ہدایت اللہ فارس
رکن
- شمولیت
- فروری 21، 2019
- پیغامات
- 57
- ری ایکشن اسکور
- 12
- پوائنٹ
- 56
مشكلة الشر کا مسئلہ
___________________________________
مشکلۃ الشر عربی کے دو لفظوں سے مرکب ایک اصطلاح ہے جسے انگلش میں Problem of evil کہا جاتا ہے، یہ مبحث "ثيوديسيا" (Theodicy) کے تحت داخل ہے جو دو یونانی لفظوں پر مشتمل ایک کلمہ ہے جس کی اصل ثیوس بمعنی الہ اور دکی بمعنی عدل ہے، یعنی معبود کا عدل۔
اس کلمہ کا ظہور پہلی مرتبہ فلسفی لیبنتس کے قلم سے اس کی اپنی کتاب؛
"Essais de Theodicee sur la Bont de Dieu....."
میں 1710م کو ہوا۔
اللہ رب العالمین کے عدم وجود پر ملحدین کا یہی مرکزی دلیل اور حجت ہے (معاذ اللہ) جس کی صراحت امریکی فلسفی Michael Twonley نے 2010 کے ایک مناظرہ میں کی ہے۔
حتی کہ ایک المانی ملحد Georg Buchner نے اسے "الحاد کی چٹان" سے تعبیر کیا ہے!
تو یہ ہے مشكلة الشر کا مختصر تعارف
اسی شبہ کے ذریعے ملحدین اللہ رب العزت کے علیم ہونے، قدیر ہونے اور حکیم ہونے کی نفی کرتے ہیں کہ دنیا میں شر کا وجود اللہ کے علیم، قدیر اور حکیم ہونے کے منافی ہے، کیونکہ اس کا علم، اور اس کی قدرت وحکمت اس بات کا متقاضی ہے کہ کسی قسم کے شر (برائی) کو وجود میں آنے سے روکے!
لہذا ثابت ہوا کہ دنیا میں شر کا پایا جانا ہی اس الہ کے وجود کی نفی کررہا ہے جس سے سابقہ تینوں صفات کا مفقود ہونا ناممکن امر ہے۔
عقل ودانش سے کورے ان ملحدین کا سب سے بڑا شبہ یہی ہے کہ اللہ تعالی کسی ایسی چیز کو کیسے پیدا کر سکتا ہے جس میں شر موجود ہو، باوجود کہ وہ اسے ناپسند کرتا ہے!
عقلی ونقلی دلائل سے شبہ کا ازالہ
سب سے پہلی بات یہ کہ ہم اہل توحید کا اس معاملے میں قطعی اعتقاد ہے کہ اللہ تعالی ہر چیز پر قادر ہے۔
ارشاد ربانی ہے: إن الله على كل شيء قدير
یعنی ہر شے خواہ اس کا تعلق خیر سے ہو یا شر سے اس کے علم، اس کی کتاب اور اس کی مشیت میں داخل ہے اور اس کی قدرت سے کوئی بھی چیز خارج نہیں ہے۔
جس طرح دنیا میں خیر کا وجود اللہ کی مرضی کے بنا ناممکن ہے ٹھیک اسی طرح شر کا وجود بھی اس کی مرضی کے بغیر ناممکن ہے۔
لہذا جو بھی شے واقع ہونے والی ہوتی ہے اس کا علم اللہ تعالی کو پہلے سے ہوتا ہے اور لوح محفوظ میں وہ لکھی ہوئی ہوتی ہے۔
اللہ تعالی فرماتا ہے: مَاۤ أَصَابَ مِن مُّصِیبَةࣲ فِی ٱلۡأَرۡضِ وَلَا فِیۤ أَنفُسِكُمۡ إِلَّا فِی كِتَـٰبࣲ مِّن قَبۡلِ أَن نَّبۡرَأَهَاۤۚ إِنَّ ذَ ٰلِكَ عَلَى ٱللَّهِ یَسِیرࣱ
ترجمہ: نہ کوئی مصیبت دنیا میں آتی ہے نہ تمہاری جانوں میں مگر اس سے پہلے کہ ہم اس کو پیدا کریں وہ ایک خاص کتاب میں لکھی ہوئی ہے اور یہ کام اللہ تعالی پر بالکل آسان ہے۔
(الحديد: ٢٢)
دوسرے مقام پر فرماتا ہے: مَّا فَرَّطۡنَا فِی ٱلۡكِتَـٰبِ مِن شَیۡءࣲۚ
کہ ہم نے دفتر میں کوئی چیز نہیں چھوڑی۔
(الأنعام: ٣٨)
اس ضروری وضاحت کے بعد اب ہم مذکورہ شبہ کا عقلی ونقلی دلائل کی روشنی میں بالاختصار کھنڈن کرتے ہیں۔
1۔ شر کی اضافت اللہ تعالی کی طرف نہ تو فعلا کی جا سکتی ہے اور نہ ہی وصفا، کیوں کہ شر مخلوق کے اندر ہوتی ہے۔
رسول اللہﷺ اللہ کے حضور فرماتے ہیں: "الخير كله في يديك والشر ليس إليك"
(صحيح مسلم: ٧٧١)
اس کی سمجھ جنات کو بھی پہلے سے رہی ہے، چنانچہ اللہ تعالی ان کی حکایت بیان کرتے ہوئے قرآن مجید میں فرماتا ہے: وَأَنَّا لَا نَدۡرِیۤ أَشَرٌّ أُرِیدَ بِمَن فِی ٱلۡأَرۡضِ أَمۡ أَرَادَ بِهِمۡ رَبُّهُمۡ رَشَدࣰا
(الجن: ١٠)
آیت میں غور کریں! جب شر کی بات آئی تو مجہول کا صیغہ استعمال کیا گیا اور جب خیر کی بات آئی تو صراحتا صیغہ معروف سے رب تعالی کی طرف اس کی اضافت کی گئی!
