عطاء اللہ سلفی
مبتدی
- شمولیت
- فروری 07، 2016
- پیغامات
- 57
- ری ایکشن اسکور
- 14
- پوائنٹ
- 20
معاشرے کیسے تبدیل ہوا کرتے ہیں؟
معاشروں کی تبدیلی کی کئی وجوہات ہوتی ہیں۔ ان میں سے اہم وجوہات درج ذیل ہیں:
سیکھنے کا عمل
سیاسی عوامل
معاشی عوامل
قدرتی عوامل
سماجی عوامل
سیکھنے کا عمل
تمام معاشروں میں سیکھنے کا عمل جاری رہتا ہے۔ ایک معاشرہ کسی ایک میدان میں دوسرے سے آگے ہوتا ہے اور دوسرا معاشرہ کسی دوسرے میدان میں۔ ان معاشروں کے اہل علم و دانش تقابلی مطالعے کے ذریعے بہتر سے بہتر کی تلاش میں اپنا سفر جاری رکھتے ہیں اور اس کے نتیجے میں دوسرے معاشروں سے سیکھ کر اپنے معاشرے کی ترقی میں کردار ادا کرتے ہیں۔ اس کی ایک دلچسپ مثال اہل مغرب کے ماہرین مشرقیات یعنی مستشرقین (Orientalists) ہیں۔ اس طبقے کے اسکالرز، مشرقی اقوام کے علوم میں ماہر ہوتے ہیں اور اہل مشرق سے مختلف شعبوں میں سیکھ کر اپنے معاشروں کو بہتر بنانے کا عمل جاری رکھتے ہیں۔
سیکھنے کے عمل میں سب سے اہم کردار کسی معاشرے کے اہل علم و دانش ادا کرتے ہیں۔ یہی وہ لوگ ہوتے ہیں جو اپنی تحقیق اور دوسرے معاشروں کے مطالعے سے اپنے معاشرے کو بہتر سمتوں کی طرف لے جاتے ہیں۔ قرون اولی میں مسلمانوں کے اہل علم نے رومی و یونانی علوم کو سیکھ کر ان کا ترجمہ عربی میں کیا۔ اس کے بعد مسلم اہل علم و دانش کی کئی نسلوں نے اپنے علم و تحقیق کی بدولت اس علم پر قابل قدر اضافے کئے۔ اسی علمی برتری کے باعث مسلمان دنیا میں سپر پاور کی حیثیت سے تقریباً بارہ سو سال تک موجود رہے۔
اہل یورپ اس دوران تاریک دور سے گزرتے رہے اور دنیا میں ان کی حیثیت مغلوب اقوام کی رہی۔ جب ان کے ہاں سیکھنے کا عمل دوبارہ شروع ہوا تو انہوں نے مسلم اہل علم کی کتابوں کے ترجمے اپنی زبانوں میں کیے اور نت نئے علوم کو سیکھنا شروع کیا۔ اس کے بعد انہوں نے اس علم میں اتنا اضافہ کر لیا کہ وقت کا پہیہ الٹی سمت میں گردش کرنے لگا اور اہل یورپ دنیا میں غالب اور مسلمان مغلوب ہوتے چلے گئے۔ دو عظیم جنگوں میں یورپ نے اپنی قوت کا بڑا حصہ تباہ کر لیا۔ اس کے بعد امریکہ کے عروج کے دور کا آغاز ہوا جو کہ دنیا پر مغربی غلبے کا ایک تسلسل ہی ہے۔
اہل مغرب کی قوت کی سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ انہوں نے مادے کے توانائی میں تبدیل کرنے کے ایسے ایسے طریقے ایجاد کیے جس کے باعث انسانی زندگی میں انقلاب برپا ہو گیا۔ پچھلے دو سو برس میں ریلوے، ٹیلی گرام، بلب، ٹیلی فون، ہوائی جہاز، موٹر کار، ٹیلی وژن، ادویات، میڈیکل کے آلات، کمپیوٹر اور انٹرنیٹ جیسی بے شمار چیزیں ایجاد ہو چکی ہیں جنہوں نے انسان کی پوری زندگی کو بدل کر رکھ دیا ہے۔ سماجی علوم (Social Sciences) کے میدان میں انہوں نے بے پناہ علمی کام سرانجام دیا ہے جس کے باعث جمہوریت اور فلاحی ریاست جیسے تصورات دنیا کے سامنے آئے ہیں۔
