• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مشہدِ علیؓ نجف ایک فرضی قبر

شمولیت
اپریل 27، 2020
پیغامات
509
ری ایکشن اسکور
167
پوائنٹ
77
مشہدِ علیؓ نجف ایک فرضی قبر

تحریر: محمد فھد حارث


سیدنا علیؓ تاریخِ اسلام کی ان چند مظلوم شخصیات میں سے ایک ہیں جن کی زندگی سے متعلق شاید ہی ایسا کوئی گوشہ چھوڑا گیا ہو، جس کو بدفطرت راویوں نے اپنی یاوہ گوئیوں سے آلودہ نہ کیا ہو۔ روافض نے سیدنا علیؓ و آلِ علیؓ سے محبت کے بھیس میں آپؓ کے خاندان سے بدترین دشمنی نباہی اور آپؓ کی سیرت و شخصیت کے تمام پہلوؤں کو گہنانے کی مذموم سازش کی۔ اسی سلسلے کی ایک کڑی آپؓ کی فرضی قبر ہے جو کہ آپؓ کی وفات کے سوا تین سو برس بعد بنی بُوَیَہ کے زمانے۳۶۹ ہجری میں نجف عراق میں دریافت کی گئی۔

بنی بویہ حکمران عضدالدولہ جو کہ نہایت عاقل، فاضل، علم سے محبت کرنے والا اور حسنِ سیاست میں معروف مگر رفض و تشیع میں از حد غلو رکھتا تھا، نے اپنی وفات سے تین سال قبل ۳۶۹ ہجری میں شہر کوفہ سے آٹھ میل دور نجف کے علاقے میں ایک فرضی قبر دریافت کرکے اس کو نہ صرف سیدنا علیؓ سے منسوب کیا بلکہ اس پر ایک عالیشان عمارت بھی تعمیر کروادی اور وصیت کی کہ اس کے مرنے کے بعد اس کو سیدنا علیؓ کی اس (فرضی) قبر کے برابر میں دفن کیا جائے۔

جبکہ حقیقت یہ ہے کہ کسی قدیم مورخ نے سیدنا علیؓ کی قبر کا نجف میں ہونا ذکر نہیں کیا۔ سیدنا علیؓ کی شہادت عبدالرحمٰن ابن ملجم کے قاتلانہ حملے کے نتیجے میں شہر کوفہ میں ہوئی اور آپ وہیں کوفہ کے قصرِ امارت کی جامع مسجد کے پاس دفن ہوئے۔

علامہ ابن قتیبہ (متوفٰی ۲۷۶ ہجری) نے اپنی کتاب المعارف میں سیدنا علیؓ کی کوفہ میں شہادت ہونے اور بعد از شہادت سیدنا حسنؓ کا آپ کی صلوٰۃ المیت ادا کرنے کا ذکر کرنے کے ساتھ ساتھ اس بات کی بھی تصریح کی ہے کہ ودفن بالکوفہ عند المسجد الجماعۃ فی قصرالامارۃ یعنی وہ کوفہ میں قصر امارت کی جامع مسجد کے پاس دفن ہوئے۔

ابن قتیبہ کی طرح علامہ ابن جریر طبری (متوفیٰ ۳۱۰ ہجری) نے بھی ۴۰ ہجری کے واقعات میں سیدنا علیؓ کی شہادت کے ذیل میں سیدنا علیؓ کا یہی مدفن بتایا ہے اور لکھا ہے ودفن عند مسجد الجماعۃ فی قصر الامارۃ یعنی وہ قصر امارت کی جامع مسجد کے پاس دفن ہوئے۔

اسی سبب علامہ ابن کثیر دمشقی نے البدایہ و النہایہ کی جلد ۷ میں اسی رائے کو راجح قرار دیا ہے کہ سیدنا علیؓ کا مدفن کوفہ میں ہے اور ساتھ ہی نجف میں سیدنا علیؓ کی قبر کے ہونے کی نفی کرتے ہوئے لکھا ہے کہ نادان رافضیوں میں سے بہت سے جو اس بات کے معتقد ہیں کہ مشہدِ نجف میں سیدنا علیؓ کی قبر ہے تو اس کی ان کے پاس نہ کوئی دلیل ہے اور نہ کچھ اصلیت (فلا دلیل علیٰ ذلک ولا اصل لہ)

بلکہ لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ قبر بلاشبہ سیدنا مغیرہ بن شعبہؓ کی ہے چنانچہ خطیب بغدادی نے عن ابی نعیم الحافظ عن ابی بکر الطلحی عن محمد بن عبداللہ الحضرمی الحافظ عن مطر کی سند سے روایت کیا ہے کہ شیعیوں کو اگر معلوم ہوجائے کہ نجف کی قبر جس کی وہ تعظیم کرتے ہیں کس کی ہے تو اس پر الٹی سنگباری کریں کیونکہ یہ قبر تو مغیرہ بن شعبہؓ کی ہے (ھذا قبر المغیرۃ بن شعبۃ) (صفحہ ۳۲۹)۔

یہاں تک کہ شیعی مورخ مسعودی (متوفیٰ ۳۴۶ہجری) جو کہ خود بنی بویہ کےابتدائی زمانے میں موجود تھا نے نجفی قبر کا کوئی ذکر نہیں کیا بلکہ اپنی تالیف مروج الذھب میں سیدنا علیؓ کی بابت مدینہ میں دفن ہونا بیان کیا ہے۔

