• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مفتی تقی عثمانی صاحب کا اعتراف

تلمیذ

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 12، 2011
پیغامات
765
ری ایکشن اسکور
1,506
پوائنٹ
191
واقعی میرے بھائی یہ بہت بڑا تماشا ہے - اور اس میں ایک طرف کہا گیا کہ کہ تقلید کا مسئلہ شرعی نہیں اور دوسری طرف اسی تقلید میں صحیح احادیث کو چھوڑنے کا کہا گیا​
یہ تقی عثمانی صاحب نے کب کہا زرا وضاحت فرمائيے گا
وہاں صحیح کے الفاظ نہیں ہیں
 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,899
پوائنٹ
436
یہ تقی عثمانی صاحب نے کب کہا زرا وضاحت فرمائيے گا


شاہد آپ کی نظر کمزور ہے میرے پیارے بھائی تلمیذ پورا حوالہ دیا ہوا ہے اوپر - سکین پیج بھی لگا دیا ہے -
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,799
پوائنٹ
1,069
امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے اپنی تقلید کا حکم دیا ہے یا نہیں ۔

سئل أبو حنیفۃ إذا قلت قولا وکتاب اللہ یخالفہ: قال أترکوا قولی بکتاب اللہ قال إذا قلت قولا وحدیث رسول اللہ ﷺ یخالفہ قال اترکوا قولی بخبر الرسول ( عقد الجید ص۴۵)

امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ سے پوچھا گیا کہ اگرآپ کا کوئی قول اللہ تعالیٰ کی کتاب کے خلاف ہو تو کیا کریں فرمایا میرے قول کو چھوڑ دینا اللہ تعالیٰ کی کتاب کو لے لینا پھر کہا اگر آپ کا قول اللہ کے رسول ﷺ کی حدیث کے خلاف ہو تو ؟ فرمایا اسی طرح میرے قول کو چھوڑ دینا اللہ تعالیٰ کے رسول ﷺ کے فرمان کو لے لینا۔

اب دیکھتے ہیں کہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ خود بھی کسی کی تقلید کرتے تھے یا نہیں ۔

اني لا اقلد التابعی لأنھم رجال ونحن رجال ولا یصح تقلیدہم ( نور الأنوار ص۲۱۹)

ترجمہ: امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا فرمان ہے میں کسی تابعی کی تقلید نہیں کرتاکیونکہ وہ بھی ہماری طرح انسان ہیں اور انکی تقلید صحیح نہیں ہے۔

اسی طرح علامہ شامی حنفی لکھتے ہیں:۔

إذا صح الحدیث وکان علی خلاف المذھب عمل بالحدیث ویکون ذلک مذھبہ ولا یخرج مقلدہ عن کونہ حنفیا بالعمل بہ فقد صح عن ابي حنیفۃ أنہ قال اذا صح الحدیث فھو مذھبی ۔ (شرح عقود رسم المفتی لا بن عابدین ص۱۹)

جب صحیح حدیث ملے اور وہ حدیث ہمارے مذہب کے خلاف ہو پھر حدیث ہی پر عمل کیا جائے گا اور وہی امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا مذہب ہو گا اور اس صحیح حدیث پر عمل کرنے کی وجہ سے کوئی ـحنفیت سے نہیں نکلے گا کیونکہ امام صاحب کا فرمان ہے کہ جب حدیث صحیح ہو تو وہی میرا مذہب ہو گا۔

اسی طرح اور آگے جا کر لکھتے ہیں ۔

فاذا ظھر لہ صحۃ مذھب غیر إمامہ فی واقعۃ لم یجزلہ أن یقلد إمامہ (شرح عقود رسم المفتی ص۲۴)

ترجمہ : اگر کسی کے لئے اپنے امام کے علاوہ کسی اور امام کا مسلک صحیح ظاہر ہو جائے چاہے کسی بھی واقعہ میں ہو تو پھر اس کو اپنے امام کی تقلید کرنی جائز نہیں ہے۔

یہ تمام باتیں دلائل کے ساتھ پڑھنے کے بعد بھی اگر کسی مقلد کو تسلی نہ ہو اور اپنی اس تقلید سے توبہ نہ کرے تو پھر ہم اس کے بارے میں وہی کہیں گے جو کچھ علامہ عبد الحیی حنفی لکھنوی رحمہ اللہ نے کہا ہے۔

قد تعصبوا فی الحنفیۃ تعصبا شدیدا ً والتزموا بما فی الفتاوی التزاماً شدیداً وان وجدو ا حدیثا صحیحا أو أثرا صریحاً علی خلافہ وزعموا أنہ لو کان ھذا الحدیث صحیحا لأخذ صاحب المذھب ولم یحکم بخلافہ وھذا جھل منھم (النفع الکبیر ص۱۴۵)

ترجمہ: احناف کی ایک جماعت سخت تعصب میں مبتلاء ہے اور سختی سے کتب فتاویٰ کے ساتھ چمٹی ہوئی ہے اور اگر ان لوگوں کو کوئی صحیح حدیث یا کوئی صریح اثر مل جاتا ہے جو ان کے مذہب کے خلاف ہو تو وہ یہ کہتے ہیں کہ اگر یہ حدیث صحیح ہوتی تو امام صاحب ضرور اس کے مطابق فتویٰ دیتے اور اس کے خلاف فیصلہ نہ دیتے اور یہ ان لوگوں کی جہالت ہے۔