پچھلے بیس پچیس برس میں اہل مغرب ہی کی علمی ترقی کی بدولت دنیا میں ابلاغ (Communication) کے ایسے ذرائع وجود پذیر ہوئے ہیں جن کے باعث دنیا سمٹ کر ایک گلوبل ولیج کی شکل اختیار کر گئی ہے۔
موجودہ دور میں انہی علوم کو سیکھنے کے نتیجے میں ایشیائی ممالک نے بھی دنیا میں قابل ذکر مقام حاصل کر لیا ہے۔ پچھلے دس پندرہ برس میں چین اور بھارت کی تیز رفتار ترقی نے دنیا کو حیران کر دیا ہے۔ یہ سب سیکھنے کے عمل کا نتیجہ ہے۔
سیاسی عوامل
معاشرتی تبدیلیوں میں سیاسی عوامل بہت اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ جب مسلمانوں کا دنیا پر سیاسی غلبہ قائم ہوا تو یہ دنیا کی مجبوری تھی کہ وہ مسلمانوں کے دین اور ان کی تہذیب کا مطالعہ کرے اور اس کے مطابق اپنی زندگی میں تبدیلیاں پیدا کرے۔ بعینہ یہی معاملہ اہل مغرب کے غلبے کے زمانے میں مسلمانوں کے ساتھ ہوا۔ چنانچہ جیسے ہی اہل مغرب نے مسلم علاقوں پر قبضہ کیا، مسلمانوں کے ہاں ان کی زبان، رہن سہن، علوم اور تہذیب کو اپنانے کا عمل شروع ہو گیا۔ یہی عمل مشرق بعید کے ممالک میں بھی جاری ہے اور ان کے معاشرے بھی ویسٹرنائز ہوتے جا رہے ہیں۔
سیاسی عوامل میں ایک اہم عنصر دوسری قوموں کے سیاسی حالات کا بھی ہے۔ بیسویں صدی کے اوائل تک، اہل یورپ دنیا میں غالب ترین سیاسی قوت تھے۔ یکے بعد دیگرے دو بڑی جنگوں کے نتیجے میں یورپ کی قوت کا زور ٹوٹ گیا اور اس کی جگہ امریکہ اور سوویت یونین نے لے لی۔ بیسویں صدی کے نصف آخر میں یہی دونوں قوتیں دنیا کے دوسرے تمام ممالک کے معاشروں کو متاثر کرنے میں فیصلہ کن حیثیت کی حامل رہی ہیں۔ یہ حیثیت اکیسویں صدی کے اوائل میں صرف امریکہ کو حاصل ہو چکی ہے۔ اگرچہ یورپ کی علمی روایت پوری آب و تاب کے ساتھ موجود ہے لیکن اس کے وہ اثرات دنیا پر نظر نہیں آتے جو امریکہ کی علمی روایت کے نظر آ رہے ہیں۔ اس کی وجہ امریکہ کا دنیا پر سیاسی غلبہ ہے۔ عین ممکن ہے کہ چند عشروں کے بعد چین اس پوزیشن میں آ جائے کہ وہ امریکہ کا مقابلہ کر سکے لیکن فی الحال دنیا پر سیاسی غلبہ امریکہ ہی کو حاصل ہے۔
معاشی عوامل
جب کوئی قوم معاشی اعتبار سے ترقی کر جاتی ہے تو اس کے ہاں علم سے وابستگی میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ معاشروں میں نابغہ روزگار شخصیات پیدا ہوتی ہیں جو قوم کی علمی ترقی میں کردار ادا کرتی ہیں۔ غربت کے منحوس دائرے میں گردش کرنے والی اقوام کے ہاں ایسا حادثہ کم ہی وقوع پذیر ہوا کرتا ہے۔
