• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مصنفاتِ امام بیہقی رحمہ اللہ

حافظ محمد عمر

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
427
ری ایکشن اسکور
1,542
پوائنٹ
109
مصنفاتِ امام بیہقی رحمہ اللہ

امام بیہقی رحمہ اللہ کے اجتہاد کا ثمر،ان کے عزم و ہمت اور آئمہ و مشائخ سے استفادہ کے شوق و رغبت کی دلیل ہے ۔ انہوں نے جلیل القدر محدثین سے لقاء اور ان کی مجالس علمیہ کا باقاعدہ اہتمام فرمایا تاکہ جمیع علوم و فنون کو اپنے ذہن وقلب میں سموسکیں اور ان کی متبحر علمی کا ان کی مصنفات سے جھلکتی ہے ۔
امام ابن الجوزی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
’’آپ بہترین اور کثیر مصنفات کے مالک ہیں ‘‘(المنتظم من تاريخ الملوك والأمم :8/ 242)
امام ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
آپ نے اپنی مصنفات میں ایسی اشیاء کا احاطہ فرمایا کہ جو اس سے قبل کسی کتاب میں مذکور نہ تھیں مثال کے طور پر’السنن الکبریٰ‘ اور اس کے علاوہ بھی بہت سی چھوٹی موٹی تصانیف ہیں جو شمار سے باہر ہیں۔(البداية والنهاية لإبن كثير :12/ 94)
امام ذہبی رحمہ اللہ آپ کے بارے میں لکھتے ہیں :
’’امام بیہقی رحمہ اللہ کی تصانیف بلند پایہ عظمت کی حامل اور کثیر فوائد سے بھری ہوئی ہیں ۔ بہت کم لوگ ایسے ہوئے ہیں کہ جنہوں نے آپ جیسی کوئی کتاب تالیف کی ہو۔ چنانچہ علماء کے لیے ضروری ہے کہ وہ ان سے استفادہ کریں۔(سير النبلاء لذهبي :18/ 167)
ہر علم کے درس و تدریس میں ایک خلاواقع رہتا ہے جو امام بیہقی رحمہ اللہ کی مصنفات سے ہی پر ہوتا ہے کیونکہ آپ کی مصنفات اور آثار علوم کی جملہ انواع کو شامل ہیں البتہ علم حدیث غالب طور پر دکھائی دیتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ آپ نے حدیث کے میدان میں زیادہ شہرت حاصل کی ہے اور اس کے لیے آپ نے عراق، حجاز، خراسان اور دیگر بہت سے دور دراز کے علاقوں کی طرف رخت سفر باندھا۔ (مرآة الجنان وعبرة اليقظان لعبد الله بن سعد يافعي :3/ 81)
امام بیہقی رحمہ اللہ کی تالیفات اس اعتبار سے دیگر سے امتیازی حیثیت رکھتی ہیں کہ ان میں حدیث و فقہ کا علم، علل الحدیث کا بیان اور جمع بین الاحادیث کی وجوہات خاص طور پر ذکر کی گئی ہیں۔(سير النبلاء لذهبي :18/ 167)
آپ کی تصانیف سے آپ کے ہم عصر اور بعد میں آنے والے علماء سبھی نے استفادہ کیا ہے مشرق و مغرب کے بہت سے مسلمانوں نے ان سے اپنی علمی پیاس بجھائی ہے ۔ تدریس و تعلیم اور علمی امور میں انہی کو مرجع و مصدر سمجھا جاتا ہے اسی طرح بہت سے علماء نے ان کی تخاریج اور اختصار و تلخصیات کا بھی کام کیا ہے ۔
امام بیہقی رحمہ اللہ نے اپنی علمی زندگی کے ابتدائی دور میں ہی تصنیف و تالیف کا کام شروع کر دیا تھا اور آپ کا اول تصنیفی عہد 406ھ ہے(طبقات الشافعية لحسان الدين عبد الرحيم اسنوي:1/ 199) یعنی آپ کے شیخ امام حاکم رحمہ اللہ کی وفات کے بعد کا عہد کیونکہ امام حاکم رحمہ اللہ نے صفر 405ھ میں وفات پائی تھی۔(سير النبلاء لذهبي :17/ 171)
امام بیہقی رحمہ اللہ انتہائی دقیق تحقیق اور خوب جانچ پڑتال کے بعد تصنیف فرمایا کرتے تھے ۔ وہ اپنے اسی اصول کے متعلق فرماتے ہیں:
جب میں نے معرفۃ السنن والآثار تصنیف کرنا شروع کی تو اس کے ہر ہر جزو کو خوب جانچ پڑتال اور تحقیق و تنقید کے بعد شامل تصنیف کیا۔(سير النبلاء لذهبي :18/ 167)
امام بیہقی رحمہ اللہ مزید فرماتے ہیں :
میں نے اپنی اصول و فروع کی کتب میں ایک کسوٹی بنائی تھی کہ جس سے صحیح اور غیر صحیح کی تمیز کر سکوں اور پھر اس کے بعد صحیح اخبار کو اپنی تصانیف کا حصہ بنا سکوں ۔(دلائل النبوة للبيهقي :1/ 47)
علوم القرآن

1. أحکام القرآن
امام بیہقی رحمہ اللہ نے اس میں امام شافعی رحمہ اللہ کے ان اقوال کو جمع کیا ہے جو آیاتِ احکام کے بیان یا ان کے دقیق معانی و مطالب میں ان سے وارد ہوئے ہیں ۔ اس کا ایک قلمی نسخہ’’ مجموعة کلام الشافعی فی أحکام القرآن‘‘ مدینہ منورہ میں موجود ہے ۔ (تاريخ الأدب العربي لبروكلان :6/ 233)
یہ شیخ محمد زاہد کوثری کی تحقیق کے ساتھ دو جلدوں میں مکتبہ عزت العطار نے 1371ھ1951/م میں طبع کیا اور اس کے بعد دارالکتب العلمیہ بیروت نے 1395ھ میں دوبارہ نشر کیا۔
اور اسی طرح یہ شیخ عبدالغنی عبدالخالق کی تحقیق کے ساتھ 1371ھ میں مصر میں بھی طبع ہوا ہے ۔
2. جامع أبواب قرأة القرآن
امام بغدادی رحمہ اللہ نے ’’ھدیۃ العارفین ‘‘ میں اس کا تذکرہ کیا ہے ۔ (هدية العارفين في أسماء المؤلفين وآثار المصنفين لإسماعيل باشا بن محمد بغدادي :6/ 1726)
الحدیث و علومه
1. الأجزاء الکنجروذیات
یہ حدیث کے مختلف اجزاء ہیں جنھیں امام بیہقی رحمہ اللہ نے منتخب کیا ہے اور حافظ ابو سعید محمد بن عبدالرحمن کنجروذی مسند خراسان کی حدیث سے ان کی تخریج کی ہے ۔ (سير النبلاء لذهبي :18/ 101-102) کتانی نے ’’الرسالة المستطرفة‘‘ میں اس کو ذکر کیا ہے ۔ (الرسالة المستطرفة لبيان مشهور كتب السنة لمحمد بن جعفر كتاني :ص 93)
2. أحاد یث الشافعی
اس کا نسخہ دارالکتب المصریۃ میں دستیاب ہے ۔ (سير النبلاء لذهبي :18/ 167)
3. بیان خطا من أخطأ علی الشافعی
اس کا قلمی نسخہ ’’عارف حکمت‘‘ مدینہ منورہ میں موجود ہے ۔ یہ ڈاکٹر نایف دعیس کی تحقیق کے ساتھ موسسۃ الرسالۃ نے 1402ھ میں طبع كيا۔
اس کتاب میں اما م بیہقی رحمہ اللہ نے اس دعوی کا رد کیا ہے کہ امام شافعی رحمہ اللہ نے احادیث میں خطا کی ہے ۔ اس میں انھوں نے یہ واضح کیا ہے کہ یہ امام شافعی رحمہ اللہ کی خطا نہیں ہے بلکہ یہ فنون حدیث سے متعلق ایک اہم فن ہے جسے علم العلل سے تعبیر کیا جاتا ہے ۔
4. تخریج أحاد یث الأم
اس کا جزء اوّل لندن میں موجود ہے اس کے اوراق کی تعداد 148 اور اس کا دوسرا جز دارالکتب المصریۃ میں ہے اس کے اوراق کی تعداد 300 ہے ۔ بروکلمان نے دارالکتب المصریۃ کی ایک کتاب کے دو موضع اور بھی ذکر کیے ہیں ۔ (تاريخ الأدب العربي لبروكلان :6/ 233)
5. رسالة فی حدیث الجوبیاری
یہ رسالہ چاراوراق سے زیادہ نہیں ہے ۔ اس میں امام بیہقی رحمہ اللہ نے جوبیاری کی حدیث کا ضعف ذکر کیا ہے جس میں اس نے نبی ﷺ کی سند بیان کی ہے کہ آپ سے ایک ہزار مسائل کے بارے میں سوال کیا گیا۔
امام بیہقی رحمہ اللہ نے اسے ضعیف قرار دے کر یہ ثابت کیا ہے کہ اس میں صرف تین مسائل صحیح ہیں ۔ (تاريخ الأدب العربي لبروكلان :6/ 233)
اس کا ایک قلمی نسخہ استنبول کے مکتبہ احمد الثالث میں موجود ہے ۔
6. السنن الصغری
