• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مفتی طارق مسعود مقلد حنفی دیوبندی کے شیخ کفایت اللہ سنابلی کوجوابات اور اعتراضات کا جائزہ

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
پی ڈی ایف فائل کا لنک:مفتی طارق مسعود مقلد حنفی دیوبندی کے شیخ کفایت اللہ سنابلی کوجوابات اور اعتراضات کا جائزہ
مفتی طارق مسعود نے درج ذیل ویڈیو میں تراویح کے درس تفسیر میں تراویح کی رکعات کے حوالہ سے شیخ کفایت اللہ سنابلی کو جواب دیتے ہوئے اعتراض کیئے ہیں، حتی کہ خیانت کی تہمت بھی لگا دی۔ اس تحریر میں ہم مفتی طارق مسعود صاحب کی اس گفتگو کا جائزہ پیش کریں گے۔ اللہ تعالیٰ سے توفیق کا طلب گار ۔ ابن داود

Taraweeh Tafseer 16 | Mufti Tariq Masood Speeches
Mufti Tariq Masood Speeches
Time: 1:26:30 – 1:35:50
Taraweeh ka lafz b ghalat! Mufti Tariq Masood reply to Ahle Hadees Scholar on Taraweeh !
MessageTV

مفتی طارق مسعود صاحب نے فرمایا:
ایک سنابلی صاحب ہیں اہل حدیث عالم، انہوں نے میرے خلاف ایک کلپ بنایا ہے۔ ﴿بس یہ بات کر کے میں یہ بات ختم کر رہا ہوں۔﴾ انہوں نے کلپ میں یہ کہا ہے کہ مفتی صاحب نے نا! میرا نام لے کے کہا ہے کہ مفتی صاحب نے کہا ہے کہ تراویح کا لفظ ہی آٹھ رکعتوں پہ فٹ نہیں بیٹھتا، اسلاف نے اس نماز کو نام دیا ہے تراویح کا، ترویحہ چار رکعتوں کو کہتے ہیں، تراویح اس کی جمع کثرت ہے، یعنی کئی مجموعے چار رکعتوں کے، تو آٹھ رکعتیں اگر ہوتیں، تو ترويحتين کہا جاتا، تروایح، بولو! اسلاف اس کو تراویح نہیں کہتے، ترویحتین کہتے، دو ترویحے، پھر میں نے کہا کہ ہمارے ہاں جو لوگ اس کا جواب دیتے ہیں نا! جواب میں باتوں کو گھماتے ہیں، تو انہوں نے، سنابلی صاحب ہیں کوئی، انہوں نے کہا کہ میں گھما نہیں رہا، میں صحیح جواب دے رہا ہوں، حالآنکہ اس میں گھمایا ہے۔

ہم عرض کرتے ہیں:
در اصل مفتی طارق مسعود صاحب، شیخ کفایت اللہ سنابلی کے جواب سے چکرا گئے ہیں، کہ مفتی طارق مسعود صاحب نے دعوے تو بڑے بڑے کیئے، تھے، ان کے یہ دعوے شیخ کفایت اللہ سنابلی کے مدلل جواب سے چکنا چور ہو گئے، اس لیئے مفتی طارق مسعود صاحب کا چکرانا تو بنتا ہے، مگر مفتی طارق مسعود صاحب کا شیخ کفایت اللہ سنابلی پر یہ الزام لگانا کہ انہوں نے گھمایا ہے، درست نہیں۔ مفتی طارق مسعود صاحب ضرور چکرا گئے ہیں، مگر شیخ کفایت اللہ سنابلی نے گھمایا نہیں ہے۔ ان دونوں أمور یعنی، مفتی طارق مسعود صاحب کے چکرانے، اور شیخ کفایت اللہ سنابلی کہ نہ گھمانے کا بیان آگے آئے گا۔

مفتی طارق مسعود صاحب نے فرمایا:
انہوں نے کہا کہ اگر ایک چیز کا نام غلط دے دیا ہے، تو نام ٹھیک کرو نا! یہ گھمایا ہے کہ نہیں ہے،

