مقبول احمد سلفی
سینئر رکن
- شمولیت
- نومبر 30، 2013
- پیغامات
- 1,400
- ری ایکشن اسکور
- 463
- پوائنٹ
- 209
مشکلات کا سامنا کیسے کریں ؟
تحریر: مقبول احمد سلفی
اسلامک دعوۃ سنٹر، شمالی طائف (مسرہ)
آج ہرکوئی اپنی مشکلات کا رونا روتا ہے، جہاں دیکھوں دوسروں سے دکھ پریشانی بیان کررہاہوتاہے۔ مشکلات کو اپنے دل میں دبا نہیں پاتا، حزن وملال کا ہرجگہ برملا اظہار کرتا ہے ۔ ہم کیوں سمجھتے ہیں کہ زندگی میں کوئی پریشا نی نہ ہو، کبھی کوئی غم لاحق نہ ہو، ہمیشہ ہنستے کھیلتے رہیں ، زندگی میں خوشیاں ہی خوشیاں ہوں ۔ حیرت ان بھائیوں پر ہے جو مشکلات کا سامنا نہیں کرپاتے ۔ بے صبری کا اظہار کر بیٹھتے ہیں ، جہاں تہاں اپنے غم کا اظہار کرتے ہیں ، بزدل ہوکرمشکلات کے سامنےاپنی ہمت ہار جاتے ہیں، کچھ تو حددرجہ جزع فرع کرتے ہیں ، اپنے چہرے اور اعضائے جسم کو غم والم کی تصویر بنالیتے ہیں ، بعض لوگ مشکلات سے نحوست لیتے ہیں ، دوسروں کو اپنی مشکلات کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں ، جہالت کی وجہ سے کتنے اس عالم میں اللہ کو بھول جاتے ہیں اور غیروں کی در پہ نجات کی آس لئے بیٹھ جاتے ہیں ، اور وہ آدمی مجرم ہے جو غموں کی تاب نہ لاکر موت کے منہ خود کو دھکیل دیتا ہے ۔ آئے روز ہم اخبارات میں لوگوں کی خودکشی کرنے،چھت سے کودنے، ٹرین سے کٹنے، بم سے مرنے، بندوق سے ہلاک ہونے کی خبریں پڑھتے ہیں ۔ جو خود کو ہلاک کرے گا وہ جہنم میں داخل ہوگا اور وہاں بھی خود کو ہلاک کرتا رہے گا۔ اللہ کی پناہ اس خطرناک شر سے ۔
مشکلات زندگی کا حصہ ہیں ، دارالامتحان میں پریشانی نہ ہوایسا ممکن ہی نہیں ۔ یہاں قدم قدم پر مشکلات ہیں ،ایمان کے ساتھ مشکلات جڑی ہوئی ہیں ، اس لئے یہاں ایمان والوں کی سخت ترین آزمائشیں ہوتی ہیں ۔یہ زندگی آزمائش کا ہی دوسرا نام ہے ، اس لئے مومن کی دنیاوی زندگی قید خانہ اور کافروں کی جنت ہے ، رسول اکرم ﷺ نے فرمایا: الدُّنْيَا سِجْنُ الْمُؤْمِنِ وَجَنَّةُ الْكَافِرِ(صحیح مسلم:2956)
ترجمہ: دنیا مومن کا قید خانہ اور کافر کی جنت ہے۔
بھلا قیدخانے میں کوئی آرام سے زندگی گزارتا ہے وہ تو دکھوں سے بھری ہوتی ہے۔ کافروں کی دنیا جنت ہے پھر بھی انہیں یہاں بھی تکلیف ہوتی ہے یعنی کافروں کو اپنی جنت میں بھی تکلیف پہہنچتی ہے جبکہ مومنین جب آخرت میں اپنی جنتوں میں جائیں گے تو نہ صرف وہاں عیش وآرام ہوگا بلکہ دنیا کی تمام مشکلات بھول جائیں گے ۔ کافروں کی بے آرامی کے متعلق رب ذوالجلال نے فرمایا:
إِن تَكُونُوا تَأْلَمُونَ فَإِنَّهُمْ يَأْلَمُونَ كَمَا تَأْلَمُونَ ۖ وَتَرْجُونَ مِنَ اللَّهِ مَا لَا يَرْجُونَ ۗ وَكَانَ اللَّهُ عَلِيمًا حَكِيمًا (النساء:104)
ترجمہ: اگر تمہیں بے آرامی ہوتی ہے تو انہیں بھی تمہاری طرح بے آرامی ہوتی ہے اور تم اللہ تعالٰی سے وہ امید یں رکھتے ہو ، جو امید انہیں نہیں اور اللہ تعالٰی دانا اور حکیم ہے ۔
روئے زمین پر سب سے افضل انسانی ہستیاں انبیائے کرام کی ہیں ، ان کی آزمائشیں سب سے زیادہ سخت ہوتی ہیں ۔سعد بن وقاص رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے دریافت کیا:
أَيُّ النَّاسِ أَشَدُّ بَلَاءً قَالَ الْأَنْبِيَاءُ ثُمَّ الْأَمْثَلُ فَالْأَمْثَلُ فَيُبْتَلَى الرَّجُلُ عَلَى حَسَبِ دِينِهِ فَإِنْ كَانَ دِينُهُ صُلْبًا اشْتَدَّ بَلَاؤُهُ وَإِنْ كَانَ فِي دِينِهِ رِقَّةٌ ابْتُلِيَ عَلَى حَسَبِ دِينِهِ فَمَا يَبْرَحُ الْبَلَاءُ بِالْعَبْدِ حَتَّى يَتْرُكَهُ يَمْشِي عَلَى الْأَرْضِ مَا عَلَيْهِ خَطِيئَةٌ (صحیح الترمذی:2398)
ترجمہ: انبیاء ورسل پر ، پھر جوان کے بعدمرتبہ میں ہیں، پھر جو ان کے بعدہیں،بندے کی آزمائش اس کے دین کے مطابق ہوتی ہے ، اگربندہ اپنے دین میں سخت ہے تو اس کی مصیبت بھی سخت ہوتی ہے اور اگر وہ اپنے دین میں نرم ہوتاہے تو اس کے دین کے مطابق مصیبت بھی ہوتی ہے،پھر مصیبت بندے کے ساتھ ہمیشہ رہتی ہے، یہاں تک کہ بندہ روئے زمین پراس حال میں چلتاہے کہ اس پر کو ئی گناہ نہیں ہوتا ۔
ابراہیم علیہ السلام کی سیرت ابتلاء وآزمائش سے پر ہے، ایوب علیہ السلام کو اللہ نے لمبی مدت تک بیماری میں مبتلا رکھا، یونس علیہ السلام مچھلی کے پیٹ میں چلے گئے، یعقوب علیہ السلام نے مدتوں اپنے لخت جگر کی جدائی برداشت کیں، یوسف علیہ السلام کو جیل کی سزا بھگتنی پڑی، موسی علیہ السلام کو وقت کے ظالم بادشاہ کا سامنا کرنا پڑا اور محمد ﷺ کی زندگی یتیمی اور فقروفاقہ میں گزری۔ یہ سب انبیاء ہیں اور روئے زمین پر پاکباز ہستیاں تھیں مگر وہ بھی آزمائشوں سے نہیں بچ سکے تو ہم آپ کیسے مصائب ومشکلات سے بچ سکتے ہیں وہ بھی پرفتن دور میں ۔ یہاں ہرکسی کو آزمائشوں سے گزرنا ہے کیونکہ ایمان کی آزمائش کے بدلے آخرت میں بڑا انعام رکھا گیا ہے ۔ جنت کا حصول بغیر محنت ومشقت اور بغیر تکلیف جھیلے کیسے ممکن ہے ؟
اللہ کا فرمان ہے:أَحَسِبَ النَّاسُ أَن يُتْرَكُوا أَن يَقُولُوا آمَنَّا وَهُمْ لَا يُفْتَنُونَ (العنکبوت:2)
ترجمہ: کیا لوگوں نے یہ گمان کر رکھا ہے کہ ان کے صرف اس دعوے پر کہ ہم ایمان لائے ہیں ہم انہیں بغیر آزمائے ہوئے ہی چھوڑ دیں گے؟
اللہ کا فرمان ہے :
