• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مشرکین سے دوستی کا شرعی حکم

سلفی منہج

مبتدی
شمولیت
جولائی 24، 2011
پیغامات
39
ری ایکشن اسکور
117
پوائنٹ
0
مشرکین سے دوستی کا شرعی حکم
مؤلف:امام سلیمان بن عبداﷲ بن محمد بن عبدالوھاب ﷭

محترم قاری اللہ آپ پر اپنی رحمت کی بارش برسائے :

یہ بات آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ جب انسان مشرکین کے سامنے ان کے دین سے اتفاق کرلے ،خواہ ان کے خوف کی وجہ سے ،یا ان کا دلدادہ ہونے کے سبب ،یاان کی طرف جھکاؤ رکھنے کی وجہ سے ،یا ان کے شر سے بچنے کی خاطر تو وہ انہی کی طرح کا کافر ہے ،اگرچہ ان کے دین کو ناپسند کرتاہو اور ان سے نفرت اور اسلام اور مسلمانوں سے محبت کرنے والا ہو۔

یہ صرف ان کے دین سے موافقت کے سبب کافر ہے ،تو جو ان کے زیر کنٹرول علاقے میں ہو،اور انہی کا طالب وفرمانبردار ہو،اور ان کے باطل دین پر ان سے اظہار موافقت کرتا ہو اور مال ومددفراہم کرکے باطل پر ان کے ساتھ تعاون کرتا ہواور ان سے تعلقات قائم کرکے مسلمانوں سے قطع تعلقی کرلے اور اخلاص وتوحید اور موحدین ومخلصین کا حامی رہنے کے بعد مزارات وشرک اور قبر پرستوں ومشرکوں کا حامی بن جائے ،تو اس کے کافر اور اللہ اور اس کے رسول کا بدترین دشمن ہونے میں کوئی مسلمان شک کرہی نہیں سکتا (البتہ وہ شخص جس پر مشرکین قابوپالیں اور زبردستی کریں)اور کہیں کہ کفر یا ایسا ہی کوئی کام کر وگرنہ ہم تجھے قتل کردیں گے اور پھر اس پر مسلسل تشددکریں تاآنکہ وہ ان کے سامنے محض زبانی اظہار موافقت کردے تویہ شخص مجبور ہے اور مستثنیٰ ہے ،بشرطیکہ اس کا دل ایمان پر مطمئن ہو۔اس بات پر علماء کا اجماع ہے کہ جو مذاقاً کلمہ کفر کہے وہ کافر ہے ،توجو ڈر کر یا حصول دنیا کی خاطر کفر کا اظہار کردے ،وہ کافر کیوں نہ ہو؟

میں اللہ کی مدد وتائید سے ایسے شخص کے کافر ہونے کے چند دلائل ذکر کرتا ہوں:
 فرمان باری تعالیٰ:
وَ لَنْ تَرْضٰی عَنْکَ الْیَہُوْدُ وَ لَا النَّصٰرٰی حَتّٰی تَتَّبِعَ مِلَّتَہُمْ۔
’’یہود ونصاریٰ آپ سے اس وقت تک خوش نہ ہوں گے ،جب تک آپ ان کے دین پر نہ چلنے لگیں‘‘۔(بقرہ:120)
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے یہ خبر دی ہے کہ یہود ونصاریٰ نبی ﷺسے اس وقت تک خوش نہ ہوں گے ،جب تک کہ وہ ان کے دین پر نہ چلنے لگیں ،اور ان کے حق پر ہونے کی گواہی نہ دے دیں ۔اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
قُلْ اِنَّ ہُدَی اﷲِ ہُوَ الْہُدٰی وَلَئِنِ اتَّبَعْتَ اَہْوَآءَ ہُمْ بَعْدَ الَّذِیْ جَآئَکَ مِنَ الْعِلْمِ مَا لَکَ مِنَ اﷲِ مِنْ وَّلِیٍّ وَّ لَا نَصِیْرٍ۔
’’آپ کہہ دیجئے کہ اللہ کی )عطاء کردہ(ہدایت (دین)ہی اصل ہدایت ہے ،اور اگر آپ اپنے پاس علم آجانے کے بعد بھی ان کی خواہشات پر چلے ،تو اللہ کی جانب سے آپ کا کوئی دوست اور مددگار نہ ہوگا‘‘)بقرہ:120)

دوسری آیت میں فرمایا:
اِنَّکَ اِذًا لَّمِنَ الظّٰلِمِیْنَ۔
’’اس صورت میں آپ یقینا ظالموں میں سے ہوں گے‘‘(البقرہ:145)۔

ان آیات کے مطابق اگر نبی ﷺبھی کسی طرح کا دلی اعتقاد رکھے بغیر بظاہر ان کے دین پر ان کی موافقت کریں تاکہ ان کے شر سے بچ جائیں ،یا ان کی طرف جھکاؤ کے سبب ،توآپ بھی ظالموں میں شمار ہوجائیں گے ،توجو قبر پرستوں کے لئے ان کے حق پر اور صراط مستقیم پرہونے کا اظہار کردے وہ کیونکر ظالموں میں سے نہ ہو؟کیونکہ وہ تو اس سے صرف اسی طرح ہی خوش ہوں گے۔

فرمان تبارک و تعالیٰ :
وَلاَ یَزَالُوْنَ یُقَاتِلُوْنَکُمْ حَتّٰی یَرُدُّوْکُمْ عَنْ دِیْنِکُمْ اِنِ اسْتَطَاعُوْا وَ مَنْ یَّرْتَدِدْ مِنْکُمْ عَنْ دِیْنِہٖ فَیَمُتْ وَ ہُوَ کَافِرٌ فَاُولٰٓئِکَ حَبِطَتْ اَعْمَالُہُمْ فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَۃِ وَ اُولٰٓئِکَ اَصْحٰبُ النَّارِ ہُمْ فِیْھَا خٰلِدُوْنَ۔
’’اور وہ تم سے لڑتے ہی رہیں گے حتی کہ تمہیں تمہارے دین سے مرتد بنادیں اگر وہ ایسا کرنے پر قادر ہوں اور تم میں سے جو اپنے دین سے مرتد ہوگیااور کافر ہی مرا تو ان لوگوں کے اعمال دنیا وآخرت میں ضائع ہوگئے اور وہ ہمیشہ جہنم میں رہیں گے ‘‘۔(البقرہ:217)
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے خبردی ہے کہ کفار مسلمانوں سے اس وقت تک جنگ کرتے رہیں گے جب تک کہ وہ مسلمانوں کو ان کے دین سے مرتد نہ کردیں ،بشرطیکہ وہ ایسا کرنے کی طاقت رکھتے ہوں ،اور اللہ نے کسی کو جان مال یا عزت کے خوف سے ان کی موافقت کی اجازت نہیں دی بلکہ جنگ کی صورت میں ان کے شر سے بچنے کے لئے ان کی موافقت کرنے والے کے متعلق یہ بتادیا کہ وہ مرتد ہے اور اگر اسی حال میں مرگیا تو ہمیشہ کے لئے جہنمی ہے ۔

توجو کسی لڑائی یا جنگ کے بغیر ہی ان کی موافقت کرتا ہو وہ مرتد کیونکر نہ ہو جبکہ جو جنگ کے بعد ان کی موافقت کرے اس کا بھی کوئی عذر مقبول نہیں ہے، لہٰذاجو کسی طرح کے خوف یا جنگ کے بغیر ہی کفار کی موافقت میں بڑی تیزی دکھاتے ہیں ان کا کوئی عذر قبول ہونا ہی نہیں چاہیے اور وہ بلاشک وشبہ کفار ومرتد ہیں۔

فرمان تبارک وتعالیٰ :
لاَیَتَّخِذِ الْمُؤْمِنُوْنَ الْکٰفِرِیْنَ اَوْلِیَآءَ مِنْ دُوْنِ الْمُؤْمِنِیْنَ وَ مَنْ یَّفْعَلْ ذٰلِکَ فَلَیْسَ مِنَ اﷲِ فِیْ شَیْئٍ اِلَّآ اَنْ تَتَّقُوْا مِنْہُمْ تُقٰۃً۔
’’مومنین ،مومنوں کے سوا کافروں کو دوست نہ بنائیں او رجو ایسا کرے گاتو وہ اللہ کی طرف سے کسی شئے میں نہیں ،الا یہ کہ تم ان سے بچ کررہو‘‘۔(آل عمران:28)

اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے مومنوں کو منع کیا ہے کہ وہ مومنوں کے سوا کفار کو اپنا دوست بنائیں اگرچہ وہ کسی قسم کے خوف کے سبب ایسا کرنا چاہتے ہوں اور ایسا کرنے والے کے متعلق یہ خبر دی کہ’’وہ اللہ کی طرف سے کسی شئے میں نہیں ہے‘‘

یعنی اللہ کے ان دوستوں میں سے نہیں ہے جن سے آخرت میں نجات کا وعدہ کیا گیا ہے ’’الّا کہ تم ان سے بچ کررہو ‘‘۔یعنی انسان اس قدر بے بس ہوجائے کہ ان سے دشمنی کا اظہار کرنے کی طاقت نہ رکھے اور اپنے دل کو ان سے بغض وعداوت پر مطمئن کرکے ان کے ساتھ بظاہر میل جول رکھے ،لیکن جو مومنوں کے سوا بلاعذر ہی انہیں دوست بنائے ،دنیاوی زندگی کو آخرت پر ترجیح دے اور مشرکین سے ڈرتا ہو لیکن اللہ تعالیٰ سے نہ ڈرے تو اللہ تعالیٰ نے اس کے اس خوف کو بطور عذر قبول نہیں کیابلکہ فرمایاکہ :
اِنَّمَا ذٰلِکُمُ الشَّیْطٰنُ یُخَوِّفُ اَوْلِیَآئَہ فَلاَ تَخَافُوْہُمْ وَخَافُوْنِ اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ۔
’’درحقیقت یہ شیطان ہے جو اپنے دوستوں کو خوفزدہ کرتا ہے سو تم ان سے خوفزدہ نہ ہو اور اور مجھ سے ڈرو اگر واقعی تم مومن ہو‘‘۔(آل عمران:175)