اس کا قلمی نسخہ مکتبہ المتحف، استنبول میں ہے ۔ اوراق کی تعداد 392 اور سائز [L:4 R:235]515،25ہے ۔ امام ابو سعد سمعانی نے امام بیہقی رحمہ اللہ کے تلامذہ میں سے کسی ایک سے اس کا سماع کیا۔ (التحبيرفي المعجم الكبير لأبو سعد عبد الكريم بن محمد سمعاني :2/ 381)
7. السنن الکبریٰ
دوسری فصل میں اس کے متعلق بالتفصیل بحث ہو گی۔
8. مختصر السنن الکبریٰ
امام ابو سعد سمعانی نے اپنی کتاب’’التحبیر فی المعجم الکبیر‘‘ میں اسے ذکر کیا اور فرمایا:
’’ میں نے آپ سے کتاب مختصر السنن الکبریٰ کا سماع کیا‘‘۔(التحبيرفي المعجم الكبير:2/ 425)
اگر اس کتاب کو ظاہرا دیکھا جائے تو یہ کتاب بیہقی میں سے ایک مستقل کتاب ہے جس کا ’السنن الکبریٰ‘ سے اختصار کیا گیا ہے یا فی نفسہ ایک سنن ہے ۔
9. المدخل إلی السنن الکبریٰ
اس کا ایک ہی قلمی نسخہ ہے اور وہ مکتبہ الجمعیۃ الآسیویۃ کلکتہ میں ہے اسی سے مرکز البحث العلمی جامعہ عبدالعزیز مکۃ المکرمۃنے مائیکروفلم کاپی کروائی ہے اور اس کا نا مکمل نسخہ مکتبہ عبدالرحیم صدیقی میں بھی دستیاب ہے لیکن اس میں حدیث اور اصول حدیث متعلق اہم بحث مفقود ہے ۔ اس کتاب کا امام بیہقی رحمہ اللہ سے ان کے تلمیذ ابوالمعالی الفارسی محمد بن اسماعیل نے سماع کیا۔(سير النبلاء لذهبي :20/ 93)
امام بیہقی رحمہ اللہ نے السنن الکبریٰ میں ا س پر اعتماد کا اظہار کیا(سير النبلاء لذهبي :2/ 207) اور حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے اس کا اختصار کیا ہے ۔ (الذهبي ومنهجه في كتابه تاريخ الإسلام لبشار عواد معروف :ص 247)
۲۔ الذھبی و منھجہ فی کتابۃ تاریخ الاسلام ۔ بشارعواد معروف، ص ۲۴۷، مطبعۃ عیسی الحلبی القاھرۃ، الطبعۃ الاولی ۱۹۷۶م۔
یہ کتاب ڈاکٹر ضیاء الرحمن اعظمی کی تحقیق کے ساتھ دارالخلفاء کویت نے 1405ھ1985/م میں طبع کی اور یہ ڈاکٹر ضیاء الرحمن اعظمی کا ایک عظیم علمی کارنامہ ہے ۔
10. المدخل الی دلائل النبوة و معرفة أحوال صاحب الشریعة
مکتبہ احمدیہ حلب میں ا س کا قلمی نسخہ موجود ہے ۔ اس کے سات اوراق ہیں ۔
11. معالم السنن
بغدادی نے ’’ھدیۃ العارفین ‘‘میں اس کا ذکر کیا(هدية العارفين في أسماء المؤلفين وآثار المصنفين لإسماعيل باشا بن محمد بغدادي :2/ 1726) اور امام فخر الدین ابوالحسن عیسی بن ابراہیم نے اس کا اختصار کیا۔ (أيضا)
12. معرفة السنن و الآثار
اس کا پہلا جزء قلمی ہے جو کہ مکتبہ احمد الثالث، استنبول میں محفوظ ہے ۔
اوراق کی تعداد 279 اور سائز 5، [L:4 R:235]26، 518ہے ۔ 788ھ میں عمدہ خط نسخ میں ا سے لکھا گیا اور جزء اول کا دوسرا نسخہ مکتبہ جاراللّٰہ میں ہے ۔ اس کے اوراق کی تعداد 246 اور سائز5، [L:4 R:235]25، 517سم ہے ۔
ایک اور نسخہ جو جزء رابع پر مشتمل ہے مکتبہ احمد الثالث میں ہے ۔ اوراق کی تعداد313اور سائز 2719سم ہے ۔ 788ھ میں عمدہ خط نسخ میں لکھا گیا۔
ایک اور نسخہ جو تین اجزا ء پر مشتمل ہے مکتبہ آصفیہ حیدر آباد میں ہے اور اس کے اوراق کی تعداد870ہے اور اس کی ایک نقل جامعہ اسلامیہ میں بھی موجود ہے ۔
دوسرے جزء پر مشتمل ایک نسخہ دارالکتب المصریۃ میں ہے جس کے اوراق کی تعداد 207 ہے اور ا س کی بھی ایک نقل جامعہ اسلامیہ میں محفوظ ہے ۔
ایک نسخہ مکتبہ بودلیان، آکسفور ڈ میں ہے ۔ اس کے اوراق کی تعداد 247ہے اور اس کی ایک مائیکروفلم کاپی بھی ہے ۔
