• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

معراج جسمانی یا معراج روحانی ؟

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,396
پوائنٹ
891
معراج جسمانی کے دلائل:


سُبْحٰنَ الَّذِيْٓ اَسْرٰى بِعَبْدِهٖ لَيْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اِلَى الْمَسْجِدِ الْاَقْصَا الَّذِيْ بٰرَكْنَا حَوْلَهٗ لِنُرِيَهٗ مِنْ اٰيٰتِنَا ۭ اِنَّهٗ هُوَ السَّمِيْعُ الْبَصِيْرُسورہ الاسراء : 1
وہ کتنی پاکیزہ ہستی ہے جو اپنے بندے کو رات کے تھوڑے سے وقت میں مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک ،جس کے ماحول کو ہم نے بابرکت بنایا ، لے گئی تاکہ ہم اسے کچھ نشانات و عجائبات کا مشاہدہ کرائیں۔ بے شک وہ بہت ہی سننے دیکھنے والا ہے۔

پہلی دلیل:
سبحان کا لفظ اس امر کی دلیل ہے کہ یہ خواب اور کشف کی طرح کوئی معمولی واقعہ نہیں ہے۔ تسبیح کا لفظ ہی امور عظیمہ کے لئے بولا جاتا ہے، اگر یہ واقعہ خواب کا ہوتا پھر یہ کوئی بڑائی یا عظمت کی بات نہ ہوتی۔

دوسری دلیل:
اسریٰ کا لفظ بھی بیداری کی حالت پر بولا جاتا ہے جیسا کہ

حضرت لوط علیہ السلام کو ارشاد ہوتا ہے ”فأسر بأهلك بقطع من الليل واتبع أدبارهم ولا يلتفت منكم أحد وامضوا حيث تؤمرون“ (الحجر 15:65)
” پس آپ اپنے گھر والوں کو رات کے کسی حصے میں لے کر نکل جائیں اور خود ان کے پیچھے پیچھے چلیں اور تم میں سے کوئی مڑ کر نہ دیکھے اور پس جہاں تمہیں حکم دیا جاتا ہے چلے جاؤ “

(سورۃ ھود 11:81) میں بھی حضرت لوط علیہ السلام کو یہی ارشاد ہوتا ہے.

حضرت موسی علیہ السلام کو اللہ کا حکم ہوتا ہے ”ولقد أوحينا إلى موسى أن أسر بعبادي فاضرب لهم طريقا في البحر يبسا لا تخاف دركا ولا تخشى“ (طه 20:77)
” اور ہم نے موسیٰ کی طرف وحی بھیجی کہ ہمارے بندوں کو راتوں رات نکال لے جا، پھر ان کے لیے دریا میں لاٹھی مار کر خشک رستہ بنا دو پھر تم کو نہ تو فرعون کے آپکڑنے کا خوف ہو گا اور نہ غرق ہونے کا ڈر“
”فأسر بعبادي ليلا إنكم متبعون“ (الدخان 44:23)
” حکم ہوا کہ راتوں رات میرے بندوں کو لے کر نکل پڑو، تمہارا پیچھا کیا جائے گا “
”وأوحينا إلى موسى أن أسر بعبادي إنكم متبعون“ (الشعراء 26:52)
” اور ہم نے موسیٰ کی طرف وحی کی کہ میرے بندوں کو لے کر راتوں رات نکل جاؤ کہ تمہارا پیچھا کیا جانے والا ہے “

درج بالا سب مقامات پر اسری کو روح اور جسد کے مجموعے پر بولا گیا ہے.


اور قاضی عیاض فرماتے ہیں لانہ لایقال فی النوم اسریٰ (شفاص 191) کہ یہ واقعہ معراج جسم کے ساتھ ہے کیونکہ اسریٰ کا لفظ خواب پر نہیں بولا جاتا۔

تیسری دلیل:
(عبد) فان العبد عبارۃ عن مجموع الروح و الجسد(تفسیر ابن کثیر )
عبد کہتے ہی روح مع الجسد کو ہیں۔ جس روح کے ساتھ جسم نہ ہو، اسے عبد نہیں کہتے۔ اس سے معلوم ہوا کہ معراج جسمانی تھا۔ یہ تین دلیلیں تو سورہ بنی اسرائیل کی آیت سے ہیں ۔

