تلمیذ بھائی! معاملہ اس قدر آسان نہیں ہے، جس قدر آپ بنا کر پیش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، اگر تقلید کا فتویٰ محض قرآنی حروف پر اعراب لگانے کی طرح ایک انتظامی فتویٰ تھا تو کیا وجہ ہے کہ علماء سلف کو تقلیدی نتائج کی اس قدر سنگینی کو مدنظر رکھ کر اس قسم کے فتاویٰ جات دینے کی نوبت محسوس ہوئی۔ ملاحظہ فرمائیں:
1:- امام ابن قیم رحمہ اللہ"
القصیدۃ النونیۃ" میں فرماتے ہیں:
إذ أجمع العلماء أن مقلدا للناس والأعمى هما أخوان والعلم معرفة الهدى بدليله ما ذاك والتقليد مستويان
"علماء کا اس بات پر اجماع ہے کہ مقلد اور اندھا دونوں برابر ہیں اور علم دلیل کی بنیاد پرمسئلہ سمجھنے کو کہتے ہیں جبکہ کسی کی رائے پر چلنے کا نام تقلید ہے اور اس رائے پر چلنے والے کو یہ معلوم بھی نہ ہو کہ یہ رائے حق پر مبنی ہے یا خطا پر"
برادر! آپ نے غور کیا، کیا قرآنی حروف پر اعراب لگانے کے بھی اس قدر بھیانک نتائج برآمد ہوئے؟ بلکہ لوگوں کو آسانی ہوئی، کیونکہ وہ ان لوگوں کی کوشش تھی جو دین اسلام کے ساتھ مخلص تھے، لیکن کیا وجہ ہے کہ تقلید جو بقول آپ کے محض انتظامی فتویٰ تھا، کے پیش نظر امام ابن قیم رحمہ اللہ کو مقلد اور اندھے شخص کو ایک ہی صف میں کھڑا کرنا مناسب سمجھا؟
2:- امام قرطبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
"یعنی تقلید نہ تو علم کا راستہ ہےاور نہ ہی اصول و فروع میں علم کی طرف رہنمائی کرتی ہے اور جو علماء تقلید کو واجب سمجھتے ہیں ہمارے خیال میں وہ قطعی طور پرعقل سے عاری ہیں" (تفسیر القرطبی ۲/۲۱۲)
اگر محض تقلید انتظامی فتویٰ تھا تو اس قدر خوفناک نتائج کو دیکھ کر امام قرطبی رحمہ اللہ نے اس کو واجب سمجھنے والوں کو عقل سے ہی عاری قرار دے دیا، اگر آج کے مقلدین ابی حنیفہ کی حالت زار ملاحظہ کر لیتے جو تقلید کو سینے سے لگائے بیٹھے ہیں تو میرے خیال میں اس سے زیادہ سخت موقف اپناتے۔ واللہ اعلم
3:- امام طحاوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں
لا یقلد الا غبی او عصبی
تقلید صرف وہی کرتا ہے جو غبی (جاہل) ہو یا جس کے اعصاب خراب ہوں (لسان المیزان ۱/۲۸۰)
یہ کیسا انتظامی فتویٰ تھا جس پر عمل کرنے والے جاہل اور اعصاب کی خرابی میں مبتلا قرار پائے؟
4:- زمحشری فرماتے ہیں:
ان کان للضلال ام فالتقلید امھ
اگر گمراہی کی کوئی ماں ہوتی تو تقلید اس کی بھی ماں ہوتی (اطواق الذہب۷۴)
تلمیذ بھائی! آپ نے ملاحظہ فرمایا، کہ کس طرح تقلید کے خوفناک نتائج کو دیکھ کر علماء سلف نے اس کے خلاف سخت بیانات دئیے، بقول آپ کے (
بلکہ اعراب و صرف و نحو کے طرح ضرورت کے ماتحت واجب قرار دیا گيا) تو اعراب اور صرف و نحو کے علوم سے کبھی وہ نتائج برآمد نہیں ہوئے، جو تقلید سے ہوئے ہیں، اس سے ظاہر ہے کہ آپ کی ان علوم سے تقلید کو تشبیہ دینا باطل ہے۔ آپ مزید تقلید شخصی کے حق میں لکھتے ہیں:
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ تقویٰ کی کمی اور نفس پرستی میں قوم کا مبتلا ہوجانا کیا اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ اسے کسی ایک معین شخص کا ذہنی اور فکری غلام بنا دیا جائے، کیا تقویٰ کی کمی اور نفس پرستی کا کوئی حل علمائے احناف کو کتاب و سنت میں نظر نہیں آیا جو تقلید شخصی اور لوگوں کو قرآن و سنت کی تحقیق سے ہٹانے میں نظر آیا؟ انسانوں کی اصلاح اور تزکیہ کے لئے ہی تو آخری پیغمبر جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھیجا گیا تھا:
لَقَدْ مَنَّ اللَّـهُ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ إِذْ بَعَثَ فِيهِمْ رَسُولًا مِّنْ أَنفُسِهِمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَإِن كَانُوا مِن قَبْلُ لَفِي ضَلَالٍ مُّبِينٍ ﴿١٦٤﴾۔۔۔سورة آل عمران
ترجمه: بے شک مسلمانوں پر اللہ تعالیٰ کا بڑا احسان ہے کہ ان ہی میں سے ایک رسول ان میں بھیجا، جو انہیں اس کی آیتیں پڑھ کر سناتا ہے اور انہیں پاک کرتا ہے اور انہیں کتاب اور حکمت سکھاتا ہے، یقیناً یہ سب اس سے پہلے کھلی گمراہی میں تھے
اس آیت پر غور کریں، بلکہ اس آیت کے آخری حصے پر غور کریں (
وَإِن كَانُوا مِن قَبْلُ لَفِي ضَلَالٍ مُّبِينٍ) جس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث کئے گئے اس وقت لوگ تقویٰ کی کمی تو دور کی بات بلکہ کھلی گمراہی میں مبتلا تھے، اس دور میں نفس پرستی اور خواہش پرستی انتہا کو پہنچی ہوئی تھی، لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو روشن دین کے ساتھ اللہ نے بھیجا اور اس معاشرے کی بھرپور اصلاح کی، نہ صرف اس معاشرے کی اصلاح ہوئی، بلکہ اب قیامت تک اگر کسی قوم یا فرد کی اصلاح ممکن ہے تو وہ اللہ کی کتاب اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ میں ہے۔ تو جس وقت ابوحنیفہ کے دور میں لوگ تقویٰ کی کمی اور نفس پرستی کے خوفناک مرض میں مبتلا ہوئے اس وقت کتاب و سنت میں ان کا علاج کیوں نہ ڈھونڈا گیا، کیوں اس وقت عوام الناس کو ایک ہی شخص کے نظریے جس کے اپنے مطابق میری رائے ایک دن کچھ ہوتی ہے اور دوسرے دن کچھ، ذہنی و فکری غلام بنا دیا گیا،
امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے ایک دن قاضی ابو یوسف کو فرمایا:
اے یعقوب (ابویوسف) تیری خرابی ہو،میری ہر بات نہ لکھا کر، میری آج ایک رائے ہوتی ہے اور کل بدل جاتی ہے۔ کل دوسری رائے ہوتی ہے پھر پرسوں وہ بھی بدل جاتی ہے(تاریخ بغداد 424/13)
اور پھر اسی چیز کا فتویٰ کیوں دیا گیا، جس چیز کے خلاف پہلے ہی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ رضی اللہ عنہما فتویٰ دے چکے ہیں:
سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ نےفرمایا
اما العالم فان اهتدي فلا تقلدوه دينكم ۔(حلیۃ الاولیاء ج5ص97)
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا
''لاتقلدوا دينكم الرجال''(السنن الکبری للبیہقی ج2 ص 10)