علاوہ ازیں اور بھی نسخے ہیں جن کا بروکلمان نے ذکر کیا ہے ۔ (تاريخ الأدب العربي لروكلمان :2/ 230)
پہلا جزء سید صقر کی تحقیق کے ساتھ المجلس الاعلی للشو ون الاسلامیۃ قاھرۃ نے 1389ھ1969/م میں طبع کیا۔
شیخ محمد زاہد کوثری نے اس کو ’’ السنن الوسطی‘‘ کے نام ذکر سے کیا ہے ۔ (مقدمة أحكام القرآن لمحمد زاهد كوثري :ص 17)
امام بیہقرحمہ اللہی نے اس کا نام اختصار ’’کتاب المعرفۃ‘‘ ذکر کیا ہے ۔ (السنن الكبرى للبيهقي:7/ 285)
امام سبکی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
’’سنن و آثار کی معرفت سے فقہیہ امام شافعی رحمہ اللہ مستغنی نہیں ہے ۔ ‘‘(طبقات الشافعية الكبرى لسبكي:4/ 9)
13. معرفة علوم الحدیث
یاقوت حموی نے اس کا ذکر کیا ہے ۔ (معجم البلدان لياقوت حموي:1/ 538)
امام بغدادی رحمہ اللہ نے امام بیہقی رحمہ اللہ کی طرف ایک کتاب کو منسوب کیا جسے ’’المحیط‘‘ کے نام سے ذکر کیا ہے اور یہ کتاب علم حدیث سے متعلق ہے ۔ (هدية العارفين في أسماء المؤلفين وآثار المصنفين :5/ 27)
عقائد
1. اثبات عذاب القبر
اس کا قلمی نسخہ ’’عارف حکمت ‘‘ مدینہ منورہ میں موجود ہے ۔
ایک اور نسخہ مکتبہ احمد الثالث، استنبول میں موجود ہے ۔ اوراق کی تعداد 45اور سائز 5، [L:4 R:235]2627ہے ۔ 731ھ میں عمدہ خط نسخ میں اس کی کتابت کی گئی۔
دارالفرقان، اردن نے ڈاکٹر شرف محمود القضاۃ کی تحقیق کے ساتھ 1403ھ1983/م میں طبع کیا۔
2. الأسماء و الصفات
اس کا قلمی نسخہ مکتبہ فیض اللّٰہ استنبول میں دستیاب ہے ۔ اس کے اوراق کی تعداد 305اور سائز 5، [L:4 R:235]25، 516 سم ہے ۔ 577ھ میں اسے لکھا گیا۔ ایک اور نسخہ مکتبہ وقف آل بن یحیی۔ ۔ ۔ المخطوت الیمنیۃ، حضر موت میں ہے ۔
ہندوستان میں یہ محمد محیی الدین جعفری کی تحقیق کے ساتھ مکتبہ انوارالاحمدی، الہ آبادکی طرف سے 1313ھ میں طبع کیا گیا۔
3. الاعتقاد و الهداية إلى سبیل الرشاد علی مذهب أهل السنة والجماعة
اس کا قلمی نسخہ لالہ لی کے مکتبہ میں موجود ہے ۔ اورق کی تعداد 81 اور درمیانہ حجم ہے ۔ 732ھ سے قبل بہت خوبصورت خط میں اس کی کتابت کی گئی۔
ایک اور نسخہ مکتبہ نورعثمانیۃ میں دستیاب ہے ۔ یہ احمد عصام کاتب کی تحقیق کے ساتھ مکتبہ دارالآفاق الجدیدۃ، بیروت نے 1401ھ میں طبع کیا۔ امام برہان الدین ابراہیم بن عمر بقائی نے اس کا اختصارکیا ہے ۔ (كشف الظنون لحاجي خليفة :2/ 1393)امام ابوسعد سمعانی نے امام بیہقی رحمہ اللہ کے کسی تلمیذ سے اس کا سماع کیا۔ (الأنساب لسمعاني لسبكي :2/ 381)
4. کتاب الایمان
اس کا ذکر کرنے میں استاد سید صقر مفرد ہیں(مقدمة معرفة السنن والآثار لسيد صقر :1/ 11) اور انھوں نے اس بابت کوئی مصدر بھی ذکر نہیں کیا۔
5. البعث والنشور
اس کا قلمی نسخہ استنبول کے مکتبہ شھید علی میں موجود ہے ۔ اوراق کی تعداد 121اور حجم میں ضخیم ہے ۔752ھ میں خط نسخ میں اس کی کتابت کی گئی۔ ایک نسخہ اس کا استنبول کے مکتبہ المتحف میں ہے ۔ اور اس کا ایک نسخہ مکتبہ الموصل عراق میں ہے ۔ ایک برلین میں ہے ۔
امام ذہبی رحمہ اللہ نے اس کا اختصار بھی کیا ہے۔(الذهبي ومنهجه في كتابه تاريخ الإسلام لبشار عواد معروف:ص 232)
6. حیاة الأنبياء فی قبورهم
