بخاری سید
رکن
- شمولیت
- مارچ 03، 2013
- پیغامات
- 255
- ری ایکشن اسکور
- 470
- پوائنٹ
- 77
مصر میں بحیرۂ احمر کے کنارے سیاحوں کے لیے معروف شہر الغردقہ میں ایک ’اسلامی ہوٹل‘ کھولا گیا ہے۔ اس ہوٹل کی خوبیاں ذرا ہٹ کے ہیں۔ یہاں نہ تو شراب ملتی ہے اور نہ ہی سگریٹ یا شیشہ۔
اس ہوٹل میں عورتوں اور مردوں کے لیے علیٰحدہ علیٰحدہ منزلوں پر رہنے کے انتظامات ہیں۔ یہ ایسا علاقہ ہے جہاں غیر ملکی سیاحوں کو اپنی جانب متوجہ کرنے والے ہوٹلوں کی بھر مار ہے۔ مسلم اکثریت والے اس علاقے میں بکینی میں عورتوں کا نظر آنا عام ہے۔ ایسے میں ’اسلامی ہوٹل‘ کے کھلنے کو ایک نئے دور کے آغاز سے تعبیر کیا جا رہا ہے۔ اس ہوٹل کے مالک یاسر کمال ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ وہ 25 سال سے اس طرح کے ہوٹل کا خواب دیکھ رہے تھے۔مقامی صحافی علیم مقبول کا کہنا ہے کہ اسلامی ہوٹل کی سب سے بڑی خوبی ہے کہ یہاں خواتین کے آرام کا علیٰحدہ انتظام ہے۔ہوٹل کی چھت صرف خواتین کے لیے کھلی ہے۔ یہاں موجود سوئمنگ پول اور آرام گاہ میں مردوں کا داخلہ ممنوع ہے۔یہ ہوٹل نیا ہے اس لیے یہاں ابھی زیادہ سیاح نہیں ہیں پھر بھی جو خاندان یہاں آتے ہیں، ان میں سے خاص طور پر خواتین اپنے لیے مخصوص انتظامات کے بارے میں بہت پرجوش ہیں۔ ایک خاتون سیاح حبیبہ محمد کا کہنا ہے، ’یہاں آکر اچھا لگا اور مجھے یہ آئیڈیا بہت پسند آیا۔ اب ہمارے پاس ہماری اپنی جگہ ہے۔ یہاں زیادہ پر سکون ماحول ہے۔‘ جب ہوٹل کا افتتاح ہوا تو ہوٹل کے سارے ملازمین نے شراب کی ساری بوتلیں توڑ ڈالیں جو اس بات کا اعلان تھا کہ اس ہوٹل میں شراب مکمل طور پر پابندی ہے۔ اسلامی ہوٹل کے منیجر یاسر کمال کہتے ہیں، ’حکومت کو چاہیے کہ کچھ ہوٹلوں میں شراب پر پوری طرح پابندی لگا دیں۔‘ ان کے خیال میں ایسا کرنے سے آنے والی نوجوان نسل اور خواتین کو شراب نوشی سے بچایا جا سکتا ہے۔ شعبۂ سیاحت کے حکام کا کہنا ہے وہ اس طرح کی پابندیوں کے خیال سے متفق نہیں ہیں۔ مگر وہ نئے اقدام کا خیر مقدم بھی کرتے ہیں۔ سیاحت کے ڈائرکٹر احمد الدور کہتے ہیں، ’تمام ہوٹلوں میں شراب پر پابندی نہیں لگائی جا سکتی۔ یہ ایک بین الاقوامی شہر ہے۔ یہاں ویسی تمام سہولیات ہونی چاہئے جو دوسرے ہوٹلوں میں ہیں۔‘ الغردقہ کے ہوٹلوں میں آنے والے سیاح یہاں کے وسیع و عریض ساحلوں کا مزہ لینے اور شراب نوشی کے لیے آتے ہیں۔ اور اس حقیقت کے باوجود کہ اب مصر میں نئی اسلامی حکومت اقتدار میں آ چکی ہے، اس طرح کی جگہوں پر اب تک کوئی زیادہ تبدیلی نہیں آئ ہے۔ مصر میں حالیہ انقلاب سے یہاں کی سیاحت کی صنعت کافی متاثر ہوئی ہے۔ اسے پھر سے پرانی روش پر لانے اور مصر آنے والے سیاحوں کی تعداد بڑھانے میں یاسر کمال کا یہ قدم مؤثر ثابت ہو سکتا ہے۔
اس ہوٹل میں عورتوں اور مردوں کے لیے علیٰحدہ علیٰحدہ منزلوں پر رہنے کے انتظامات ہیں۔ یہ ایسا علاقہ ہے جہاں غیر ملکی سیاحوں کو اپنی جانب متوجہ کرنے والے ہوٹلوں کی بھر مار ہے۔ مسلم اکثریت والے اس علاقے میں بکینی میں عورتوں کا نظر آنا عام ہے۔ ایسے میں ’اسلامی ہوٹل‘ کے کھلنے کو ایک نئے دور کے آغاز سے تعبیر کیا جا رہا ہے۔ اس ہوٹل کے مالک یاسر کمال ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ وہ 25 سال سے اس طرح کے ہوٹل کا خواب دیکھ رہے تھے۔مقامی صحافی علیم مقبول کا کہنا ہے کہ اسلامی ہوٹل کی سب سے بڑی خوبی ہے کہ یہاں خواتین کے آرام کا علیٰحدہ انتظام ہے۔ہوٹل کی چھت صرف خواتین کے لیے کھلی ہے۔ یہاں موجود سوئمنگ پول اور آرام گاہ میں مردوں کا داخلہ ممنوع ہے۔یہ ہوٹل نیا ہے اس لیے یہاں ابھی زیادہ سیاح نہیں ہیں پھر بھی جو خاندان یہاں آتے ہیں، ان میں سے خاص طور پر خواتین اپنے لیے مخصوص انتظامات کے بارے میں بہت پرجوش ہیں۔ ایک خاتون سیاح حبیبہ محمد کا کہنا ہے، ’یہاں آکر اچھا لگا اور مجھے یہ آئیڈیا بہت پسند آیا۔ اب ہمارے پاس ہماری اپنی جگہ ہے۔ یہاں زیادہ پر سکون ماحول ہے۔‘ جب ہوٹل کا افتتاح ہوا تو ہوٹل کے سارے ملازمین نے شراب کی ساری بوتلیں توڑ ڈالیں جو اس بات کا اعلان تھا کہ اس ہوٹل میں شراب مکمل طور پر پابندی ہے۔ اسلامی ہوٹل کے منیجر یاسر کمال کہتے ہیں، ’حکومت کو چاہیے کہ کچھ ہوٹلوں میں شراب پر پوری طرح پابندی لگا دیں۔‘ ان کے خیال میں ایسا کرنے سے آنے والی نوجوان نسل اور خواتین کو شراب نوشی سے بچایا جا سکتا ہے۔ شعبۂ سیاحت کے حکام کا کہنا ہے وہ اس طرح کی پابندیوں کے خیال سے متفق نہیں ہیں۔ مگر وہ نئے اقدام کا خیر مقدم بھی کرتے ہیں۔ سیاحت کے ڈائرکٹر احمد الدور کہتے ہیں، ’تمام ہوٹلوں میں شراب پر پابندی نہیں لگائی جا سکتی۔ یہ ایک بین الاقوامی شہر ہے۔ یہاں ویسی تمام سہولیات ہونی چاہئے جو دوسرے ہوٹلوں میں ہیں۔‘ الغردقہ کے ہوٹلوں میں آنے والے سیاح یہاں کے وسیع و عریض ساحلوں کا مزہ لینے اور شراب نوشی کے لیے آتے ہیں۔ اور اس حقیقت کے باوجود کہ اب مصر میں نئی اسلامی حکومت اقتدار میں آ چکی ہے، اس طرح کی جگہوں پر اب تک کوئی زیادہ تبدیلی نہیں آئ ہے۔ مصر میں حالیہ انقلاب سے یہاں کی سیاحت کی صنعت کافی متاثر ہوئی ہے۔ اسے پھر سے پرانی روش پر لانے اور مصر آنے والے سیاحوں کی تعداد بڑھانے میں یاسر کمال کا یہ قدم مؤثر ثابت ہو سکتا ہے۔