تم اپنےدین میں لوگوں کی تقلید نہ کرو
اور پھر اس پر مستزاد یہ کہ جس مقصد کے لئے بقول تلمیذ صاحب یہ انتطامی فتویٰ دیا گیا، یعنی تقویٰ کی کمی کو پورا کرنے اور نفس پرستی کے بڑھتے ہوئے رجحان کو روکنے کی خاطر، تو وہ اس سے بھی زیادہ اپنی خطرناک شکل و صورت اختیار کر گیا، اور لوگوں کے اس قدر خوفناک اقوال سامنے آئے:
کرخی حنفی (تقلیدی) کہتے ہیں:
"اصل یہ ہے کہ ہر آیت جو ہمارے ساتھیوں (فقہاء حنفیہ) کے خلاف ہے اسے منسوخیت پر محمول یا مرجوح سمجھا جائے گا، بہتر یہ ہے کہ تطبیق کرتے ہوئے اس کی تاویل کر لی جائے"(اصول کرخی ص29)
2:- تقلید شخصی کی وجہ سے احادیث صحیحہ کو پس پشت ڈال دیا جاتا ہےمثلاً: کرخی مذکور ایک اور اصول یہ بیان کرتے ہیں:
"اصل یہ ہے کہ ہر حدیث جو ہمارے ساتھیوں کے قول کے خلاف ہے تو اسے منسوخ یا اس جیسی دوسری روایت کے معارض سمجھا جائے گا پھر دوسری دلیل کی طرف رجوع کیا جائے گا" (اصول کرخی ص29 اصل 30)
یوسف بن موسیٰ الملطی الحنفی کہتا تھا:
"جو شخص امام بخاری کی کتاب (صحیح بخاری) پڑھتا ہے وہ زندیق ہو جاتا ہے"(شذرات الذہب ج7ص40َ)
3:- تقلید شخصی کی وجہ سے صحابہ اور دیگر سلف صالحین کی گواہیوں اور تحقیقات کو رد کرکے بعض اوقات علانیہ ان کی توہین بھی کی جاتی ہےمثلاً: حنفی تقلیدیوں کی کتاب اصولِ شاشی میں سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کو اجتہاد اور فتوی کے درجے سے باہر نکال کر اعلان کیا گیا ہے: "
وعلٰی ھذا ترک اصحابنا روایة ابی ھریرة" اور اسی (اصول) پر ہمارے ساتھیوں نے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت کو ترک کر دیا (اصول شاشی مع احسن الحواشی ص75) ایک حنفی تقلیدی نوجوان نے صدیوں پہلے بغداد کی جامع مسجد میں کہا تھا:
"
ابو ھریرة غیر مقبول الحدیث" ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث قابل قبول نہیں ہے(سیراعلام النبلاج2ص619,مجموع فتاوی ابن تیمیہ ج 4 ص 538)
آخر میں تلمیذ بھائی سے چند سوالات:
- تقلید شخصی کا فتویٰ انتظامی طور پر بھی کیوں دیا گیا، جبکہ تقلید کی مذمت پہلے صحابہ سے ثابت تھی؟
- اگر تقلید شخصی کا معاملہ اس قدر سہل ہے کہ قرآنی حروف پر اعراب لگانے جیسے معاملے سے تشبیہ رکھتا ہے تو کیوں تقلید کے اس قدر بھیانک نتائج برآمد ہوئے، جبکہ قرآنی حروف پر اعراب لگانے سے تو لوگوں کو آسانی ہوئی؟
- کیا تقویٰ کی کمی اور نفس پرستی کا شرعی علاج یہی ہے کہ اسے کسی معین شخص کا ذہنی و فکری غلام بنا دیا جائے؟
- اگر تقلید محض انتظامی فتویٰ تھا اور اس سے عقیدہ و عمل میں لغزش کی گنجائش نہیں تھی تو کیوں ابوحنیفہ کے قول سے اختلاف رکھنے والوں پر ذرے ذرے کی لعنت کی باتیں کی جاتی ہیں؟
سوالات اور بھی ہیں لیکن تلمیذ بھائی ان چند سوالوں کے ہی جوابات دے دیں، ہمیں ان سے کوئی بدگمانی نہیں۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو صراط مستقیم پر گامزن فرمائے آمین