجری کو اس دنیا عارضی کو چھوڑ کر اَبدی کائنات کی طرف سدھار گئے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
علامہ جلال الدین السیوطی﷫
آپ کا اِسم شریف ابوالفضل عبدالرحمن بن الکمال بن اَبی بکر بن محمد بن سابق الدین بن الفخر بن عثمان بن محمد بن خضر بن اَیوب بن ناصر الدین محمد بن الشیخ ہمام الدین الہمام الخضری الأسیوطی ہے۔آپ یکم رجب ۸۴۹ھ بروز اِتوار بعد نماز مغرب قاہرہ میں پیدا ہوئے۔
جب اِمام سیوطی﷫ کی عمر صرف پانچ سال تھی توآپ کے والد وفات پا گئے۔ اِس وقت آپ نے سورۃ تحریم تک حفظ کیاتھا۔ اس کے بعد آپ یتیمی کی حالت میں پلے بڑھے۔ آپ کے والد نے ’فتح القدیر‘ کے مصنف کمال بن ہمام کو اپنے بیٹے عبدالرحمن کی تربیت اور سرپرستی کی وصیت کی ۔
آپ ابھی آٹھ سال کے تھے کہ مکمل قرآن کریم حفظ کر لیا۔ اس کے بعد العمدۃ، المنہاج الفقہي، المنہاج الأصولی اور ألفیۃ ابن مالک حفظ کیے۔ آپ نے حصولِ علم کے لیے شام، حجاز، یمن، ہند، مغرب اور بہت سے مصری شہروں کا سفر کیا۔ اِنہی اَسفار کے دوران آپ حج کی سعادت سے بھی فیض یاب ہوئے۔ زمزم پیتے ہوئے آپ نے جو دعائیں کیں ان میں سے ایک یہ بھی تھی کہ اللہ مجھے علم حدیث میں حافظ ابن حجر عسقلانی﷫ اور فقہ میں اپنے اُستاد شیخ سراج الدین بلقینی﷫ جیسا بلند مرتبہ عطا فرما۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
فنون اور بہت سے علوم میں رتبۂ اِمامت کو پہنچے ہوئے تھے۔ آپ نے اپنی کتاب ’حسن المحاضرہ‘ میں ذکر کیا ہے کہ آپ کو اللہ تعالیٰ نے بالخصوص سات علوم’تفسیر، حدیث، فقہ، نحو، معانی،بیان اور بدیع میں بہت زیادہ معلومات دی ہیں۔
آپ اپنی کتاب ’الرد علی من أخلد إلی الأرض‘ میں رقمطراز ہیں:
’’روئے زمین پر مشرق سے مغرب تک خضر، قطب یا کسی ولی اللہ کے علاوہ حدیث اور عربی کا مجھ سے بڑا عالم کوئی نہیں۔‘‘
اُن کا یہ دعویٰ عربی زبان کے بارے میں تو تسلیم کیا جا سکتا ہے البتہ حدیث کے بارے میں ان کا یہ دعویٰ غیر درست ہے، إلا یہ کہ اس سے متونِ حدیث کا حفظ مراد ہو یا سخاوی کے علاوہ مراد ہو۔
نیز اُنہوں نے لکھا ہے کہ فقہ کے سوا باقی تمام فنون میں ان کے اَساتذہ میں سے بھی کوئی ان کے ہم پلہ نہیں ہے البتہ فقہ میں ان کے شیخ کی معلومات وسیع اور زیادہ ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے آپ کو بلا کا حافظہ عطا فرمایاتھا آپ نے خود ذکر فرمایا ہے کہ مجھے دو لاکھ اَحادیث زبانی یاد ہیں۔
آپ نے قصبہ رضوان میں باب فرویلہ کی جانب پہلے خیمہ میں واقع جامع الکردی کی جگہ موجود مدرسہ محمودیہ کے کتب خانہ سے خوب اِستفادہ کیا۔یہ مدرسہ مصر کے شاندار مدارس میں شمار ہوتا ہے۔
اِمام سیوطی﷫ کو ملکہ اِجتہاد اور اس کی تمام ضروری معلومات حاصل تھیں۔ آ پ اپنی کتاب ’حسن المحاضرہ‘ اور ’مسالک الحنفاء‘ میں لکھتے ہیں:
’’ میں اگر ہر مسئلہ کے متعلق نقلی، عقلی دلائل، اس کے اصول واعتراضات مع جوابات، اس بارے میں مختلف مذاہب کے اختلاف اور ان کے مابین موازنہ وغیرہ کے بارے میں رسالہ لکھنا چاہوں تو اپنی قوت یا طاقت سے نہیں بلکہ اللہ کے فضل اور توفیق سے لکھ سکتا ہوں۔‘‘
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
آپ کے مشہور اَساتذہ میں سراج الدین البلقیني، شہاب الدین الشارمساحی ﷫، الشرف المناوی ابوزکریا یحییٰ بن محمد﷫، شیخ محی الدین محمد بن سلیمان رومی حنفی﷫، جلال الدین المحلي﷫،اَحمد بن اِبراہیم حنبلی﷫،البرہان ابراہیم بن عمر البقاعی﷫اور الشمس السیرامی ﷫ شامل ہیں۔
اِمام سیوطی﷫ نے علوم قرآن، تفسیر اور قراء ات کے موضوع پر درجنوں کتب تحریر کیں ان میں سے مشہور اور چنیدہ کتب یہ ہیں:
الإنصاف في تمییز الأوقاف۔۔ شرح حرز الأماني ووجہ التہاني۔۔ الإتقان في علوم القرآن۔۔ لباب النقول في أسباب النزول۔۔ الدر المنثور في التفسیر بالمأثور۔۔ أسرار التأویل۔۔ تناسق الدرر في تناسب الآیات والسور۔۔ متشابہ القرآن۔۔ تکملۃ تفسیر الجلالین۔۔ الألفیۃ في القراء ات العشر۔
اِمام سیوطی﷫ نے ۱۹ ؍جمادی الاولیٰ ۹۱۱ھ جمعہ کی رات سات روز تک بائیں بازو کے شدید ورم میں مبتلا رہنے کے بعداپنی جان جانِ آفریں کے سپرد کی۔بیان کیا جاتا ہے کہ آپ نے وفات کے وقت سورۃ یٰسین کی خود تلاوت فرمائی۔آپ کی نماز جنازہ الروضہ کی جامع الشیخ اَحمد اباریقی میں شعرانی نے پڑھائی۔

٭۔۔۔۔۔٭۔۔۔۔۔٭
 
Top