اور آخر شر کی اضافت اس ذات وحدہ لاشریک لہ کی طرف کیسے کی جاسکتی جو تمام عیوب ونقائص سے بالکل پاک ہے!
اور یہ ممکن بھی کیسے ہوسکتا ہے جب اللہ تعالی خود فرماتا ہے کہ وہ صراط مستقیم پر ہے: إِنَّ رَبِّی عَلَىٰ صِرطࣲ مُّسۡتَقِیمࣲ
(هود: ٥٦)
لہذا معلوم ہوا کہ اللہ تعالی کے تمام افعال واحکام عدل اور حکمت ومصلحت پر مبنی ہیں۔
2۔ اللہ رب العزت کی مخلوقات میں شر محض تو دور شر غالب بھی نہیں ہے بلکہ تمام مخلوقات میں اصل یا تو خیر محض ہے یا پھر خیر غالب، وہ مخلوقات جن میں خیر محض ہوتا ہے "انبیاء کرام اور ملائکہ علیھم السّلام" ہیں اور بقیہ خیر محض وغالب میں مشترک ہیں۔
واضح رہے کہ ہم یقینا دنیا میں شر کے موجود ہونے کو تسلیم کرتے ہیں لیکن یہ کسی بھی صورت تسلیم نہیں کرتے کہ وہ شر محض ہے، جیسا کہ ملحدین کا گمان ہے!
بلکہ دنیا میں جتنے انواع کی مصائب ومشکلات ہیں ان میں خیر اور مصلحت ضرور ہوتی ہے، یعنی ایک ناحیہ سے شر تو دوسرے ناحیہ سے خیر موجود ہوتا ہے اور خیر کا پہلو ہی زیادہ غالب ہوتا ہے۔
لہذا عقل ان مصائب ومشکلات کے وجود کا ہی تقاضا کرتی ہے نہ کہ عدم وجود کا۔!
ان کی کج فہمی کی انتہاء دیکھیے کہ یہ لوگ پانی اور آگ کی مثال پیش کرکے گویا ہوتے ہیں کہ بڑے بڑے سیلاب میں بے شمار بستیاں ڈوب کر تباہ ہوجاتی ہیں، اور اسی طرح آگ بھی بہت سارے فسادات کا سبب بنتی ہے!
اچھا! لیکن ہمارا سوال یہ ہے کہ کیا یہ نادر الوقوع واقعات اس بات کے متقاضی ہیں کہ جس پانی سے تمام مخلوقات کی زندگی ٹکی ہوئی ہے اور جس آگ سے بے شمار فوائد حاصل کیے جاتے ہیں اسے شر محض کہہ کر اس کے موجود ہونے پر سوالیہ نشان لگا دی جائے کہ اللہ نے اسے وجود کیوں بخشا؟!
کیا کوئی عقل سلیم کا حامل انسان اس بات کو تسلیم کر سکتا ہے، ہرگز نہیں! بلکہ ایسا انسان اصلا پانی اور آگ میں شر کے ہونے کو ہی تسلیم نہیں کر سکتا، چہ جائیکہ اس میں شر محض کو تسلیم کرلے۔
لہذا حکمت ایسے شر کے وجود کا ہی تقاضا کرتی ہے، جس میں خیر کا پہلو زیادہ غالب ہو نہ کہ اس کے عدم وجود کا اور ساتھ ہی ایسا شر خالق کائنات کے موجود ہونے کو ہی مستلزم ہے نہ کہ عدم وجود کو۔
3۔ مخلوقات میں جو شر موجود ہوتا ہے وہ شر نسبی ہوتا ہے، یعنی یہ شر یا تو باعتبار محلہ ہوتا ہے یا پھر اس شخص کے لیے ہوتا ہے جو اس سے متأثر ہوتا ہے اور یہی شر خود اس متاثر شخص کے لیے یا دوسروں کے لیے ایک یا ایک زائد اعتبار سے اپنے اندر خیر بھی لیا ہوا ہوتا ہے، پھر وہ انسان اس خیر سے یا تو دنیا ہی میں بہرہ ور ہوجاتا ہے یا پھر آخرت کے لیے اسے مؤجل کردیا جاتا ہے۔
اگر اتنی سی بات سمجھ لی جائے تو اللہ تعالی کے پیدہ کردہ تمام انواعِ شر کو دنیا میں وجود بخشنے کے پیچھے جو حکمت اور مصلحت ہے اس کی جھلک ضرور نمایا ہوجائے گی۔
اور اس بات میں کوئی شک نہیں کہ ہر مصیبت میں اللہ تعالی نے بہت زیادہ خیر رکھا ہوا ہے، یہ الگ بات ہے کہ وہ خیر کبھی ہمارے سامنے ظاہر ہوتا ہے اور بسا اوقات وہ ہم سے پوشیدہ ہی رہ جاتا ہے۔
لہذا اگر ہماری عقل مشکلات میں پوشیدہ حکمت کو تلاش کرنے میں ناکام ہوجائے تو اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ سرے سے اس میں کوئی حکمت یا مصلحت ہے ہی نہیں!