چوتھی دلیل:
قرآن سے ہی چوتھی دلیل معراج جسمانی کی سورۃ النجم میں ہے:
ما ذا غ البصر و ما طغیٰ (معراج کی رات) آسمان پر نبی کی آنکھ نے واقعات دیکھنے میں کوئی غلطی یا بے احتیاطی نہیں کی۔
یعنی جو کچھ دیکھا بچشم جسم دیکھا ہے یہ بھی دلیل ہے کہ معراج جسمانی تھا۔ کیونکہ خواب یا کشف کا تعلق دماغ یا دل سے ہے، نہ کہ آنکھ سے۔ اور لفظ بصر جسمانی نگاہ کے لئے آتا ہے، خواب یا دل کے دیکھنے کو بصر نہیں کہتے۔

پانچویں دلیل: ۔
اس آیت کی تفسیر ترجمان قرآن حضرت ابن عباس رحمۃ اللہ علیہ نے یوں کی ہے۔
”حدثنا الحميدي حدثنا سفيان حدثنا عمرو عن عكرمة عن ابن عباس رضي الله عنهما وما جعلنا الرؤيا التي أريناك إلا فتنة للناس قال هي رؤيا عين أريها رسول الله صلى الله عليه وسلم ليلة أسري به إلى بيت المقدس قال والشجرة الملعونة في القرآن قال هي شجرة الزقوم“ (صحيح البخاری كتاب مناقب الأنصار باب المعراج روایت نمبر 3888)
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ وما جعلنا الرؤيا التي أريناك إلا فتنة للناس فرمایا کہ اس میں رؤیا سے مراد آنکھ سے دیکھنا ہے . جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ سلم کو معراج کی رات میں د کھایا گیا تھا جس میں آپ کو بیت المقدس تک لے جایا گیا تھا اور قرآن مجید میں”الشجرۃ الملعونۃ“سے مراد تھوہڑ کا درخت ہے۔

چھٹی دلیل:
بخاری شریف میں ہی باب حدیث الاسرا میں حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے لما کذبنی قریش قمت فی الحجر فجلی اللہ لی بیت المقدس فطغت اخبرھم عن آیاتہ وانا انظر الیہ
کہ جب کفار مکہ نے میرے اس سفر کو جھٹلایا اور مجھ سے بیت المقدس کے متعلق سوال شروع کر دیے تو اللہ تعالیٰ نے میرے سامنے بیت المقدس کر دیا میں اسے دیکھ کر بتاتا جا رہا تھا۔
یعنی کفار نے اس معراج کے جسم کے ساتھ ہونے کا ہی انکار کیا تھا ورنہ خواب کی بات کو جھٹلانے کا کوئی تک ہی نہیں تھا کیونکہ خوابوں میں کئی مرتبہ عام انسان بھی اپنے آپ کو پرواز کرتے اور آسمان پر جاتے ہوئے بھی دیکھ سکتا ہے۔ اس پر کوئی تعجب نہیں ہوتا۔ کفار کو تعجب تو تب ہوا جب آپ نے کہا کہ میں اس جسم کے ساتھ گیا تھا۔ کفار کا یہ رد عمل ہی اس بات کی دلیل ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جسم کے ساتھ معراج کا دعویٰ کیا تھا۔

ساتویں دلیل:
اس حدیث کے تحت فتح الباری میں بحوالہ بیہقی فی الدلائل فرماتے ہیں :
کہ کفار نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو اس رات کے سفر کا ذکر کیا تو انہوں نے کہا کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ وہ سچے ہیں۔ تو پھر انہوں نے تعجب سے کہا کہ تو ایک ہی رات میں شام سے ہو کر واپس آنے کی بھی تصدیق کرتا ہے؟ تو انہوں نے کہا کہ میں تو اس سے بڑی بات کی بھی تصدیق کرتا ہوں کہ ان کے پاس آسمان سے بھی پیغام آتے ہیں۔
غور فرمائیے خواب پر کسی کو تعجب کرنے کی ضرورت ہی نہیں ہوتی، تعجب تو ہوتا ہی تب ہے کہ جب کوئی یہ کہے کہ میں اس جسم کے ساتھ وہاں سے ہو کر واپس آ گیا ہوں۔