فرمان باری تعالیٰ:
یٰآَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْآ اِنْ تُطِیْعُوا الَّذِیْنَ کَفَرُوْا یَرُدُّوْکُمْ عَلٰٓی اَعْقَابِکُمْ فَتَنْقَلِبُوْا خٰسِرِیْنَ۔
’’اے ایمان والواگر تم ان لوگوں کی اطاعت کروگے جنہوں نے کفرکیا تو وہ تمہیں تمہاری ایڑیوں کے بل پلٹادیں گے پھر تم نقصان اٹھانے والے ہوجاؤگے‘‘۔(آل عمران:149)

اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے خبردی ہے کہ اگر مومنین کفار کی اطاعت کرنے لگیں تو وہ لازماً انہیں اسلام سے مرتد بنادیں گے کیونکہ وہ مسلمانوں سے کفر سے کم پرہرگز راضی نہیں ہوتے ،نیز یہ خبربھی دی کہ ایسا کرنے کی صورت میں وہ دنیاوآخرت دونوں میں نقصان اٹھائینگے ،اور انہیں کفار کے خو ف سے ان کی اطاعت وموافقت کی اجازت نہیں دی ،حقیقت بھی یہی ہے کہ کفار ان سے اسی صورت میں خوش ہوں گے جب وہ ان کے حق پر ہونے کی گواہی دے دیں ،اور مسلمانوں سے بغض وعداوت کا اظہار کردیں اور ان سے تعلقات منقطع کرلیں ۔اس کے بعد فرمایا:
بَلِ اﷲُ مَوْٰلکُمْ وَ ہُوَ خَیْرُ النّٰصِرِیْنَ۔
’’بلکہ اللہ ہی تمہارا دوست ہے اور وہ سب مدد کرنے والوں میں سب سے بہتر ہے‘‘(آل عمران:150) ۔

اس حصے میں اللہ تعالیٰ نے خبردی ہے کہ وہ ہی مومنوں کا دوست ومددگار ہے بلکہ سب سے بڑا مددگار ہے سو اسی کی اطاعت ومدد کے ذریعے کفار سے بے خوف اور بے پرواہ ہواجاسکتاہے۔
لیکن افسوس ہے بندوں پر کہ انہوں نے توحید کو جان لیا اسی میں پرورش پائی اور یہ وقت ابھی گزرا ہی ہے کہ وہ رب العالمین ،خیرالناصرین کی دوستی سے مشرک اور قبر پرستوں کی دوستی کی طرف چلے گئے ،اس ذات کے بجائے جو ہر شئے کامالک ہے ان مشرکوں سے خوش رہنے لگے بلاشبہ ظالموں کا بدلہ بہت ہی برا ہے۔

فرمان باری تعالیٰ:
اَفَمَنِ اتَّبَعَ رِضْوَانَ اﷲِ کَمَنْ م بَآءَ بِسَخَطٍ مِّنَ اﷲِ وَ مَاْواٰہُ جَہَنَّمُ وَ بِئْسَ الْمَصِیْرُ۔
’’کیا وہ شخص جو اللہ کی رضامندی پر چلے وہ اس شخص کی طرح ہوسکتاہے جو اللہ کی ناراضگی لے کر لوٹے اور اس کا ٹھکانہ جہنم ہو اور وہ بہت برا ٹھکانہ ہے‘‘۔(آل عمران:162)

اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے خبردی ہے کہ اللہ کی رضاپر چلنے والے اور اس کی ناراضگی کی راہ پر چلنے والے کبھی برابر نہیں ہوسکتے اس کی ناراضگی اختیار کرنے والے کا انجام بروز قیامت جہنم ہے۔اور اس بات میں کوئی شک نہیں کہ اکیلے اللہ کی عبادت کرنا اور اس کے دین کی مدد کرنا ہی اللہ کی رضامندی ہے اور قبوں اور مردوں کی عبادت ومدد کرنا اللہ کو ناراض کردیتاہے لہٰذا جو مومن اللہ کی توحید اور دعوت توحید کا حامی ہو وہ اور جو مشرک شرک اور دعوت شرک کا مددگار ہو وہ یہ دونوں کبھی برابر نہیں ہوسکتے ۔اور اگر اس موقع پر کوئی خوف کو عذر بنائے تو یہ ناقابل قبول ہے اللہ نے کسی ایسے کام میں جو اسے ناراض کردیتا ہو اور اس کی رضامندی سے دور کردیتا ہو ’’خوف ‘‘کو بطور عذر نہیں ماناہے۔

اکثر باطل پرست دنیا چھن جانے کے خوف سے حق چھوڑ دیتے ہیں وگرنہ وہ حق کو نہ صرف جانتے ہوتے ہیں بلکہ اس کے مطابق عقیدہ بھی رکھتے ہیں لیکن صرف اس طرح وہ مسلمان نہیں ہوسکتے ۔

فرمان باری تعالیٰ :
اِنَّ الَّذِیْنَ تَوَفّٰہُمُ الْمَلٰٓئِکَۃُ ظٰلِمِیْٓ اَنْفُسِہِمْ قَالُوْا فِیْمَ کُنْتُمْ قَالُوْا کُنَّا مُسْتَضْعَفِیْنَ فِی الْاَرْضِ قَالُوْآ اَلَمْ تَکُنْ اَرْضُ اﷲِ وَاسِعَۃً فَتُہَاجِرُوْا فِیْھَا فَاُولٰٓئِکَ مَاْوٰہُمْ جَہَنَّمُ وَ سَآءَ تْ مَصِیْرًا۔
’’فرشتے جن لوگوں کو موت دے رہے ہوتے ہیں اس حال میں کہ انہوں نے اپنے نفسوں پر ظلم کئے ہوتے ہیں وہ ان سے پوچھتے ہیں تم کس حال میں تھے؟وہ جواباً کہتے ہیں کہ ہم زمین پر بڑے کمزور تھے وہ کہتے ہیں کیا اللہ کی زمین فراخ نہ تھی ؟تم وہ جگہ چھوڑکر چلے جاتے توانہی لوگوں کاٹھکانہ جہنم ہے اور وہ بہت برا ٹھکانہ ہے‘‘۔(النساء:97)

یعنی فرشتوں کا سوال ہوتا ہے کہ تم مسلمانوں میں سے تھے یا مشرکین میں سے ؟تو وہ کمزوری کو مسلمانوں کے فریق سے خارج ہونے کا عذر بتاتے ہیں فرشتے ان کا یہ عذر قبول نہیں کرتے اور ان پر جرح کرتے ہوئے کہتے ہیں ’’کیا اللہ کی زمین فراخ نہ تھی ؟تم اس میں ہجرت کرلیتے ‘‘۔اللہ تعالیٰ نے فرمایا’’انہی لوگوں کا ٹھکانہ جہنم ہے اور وہ بہت برا ٹھکانہ ہے ‘‘۔یہ آیت ان اہل مکہ کے متعلق نازل ہوئی جو اسلام لے آئے اورانہوں نے ہجرت نہ کی پھر جب مشرکین جنگ بدر کے لئے روانہ ہوئے توانہیں بھی اپنے ساتھ چلنے پر مجبور کردیا وہ ان کے خوف سے نکل پڑے پھر لڑائی میں مقابل گروہ کے مسلمانوں نے انہیں قتل کیا اور پھر جب انہیں معلوم ہوا کہ انہوں نے کسے قتل کیا ہے تو یہ افسوس کرنے لگے اور کہنے لگے کہ ہم نے اپنے ہی بھائی قتل کردیئے ۔اس موقع پر یہ آیت اتری جس میں انہیں ظالم اور جہنمی کہاگیا ہے۔تو جو اسلامی ممالک مشرکین کے قبضے میں چلے جائیں اوراس کے باشندے مشرکین کے گروہ میں شامل میں ہوجائیں اور اسلام کا ہار اپنے گلے سے اتار پھینکیں اور مشرکین کے دین سے موافقت کا اظہار کرنے لگیں ان کے فرمانبردار بن جائیں انہیں پناہ دیں ان کی مدد کریں اور موحدین کی مدد کرنا چھوڑدیں ان کی راہ سے الگ ہوجائیں اور انہیں غلط قرار دیں اور پھر انہیں براکہنے لگیں ،اور ان کا مذاق اڑانے لگیں ،اور توحید پر ثابت قدم رہنے اور اس پر آنے والی مشکلات پر صبر کرنے اور جہاد کرنے کے سبب انہیں بے وقوف کہنے لگیں ،اور موحدین کے خلاف مشرکین کی ازخود ہی دل سے مددکریں نہ کہ مجبور ہوکر یا بے دلی سے تو اس طرح کے لوگ ان کی بنسبت بالاولی کافر اور جہنمی ہوئے جنہوں نے وطن کی محبت میں او رکفار کے خوف سے محض ہجرت نہ کی اور مجبور اور خوفزوہ ہو کر بے دلی سے ان کے لشکر میں شامل ہوئے ۔

اگر کوئی کہے کہ :
مشرکین کا غزوہ بدر میں مسلمانان مکہ کو مسلمانان مدینہ سے مقابلے کے لئے اپنے ساتھ نکلنے پر مجبور کردینا کیاان مسلمانوں کے لئے عذر نہیں ہے ؟تو اس سے جواباً کہا جائے گا کہ یہ عذر نہیں ہے کیونکہ جب اس سے پہلے وہ ان کے ساتھ رہائش پذیر تھے اس وقت معذور نہ تھے تو اب اکراہ یعنی زبردستی کی وجہ سے معذور کس طرح ہوئے ؟جبکہ ان کے ساتھ رہتے ہوئے وہ ہجرت کرسکتے تھے لیکن انہوں نے ہجرت کو چھوڑ دیا ۔