اللہ تعالیٰ ھمارے مقلدین بھائیوں کو دین کی صحیح سمجھ دے - آمین
 

تلمیذ

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 12، 2011
پیغامات
765
ری ایکشن اسکور
1,506
پوائنٹ
191
شاہد آپ کی نظر کمزور ہے میرے پیارے بھائی تلمیذ پورا حوالہ دیا ہوا ہے اوپر - سکین پیج بھی لگا دیا ہے -
آپ نے کہا
واقعی میرے بھائی یہ بہت بڑا تماشا ہے - اور اس میں ایک طرف کہا گیا کہ کہ تقلید کا مسئلہ شرعی نہیں اور دوسری طرف اسی تقلید میں صحیح احادیث کو چھوڑنے کا کہا گیا
تقی عثمانی صاحب کو کتاب کا صفحہ اسکین کرکے لگایا اس میں حدیث کے ساتھ صحیح کا لفظ نہیں
آپ زرا وضاحت فرمائيں گے
 

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
2,011
ری ایکشن اسکور
6,264
پوائنٹ
437
ثبوت درکار ہے
نجانے کیوں آپ لوگ ہر بات جانتے ہوئے بھی انجان بن جاتے ہو؟ شاید دھوکہ دینے کا یہ بھی ایک انداز ہے۔
لیجئے ثبوت حاضر ہے اور آپ بھی اسے پہلے ہی سے اچھی طرح جانتے ہیں لیکن ہمارے منہ سے اپنا تضاد اور دوغلہ پن سننا چاہتے ہیں تو سنیے: خلیل احمد سہانپوری لکھتے ہیں: اس زمانہ میں نہایت ضروری ہے کہ چاروں اماموں میں سے کسی ایک کی تقلید کی جاوے بلکہ واجب ہے۔(المہند علی المفند،ص 43)

کسی عمل کو واجب کہنا اسے شرعی حکم بنا دیتا ہے مطلب یہ ہوا کہ خلیل احمد سہانپوری اور ان تمام اکابرین دیوبند کے نزدیک جن کی تصدیقات المہند علی المفند پر موجود ہیں تقلید شرعی حکم ہے لیکن تقی عثمانی صاحب کہتے ہیں کہ نہیں تقلید شرعی حکم نہیں تھا بلکہ انتظامی فتویٰ تھا۔ اب آپ اپنے تاویلات کے فن کو آزمائیں اور اسکی کوئی باطل اور فاسد تاویل کرکے وقتی طور پر اپنی اور دیوبندیوں کی جان چھڑائیں۔
 