آٹھویں دلیل:
اسی حدیث کے تحت فتح الباری میں بحوالہ مسند ابو یعلیٰ فرماتے ہیں ۔ ام ھانی کہتی ہیں کہ کفار نے بیت المقدس کے متعلق سوال کرنے شروع کر دیے جسے آپ دیکھ کر بتا رہے تھے تو پھر کفار نے پوچھا کہ ہمارا ایک قافلہ شام سے آ رہا ہے وہ کہاں ملا۔ آپ نے فرمایا کہ فلاں مقام پر ملا لیکن ان کا ایک اونٹ گم تھا اور آپ نے ان کے اونٹوں کی تعداد بھی بتائی جس کی کفار نے آکر تصدیق کی۔
یعنی کفار کو آپ کے جسمانی سفر پر اعتراض تھا تب ہی قافلہ کے بارے میں پوچھا۔ روحانی سفر پر کبھی کسی نے اعتراض کیا ہی نہیں۔

نویں دلیل:
کہ آپ کو آسمان کے سفر سے پہلے بیت المقدس تک کا سفر کرایا گیا یعنی کچھ حصہ زمین کا سفر باقی آسمان کا سفر۔ کیونکہ آسمان کے سفر کو اگر خانہ کعبہ سے ہی شروع کرا دیا جاتا تو کافر بالکل انکار کر دیتے جس کی تصدیق نہ ہو سکتی۔ جب آپ نےمکہ سے بیت المقدس کے سفر کے حالات بتا دیے تو ان کو اسے ٹھیک ماننا پڑا تاکہ سفر کے دوسرے حصہ جو آسمان کا سفر تھا اس کی بھی تصدیق کریں۔ چنانچہ مومنوں کے لیے ایمان میں اضافہ کا سبب ہوا۔ اگر یہ خواب میں ہی ہوا ہوتا تو اس تصدیق وغیرہ کے چکر کی ضرورت ہی نہ تھی۔

دسویں دلیل:
تفسیر ابن کثیر میں حضرت ابو سفیان سے مروی ہے ایک واقعہ لکھا ہے (بحوالہ ابو نعیم فی دلائل النبوۃ) کہ ہمیں قیصر روم نے اپنے دربار میں طلب کیا اس وقت ابھی ابو سفیان مسلمان نہیں ہوئے تھے۔ میں نے دوران گفتگو قیصر سے کہا کہ اگرچہ اس سے پہلے کبھی محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے جھوٹ نہیں سنا البتہ اب اس نے ایک ایسی بات کی ہے جس کو سچ کہا ہی نہیں جا سکتا۔ وہ کہتا ہے کہ میں ایک ہی رات میں مسجد خانہ کعبہ سے مسجد اقصیٰ تک جا کر واپس آیا ہوں۔ دربار قیصر میں ایک پادری بیٹھا تھا فورا بول اٹھا اس رات کا مجھے علم ہے۔ قیصر نے پوچھا وہ کیسے؟ پادری نے کہا میں ہمیشہ مسجد کے دروازے بند کر کے سویا کرتا تھا۔ میں نے اس رات تمام دروازے بند کر دئے مگر ایک دروازہ بند نہ ہوا۔ میں نے ملازمین وغیرہ کی امداد سے بند کرنا چاہا لیکن کامیاب نہ ہو سکا۔ بالآخر مستری کو بلایا گیا۔ اس نے کہا اس پر بالائی دیوار کا بوجھ پڑ گیا ہے۔ اس لیے اب اسے حرکت نہیں دے سکتے۔ صبح غور کریں گے۔ چنانچہ دروازہ کھلا ہی چھوڑ دیا۔ صبح آیا تو مسجد کے دروازے کے کنارے ایک پتھر میں سوراخ دیکھا اور اس میں سواری باندھنے کے آثار معلوم ہوتے تھے۔ یہ دیکھ کر میں نے اپنے ساتھیوں سے کہا آج رات دروازہ بند نہ ہونے کی یہی وجہ تھی رات یہاں کوئی خدا کا نبی آیا ہے جس نے یہاں نماز پڑھی ہے اور دروازہ میں کوئی نقص نہ تھا۔
تلک عشرۃ کاملۃ