اس کا قلمی نسخہ مکتبہ احمد الثالث، استنبول میں ہے ۔ مطبعۃ محمودیۃ قاھرۃ میں بھی 1357ھ کو یہ طبع ہوا۔ اور شیخ محمد خانجی ازہری نے اس پر تعلیق بھی لکھی ہے ۔ اس طرح یہ 1349ھ میں قاہرہ طبع ہوا۔
امام بیہقی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب ’’الاعتقاد‘‘ میں اس پر بحث کی ہے ۔ (الإعتقاد للبيهقي :ص 305)
7. کتاب الرؤية أو اثبات الرؤ ية
اس کا قلمی نسخہ مکتبہ محمد بن حسین، حیدر آباد میں موجود ہے مگر اس کا نام ’’رسالۃ فی الرؤ یۃ‘‘ ہے ۔ شاید یہ ’’الرؤیۃ‘‘ سے ہی محرف ہے ۔ (تاريخ الأدب العربي لروكلمان :6/ 233)
حاجی خلیفہ اور بغدادی نے اس کا ذکر کیا ہے ۔ (كشف الظنون لحاجي خليفة :2/ 1421)
8. القضاء والقدر
اس کا قلمی نسخہ مکتبہ شھید میں موجود ہے ۔ مکتبۃ سلیمانۃ، استنبول نے تضمن کی۔ اوراق کی تعداد 110 ہے ۔ اور 566ھ میں اس کی کتابت کی گئی۔ اس کی ایک نقل جامعہ اسلامیۃ، مدینۃ منورۃ میں محفوظ ہے ۔
امام ابوسعد سمعانی رحمہ اللہ نے امام بیہقی رحمہ اللہ کے کسی تلمیذ سے اس کا سماع کیا۔ (الأنسباب لسمعاني :2/ 381)
امام ذہبی رحمہ اللہ نے اس کا اختصار کیا ہے۔(الذهبي ومنهجه في كتابه تاريخ الإسلام لبشار عواد معروف :ص 246)
أصول و الفقه
1. ینابیع الأصول
امام بغدادی رحمہ اللہ نے ھدیۃ العارفین میں اس کا ذکر کیا ہے ۔ (هدية العارفين في أسماء المؤلفين وآثار المصنفين :5/ 78)
الفقه
1. الخلافیات بین الشافعی و أبی حنیفة
اس کا قلمی نسخہ مکتبہ سلیم آغا میں موجود ہے اور وہ دوجز پر مشتمل ہے ۔
اول: 172 اوراق میں ہے ۔
دوم: 174 اوراق میں ہے ۔ ان دونوں کی نقل معھد المخطوطات میں دستیاب ہے ۔
ایک نسخہ دارالکتب المصریۃ میں موجود ہے اور امام ابن فرج اشبیلی نے اس کا اختصار کیا ہے۔(شذرات الذهب لإبن العماد :5/ 443)
اس کی مختصر تحقیق استاددیاب عبدالکریم دیاب اردنی نے کی۔
2. القراءة خلف الإمام
اس کا قلمی نسخہ مکتبہ احمد الثالث، ترکی میں موجود ہے اور اس کا ایک تصویری نسخہ معھد المخطوطات میں ہے ۔ دارالکتب العلمیہ، بیروت نے 1405ھ میں استاد محمد سعید زغلول کی تحقیق کے ساتھ شائع کیا۔
3. کتاب الأسری
امام ذہبی رحمہ اللہ نے ’’تذکرہ الحفاظ‘‘ اور’ سیرالنبلاء ‘ میں، سبکی نے ’’طبقات الشافعیۃ‘‘میں ’’الاسراء‘‘ کے نام کے ساتھ ذکر کیا ہے جبکہ امام بغدادی رحمہ اللہ نے ’’ھدیۃ العارفین‘‘ میں اس کا نام’’الاسرار‘‘ ذکر کیا ہے ۔ (مقدمة المدخل إلى سنن الكبرى لمحمد ضياء الرحمن أعظمي :ص 59)
4. المبسوط
امام سبکی رحمہ اللہ نے اس کے تذکرہ میں لکھا ہے :
’’اس نوع میں اس جیسی کوئی کتاب نہیں لکھی گئی۔ ‘‘(طبقات الشافعية الكبرى لسبكي :4/ 9)
حاجی خلیفہ نے یہ بیان کیا ہے :
’’ اس کی بیس جلدیں ہیں ۔ ‘‘(كشف الظنون :2/ 1582)
5. نصوص الشافعی
امام ذہبی رحمہ اللہ نے ’’سیرالنبلاء‘‘ میں اس کی دو جلدیں ذکر ہیں ۔ (سير النبلاء لذهبي :18/ 166)
حاجی خلیفہ اس کے تذکرہ میں یوں رقمطراز ہیں :
’’امام بیہقی رحمہ اللہ کی کتب میں سے قدرومنزلت میں عظیم اور علمی اعتبار سے بسیط یہی کتاب ہے جو بیس جلدوں پر مشتمل ہے۔‘‘(كشف الظنون:2/ 1582)
امام بغدادی رحمہ اللہ نے بھی اسی طرح ذکر کیا ہے (هدية العارفين في أسماء المؤلفين وآثار المصنفين :5/ 78)اور شايد کہ پھر ’’المسبوط‘‘ اور یہ ایک ہی کتاب ہو۔ (مقدمة المدخل إلى السنن الكبرى :ص 61)