تلمیذ

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 12، 2011
پیغامات
765
ری ایکشن اسکور
1,506
پوائنٹ
191
نجانے کیوں آپ لوگ ہر بات جانتے ہوئے بھی انجان بن جاتے ہو؟ شاید دھوکہ دینے کا یہ بھی ایک انداز ہے۔
لیجئے ثبوت حاضر ہے اور آپ بھی اسے پہلے ہی سے اچھی طرح جانتے ہیں لیکن ہمارے منہ سے اپنا تضاد اور دوغلہ پن سننا چاہتے ہیں تو سنیے: خلیل احمد سہانپوری لکھتے ہیں: اس زمانہ میں نہایت ضروری ہے کہ چاروں اماموں میں سے کسی ایک کی تقلید کی جاوے بلکہ واجب ہے۔(المہند علی المفند،ص 43)
کسی عمل کو واجب کہنا اسے شرعی حکم بنا دیتا ہے مطلب یہ ہوا کہ خلیل احمد سہانپوری اور ان تمام اکابرین دیوبند کے نزدیک جن کی تصدیقات المہند علی المفند پر موجود ہیں تقلید شرعی حکم ہے لیکن تقی عثمانی صاحب کہتے ہیں کہ نہیں تقلید شرعی حکم نہیں تھا بلکہ انتظامی فتویٰ تھا
بعض احکامات تو وہ ہوتے ہیں جن کا وجوب (لزوم ) قرآن وحدیث سے واضح ثابت ہوتا ہے مثلا نماز ، روزہ داڑھی کا رکھنا وغیرہ
بعض احکامات وہ ہوتے جن کا جواز اور مباح ہونے کا تو ثبوت صحابہ سے ملتا ہے لیکن ان کے وجوب کا ثبوت صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین سے نہیں ملتا بلکہ ان کا وجوب زمانہ کے تغير کی وجہ سے ہوا
مثلا تحریری قرآن میں اعراب و نقاط پہلے نہ تھے بلکہ اس کا التزام امت نے بعد میں کیا
مثلا عربی کے صرف و نحو کے اصول سیکھنا ۔ صحابہ کرام نے یہ اصول سیکہھنے کا عمل نہیں کیا کیوں کہ عربی ان کی مادری زبان تھی ، یہ اصول بعد میں انتظامی ضرورت کے تحت اخذ کیے گے اور انتظامی ضرورت کے ماتحت ترجمہ و تفسیر وغیرہ دیگر ضروریات کے لئیے واجب قرار دیے گئے
اس کے علاوہ اور بھی امور ہیں جو شریعت نے واجب قرار نہیں دیا لیکن انتظامی ضروررت ضرورت کے ماتحت وہ امور واجب قرار پائے
تقلید شخصی موخر الذکر قسم سے ہے
تقلید شخصی کا جواز (جیسا کہ تقی عثمانی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب میں ثابت کیا ہے ) تو تھا لیکن اس کا وجوب کا کوئی امر نہ تھا۔ زمانے کے تغير کی وجہ سے جب لوگوں ميں تقوی کم ہوگيا اور نفس پرستی بڑھ گئی تو انتظامی طور پر اس کے وجوب کا فتوی دیا گيا
اب تقی عثمانی رحمہ اللہ کا کہنے کا مقصد تھا کہ کہ یہ فتوی (وجوب کا ) انتظامی مصلحت کے ماتحت تھا اور (نماز ، روزہ وغیرہ ) کی طرح کوئی شرعی حکم نہیں تھا بلکہ اعراب و صرف و نحو کے طرح ضرورت کے ماتحت واجب قرار دیا گيا
المھند علی المفند میں بھی وجوب کی بات کی گئی تو احناف بھی وجوب کے ہی قائل ہیں اور تقی عثمانی صاحب نے بھی تقلید شخصی کے وجوب کی بات کی ہے لیکن یہ وجوب بھی انتظامی مطلحت کی بنا پرتھا
المہند علی المفند نے ایسی کچھ نہیں کہا کہ یہ حکم (نماز و روزہ وغیرہ) کی طرح شرعی حکم تھا
۔ اب آپ اپنے تاویلات کے فن کو آزمائیں اور اسکی کوئی باطل اور فاسد تاویل کرکے وقتی طور پر اپنی اور دیوبندیوں کی جان چھڑائیں
اللہ تبارک و تعالی ہمیں ایک دوسرے سے بد گمانی سے بچائے اور مجھ سمیت ہم سب کو دینی مذاکرات میں اپنا اسلوب و لب و لہجہ اسلامی تعلیمات کے مطابق اپنانے کی توفیق عطا فرمائے
آمیں
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,859
ری ایکشن اسکور
41,096
پوائنٹ
1,155
بعض احکامات تو وہ ہوتے ہیں جن کا وجوب (لزوم ) قرآن وحدیث سے واضح ثابت ہوتا ہے مثلا نماز ، روزہ داڑھی کا رکھنا وغیرہ
بعض احکامات وہ ہوتے جن کا جواز اور مباح ہونے کا تو ثبوت صحابہ سے ملتا ہے لیکن ان کے وجوب کا ثبوت صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین سے نہیں ملتا بلکہ ان کا وجوب زمانہ کے تغير کی وجہ سے ہوا
مثلا تحریری قرآن میں اعراب و نقاط پہلے نہ تھے بلکہ اس کا التزام امت نے بعد میں کیا
مثلا عربی کے صرف و نحو کے اصول سیکھنا ۔ صحابہ کرام نے یہ اصول سیکہھنے کا عمل نہیں کیا کیوں کہ عربی ان کی مادری زبان تھی ، یہ اصول بعد میں انتظامی ضرورت کے تحت اخذ کیے گے اور انتظامی ضرورت کے ماتحت ترجمہ و تفسیر وغیرہ دیگر ضروریات کے لئیے واجب قرار دیے گئے
اس کے علاوہ اور بھی امور ہیں جو شریعت نے واجب قرار نہیں دیا لیکن انتظامی ضروررت ضرورت کے ماتحت وہ امور واجب قرار پائے
تقلید شخصی موخر الذکر قسم سے ہے
تقلید شخصی کا جواز (جیسا کہ تقی عثمانی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب میں ثابت کیا ہے ) تو تھا لیکن اس کا وجوب کا کوئی امر نہ تھا۔ زمانے کے تغير کی وجہ سے جب لوگوں ميں تقوی کم ہوگيا اور نفس پرستی بڑھ گئی تو انتظامی طور پر اس کے وجوب کا فتوی دیا گيا
اب تقی عثمانی رحمہ اللہ کا کہنے کا مقصد تھا کہ کہ یہ فتوی (وجوب کا ) انتظامی مصلحت کے ماتحت تھا اور (نماز ، روزہ وغیرہ ) کی طرح کوئی شرعی حکم نہیں تھا بلکہ اعراب و صرف و نحو کے طرح ضرورت کے ماتحت واجب قرار دیا گيا
المھند علی المفند میں بھی وجوب کی بات کی گئی تو احناف بھی وجوب کے ہی قائل ہیں اور تقی عثمانی صاحب نے بھی تقلید شخصی کے وجوب کی بات کی ہے لیکن یہ وجوب بھی انتظامی مطلحت کی بنا پرتھا
المہند علی المفند نے ایسی کچھ نہیں کہا کہ یہ حکم (نماز و روزہ وغیرہ) کی طرح شرعی حکم تھا