فرمان باری تعالیٰ :
وَقَدْ نَزَّلَ عَلَیْکُمْ فِی الْکِتٰبِ اَنْ اِذَا سَمِعْتُمْ اٰیٰتِ اﷲِ یُکْفَرُ بِہَا وَ یُسْتَہْزَاُ بِہَا فَلاَ تَقْعُدُوْا مَعَہُمْ حَتّٰی یَخُوْضُوْا فِیْ حَدِیْثٍ غَیْرِہٖ اِنَّکُمْ اِذًا مِّثْلُہُم۔
’’اور وہ کتاب میں تم پر یہ بات نازل کرچکاہے کہ جب تم سنو کہ اللہ کی آیات کے ساتھ کفر کیاجارہا ہو اور ان کا مذاق اڑایاجارہا ہوتو تم ان کے ساتھ نہ بیٹھو حتی کہ وہ اس کے علاوہ کسی اور بات میں لگ جائیں اس وقت تم انہی کی طرح ہوتے ہو ‘‘۔(النساء:140)

اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے یہ بتایا ہے کہ جو اللہ کی آیات کے ساتھ کفر کرنے والوں اور ان کا مذاق اڑانے والوں کے ساتھ اس مجلس میں بیٹھے گا و ہ انہی کی مانند ہوگا۔یہاں اللہ تعالیٰ نے خوفزدہ اور بے خوف اور مجبور وغیرہ میں کوئی فرق نہیں کیا جیسا کہ شروع اسلام میں سب ایک ہی شہر مکہ میں تھے تواب جبکہ اسلام پھیل چکا ہے اور اپنے اسلامی شہر میں اگر کوئی اللہ کی آیات کے ساتھ کفر واستہزاء کرنے والوں کو اپنے شہروں میں مدعو کرے اورانہیں دوست بناکر اپنے ساتھ بٹھائے اور ان کا کفر واستہزاء سنے اور اس کا اقرار کرے اور موحدین کو جھڑکے ایسا شخص ان کی طرح کافر اور مذاق اڑانے والا کیونکر نہ ہو؟

فرمان باری تعالیٰ:
یٰآَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لاَ تَتَّخِذُوا الْیَہُودَ وَ النَّصٰرٰٓی اَوْلِیَآءَ بَعْضُہُمْ اَوْلِیَآءُ بَعْضٍ وَ مَنْ یَّتَوَلَّہُمْ مِّنْکُمْ فَاِنَّہٗ مِنْہُمْ اِنَّ اﷲَ لاَ یَہْدِی الْقَوْمَ الظّٰلِمِیْنَ۔
’’اے ایمان والویہود ونصاریٰ کو دوست نہ بناؤ وہ ایک دوسرے کے دوست ہیں اور تم میں سے جو انہیں دوست بنائے گا تویقینا وہ انہی میں سے ہوگابے شک اللہ ظالم قوم کو ہدایت نہیں دیتا‘‘۔(المائدۃ:51)

اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے مومنوں کو منع کیا کہ وہ یہود ونصاریٰ کو دوست بنائیں اور یہ بتایا ہے کہ جو انہیں دوست بنائے گا وہ انہی میں شمار ہوگا۔یہی حکم اس شخص کا بھی ہے جو مجوسیوں اور بت پرستوں کو دوست بنائے اب اگر کوئی اختلاف کرے اورکہے کہ قبر پرستی اور مردوں کو پکارنا اللہ کے ساتھ شرک کرنا نہیں ہے اور نہ ہی ایسا کرنے والے مشرک ہیں تو اس کا کفر وعناد واضح ہے ۔نیز یہاں بھی اللہ تبارک وتعالیٰ نے خوفزدہ اور بے خوف میں کوئی فرق نہیں کیا بلکہ فرمایا کہ جن لوگوں کے دلوں میں بیماری ہو وہ گردش حالات کے خوف سے ایسا کرتے ہیں اور یہی حال ان مرتدین کا بھی ہے جو گردش حالات سے خوفزدہ رہتے ہیں کیونکہ ان کے دلوں میں اللہ کی نصرت کے سچے وعدوں پر ایمان نہیں ہے ،لہٰذا وہ شرک اور مشرکین کی طرف لپکتے ہیں کہ کہیں گردش حالات کا شکار نہ ہوجائیں ،اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
فَعَسَی اﷲُ اَنْ یَّاْتِیَ بِالْفَتْحِ اَوْ اَمْرٍ مِّنْ عِنْدِہٖ فَیُصْبِحُوْا عَلٰی مَآ اَسَرُّوْا فِیْٓ اَنْفُسِہِمْ نٰدِمِیْنَ۔
’’امید ہے اللہ جلد ہی فتح یا اپنی جانب سے کوئی اور معاملہ لے آئے پھر وہ اپنے دل میں چھپائے ہوئے رازوں پر شرمندہ ہوجائیں‘‘۔(مائدہ:52)

فرمان باری تعالیٰ:
تَرٰی کَثِیْرًا مِّنْہُمْ یَتَوَلَّوْنَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا لَبِئْسَ مَا قَدَّمَتْ لَہُمْ اَنْفُسُہُمْ اَنْ سَخِطَ اﷲُ عَلَیْہِمْ وَ فِی الْعَذَابِ ہُمْ خٰلِدُوْنَ۔
’’آپ ان کی اکثریت کو دیکھیں گے کہ وہ ان لوگوں کو ہی دوست بناتی ہے جنہوں نے کفر کیا ہویقینا جو ان کی جانوں نے ان کے لئے آگے بھیجا وہ بہت ہی برا ہے کہ اللہ ان پر ناراض ہوگیااور وہ ہمیشہ عذاب میں رہیں گے‘‘۔(المائدۃ:80)
 

سلفی منہج

مبتدی
شمولیت
جولائی 24، 2011
پیغامات
39
ری ایکشن اسکور
117
پوائنٹ
0
حصہ دوم:

مشرکین سے دوستی کا شرعی حکم
مؤلف:امام سلیمان بن عبداﷲ بن محمد بن عبدالوھاب ﷭

اس آیت میں اللہ نے یہ بتایاہے کہ کفار سے دوستی کرنا اللہ کی ناراضگی او رجہنم میں ہمیشگی کا سبب ہے اگرچہ ایسا کرنے والا خوفزدہ کیوں نہ ہو البتہ جو اللہ کی لگائی ہوئی شرط یعنی ایمان پر اطمینان قلب کے ساتھ مجبور کردیاگیا ہو وہ مستثنیٰ ہے لیکن جو شخص اور اہل توحید سے دشمنی اور بغض رکھتا ہواور دعوت توحید کو مٹانے پر اور غیر اللہ کی طرف دعوت یعنی دعوت شرک پر تعاون کرتا ہو وہ کافر کیوں نہ ہو جبکہ یہ تمام کام واضح کفر ہیں۔

فرمان باری تعالیٰ:
وَ لَوْ کَانُوْا یُؤْمِنُوْنَ بِاﷲِ وَ النَّبِیِّ وَ مَآ اُنْزِلَ اِلَیْہِ مَا اتَّخَذُوْہُمْ اَوْلِیَآءَ وَلٰکِنَّ کَثِیْرًا مِّنْہُمْ فٰسِقُوْنَ۔
’’اور اگر وہ واقعی اللہ اور نبی اور اس کی طرف نازل کردہ (وحی)پر ایمان رکھتے توانہیں دوست نہ بناتے لیکن ان کی اکثریت فاسق ہے‘‘۔(المائدۃ:81)

اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے ذکر کیا ہے کہ کفار سے دوستی اللہ اس کے رسول اور اس کی نازل کردہ کتاب پر ایمان کے منافی ہے اس کے بعد اس کی وجہ یہ بتائی کہ ان کی اکثریت فاسق ہے یہاں بھی گردش حالات سے خوفزدہ اور بے خوف کے درمیان کوئی فرق نہیں کیا مرتد ہونے سے پہلے ان مرتدین کی اکثریت کایہی حال ہوتا ہے کہ وہ فاسق ہوتے ہیں یایہی فسق انہیں کفار سے دوستی اور اسلام سے مرتد ہوجانے پر آمادہ کرتا ہے (نعوذ باللہ من ذلک )

فرمان باری تعالیٰ:
وَ اِنَّ الشَّیٰطِیْنَ لَیُوْحُوْنَ اِلٰٓی اَوْلِیٰٓئِہِمْ لِیُجَادِلُوْکُمْ وَ اِنْ اَطَعْتُمُوْہُمْ اِنَّکُمْ لَمُشْرِکُوْن۔
’’اور یہ شیاطین اپنے دوستوں کی طرف وسوسے ڈالتے ہیں تاکہ وہ تم سے جھگڑا کریں اور اگر تم نے ان کی بات مان لی تو تم یقینا مشرک ہوئے ‘‘۔(الانعام:121)

یہ آیت اس وقت نازل ہوئی جب مشرکین نے مسلمانوں سے کہا جسے تم خود مارڈالو اسے کھالیتے ہو اور جسے اللہ ماردے اسے نہیں کھاتے تواللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کردی اس آیت کے مطابق مشرکین کی اطاعت یعنی بات مانتے ہوئے مردارکوحلال قراردینے والا بھی خوفزدہ یا بے خوف کا فرق کئے بغیر مشرک ہے تو جو ان سے دوستی کرنے ان کے ساتھ مل کرچلنے ،ان کی مدد کرنے ،ان کے حق پرہونے کی گواہی دینے ،مسلمانوں کی جان مال عزت کو حلال سمجھنے اور مسلمانوں کی جماعت سے نکل کر مشرکین کی جماعت میں مل جانے کو ان کی اطاعت میں حلال اور جائز مان لے ،وہ ان لوگوں کی بنسبت بالاولیٰ کافر اور مشرک ہوا جو صرف مردار حلال قرار دینے میں ان کی موافقت کرے ۔

فرمان باری تعالیٰ:
وَاتْلُ عَلَیْہِمْ نَبَاَ الَّذِیْٓ ٰاتَیْنٰہُ ٰاٰیتِنَا فَانْسَلَخَ مِنْہَا فَاَتْبَعَہُ الشَّیْطٰنُ فَکَانَ مِنَ الْغٰوِیْنَ۔
’’اور آپ ان پر اس شخص کا قصہ پڑھیں جسے ہم نے اپنی آیات دیں پھر وہ ان سے نکل گیا پھر شیطان اس کے پیچھے لگ گیا بالآخر وہ سرکشوں سے ہوگیا‘‘۔(الاعراف:175)

