• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مصطلح عقیدہ کی حقیقت

شمولیت
مئی 14، 2018
پیغامات
19
ری ایکشن اسکور
1
پوائنٹ
46
مصطلح عقیدہ کی حقیقت

مبادئ علم توحید​

.........................................​
قسط:1
.........................................
☆ ع،ب، أسلم
........................................
مصطلح عقیدہ کی حقیقت
أولا: عقیدہ کا لغوی معنی
"عقد" کا مادہ کے مدار مندرجہ ذیل معانی پر ہوتا ہے .
ألف - الربط والشد، ب - العهد، ج- الملازمة، د - التأكيد.
(الصحاح للجوهري: 2/510، و القاموس المحيط للفيروز آبادي ص: 383، و لسان العرب لابن منظور: 3/ 295- 300).
•الربط والشد : مضبوطی سے باندھنا، جیسے: کہاجاتا ہے : "عقد الحبل، يعقد عقدا، إذا ربطه وشده بقوة" اس نے رسی کو مضبوطی سے باندھ دیا.
• العهد : عہد وپیمان نبھانا، جیسے:کہا جاتا ہے:"بين هذه القبيلة وتلك عقد" اس قبيلہ اور اس قبیلہ کے درمیان عہد وپیمان ہے.
• الملازمة : لازم پکڑنا، استمرار برتنا، "عقد قلبه على الشيء إذا لزمه" اس نے اپنے دل کو اس چیز پر لگا رکھا ہے.
• التأكيد : تاكيد کرنا، جیسے: کہا جاتا ہے :"عقد البيع، إذا أكده" اس نے عقد فروخت کی تاکید کی.
ثانيا: عقيدہ کا اصطلاحی معنی
1 - اللہ عزوجل کے لئے جن امور کو ثابت کرنا ضروری ہے ان پر پختہ یقین رکھنا، جیسے: اس کی وحدانیت، ربوبیت، عبادت میں ایک ماننا، اس کے اسماء حسنی، وصفات علیا پر ایمان رکھنا ( الأسئلة والأجوبة في العقيدة للشيخ صالح الأطرم ص:7).
2 - ايسا پختہ یقین جس کے اندر مطالب إلهيہ، نبوت، امور معاد وغيرها واجب الإیمان چیزوں میں کسی طرح کا کوئی شک وشبہ نہ ہو(العقيدة الإسلامية وتاريخها للدكتور أمان الجامي ص:5).
3- جس پر انسان اپنا دل لگائے رکھے، اور اس کے ساتھ اللہ کے سامنے جھک جائے (الأسئلة والأجوبة الأصولية للسلمان ص : 23).
ثالثا: مصطلح عقیدہ کا استعمال
¤ غور کرنے سے پتا چلتا ہے کہ لفظ "عقیدہ" کتاب وسنت میں وارد نہیں ہوا ہے، البتہ اس کے مادہ کا ذکر ضرور آیا ہے، جیسا کہ اللہ سبحانه وتعالی کا ارشاد گرامی ہے {لايؤاخذكم الله باللغلو في أيمانكم ولكن يؤاخذكم بما عقدتم الأيمان }[المائدة :89]، اللہ تعالٰی تمہارے یمین لغو کی وجہ سے تمہاری پکڑ نہیں کرے گا، اور البتہ تمہاری موکد قسم کی بنا پر تمہاری پکڑ کرے گا.
اسی طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی یہ حديث " الخيل معقود في نواصيها الخير إلى يوم القيامة"(صحيح مسلم)، گھوڑے کی پیشانی پر قیامت تک خیر و بھلائی برقرار رہے گی.
¤ اسی طرح قرون مفضلہ میں علمائے کرام نے مصطلح "عقیدہ " کا استعمال نہیں کیا، بلکہ انہوں نے دوسرے مصطلحات استعمال کئے.
¤ سب سے پہلے جس نے اپنی کتاب میں اس مصطلح "عقیدہ" کا استعمال کیا - میرے علم کے مطابق -
• وہ مام ابو حاتم الرازي (ت 327 ھ) ہیں، انہوں نے اپنی کتاب کا نام رکھا "أصل السنة واعتقاد الدين"، اس كے بعد امام ابوبکر الإسماعيلي (ت371 ھ) نے اپنی کتاب " اعتقاد أئمة الحديث " میں، پھر اس کے بعد بہت سارے أئمہ کرام نے اس مصطلح کو اپنی اپنی کتابوں میں استعمال کیا ہے، جیسے ابو القاسم اللالكائي ( ت 418 ھ) كی کتاب " شرح أصول اعتقاد أهل السنة والجماعة " ، أبو عثمان الصابوني (ت 449 ھ ) كی کتاب " عقیدة السلف أصحاب الحديث " ، أبو بكر البيهقي (ت 458 ھ) كی کتاب " الاعتقاد على مذهب أهل السنة والجماعة " ، قوام السنة الأصبهاني(ت 535 ھ) کی کتاب " الحجة في بيان المحجة وشرح عقيدة أهل السنة " وغيره - سلف صالحین کی قابل ذکر کتابیں ہیں -
رابعا: علم عقیدہ کے چند نام :
التوحيد
أصول الدين
السنة
الفقه الأكبر
" علم عقيدہ کے ان ناموں کی واقفیت کا ایک بڑا نتیجہ : اس کے اصلی مصادر کی معرفت حاصل ہوتی ہے " ( أصول الدين عند الأئمة الأربعة للدكتور ناصر القفاري ص:14)​
 
Last edited by a moderator:
Top