اللہ تبارک و تعالی ہمیں ایک دوسرے سے بد گمانی سے بچائے اور مجھ سمیت ہم سب کو دینی مذاکرات میں اپنا اسلوب و لب و لہجہ اسلامی تعلیمات کے مطابق اپنانے کی توفیق عطا فرمائے
آمیں
تلمیذ بھائی! معاملہ اس قدر آسان نہیں ہے، جس قدر آپ بنا کر پیش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، اگر تقلید کا فتویٰ محض قرآنی حروف پر اعراب لگانے کی طرح ایک انتظامی فتویٰ تھا تو کیا وجہ ہے کہ علماء سلف کو تقلیدی نتائج کی اس قدر سنگینی کو مدنظر رکھ کر اس قسم کے فتاویٰ جات دینے کی نوبت محسوس ہوئی۔ ملاحظہ فرمائیں:
1:- امام ابن قیم رحمہ اللہ" القصیدۃ النونیۃ" میں فرماتے ہیں:
إذ أجمع العلماء أن مقلدا للناس والأعمى هما أخوان والعلم معرفة الهدى بدليله ما ذاك والتقليد مستويان
"علماء کا اس بات پر اجماع ہے کہ مقلد اور اندھا دونوں برابر ہیں اور علم دلیل کی بنیاد پرمسئلہ سمجھنے کو کہتے ہیں جبکہ کسی کی رائے پر چلنے کا نام تقلید ہے اور اس رائے پر چلنے والے کو یہ معلوم بھی نہ ہو کہ یہ رائے حق پر مبنی ہے یا خطا پر"
برادر! آپ نے غور کیا، کیا قرآنی حروف پر اعراب لگانے کے بھی اس قدر بھیانک نتائج برآمد ہوئے؟ بلکہ لوگوں کو آسانی ہوئی، کیونکہ وہ ان لوگوں کی کوشش تھی جو دین اسلام کے ساتھ مخلص تھے، لیکن کیا وجہ ہے کہ تقلید جو بقول آپ کے محض انتظامی فتویٰ تھا، کے پیش نظر امام ابن قیم رحمہ اللہ کو مقلد اور اندھے شخص کو ایک ہی صف میں کھڑا کرنا مناسب سمجھا؟
2:- امام قرطبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
"یعنی تقلید نہ تو علم کا راستہ ہےاور نہ ہی اصول و فروع میں علم کی طرف رہنمائی کرتی ہے اور جو علماء تقلید کو واجب سمجھتے ہیں ہمارے خیال میں وہ قطعی طور پرعقل سے عاری ہیں" (تفسیر القرطبی ۲/۲۱۲)
اگر محض تقلید انتظامی فتویٰ تھا تو اس قدر خوفناک نتائج کو دیکھ کر امام قرطبی رحمہ اللہ نے اس کو واجب سمجھنے والوں کو عقل سے ہی عاری قرار دے دیا، اگر آج کے مقلدین ابی حنیفہ کی حالت زار ملاحظہ کر لیتے جو تقلید کو سینے سے لگائے بیٹھے ہیں تو میرے خیال میں اس سے زیادہ سخت موقف اپناتے۔ واللہ اعلم
3:- امام طحاوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں
لا یقلد الا غبی او عصبی
تقلید صرف وہی کرتا ہے جو غبی (جاہل) ہو یا جس کے اعصاب خراب ہوں (لسان المیزان ۱/۲۸۰)
یہ کیسا انتظامی فتویٰ تھا جس پر عمل کرنے والے جاہل اور اعصاب کی خرابی میں مبتلا قرار پائے؟
4:- زمحشری فرماتے ہیں:
ان کان للضلال ام فالتقلید امھ
اگر گمراہی کی کوئی ماں ہوتی تو تقلید اس کی بھی ماں ہوتی (اطواق الذہب۷۴)
تلمیذ بھائی! آپ نے ملاحظہ فرمایا، کہ کس طرح تقلید کے خوفناک نتائج کو دیکھ کر علماء سلف نے اس کے خلاف سخت بیانات دئیے، بقول آپ کے (بلکہ اعراب و صرف و نحو کے طرح ضرورت کے ماتحت واجب قرار دیا گيا) تو اعراب اور صرف و نحو کے علوم سے کبھی وہ نتائج برآمد نہیں ہوئے، جو تقلید سے ہوئے ہیں، اس سے ظاہر ہے کہ آپ کی ان علوم سے تقلید کو تشبیہ دینا باطل ہے۔ آپ مزید تقلید شخصی کے حق میں لکھتے ہیں:
زمانے کے تغير کی وجہ سے جب لوگوں ميں تقوی کم ہوگيا اور نفس پرستی بڑھ گئی تو انتظامی طور پر اس کے وجوب کا فتوی دیا گيا
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ تقویٰ کی کمی اور نفس پرستی میں قوم کا مبتلا ہوجانا کیا اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ اسے کسی ایک معین شخص کا ذہنی اور فکری غلام بنا دیا جائے، کیا تقویٰ کی کمی اور نفس پرستی کا کوئی حل علمائے احناف کو کتاب و سنت میں نظر نہیں آیا جو تقلید شخصی اور لوگوں کو قرآن و سنت کی تحقیق سے ہٹانے میں نظر آیا؟ انسانوں کی اصلاح اور تزکیہ کے لئے ہی تو آخری پیغمبر جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھیجا گیا تھا:
لَقَدْ مَنَّ اللَّـهُ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ إِذْ بَعَثَ فِيهِمْ رَسُولًا مِّنْ أَنفُسِهِمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَإِن كَانُوا مِن قَبْلُ لَفِي ضَلَالٍ مُّبِينٍ ﴿١٦٤﴾۔۔۔سورة آل عمران
ترجمه: بے شک مسلمانوں پر اللہ تعالیٰ کا بڑا احسان ہے کہ ان ہی میں سے ایک رسول ان میں بھیجا، جو انہیں اس کی آیتیں پڑھ کر سناتا ہے اور انہیں پاک کرتا ہے اور انہیں کتاب اور حکمت سکھاتا ہے، یقیناً یہ سب اس سے پہلے کھلی گمراہی میں تھے
اس آیت پر غور کریں، بلکہ اس آیت کے آخری حصے پر غور کریں ( وَإِن كَانُوا مِن قَبْلُ لَفِي ضَلَالٍ مُّبِينٍ) جس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث کئے گئے اس وقت لوگ تقویٰ کی کمی تو دور کی بات بلکہ کھلی گمراہی میں مبتلا تھے، اس دور میں نفس پرستی اور خواہش پرستی انتہا کو پہنچی ہوئی تھی، لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو روشن دین کے ساتھ اللہ نے بھیجا اور اس معاشرے کی بھرپور اصلاح کی، نہ صرف اس معاشرے کی اصلاح ہوئی، بلکہ اب قیامت تک اگر کسی قوم یا فرد کی اصلاح ممکن ہے تو وہ اللہ کی کتاب اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ میں ہے۔ تو جس وقت ابوحنیفہ کے دور میں لوگ تقویٰ کی کمی اور نفس پرستی کے خوفناک مرض میں مبتلا ہوئے اس وقت کتاب و سنت میں ان کا علاج کیوں نہ ڈھونڈا گیا، کیوں اس وقت عوام الناس کو ایک ہی شخص کے نظریے جس کے اپنے مطابق میری رائے ایک دن کچھ ہوتی ہے اور دوسرے دن کچھ، ذہنی و فکری غلام بنا دیا گیا،
امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے ایک دن قاضی ابو یوسف کو فرمایا:
اے یعقوب (ابویوسف) تیری خرابی ہو،میری ہر بات نہ لکھا کر، میری آج ایک رائے ہوتی ہے اور کل بدل جاتی ہے۔ کل دوسری رائے ہوتی ہے پھر پرسوں وہ بھی بدل جاتی ہے(تاریخ بغداد 424/13)
اور پھر اسی چیز کا فتویٰ کیوں دیا گیا، جس چیز کے خلاف پہلے ہی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ رضی اللہ عنہما فتویٰ دے چکے ہیں:
سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ نےفرمایا
اما العالم فان اهتدي فلا تقلدوه دينكم ۔(حلیۃ الاولیاء ج5ص97)
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا
''لاتقلدوا دينكم الرجال''(السنن الکبری للبیہقی ج2 ص 10)
تم اپنےدین میں لوگوں کی تقلید نہ کرو
اور پھر اس پر مستزاد یہ کہ جس مقصد کے لئے بقول تلمیذ صاحب یہ انتطامی فتویٰ دیا گیا، یعنی تقویٰ کی کمی کو پورا کرنے اور نفس پرستی کے بڑھتے ہوئے رجحان کو روکنے کی خاطر، تو وہ اس سے بھی زیادہ اپنی خطرناک شکل و صورت اختیار کر گیا، اور لوگوں کے اس قدر خوفناک اقوال سامنے آئے:
کرخی حنفی (تقلیدی) کہتے ہیں:
"اصل یہ ہے کہ ہر آیت جو ہمارے ساتھیوں (فقہاء حنفیہ) کے خلاف ہے اسے منسوخیت پر محمول یا مرجوح سمجھا جائے گا، بہتر یہ ہے کہ تطبیق کرتے ہوئے اس کی تاویل کر لی جائے"(اصول کرخی ص29)
2:- تقلید شخصی کی وجہ سے احادیث صحیحہ کو پس پشت ڈال دیا جاتا ہےمثلاً: کرخی مذکور ایک اور اصول یہ بیان کرتے ہیں:
"اصل یہ ہے کہ ہر حدیث جو ہمارے ساتھیوں کے قول کے خلاف ہے تو اسے منسوخ یا اس جیسی دوسری روایت کے معارض سمجھا جائے گا پھر دوسری دلیل کی طرف رجوع کیا جائے گا" (اصول کرخی ص29 اصل 30)
یوسف بن موسیٰ الملطی الحنفی کہتا تھا:
"جو شخص امام بخاری کی کتاب (صحیح بخاری) پڑھتا ہے وہ زندیق ہو جاتا ہے"(شذرات الذہب ج7ص40َ)
3:- تقلید شخصی کی وجہ سے صحابہ اور دیگر سلف صالحین کی گواہیوں اور تحقیقات کو رد کرکے بعض اوقات علانیہ ان کی توہین بھی کی جاتی ہےمثلاً: حنفی تقلیدیوں کی کتاب اصولِ شاشی میں سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کو اجتہاد اور فتوی کے درجے سے باہر نکال کر اعلان کیا گیا ہے: "وعلٰی ھذا ترک اصحابنا روایة ابی ھریرة" اور اسی (اصول) پر ہمارے ساتھیوں نے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت کو ترک کر دیا (اصول شاشی مع احسن الحواشی ص75) ایک حنفی تقلیدی نوجوان نے صدیوں پہلے بغداد کی جامع مسجد میں کہا تھا:
"ابو ھریرة غیر مقبول الحدیث" ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث قابل قبول نہیں ہے(سیراعلام النبلاج2ص619,مجموع فتاوی ابن تیمیہ ج 4 ص 538)