یہ آیت بنی اسرائیل کے عالم وزاہد عابد کے متعلق نازل ہوئی جس کا نام بلعام تھا اور وہ اسم اعظم جانتا تھا ۔ابن ابی طلحہ کہتے ہیں کہ ابن عباس نے کہا :’’جب موسیٰ نے جبابرۃ پر حملہ آور ہونے کا فیصلہ کیا تو اس کے (بلعام)چچازاد اور ہم قوم اس کے پاس آکر کہنے لگے کہ موسیٰ بہت ہی مضبوط شخص ہے اور اس کے پاس لشکر بھی بہت سا ہے اور اگر وہ ہم پر غالب آیا تو ہم سب کو قتل کردے گا لہٰذا آپ اللہ سے دعا کریں کہ وہ موسیٰ اور اس کے ساتھیوں کو ہم سے ہٹادے ،اس نے کہا اگر میں یہ دعا کرلوں تومیری دنیا اور آخرت دونوں تباہ ہوجائیں گی وہ اس سے اصرار کرتے رہے حتیٰ کہ اس نے دعا کردی اللہ تعالیٰ نے اسے اپنی آیات سے نکال باہر کیا ۔تویہ ہے اللہ کا فرمان:
فَانْسَلَخَ مِنْہَا فَاَتْبَعَہُ الشَّیْطٰنُ فَکَانَ مِنَ الْغٰوِیْنَ۔
’’پھر وہ ان سے نکل گیا پھر شیطان اس کے پیچھے لگ گیا بالآخر وہ سرکشوں سے ہوگیا‘‘۔

ابن زید فرماتے ہیں کہ:’’اس کی خواہش اپنی قوم کے ساتھ تھی یعنی موسیٰ اور ان کی قوم سے لڑنے والوں کے ساتھ یہ شخص جسے اللہ نے اپنی آیات سے نوازا اور وہ انہیں جاننے اور ان اہل بن جانے کے بعد ان سے نکل گیا اور ان کے مطابق اس نے عمل نہ کیا تو یہ اس طرح ہوا کہ اس نے مشرکین کی حمایت کی اور اپنی رائے کے ذریعے ان کی مدد کی اور موسیٰ اور ان کی قوم کے خلاف یہ دعا کی کہ اللہ انہیں اس کی قوم سے ہٹادے حالانکہ وہ حق جانتا تھا، اس کا اقرار کرتا تھا اور عبادت گزار بھی تھا لیکن قوم اور خاندان کے خوف نے اور اس کی اپنی نفسانی خواہشات اور دنیاوی جاہ وجلال نے اسے اس حق کے مطابق عمل کرنے سے روک دیا اور یہی اللہ کی آیات سے نکلنا قرار پایا ۔آج کل کے ان مرتدین کی بھی واقعتاً یہی حالت ہے اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنی آیات دی ہیں جن میں توحید اور دعوت توحید کا حکم شرک اوردعوت شرک سے روکاگیا ہے اور مومنوں سے محبت اور ان کی مدد کرنے اور مل کر اللہ کی رسی مضبوط پکڑ لینے اور مومنوں سے مل جانے اور مشرکین سے بغض وعداوت رکھنے اوران سے الگ رہنے اور ان کے خلاف جہاد کرنے اور بتوں کو گرادینے اور قحبہ خانوں اور لواطت کے مراکز اور بے حیائی کے اڈوں کو تہس نہس کردینے کا حکم ہے اور وہ ان احکامات کو نہ صرف جانتے ہیں بلکہ ان کا اقرار بھی کرتے ہیں پھر بھی ان سب سے نکل جاتے ہیں تو یہ لوگ بلعام سے بڑھ کر اللہ کی آیات سے نکل جانے اور کفر وارتداد کے مستحق ہیں یا کم ازکم اس کی مثل ضرور ہیں ۔

وَ لاَ تَرْکَنُوْآ اِلَی الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا فَتَمَسَّکُمُ النَّارُ وَ مَا لَکُمْ مِّنْ دُوْنِ اﷲِ مِنْ اَوْلِیَآءَ ثُمَّ لاَ تُنْصَرُوْنَ۔
’’اور تم ان لوگوں کی طرف جھکاؤ مت رکھو جنہوں نے ظلم کئے پس تمہیں آگ لگ جائے گی اور اللہ کے سوا تمہارا کوئی مددگار نہیں ہوسکتا پھر تمہاری مدد نہ کی جائے گی‘‘۔(ھود:113)

اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے یہ بتایا کہ ظالم کفار کی طرف جھکاؤ اور میلان جہنم کی آگ کا سبب ہے یہاں بھی اللہ نے ان سے خوفزدہ اور بے خوف کے درمیان کوئی فرق نہیں کیا البتہ جسے مجبور کردیاجائے وہ مستثنیٰ ہے ،تو جو شخص دینی اعتبار سے ان کی طرف مائل ہو اور ان کے متعلق اچھی رائے رکھتا ہو اور اپنے مال اور مشوروں کے ذریعے اپنی طاقت کے مطابق ان کی مدد کرتا ہواور توحید اور توحید پرستوں کے مٹ جانے اور ان پر مشرکین کے غالب آجانے کی چاہت رکھتا ہواس سے بڑھ کر ان کی طرف جھکاؤ رکھنے والا اور کافر کون ہوسکتا ہے؟

فرمان باری تعالیٰ :
مَنْ کَفَرَ بِاﷲِ مِنْم بَعْدِ اِیْمَانِہٖ اِلَّا مَنْ اُکْرِہَ وَ قَلْبُہٗ مُطْمَئِنٌّم بِالْاِیْمَانِ وَلکِنْ مَّنْ شَرَحَ بِالْکُفْرِ صَدْرًا فَعَلَیْہِمْ غَضَبٌ مِّنَ اﷲِ وَ لَہُمْ عَذَابٌ عَظِیْم،ذٰلِکَ بِاَنَّہُمُ اسْتَحَبُّوا الْحَیٰوۃَ الدُّنْیَا عَلَی الْاٰخِرَۃِ وَ اَنَّ اﷲَ لاَ یَہْدِی الْقَوْمَ الْکٰفِرِیْنَ۔
’’جو ایمان لانے کے بعد اللہ کے ساتھ کفر کرے مگر جو مجبور کردیاجائے اور ا س کا دل بھی ایمان پر مطمئن رہے لیکن جو شرح صدرسے کفر کرے تو انہی لوگوں پر اللہ کا غضب ہے اور ان کے لئے بڑاعذاب ہے ایسا اس لئے کہ انہوں نے دنیاوی زندگی کو آخرت پر ترجیح دی اور اس لئے کہ اللہ کافر لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا‘‘۔(النحل:107-106)

اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنا دین بدل کر کفر کی طرف پلٹ جانے والے کے متعلق قطعی فیصلہ دیا ہے کہ وہ کافر ہے خوا ہ اس کے پاس جان مال عزت کے خوف (یعنی صرف اسے خوف ہی ہو واقعتا کسی مشرک نے اس کی جان یا مال یا عزت کو نقصان نہ پہنچایا ہوکیونکہ جسے واقعتا کچھ نقصان پہنچایا ہو اسے خائف یا خوفزدہ نہیں بلکہ مجبور وبے بس کہتے ہیں)کا عذر ہو یا نہ ہو ،اور خواہ اس نے دل سے کفر کیا ہو یا بظاہر کیا ہو )نہ کہ دل سے (اور خواہ اس نے کفریہ قول وفعل دونوں کاارتکاب کیا ہو یا کسی ایک کا یا مشرکین سے دنیاوی متاع کے حصول کی لالچ میں ایسا کیا ہویا نہیں بہرحال وہ کافر ہے سوائے مجبور کے وہ مستثنیٰ ہے اور ہماری لغت میں اس سے مراد وہ شخص ہے جو ان کی قید میں ہو اور اس سے کہا جائے کہ کفر کر وگرنہ ہم تجھے قتل کردیں گے یا ماردیں گے یا مشرکین نے اس پر بدترین تشدد کیا ہواور اس سے نجات کا راستہ ان کی موافقت ہی ہو تو اس کے لئے بظاہران کی موافقت کرنا جائز ہے اس شرط کے ساتھ کہ اس کا دل اپنے ایمان پر مطمئن ہو یعنی دل سے اس کفر کا عقیدہ نہ رکھے لیکن اگر وہ دل سے بھی ان کے ساتھ متفق ہوجائے تو وہ کافر ہی ہے اگرچہ مجبور کیا گیا ہو۔امام احمد﷫کے کلام سے بھی ایسا ہی ظاہر ہوتا ہے کہ پہلی صورت میں اسے اس وقت تک مجبور شمار نہ کیا جائے گا جب تک کہ مشرکین اس پر بدترین تشدد نہ کریں امام احمد﷫کاکلام درج ذیل ہے :
’’امام احمد بن حنبل ﷫بیمار تھے امام یحییٰ بن معین ﷫ان کی عیادت کے لئے آئے اور انہیں سلام کیا امام احمد نے جواب نہ دیا )واضح رہے کہ امام یحییٰ بن معین خائف یعنی خوفزدہ کو بھی مجبور مانتے تھے اس لئے انہوں نے خلق کے قرآن کے مسئلہ پر حاکم کے سامنے قرآن کے مخلوق ہونے کا اظہارکردیا تھا جبکہ حاکم کی جانب سے ان پر کسی قسم کا تشدد نہیں کیا گیا تھالیکن امام احمد ﷫خائف کو معذور نہ مانتے تھے البتہ جس پر تشدد کیا جائے اسے معذور اور مجبور مانتے تھے اس سلسلے میں ان دونوں کے مابین شدید اختلاف تھا ۔ازمترجم(امام یحییٰ بن معین عمار کی حدیث اوراللہ تعالیٰ کے اس فرمان کو:اِلَّا مَنْ اُکْرِہَ وَ قَلْبُہٗ مُطْمَئِنٌّم بِالْاِیْمَانِ۔ ’’مگر جو مجبور کردیا جائے اور اس کا دل ایمان پر مطمئن ہو ‘‘۔اپنے موقف کی دلیل میں پیش کرتے رہے ،لیکن امام احمد ﷫نے اپنا منہ پھیر لیا بالآخر یحییٰ کہنے لگے یہ عذر بھی قبول نہیں کررہے پھر جب واپس جانے کا ارادہ کیاتو امام احمد ﷫فرمانے لگے کہ یہ عمار کی حدیث سے دلیل لیتے ہیں جبکہ حدیث عمار میں ہے کہ انہوں نے نبی کو اپنا قصہ سناتے ہوئے کہا کہ ’’جب میں مشرکین کے پاس سے گزرا تو وہ آپ کو برا کہہ رہے تھے اس پر میں نے انہیں منع کیا تو وہ مجھ پر تشدد کرنے لگے ‘‘۔پھر امام صاحب یحییٰ سے مخاطب ہوکر کہنے لگے کہ تم سے صرف اتنا کہا گیا کہ ہم تمہیں ماردیں گے (یعنی مارا نہیں تو اس پر تم نے حاکم کی موافقت کرلی یہ سن کر)یحییٰ کہنے لگے :’’اللہ کی قسم آسمان کے نیچے اللہ کے دین میں تم سے زیادہ سمجھ دار میں نے نہیں دیکھا‘‘۔

اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے یہ بتایا کہ اس کفر اور عذاب عظیم کی وجہ سے شرک کا اعتقاد رکھنا یا توحید سے جاہل ہونا یا دین اسلام سے بغض رکھنا یا کفر سے محبت کرنا نہیں بلکہ اس کی وجہ سے دنیا کی محبت اور (دنیاکی محبت کو )دین اور اللہ رب العالمین کی خوشنودی پر ترجیح دینا ہے چنانچہ فرمایا:
ذٰلِکَ بِاَنَّہُمُ اسْتَحَبُّوا الْحَیٰوۃَ الدُّنْیَا عَلَی الْاٰخِرَۃِ وَ اَنَّ اﷲَ لاَ یَہْدِی الْقَوْمَ الْکٰفِرِیْنَ۔
’’ایسااس لئے کہ انہوں نے دنیاوی زندگی کو آخرت پر ترجیح دی اور اس لئے کہ اللہ کافرلوگوں کو ہدایت نہیں دیتا‘‘۔

وہ دنیا کی محبت کا عذر پیش کرتے رہے اس کے باوجود اللہ تعالیٰ نے انہیں کافر کہا اور ان کے بارے میں بتایا کہ اللہ انہیں ہدایت نہیں دے گا اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے دنیا کو آخرت پر ترجیح دینے کے سبب مرتد ہونے والے لوگوں کے متعلق خبر دی کہ ان کے دلوں ،آنکھوں اور کانوں پر مہر لگادی گئی ہے اور وہ غفلت برتنے والے ہیں اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے قطعی خبر دی کہ یہ لوگ ہی آخرت میں خسارہ اٹھانے والے ہوں گے ۔

قرآن کریم میں اصحاب کہف کا باہم ایک دوسرے سے یہ کہنا کہ:
اِنَّہُمْ اِنْ یَّظْہَرُوْا عَلَیْکُمْ یَرْجُمُوْکُمْ اَوْ یُعِیْدُوْکُمْ فِیْ مِلَّتِہِمْ وَلَنْ تُفْلِحُوْآ اِذًا اَبَدًا۔
’’اگر وہ )مشرکین(تم پر غالب آگئے پھر یا تو وہ تمہیں رجم کردیں گے یااپنے دین میں پلٹادیں گے ،پھر توتم کبھی نجات حاصل نہ کرسکوگے ‘‘(الکہف:20)۔

اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اصحاب کہف کا قول نقل کیاہے کہ وہ آپس میں کہنے لگے کہ اگر تم پر مشرکین غالب آگئے تو دو میں سے ایک بات یقینی ہے یا تو وہ ہمیں پتھر مار مار کر سنگسار کردیں گے یا واپس اپنے دین میں پلٹالیں گے ۔وَلَنْ تُفْلِحُوْآ اِذًا اَبَدًا۔’’پھر توتم کبھی نجات حاصل نہ کرسکوگے ‘‘۔یعنی ان کے غالب ہونے کے بعد اگر تم نے ان کے دین پر ان سے موافقت کرلی توکبھی نجات نہ پاسکوگے ۔غورکیجئے یہ ان لوگوں کاحال ہے ،جو مغلوب ہونے کے بعد ان کی موافقت کریں توجو کسی غلبے یا دباؤ کے بغیر ہی ان کی موافقت کرنے لگے اور دور رہ کر بھی ان سے رابطہ رکھے اور ان کے مطالبے مان لے وہ کیسے نجات حاصل کرسکے گا ؟اس کے باوجود بھی ایسے لوگ سمجھتے ہیں کہ وہ ہدایت یافتہ ہیں ۔

فرمان باری تعالیٰ ہے:
وَ مِنَ النَّاسِ مَنْ یَّعْبُدُ اﷲَ عَلٰی حَرْفٍ فَاِنْ اَصَابَہٗ خَیْرُ نِاطْمَاَنَّ بِہٖ وَاِنْ اَصَابَتْہُ فِتْنَۃُ نِانْقَلَبَ عَلٰی وَجْہِہٖ خَسِرَ الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَۃَ ذٰلِکَ ہُوَ الْخُسْرَانُ الْمُبِیْنُ۔
’’لوگوں میں کچھ ایسے بھی ہیں جو سب سے الگ رہ کر اللہ کی عبادت کرتے ہیں اگر انہیں خیر پہنچے تو اس پر مطمئن رہتے ہیں اور اگر انہیں کوئی فتنہ آپہنچے تواپنے چہرے کے بل پلٹ جاتے ہیں انہوں نے دنیا وآخرت میں نقصان اٹھایا اور یہی واضح نقصان ہے‘‘۔(الحج:11)

اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے خبر دی ہے کہ کچھ لوگ الگ تھلگ رہ کر اللہ کی بندگی کرتے ہیں پھر جب کبھی انہیں کوئی بھلائی یعنی مدد یا عزت یا تندرستی یا کشادگی یا امن وعافیت وغیرہ پہنچے تومطمئن یعنی ثابت قدم رہتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ دین بڑا ہی اچھا ہے ہمیں اس میں خیر ہی خیر دکھائی دیتی ہے مگر جونہی کسی فتنے یعنی خوف یا بیماری یا فقر وفاقہ کا شکار ہوتے ہیں تو چہرے کے بل پلٹ جاتے ہیں یعنی اپنے دین سے مرتد ہوکر مشرکین کی طرف پلٹ جاتے ہیں ۔یہ آیت دورحاضر کے موجودہ فتنوں میں مبتلاہوکر اپنے دین حق سے پلٹ جانے والوں پر پوری طرح صادق آتی ہے کہ جب تک کسی مصیبت کا شکار نہ ہوئے سب سے الگ ہوکر اللہ کی بندگی کرتے رہے اور اس حال میں یہ ان بندوں میں شامل نہ تھے جو یقین اور ثابت قدمی کے ساتھ اللہ کی بندگی کرتے ہیں پھر جونہی انہیں کسی طرح کے فتنے میں مبتلا ہونا پڑا تواپنے دین سے ہی پھر گئے اورمشرکین سے متفق ہوگئے سو جس طرح دنیا میں ان کے ساتھ ہیں آخرت میں بھی انہی کے ساتھ ہوں گے یہ دنیا اور آخرت کا بڑاہی واضح نقصان ہے۔

ان کے پاس کوئی دشمن نہیں آیا اور اب تک عافیت میں ہیں اس کے باوجود اللہ تعالیٰ سے بدگمان ہیں اور سمجھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ حق اور اہل حق کے مدمقابل باطل اور اہل باطل کو فتح یاب کرے گا ۔سو ان کی اس بدگمانی نے انہیں گرادیا جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتاہے:
وَ ذٰلِکُمْ ظَنُّکُمُ الَّذِیْ ظَنَنْتُمْ بِرَبِّکُمْ اَرْدٰکُمْ فَاَصْبَحْتُمْ مِّنَ الْخٰسِرِیْنَ۔
’’یہ ہے تمہارا وہ ظن جو تم نے اپنے رب کے ساتھ روا رکھا اس نے تمہیں گرادیا سو تم نقصان اٹھانے والوں میں سے ہوگئے ‘‘۔(فصلت:23)

میرے بھائی !آپ پر تو اللہ تعالیٰ نے ثابت قدم رہنے کا احسان کیا ہے آپ بچ کر رہیے گا کہیں آپ کے دل میں کوئی شک جگہ نہ بنالے یا ان لوگوں کا معاملہ آپ کو خوشنما لگنے لگے ان مشرکین سے متفق ہوجانا اور ان کے لئے اظہار اطاعت کرنا سمجھ میں آئے ۔اپنی جان ،مال اور عزت سب کو بچاکررکھیں اس لئے کہ اسی شبہے نے ہی بہت سے پہلوں اور پچھلوں کو شرک کی لعنت میں گرفتار کردیا اور اللہ نے ان کا کوئی عذر بھی قبول نہ کیا ،وگرنہ ان میں سے اکثر لوگ حق جانتے تھے دل سے اس کا عقیدہ بھی رکھتے تھے لیکن اس کے مطابق عمل نہ کرتے تھے اور وہ آٹھ ترغیبات جنہیں اللہ نے اپنی کتاب میں ذکر کیا ان کی طرف راغب ہوکر شرک کی راہ اختیار کرلیتے جبکہ اللہ نے اس میں سے کسی کو بھی بطور عذر قبول نہیں کیا ،فرمایا:
قُلْ اِنْ کَانَ اٰبَآؤُکُمْ وَ اَبْنَآؤُکُمْ وَ اِخْوَانُکُمْ وَ اَزْوَاجُکُمْ وَ عَشِیْرَتُکُمْ وَ اَمْوَالُ نِاقْتَرَفْتُمُوْہَا وَ تِجَارَۃٌ تَخْشَوْنَ کَسَادَہَا وَ مَسٰکِنُ تَرْضَوْنَہَآ اَحَبَّ اِلَیْکُمْ مِّنَ اﷲِ وَ رَسُوْلِہٖ وَ جِہَادٍ فِیْ سَبِیْلِہٖ فَتَرَبَّصُوْا حَتّٰیٓ یَاْتِیَ اﷲُ بِاَمْرِہٖ وَ اﷲُ لاَ یَہْدِی الْقَوْمَ الْفٰسِقِیْنَ۔
’’اے نبی آپ فرمادیجئے اگر تمہارے باپ دادا اور تمہاری اولاد اور تمہارے بھائی اور تمہاری بیویاں اور تمہارا خاندان اور تمہارے اموال جو تم نے کمائے اورتمہارا کاروبارجس میں نقصان سے تم ڈرتے ہواگر یہ سب تمہیں اللہ اور اس کے رسول اور اس کی راہ میں جہاد سے بڑھ کر محبوب ہیں توپھر انتظار کرو کہ اللہ اپنا فیصلہ لے آئے اور اللہ فاسق لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا‘‘۔(توبۃ:24)