اللغة
1. الرد علی الإنتقاد علی الشافعی فی اللغة
مکتبہ دارالحدیث، مدینۃ منورۃمیں اس کا قلمی نسخہ موجود ہے جس کے اوراق کی تعداد 16 ہے ۔ اس کا ایک تصویری نسخہ جامعہ اسلامیۃ، مدینۃ منورۃ میں بھی موجود ہے ۔
اور اس کا ایک اور نسخہ مکتبہ تشتربتی میں ہے اور اوراق کی تعداد 12ہے ۔ (مقدمة المدخل إلى السنن الكبرى :ص 61-62)
الزهد والرقائق
1. الترغیب و الترهيب
امام ذہبی رحمہ اللہ نے ’’سیرالنبلائ‘‘ میں اس کا تذکرہ کیا ہے اور لکھا ہے کہ یہ ایک جلد میں ہے (مقدمة المدخل إلى السنن الكبرى :ص 61) اسی طرح ابن قاضی شہبہ نے ’’طبقات الشافعیۃ‘‘ میں(سير النبلاء لذهبي :18/ 166) اورابن العماد حنبلی نے ’’شذرات الذہب‘‘ میں ذکر کیا ہے ۔(شذرات الذهب لإبن العماد:3/ 305)
2. الزهد الصغیر
امام کتانی رحمہ اللہ نے ’’ الرسالۃ المستطرفۃ‘‘ میں ذکر کیا ہے (الرسالة المستطرفة لبيان مشهور كتب السنة لمحمد بن جعفر كتاني:ص 51) اور امام حاجی خلیفہ نے ’’کشف الظنون‘‘ میں( كشف الظنون :2/1422) اسی طرح امام بغدادی نے ’’ھد یۃ العارفین‘‘ میں ۔ (هدية العارفين في أسماء المؤلفين وآثار المصنفين :5/ 78)
3. الزهد الکبیر
اس کا قلمی نسخہ مکتبہ عارف حکمت، مدینۃ منورۃ میں دستیاب ہے اس کے اوراق کی تعداد119 ہے ۔626ھ میں لکھا گیا۔
امام سمعانی رحمہ اللہ نے (الأنساب لسمعاني :2/ 381)، کتانی رحمہ اللہ (الرسالة المستطرفة لبيان مشهور كتب السنة :ص 51) اور حاجی خلیفہ نے بھی ذکر کیا ۔(كشف الظنون:2/ 1422) امام ذہبی رحمہ اللہ نے اس کا اختصار کیا۔( الذهبي ومنهجه في كتابه تاريخ الإسلام :ص 242)
التاریخ و تراجم
1. فضائل الصحابة
امام سمعانی رحمہ اللہ نے ’’التحبیر‘‘ اس کا ذکر کیا ہے اور امام بیہقی سے ابو علی خوارزمی کے طریق سے ’’فضائل طلحۃ و الزبیر‘‘ کا سماع کیا(التحبير في معجم الكبير :1/ 435) اور اس کا نام ’’معجم الصحابۃ‘‘ رکھا ہے ۔ حاجی خلیفہ نے ’’کشف الظنون ‘‘ میں ’’ المصنف فی فضائل الصحابۃ‘‘ کے نام سے ذکر کیا ہے (كشف الظنون :2/ 1712) اور امام بغدادی نے ’’ھدایۃ العارفین‘‘ میں تذکرہ کیا ہے ۔ ( هدية العارفين في أسماء المؤلفين وآثار المصنفين :5/ 78)
السیر
1. الجامع فی الخاتم (خاتم النبین صلى الله عليه وسلم)
اس کا قلمی نسخہ مکتبہ احمد الثالث میں دستیاب ہے ۔ اس کے اوراق تعداد 15ور سائز5، [L:4 R:235] 2618ہے۔ ان کی نقل معھد المخطوطات میں ہے ۔
اس کا دوسرا نسخہ مکتبہ دارالحدیث، مدینۃ منورۃ میں ہے اور اس کا تصویری نسخہ جامعۃ اسلامیۃ میں ہے ۔ (مقدمة المدخل إلى السنن الكبرى :ص 55)
2. دلائل النبوة و معرفة أحوال صاحب الشریعة
حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے اسے بلند پایہ کتاب قرار دیا اور اس کی تعریف کی۔ کتب سیرو مغازی میں بھی اس کا ذکر کیا گیا ہے ۔ مثلا: مغازی ابن اسحاق، مغازی موسی بن عقبہ۔
موسی بن عقبہ فرماتے ہیں :
’’حافظ ابوبکر بیہقی رحمہ اللہ نے اس باب میں اپنی کتاب (دلائل النبوۃ) تالیف فرما کر بہت ہی احسن عمل سر انجام دیا ہے ۔ ‘‘(سير النبلاء لذهبي :6/ 115-116)
سب سے پہلے اس پر شیخ عبدالرحمن محمد عثمان نے دارالنصر للطباعۃ، قاہرہ میں کام کیا اور پھر مکتبہ السلفیہ نے اسے نشر کیا اس کی دو جلدیں ہیں ۔ اس کا آخری طبع ڈاکٹر عبدالمعطی قلعجی کی تحقیق کے ساتھ سات جلدوں میں دارالکتب العلمیۃ، بیروت نے 1405ھ1985/م میں طبع کیا۔
3. کتاب أیام أبی بکر الصدیق
امام بیہقی رحمہ اللہ اپنی کتاب ’’دلائل النبوۃ‘‘ میں اس کا ذکر کیا ۔ (مقدمة دلائل النبوة لعبد المعطي قلعجي :1/ 112)
4. مختصر دلائل النبوة
اس کا ایک نسخہ دارالکتب الظاھرۃ میں ہے اور اس کے صفحات کی تعداد 324ہے ۔ اس کا تصویری نسخہ جامعۃ اسلامیۃ میں ہے ۔(مقدمة المدخل إلى السنن الكبرى :ص 60)
5. مناقب الإمام أحمد بن حنبل
امام ذہبی رحمہ اللہ نے ’’تاریخ الاسلام‘‘ میں اس کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:
’’ابو عبداللہ کے مناقب بہت سوں نے جمع کیے ہیں، ان میں سے ایک ابوبکر بیہقی بھی ہیں ۔ ‘‘(دول الإسلام لذهبي :ص 130)
انھوں نے اس کا ’’سیر النبلا‘‘ میں بھی ذکر کیا ہے (سير النبلاء :18/ 166)
جیسا کہ حاجی خلیفہ نے ’’کشف الظنون ‘‘ میں ذکر کیا ہے ۔ (كشف الظنون :2/ 1836)
6. مناقب الإمام الشافعی
اس کا ایک نسخہ مکتبہ احمد الثالث، استنبول میں ہے اور اس کے اوراق کی تعداد 57اور سائز [L:4 R:235] 2719سم ہے۔ اس کی ایک مائیکرو فلم تصویری نسخہ میں معھد المخطوطات میں موجود ہے ۔
اس کا ایک اور نسخہ اسی مکتبہ میں دستیاب ہے اور اس کے 311 اوراق ہیں ۔ 594ھ میں اس کی کتابت کی گئی۔
ان کے علاوہ بھی دیگر نسخے بھی ہیں جن کا بروکلمان (تاريخ الأدب العربي لبروكلمان :6/ 233) اور سزکین نے تذکرہ کیا ہے ۔ (تاريخ التراث العربي لسزكين :3/ 182)
10. آداب و فضائل
1. الآداب
اس کا ایک قلمی نسخہ دارالکتب المصریۃ میں ہے ۔ جدید مغربی خط میں لکھا گیا اور اس کے اوراق تعداد 262 اور سائز
[L:4 R:235] 1913سم ہے ۔
امام کتانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
یہ البروالصلۃ، مکارم الاخلاق، آداب اور کفارات پر مشتمل ہے ۔ (الرسالة المستطرفة لبيان مشهور كتب السنة:ص 53)
2. الأربعون الصغری
اس کا ایک قلمی نسخہ مکتبہ الشیخ عبدالعزیز المرشد، ریاض میں دستیاب ہے اور اس کا تصویری نسخہ جامعۃ اسلامیۃ، مدینۃمنورۃ میں ہے۔(مقدمة المدخل إلى السنن الكبرى :ص 55)
3. الأربعون الکبری
اس کا ایک قلمی نسخہ مکتبہ عاشر آفندی میں ہے ۔ مکتبہ سلیمانیہ، استنبول میں ہے اور اوراق کی تعداد 25ہے ۔ اس کا تصویری نسخہ جامعۃ اسلامیۃ، مدینۃ منورۃ میں ہے ۔
امام بیہقی رحمہ اللہ نے اپنے مقدمۃ میں اس طرف اشارہ کیا ہے :
’’اس میں ان امور کا ذکر کیا گیا ہے جس کے اصحاب الحدیث محتاج ہوتے ہیں۔ رواۃ کے احوال و اخلاق جاننے کے لیے تاکہ ضروری امور کا علم ممکن ہو سکے ۔ ‘‘(البيهقي وموقفه من الألهيات لأحمد بن عطيه غامدي :ص 67)
حاجی خلیفہ نے اس کا تذکرہ کرتے ہوئے اس کا نا م’’الاربعین فی الاخلاق‘‘ ذکر کیا ہے اور فرمایا ہے :
’’یہ سواحادیث پر مشتمل ہے جو چالیس ابواب کے تحت مرتب کی گئی ۔ ‘‘(كشف الظنون :1/ 35)
4. الدعوات الصغیر
امام سمعانی رحمہ اللہ نے اپنی تمام ان کتب میں اس کا ذکر کیا ہے جن کا مصنفات بیہقی میں سے سماع کیا ہے اور اسے ’’الدعوات الصغیر‘‘ کا نام دیا ہے (الأنساب :2/ 381) اور حاجی خلیفہ نے ’’کشف الظنون‘‘ میں۔ (كشف الظنون:1/ 1417)
5. الدعوات الکبیر