آخر میں تلمیذ بھائی سے چند سوالات:
  • تقلید شخصی کا فتویٰ انتظامی طور پر بھی کیوں دیا گیا، جبکہ تقلید کی مذمت پہلے صحابہ سے ثابت تھی؟
  • اگر تقلید شخصی کا معاملہ اس قدر سہل ہے کہ قرآنی حروف پر اعراب لگانے جیسے معاملے سے تشبیہ رکھتا ہے تو کیوں تقلید کے اس قدر بھیانک نتائج برآمد ہوئے، جبکہ قرآنی حروف پر اعراب لگانے سے تو لوگوں کو آسانی ہوئی؟
  • کیا تقویٰ کی کمی اور نفس پرستی کا شرعی علاج یہی ہے کہ اسے کسی معین شخص کا ذہنی و فکری غلام بنا دیا جائے؟
  • اگر تقلید محض انتظامی فتویٰ تھا اور اس سے عقیدہ و عمل میں لغزش کی گنجائش نہیں تھی تو کیوں ابوحنیفہ کے قول سے اختلاف رکھنے والوں پر ذرے ذرے کی لعنت کی باتیں کی جاتی ہیں؟
سوالات اور بھی ہیں لیکن تلمیذ بھائی ان چند سوالوں کے ہی جوابات دے دیں، ہمیں ان سے کوئی بدگمانی نہیں۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو صراط مستقیم پر گامزن فرمائے آمین
 