ترقی یافتہ اقوام، غریب ممالک کو امداد فراہم کرتی ہیں اور اس کے علاوہ اپنی دولت میں اضافہ کرنے کے لئے، ان ممالک میں سرمایہ کاری بھی کرتی ہیں۔ ابتدائی طور پر سرمایہ امیر ملک سے غریب ملک کی جانب منتقل ہوتا ہے لیکن جیسے ہی غریب ممالک میں قائم یہ پراجیکٹ نفع کمانے لگتے ہیں، سرمایہ دار اپنا منافع واپس لینا شروع کر دیتے ہیں جس کے باعث دولت کا بہاؤ غریب ممالک سے واپس امیر ممالک کی جانب ہونے لگتا ہے۔
سرمائے کے ساتھ ساتھ امیر ممالک کی ملٹی نیشنل کمپنیاں غریب ممالک میں اپنی ثقافت لے کر آتی ہیں اور ایڈورٹائزنگ اور دیگر معاملات کے ذریعے ان ممالک کی تہذیبی اقدار پر اثر انداز ہونا شروع ہوتی ہیں جس کے نتیجے میں غریب اقوام میں متعدد معاشرتی تبدیلیاں وقوع پذیر ہوتی ہیں۔ اس کی واضح مثال جنوبی ایشیائی ممالک میں مغربی ملٹی نیشنل کمپنیوں کی کاوشوں کے باعث معاشرے کی ویسٹرنائزیشن ہے۔
قدرتی عوامل
انسان کا قدرتی ماحول اس کے معاشرے پر گہرے اثرات مرتب کرتا ہے۔ ہم یہ دیکھتے ہیں کہ دنیا کی بڑی بڑی قدیم تہذیبوں نے دریاؤں یا سمندروں کے کناروں پر جنم لیا۔ ایسا بہت کم ہوا ہے کہ برف پوش پہاڑوں یا تپتے صحراؤں میں کسی بڑی تہذیب کو فروغ حاصل ہوا ہو۔ مسلمانوں کے دور میں عرب کے مرکزی شہروں مکہ و مدینہ سے شروع ہونے والی تہذیب بنو امیہ کے دمشق و غرناطہ اور بنو عباس کے بغداد میں اپنے عروج پر پہنچ گئی۔ عباسی حکومت کے زوال کے بعد وسط ایشیا کے شہر بخارا، سمرقند، نیشاپور وغیرہ مسلم علم اور تہذیب کا مرکز بن گئے۔ یہی معاملہ قاہرہ، دہلی اور استنبول کے ساتھ پیش آیا۔ مغربی دنیا میں بھی سب سے زیادہ ترقی یافتہ شہر وہی سمجھے جاتے ہیں جو دریاؤں اور سمندروں کے قریب آباد ہیں۔ ان کی مثال لندن، نیویارک اور پیرس ہیں۔
چونکہ یہ شہر باقی دنیا سے ٹرانسپورٹ اور کمیونیکیشن کے ذرائع کے بدولت جڑے ہوتے ہیں اس لئے ان میں تبدیلی کا عمل تیز ہوتا ہے۔ دوسرے معاشروں سے سیکھنے کا عمل ان میں باقی شہروں کی نسبت تیز ہوتا ہے اور ان کے ہاں جلد تبدیلیاں وقوع پذیر ہو جاتی ہیں۔ ایسے شہر جو کہ مرکزی مقامات سے دور واقع ہوتے ہیں، ان کے ہاں تبدیلی کی رفتار نسبتاً سست ہوتی ہے لیکن اپنے رجحانات میں یہ ترقی یافتہ شہروں کی پیروی کر رہے ہوتے ہیں۔
دور جدید کو پرکھنے کا معیار (Criteria)
دور جدید کے مثبت اور منفی پہلوؤں کو پرکھنے سے پہلے یہ ضروری ہے کہ اس تجزیے کے لئے کوئی معیار قائم کر لیا جائے۔ مختلف افراد کسی بھی معاملے کو مختلف نظر سے دیکھتے ہیں۔ ہر شخص کے تجزیے کے مختلف ہونے کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ وہ تجزیے کے لئے مختلف معیار استعمال کرتے ہیں۔ چونکہ یہ تحریر مذہبی نقطہ نظر سے کی جا رہی ہے اس لئے اس میں ہم معیار کے طور پر تین چیزوں کو استعمال کریں گے۔
