تعلیمات حدیث
آئیے ! دیکھتے ہیں کہ احادیث نبویہ میں آخر کیا ہے جس سے کچھ لوگ کتراتے یا چیں بچیں ہوتے ہیں۔کیا نبوی باتوں میں کسی شے کی کمی یا پسماندگی ہے جو اپنی مقدس حیثیت تسلیم کرانے میں مانع ہے؟
٭…جو عقیدہ قرآن دیتا ہے وہی حدیثِ رسول بھی دیتی ہے۔
مثلاً:
استوی علی العرش، علو رب، نزول رب، اسماء وصفات باری تعالیٰ اور خالق ومخلوق کے درمیان فرق وجدائی یارفع عیسیٰ علیہ السلام کا معنی ٔ نبوی۔آخر قرآن کا کون سا معنی ومفہوم لوگوں کو سمجھ آجاتا ہے کہ جسے وہ حدیث پر ترجیح دیتے ہیں؟ کیا قرآن وسنت کو ایک دوسرے سے جدا کرنے سے باطنی شرارتوں کے دروازے نہیں کھلتے؟
٭…حدیث تو الہام والقاء ہے ۔
آپ ﷺ کا یہ ارشاد ہے:
السِّوَاکُ مَطْہَرَۃٌ لِلْفَمِ وَمَرْضَاۃٌ لِلرَّبِّ۔مسواک کرنا منہ کی پاکیزگی کا سبب ہے اور رضائے رب کے حصول کاذریعہ بھی۔
جدید علم طب نے بتایا کہ مسواک نہ صرف منہ کو صاف رکھتی ہے بلکہ مسوڑھوں(Gums)اور دانتوں کے درمیان موجود زہریلے مواد کو صرف وہی باہر نکالتی ہے مزیدیہ کہ وہ دانتوں کو مضبوط اور صاف ستھرا رکھنے کے علاوہ منہ، گلا، معدہ اورپیٹ کی کئی بیماریوں پر قابو پاتی ہے ۔السر(Ulcer) اور ایسیڈیٹی (Acidity)کا زیادہ تر سبب یہی زہریلا مواد ہے ۔
ایسے ایمان کا کیا فائدہ جوغیر مسلم سائنس دانوں نے ارشادات نبوی پر تحقیق کرکے ہم سے منوایا مگررسول اکرم ﷺ کی الہامی باتیں ہمارے اندر ایمان بالغیب کو زندہ نہ کرسکیں۔
٭…حدیث میں علم الغیب کی باتیں ہیں:
جس طرح قرآن کریم نے علم غیب سے متعلق خبر دی ہے رسول محترم ﷺنے بھی غیب سے متعلق اخبار ہمیں دی ہیں جو ظاہر ہے بذریعہ وحی آپ ﷺ کو بتائی گئیں۔
مثلاً:
یَنْزِلُ رَبُّنَا إِلَی السَّمَائِ الدُّنْیَا حِیْنَ یَبْقَی ثُلُثَ اللَّیْلِ الآخِرِ فَیَقُولُ: ہَلْ مِنْ دَاعٍ فَأَسْتَجِیْبَ لَہُ، ہَلْ مِنْ مُسْتَغْفِرٍ فَأَغْفِرَ لَہُ، ہَلْ مِنْ تَائِبٍ فَأَتُوْبَ عَلَیْہِ۔(صحیح بخاری: ۱۱۴۵) جب رات کا ایک تہائی حصہ باقی رہتا ہے تو ہمارے رب کریم آسمان دنیا پر نزول فرماتے ہیں اور اعلان کرتے ہیں: کیا کوئی دعا کرنے والا ہے جس کی میں دعا سن کرقبول کروں؟ کیا کوئی معافی مانگنے والا ہے جسے میں معاف کردوں؟ کیا کوئی توبہ کرنے والا ہے جس کی توبہ میں قبول کرلوں؟
اللہ تعالیٰ کا یہ نزول اسی شان وانداز کا ہے جو اس کی ذات کو زیبا ہے۔
٭…اس ایمان کا بھی ذکر ہے کہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کے علم اور تقدیر کے مطابق ہورہا ہے:
یُؤْذِیْنِی ابْنُ آدَمَ، یَسُبُّ الدَّہْرَ وَأَنَا الدَّہْرُ بِیَدِی الْاَمْرُ اُقَلِّبُ اللَّیْلَ وَالنَّہَارَ۔(صحیح بخاری: ۴۸۲۶) ابن آدم مجھے اذیت دیتا ہے وہ زمانے کو گالی دیتا ہے جبکہ زمانہ میں ہوں میرے ہاتھ میں امر ہے میں ہی شب وروز کو الٹتا پلٹتا ہوں۔
٭… ساحر ، کاہن اور سنیاسی سے علاج معالجہ کراناحرام ہے:
لَیْسَ مِنَّا مَنْ تَطَیَّرَ أَوْ تُطَیِّرَ لَہُ، أَوْ تَکَہَّنَ أَوْ تُکِہِّنَ لَہُ، أَوْ سَحَرَ أَوْ سُحِرَ لَہُ، وَمَنْ أَتٰی کَاہِناً فَصَدَّقَہُ بِمَا یَقُوْلُ، فَقَدْ کَفَرَ بِمَا اُنْزِلَ عَلَی مُحَمَّدٍﷺ۔(مسند البزار: ۳۰۴۴، مجمع الزوائد: ۴۸۰) وہ آدمی ہم میں سے نہیں جس نے فال لی یا فال کروائی، یا کہانت اختیار کی یا اس کے لئے کہانت کی گئی، یا اس نے جادو کیا یا اس کے لئے جادو کیا گیا۔ جو آدمی کاہن کے پاس آئے اور جو کچھ وہ کہے اس کی تصدیق کرے تو اس نے اس دین کا کفر کیا جو محمد ﷺ پر اتارا گیا۔