اس کا ایک قلمی نسخہ مکتبہ آصفیہ، حیدر آباد (ہند) میں دستیاب ہے اور اوراق کی تعداد ۴۶ ہے ۔ اس کی نقل مھد المخطوطات میں موجود ہے اور اس کی دوسری نقل جامعۃ اسلامیۃ، مدینۃ منورۃ کی لائبریری میں ہے ۔ امام سمعانی رحمہ اللہ نے ’’الانساب‘‘ میں اس کا ذکر کیا ہے ۔ (الأنسباب لسمعاني :2/ 381)
6. شعب الإیمان
امام بیہقی رحمہ اللہ نے اس کا نام ’’کتاب الجامع‘‘ رکھا ہے ۔(السنن الكبرى للبيهقي :7/ 285) اس کا قلمی نسخہ مکتبہ احمد الثالث، استنبول میں ہے اور تین جلدوں پر مشتمل ہے ۔
دوسرا نسخہ چوتھے جز ء پر مشتمل ہے ۔ یہ استنبول میں دستیاب ہے اور اس کے اوراق کی تعدا د۸۵، سائز[L:4 R:235]۱۳۷۱ سم ہے ۔ اس کے علاوہ بھی دیگر نسخے ہیں جنہیں بروکلمان نے ذکر کیا ہے ۔ (تاريخ الأدب العربي :ص6/ 231)
بہت سے علماء نے اس کا اختصارکیا ہے (مقدمة المدخل إلى السنن الكبرى :ص 56) اور ان مختصرات میں سے امام ابی القاسم عمر بن عبدالرحمن قزوینی ہے ۔
ڈاکٹر اعظمی نے ذکر کیا ہے :’’جامعہ اسلامیہ کے بعض طلبہ نے بھی اس پر تحقیق کا کام کیا ہے ۔ ‘‘(مقدمة المدخل إلى السنن الكبرى :ص 55)
7. فضائل الأوقات
امام سمعانی رحمہ اللہ نے اپنی ان کتب میں جن کا مصنفات بیہقی میں سے سماع کیا ہے اس کا ذکر کیا ہے ۔ (۲) امام ذہبی رحمہ اللہ نے ’’سیرالنبلاء‘‘ میں ذکر کیا ہے ۔ (الأنساب لسمعاني :2/ 381) اور سبکی نے ’’طبقات الشافعیۃ الکبری‘‘ میں(طبقات الشافعية الكبري :3/ 5)
11. المنوعات
1. رسالة البيهقی إلی أبی محمد الجوینی
اس کا قلمی نسخہ مکتبہ احمد الثالث، استنبول میں دستیاب ہے ۔ یہ سات اوراق پر مشتمل ہے اور مجموعۃ الرسائل المنبریۃ، قاھرۃ میں 1343ھ میں طبع ہوا۔
ابوسعد سمعانی نے ابو نصر شجاعی سے اس کا سماع کیا اور انھوں نے امام بیہقی رحمہ اللہ سے کیا۔ (التحبير في معجم الكبير :1/ 592)
2. رسالة الببيقی إلی عمید الملک
اس رسالہ کا سبب تحریر سلطان نظام الملک کو وزیر کندی کے ان اقدام کے بارے میں اطلاع دینا تھا جو اس نے امام اشعری اور ان علماء شافعیہ کے بارے میں کئے تھے گویا یہ رسالہ امام بیہقی رحمہ اللہ اور نظام الملک کے د رمیان واسطہ تھا۔ سلطان نظام الملک نے باقاعدہ امام بیہقی رحمہ اللہ کو اس خط پر جواب دیے اور امام اشعری رحمہ اللہ اور ان علماء شافعیہ مثلا ابوالقاسم قشیری، امام الحرمین کو عزت دی گئی۔
3. العیون فی الرد علی أهل البدع
اس کا ایک قلمی نسخہ مکتبہ امبروزیانا، میلانو ۔ اٹلی میں موجود ہے اور اس کی ایک نقل دارالکتب القطریۃ میں بھی ہے ۔(البيهقي وموقفه من الألهيات لأحمد بن عطيه غامدي :ص 81)
امام بیہقی رحمہ اللہ کے علوم و فنون نے ان مصنفات کی صورت میں تمام اہل علم کو سیراب کیا اور ہر خاص و عام نے اس سے استفادہ کیا ہے ۔ اپنی افادیت کی بدولت یہ مصنفات عالم اسلامی میں شہرہ پذیر ہیں ۔
امام ذہبی رحمہ اللہ، امام بیہقی رحمہ اللہ کی عالی منزلت مصنفات کا اعتراف کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
’’آپ کی تصانیف ایک ہزار اجزاء تک محیط ہیں ا ور اللہ تعالیٰ نے ایک شخص کی جہدومحنت اور فضل و اتقان کے بدولت شرق و غرب کے مسلمانوں کو فائدہ پہنچایا اللہ تعالیٰ ان پر رحم فرمائے ۔ (شذرات الذهب لإبن العماد:3/ 305)
 
Top