أَمْ حَسِبْتُمْ أَن تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ وَلَمَّا يَأْتِكُم مَّثَلُ الَّذِينَ خَلَوْا مِن قَبْلِكُم ۖ مَّسَّتْهُمُ الْبَأْسَاءُ وَالضَّرَّاءُ وَزُلْزِلُوا حَتَّىٰ يَقُولَ الرَّسُولُ وَالَّذِينَ آمَنُوا مَعَهُ مَتَىٰ نَصْرُ اللَّهِ ۗ أَلَا إِنَّ نَصْرَ اللَّهِ قَرِيبٌ (البقرۃ:214)
ترجمہ: کیا تم یہ گمان کئے بیٹھے ہو کہ جنت میں چلے جاؤ گے حالانکہ اب تک تم پر وہ حالات نہیں آئے جو تم سے اگلے لوگوں پر آئے تھے انہیں بیماریاں اور مصیبتیں پہنچیں اور وہ یہاں تک جھنجھوڑے گئے کہ رسول اور اس کے ساتھ کے ایمان والے کہنے لگے کہ اللہ کی مدد کب آئے گی؟ سُن رکھو کہ اللہ کی مدد قریب ہی ہے ۔
اللہ کا فرمان ہے :
وَلَنَبْلُوَنَّكُم بِشَيْءٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَالْجُوعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الْأَمْوَالِ وَالْأَنفُسِ وَالثَّمَرَاتِ ۗ وَبَشِّرِ الصَّابِرِينَ (155)
ترجمہ: اور ہم کسی نہ کسی طرح تمہاری آزمائش ضرور کریں گے ، دشمن کے ڈر سے ، بھوک پیاس سے ، مال و جان اور پھلوں کی کمی سے اور ان صبر کرنے والوں کو خوشخبری دے دیجئے ۔
ان تمام آیات سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ ایمان والوں کو اللہ دنیا میں طرح طرح سے آزماتا ہے اور قسم قسم کی مشکلات سے دوچار کرتا ہے۔ بیماری دےکر، بھوک وپیاس بھیج کر، غربت وافلاس کا شکار بناکر، تجارتی خسارے میں گرفتار کرکے، غم والم اورحزن وملا نازل کرکے، دشمن کے تسلط اور حاسدومنافق کے پروپیگنڈے کے ذریعہ ، مال واولاد اور دین ودنیا کے مختلف امتحان میں ڈال کر آزماتا ہے۔ ایسے حالات میں کمزور ایمان والےاور جاہل ونادان مسلمان مشکلات کا سامنا کرنے کی بجائے غیراسلامی طریقے اختیار کرتے ہیں اور بجائے مشکلات سے نجات پانے کے مزید مشکلات میں گھر کر اپنی زندگی تباہ کر لیتے ہیں ۔
حقیقت میں مومن کو مشکلات میں زیادہ مزہ آتا ہے، جب جب کوئی مصیبت آتی ہے خوش ہوتا ہے کیونکہ یہی وہ ایک حالت ہے جس میں رب کی حقیقی معرفت حاصل ہوتی ہے، اس پر اعتماد مزید پختہ ہوتا ہے، دل مضبوط ہوتا ہے، طبیعت میں نرمی پیدا ہوتی ہے، اخلاق کے بلند معیار پر فائز ہوتا ہے،اسی کو نفع ونقصان کا مالک سمجھتا ہے، اسی کو مشکلیں دینے والا اور اسے ہی ٹالنے والا سمجھتا ہے، اسی سے اپنی پریشانی کا سوال کرتا ہے ، دنیا کی بے رغبتی کا خیال راسخ ہوتا ہے، اس دار فانی کو حقیر اور داربقا کوبہتر سمجھتا ہے، اپنے اندر پہلے سے کہیں زیادہ عاجزی پیدا کرتا ہے اور ہر قسم کی بڑائی کے لائق اپنے خالق ومالک کو سمجھتا ہے۔