تلمیذ

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 12، 2011
پیغامات
765
ری ایکشن اسکور
1,506
پوائنٹ
191
تلمیذ بھائی! معاملہ اس قدر آسان نہیں ہے، جس قدر آپ بنا کر پیش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، اگر تقلید کا فتویٰ محض قرآنی حروف پر اعراب لگانے کی طرح ایک انتظامی فتویٰ تھا تو کیا وجہ ہے کہ علماء سلف کو تقلیدی نتائج کی اس قدر سنگینی کو مدنظر رکھ کر اس قسم کے فتاویٰ جات دینے کی نوبت محسوس ہوئی۔ ملاحظہ فرمائیں:
1:- امام ابن قیم رحمہ اللہ" القصیدۃ النونیۃ" میں فرماتے ہیں:
إذ أجمع العلماء أن مقلدا للناس والأعمى هما أخوان والعلم معرفة الهدى بدليله ما ذاك والتقليد مستويان
"علماء کا اس بات پر اجماع ہے کہ مقلد اور اندھا دونوں برابر ہیں اور علم دلیل کی بنیاد پرمسئلہ سمجھنے کو کہتے ہیں جبکہ کسی کی رائے پر چلنے کا نام تقلید ہے اور اس رائے پر چلنے والے کو یہ معلوم بھی نہ ہو کہ یہ رائے حق پر مبنی ہے یا خطا پر"
برادر! آپ نے غور کیا، کیا قرآنی حروف پر اعراب لگانے کے بھی اس قدر بھیانک نتائج برآمد ہوئے؟ بلکہ لوگوں کو آسانی ہوئی، کیونکہ وہ ان لوگوں کی کوشش تھی جو دین اسلام کے ساتھ مخلص تھے، لیکن کیا وجہ ہے کہ تقلید جو بقول آپ کے محض انتظامی فتویٰ تھا، کے پیش نظر امام ابن قیم رحمہ اللہ کو مقلد اور اندھے شخص کو ایک ہی صف میں کھڑا کرنا مناسب سمجھا؟
2:- امام قرطبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
"یعنی تقلید نہ تو علم کا راستہ ہےاور نہ ہی اصول و فروع میں علم کی طرف رہنمائی کرتی ہے اور جو علماء تقلید کو واجب سمجھتے ہیں ہمارے خیال میں وہ قطعی طور پرعقل سے عاری ہیں" (تفسیر القرطبی ۲/۲۱۲)
اگر محض تقلید انتظامی فتویٰ تھا تو اس قدر خوفناک نتائج کو دیکھ کر امام قرطبی رحمہ اللہ نے اس کو واجب سمجھنے والوں کو عقل سے ہی عاری قرار دے دیا، اگر آج کے مقلدین ابی حنیفہ کی حالت زار ملاحظہ کر لیتے جو تقلید کو سینے سے لگائے بیٹھے ہیں تو میرے خیال میں اس سے زیادہ سخت موقف اپناتے۔ واللہ اعلم
3:- امام طحاوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں
لا یقلد الا غبی او عصبی
تقلید صرف وہی کرتا ہے جو غبی (جاہل) ہو یا جس کے اعصاب خراب ہوں (لسان المیزان ۱/۲۸۰)
یہ کیسا انتظامی فتویٰ تھا جس پر عمل کرنے والے جاہل اور اعصاب کی خرابی میں مبتلا قرار پائے؟
4:- زمحشری فرماتے ہیں:
ان کان للضلال ام فالتقلید امھ
اگر گمراہی کی کوئی ماں ہوتی تو تقلید اس کی بھی ماں ہوتی (اطواق الذہب۷۴)
تلمیذ بھائی! آپ نے ملاحظہ فرمایا، کہ کس طرح تقلید کے خوفناک نتائج کو دیکھ کر علماء سلف نے اس کے خلاف سخت بیانات دئیے، بقول آپ کے (بلکہ اعراب و صرف و نحو کے طرح ضرورت کے ماتحت واجب قرار دیا گيا) تو اعراب اور صرف و نحو کے علوم سے کبھی وہ نتائج برآمد نہیں ہوئے، جو تقلید سے ہوئے ہیں، اس سے ظاہر ہے کہ آپ کی ان علوم سے تقلید کو تشبیہ دینا باطل ہے۔ آپ مزید تقلید شخصی کے حق میں لکھتے ہیں:

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ تقویٰ کی کمی اور نفس پرستی میں قوم کا مبتلا ہوجانا کیا اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ اسے کسی ایک معین شخص کا ذہنی اور فکری غلام بنا دیا جائے، کیا تقویٰ کی کمی اور نفس پرستی کا کوئی حل علمائے احناف کو کتاب و سنت میں نظر نہیں آیا جو تقلید شخصی اور لوگوں کو قرآن و سنت کی تحقیق سے ہٹانے میں نظر آیا؟ انسانوں کی اصلاح اور تزکیہ کے لئے ہی تو آخری پیغمبر جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھیجا گیا تھا:
لَقَدْ مَنَّ اللَّـهُ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ إِذْ بَعَثَ فِيهِمْ رَسُولًا مِّنْ أَنفُسِهِمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَإِن كَانُوا مِن قَبْلُ لَفِي ضَلَالٍ مُّبِينٍ ﴿١٦٤﴾۔۔۔سورة آل عمران
ترجمه: بے شک مسلمانوں پر اللہ تعالیٰ کا بڑا احسان ہے کہ ان ہی میں سے ایک رسول ان میں بھیجا، جو انہیں اس کی آیتیں پڑھ کر سناتا ہے اور انہیں پاک کرتا ہے اور انہیں کتاب اور حکمت سکھاتا ہے، یقیناً یہ سب اس سے پہلے کھلی گمراہی میں تھے
اس آیت پر غور کریں، بلکہ اس آیت کے آخری حصے پر غور کریں ( وَإِن كَانُوا مِن قَبْلُ لَفِي ضَلَالٍ مُّبِينٍ) جس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث کئے گئے اس وقت لوگ تقویٰ کی کمی تو دور کی بات بلکہ کھلی گمراہی میں مبتلا تھے، اس دور میں نفس پرستی اور خواہش پرستی انتہا کو پہنچی ہوئی تھی، لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو روشن دین کے ساتھ اللہ نے بھیجا اور اس معاشرے کی بھرپور اصلاح کی، نہ صرف اس معاشرے کی اصلاح ہوئی، بلکہ اب قیامت تک اگر کسی قوم یا فرد کی اصلاح ممکن ہے تو وہ اللہ کی کتاب اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ میں ہے۔ تو جس وقت ابوحنیفہ کے دور میں لوگ تقویٰ کی کمی اور نفس پرستی کے خوفناک مرض میں مبتلا ہوئے اس وقت کتاب و سنت میں ان کا علاج کیوں نہ ڈھونڈا گیا، کیوں اس وقت عوام الناس کو ایک ہی شخص کے نظریے جس کے اپنے مطابق میری رائے ایک دن کچھ ہوتی ہے اور دوسرے دن کچھ، ذہنی و فکری غلام بنا دیا گیا،
امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے ایک دن قاضی ابو یوسف کو فرمایا:
اے یعقوب (ابویوسف) تیری خرابی ہو،میری ہر بات نہ لکھا کر، میری آج ایک رائے ہوتی ہے اور کل بدل جاتی ہے۔ کل دوسری رائے ہوتی ہے پھر پرسوں وہ بھی بدل جاتی ہے(تاریخ بغداد 424/13)
اور پھر اسی چیز کا فتویٰ کیوں دیا گیا، جس چیز کے خلاف پہلے ہی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ رضی اللہ عنہما فتویٰ دے چکے ہیں:
سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ نےفرمایا
اما العالم فان اهتدي فلا تقلدوه دينكم ۔(حلیۃ الاولیاء ج5ص97)
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا
''لاتقلدوا دينكم الرجال''(السنن الکبری للبیہقی ج2 ص 10)
تم اپنےدین میں لوگوں کی تقلید نہ کرو
اور پھر اس پر مستزاد یہ کہ جس مقصد کے لئے بقول تلمیذ صاحب یہ انتطامی فتویٰ دیا گیا، یعنی تقویٰ کی کمی کو پورا کرنے اور نفس پرستی کے بڑھتے ہوئے رجحان کو روکنے کی خاطر، تو وہ اس سے بھی زیادہ اپنی خطرناک شکل و صورت اختیار کر گیا، اور لوگوں کے اس قدر خوفناک اقوال سامنے آئے:
کرخی حنفی (تقلیدی) کہتے ہیں:
"اصل یہ ہے کہ ہر آیت جو ہمارے ساتھیوں (فقہاء حنفیہ) کے خلاف ہے اسے منسوخیت پر محمول یا مرجوح سمجھا جائے گا، بہتر یہ ہے کہ تطبیق کرتے ہوئے اس کی تاویل کر لی جائے"(اصول کرخی ص29)
2:- تقلید شخصی کی وجہ سے احادیث صحیحہ کو پس پشت ڈال دیا جاتا ہےمثلاً: کرخی مذکور ایک اور اصول یہ بیان کرتے ہیں:
"اصل یہ ہے کہ ہر حدیث جو ہمارے ساتھیوں کے قول کے خلاف ہے تو اسے منسوخ یا اس جیسی دوسری روایت کے معارض سمجھا جائے گا پھر دوسری دلیل کی طرف رجوع کیا جائے گا" (اصول کرخی ص29 اصل 30)
یوسف بن موسیٰ الملطی الحنفی کہتا تھا:
"جو شخص امام بخاری کی کتاب (صحیح بخاری) پڑھتا ہے وہ زندیق ہو جاتا ہے"(شذرات الذہب ج7ص40َ)
3:- تقلید شخصی کی وجہ سے صحابہ اور دیگر سلف صالحین کی گواہیوں اور تحقیقات کو رد کرکے بعض اوقات علانیہ ان کی توہین بھی کی جاتی ہےمثلاً: حنفی تقلیدیوں کی کتاب اصولِ شاشی میں سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کو اجتہاد اور فتوی کے درجے سے باہر نکال کر اعلان کیا گیا ہے: "وعلٰی ھذا ترک اصحابنا روایة ابی ھریرة" اور اسی (اصول) پر ہمارے ساتھیوں نے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت کو ترک کر دیا (اصول شاشی مع احسن الحواشی ص75) ایک حنفی تقلیدی نوجوان نے صدیوں پہلے بغداد کی جامع مسجد میں کہا تھا:
"ابو ھریرة غیر مقبول الحدیث" ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث قابل قبول نہیں ہے(سیراعلام النبلاج2ص619,مجموع فتاوی ابن تیمیہ ج 4 ص 538)