یہ دس دلائل معراج جسمانی کے عرض کر دئے ہیں۔ معراج جسمانی کا انکار یا تو قادیانی کرتے ہیں یا کچھ نیچری کرتے ہیں اور دلائل میں حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی منقطع روایت اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی طرف منسوب موضوع روایت پیش کرتے ہیں۔ حالانکہ وہ دونوں ہی اس لائق نہیں کہ ان کا ذکر بھی کیا جا سکے۔ کیونکہ روایۃً و درایۃً دونوں طریقوں سے ناقابل استدلال ہیں۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا اس وقت ابھی نکاح نہیں ہوا تھا تو انہوں نے کون سا بستر خالی پایا تھا؟ حضرت معاویہ بھی ابھی اس وقت مسلمان نہیں ہوئے تھے۔

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ والی روایت:
”حضرت عائشہ صدیقہؓ خدا کی قسم کھا کر بیان فرماتی ہیں کہ معراج میں حضور کا جسم غائب نہیں ہوا تھا.’وَ اللّٰہِ مَا فُقِدَ جَسَدَ رَسُولِ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم وَلٰکِن عُرِجَ بِرُوحِہ (تفسیر کشّاف)اللہ کی قسم (معراج میں) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا جسم غائب نہیں ہوا تھا بلکہ آپ کی روح کے ذریعے معراج ہوئی تھی.“
اس حدیث کی سند یہ ہے:
حَدَّثَنَا ابْنُ حُمَيْدٍ، قَالَ : حَدَّثَنَا سَلَمَةُ ، عَنْ مُحَمَّدٍ ، قَالَ : أَخْبَرَنِي بَعْضُ آلِ أَبِي بَكْرٍ(تفسیر کشاف و ابن جریر الطبری وغیرہ)
یہ روایت اصول ِحدیث کی رو سے ضعیف و مردود ہے. ایک راوی محمد بن حميد بن حيان ہے جو متروک الحدیث ہے. اس میں بعض آل ابی بکر راوی مجہول محض ہے، اس کا کوئی اَتا پتہ معلوم نہیں. ایسے مجہول العین راوی کی روایت ضعیف و مردود ہوتی ہے اور یہ حجت نہیں رکھتیں. امام زرقانی رحمه اللہ لکھتے ہیں:
”وحديثها هذا ليس بالثابت عنها انتهى، يعني لما في متنه من العلة القادحة، وفي سنده من انقطاع وراو مجهول. وقال ابن دحية في التنوير: إنه حديث موضوع عليها، وقال في معراجه الصغير: قال إمام الشافعية أبو العباس بن سريج: هذا حديث لا يصح، وإنما وضع ردًا للحديث الصحيح“(شرح زرقانی جلد 8 صفحہ 7 المقصد الخامس مطبوعہ دار الکتب علمیہ بیروت، آن لائن)

یعنی یہ حدیث حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے ثابت نہیں کیونکہ یہ محلول المتن و سند ہے اور اس کی سند منقطع و ایک راوی مجہول ہے۔ اور ابن وحیہ نے تنویر میں کہا یہ یہ حدیث موضوع ہے اور معراج صغیر میں کہا ہے کہ امام الشافعیہ ابو العباس بن سریج یہ فرماتے ہیں کہ یہ حدیث صحیح نہیں بلکہ معراج جسمانی کی تردید میں وضع کی گئی ہے ۔

رہا سورہ بنی اسرائیل آیت 66 میں لفظ "الرءیا" سے قیاس کہ معراج روحانی تھی، تو عرض ہے کہ :
اول تو اس آیت کو کئی مفسرین نے صلح حدیبیہ یا جنگ بدر کی خواب پر محمول کیا ہے تو اس آیت کا معراج پر محمول کرنا ختمی نہیں ہے کیونکہ ”اذا جاء الاحتمال بطل الاستدلال“جب احتمال آ جائے تو استدلال باطل ہو جاتا ہے.