اخلاقیات
شریعت
انسانیت کے لئے فائدہ
دور جدید کو پرکھنے کے لئے ہمارا بنیادی معیار "اخلاقیات" ہے۔ یہ وہ دین فطرت ہے جو پوری نسل انسانیت میں مشترک ہے۔ ہر انسان کو برائی اور بھلائی کا شعور دیا گیا ہے۔ یہ درست ہے کہ بعض افراد اپنے مخصوص حالات کے باعث بسا اوقات اس فطرت کو مسخ کر بیٹھتے ہیں لیکن انسانوں کی غالب اکثریت کسی بھی چیز کے اخلاقی طور پر صحیح یا غلط ہونے کے بارے میں مختلف آراء کی حامل نہیں ہو سکتی۔ اس معاملے میں کسی بھی اختلاف کو ختم کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ انسان اس چیز کا اطلاق خود پر کرے۔ اس کی مثال یہ ہے کہ بعض دھوکے باز قسم کے لوگ یہ کہتے ہیں کہ اس دنیا میں دھوکہ دیے بغیر گزارا نہیں۔ اگر اسی بات کا اطلاق خود ان کی ذات پر کرتے ہوئے کوئی انہیں دھوکہ دینے کی کوشش کرے تو وہ بھڑک اٹھتے ہیں کیونکہ وہ اس دھوکے کو اپنے لئے پسند نہیں کر رہے ہوتے۔
اخلاقیات کے علاوہ ہمارے نزدیک دور جدید کو پرکھنے کا معیار اللہ تعالی کی دی ہوئی "شریعت" ہے۔ شریعت سے ہماری مراد فقہ اور قانون کی ضخیم کتب نہیں بلکہ اس سے مراد وہ ہدایت ہے جو اللہ تعالی نے اپنی آخری کتاب قرآن مجید اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی سنت و حدیث میں محفوظ کر دی ہے۔ یہ ہدایت پیچیدہ اور طویل احکام پر مشتمل نہیں بلکہ بہت مختصر اور آسان ہے۔ اس ہدایت کو سمجھنے کے لئے انسان کا بہت ذہین اور اعلی تعلیم یافتہ ہونا بھی ضروری نہیں ہے۔ ایک عام شخص بھی اس ہدایت سے اتنا ہی فیض یاب ہو سکتا ہے جتنا کہ کوئی ذہین اور اعلی تعلیم یافتہ شخص۔
ان دو معیارات کے علاوہ ہم اس پہلو سے بھی دور حاضر کی کسی تبدیلی کا جائزہ لیں گے کہ آیا یہ تبدیلی قلیل اور طویل مدت میں انسانیت کے لئے فائدہ مند بھی ہے یا نہیں۔
ہمارے ہاں جدیدیت (Modernization) کو بالعموم مغرب زدگی (Westernization) کے مترادف سمجھا جاتا ہے۔ ہمیں اس نقطہ نظر سے شدید اختلاف ہے۔ اگر کوئی تبدیلی مثبت سمت میں ہوئی ہے تو اسے محض اس بنا پر رد کر دینا کہ اس کا آغاز اہل مغرب کی جانب سے ہوا ہے نہایت ہی نامعقول حرکت ہے۔ اسی طرح کسی منفی تبدیلی کو محض اس وجہ سے اپنا لینا کہ اس کا آغاز مسلمانوں یا اہل مشرق نے کیا ہے، بذات خود ایک منفی رویہ ہے۔ ہمیں یہ تجزیہ کرتے ہوئے بالکل غیر جانبداری سے اس بات کا جائزہ لینا چاہیے کہ اگر تبدیلی مثبت ہے تو ہم اس سے فائدہ اٹھائیں اور اگر منفی ہے تو اس سے ہر ممکن طریقے سے اجتناب کریں۔
Last edited by a moderator: