مضمون حاضر ہے، لیکن یہ معلوم نہ ہو سکا کہ کس شمارے میں ہے، جو شمارے کا حوالہ دیا ہوا تھا وہ غلط تھا۔
کیا قرآن مجید کو بغیر وضو چھوا جا سکتا ہے؟
تحریر: حافظ ندیم ظہیر؛
☆ «وعن عبدالله بن ابي بكر بن محمد بن عمر و بن حزم انّ فى الكتاب الذى كتبه رسول الله صلى الله عليه وسلم لعمر وبن حزم: ان لا يمس القران الا طاهر۔ رواه مالك والدارقطني۔»
”عبداللہ بن ابی بکر بن محمد بن عمرو بن حزم سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو کتاب عمرو بن حزم ( رضی اللہ عنہ ) کے لئے لکھی تھی، اس میں ( یہ بھی تحریر) تھا: قرآن کو صرف طاہر ہی چھوئے۔“
اسے مالک نے [الموطا 199/1 ح 470] میں اور [دارقطنی 122، 122/1] نے روایت کیا ہے۔ [وسندہ حسن، حافظ زبیر علی زئی]
تحقیق الحدیث: یہ حدیث حسن ہے۔
فقه الحديث:
➊ قرآن مجید کی عظمت کا بیان کہ اسے ہر قسم کی نجاست سے پاک شخص ہی چھوئے۔
➋ یہ حدیث جمہور اہل علم کی دلیل ہے کہ جنبی، حائضہ اور بےوضو افراد قرآن مجید نہیں چھو سکتے۔
➌ امام بغوی رحمہ اللہ (متوفی 516ھ) نے فرمایا:
”اکثر اہل علم کا اسی پر عمل ہے کہ بے وضو شخص یا جنبی کے لئے قرآن پکڑنا اور چھونا جائز نہیں ہے۔“ [شرح السنة 363/1]
➍ امام مالک رحمہ اللہ (متوفی 179ھ) نے فرمایا:
بے وضو قرآن مجید کو چھونا اس لئے مکروہ نہیں کہ اسے پکڑنے والے کے ہاتھ میں کوئی چیز (نجاست) ہو گی جس سے وہ آلودہ ہو جائے گا، بلکہ قرآن مجید کی تکریم و تعظیم کی وجہ سے اسے بے وضو پکڑنا مکروہ قرار دیا گیا ہے۔ [الموطاً: 470]
➎ حافظ ابن عبدالبر رحمہ اللہ ( متوفی 463ھ) نے درج بالاحدیث نقل کرنے کے بعد فرمایا:
اس مسئلے میں فقہائے مدینہ، عراق اور شام میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ قرآن کو صرف حالتِ وضو ہی میں چھوا جائے گا۔ ( التمھید 471/8 و نسخة أخرى 8/6)
➏ مصعب بن سعد بن ابی وقاص رحمہ اللہ کا بیان ہے کہ میں (اکثر) سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کے لئے قرآن کو پکڑے رکھتا ( اور وہ پڑھتے رہتے تھے، ایک دن) میں نے کھجایا تو سعد رضی اللہ عنہ نے فرمایا: شاید تو نے اپنے ذکر (شرم گاہ) کو چھوا ہے؟ میں نے عرض کیا: جی ہاں، انہوں نے فرمایا: اُٹھ اور وضو کر۔ چنانچہ میں اٹھ کر وضو کیا، پھر واپس آیا۔ [موطاً امام مالک: ٨٩ وسنده صحيح]
◈ امام بیہقی رحمہ اللہ (متوفی 458ھ) نے اس اثر پر درج ذیل باب قائم کیا ہے:
«بَابُ نَهْي المُحْدِثِ عَنْ مَسِّ الـْمُصْحَفِ»
یعنی بے وضو شخص کو قرآن چھونے کی ممانعت۔ [السنن الکبریٰ 88/1]
➐ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا:
قرآن كو صرف طاہر ہی چھوئے. [مصنف ابن ابی شیبہ 361/2، ح 7506 وسنده صحيح]
الاوسط لابن المنذر (224/2) میں «مُتَوَضِّيءُ» کے الفاظ ہیں، یعنی قرآن کو صرف با وضو شخص چھوئے۔
➑ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ (متوفی 241ھ) نے فرمایا:
قرآن کو صرف طاہر ہی چھوئے۔ اگر کوئی وضو کے بغیر قرآن پڑھنا چاہے (پھر بھی) اسے نہ چھوئے اور عود (لکڑی) یا کسی چیز سے صفحہ پلٹے۔ [مسائل احمد بن حنبل بروایة صالح 208/3، رقم: 1667]
➒ حكم بن عتيبہ اور حماد بن ابی سلیمان رحمہا اللہ نے فرمایا:
جب قرآن مجید کپڑے (یا غلاف) میں ہو تو اسے بغیر وضو چھونے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ [المصاحف لابن ابی داؤد: 759 وسندہ حسن]
➓ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ [مجموع الفتاویٰ 266/21] علامہ ابن رجب [فتح الباری 404/1] اور ابن قدامہ المقدسی [المغنی 202/1] کے نزدیک صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں اس مسئلے میں کہ قرآن مجید کو صرف طاہر ہی چھوئے کوئی مخالفت معروف نہیں ہے۔
⓫ فقیہ العصر الشیخ محمد بن صالح العثیمین رحمہ اللہ نے فرمایا:
غور و فکر کے بعد مجھ پر واضح ہوا کہ «طاهر» سے مراد حدث اصغر (بے وضو) اور حدث اکبر (جنابت وغیرہ) سے پاک ہونا ہے۔ [شرح موطأ امام مالک 60/2]
⓬ جو لوگ وضو کے بغیر قرآن مجید چھونے کے قائل ہیں ان کے نزدیک بھی افضل و بہتر یہی ہے کہ باوضو ہو کر قرآن مجید چھوا جائے۔
دیکھئے [الفائض لابی عبدالرحمن الاریانی ص 111] وغیرہ،
لہٰذا افضل و بہتر ہی کو ترجیح حاصل ہے اور اسی پر عمل پیرا ہونا چاہیے۔
⓭ قرآن مجید پکڑے بغیر بے وضو تلاوت قرآن جائز ہے۔
محمد بن سیرین رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ لوگوں میں (بیٹھے) تھے اور وہ قرآن پڑھ رہے تھے۔ آپ قضائے حاجت کے لئے گئے، پھر واپس آ کر قرآن مجید پڑھنے لگے، ایک شخص نے کہا: اے امیر المومنین! آپ بغیر وضو کے تلاوت کر رہے ہیں؟ عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اس (سے منع) کا فتویٰ کس نے دیا ہے۔ کیا مسیلمہ نے؟ [موطا امام مالک: 471 وسندہ منقطع، التاریخ الکبیر البخاری 437/1 وسندہ صحیح]
⓮ حافظ عبدالمنان نور پوری رحمہ اللہ نے فرمایا:
جنبی اور حائضہ طاہر نہیں نتیجہ ظاہر ہے کہ دونوں قرآن مجید کو چھو نہیں سکتے جب چھو نہیں سکتے تو پکڑ بھی نہیں سکتے۔ [احکام و مسائل 97/1]
فائدہ:
آیت: «لاَّ يَمَسُّهٌ اِلَّا الْمُطَهَّرُوْنَ» اسے کوئی ہاتھ نہیں لگاتا مگر جو بہت پاک کئے ہوئے ہیں . [الواقعة 79/56]
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ «الْمُطَهَّرُوْنَ» سے مراد فرشتے ہے۔ [احکام القرآن للطحاوی ١١٧/١، وسندہ صحیح]
حافظ ابن القیم رحمہ اللہ نے فرمایا:
میں نے شیخ الاسلام (ابن تیمہ رحمہ اللہ) سے سنا: آپ اس آیت سے یہ استدلال کرتے تھے کہ بے وضو شخص قرآن مجید نہ چھوئے۔ انھوں نے فرمایا: اس میں تنبیہ اور اشارہ ہے کہ جب قرآن آسمان پر تھا تو اسے مطہرون (فرشتے) ہی چھوتے تھے، اسی طرح (اب) وہ قرآن ہمارے پاس ہے تو اسے طاہر ہی چھوئے اور حدیث اس آیت سے مشتق ہے۔ [التبیان فی اقسام القرآن 402/1]
تقریباً اسی مفہوم کی بحث علامہ ابو عبداللہ الحسین بن حسن الحلیمی (متوفی 403ھ) نے [المنہاج 228/2] میں کی ہے، نیز دیکھئے [شعب الایمان للبیہقی 445/3]
فضیلۃ الشیخ عبدالرحمن بن ناصر السعدی رحمہ اللہ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں:
”یعنی قرآن کریم کو صرف ملائکہ ہی چھوتے ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے تمام آفات، گناہوں اور عیوب سے پاک کیا ہے۔ جب قرآن کو پاک ہستیوں کے سوا کوئی نہیں چھوتا اور ناپاک اور شیاطین اس کو چھو نہیں سکتے تو آیت کریمہ تنبیہاً اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ پاک شخص کے سوا کسی کے لئے قرآن کو چھونا جائز نہیں ہے۔“ [ تفسیر السعدی ٢٦٩٣/٣، طبع دارالسلام]