مشرکین سے دوستی کا شرعی حکم
مؤلف:امام سلیمان بن عبداﷲ بن محمد بن عبدالوھاب
محترم قاری اللہ آپ پر اپنی رحمت کی بارش برسائے :
یہ بات آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ جب انسان مشرکین کے سامنے ان کے دین سے اتفاق کرلے ،خواہ ان کے خوف کی وجہ سے ،یا ان کا دلدادہ ہونے کے سبب ،یاان کی طرف جھکاؤ رکھنے کی وجہ سے ،یا ان کے شر سے بچنے کی خاطر تو وہ انہی کی طرح کا کافر ہے ،اگرچہ ان کے دین کو ناپسند کرتاہو اور ان سے نفرت اور اسلام اور مسلمانوں سے محبت کرنے والا ہو۔
یہ صرف ان کے دین سے موافقت کے سبب کافر ہے ،تو جو ان کے زیر کنٹرول علاقے میں ہو،اور انہی کا طالب وفرمانبردار ہو،اور ان کے باطل دین پر ان سے اظہار موافقت کرتا ہو اور مال ومددفراہم کرکے باطل پر ان کے ساتھ تعاون کرتا ہواور ان سے تعلقات قائم کرکے مسلمانوں سے قطع تعلقی کرلے اور اخلاص وتوحید اور موحدین ومخلصین کا حامی رہنے کے بعد مزارات وشرک اور قبر پرستوں ومشرکوں کا حامی بن جائے ،تو اس کے کافر اور اللہ اور اس کے رسول کا بدترین دشمن ہونے میں کوئی مسلمان شک کرہی نہیں سکتا (البتہ وہ شخص جس پر مشرکین قابوپالیں اور زبردستی کریں)اور کہیں کہ کفر یا ایسا ہی کوئی کام کر وگرنہ ہم تجھے قتل کردیں گے اور پھر اس پر مسلسل تشددکریں تاآنکہ وہ ان کے سامنے محض زبانی اظہار موافقت کردے تویہ شخص مجبور ہے اور مستثنیٰ ہے ،بشرطیکہ اس کا دل ایمان پر مطمئن ہو۔اس بات پر علماء کا اجماع ہے کہ جو مذاقاً کلمہ کفر کہے وہ کافر ہے ،توجو ڈر کر یا حصول دنیا کی خاطر کفر کا اظہار کردے ،وہ کافر کیوں نہ ہو؟
میں اللہ کی مدد وتائید سے ایسے شخص کے کافر ہونے کے چند دلائل ذکر کرتا ہوں:
فرمان باری تعالیٰ:
وَ لَنْ تَرْضٰی عَنْکَ الْیَہُوْدُ وَ لَا النَّصٰرٰی حَتّٰی تَتَّبِعَ مِلَّتَہُمْ۔
’’یہود ونصاریٰ آپ سے اس وقت تک خوش نہ ہوں گے ،جب تک آپ ان کے دین پر نہ چلنے لگیں‘‘۔(بقرہ:120)
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے یہ خبر دی ہے کہ یہود ونصاریٰ نبی ﷺسے اس وقت تک خوش نہ ہوں گے ،جب تک کہ وہ ان کے دین پر نہ چلنے لگیں ،اور ان کے حق پر ہونے کی گواہی نہ دے دیں ۔اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
قُلْ اِنَّ ہُدَی اﷲِ ہُوَ الْہُدٰی وَلَئِنِ اتَّبَعْتَ اَہْوَآءَ ہُمْ بَعْدَ الَّذِیْ جَآئَکَ مِنَ الْعِلْمِ مَا لَکَ مِنَ اﷲِ مِنْ وَّلِیٍّ وَّ لَا نَصِیْرٍ۔
’’آپ کہہ دیجئے کہ اللہ کی )عطاء کردہ(ہدایت (دین)ہی اصل ہدایت ہے ،اور اگر آپ اپنے پاس علم آجانے کے بعد بھی ان کی خواہشات پر چلے ،تو اللہ کی جانب سے آپ کا کوئی دوست اور مددگار نہ ہوگا‘‘)بقرہ:120)
دوسری آیت میں فرمایا:
اِنَّکَ اِذًا لَّمِنَ الظّٰلِمِیْنَ۔
’’اس صورت میں آپ یقینا ظالموں میں سے ہوں گے‘‘(البقرہ:145)۔
ان آیات کے مطابق اگر نبی ﷺبھی کسی طرح کا دلی اعتقاد رکھے بغیر بظاہر ان کے دین پر ان کی موافقت کریں تاکہ ان کے شر سے بچ جائیں ،یا ان کی طرف جھکاؤ کے سبب ،توآپ بھی ظالموں میں شمار ہوجائیں گے ،توجو قبر پرستوں کے لئے ان کے حق پر اور صراط مستقیم پرہونے کا اظہار کردے وہ کیونکر ظالموں میں سے نہ ہو؟کیونکہ وہ تو اس سے صرف اسی طرح ہی خوش ہوں گے۔
فرمان تبارک و تعالیٰ :
وَلاَ یَزَالُوْنَ یُقَاتِلُوْنَکُمْ حَتّٰی یَرُدُّوْکُمْ عَنْ دِیْنِکُمْ اِنِ اسْتَطَاعُوْا وَ مَنْ یَّرْتَدِدْ مِنْکُمْ عَنْ دِیْنِہٖ فَیَمُتْ وَ ہُوَ کَافِرٌ فَاُولٰٓئِکَ حَبِطَتْ اَعْمَالُہُمْ فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَۃِ وَ اُولٰٓئِکَ اَصْحٰبُ النَّارِ ہُمْ فِیْھَا خٰلِدُوْنَ۔
’’اور وہ تم سے لڑتے ہی رہیں گے حتی کہ تمہیں تمہارے دین سے مرتد بنادیں اگر وہ ایسا کرنے پر قادر ہوں اور تم میں سے جو اپنے دین سے مرتد ہوگیااور کافر ہی مرا تو ان لوگوں کے اعمال دنیا وآخرت میں ضائع ہوگئے اور وہ ہمیشہ جہنم میں رہیں گے ‘‘۔(البقرہ:217)
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے خبردی ہے کہ کفار مسلمانوں سے اس وقت تک جنگ کرتے رہیں گے جب تک کہ وہ مسلمانوں کو ان کے دین سے مرتد نہ کردیں ،بشرطیکہ وہ ایسا کرنے کی طاقت رکھتے ہوں ،اور اللہ نے کسی کو جان مال یا عزت کے خوف سے ان کی موافقت کی اجازت نہیں دی بلکہ جنگ کی صورت میں ان کے شر سے بچنے کے لئے ان کی موافقت کرنے والے کے متعلق یہ بتادیا کہ وہ مرتد ہے اور اگر اسی حال میں مرگیا تو ہمیشہ کے لئے جہنمی ہے ۔
توجو کسی لڑائی یا جنگ کے بغیر ہی ان کی موافقت کرتا ہو وہ مرتد کیونکر نہ ہو جبکہ جو جنگ کے بعد ان کی موافقت کرے اس کا بھی کوئی عذر مقبول نہیں ہے، لہٰذاجو کسی طرح کے خوف یا جنگ کے بغیر ہی کفار کی موافقت میں بڑی تیزی دکھاتے ہیں ان کا کوئی عذر قبول ہونا ہی نہیں چاہیے اور وہ بلاشک وشبہ کفار ومرتد ہیں۔
فرمان تبارک وتعالیٰ :
لاَیَتَّخِذِ الْمُؤْمِنُوْنَ الْکٰفِرِیْنَ اَوْلِیَآءَ مِنْ دُوْنِ الْمُؤْمِنِیْنَ وَ مَنْ یَّفْعَلْ ذٰلِکَ فَلَیْسَ مِنَ اﷲِ فِیْ شَیْئٍ اِلَّآ اَنْ تَتَّقُوْا مِنْہُمْ تُقٰۃً۔
’’مومنین ،مومنوں کے سوا کافروں کو دوست نہ بنائیں او رجو ایسا کرے گاتو وہ اللہ کی طرف سے کسی شئے میں نہیں ،الا یہ کہ تم ان سے بچ کررہو‘‘۔(آل عمران:28)
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے مومنوں کو منع کیا ہے کہ وہ مومنوں کے سوا کفار کو اپنا دوست بنائیں اگرچہ وہ کسی قسم کے خوف کے سبب ایسا کرنا چاہتے ہوں اور ایسا کرنے والے کے متعلق یہ خبر دی کہ’’وہ اللہ کی طرف سے کسی شئے میں نہیں ہے‘‘
یعنی اللہ کے ان دوستوں میں سے نہیں ہے جن سے آخرت میں نجات کا وعدہ کیا گیا ہے ’’الّا کہ تم ان سے بچ کررہو ‘‘۔یعنی انسان اس قدر بے بس ہوجائے کہ ان سے دشمنی کا اظہار کرنے کی طاقت نہ رکھے اور اپنے دل کو ان سے بغض وعداوت پر مطمئن کرکے ان کے ساتھ بظاہر میل جول رکھے ،لیکن جو مومنوں کے سوا بلاعذر ہی انہیں دوست بنائے ،دنیاوی زندگی کو آخرت پر ترجیح دے اور مشرکین سے ڈرتا ہو لیکن اللہ تعالیٰ سے نہ ڈرے تو اللہ تعالیٰ نے اس کے اس خوف کو بطور عذر قبول نہیں کیابلکہ فرمایاکہ :
اِنَّمَا ذٰلِکُمُ الشَّیْطٰنُ یُخَوِّفُ اَوْلِیَآئَہ فَلاَ تَخَافُوْہُمْ وَخَافُوْنِ اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ۔
’’درحقیقت یہ شیطان ہے جو اپنے دوستوں کو خوفزدہ کرتا ہے سو تم ان سے خوفزدہ نہ ہو اور اور مجھ سے ڈرو اگر واقعی تم مومن ہو‘‘۔(آل عمران:175)
فرمان باری تعالیٰ:
یٰآَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْآ اِنْ تُطِیْعُوا الَّذِیْنَ کَفَرُوْا یَرُدُّوْکُمْ عَلٰٓی اَعْقَابِکُمْ فَتَنْقَلِبُوْا خٰسِرِیْنَ۔
’’اے ایمان والواگر تم ان لوگوں کی اطاعت کروگے جنہوں نے کفرکیا تو وہ تمہیں تمہاری ایڑیوں کے بل پلٹادیں گے پھر تم نقصان اٹھانے والے ہوجاؤگے‘‘۔(آل عمران:149)
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے خبردی ہے کہ اگر مومنین کفار کی اطاعت کرنے لگیں تو وہ لازماً انہیں اسلام سے مرتد بنادیں گے کیونکہ وہ مسلمانوں سے کفر سے کم پرہرگز راضی نہیں ہوتے ،نیز یہ خبربھی دی کہ ایسا کرنے کی صورت میں وہ دنیاوآخرت دونوں میں نقصان اٹھائینگے ،اور انہیں کفار کے خو ف سے ان کی اطاعت وموافقت کی اجازت نہیں دی ،حقیقت بھی یہی ہے کہ کفار ان سے اسی صورت میں خوش ہوں گے جب وہ ان کے حق پر ہونے کی گواہی دے دیں ،اور مسلمانوں سے بغض وعداوت کا اظہار کردیں اور ان سے تعلقات منقطع کرلیں ۔اس کے بعد فرمایا:
بَلِ اﷲُ مَوْٰلکُمْ وَ ہُوَ خَیْرُ النّٰصِرِیْنَ۔
’’بلکہ اللہ ہی تمہارا دوست ہے اور وہ سب مدد کرنے والوں میں سب سے بہتر ہے‘‘(آل عمران:150) ۔
اس حصے میں اللہ تعالیٰ نے خبردی ہے کہ وہ ہی مومنوں کا دوست ومددگار ہے بلکہ سب سے بڑا مددگار ہے سو اسی کی اطاعت ومدد کے ذریعے کفار سے بے خوف اور بے پرواہ ہواجاسکتاہے۔
لیکن افسوس ہے بندوں پر کہ انہوں نے توحید کو جان لیا اسی میں پرورش پائی اور یہ وقت ابھی گزرا ہی ہے کہ وہ رب العالمین ،خیرالناصرین کی دوستی سے مشرک اور قبر پرستوں کی دوستی کی طرف چلے گئے ،اس ذات کے بجائے جو ہر شئے کامالک ہے ان مشرکوں سے خوش رہنے لگے بلاشبہ ظالموں کا بدلہ بہت ہی برا ہے۔
فرمان باری تعالیٰ:
اَفَمَنِ اتَّبَعَ رِضْوَانَ اﷲِ کَمَنْ م بَآءَ بِسَخَطٍ مِّنَ اﷲِ وَ مَاْواٰہُ جَہَنَّمُ وَ بِئْسَ الْمَصِیْرُ۔
’’کیا وہ شخص جو اللہ کی رضامندی پر چلے وہ اس شخص کی طرح ہوسکتاہے جو اللہ کی ناراضگی لے کر لوٹے اور اس کا ٹھکانہ جہنم ہو اور وہ بہت برا ٹھکانہ ہے‘‘۔(آل عمران:162)
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے خبردی ہے کہ اللہ کی رضاپر چلنے والے اور اس کی ناراضگی کی راہ پر چلنے والے کبھی برابر نہیں ہوسکتے اس کی ناراضگی اختیار کرنے والے کا انجام بروز قیامت جہنم ہے۔اور اس بات میں کوئی شک نہیں کہ اکیلے اللہ کی عبادت کرنا اور اس کے دین کی مدد کرنا ہی اللہ کی رضامندی ہے اور قبوں اور مردوں کی عبادت ومدد کرنا اللہ کو ناراض کردیتاہے لہٰذا جو مومن اللہ کی توحید اور دعوت توحید کا حامی ہو وہ اور جو مشرک شرک اور دعوت شرک کا مددگار ہو وہ یہ دونوں کبھی برابر نہیں ہوسکتے ۔اور اگر اس موقع پر کوئی خوف کو عذر بنائے تو یہ ناقابل قبول ہے اللہ نے کسی ایسے کام میں جو اسے ناراض کردیتا ہو اور اس کی رضامندی سے دور کردیتا ہو ’’خوف ‘‘کو بطور عذر نہیں ماناہے۔
اکثر باطل پرست دنیا چھن جانے کے خوف سے حق چھوڑ دیتے ہیں وگرنہ وہ حق کو نہ صرف جانتے ہوتے ہیں بلکہ اس کے مطابق عقیدہ بھی رکھتے ہیں لیکن صرف اس طرح وہ مسلمان نہیں ہوسکتے ۔
فرمان باری تعالیٰ :
اِنَّ الَّذِیْنَ تَوَفّٰہُمُ الْمَلٰٓئِکَۃُ ظٰلِمِیْٓ اَنْفُسِہِمْ قَالُوْا فِیْمَ کُنْتُمْ قَالُوْا کُنَّا مُسْتَضْعَفِیْنَ فِی الْاَرْضِ قَالُوْآ اَلَمْ تَکُنْ اَرْضُ اﷲِ وَاسِعَۃً فَتُہَاجِرُوْا فِیْھَا فَاُولٰٓئِکَ مَاْوٰہُمْ جَہَنَّمُ وَ سَآءَ تْ مَصِیْرًا۔
’’فرشتے جن لوگوں کو موت دے رہے ہوتے ہیں اس حال میں کہ انہوں نے اپنے نفسوں پر ظلم کئے ہوتے ہیں وہ ان سے پوچھتے ہیں تم کس حال میں تھے؟وہ جواباً کہتے ہیں کہ ہم زمین پر بڑے کمزور تھے وہ کہتے ہیں کیا اللہ کی زمین فراخ نہ تھی ؟تم وہ جگہ چھوڑکر چلے جاتے توانہی لوگوں کاٹھکانہ جہنم ہے اور وہ بہت برا ٹھکانہ ہے‘‘۔(النساء:97)
یعنی فرشتوں کا سوال ہوتا ہے کہ تم مسلمانوں میں سے تھے یا مشرکین میں سے ؟تو وہ کمزوری کو مسلمانوں کے فریق سے خارج ہونے کا عذر بتاتے ہیں فرشتے ان کا یہ عذر قبول نہیں کرتے اور ان پر جرح کرتے ہوئے کہتے ہیں ’’کیا اللہ کی زمین فراخ نہ تھی ؟تم اس میں ہجرت کرلیتے ‘‘۔اللہ تعالیٰ نے فرمایا’’انہی لوگوں کا ٹھکانہ جہنم ہے اور وہ بہت برا ٹھکانہ ہے ‘‘۔یہ آیت ان اہل مکہ کے متعلق نازل ہوئی جو اسلام لے آئے اورانہوں نے ہجرت نہ کی پھر جب مشرکین جنگ بدر کے لئے روانہ ہوئے توانہیں بھی اپنے ساتھ چلنے پر مجبور کردیا وہ ان کے خوف سے نکل پڑے پھر لڑائی میں مقابل گروہ کے مسلمانوں نے انہیں قتل کیا اور پھر جب انہیں معلوم ہوا کہ انہوں نے کسے قتل کیا ہے تو یہ افسوس کرنے لگے اور کہنے لگے کہ ہم نے اپنے ہی بھائی قتل کردیئے ۔اس موقع پر یہ آیت اتری جس میں انہیں ظالم اور جہنمی کہاگیا ہے۔تو جو اسلامی ممالک مشرکین کے قبضے میں چلے جائیں اوراس کے باشندے مشرکین کے گروہ میں شامل میں ہوجائیں اور اسلام کا ہار اپنے گلے سے اتار پھینکیں اور مشرکین کے دین سے موافقت کا اظہار کرنے لگیں ان کے فرمانبردار بن جائیں انہیں پناہ دیں ان کی مدد کریں اور موحدین کی مدد کرنا چھوڑدیں ان کی راہ سے الگ ہوجائیں اور انہیں غلط قرار دیں اور پھر انہیں براکہنے لگیں ،اور ان کا مذاق اڑانے لگیں ،اور توحید پر ثابت قدم رہنے اور اس پر آنے والی مشکلات پر صبر کرنے اور جہاد کرنے کے سبب انہیں بے وقوف کہنے لگیں ،اور موحدین کے خلاف مشرکین کی ازخود ہی دل سے مددکریں نہ کہ مجبور ہوکر یا بے دلی سے تو اس طرح کے لوگ ان کی بنسبت بالاولی کافر اور جہنمی ہوئے جنہوں نے وطن کی محبت میں او رکفار کے خوف سے محض ہجرت نہ کی اور مجبور اور خوفزوہ ہو کر بے دلی سے ان کے لشکر میں شامل ہوئے ۔
اگر کوئی کہے کہ :