کیوں کہ کسی چیز کی موجودگی کا علم نہ ہونا اس بات کی دلیل نہیں کہ وہ اصلا موجود ہی نہیں ہے۔
یہ وہ قاعدہ کلیہ ہے جس سے کوئی بھی عقل مند انسان انکاری نہیں ہوسکتا!
اور اسی قاعدہ کی رو سے اللہ تعالی کا شر کو وجود بخشنے کے پیچھے خاص حکمت کا موجود ہونا بھی لازم آتا ہے۔
بس قصور ہمارے فہم کا ہے کہ جس چیز کا علم ہمارے پاس ہوتا ہے اس کے ذریعے ہم ان اشیاء پر قیاس آرائیاں شروع کردیتے ہیں جو ہم سے مخفی ہوتی ہیں!
4۔ دنیا کے اندر اللہ تعالی کی جو رحمتیں، خیرات وبرکات اور نعمتیں موجود ہیں وہ شر کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہیں!
اللہ فرماتا ہے: وَإِن تَعُدُّوا۟ نِعۡمَتَ ٱللَّهِ لَا تُحۡصُوهَاۤۗ إِنَّ ٱلۡإِنسَـٰنَ لَظَلُومࣱ كَفَّارࣱ
ترجمہ: اگر تم اللہ کے احسان گننا چاہو تو انھیں پورے کبھی گن نہیں سکتے، یقینا انسان بڑا ہی بے انصاف اور نا شکرا ہے۔
(إبراهيم: ٣٤)
سورہ نحل میں بھی اللہ تعالی نے یہ بات بتائی کہ:
وإن تعدوا ذنِعۡمَةَ ٱللَّهِ لَا تُحۡصُوهَاۤۗ إِنَّ ٱللَّهَ لَغَفُورࣱ رَّحِیمࣱ
(النحل: ١٨)
آپ ذرا سوچیں کیا کوئی اس بات سے کہ "دنیا میں صحت مند لوگوں کی تعداد مریضوں سے ہزاروں گنا زیادہ ہیں" انکار کر سکتا ہے؟!
ہرگز نہیں!
اسی طرح زلزلے، حوادث اور جلنے کٹنے سے لے کر اکسڈینٹ ہونے جیسے واقعات بہت کم رونما ہوتے ہیں بنسبت اس طرح کے حادثے نہ ہونے کے۔
تو کیا یہ دنیا میں شر کے بالمقابل خیر کے زیادہ ہونے کی دلیل نہیں؟!
اس سے وہی شخص انکار کر سکتا ہے جو یا تو سخت متعصب اور نا انصاف ہے یا حد درجہ کم عقل!
5۔ دنیا میں شر کا وجود حسنِ عالم کو مستلزم ہے، بس ضروری یہ ہے کہ نظر اشیاء کے کل پر ہو نہ کہ جزء پر، اور ملحدین کی سب سے بڑی خامی اور نادانی یہی ہے کہ وہ نظر کو اشیاء کے جزء پر مقید کرکے کُل پر حکم عائد کرنے کی نا رواں کوشش کرتے ہیں!
ایک مثال سے ہم اس کی وضاحت کرنے کی کوشش کرتے ہیں؛
ہمارے سامنے کئی کمروں پر مشتمل ایک خوبصورت محل ہو جس میں ایک کمرہ کے سامان منتشر ہونے کی وجہ سے بقیہ کمروں کے مقابلے میں وہ کمرہ اچھا نہ دکھ رہا ہو تو کیا پورے محل پر بدصورتی کا مہر لگا دیا جانا عقلمندی کی دلیل ہوسکتی ہے؟! حاشا وکلا!
ٹھیک یہی مسئلہ دنیا میں موجود شر کا ہے، اس کے روئے زمین میں موجود ہونے کی خوبصورتی تبھی ظاہر ہوسکتی ہے جب نظر کل پر ڈالی جائے۔
ذرا سوچیں! اگر بیماری کا وجود نہ ہو تو صحت مندی کی کیا قیمت، غریبی نہ ہو تو دولت کی کیا قیمت اسی طرح مشقت وپریشانی نہ ہو تو کامیابی کی کیا اہمیت رہ جاتی ہے؟!