بسا اوقات عام انسان یا ظالم وجابر کو بھی بھیانک مشکلات سے سبق ملتا ہے۔ذرا غور فرمائیں جب کسی کو لاعلاج بیماری لاحق ہوتی ہے ، دوست واحبات کی مدد کام نہیں آتی ، اطباء اور ان کے نسخے بے سود ہوجاتے ہیں تو اس عالم میں خالق کائنات کا تصور پیدا ہوتا ہے کیونکہ اپنے سامنے پیسے، طاقت، عہدہ ، مرتبہ اور نام وشہرت کا غرور ماند نظر آتا ہے۔ ایسے عالم میں کچھ لوگوں کی زندگی کی کایا پلٹ جاتی ہے اور خالق حقیقی کی طرف لوٹ کر اپنی زندگی پاکیزہ بنالیتے ہیں ۔
بہرکیف ! زندگی آزمائش کا دوسرا نام ہے ، یہاں صرف خوشیوں کی تمنا کرنا بے سود ہے ، کانٹوں بھری زندگی ہے نباہ کرنا ہے۔ نبی ﷺ کا فرمان ہے:
إن العيشَ عيشُ الآخرةِ (صحيح البخاري:3795)
ترجمہ:اصل زندگی تو آخرت کی زندگی ہے۔
اس لئے مومن دنیا وی زندگی کو حقیر سمجھ کر آخرت کو ترجیح دیتا ہے اور یہاں کی مشکلات کو پل بھر کی مشکلات سمجھ کر آخرت میں رب سے جنت کی امید لگاتا ہےمگر ہم ہیں کہ دنیا کو ہی سب کو سمجھنے لگے اور آخرت کو بھلا بیٹھے ۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے :
بَلْ تُؤْثِرُونَ الْحَيَاةَ الدُّنْيَاوَالْآخِرَةُ خَيْرٌ وَأَبْقَىٰ (الاعلی:16،17)
ترجمہ: لیکن تم دنیا کی زندگی کو ترجیح دیتے ہو اور آخرت بہت بہتر اور باقی رہنے والی ہے۔
دل کے اندرسے دنیا ، دنیاوی عیش اور یہاں کے مال ومنال کی محبت نکال پھینکیں ، رب کی طرف لوٹ جائیں ، وہ رب معافی مانگنے والوں کے سارے گناہ معاف کردیتا ہے ۔ آئیے نیچے چند امور بیان کرتا ہوں جن کے ذریعہ مشکلات ختم بھی ہوسکتی ہیں ، ہلکی بھی محسوس ہوسکتی ہیں اور مشکلات پہ صبر کرنے میں لذت کا احساس بھی ہوسکتا ہے ۔
(1) پہلے تو اپنا عقیدہ بنائیں کہ جو بھی مشکل آتی ہے اس کا نازل کرنے والا اللہ ہے ۔ اپنی پریشانی کو کسی آدمی کی طرف منسوب نہ کریں کہ فلاں کی وجہ سے مشکل آئی ہے ۔ اللہ بیا ن کرتا ہے :
مَا أَصَابَ مِن مُّصِيبَةٍ إِلَّا بِإِذْنِ اللَّهِ ۗ وَمَن يُؤْمِن بِاللَّهِ يَهْدِ قَلْبَهُ ۚ وَاللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ (التغابن:11)
ترجمہ:کوئی مصیبت اللہ کی اجازت کے بغیر نہیں پہنچ سکتی جو اللہ پر ایمان لائے اللہ اس کے دل کو ہدایت دیتا ہے اور اللہ ہرچیز کو خوب جاننے والا ہے۔
(2)مشکلات درپیش ہونے پر غم نہ کریں، جزع فزع نہ کریں، آنکھوں سے آنسو نہ بہائیں ،اپنے چہرے پہ حزن وملال کے آثار ظاہر نہ ہونے دیں اور اللہ سے امید لگائے رکھیں ، اللہ تعالی ہمیں حکم دیتا ہے :
وَلَا تَهِنُوا وَلَا تَحْزَنُوا وَأَنتُمُ الْأَعْلَوْنَ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ (آل عمران:139)