مشرکین کا غزوہ بدر میں مسلمانان مکہ کو مسلمانان مدینہ سے مقابلے کے لئے اپنے ساتھ نکلنے پر مجبور کردینا کیاان مسلمانوں کے لئے عذر نہیں ہے ؟تو اس سے جواباً کہا جائے گا کہ یہ عذر نہیں ہے کیونکہ جب اس سے پہلے وہ ان کے ساتھ رہائش پذیر تھے اس وقت معذور نہ تھے تو اب اکراہ یعنی زبردستی کی وجہ سے معذور کس طرح ہوئے ؟جبکہ ان کے ساتھ رہتے ہوئے وہ ہجرت کرسکتے تھے لیکن انہوں نے ہجرت کو چھوڑ دیا ۔
فرمان باری تعالیٰ :
وَقَدْ نَزَّلَ عَلَیْکُمْ فِی الْکِتٰبِ اَنْ اِذَا سَمِعْتُمْ اٰیٰتِ اﷲِ یُکْفَرُ بِہَا وَ یُسْتَہْزَاُ بِہَا فَلاَ تَقْعُدُوْا مَعَہُمْ حَتّٰی یَخُوْضُوْا فِیْ حَدِیْثٍ غَیْرِہٖ اِنَّکُمْ اِذًا مِّثْلُہُم۔
’’اور وہ کتاب میں تم پر یہ بات نازل کرچکاہے کہ جب تم سنو کہ اللہ کی آیات کے ساتھ کفر کیاجارہا ہو اور ان کا مذاق اڑایاجارہا ہوتو تم ان کے ساتھ نہ بیٹھو حتی کہ وہ اس کے علاوہ کسی اور بات میں لگ جائیں اس وقت تم انہی کی طرح ہوتے ہو ‘‘۔(النساء:140)
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے یہ بتایا ہے کہ جو اللہ کی آیات کے ساتھ کفر کرنے والوں اور ان کا مذاق اڑانے والوں کے ساتھ اس مجلس میں بیٹھے گا و ہ انہی کی مانند ہوگا۔یہاں اللہ تعالیٰ نے خوفزدہ اور بے خوف اور مجبور وغیرہ میں کوئی فرق نہیں کیا جیسا کہ شروع اسلام میں سب ایک ہی شہر مکہ میں تھے تواب جبکہ اسلام پھیل چکا ہے اور اپنے اسلامی شہر میں اگر کوئی اللہ کی آیات کے ساتھ کفر واستہزاء کرنے والوں کو اپنے شہروں میں مدعو کرے اورانہیں دوست بناکر اپنے ساتھ بٹھائے اور ان کا کفر واستہزاء سنے اور اس کا اقرار کرے اور موحدین کو جھڑکے ایسا شخص ان کی طرح کافر اور مذاق اڑانے والا کیونکر نہ ہو؟
فرمان باری تعالیٰ:
یٰآَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لاَ تَتَّخِذُوا الْیَہُودَ وَ النَّصٰرٰٓی اَوْلِیَآءَ بَعْضُہُمْ اَوْلِیَآءُ بَعْضٍ وَ مَنْ یَّتَوَلَّہُمْ مِّنْکُمْ فَاِنَّہٗ مِنْہُمْ اِنَّ اﷲَ لاَ یَہْدِی الْقَوْمَ الظّٰلِمِیْنَ۔
’’اے ایمان والویہود ونصاریٰ کو دوست نہ بناؤ وہ ایک دوسرے کے دوست ہیں اور تم میں سے جو انہیں دوست بنائے گا تویقینا وہ انہی میں سے ہوگابے شک اللہ ظالم قوم کو ہدایت نہیں دیتا‘‘۔(المائدۃ:51)
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے مومنوں کو منع کیا کہ وہ یہود ونصاریٰ کو دوست بنائیں اور یہ بتایا ہے کہ جو انہیں دوست بنائے گا وہ انہی میں شمار ہوگا۔یہی حکم اس شخص کا بھی ہے جو مجوسیوں اور بت پرستوں کو دوست بنائے اب اگر کوئی اختلاف کرے اورکہے کہ قبر پرستی اور مردوں کو پکارنا اللہ کے ساتھ شرک کرنا نہیں ہے اور نہ ہی ایسا کرنے والے مشرک ہیں تو اس کا کفر وعناد واضح ہے ۔نیز یہاں بھی اللہ تبارک وتعالیٰ نے خوفزدہ اور بے خوف میں کوئی فرق نہیں کیا بلکہ فرمایا کہ جن لوگوں کے دلوں میں بیماری ہو وہ گردش حالات کے خوف سے ایسا کرتے ہیں اور یہی حال ان مرتدین کا بھی ہے جو گردش حالات سے خوفزدہ رہتے ہیں کیونکہ ان کے دلوں میں اللہ کی نصرت کے سچے وعدوں پر ایمان نہیں ہے ،لہٰذا وہ شرک اور مشرکین کی طرف لپکتے ہیں کہ کہیں گردش حالات کا شکار نہ ہوجائیں ،اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
فَعَسَی اﷲُ اَنْ یَّاْتِیَ بِالْفَتْحِ اَوْ اَمْرٍ مِّنْ عِنْدِہٖ فَیُصْبِحُوْا عَلٰی مَآ اَسَرُّوْا فِیْٓ اَنْفُسِہِمْ نٰدِمِیْنَ۔
’’امید ہے اللہ جلد ہی فتح یا اپنی جانب سے کوئی اور معاملہ لے آئے پھر وہ اپنے دل میں چھپائے ہوئے رازوں پر شرمندہ ہوجائیں‘‘۔(مائدہ:52)
فرمان باری تعالیٰ:
تَرٰی کَثِیْرًا مِّنْہُمْ یَتَوَلَّوْنَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا لَبِئْسَ مَا قَدَّمَتْ لَہُمْ اَنْفُسُہُمْ اَنْ سَخِطَ اﷲُ عَلَیْہِمْ وَ فِی الْعَذَابِ ہُمْ خٰلِدُوْنَ۔
’’آپ ان کی اکثریت کو دیکھیں گے کہ وہ ان لوگوں کو ہی دوست بناتی ہے جنہوں نے کفر کیا ہویقینا جو ان کی جانوں نے ان کے لئے آگے بھیجا وہ بہت ہی برا ہے کہ اللہ ان پر ناراض ہوگیااور وہ ہمیشہ عذاب میں رہیں گے‘‘۔(المائدۃ:80)