٭…تعویذ، گنڈے ، دھاگے، پتھرکی انگوٹھی کا پہننا حرام ہے:
مَنْ تَعَلَّقَ بِتَمِیْمَۃٍ فَلَا أَتَمَّ اللّٰہُ لَہُ، وَمَنْ تَعَلَّقَ وَدَعَۃً فَلاَ وَدَعَ اللّٰہُ لَہُ۔(مسند احمد:۴؍۱۵۴)جو شخص تعویذ لٹکائے اللہ تعالیٰ اس کی خواہش پوری نہ کرے اور جو سیپی وغیرہ لٹکائے اللہ تعالیٰ اسے آرام نہ دے۔
إِنَّ الرُّقٰی وَالتَّمَائِمَ وَالتِّوَلَۃَ شِرْکٌ۔(سنن أبی داؤد: ۳۸۸۳) دم، تعویذ اور جادو یہ سب شرک ہیں۔
٭… شرعی دم اور مباح دوائیں:
مَا أَنْزَلَ اللّٰہُ دَائً إِلاَّ أَنْزَلَ لَہُ شِفَائً، عَلِمَہُ مَنْ عَلِمَہُ وَجَہِلَہُ مَنْ جَہِلَہُ۔(صحیح بخاری: ۵۶۷۸)اللہ تعالیٰ نے جو بیماری بھی نازل کی ہے اس کی شفا بھی نازل فرمائی ہے جس نے اسے جان لیا اس نے اسے جان لیا اور جو اس سے ناواقف رہا وہ اس سے ناواقف ہی رہا۔
٭…گھروں میں تصاویرلٹکانا حرام ہے۔ آ پﷺ فرماتے ہیں:
لاَ تَدْخُلُ الْمَلاَئِکَۃُ بَیْتاً فِیْہِ کَلْبٌ وَلاَ صُوْرَۃٌ۔(صحیح بخاری: ۳۲۲۴) فرشتے اس گھر میں داخل ہی نہیں ہوتے جس گھر میں کتا ہو یا تصویر ہو۔
آپ ﷺنے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو فرمایا:
لاَ تَدَعْ صُوْرَۃً إِلاَّ طَمَسْتَہَا وَلاَ قَبْرًا مُشْرِفًا إِلاَّ سَوَّیْتَہُ۔(صحیح مسلم: ۹۶۹)جو تصویر دیکھو اسے مٹا دو اور جو اونچی قبر دیکھو اسے برابر کردو۔
٭… نیک بزرگوں کی قبروں کو مسجد بنانا حرام ہے:
إِنَّ اللّٰہَ تَعَالٰی قَدِ اتَّخَذَنِیْ خَلِیْلاً کَمَا اتَّخَذَ إِبْرَاہِیْمَ خَلِیْلاً، وَلَوْ کُنْتُ مُتَّخِذًا مِنْ أُمَّتِیْ خَلِیْلاً لََاتَّخَذْتُ أَبَابَکْرٍ خَلِیْلاً، أَلاَ وَإِنَّ مَنْ کَانَ قَبْلَکُمْ کَانُوا یَتَّخِذُوْنَ قُبُورَ أَنْبِیَائِہِمْ وَصَالِحِیْہِمْ مَسَاجِدَ، أَلاَ فَلاَ تَتَّخِذُوا الْقُبُوْرَ مَسَاجِدَ فَإِنِّیْ أَنْہَاکُمْ عَنْ ذَلِکَ۔(صحیح مسلم:۵۳۲)اللہ تعالیٰ نے مجھے اس طرح خلیل بنایا ہے جس طرح ابراہیم ؑ کوخلیل بنایااور اگر میں اس امت میں سے کسی کو خلیل بناتا تو ابوبکر کو ہی بناتا۔ سنو تم سے پہلے لوگ اپنے انبیاء اور نیک لوگوں کی قبروں کو مسجدیعنی سجدہ گاہ بنالیا کرتے۔ خبردار رہو! ان قبروں کو مسجد مت بنانا میں تہیں اس سے روک رہا ہوں۔
٭…نبی کریم ﷺ کی یا اولاد کی قسم کھانا منع ہے:
مَنْ کَانَ حَالِفاً فَلْیَحْلِفْ بِاللّٰہِ أَوْ لِیَصْمُتْ۔(صحیح بخاری: ۲۶۷۹) جو شخص قسم کھانا چاہے تو وہ اللہ کی قسم کھائے یا خاموش رہے۔
٭…حدیث یہ بھی کہتی ہے کہ یاد اللہ سے رویا جائے:
مَنْ ذَکَرَ اللّٰہَ خَالِیاً فَفَاضَتْ عَیْنَاہُ فِی السَّبْعَۃِ الَّذِیْنَ یُظِلُّہُمُ اللّٰہُ فِی ظِلِّہِ یَوْمَ لاَ ظِلَّ إِلا ظِلُّہُ۔(صحیح بخاری: ۶۴۷۹) جس نے خلوت میں(اپنے گناہوں کو یادکیا) اور(دوسری طرف) اللہ تعالیٰ(کی اپنے اوپر مہربانیوں کو) کو یاد کیا پھر(اللہ سے ڈرتے ہوئے ) اس کی آنکھیں اشکبار ہوگئیں تو یہ ان سات قسم کے لوگوں میں شمار ہوگا جنہیں اللہ تعالیٰ ایسے روزاپنے سائے میں جگہ عطا کرے گا جب سوائے اس کے سایہ کے کوئی اور سایہ نہ ہوگا۔