ترجمہ: تم نہ سُستی کرو اور نہ غمگین ہو ، تم ہی غالب رہو گے اگر تم ایماندار ہو۔
جب کفارمکہ نبی ﷺ کی تلاش میں غارثور تک چلے آئے تھے تو ابوبکر رضی اللہ عنہ انہیں دیکھ کر گھبرائے اور کہا کہ اے اللہ کے ! اگر یہ لوگ اپنے قدموں کی طرف دیکھیں تو وہ ہمیں دیکھ لیں گے، اس وقت رسول اللہ ﷺ نے ابوبکرسے فرمایا: لَا تَحْزَنْ إِنَّ اللَّهَ مَعَنَا(التوبة:40)
ترجمہ: غم نہ کرو، اللہ ہمارے ساتھ ہے ۔
(3) مشکلات کو زندگی کا حوصلہ سمجھیں، اسے رب کی طرف سےبخشش وعطا سمجھیں اور مشکلوں میں گھرکر بھی اس کو یاد کریں وہ آپ کو یاد کرے گا اور آپ کی مشکلیں آسان بنائے گاکیونکہ وہ مصیبت دے کر آپ کو اپنا محبوب بنانا چاہتا ہے ، نبی ﷺ کا فرمان ہے :
مَنْ يُرِدِ اللَّهُ بِهِ خَيْرًا يُصِبْ مِنْهُ(صحیح البخاری:5645)
ترجمہ: اللہ تعالیٰ جس کے ساتھ خیر و برکت کا ارادہ کرتا ہے اسے مصائب وآلام میں مبتلا کردیتا ہے۔
(4) مشکلات گناہوں کو مٹاتی ہیں ، ان سے بندے کا مقام ومرتبہ بلند ہوتا اور گناہوں سے پاک وصاف ہوجاتا ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ام سائب یا ام مسیب سے فرمایا جنہوں نے بخار کو برا بھلاکہی تھی :
لا تسُبِّي الحُمَّى فإنها تُذهِبُ خطايا بني آدمَ كما يُذهبُ الكِيرُ خبثَ الحديدِ(صحيح مسلم:2575)
ترجمہ: بخار کو برا بھلا مت کہوکیونکہ یہ انسان کے گناہوں کو اس طرح دور کر دیتا ہے جس طرح بھٹی لوہے کے زنگ کو۔
(5) مشکلات کے نزول کے وقت صبر کو اپنا ہتھیار بنائیں ، صبر کا مطلب یہ ہے کہ جیسے ہی کوئی پریشانی آئے صبر کا دامن تھامیں ۔ نبی ﷺ کا فرمان ہے: إِنَّمَا الصَّبْرُ عِنْدَ الصَّدْمَةِ الْأُولَى(صحیح البخاری:1283)
ترجمہ: صبر تو صدمے کے آغاز میں ہوتا ہے۔
(6) صبر کے ساتھ مشکل ٹالنے والے سے اسمائے حسنی اور اپنے نیک اعمال کا واسطہ دے کر خوب دعائیں کریں ، جب بندہ رب سے سوال کرتا ہے ،اے میرے رب توہی مشکلیں دینے والا اور مشکلوں کو ٹالنے والا ہے ،مری مشکلات دور فرمادے۔ رب خوش ہوتا ہےاور خالی ہاتھ لوٹانے میں شرم آتی ہے کیونہ بندے نے عاجزی سے اپنے خالق کو پکارا ہے۔ نبی ﷺ کا فرمان ہے:إنَّ اللَّهَ حيِىٌّ كريمٌ يستحي إذا رفعَ الرَّجلُ إليْهِ يديْهِ أن يردَّهما صفرًا خائبتينِ(صحيح الترمذي:3556)
ترجمہ:اللہ حی وکریم ہے یعنی زندہ و موجود ہے اور شریف ہے اسے اس بات سے شرم آتی ہے کہ جب کوئی آدمی اس کے سامنے ہاتھ پھیلادے تو وہ اس کے دونوں ہاتھوں کو خالی اور ناکام ونامراد واپس کردے۔
(7) بسا اوقات کسی گناہ کی وجہ سے رب کی طرف سے مصیبت نازل ہوتی ہے ، ایسے میں اپنے گناہوں کا احساس کریں اور شرمندی کے ساتھ اپنے رب سے توبہ کریں ،وہ تو یونہی بہت سے گناہ معاف کرنے والا ہے ، اللہ تعالی فرماتا ہے :
وَمَا أَصَابَكُم مِّن مُّصِيبَةٍ فَبِمَا كَسَبَتْ أَيْدِيكُمْ وَيَعْفُو عَن كَثِيرٍ (الشوری:30)
ترجمہ: تمہیں جو کچھ مصیبتیں پہنچتی ہیں وہ تمہارے اپنے ہاتھوں کے کرتوت کا بدلہ ہے ، اور وہ تو بہت سی باتوں سے درگزر فرما دیتا ہے ۔
(8) گناہوں پہ گناہ کرتے ہیں مگرہمارے دل میں خوف نہیں پیدا ہوتا، فرائض وواجبات ترک کرنے پہ بھی کوئی خوف نہیں آتاجبکہ اللہ سے خوف کھانے پہ وہ مشکلات میں بھی ہماری مدد کرتا ہے ، اللہ کا فرمان ہے: وَمَن يَتَّقِ اللَّهَ يَجْعَل لَّهُ مَخْرَجًا(الطلاق:2)
ترجمہ: جو اللہ سے ڈرتا ہے اللہ اس کے لئے چھٹکارے کی شکل نکال دیتا ہے۔
(9) دل کے اندھیرے اللہ کے ذکر ، اس کی یاد، بندگی ، تلاوت ، مناجات اور تقدیس سے دور کریں اور اس میں سکون پیدا کریں ، جب تک دل اللہ کی یاد سے غافل ہوگا اور اس میں سکون نہیں ہوگا زندگی مشکل ودشوار نظر آئے گی۔ دل کے سکون کے بعد کائنات کی ہر مشکل چھوٹی ہوجائے گی ۔ اللہ تعالی فرماتا ہے : الَّذِينَ آمَنُوا وَتَطْمَئِنُّ قُلُوبُهُم بِذِكْرِ اللَّهِ ۗ أَلَا بِذِكْرِ اللَّهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوبُ (الرعد:28)
ترجمہ: جو لوگ ایمان لائے ان کے دل اللہ کے ذکر سے اطمینان حاصل کرتے ہیں ۔ یاد رکھو اللہ کے ذکر سے ہی دلوں کو تسلی حاصل ہوتی ہے ۔
یہ بھی یاد رکھیں جو جان بوجھ کراللہ کے ذکر اور اس کی بندگی سے اعراض کرتا ہے اللہ اسے تنگی میں ڈال دیتا ہے ، فرمان الہی ہے: وَمَنْ أَعْرَضَ عَن ذِكْرِي فَإِنَّ لَهُ مَعِيشَةً ضَنكًا وَنَحْشُرُهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ أَعْمَىٰ (طہ:124)
ترجمہ: جو لوگ ایمان لائے ان کے دل اللہ کے ذکر سے اطمینان حاصل کرتے ہیں ۔ یاد رکھو اللہ کے ذکر سے ہی دلوں کو تسلی حاصل ہوتی ہے ۔
(10) ایمان کے ساتھ عمل صالح کی انجام دہی سے خوشگوار زندگی نصیب ہوتی ہے ، اللہ تعالی فرماتا ہے: مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِّن ذَكَرٍ أَوْ أُنثَىٰ وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْيِيَنَّهُ حَيَاةً طَيِّبَةً ۖ وَلَنَجْزِيَنَّهُمْ أَجْرَهُم بِأَحْسَنِ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ (النحل:97)
ترجمہ: جو شخص نیک عمل کرے مرد ہو یا عورت ، لیکن با ایمان ہو تو ہم اُسے یقیناً نہایت بہتر زندگی عطا فرمائیں گے اور ان کے نیک اعمال کا بہتر بدلہ بھی انہیں ضرور ضرور دیں گے ۔