دوسری بات الرؤیا رویت بصری کی معنی میں بھی آتا ہے. لغت کی مشہور کتاب لسان العرب میں ہے
” و َقَدْ جَاء الرُّؤیَا فی الیَقظَۃ؛
قال الراعیفکبر للرویا وھش فوادہ……..وبشر نفسا کان نفسا یلومھا
قول أبی الطیب: (مضی اللیل و الفضل الذی لک لا یمضی) ....و رویاک احلی فی العیون من الغمض
“ (لسان العرب جلد نمبر 14 صفحہ 297)
ترجمہ: ''بلاشبہ ”رؤیا“ بیداری میں آنکھوں کے مشاہدے کے لئے بھی آتا ہے. راعی کا قول ہے: (”اس نے تکبیر کہی اور اس کا دل مسرت سے بھر گیا اور اس نے اپنے نفس کو پہلے ملامت کر رکھا تھا. اس منظر کو دیکھ کر خوشخبری دی جس کا اس نے عینی مشاہدہ کیا.“)
اور أبو الطيب المتنبي کا قول ہے(”رات ختم اور تیرا فضل ختم ہونے والا نہیں اور تیرا دیدار جمال آنکھوں میں نیند سے زیادہ میٹھا ہے“ (دیوان متنبی صفحہ 188)
ان دونوں اشعار میں الرؤیارویت بصری کے معنی میں استعمال ہوا ہے اور اہل لغت پر واضح ہے کہ ان دونوں شاعروں کو لغت عرب میں سند مانا جاتا ہے. راعی ایک مشہور جاہلی شاعر ہے اور کلام عرب کی سند کے لئے جاہلی شعراء سے زیادہ کوئی سند معتبر نہیں ہے اور لسان العرب مشہور مستند لغت ہے۔

تیسری بات ، خاص اس آیت کی تشریح میں مفسر قرآن حضرت ابن عباس نے فرمایا جو صحیح بخاری میں مذکور ہے کہ: اس میں رؤیا سے مراد آنکھ سے دیکھنا ہے . جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ سلم کو معراج کی رات میں د کھایا گیا تھا۔

حَدَّثَنَا رَوْحٌ، حَدَّثَنَا ابْنُ إِسْحَاقَ، عَن عَمْرُو بْنُ دِينَارٍ، أَنَّهُ سَمِعَ عِكْرِمَةَ يَقُولُ: كَانَ ابْنُ عَبَّاسٍ يَقُولُ: {وَمَا جَعَلْنَا الرُّؤْيَا الَّتِي أَرَيْنَاكَ إِلاَّ فِتْنَةً لِلنَّاسِ} قَالَ: شيء أُرِيَهُ النَّبِي صلى الله عليه وسلم في الْيَقَظَةِ رَآهُ بِعَيْنِهِ حِينَ ذهب بِهِ إِلَى بَيْتِ الْمَقْدِسِ. (مسند احمد بن حنبل جلد 5 صفحہ 450 روایت نمبر 3500 ، مسند احمد جلد 5 صفحہ 464 مکتبہ الشاملہ)
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے صحیح سند کے ساتھ روایت ہے وَمَا جَعَلْنَا الرُّؤْيَا الَّتِي أَرَيْنَاكَ إِلاَّ فِتْنَةً لِلنَّاسِ سے مراد وہ چیزیں ہیں جو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو معراج کی رات بیداری کے عالم میں چشم سر سے دکھائی گئیں.

بعض حضرات کہتے ہیں کہ قرآن مجید میں کہیں بھی الرؤیا بمعنی جاگتی آنکھوں کے دیکھنے کے مستعمل نہیں ملتا اس لئے اس آیت میں الرؤیا کا معنی یہ نہیں کیا جا سکتا۔
جواب: پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ اصول من گھڑت اور باطل ہے اور اس کی کوئی اصل نہیں۔ کیونکہ قرآن ہی سے ایسی کئی دوسری مثالیں بھی ملتی ہیں، مثلا، قرآن مجید میں سورۃ البقرہ2:228 و سورۃ النساء 4:128 وغیرہ میں لفظ ”بعل“ بمعنی شوہر کے آیا ہے اور سورۃ الصفت37:125 کے علاوہ کہیں بھی بمعنی اس بت کے جس کو حضرت الیاس علیہ السلام کی قوم پوجتی تھی مستعمل نہیں اور اسی طرح لفظ ”بروج“ قرآن مجید میں جہاں جہاں استعمال ہوا ہے اس کے معانی کواکب کے ہیں، سوائے سورۃ النساء 4:78 میں اس کے معانی اونچے اور مظبوط محل ہوئے ہیں۔ اس لئے یہ من گھڑت اصول خلاف بلاغت قرآن ہے۔