مؤلف:امام سلیمان بن عبداﷲ بن محمد بن عبدالوھاب
محترم قاری اللہ آپ پر اپنی رحمت کی بارش برسائے :
یہ بات آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ جب انسان مشرکین کے سامنے ان کے دین سے اتفاق کرلے ،خواہ ان کے خوف کی وجہ سے ،یا ان کا دلدادہ ہونے کے سبب ،یاان کی طرف جھکاؤ رکھنے کی وجہ سے ،یا ان کے شر سے بچنے کی خاطر تو وہ انہی کی طرح کا کافر ہے ،اگرچہ ان کے دین کو ناپسند کرتاہو اور ان سے نفرت اور اسلام اور مسلمانوں سے محبت کرنے والا ہو۔
یہ صرف ان کے دین سے موافقت کے سبب کافر ہے ،تو جو ان کے زیر کنٹرول علاقے میں ہو،اور انہی کا طالب وفرمانبردار ہو،اور ان کے باطل دین پر ان سے اظہار موافقت کرتا ہو اور مال ومددفراہم کرکے باطل پر ان کے ساتھ تعاون کرتا ہواور ان سے تعلقات قائم کرکے مسلمانوں سے قطع تعلقی کرلے اور اخلاص وتوحید اور موحدین ومخلصین کا حامی رہنے کے بعد مزارات وشرک اور قبر پرستوں ومشرکوں کا حامی بن جائے ،تو اس کے کافر اور اللہ اور اس کے رسول کا بدترین دشمن ہونے میں کوئی مسلمان شک کرہی نہیں سکتا (البتہ وہ شخص جس پر مشرکین قابوپالیں اور زبردستی کریں)اور کہیں کہ کفر یا ایسا ہی کوئی کام کر وگرنہ ہم تجھے قتل کردیں گے اور پھر اس پر مسلسل تشددکریں تاآنکہ وہ ان کے سامنے محض زبانی اظہار موافقت کردے تویہ شخص مجبور ہے اور مستثنیٰ ہے ،بشرطیکہ اس کا دل ایمان پر مطمئن ہو۔اس بات پر علماء کا اجماع ہے کہ جو مذاقاً کلمہ کفر کہے وہ کافر ہے ،توجو ڈر کر یا حصول دنیا کی خاطر کفر کا اظہار کردے ،وہ کافر کیوں نہ ہو؟
میں اللہ کی مدد وتائید سے ایسے شخص کے کافر ہونے کے چند دلائل ذکر کرتا ہوں:
فرمان باری تعالیٰ:
وَ لَنْ تَرْضٰی عَنْکَ الْیَہُوْدُ وَ لَا النَّصٰرٰی حَتّٰی تَتَّبِعَ مِلَّتَہُمْ۔
’’یہود ونصاریٰ آپ سے اس وقت تک خوش نہ ہوں گے ،جب تک آپ ان کے دین پر نہ چلنے لگیں‘‘۔(بقرہ:120)
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے یہ خبر دی ہے کہ یہود ونصاریٰ نبی ﷺسے اس وقت تک خوش نہ ہوں گے ،جب تک کہ وہ ان کے دین پر نہ چلنے لگیں ،اور ان کے حق پر ہونے کی گواہی نہ دے دیں ۔اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
قُلْ اِنَّ ہُدَی اﷲِ ہُوَ الْہُدٰی وَلَئِنِ اتَّبَعْتَ اَہْوَآءَ ہُمْ بَعْدَ الَّذِیْ جَآئَکَ مِنَ الْعِلْمِ مَا لَکَ مِنَ اﷲِ مِنْ وَّلِیٍّ وَّ لَا نَصِیْرٍ۔
’’آپ کہہ دیجئے کہ اللہ کی )عطاء کردہ(ہدایت (دین)ہی اصل ہدایت ہے ،اور اگر آپ اپنے پاس علم آجانے کے بعد بھی ان کی خواہشات پر چلے ،تو اللہ کی جانب سے آپ کا کوئی دوست اور مددگار نہ ہوگا‘‘)بقرہ:120)
دوسری آیت میں فرمایا:
اِنَّکَ اِذًا لَّمِنَ الظّٰلِمِیْنَ۔
’’اس صورت میں آپ یقینا ظالموں میں سے ہوں گے‘‘(البقرہ:145)۔
ان آیات کے مطابق اگر نبی ﷺبھی کسی طرح کا دلی اعتقاد رکھے بغیر بظاہر ان کے دین پر ان کی موافقت کریں تاکہ ان کے شر سے بچ جائیں ،یا ان کی طرف جھکاؤ کے سبب ،توآپ بھی ظالموں میں شمار ہوجائیں گے ،توجو قبر پرستوں کے لئے ان کے حق پر اور صراط مستقیم پرہونے کا اظہار کردے وہ کیونکر ظالموں میں سے نہ ہو؟کیونکہ وہ تو اس سے صرف اسی طرح ہی خوش ہوں گے۔
فرمان تبارک و تعالیٰ :
وَلاَ یَزَالُوْنَ یُقَاتِلُوْنَکُمْ حَتّٰی یَرُدُّوْکُمْ عَنْ دِیْنِکُمْ اِنِ اسْتَطَاعُوْا وَ مَنْ یَّرْتَدِدْ مِنْکُمْ عَنْ دِیْنِہٖ فَیَمُتْ وَ ہُوَ کَافِرٌ فَاُولٰٓئِکَ حَبِطَتْ اَعْمَالُہُمْ فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَۃِ وَ اُولٰٓئِکَ اَصْحٰبُ النَّارِ ہُمْ فِیْھَا خٰلِدُوْنَ۔
’’اور وہ تم سے لڑتے ہی رہیں گے حتی کہ تمہیں تمہارے دین سے مرتد بنادیں اگر وہ ایسا کرنے پر قادر ہوں اور تم میں سے جو اپنے دین سے مرتد ہوگیااور کافر ہی مرا تو ان لوگوں کے اعمال دنیا وآخرت میں ضائع ہوگئے اور وہ ہمیشہ جہنم میں رہیں گے ‘‘۔(البقرہ:217)
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے خبردی ہے کہ کفار مسلمانوں سے اس وقت تک جنگ کرتے رہیں گے جب تک کہ وہ مسلمانوں کو ان کے دین سے مرتد نہ کردیں ،بشرطیکہ وہ ایسا کرنے کی طاقت رکھتے ہوں ،اور اللہ نے کسی کو جان مال یا عزت کے خوف سے ان کی موافقت کی اجازت نہیں دی بلکہ جنگ کی صورت میں ان کے شر سے بچنے کے لئے ان کی موافقت کرنے والے کے متعلق یہ بتادیا کہ وہ مرتد ہے اور اگر اسی حال میں مرگیا تو ہمیشہ کے لئے جہنمی ہے ۔
توجو کسی لڑائی یا جنگ کے بغیر ہی ان کی موافقت کرتا ہو وہ مرتد کیونکر نہ ہو جبکہ جو جنگ کے بعد ان کی موافقت کرے اس کا بھی کوئی عذر مقبول نہیں ہے، لہٰذاجو کسی طرح کے خوف یا جنگ کے بغیر ہی کفار کی موافقت میں بڑی تیزی دکھاتے ہیں ان کا کوئی عذر قبول ہونا ہی نہیں چاہیے اور وہ بلاشک وشبہ کفار ومرتد ہیں۔
فرمان تبارک وتعالیٰ :
لاَیَتَّخِذِ الْمُؤْمِنُوْنَ الْکٰفِرِیْنَ اَوْلِیَآءَ مِنْ دُوْنِ الْمُؤْمِنِیْنَ وَ مَنْ یَّفْعَلْ ذٰلِکَ فَلَیْسَ مِنَ اﷲِ فِیْ شَیْئٍ اِلَّآ اَنْ تَتَّقُوْا مِنْہُمْ تُقٰۃً۔
’’مومنین ،مومنوں کے سوا کافروں کو دوست نہ بنائیں او رجو ایسا کرے گاتو وہ اللہ کی طرف سے کسی شئے میں نہیں ،الا یہ کہ تم ان سے بچ کررہو‘‘۔(آل عمران:28)
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے مومنوں کو منع کیا ہے کہ وہ مومنوں کے سوا کفار کو اپنا دوست بنائیں اگرچہ وہ کسی قسم کے خوف کے سبب ایسا کرنا چاہتے ہوں اور ایسا کرنے والے کے متعلق یہ خبر دی کہ’’وہ اللہ کی طرف سے کسی شئے میں نہیں ہے‘‘
یعنی اللہ کے ان دوستوں میں سے نہیں ہے جن سے آخرت میں نجات کا وعدہ کیا گیا ہے ’’الّا کہ تم ان سے بچ کررہو ‘‘۔یعنی انسان اس قدر بے بس ہوجائے کہ ان سے دشمنی کا اظہار کرنے کی طاقت نہ رکھے اور اپنے دل کو ان سے بغض وعداوت پر مطمئن کرکے ان کے ساتھ بظاہر میل جول رکھے ،لیکن جو مومنوں کے سوا بلاعذر ہی انہیں دوست بنائے ،دنیاوی زندگی کو آخرت پر ترجیح دے اور مشرکین سے ڈرتا ہو لیکن اللہ تعالیٰ سے نہ ڈرے تو اللہ تعالیٰ نے اس کے اس خوف کو بطور عذر قبول نہیں کیابلکہ فرمایاکہ :
اِنَّمَا ذٰلِکُمُ الشَّیْطٰنُ یُخَوِّفُ اَوْلِیَآئَہ فَلاَ تَخَافُوْہُمْ وَخَافُوْنِ اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ۔
’’درحقیقت یہ شیطان ہے جو اپنے دوستوں کو خوفزدہ کرتا ہے سو تم ان سے خوفزدہ نہ ہو اور اور مجھ سے ڈرو اگر واقعی تم مومن ہو‘‘۔(آل عمران:175)
فرمان باری تعالیٰ:
یٰآَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْآ اِنْ تُطِیْعُوا الَّذِیْنَ کَفَرُوْا یَرُدُّوْکُمْ عَلٰٓی اَعْقَابِکُمْ فَتَنْقَلِبُوْا خٰسِرِیْنَ۔
’’اے ایمان والواگر تم ان لوگوں کی اطاعت کروگے جنہوں نے کفرکیا تو وہ تمہیں تمہاری ایڑیوں کے بل پلٹادیں گے پھر تم نقصان اٹھانے والے ہوجاؤگے‘‘۔(آل عمران:149)
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے خبردی ہے کہ اگر مومنین کفار کی اطاعت کرنے لگیں تو وہ لازماً انہیں اسلام سے مرتد بنادیں گے کیونکہ وہ مسلمانوں سے کفر سے کم پرہرگز راضی نہیں ہوتے ،نیز یہ خبربھی دی کہ ایسا کرنے کی صورت میں وہ دنیاوآخرت دونوں میں نقصان اٹھائینگے ،اور انہیں کفار کے خو ف سے ان کی اطاعت وموافقت کی اجازت نہیں دی ،حقیقت بھی یہی ہے کہ کفار ان سے اسی صورت میں خوش ہوں گے جب وہ ان کے حق پر ہونے کی گواہی دے دیں ،اور مسلمانوں سے بغض وعداوت کا اظہار کردیں اور ان سے تعلقات منقطع کرلیں ۔اس کے بعد فرمایا:
بَلِ اﷲُ مَوْٰلکُمْ وَ ہُوَ خَیْرُ النّٰصِرِیْنَ۔
’’بلکہ اللہ ہی تمہارا دوست ہے اور وہ سب مدد کرنے والوں میں سب سے بہتر ہے‘‘(آل عمران:150) ۔
اس حصے میں اللہ تعالیٰ نے خبردی ہے کہ وہ ہی مومنوں کا دوست ومددگار ہے بلکہ سب سے بڑا مددگار ہے سو اسی کی اطاعت ومدد کے ذریعے کفار سے بے خوف اور بے پرواہ ہواجاسکتاہے۔
لیکن افسوس ہے بندوں پر کہ انہوں نے توحید کو جان لیا اسی میں پرورش پائی اور یہ وقت ابھی گزرا ہی ہے کہ وہ رب العالمین ،خیرالناصرین کی دوستی سے مشرک اور قبر پرستوں کی دوستی کی طرف چلے گئے ،اس ذات کے بجائے جو ہر شئے کامالک ہے ان مشرکوں سے خوش رہنے لگے بلاشبہ ظالموں کا بدلہ بہت ہی برا ہے۔