فرمان باری تعالیٰ:
اِنَّ الَّذِیْنَ ارْتَدُّوْا عَلٰٓی اَدْبَارِہِمْ مِّنْم بَعْدِ مَا تَبَیَّنَ لَہُمُ الْہُدَی الشَّیْطٰنُ سَوَّلَ لَہُمْ وَ اَمْلٰی لَہُمْ،ذٰلِکَ بِاَنَّہُمْ قَالُوْا لِلَّذِیْنَ کَرِہُوْا مَا نَزَّلَ اﷲُ سَنُطِیْعُکُمْ فِیْ بَعْضِ الْاَمْرِ وَاﷲُ یَعْلَمُ اِسْرَارَہُمْ،فَکَیْفَ اِذَا تَوَفَّتْہُمُ الْمَلٰٓئِکَۃُ یَضْرِبُوْنَ وُجُوْہَہُمْ وَ اَدْبَارَہُمْ،ذٰلِکَ بِاَنَّہُمُ اتَّبَعُوْا مَآ اَسْخَطَ اﷲَ وَ کَرِہُوْا رِضْوَانَہٗ فَاَحْبَطَ اَعْمَالَہُمْ۔
’’جو لوگ اپنے لئے ہدایت واضح ہوجانے کے بعد بھی اپنے پشتوں کے بل مرتد ہوگئے شیطان نے انہیں ان کے اعمال خوشنما کرکے دکھائے اورانہیں امیدیں دلائیں یہ اس لئے کیونکہ انہوں نے ان لوگوں سے کہا جو اللہ کے نازل کردہ )حکم یا دین(کو ناپسند کرتے تھے کہ بعض معاملات میں عنقریب ہم تمہاری اطاعت کرلیں گے ۔جبکہ اللہ ان کے دل میں پوشیدہ باتیں تک جانتا ہے توجب فرشتے انہیں موت دیتے وقت ان کے چہروں اور پشتوں پر ماررہے ہوں گے اس وقت کیا عالم ہوگا اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ اس راہ پر چلے جس نے اللہ کو ناراض کردیا اورانہوں نے اس کی رضامندی کو ناپسند کیا سو اللہ نے ان کے اعمال برباد کردیئے ‘‘۔(محمد:28-25)

اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنی پشتوں کے بل مرتد ہوجانے والوں کے متعلق یہ خبر دی ہے کہ ان کے لئے ہدایت کی راہ واضح ہوچکی تھی اور وہ اس کے علم کے باوجود مرتد ہوگئے لیکن حق کے اس علم نے انہیں کچھ فائدہ نہ دیا اور شیطان ان کے سامنے ان کے اس ارتداد کو خوشنما بناکر پیش کرتا رہا اور انہیں حقیقت سے دھوکے میں رکھا دنیا کے فتنے میں مبتلاہوکر مرتد ہوجانے والوں کا یہی حال ہوتا ہے کہ شیطان اولًا انہیں دھوکے دیتا ہے اور انہیں اس وہم میں مبتلا کرتا ہے کہ ’’خوف‘‘ان کے لئے ارتداد کا ٹھوس عذر ثابت ہوگااور چونکہ وہ حق کو پہنچانتے ہیں اس کی گواہی بھی دیتے ہیں اس لئے ان کی یہ بدعملی انہیں نقصان نہ دے گی لیکن وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ اکثر مشرکین بھی حق کو پہنچانتے ہیں اس سے محبت بھی کرتے ہیں اور اس کا اقرار بھی کرتے ہیں لیکن دنیا کی محبت اورجان ،مال معیشت ومملکت کے خوف میں اس پر چلتے نہیں اس کے مطابق عمل نہیں کرتے ۔اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
ذٰلِکَ بِاَنَّہُمُ اتَّبَعُوْا مَآ اَسْخَطَ اﷲَ وَ کَرِہُوْا رِضْوَانَہٗ فَاَحْبَطَ اَعْمَالَہُمْ۔
’’اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ اس راہ پر چلے جس نے اللہ کو ناراض کردیا اور انہوں نے اس کی رضامندی کو ناپسند کیا سو اللہ نے ان کے اعمال برباد کردیئے ‘‘۔

اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے ذکرکیا ہے کہ ان پر ارتداد اور شیطان کی چالبازیاں چل جانے کی وجہ یہ تھی کہ انہوں نے ان لوگوں سے جو اللہ کا نازل کردہ دین ناپسند کرتے ہیں یہ کہا کہ عنقریب بعض معاملات میں ہم تمہاری بات مان لیں گے لہٰذا جب مشرکین (جو اللہ کا نازل کردہ قانون ناپسند کرتے ہیں )سے بعض معاملات میں ان کی اطاعت کا وعدہ کرنے والا کافر ہے اگرچہ اپنے وعدے کے مطابق عمل کرے یا نہ کرے توجو انہی مشرکین سے اتفاق کرے اور ان کے لئے ہدایت پر ہونے کا اظہار کرے اور موحدین کو ان کے خلاف جہاد میں غلطی پر قرار دے اور ان سے مفاہمت اور باطل دین میں داخل ہوجانے کو درست سمجھے وہ ان لوگوں کی بنسبت بالاولیٰ مرتد وکافر ہوا جو محض بعض معاملات میں ان کی اطاعت کا وعدہ کرتے ہیں کیونکہ یہ مشرکین بھی اللہ کے نازل کردہ قانون ’’کہ اللہ وحدہ لاشریک لہ کی عبادت کی جائے اور اس کے سوا تمام طاغوتوں اور شریکوں کی عبادت سے بچاجائے‘‘کو ناپسند کرتے ہیں اس کے بعد اللہ تعالیٰ موت کے وقت ان پر طاری ہونے والی بدترین حالت کے متعلق خبر دیتا ہے کہ فرشتے ان کے چہروں اور پچھواڑوں پر ضربیں لگاتے ہیں پھر اس کی وجہ بیان کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ:
ذٰلِکَ بِاَنَّہُمُ اتَّبَعُوْا مَآ اَسْخَطَ اﷲَ وَ کَرِہُوْا رِضْوَانَہٗ فَاَحْبَطَ اَعْمَالَہُمْ۔
’’یہ (دردناک انجام)اس لئے کہ وہ اس راہ پر چلے جس نے اللہ کو ناراض کردیا اورانہوںنے اللہ کو راضی کرنا پسند ہی نہ کیا سو اللہ نے ان کے اعمال برباد کرڈالے ‘‘۔

فرمان باری تعالیٰ :
اَلَمْ تَرَ اِلَی الَّذِیْنَ نَافَقُوْا یَقُوْلُوْنَ لِاِخْوَانِہِمُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا مِنْ اَہْلِ الْکِتٰبِ لَئِنْ اُخْرِجْتُمْ لَنَخْرُجَنَّ مَعَکُمْ وَ لاَ نُطِیْعُ فِیْکُمْ اَحَدًا اَبَدًا وَّ اِنْ قُوْتِلْتُمْ لَنَنْصُرَنَّکُمْ وَ اﷲُ یَشْہَدُ اِنَّہُمْ لَکٰذِبُوْنَ۔
’’کیا آپ ان منافقین کو نہیں جانتے جو اپنے اہل کتاب کافر بھائیوں سے کہتے رہے کہ اگر تمہیں جلاوطن کیا گیا توہم بھی تمہارے ساتھ نکل جائیں گے اورتمہارے معاملے میں ہم ہرگز کسی کی نہ مانیں گے اور اگر تم سے قتال کیاگیا توہم ضرور تمہاری مدد کو آئیں گے اور اللہ گواہی دیتا ہے کہ وہ جھوٹے ہیں ‘‘۔(حشر:11)

اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے منافقین اورکفار میں اخوت کے رشتے )بھائی چارے (کو ثابت کیا اوربتایا کہ وہ ان سے مخفی طور پر کہتے ہیں کہ اگر محمد ﷺتم پر غالب آگئے اور انہوں نے تمہیں جلاوطن کیا توہم بھی تمہارے ساتھ ہی جلاوطن ہوجائیں گے اور تمہارے معاملے میں ہم کسی کی کوئی بھی بات نہ مانیں گے اور اگر محمد ﷺنے تم سے قتال کیا توہم تمہاری مدد کریں گے اور تمہارے ساتھ ہوجائیں گے ،اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے اس بات کی خبر دی کہ وہ اپنے اس قول میں جھوٹے ہیں تواگر مشرکین سے مخفی طور پر وعدہ کرنا کہ ان کاساتھ دیں گے ،مددکریں گے ،اور جلاوطنی کی صورت میں خود بھی انہی کے ساتھ جلاوطن ہوجائیں گے ۔کفر اور نفاق ہے اگرچہ جھوٹا وعدہ ہی ہو تو جو واقعتا دل سے انہیں غالب کرنا چاہے اور ان کا فرمانبردار بن جائے اور دوسروں کو بھی ان کی طرف بلائے اور مال اور مشوروں کے ذریعے ان کی مددکرے وہ منافق اور کافر کیوں نہ ہو؟جبکہ ان منافقین نے تویہ سب گردش حالات کے خوف سے کیا تھا جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
فَتَرَی الَّذِیْنَ فِیْ قُلُوْبِہِمْ مَّرَضٌ یُّسَارِعُوْنَ فِیْہِمْ یَقُوْلُوْنَ نَخْشٰٓی اَنْ تُصِیْبَنَا دَآئِرَۃٌ۔
’’آپ ان لوگوں کو جن کے دلوں میں نفاق کی بیماری ہے دیکھیں گے کہ ان (کافروں)کے متعلق بڑی تیزی دکھاتے ہیں کہتے ہیں کہ ہم ڈرتے ہیں کہیں ہم پر کوئی مصیبت آجائے ‘‘(مائدۃ:52) ۔
 

سلفی منہج

مبتدی
شمولیت
جولائی 24، 2011
پیغامات
39
ری ایکشن اسکور
117
پوائنٹ
0
حصہ سوم:

مشرکین سے دوستی کا شرعی حکم
مؤلف:امام سلیمان بن عبداﷲ بن محمد بن عبدالوھاب ﷭

اس فتنے میں مبتلاہوکر مرتد ہونے والوں کی اکثریت کا یہی حال ہوتا ہے وہ بعینہ وہی عذر پیش کرتے ہیں جو عذر اللہ نے ان منافقین کا ذکر کیاہے یعنی گردش حالات لیکن اللہ نے ان کا یہ عذر قبول نہیں کیا۔اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
فَعَسَی اﷲُ اَنْ یَّاْتِیَ بِالْفَتْحِ اَوْ اَمْرٍ مِّنْ عِنْدِہٖ فَیُصْبِحُوْا عَلٰی مَآ اَسَرُّوْا فِیْٓ اَنْفُسِہِمْ نٰدِمِیْنَ، وَ یَقُوْلُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اَھٰٓؤُلَآءِ الَّذِیْنَ اَقْسَمُوْا بِاﷲِ جَہْدَ اَیْمَانِہِمْ اِنَّہُمْ لَمَعَکُمْ حَبِطَتْ اَعْمَالُہُمْ فَاَصْبَحُوْا خٰسِرِیْنَ۔
’’پس قریب ہے کہ اللہ فتح دے دے یا اپنی جانب سے کوئی اور امر پھر وہ اپنے دل میں پوشیدہ رازوں پر شرمندہ ہوجائیں اور اہل ایمان کہیں کیا یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے اللہ کی بڑی پختہ قسمیں کھاکرکہاتھا کہ وہ تمہارے ساتھ ہیں ان کے اعمال برباد ہوچکے ہیں وہ خسارہ اٹھانے والے ہوگئے‘‘(مائدہ:53-52)۔

پھر اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
یٰآَ یُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَنْ یَّرْتَدَّ مِنْکُمْ عَنْ دِیْنِہٖ فَسَوْفَ یَاْتِی اﷲُ بِقَوْمٍ یُّحِبُّہُمْ وَ یُحِبُّوْنَہٗ اَذِلَّۃٍ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ اَعِزَّۃٍ عَلَی الْکٰفِرِیْنَ۔
’’اے ایمان والو! تم میں سے جو بھی اپنے دین سے مرتد ہوا تو عنقریب اللہ ایسی قوم لے آئے گا جن سے وہ محبت کرتا ہوگا اور جو اس سے محبت کرتے ہوں گے مومنوں پر بڑے نرم ہوں گے اور کافروں پر بڑے سخت ہوں گے ‘‘(مائدہ:54)۔

اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے یہ خبر دی ہے کہ مرتدین کی موجودگی کے وقت اللہ کے محبوب مجاہدین کی موجودگی ضروری ہے جن کی صفات یہ ہیں کہ وہ مومنوں کے لئے توبڑے نرم اور کفار کے لئے بڑے سخت ہوں یعنی ان لوگوں کی مکمل ضد جو قبرپرستوں ،بدکاروں اور لوطیوں کے لئے توبڑے ہی نرم ہوتے ہیں اور موحدین مخلصین کے لئے بڑے ہی شدید اور سخت ۔مشرکین سے موافقت کرنے والوں کے کافر ہونے کے لئے یہی ایک دلیل کافی ہے اگرچہ وہ خوف کو عذر بناتے ہوں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
وَلاَ یَخَافُوْنَ لَوْمَۃَ لَآئِمٍ
’’وہ کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے خوفزدہ نہ ہوں گے ‘‘۔

یہ صفت ان لوگوں کی ضد ہے جو مشرکین کے خوف سے سچائی اور جہاد کو ترک کردیتے ہیں اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
یُجَاہِدُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اﷲ۔
’’وہ اللہ کی راہ میں جہاد کریں گے‘‘۔

یعنی اس کی توحید کی خاطر اس پر ثابت قدم رہتے ہوئے جہاد کریں گے تاکہ اللہ کی خوشنودی حاصل کرلیں اور اللہ کے دین کو غالب کردیں اور اس راہ میں جو ان کے دین پر ملامت کرے اس کی کچھ پرواہ نہ کریں گے بلکہ اپنے دین پر ڈٹے رہیں گے ،اس کے غلبے کے لئے جہاد کرتے رہیں گے اورکسی کی ملامت یا ناراضگی یا خوشی کی پراہ نہ کریں گے کیونکہ ان کا سب سے بڑا مقصد اور مطلوب اپنے سردار اور معبود کو راضی کرنا اور اس کی ناراضگی سے بچنا ہوگا یہ اس شخص کی کامل ضد ہے جس کا مطلوب ومقصود قبر پرستوں اور بدکاروں ،لوطیوں کو خوش کرنا ان سے امیدیں وابستہ کرنا اور ان کی ناراضگی سے بچنا ہوتا ہے جبکہ یہ رسوائی اور گمراہی کی انتہاء ہے ۔پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
ذٰلِکَ فَضْلُ اﷲِ یُؤْتِیْہِ مَنْ یَّشَآءُ وَ اﷲُ وَاسِعٌ عَلِیْم۔
’’یہ اللہ کا خاص فضل ہے جسے چاہے اس سے نواز دے اور اللہ وسیع ہے علم والا ہے‘‘۔

اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے یہ خبر دی ہے کہ فتنوں کے دور میں اپنے دین پر ثابت قدم رہنے والے اہل ایمان کے لئے ثابت شدہ اس عظیم خیر اور ان صفات حمیدہ کے حصول میں ان کا اپنا کوئی کمال نہیں بلکہ یہ محض اللہ کا خاص فضل ہے وہ جسے چاہتا ہے اس سے نواز دیتا ہے اور اللہ عظیم فضل والا ہے اس کے بعد فرمایا:
اِنَّمَا وَلِیُّکُمُ اﷲُ وَ رَسُوْلُہٗ وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوا الَّذِیْنَ یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ وَ یُؤْتُوْنَ الزَّکٰوۃَ وَ ہُمْ رَاکِعُوْنَ۔
’’درحقیقت تمہارا دوست اللہ اور اس کا رسول اور وہ مومن ہیں جو نماز ادا کرتے ہیں اور زکاۃ دیتے ہیں جبکہ وہ رکوع میں ہوتے ہیں ‘‘(مائدہ:55)۔
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے خبردی ہے جو امر کے معنی میں ہے یعنی اللہ اور اس کے رسول اور مومنوں کو دوست بنایاجائے اور ضمناً اللہ اور اس کے رسول اور مومنوں کے دشمنوں سے دوستی سے منع فرمایاہے۔

یہ بات کسی پر مخفی نہیں کہ ان دونوں گروہوں میں اللہ اور اس کے رسول اور اقامت صلاۃ اور ایتاء زکاۃ سے کون ساگروہ قریب ہے لہٰذا جو ان اوصاف سے متضاد اوصاف کاحامل ہے وہ اس دوستی کے ساتھ انصاف نہیں کرتا بلکہ اللہ اور اس کے رسول اور نمازی اورزکاتی مومنوں کی دوستی کے بجائے مشرکوں ،بت پرستوں سے دوستی کرتا ہے۔پھر اللہ تعالیٰ نے یہ خبر دی ہے کہ غلبہ اس کے گروہ کو حاصل ہوگااور انہیں جو ان سے دوستی کریں ۔فرمایا:
وَ مَنْ یَّتَوَلَّ اﷲَ وَ رَسُوْلَہٗ وَ الَّذِیْنَ ٰامَنُوْا فَاِنَّ حِزْبَ اﷲِ ہُمُ الْغٰلِبُوْنَ۔
’’اور جو اللہ اور اس کے رسول اورمومنوں سے دوستی کرے گا تو بے شک اللہ کا گروہ ہی غالب ہونے والاہے‘‘۔(مائدہ:56)

فرمان باری تعالیٰ:
لاَ تَجِدُ قَوْمًا یُّؤْمِنُوْنَ بِاﷲِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ یُوَآدُّوْنَ مَنْ حَآدَّ اﷲَ وَ رَسُوْلَہٗ وَ لَوْ کَانُوْآ اٰبَآءَ ہُمْ اَوْ اَبْنَآءَ ہُمْ اَوْ اِخْوَانَہُمْ اَوْ عَشِیْرَتَہُمْ۔
’’آپ ایسے لوگ نہ پائیں گے جو اللہ اور روز آخرت پر ایمان رکھتے ہوں اور دوستیاں ان سے لگائیں جو اللہ اور اس کے رسول کے مخالف ہیں اگرچہ وہ ان کے باپ دادا یا ان کے بیٹے یا ان کے بھائی یا ان کے خاندان والے ہی کیوں نہ ہوں ‘‘(المجادلۃ:22) ۔

اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے خبردی ہے کہ ایسی قوم کا وجود ناممکن ہے جو اللہ اور اس کے رسول اور روزآخرت پر ایمان بھی رکھتی ہو پھر دوستیاں بھی اللہ اور اس کے رسول کے دشمنوں سے لگاتی ہو اگرچہ وہ ان کے قریب ترین عزیز رشتے دار ہی کیوں نہ ہوں (یعنی یا تو اس گروہ میں ہوگی جس میں اللہ اور اس کے رسول کے دشمن ہیں یا اس گروہ میں جس میں اللہ اور اس کا رسول اورمومنین ہیں)اور یہ بھی بتایا کہ یہ ایمان کی ضد اور اس کے منافی ہے یہ اور ایمان یکجانہیں ہوسکتے جس طرح آگ اور پانی یکجانہیں ہوسکتے ۔
ایک اور مقام پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
یٰآَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لاَ تَتَّخِذُوْآ اٰبَآءَ کُمْ وَ اِخْوَانَکُمْ اَوْلِیَآءَ اِنِ اسْتَحَبُّوا الْکُفْرَ عَلَی الْاِیْمَانِ وَ مَنْ یَّتَوَلَّہُمْ مِّنْکُمْ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الظّٰلِمُوْنَ۔
’’اے ایمان والو اپنے باپ دادا اور بھائیوں کو دوست نہ سمجھو جب وہ ایمان پر کفر کو ترجیح دیں اور تم میں سے جوانہیں دوست سمجھے تویہی لوگ ظالم ہیں ‘‘(توبۃ:23) ۔

ان دوآیتوں میں بڑا واضح بیان ہے کہ ماں ،باپ دادا،بیٹوں ،بیویوں اور خاندان والوں کے خوف میں کفر سے اتفاق کرنا ،قابل قبول عذر نہیں جیسا کہ اکثر لوگ یہی عذر پیش کرتے ہیں جب خود انہیں انہی کے خوف سے اور ان کی خوشی حاصل کرنے کی خاطر دوست بنانے کی اجازت کسی کو حاصل نہیں ہے تواغیار کفار کو دوست اور ساتھی بنانا اور ان کے لئے ان کے دین سے موافقت کرنا خواہ ان کے خوف سے یا اولادواحفاد کی محبت میں ہی ہو کیونکر جائز ہوسکتا ہے؟اور تعجب تویہ ہے کہ پھر وہ اسے اچھا اور حلال بھی سمجھنے لگتے ہیں اسی طرح ارتداد اور حرام کو حلال سمجھنا دونوں طرح کے کفر کا ارتکاب کرتے ہیں ۔

فرمان باری تعالیٰ ہے:
یٰآَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوْا عَدُوِّی وَعَدُوَّکُمْ اَوْلِیَآءَ تُلْقُوْنَ اِلَیْہِمْ بِالْمَوَدَّۃِ وَ قَدْ کَفَرُوْا بِمَا جَآءَ کُمْ مِّنَ الْحَقِّ یُخْرِجُوْنَ الرَّسُوْلَ وَاِیَّاکُمْ اَنْ تُؤْمِنُوْا بِاﷲِ رَبِّکُمْ اِنْ کُنْتُمْ خَرَجْتُمْ جِہَادًا فِیْ سَبِیْلِیْ وَابْتِغَآءَ مَرْضَاتِیْ تُسِرُّوْنَ اِلَیْہِمْ بِالْمَوَدَّۃِ وَ اَنَا اَعْلَمُ بِمَآ اَخْفَیْتُمْ وَ مَآ اَعْلَنْتُمْ وَ مَنْ یَّفْعَلْہُ مِنْکُمْ فَقَدْ ضَلَّ سَوَآءَ السَّبِیْلِ۔
’’اے ایمان والو!میرے اور اپنے دشمن کو دوست نہ بناؤ تم ان کی طرف دوستی کا پیغام بھیجتے ہو حالانکہ تمہارے پاس جو حق آچکا ہے وہ اس کا انکار کرچکے ہیں وہ رسول کو اورتمہیں اس لئے نکالنا چاہتے ہیں کہ تم اپنے رب اللہ پر ایمان لاچکے ہو اگرتم میری راہ میں جہاد کے لئے اور میری خوشنودی حاصل کرنے کے لئے نکلتے ہو(تو ان سے دوستیاں مت لگاؤ)تم ان سے خفیہ دوستیاں لگاتے ہو حالانکہ میں جو تم چھپاتے ہواور جو تم ظاہرکرتے ہو میں جانتا ہوں اور تم میں سے جس نے ایسا کیا تووہ سیدھی راہ سے گمراہ ہوگیا‘‘)(ممتحنۃ )۔
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے یہ خبردی ہے کہ اللہ کے دشمنوں کو دوست بنانے والا گمراہ ہے اگرچہ وہ قریبی رشتے دارہی ہو ،تو جو اسے صراطِ مستقیم پر قرار دیتا ہے گویا وہ اللہ کو جھوٹاکہہ رہا ہے ۔نعوذ باللہ من ذلک ،اور اللہ کی تکذیب کرنے والا کافر ہے اور کفار سے دوستی کو حلال سمجھنے والا ، اللہ کے حرام کردہ کو حلال کرنے والا ہے اور حرام کو حلا ل سمجھنے والا بھی کافر ہے ۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کا تذکرہ کیا جو رشتوں ناطوں اوراپنی اولاد کو عذر بناتے ہیں فرمایا:
لَنْ تَنْفَعَکُمْ اَرْحَامُکُمْ وَ لَآ اَوْلَادُکُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ یَفْصِلُ بَیْنَکُمْ وَاﷲُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْر۔
’’اور بروز قیامت تمہارے رشتہ دار اور تمہاری اولاد تمہیں ہرگز نفع نہ دے سکیں گے وہ تمہارے درمیان فیصلہ کرے گا اور اللہ تمہارے اعمال دیکھ رہا ہے‘‘۔

اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اس شخص کے عذر کو ناقابل قبول قراردیا ہے جو رشتے ناطوں اور اولاد اور ان پر خوف اور ان سے جدائیگی کی مشقت کو بطورعذر پیش کرتا ہے بلکہ اس بارے میں یہ بتادیا کہ ان میں سے کوئی بھی بروز قیامت فائدہ نہ پہنچاسکے گا نہ اللہ کے عذاب کو دور کرسکے گا جیسا کہ ایک دوسرے مقام پر فرمایا:
فَاِذَا نُفِخَ فِی الصُّوْرِ فَلَآ اَنْسَابَ بَیْنَہُمْ یَوْمَئِذٍ وَّ لاَ یَتَسَآءَ لُوْنَ۔
’’پھر جب صور پھونک دیا جائے گااس دن ان کے مابین کچھ نسبتیں نہ رہیں گی اور نہ وہ ایک دوسرے سے کچھ مانگ سکیں گے ‘‘۔(مومنون:101)

سنن ابوداؤد وغیرہ میں سمرہ بن جندب سے روایت ہے کہ نبی ﷺنے فرمایا:
’’من جامع المشرک وسکن معہ فانہ مثلہ‘‘۔
جو مشرک کے ساتھ اکٹھا ہو اور اس کے ساتھ رہائش رکھے تو وہ اسی کی طرح ہے‘‘۔

اس حدیث میں نبی ﷺنے مشرکین کے ساتھ میل جول رکھنے والے اور اس کے ساتھ رہائش رکھنے والے کو انہی کی طرح قرار دیا ہے ،توجوان کے دین سے اظہار موافقت کرتا ہو اورانہیں پناہ فراہم کرتا ہواور ان کے ساتھ تعاون کرتا ہو ،وہ ان جیسا کیوں نہ ہو ؟اور اگر کوئی کہے کہ ہمیں توخوف ہے تو اس سے کہا جائے گا کہ تم جھوٹ بولتے ہو اس لئے کہ خوف عذر نہیں بن سکتا جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
وَ مِنَ النَّاسِ مَنْ یَّقُوْلُ اٰمَنَّا بِاﷲِ فَاِذَآ اُوذِیَ فِی اﷲِ جَعَلَ فِتْنَۃَ النَّاسِ کَعَذَابِ اﷲِ۔
’’لوگوں میں کچھ ایسے ہیں جو کہتے ہیں کہ ہم اللہ پر ایمان رکھتے ہیں اور پھر جب اسے اللہ کی خاطر تکلیف دی جاتی ہے تو لوگوں کی آزمائش کو اللہ کا عذاب سمجھنے لگتا ہے‘‘(العنکبوت:10)۔

اس آیت میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے تکلیف یا خوف کے وقت اپنے دین سے پھر جانے والے کا کوئی عذر نہیں مانا،تو جسے کچھ تکلیف ملی ہی نہ ہو نہ ہی اسے کچھ اندیشہ ہو تو اس کا عذر کیونکر مقبول ہوسکتا ہے ؟حقیقت یہ ہے کہ انہوں نے باطل کو اس کی محبت میں اور گردش حالات کے خوف سے اختیارکیا ہوتاہے۔

اس بارے میں اور بہت سے دلائل ہیں لیکن جسے اللہ تعالیٰ ہدایت دینا چاہے ۔اس کے لئے یہ ہی بہت ہیں اور جسے گمراہ کرنا چاہے توپھر جیسا کہ فرمایا:
اِنَّ الَّذِیْنَ حَقَّتْ عَلَیْہِمْ کَلِمَتُ رَبِّکَ لاَ یُؤْمِنُوْنَ، وَ لَوْ جَآءَ تْہُمْ کُلُّ اٰیَۃٍ حَتّٰی یَرَوُا الْعَذَابَ الْاَلِیْمَ۔
’’یقینا جن لوگوں پر تیرے رب کا فیصلہ صادق آگیا دردناک عذاب کامشاہدہ کرنے تک ایمان نہ لائیں گے اگرچہ ان کے پاس ہر نشانی آجائے‘‘۔(یونس:97)

آخر میں اللہ کریم ،منان سے ہماری التجا ء ہے کہ وہ ہمیں زندہ رکھے اسلام پر ،اور موت دے اسلام پر اور ہمیں صالحین میں شامل فرمااس حال میں کہ نہ تو رسواہوں نہ ہی مفتون یقینا وہ ارحم الراحمین ہے۔

وصلی اﷲ علی محمدوآلہ وصحبہ وسلم ۔آمین
 
Top