(11) بے جا آرزوئیں ختم کریں اوراپنی ضروریات کم کریں ، اکثر دنیا کی ہوس اور ہرتمنا پوری کرنے کی خواہش انسان کو دین سے دور کردیتی ہے ، ایسے انسان کے پاس دنیا تو ہوتی ہے مگر دین نہیں ہوتا۔ پھر مشکلات میں اس طرح گھر جاتا ہے جہاں دولت وشہرت کام نہیں آتی ، اس وقت بھی رب ہی یا دآتا ہے لہذا قناعت کرناسیکھیں ۔
اللہ تعالی فرماتا ہے: مَن كَانَ يُرِيدُ حَرْثَ الْآخِرَةِ نَزِدْ لَهُ فِي حَرْثِهِ ۖ وَمَن كَانَ يُرِيدُ حَرْثَ الدُّنْيَا نُؤْتِهِ مِنْهَا وَمَا لَهُ فِي الْآخِرَةِ مِن نَّصِيبٍ (الشورى:20)
ترجمہ: جس کا ارادہ آخرت کی کھیتی کا ہو ہم اسے اس کی کھیتی میں ترقی دیں گے اور جو دنیا کی کھیتی کی طلب رکھتا ہو ہم اسے اس میں سے ہی کچھ دے دیں گے ایسے شخص کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں ۔
رسول اکرم ﷺ فرماتے ہیں : قد أفلحَ من أسلمَ ، ورُزِقَ كفافًا ، وقنَّعَه اللهُ بما آتاهُ(صحيح مسلم:1054)
ترجمہ:وہ انسان کا میاب و بامراد ہو گیا جو مسلمان ہو گیا اور اسے گزر بسر کے بقدر روزی ملی اور اللہ تعا لیٰ نے اسے جو دیا اس پر قناعت کی تو فیق بخشی۔
(12) کم ہی کمائیں مگر حلال طریقے سے ، اس میں برکت ہوگی اور اللہ پر بھروسہ کریں روزی سے لیکر زندگی کے تمام معاملات میں خواہ آسانی ہویا پریشانی ۔ وہ اپنے بندوں کے لئے کافی ہے ۔ اللہ کا فرمان ہے: وَمَن يَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ فَهُوَ حَسْبُهُ ۚ(الطلاق:3)
ترجمہ: اور جو اللہ پر بھروسہ کرتا ہے اللہ اس کے لئے کافی ہوجاتا ہے۔
ایک آخری بات یہ بھی یاد رکھیں کہ اللہ کے حکم کے بغیر پوری دنیا مل کر بھی آپ کا بال بیکا نہیں کرسکے گی، اس لئے دنیا کو خوش نہ کریں ،اعمال صالحہ سےرب کو راضی کریں ، اگر ہم نے اپنے خالق ومالک کو راضی کرلیا تو مشکلات آپ خود ٹل جائیں گی اور مشکلات میں اگر رہیں گے بھی تومسکرائیں گے، غم والم محسوس نہیں ہوگا کیونکہ رب جو ساتھ ہوگا۔ نبی ﷺ فرماتے ہیں :
واعلَم أنَّ الأمَّةَ لو اجتَمعت علَى أن ينفَعوكَ بشَيءٍ لم يَنفعوكَ إلَّا بشيءٍ قد كتبَهُ اللَّهُ لَكَ ، وإن اجتَمَعوا على أن يضرُّوكَ بشَيءٍ لم يَضرُّوكَ إلَّا بشيءٍ قد كتبَهُ اللَّهُ عليكَ(صحيح الترمذي:2516)
ترجمہ:اور یہ بات جان لو کہ اگر ساری امت بھی جمع ہوکرتمہیں کچھ نفع پہنچانا چاہے تو وہ تمہیں اس سے زیادہ کچھ بھی نفع نہیں پہنچا سکتی جو اللہ نے تمہارے لیے لکھ دیا ہے اور اگر وہ تمہیں کچھ نقصان پہنچانے کے لئے جمع ہوجائے تو اس سے زیادہ کچھ نقصان نہیں پہنچاسکتی جو اللہ نے تمہارے لئے لکھ دیا ہے۔