فرمان باری تعالیٰ:
اَفَمَنِ اتَّبَعَ رِضْوَانَ اﷲِ کَمَنْ م بَآءَ بِسَخَطٍ مِّنَ اﷲِ وَ مَاْواٰہُ جَہَنَّمُ وَ بِئْسَ الْمَصِیْرُ۔
’’کیا وہ شخص جو اللہ کی رضامندی پر چلے وہ اس شخص کی طرح ہوسکتاہے جو اللہ کی ناراضگی لے کر لوٹے اور اس کا ٹھکانہ جہنم ہو اور وہ بہت برا ٹھکانہ ہے‘‘۔(آل عمران:162)
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے خبردی ہے کہ اللہ کی رضاپر چلنے والے اور اس کی ناراضگی کی راہ پر چلنے والے کبھی برابر نہیں ہوسکتے اس کی ناراضگی اختیار کرنے والے کا انجام بروز قیامت جہنم ہے۔اور اس بات میں کوئی شک نہیں کہ اکیلے اللہ کی عبادت کرنا اور اس کے دین کی مدد کرنا ہی اللہ کی رضامندی ہے اور قبوں اور مردوں کی عبادت ومدد کرنا اللہ کو ناراض کردیتاہے لہٰذا جو مومن اللہ کی توحید اور دعوت توحید کا حامی ہو وہ اور جو مشرک شرک اور دعوت شرک کا مددگار ہو وہ یہ دونوں کبھی برابر نہیں ہوسکتے ۔اور اگر اس موقع پر کوئی خوف کو عذر بنائے تو یہ ناقابل قبول ہے اللہ نے کسی ایسے کام میں جو اسے ناراض کردیتا ہو اور اس کی رضامندی سے دور کردیتا ہو ’’خوف ‘‘کو بطور عذر نہیں ماناہے۔
اکثر باطل پرست دنیا چھن جانے کے خوف سے حق چھوڑ دیتے ہیں وگرنہ وہ حق کو نہ صرف جانتے ہوتے ہیں بلکہ اس کے مطابق عقیدہ بھی رکھتے ہیں لیکن صرف اس طرح وہ مسلمان نہیں ہوسکتے ۔
فرمان باری تعالیٰ :
اِنَّ الَّذِیْنَ تَوَفّٰہُمُ الْمَلٰٓئِکَۃُ ظٰلِمِیْٓ اَنْفُسِہِمْ قَالُوْا فِیْمَ کُنْتُمْ قَالُوْا کُنَّا مُسْتَضْعَفِیْنَ فِی الْاَرْضِ قَالُوْآ اَلَمْ تَکُنْ اَرْضُ اﷲِ وَاسِعَۃً فَتُہَاجِرُوْا فِیْھَا فَاُولٰٓئِکَ مَاْوٰہُمْ جَہَنَّمُ وَ سَآءَ تْ مَصِیْرًا۔
’’فرشتے جن لوگوں کو موت دے رہے ہوتے ہیں اس حال میں کہ انہوں نے اپنے نفسوں پر ظلم کئے ہوتے ہیں وہ ان سے پوچھتے ہیں تم کس حال میں تھے؟وہ جواباً کہتے ہیں کہ ہم زمین پر بڑے کمزور تھے وہ کہتے ہیں کیا اللہ کی زمین فراخ نہ تھی ؟تم وہ جگہ چھوڑکر چلے جاتے توانہی لوگوں کاٹھکانہ جہنم ہے اور وہ بہت برا ٹھکانہ ہے‘‘۔(النساء:97)
یعنی فرشتوں کا سوال ہوتا ہے کہ تم مسلمانوں میں سے تھے یا مشرکین میں سے ؟تو وہ کمزوری کو مسلمانوں کے فریق سے خارج ہونے کا عذر بتاتے ہیں فرشتے ان کا یہ عذر قبول نہیں کرتے اور ان پر جرح کرتے ہوئے کہتے ہیں ’’کیا اللہ کی زمین فراخ نہ تھی ؟تم اس میں ہجرت کرلیتے ‘‘۔اللہ تعالیٰ نے فرمایا’’انہی لوگوں کا ٹھکانہ جہنم ہے اور وہ بہت برا ٹھکانہ ہے ‘‘۔یہ آیت ان اہل مکہ کے متعلق نازل ہوئی جو اسلام لے آئے اورانہوں نے ہجرت نہ کی پھر جب مشرکین جنگ بدر کے لئے روانہ ہوئے توانہیں بھی اپنے ساتھ چلنے پر مجبور کردیا وہ ان کے خوف سے نکل پڑے پھر لڑائی میں مقابل گروہ کے مسلمانوں نے انہیں قتل کیا اور پھر جب انہیں معلوم ہوا کہ انہوں نے کسے قتل کیا ہے تو یہ افسوس کرنے لگے اور کہنے لگے کہ ہم نے اپنے ہی بھائی قتل کردیئے ۔اس موقع پر یہ آیت اتری جس میں انہیں ظالم اور جہنمی کہاگیا ہے۔تو جو اسلامی ممالک مشرکین کے قبضے میں چلے جائیں اوراس کے باشندے مشرکین کے گروہ میں شامل میں ہوجائیں اور اسلام کا ہار اپنے گلے سے اتار پھینکیں اور مشرکین کے دین سے موافقت کا اظہار کرنے لگیں ان کے فرمانبردار بن جائیں انہیں پناہ دیں ان کی مدد کریں اور موحدین کی مدد کرنا چھوڑدیں ان کی راہ سے الگ ہوجائیں اور انہیں غلط قرار دیں اور پھر انہیں براکہنے لگیں ،اور ان کا مذاق اڑانے لگیں ،اور توحید پر ثابت قدم رہنے اور اس پر آنے والی مشکلات پر صبر کرنے اور جہاد کرنے کے سبب انہیں بے وقوف کہنے لگیں ،اور موحدین کے خلاف مشرکین کی ازخود ہی دل سے مددکریں نہ کہ مجبور ہوکر یا بے دلی سے تو اس طرح کے لوگ ان کی بنسبت بالاولی کافر اور جہنمی ہوئے جنہوں نے وطن کی محبت میں او رکفار کے خوف سے محض ہجرت نہ کی اور مجبور اور خوفزوہ ہو کر بے دلی سے ان کے لشکر میں شامل ہوئے ۔
اگر کوئی کہے کہ :