یہی بات علامہ خطیب بغدادی (متوفیٰ۴۶۳ ہجری) نے بھی امام بخاری کے استاد ابو نعیم فضل بن دکین کے حوالے سے نقل کی ہے کہ سیدنا حسنؓ و حسینؓ نے سیدنا علیؓ کی میت کے تابوت کو نکالا اور مدینہ میں قبرِ فاطمہؓ کے پاس منتقل کردیا۔

علامہ ابن کثیر دمشقی نے البدایہ و النہایہ کی جلد ۷ میں خطیب بغدادی کی یہ روایت نقل کرنے کے ساتھ خطیب کے ہی حوالے سے لکھا ہے کہ یہ بھی کہتے ہیں کہ جب تابوت اونٹ پر لے جارہے تھے تو وہ اونٹ ہی گم ہوگیا۔ قبیلۂ طئ کے لوگوں نے یہ سمجھ کر کہ اس میں مال ہے اسے ہتھیا لیا لیکن جب دیکھا کہ صندوق میں میت رکھی ہے جسے انہوں نے پہچانا نہیں تو صندوق کو مع اس کے ساتھ جو اس میں تھا دفن کردیا۔ مگر کسی کو بھی معلوم نہیں کہ ان کا مدفن کہاں ہے۔ (صفحہ ۳۳۰) البتہ اگلے صفحہ پر ابن کثیر یہ کہہ کر اس قول کو رد کردیتے ہیں کہ فقد اخطاء یعنی ان کا یہ قول بالکل غلط ہے۔

ابن بطوطہ جو ۷۳۰ ہجری میں نجف گیا تھا اس نے بھی اپنی کتاب "رحلۃ ابن بطوطہ صفحہ ۱۰۹" میں اس فرضی قبر کا ذکر کرتے ہوئے سیدنا علیؓ کی جانب اس کی نسبت پر شبہ کا اظہار کرتے ہوئے یوں لکھا ہے القبر الذی یزعمون انہ قبر علی علیہ السلام یعنی وہ قبر جس کے متعلق لوگ گمان کرتے ہیں کہ یہ سیدنا علیؓ کی قبر ہے۔

الغرض نجف عراق میں مشہدِ علیؓ کے نام سے مشہور مشہد میں جو قبر موجود ہے اس کی نسبت سیدنا علیؓ سے نہایت غیر درست ہے۔ اس متعلق جتنی حکایتیں نقل کی جاتی ہیں وہ سب ضعیف اور مابعد ادوار میں وضع کی گئی ہیں۔ ان روایتوں کا ماخذ حمد اللہ قزوینی کی کتاب نزہتہ القلوب جو کہ ۷۴۰ ہجری کی تالیف ہے اور شیعہ مورخ و نّساب احمد بن علی بن حسین حسینی (متوفیٰ ۸۲۸ ہجری) کی کتاب عمدۃ الطالب فی انساب آل ابی طالب وغیرہ ہیں۔

ان کتابوں میں واہی و بے سند روایتوں کے ذریعے اس قبر کی دریافت کو امیر المومنین ہارون الرشیدؒ کے زمانے ۱۷۵ ہجری میں بتایا گیا ہے جبکہ دروغ گو راوی ہارون الرشید کو زبردستی بغداد کی بھری پُری شکار گاہیں چھڑوا کر نجف جیسے بے آب و گیاہ اور بنجر علاقے میں شکار کی غرض سے لے گیے جہاں کسی شکار کی موجودگی ندارد و غیر یقینی تھی۔

بیان کیا جاتا ہے کہ ہارون الرشیدؒ جب جانوروں کا شکار کرنے لگتے تو جانور بھاگ کر ایک ٹیلے کے پیچھے چھپ جاتے۔ ہارون الرشید اپنے گھوڑے پر سوار اس ٹیلے کے پیچھے جانے کی کوشش کرتے لیکن گھوڑا قدم نہ بڑھاتا۔ اس سے ان کے دل میں اس زمین کی عظمت پیدا ہوئی۔ اس علاقے کے لوگوں سے دریافت کیا تو انہوں نے سیدنا علیؓ کی قبر وہاں بتلائی۔ ہارون الرشید نے حکم دیا کہ اس زمین کو کھودیں چنانچہ سیدنا علیؓ کا تازہ زخم رسیدہ جسم دریافت ہوا۔ پس آپ کا مقبرہ ظاہر کردیا گیا اور لوگ اس جگہ مجاور ہوگیے۔ (نزہتہ القلوب صفحہ ۳۲)

اسی وضعی کہانی کو مزید مرچ مسالہ لگا کر مولف عمدۃ الطالب نے اپنی کتاب نقل کیا اوراس کے بعد جناب ملا باقر مجلسی نے اپنی کتاب جلاء العیون میں اس روایت کو زینت بخشی اور یوں یہ روایت زبانِ زد عام ہوگئی۔ جبکہ اصل میں ان روایتوں کی کوئی استنادی حقیقت نہیں اور ان کی حیثیت محض بازاری گپوں کی سی ہیں جو کہ عضدالدولہ کے ایک مذموم فعل کو سندِ جواز فراہم کرنے اور مشہدِ علیؓ کو قبرِ سیدنا علیؓ باور کروانےکے لئے سیدنا علیؓ کی وفات کے تقریباً سات سو سال بعد گھڑی گئیں۔
 
Top