اور یہ بھی عجیب لطیفہ ہے کہ جو لوگ معراج روحانی کے قائل ہیں اور یہ اعتراض پیش کرتے ہیں ، وہ خود سورہ اسراء آیت 1 میں عبد سے مراد فقط روح لیتے ہیں، جبکہ قرآن میں جہاں کہیں لفظ عبد آیا ہے وہ جسم و روح کے مجموعہ پر بولا گیا ہے۔ لہٰذا اول تو یہ اصول ہی باطل ہے کہ قرآن میں چونکہ ہر جگہ لفظ الرؤیاسے خواب مراد ہے لہٰذا یہاں بھی خواب مراد لیا جائے۔ اور اگر اس اصول کو درست تسلیم کر لیا جائے تب "عبد" سے بھی جسم و روح کا مجموعہ مراد لینا چاہئے نا کہ فقط روح۔۔۔

خلاصہ:

خلاصہ یہ کہ قرآن و صحیح احادیث سے یہی ثابت ہے کہ معراج جسمانی حالت میں ہوا تھا اور یہی بات اسے بہت بڑا معجزہ بناتی ہے۔ ورنہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دیگر سچے خوابوں کی طرح ایک خواب ہوتا اور بطور معجزہ اتنی وضاحت سے قرآن و حدیث میں بیان نہ ہوتا۔
جن احباب کو معراج کے روحانی ہونے کا شبہ ہوا ہے ان کے دلائل یا تو دو ضعیف احادیث ہیں اور یا لفظ "رویا" ہے کہ جس سے وہ فقط خواب مراد لیتے ہیں، ان دلائل کی کمزوری گزشتہ سطور میں واضح کر دی گئی ہے۔
اگرچہ معراج کا جسمانی و روحانی ہونا اگرچہ بذات خود کوئی ایمان و کفر کا معاملہ نہیں۔لیکن اس واقعہ کی تصدیق کی بنا پر ابو بکر رضی اللہ عنہ، صدیق کہلائے اور اس کی تکذیب کر کے کئی مسلمان ہو جانے والے کافر ہو گئے جیسا کہ مسند احمد کی حدیث ہے کہ:
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ أُسْرِيَ بِالنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى بَيْتِ الْمَقْدِسِ ثُمَّ جَاءَ مِنْ لَيْلَتِهِ فَحَدَّثَهُمْ بِمَسِيرِهِ وَبِعَلَامَةِ بَيْتِ الْمَقْدِسِ وَبِعِيرِهِمْ فَقَالَ نَاسٌ قَالَ حَسَنٌ نَحْنُ نُصَدِّقُ مُحَمَّدًا بِمَا يَقُولُ فَارْتَدُّوا كُفَّارًا ... وَرَأَى الدَّجَّالَ فِي صُورَتِهِ رُؤْيَا عَيْنٍ لَيْسَ رُؤْيَا مَنَامٍ ... الی آخر الحدیث(مسند احمد جلد 3 صفحہ477-478 روایت نمبر 3546 مکتبہ دار الحدیث قاہرہ ، مسند احمد بن حنبل جلد 5 صفحہ 476-477 روایت نمبر 3546، مکتبۃ الشاملہ)
”حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو شب معراج بیت المقدس کی سیر کرائی گئی، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسی رات واپس بھی آ گئے اور قریش کو اپنے جانے کے متعلق اور بیت المقدس کی علامات اور ان کے ایک قافلے کے متعلق بتایا، کچھ لوگ یہ کہنے لگے کہ ہم محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی اس بات کی کیسے تصدیق کر سکتے ہیں، یہ کہہ کر وہ دوبارہ کفر کی طرف لوٹ گئے...اسی شب معراج میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دجال کو اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا نہ کہ خواب میں.“

لیکن مؤمن کی شان یہ ہے کہ جب اس کے سامنے کوئی چیز قرآن و سنت سے پایہ ثبوت کو پہنچ جائے تو پھر وہ سر تسلیم خم کر دیتا ہے۔ اور بات خواہ چھوٹی سی سنت کی ہو، کسی واجب کی، یا حلال و حرام اور ایمان و کفر کی۔ دلائل سے جو بھی ثابت ہو جائے، اس کو مان لینا ہی سچا مسلمان ہونے کی نشانی ہے۔

ماخوذ:
معراج النبی صلی اللہ علیہ وسلم از خالد گھرجاکھی
مرزائی آرٹیکل ”الاسراءوالمعراج ‏“ کا جواب
 
Top