ان ساری چیزوں کو سامنے رکھتے ہوئے اس دنیاوی زندگی پر غور کریں تو مصائب ومشکلات کے بغیر یہ زندگی بالکل بدمزہ ہوکر رہ جاتی ہے، کیوں کہ کسی بھی شے کا حسن اس کی ضد سے نمایا ہوتا ہے۔
ایک اہم بات یہ کہ دنیا میں موجود تمام قسم کے شر میں کوئی نہ کوئی مصلحت ضرور ہوتی ہے لہذا عدم مصلحت کا دعوی کرنا بالکل ناممکن دعوی ہے، کیوں کہ اس کی اصل تک پہنچنے کے لیے ایسے علم کی ضرورت ہے جو ساری چیزوں کو محیط ہو اور انسان تو اس پر تمکن حاصل کرنے سے رہا۔!
اللہ کا ارشاد ہے: وَمَاۤ أُوتِیتُم مِّنَ ٱلۡعِلۡمِ إِلَّا قَلِیلࣰا
تمھیں بہت تھوڑا علم دیا گیا ہے!
(الإسراء: ٨٥)
اخیر میں ان ملحدین سے ہم بھی ایک دو سوال داغنا چاہتے ہیں کہ اے عقل کے مارو! اگر شر کا وجود اللہ سبحانہ وتعالی کے عدم وجود کی دلیل ہے تو دنیا میں جو خیر موجود ہے اس کے بارے میں کیا خیال ہے کیا یہ اللہ تعالی کے موجود ہونے پر دلیل نہیں؟!
جبکہ اصل تو خیر ہی ہے اور وہی زیادہ ہے اس کے مقابلے میں تو شر بہت تھوڑے ہیں۔۔!
دوسرا سوال: ملحدین کے نزدیک جب سارے اشیاء مادی ہیں اور یہ دنیا ایسے ہی اتفاقا بلا خالق وجود میں آگئی ہے تو پھر حکمت، غایت، احساس، خیر و شر، حق کو ثابت کرنے کا معیار اور صحیح غلط کی معرفت کا کیا تصور؟!
کیوں کہ ان کے نزدیک تو ایسا کوئی خالق ہے ہی نہیں العیاذ بااللہ جو ان چیزوں کو وجود میں لائے!
پھر شر سے استدلال کیسے کیا جارہا ہے، آخر اصلا اس شر کا معیار کیا ہے؟!
یہ کیسے فیصلہ کیا جارہا ہے کہ فلاں چیز شر ہے، فلاں صحیح ہے اور فلاں چیز صحیح نہیں ہے!
کوئی معیار تو ہو جس کے ذریعے استدلال کیا جارہا ہے!
ہمیں پتا ہے ان سارے سولات کا ان کے پاس کوئی جواب نہیں سوائے ہفوات بکنے کے، کیوں کہ ان کی عقل پر پردے پڑے ہیں اور انھوں نے شیطان کو اپنا سردار بنا رکھا ہے۔
محترم قارئیں!
خلاصہ یہ کہ دنیا دار الابتلاء ہے، اللہ تعالی نے اسے آزمائش وامتحان کے لیے پیدا کیا ہے نہ کہ نعمت وسعادت کی ریل پیل کے لیے۔
اللہ رب العالمین فرماتا ہے: ٱلَّذِی خَلَقَ ٱلۡمَوۡتَ وَٱلۡحَیَوٰةَ لِیَبۡلُوَكُمۡ أَیُّكُمۡ أَحۡسَنُ عَمَلࣰاۚ وَهُوَ ٱلۡعَزِیزُ ٱلۡغَفُورُ
لہذا جب دنیا دار سعادت نہیں ہے تو تمام قسم کی نعمتوں، لذتوں کے حصول اور غموں کے زوال کا متمنی ہونا بے وقوفی کے سوا کچھ نہیں!
انسان کے لیے بھلائی اسی میں ہے کہ وہ وہی کام کرے جس سے اللہ راضی ہوجائے تاکہ آخرت میں سعادت والی زندگی نصیب ہو، بصورت دیگر ایسے لوگوں کے لیے جہنم کی آگ تیار ہے جو اللہ پر ایمان نہیں رکھتے، کیوں کہ انصاف کا یہی تقاضا ہے اور یقینا اللہ تعالی کسی پر ظلم نہیں کرتا۔
إِنَّ للَّه لَا یظۡلم النَّاسَ شَیۡـٔا وَلكِنَّ النَّاسَ أَنفُسَهُمۡ یَظۡلِمُونَ
بلاشبہ رب کریم کسی پر ذرہ برابر ظلم نہیں کرتا ہاں انسان خود ہی اپنے نفس کا ظالم ہوتا ہے۔
(يونس: ٤٤)
اور یہ بھی یاد رکھیں کہ اللہ تعالی جو کرتا ہے اس پر کوئی سوال نہیں ہوگا کیوں کہ وہ خالق ہے
اللہ فرماتا ہے: لَا یُسۡـَٔلُ عَمَّا یَفۡعَلُ وَهُمۡ یُسۡـَٔلُونَ
پر ہاں انسانوں سے اپنے کیے پر سوال ضرور ہوگا۔
اللہ سے دعا ہے کہ تاحیات وہ ہمیں صراط مستقیم پر گامزن رکھے اور جب ہم اس سے ملیں تو ایمان کی حالت میں ملیں۔
ہدایت اللہ فارس عبدالخالق
مقیم سعودیہ عربیہ
___________________________________
مشکلۃ الشر عربی کے دو لفظوں سے مرکب ایک اصطلاح ہے جسے انگلش میں Problem of evil کہا جاتا ہے، یہ مبحث "ثيوديسيا" (Theodicy) کے تحت داخل ہے جو دو یونانی لفظوں پر مشتمل ایک کلمہ ہے جس کی اصل ثیوس بمعنی الہ اور دکی بمعنی عدل ہے، یعنی معبود کا عدل۔
اس کلمہ کا ظہور پہلی مرتبہ فلسفی لیبنتس کے قلم سے اس کی اپنی کتاب؛
"Essais de Theodicee sur la Bont de Dieu....."
میں 1710م کو ہوا۔
اللہ رب العالمین کے عدم وجود پر ملحدین کا یہی مرکزی دلیل اور حجت ہے (معاذ اللہ) جس کی صراحت امریکی فلسفی Michael Twonley نے 2010 کے ایک مناظرہ میں کی ہے۔
حتی کہ ایک المانی ملحد Georg Buchner نے اسے "الحاد کی چٹان" سے تعبیر کیا ہے!
تو یہ ہے مشكلة الشر کا مختصر تعارف
اسی شبہ کے ذریعے ملحدین اللہ رب العزت کے علیم ہونے، قدیر ہونے اور حکیم ہونے کی نفی کرتے ہیں کہ دنیا میں شر کا وجود اللہ کے علیم، قدیر اور حکیم ہونے کے منافی ہے، کیونکہ اس کا علم، اور اس کی قدرت وحکمت اس بات کا متقاضی ہے کہ کسی قسم کے شر (برائی) کو وجود میں آنے سے روکے!
لہذا ثابت ہوا کہ دنیا میں شر کا پایا جانا ہی اس الہ کے وجود کی نفی کررہا ہے جس سے سابقہ تینوں صفات کا مفقود ہونا ناممکن امر ہے۔
عقل ودانش سے کورے ان ملحدین کا سب سے بڑا شبہ یہی ہے کہ اللہ تعالی کسی ایسی چیز کو کیسے پیدا کر سکتا ہے جس میں شر موجود ہو، باوجود کہ وہ اسے ناپسند کرتا ہے!
عقلی ونقلی دلائل سے شبہ کا ازالہ
سب سے پہلی بات یہ کہ ہم اہل توحید کا اس معاملے میں قطعی اعتقاد ہے کہ اللہ تعالی ہر چیز پر قادر ہے۔
ارشاد ربانی ہے: إن الله على كل شيء قدير
یعنی ہر شے خواہ اس کا تعلق خیر سے ہو یا شر سے اس کے علم، اس کی کتاب اور اس کی مشیت میں داخل ہے اور اس کی قدرت سے کوئی بھی چیز خارج نہیں ہے۔
جس طرح دنیا میں خیر کا وجود اللہ کی مرضی کے بنا ناممکن ہے ٹھیک اسی طرح شر کا وجود بھی اس کی مرضی کے بغیر ناممکن ہے۔
لہذا جو بھی شے واقع ہونے والی ہوتی ہے اس کا علم اللہ تعالی کو پہلے سے ہوتا ہے اور لوح محفوظ میں وہ لکھی ہوئی ہوتی ہے۔
اللہ تعالی فرماتا ہے: مَاۤ أَصَابَ مِن مُّصِیبَةࣲ فِی ٱلۡأَرۡضِ وَلَا فِیۤ أَنفُسِكُمۡ إِلَّا فِی كِتَـٰبࣲ مِّن قَبۡلِ أَن نَّبۡرَأَهَاۤۚ إِنَّ ذَ ٰلِكَ عَلَى ٱللَّهِ یَسِیرࣱ
ترجمہ: نہ کوئی مصیبت دنیا میں آتی ہے نہ تمہاری جانوں میں مگر اس سے پہلے کہ ہم اس کو پیدا کریں وہ ایک خاص کتاب میں لکھی ہوئی ہے اور یہ کام اللہ تعالی پر بالکل آسان ہے۔
(الحديد: ٢٢)
دوسرے مقام پر فرماتا ہے: مَّا فَرَّطۡنَا فِی ٱلۡكِتَـٰبِ مِن شَیۡءࣲۚ
کہ ہم نے دفتر میں کوئی چیز نہیں چھوڑی۔
(الأنعام: ٣٨)
اس ضروری وضاحت کے بعد اب ہم مذکورہ شبہ کا عقلی ونقلی دلائل کی روشنی میں بالاختصار کھنڈن کرتے ہیں۔
1۔ شر کی اضافت اللہ تعالی کی طرف نہ تو فعلا کی جا سکتی ہے اور نہ ہی وصفا، کیوں کہ شر مخلوق کے اندر ہوتی ہے۔
رسول اللہﷺ اللہ کے حضور فرماتے ہیں: "الخير كله في يديك والشر ليس إليك"
(صحيح مسلم: ٧٧١)
اس کی سمجھ جنات کو بھی پہلے سے رہی ہے، چنانچہ اللہ تعالی ان کی حکایت بیان کرتے ہوئے قرآن مجید میں فرماتا ہے: وَأَنَّا لَا نَدۡرِیۤ أَشَرٌّ أُرِیدَ بِمَن فِی ٱلۡأَرۡضِ أَمۡ أَرَادَ بِهِمۡ رَبُّهُمۡ رَشَدࣰا
(الجن: ١٠)
آیت میں غور کریں! جب شر کی بات آئی تو مجہول کا صیغہ استعمال کیا گیا اور جب خیر کی بات آئی تو صراحتا صیغہ معروف سے رب تعالی کی طرف اس کی اضافت کی گئی!
اور آخر شر کی اضافت اس ذات وحدہ لاشریک لہ کی طرف کیسے کی جاسکتی جو تمام عیوب ونقائص سے بالکل پاک ہے!
اور یہ ممکن بھی کیسے ہوسکتا ہے جب اللہ تعالی خود فرماتا ہے کہ وہ صراط مستقیم پر ہے: إِنَّ رَبِّی عَلَىٰ صِرطࣲ مُّسۡتَقِیمࣲ
(هود: ٥٦)
لہذا معلوم ہوا کہ اللہ تعالی کے تمام افعال واحکام عدل اور حکمت ومصلحت پر مبنی ہیں۔
2۔ اللہ رب العزت کی مخلوقات میں شر محض تو دور شر غالب بھی نہیں ہے بلکہ تمام مخلوقات میں اصل یا تو خیر محض ہے یا پھر خیر غالب، وہ مخلوقات جن میں خیر محض ہوتا ہے "انبیاء کرام اور ملائکہ علیھم السّلام" ہیں اور بقیہ خیر محض وغالب میں مشترک ہیں۔
واضح رہے کہ ہم یقینا دنیا میں شر کے موجود ہونے کو تسلیم کرتے ہیں لیکن یہ کسی بھی صورت تسلیم نہیں کرتے کہ وہ شر محض ہے، جیسا کہ ملحدین کا گمان ہے!
بلکہ دنیا میں جتنے انواع کی مصائب ومشکلات ہیں ان میں خیر اور مصلحت ضرور ہوتی ہے، یعنی ایک ناحیہ سے شر تو دوسرے ناحیہ سے خیر موجود ہوتا ہے اور خیر کا پہلو ہی زیادہ غالب ہوتا ہے۔
لہذا عقل ان مصائب ومشکلات کے وجود کا ہی تقاضا کرتی ہے نہ کہ عدم وجود کا۔!
ان کی کج فہمی کی انتہاء دیکھیے کہ یہ لوگ پانی اور آگ کی مثال پیش کرکے گویا ہوتے ہیں کہ بڑے بڑے سیلاب میں بے شمار بستیاں ڈوب کر تباہ ہوجاتی ہیں، اور اسی طرح آگ بھی بہت سارے فسادات کا سبب بنتی ہے!
اچھا! لیکن ہمارا سوال یہ ہے کہ کیا یہ نادر الوقوع واقعات اس بات کے متقاضی ہیں کہ جس پانی سے تمام مخلوقات کی زندگی ٹکی ہوئی ہے اور جس آگ سے بے شمار فوائد حاصل کیے جاتے ہیں اسے شر محض کہہ کر اس کے موجود ہونے پر سوالیہ نشان لگا دی جائے کہ اللہ نے اسے وجود کیوں بخشا؟!
کیا کوئی عقل سلیم کا حامل انسان اس بات کو تسلیم کر سکتا ہے، ہرگز نہیں! بلکہ ایسا انسان اصلا پانی اور آگ میں شر کے ہونے کو ہی تسلیم نہیں کر سکتا، چہ جائیکہ اس میں شر محض کو تسلیم کرلے۔
لہذا حکمت ایسے شر کے وجود کا ہی تقاضا کرتی ہے، جس میں خیر کا پہلو زیادہ غالب ہو نہ کہ اس کے عدم وجود کا اور ساتھ ہی ایسا شر خالق کائنات کے موجود ہونے کو ہی مستلزم ہے نہ کہ عدم وجود کو۔
3۔ مخلوقات میں جو شر موجود ہوتا ہے وہ شر نسبی ہوتا ہے، یعنی یہ شر یا تو باعتبار محلہ ہوتا ہے یا پھر اس شخص کے لیے ہوتا ہے جو اس سے متأثر ہوتا ہے اور یہی شر خود اس متاثر شخص کے لیے یا دوسروں کے لیے ایک یا ایک زائد اعتبار سے اپنے اندر خیر بھی لیا ہوا ہوتا ہے، پھر وہ انسان اس خیر سے یا تو دنیا ہی میں بہرہ ور ہوجاتا ہے یا پھر آخرت کے لیے اسے مؤجل کردیا جاتا ہے۔
اگر اتنی سی بات سمجھ لی جائے تو اللہ تعالی کے پیدہ کردہ تمام انواعِ شر کو دنیا میں وجود بخشنے کے پیچھے جو حکمت اور مصلحت ہے اس کی جھلک ضرور نمایا ہوجائے گی۔
اور اس بات میں کوئی شک نہیں کہ ہر مصیبت میں اللہ تعالی نے بہت زیادہ خیر رکھا ہوا ہے، یہ الگ بات ہے کہ وہ خیر کبھی ہمارے سامنے ظاہر ہوتا ہے اور بسا اوقات وہ ہم سے پوشیدہ ہی رہ جاتا ہے۔
لہذا اگر ہماری عقل مشکلات میں پوشیدہ حکمت کو تلاش کرنے میں ناکام ہوجائے تو اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ سرے سے اس میں کوئی حکمت یا مصلحت ہے ہی نہیں!
کیوں کہ کسی چیز کی موجودگی کا علم نہ ہونا اس بات کی دلیل نہیں کہ وہ اصلا موجود ہی نہیں ہے۔
یہ وہ قاعدہ کلیہ ہے جس سے کوئی بھی عقل مند انسان انکاری نہیں ہوسکتا!
اور اسی قاعدہ کی رو سے اللہ تعالی کا شر کو وجود بخشنے کے پیچھے خاص حکمت کا موجود ہونا بھی لازم آتا ہے۔
بس قصور ہمارے فہم کا ہے کہ جس چیز کا علم ہمارے پاس ہوتا ہے اس کے ذریعے ہم ان اشیاء پر قیاس آرائیاں شروع کردیتے ہیں جو ہم سے مخفی ہوتی ہیں!
4۔ دنیا کے اندر اللہ تعالی کی جو رحمتیں، خیرات وبرکات اور نعمتیں موجود ہیں وہ شر کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہیں!
اللہ فرماتا ہے: وَإِن تَعُدُّوا۟ نِعۡمَتَ ٱللَّهِ لَا تُحۡصُوهَاۤۗ إِنَّ ٱلۡإِنسَـٰنَ لَظَلُومࣱ كَفَّارࣱ
ترجمہ: اگر تم اللہ کے احسان گننا چاہو تو انھیں پورے کبھی گن نہیں سکتے، یقینا انسان بڑا ہی بے انصاف اور نا شکرا ہے۔
(إبراهيم: ٣٤)
سورہ نحل میں بھی اللہ تعالی نے یہ بات بتائی کہ:
وإن تعدوا ذنِعۡمَةَ ٱللَّهِ لَا تُحۡصُوهَاۤۗ إِنَّ ٱللَّهَ لَغَفُورࣱ رَّحِیمࣱ
(النحل: ١٨)
آپ ذرا سوچیں کیا کوئی اس بات سے کہ "دنیا میں صحت مند لوگوں کی تعداد مریضوں سے ہزاروں گنا زیادہ ہیں" انکار کر سکتا ہے؟!
ہرگز نہیں!
اسی طرح زلزلے، حوادث اور جلنے کٹنے سے لے کر اکسڈینٹ ہونے جیسے واقعات بہت کم رونما ہوتے ہیں بنسبت اس طرح کے حادثے نہ ہونے کے۔
تو کیا یہ دنیا میں شر کے بالمقابل خیر کے زیادہ ہونے کی دلیل نہیں؟!
اس سے وہی شخص انکار کر سکتا ہے جو یا تو سخت متعصب اور نا انصاف ہے یا حد درجہ کم عقل!
5۔ دنیا میں شر کا وجود حسنِ عالم کو مستلزم ہے، بس ضروری یہ ہے کہ نظر اشیاء کے کل پر ہو نہ کہ جزء پر، اور ملحدین کی سب سے بڑی خامی اور نادانی یہی ہے کہ وہ نظر کو اشیاء کے جزء پر مقید کرکے کُل پر حکم عائد کرنے کی نا رواں کوشش کرتے ہیں!
ایک مثال سے ہم اس کی وضاحت کرنے کی کوشش کرتے ہیں؛
ہمارے سامنے کئی کمروں پر مشتمل ایک خوبصورت محل ہو جس میں ایک کمرہ کے سامان منتشر ہونے کی وجہ سے بقیہ کمروں کے مقابلے میں وہ کمرہ اچھا نہ دکھ رہا ہو تو کیا پورے محل پر بدصورتی کا مہر لگا دیا جانا عقلمندی کی دلیل ہوسکتی ہے؟! حاشا وکلا!
ٹھیک یہی مسئلہ دنیا میں موجود شر کا ہے، اس کے روئے زمین میں موجود ہونے کی خوبصورتی تبھی ظاہر ہوسکتی ہے جب نظر کل پر ڈالی جائے۔
ذرا سوچیں! اگر بیماری کا وجود نہ ہو تو صحت مندی کی کیا قیمت، غریبی نہ ہو تو دولت کی کیا قیمت اسی طرح مشقت وپریشانی نہ ہو تو کامیابی کی کیا اہمیت رہ جاتی ہے؟!
ان ساری چیزوں کو سامنے رکھتے ہوئے اس دنیاوی زندگی پر غور کریں تو مصائب ومشکلات کے بغیر یہ زندگی بالکل بدمزہ ہوکر رہ جاتی ہے، کیوں کہ کسی بھی شے کا حسن اس کی ضد سے نمایا ہوتا ہے۔
ایک اہم بات یہ کہ دنیا میں موجود تمام قسم کے شر میں کوئی نہ کوئی مصلحت ضرور ہوتی ہے لہذا عدم مصلحت کا دعوی کرنا بالکل ناممکن دعوی ہے، کیوں کہ اس کی اصل تک پہنچنے کے لیے ایسے علم کی ضرورت ہے جو ساری چیزوں کو محیط ہو اور انسان تو اس پر تمکن حاصل کرنے سے رہا۔!
اللہ کا ارشاد ہے: وَمَاۤ أُوتِیتُم مِّنَ ٱلۡعِلۡمِ إِلَّا قَلِیلࣰا
تمھیں بہت تھوڑا علم دیا گیا ہے!
(الإسراء: ٨٥)
اخیر میں ان ملحدین سے ہم بھی ایک دو سوال داغنا چاہتے ہیں کہ اے عقل کے مارو! اگر شر کا وجود اللہ سبحانہ وتعالی کے عدم وجود کی دلیل ہے تو دنیا میں جو خیر موجود ہے اس کے بارے میں کیا خیال ہے کیا یہ اللہ تعالی کے موجود ہونے پر دلیل نہیں؟!
جبکہ اصل تو خیر ہی ہے اور وہی زیادہ ہے اس کے مقابلے میں تو شر بہت تھوڑے ہیں۔۔!
دوسرا سوال: ملحدین کے نزدیک جب سارے اشیاء مادی ہیں اور یہ دنیا ایسے ہی اتفاقا بلا خالق وجود میں آگئی ہے تو پھر حکمت، غایت، احساس، خیر و شر، حق کو ثابت کرنے کا معیار اور صحیح غلط کی معرفت کا کیا تصور؟!
کیوں کہ ان کے نزدیک تو ایسا کوئی خالق ہے ہی نہیں العیاذ بااللہ جو ان چیزوں کو وجود میں لائے!
پھر شر سے استدلال کیسے کیا جارہا ہے، آخر اصلا اس شر کا معیار کیا ہے؟!
یہ کیسے فیصلہ کیا جارہا ہے کہ فلاں چیز شر ہے، فلاں صحیح ہے اور فلاں چیز صحیح نہیں ہے!
کوئی معیار تو ہو جس کے ذریعے استدلال کیا جارہا ہے!
ہمیں پتا ہے ان سارے سولات کا ان کے پاس کوئی جواب نہیں سوائے ہفوات بکنے کے، کیوں کہ ان کی عقل پر پردے پڑے ہیں اور انھوں نے شیطان کو اپنا سردار بنا رکھا ہے۔
محترم قارئیں!
خلاصہ یہ کہ دنیا دار الابتلاء ہے، اللہ تعالی نے اسے آزمائش وامتحان کے لیے پیدا کیا ہے نہ کہ نعمت وسعادت کی ریل پیل کے لیے۔
اللہ رب العالمین فرماتا ہے: ٱلَّذِی خَلَقَ ٱلۡمَوۡتَ وَٱلۡحَیَوٰةَ لِیَبۡلُوَكُمۡ أَیُّكُمۡ أَحۡسَنُ عَمَلࣰاۚ وَهُوَ ٱلۡعَزِیزُ ٱلۡغَفُورُ
لہذا جب دنیا دار سعادت نہیں ہے تو تمام قسم کی نعمتوں، لذتوں کے حصول اور غموں کے زوال کا متمنی ہونا بے وقوفی کے سوا کچھ نہیں!
انسان کے لیے بھلائی اسی میں ہے کہ وہ وہی کام کرے جس سے اللہ راضی ہوجائے تاکہ آخرت میں سعادت والی زندگی نصیب ہو، بصورت دیگر ایسے لوگوں کے لیے جہنم کی آگ تیار ہے جو اللہ پر ایمان نہیں رکھتے، کیوں کہ انصاف کا یہی تقاضا ہے اور یقینا اللہ تعالی کسی پر ظلم نہیں کرتا۔
إِنَّ للَّه لَا یظۡلم النَّاسَ شَیۡـٔا وَلكِنَّ النَّاسَ أَنفُسَهُمۡ یَظۡلِمُونَ
بلاشبہ رب کریم کسی پر ذرہ برابر ظلم نہیں کرتا ہاں انسان خود ہی اپنے نفس کا ظالم ہوتا ہے۔
(يونس: ٤٤)
اور یہ بھی یاد رکھیں کہ اللہ تعالی جو کرتا ہے اس پر کوئی سوال نہیں ہوگا کیوں کہ وہ خالق ہے
اللہ فرماتا ہے: لَا یُسۡـَٔلُ عَمَّا یَفۡعَلُ وَهُمۡ یُسۡـَٔلُونَ
پر ہاں انسانوں سے اپنے کیے پر سوال ضرور ہوگا۔
اللہ سے دعا ہے کہ تاحیات وہ ہمیں صراط مستقیم پر گامزن رکھے اور جب ہم اس سے ملیں تو ایمان کی حالت میں ملیں۔
ہدایت اللہ فارس عبدالخالق
مقیم سعودیہ عربیہ
اٹیچمنٹس
-
3.9 MB مناظر: 26