مشرکین کا غزوہ بدر میں مسلمانان مکہ کو مسلمانان مدینہ سے مقابلے کے لئے اپنے ساتھ نکلنے پر مجبور کردینا کیاان مسلمانوں کے لئے عذر نہیں ہے ؟تو اس سے جواباً کہا جائے گا کہ یہ عذر نہیں ہے کیونکہ جب اس سے پہلے وہ ان کے ساتھ رہائش پذیر تھے اس وقت معذور نہ تھے تو اب اکراہ یعنی زبردستی کی وجہ سے معذور کس طرح ہوئے ؟جبکہ ان کے ساتھ رہتے ہوئے وہ ہجرت کرسکتے تھے لیکن انہوں نے ہجرت کو چھوڑ دیا ۔
فرمان باری تعالیٰ :
وَقَدْ نَزَّلَ عَلَیْکُمْ فِی الْکِتٰبِ اَنْ اِذَا سَمِعْتُمْ اٰیٰتِ اﷲِ یُکْفَرُ بِہَا وَ یُسْتَہْزَاُ بِہَا فَلاَ تَقْعُدُوْا مَعَہُمْ حَتّٰی یَخُوْضُوْا فِیْ حَدِیْثٍ غَیْرِہٖ اِنَّکُمْ اِذًا مِّثْلُہُم۔
’’اور وہ کتاب میں تم پر یہ بات نازل کرچکاہے کہ جب تم سنو کہ اللہ کی آیات کے ساتھ کفر کیاجارہا ہو اور ان کا مذاق اڑایاجارہا ہوتو تم ان کے ساتھ نہ بیٹھو حتی کہ وہ اس کے علاوہ کسی اور بات میں لگ جائیں اس وقت تم انہی کی طرح ہوتے ہو ‘‘۔(النساء:140)
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے یہ بتایا ہے کہ جو اللہ کی آیات کے ساتھ کفر کرنے والوں اور ان کا مذاق اڑانے والوں کے ساتھ اس مجلس میں بیٹھے گا و ہ انہی کی مانند ہوگا۔یہاں اللہ تعالیٰ نے خوفزدہ اور بے خوف اور مجبور وغیرہ میں کوئی فرق نہیں کیا جیسا کہ شروع اسلام میں سب ایک ہی شہر مکہ میں تھے تواب جبکہ اسلام پھیل چکا ہے اور اپنے اسلامی شہر میں اگر کوئی اللہ کی آیات کے ساتھ کفر واستہزاء کرنے والوں کو اپنے شہروں میں مدعو کرے اورانہیں دوست بناکر اپنے ساتھ بٹھائے اور ان کا کفر واستہزاء سنے اور اس کا اقرار کرے اور موحدین کو جھڑکے ایسا شخص ان کی طرح کافر اور مذاق اڑانے والا کیونکر نہ ہو؟
فرمان باری تعالیٰ:
یٰآَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لاَ تَتَّخِذُوا الْیَہُودَ وَ النَّصٰرٰٓی اَوْلِیَآءَ بَعْضُہُمْ اَوْلِیَآءُ بَعْضٍ وَ مَنْ یَّتَوَلَّہُمْ مِّنْکُمْ فَاِنَّہٗ مِنْہُمْ اِنَّ اﷲَ لاَ یَہْدِی الْقَوْمَ الظّٰلِمِیْنَ۔
’’اے ایمان والویہود ونصاریٰ کو دوست نہ بناؤ وہ ایک دوسرے کے دوست ہیں اور تم میں سے جو انہیں دوست بنائے گا تویقینا وہ انہی میں سے ہوگابے شک اللہ ظالم قوم کو ہدایت نہیں دیتا‘‘۔(المائدۃ:51)
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے مومنوں کو منع کیا کہ وہ یہود ونصاریٰ کو دوست بنائیں اور یہ بتایا ہے کہ جو انہیں دوست بنائے گا وہ انہی میں شمار ہوگا۔یہی حکم اس شخص کا بھی ہے جو مجوسیوں اور بت پرستوں کو دوست بنائے اب اگر کوئی اختلاف کرے اورکہے کہ قبر پرستی اور مردوں کو پکارنا اللہ کے ساتھ شرک کرنا نہیں ہے اور نہ ہی ایسا کرنے والے مشرک ہیں تو اس کا کفر وعناد واضح ہے ۔نیز یہاں بھی اللہ تبارک وتعالیٰ نے خوفزدہ اور بے خوف میں کوئی فرق نہیں کیا بلکہ فرمایا کہ جن لوگوں کے دلوں میں بیماری ہو وہ گردش حالات کے خوف سے ایسا کرتے ہیں اور یہی حال ان مرتدین کا بھی ہے جو گردش حالات سے خوفزدہ رہتے ہیں کیونکہ ان کے دلوں میں اللہ کی نصرت کے سچے وعدوں پر ایمان نہیں ہے ،لہٰذا وہ شرک اور مشرکین کی طرف لپکتے ہیں کہ کہیں گردش حالات کا شکار نہ ہوجائیں ،اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
فَعَسَی اﷲُ اَنْ یَّاْتِیَ بِالْفَتْحِ اَوْ اَمْرٍ مِّنْ عِنْدِہٖ فَیُصْبِحُوْا عَلٰی مَآ اَسَرُّوْا فِیْٓ اَنْفُسِہِمْ نٰدِمِیْنَ۔
’’امید ہے اللہ جلد ہی فتح یا اپنی جانب سے کوئی اور معاملہ لے آئے پھر وہ اپنے دل میں چھپائے ہوئے رازوں پر شرمندہ ہوجائیں‘‘۔(مائدہ:52)
فرمان باری تعالیٰ:
تَرٰی کَثِیْرًا مِّنْہُمْ یَتَوَلَّوْنَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا لَبِئْسَ مَا قَدَّمَتْ لَہُمْ اَنْفُسُہُمْ اَنْ سَخِطَ اﷲُ عَلَیْہِمْ وَ فِی الْعَذَابِ ہُمْ خٰلِدُوْنَ۔
’’آپ ان کی اکثریت کو دیکھیں گے کہ وہ ان لوگوں کو ہی دوست بناتی ہے جنہوں نے کفر کیا ہویقینا جو ان کی جانوں نے ان کے لئے آگے بھیجا وہ بہت ہی برا ہے کہ اللہ ان پر ناراض ہوگیااور وہ ہمیشہ عذاب میں رہیں گے‘‘۔(المائدۃ:80)