آخر میں تلمیذ بھائی سے چند سوالات:
  • تقلید شخصی کا فتویٰ انتظامی طور پر بھی کیوں دیا گیا، جبکہ تقلید کی مذمت پہلے صحابہ سے ثابت تھی؟
  • اگر تقلید شخصی کا معاملہ اس قدر سہل ہے کہ قرآنی حروف پر اعراب لگانے جیسے معاملے سے تشبیہ رکھتا ہے تو کیوں تقلید کے اس قدر بھیانک نتائج برآمد ہوئے، جبکہ قرآنی حروف پر اعراب لگانے سے تو لوگوں کو آسانی ہوئی؟
  • کیا تقویٰ کی کمی اور نفس پرستی کا شرعی علاج یہی ہے کہ اسے کسی معین شخص کا ذہنی و فکری غلام بنا دیا جائے؟
  • اگر تقلید محض انتظامی فتویٰ تھا اور اس سے عقیدہ و عمل میں لغزش کی گنجائش نہیں تھی تو کیوں ابوحنیفہ کے قول سے اختلاف رکھنے والوں پر ذرے ذرے کی لعنت کی باتیں کی جاتی ہیں؟
سوالات اور بھی ہیں لیکن تلمیذ بھائی ان چند سوالوں کے ہی جوابات دے دیں، ہمیں ان سے کوئی بدگمانی نہیں۔

اللہ تعالیٰ ہم سب کو صراط مستقیم پر گامزن فرمائے آمین
تقلید ایک ایسا موضوع ہے جس کی مدح یا مذمت میں جتنا کچھ لکھا گيا ہے اس کو جمع کیا جائے تو ایک مکتبہ بن سکتا ہے ۔ یہاں ہمارا موضوع تقلید کی مدح یا مذمت کرنا نہیں اور نہ ہی تقلید شخصی کی فوائد یا مفاسد پر بحث کرنا اس تھریڈ کا موضوع ہے
یہاں صاحب مضمون نے تقی عثمانی رحمہ اللہ کی کتاب سے اقتباس لے کر اعتراض کیا کہ تقی عثمانی رحمہ اللہ نے تقلید شخصی کی تعریف کرتے ہوئے جو موقف اپنایا وہ احناف کا موقف نہیں اور بقول صاحب مضمون تقی عثمانی صاحب نے اعتراف کیا کہ احناف کا موقف غلط تھا
کیا تقی عثمانی صاحب نے تقلید شخصی کے متعلق لکھتے ہوئے حنفی موقف سے انحراف کیا یا نہیں ، یہ اس تھریڈ کا موضوع ہے ۔
موضوع سے متعلق آپ کی پوسٹ کا انتظار رہے گا
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,553
پوائنٹ
304
السلام و علیکم و رحمت الله -

میرے خیال میں مقلدین (خاص کر احناف) اگر اس لفظ "تقلید " کے صرف معنی پر غور کرلیں تو شاید ممکن ہے کہ مسلہ حل ہو جائے- اور ان پر حق واضح ہو جائے -کیوں کہ تقلید کی محبّت اور غیر مقلدین کی دشمنی میں اپنا تن من دھن قربان کرنے کے باوجود یہ لوگ اپنے ہی امام (ابو حنیفہ رح) کے تقلید کے بارے میں نظریات اور احکامات کو ماننے کے لئے تیار نہیں -جب کہ ان کے امام ابو حنیفہ رح کا بڑا واضح قول ہے کہ :

اني لا اقلد التابعی لأنھم رجال ونحن رجال ولا یصح تقلیدہم ( نور الأنوار ص۲۱۹)
ترجمہ: امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا فرمان ہے میں کسی تابعی کی تقلید نہیں کرتا کیونکہ وہ بھی ہماری طرح انسان ہیں اور انکی تقلید صحیح نہیں ہے۔


تقلید کے لفظی معنی کسی کے گلے میں پٹہ ڈالنے کے ہیں - یہ لفظ قرآن کریم میں ان جانوروں کے لئے استمعال ہوا ہے جن کے گلے میں پٹہ ڈالا جاتا ہے - ملاحظه ہو قرآن کی آیت -



جَعَلَ اللَّهُ الْكَعْبَةَ الْبَيْتَ الْحَرَامَ قِيَامًا لِلنَّاسِ وَالشَّهْرَ الْحَرَامَ وَالْهَدْيَ وَالْقَلَائِدَ ۚ ذَٰلِكَ لِتَعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ وَأَنَّ اللَّهَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ سوره المائدہ ٩٧
الله نے کعبہ کو جو بزرگی والا گھر ہے لوگوں کے لیے قیام کا باعث کر دیا ہے اور عزت والے مہینے کو اور حرم میں قربانی والے جانور کو بھی اور جن کے گلے میں پٹہ ڈال کر کر کعبہ کو لے جائیں یہ اس لیے ہے کہ تم جان لو کہ بے شک الله کو معلوم ہے کہ جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے اور بے شک الله ہر چیز کو جاننے والا ہے-



قرآن کی آیت سے واضح ہے کہ "تقلید " جو لفظ قران میں لفظ "قلائد" سے نکلا ہے اس کا مطلب ہے زبردستی کسی کے پیچھے پیچھے چلنا -جو کہ کسی نبی یا صحابی کی بھی صحیح نہیں - چہ جائیکہ کہ ایک عام سے عالم کی کی جائے - قرآن میں تو مومن لوگوں کی پہچان الله نے یہ بتائی ہے کہ :



وَالَّذِينَ إِذَا ذُكِّرُوا بِآيَاتِ رَبِّهِمْ لَمْ يَخِرُّوا عَلَيْهَا صُمًّا وَعُمْيَانًا سوره الفرقان ٧٣
اور وہ (پرہیزگار) لوگ کہ جب انہیں ان کے رب کی آیتوں سے انھیں سمجھایا جاتا ہے تو ان پر بہرے اندھے ہو کر نہیں گرتے - (یعنی تحقیق کرتے ہے تقلید نہیں)-



الله سے دعا ہے کہ سب کو اپنی سیدھی راہ کی طرف رہنمائی فرماے- (آ مین)-
 
Top