ہم عرض کرتے ہیں:
نہیں، یہ بلکل بھی گھمانہ نہیں ہے، وجہ اس کی یہ ہے، کہ مفتی طارق مسعود صاحب نے ابھی خود اپنا مدعا بیان کیا کہ '' تراویح کا لفظ ہی آٹھ رکعتوں پہ فٹ نہیں بیٹھتا ''، اور شیخ کفایت اللہ سنابلی کا مدعا ہے کہ قیام اللیل فی رمضان آٹھ رکعت سنت نبوی ہے، اور اگر مفتی طارق مسعود صاحب کی بات تسلیم کی جائے، تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی قیام اللیل فی رمضان پر تراویح کا لفظ صادق نہیں آتا۔ لہٰذا، بجائے اس کے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی قیام اللیل کی تعداد کا انکار کیا جائے، قیام اللیل فی رمضان کے بعد میں دیئے گئے نام کو چھوڑ دیا جائے۔ اور یہ بصورت تسلیمِ مدعائے مفتی طارق مسعود صاحب کے ہے۔

جبکہ شیخ کفایت اللہ سنابلی، مفتی طارق مسعود صاحب کے اس دعوے کے قائل نہیں، کہ آٹھ رکعت قیام اللیل فی رمضان پر تراویح کا اطلاق نہیں ہوتا۔ شیخ کفایت اللہ سنابلی نے اس پر دلیل بھی پیش کی ہے، کہ عربی لغت کے لحاظ سے، آٹھ رکعات تراویح پر بھی تراویح کے نام کا اطلاق ہوتا ہے، جس کا ذکر مفتی طارق مسعود صاحب نے کیا بھی ہے۔

لہٰذا شیخ کفایت اللہ سنابلی کی بات کو مفتی طارق مسعود صاحب نے گھمایا ہے، نہ کہ شیخ کفایت اللہ سنابلی نے مفتی طارق مسعود صاحب کی بات کو، فتدبر!

یہاں شیخ کفایت اللہ سنابلی نے جو نکتہ بیان کیا ہے، وہ یہ ہے کہ؛ اقبال سے معذرت کے ساتھ؛

خود بدلتے نہيں، قرآن کو بدل ديتے ہيں ﴿﴾ہوئے کس درجہ مقلدان وقت بے توفيق!

ان مقلدوں کا يہ مسلک ہے کہ ناقص ہیں سنن ﴿﴾کہ سکھاتی نہيں مومن کو تقلیدی طريق!

مفتی طارق مسعود صاحب نے فرمایا:
اور پھر یہ بھی کہا ہے کہ قرآن میں ''إِخْوَةٌ'' جمع کا لفظ ہے جو ''اخ'' کے معنی میں استعمال ہوا ہے، حالآنکہ وہ جمع کا لفظ،

ہم عرض کرتے ہیں:
یہ دیکھیئے! مفتی طارق مسعود صاحب چکرا گئے، چکرا کر گرنے ہی والے تھے، کہ خود کو سنبھال لیا!
'' حالآنکہ وہ جمع کا لفظ '' ، ''إِخْوَةٌ''کے لفظ کا جمع کا لفظ ہونے کا انکار کرنے ہی والے تھے، مگر شکر ہے، کہ مفتی طارق مسعود صاحب نے خود کو سنبھال لیا۔
مفتی طارق مسعود صاحب، آپ فریق مخالف کی بات دھیان سے سنا اور پڑھا کیجیئے، اور اس پر غور و فکر کرکے سمجھا کیجیئے، اس کے بعد فریق مخالف کی بات پر تبصرہ و نقد کیا کیجیئے!
حالآنکہ شیخ کفایت اللہ سنابلی نے یہ نہیں کہا کہ قرآن میں ''إِخْوَةٌ'' کا لفظ ''اخ'' کے معنی ميں استعمال ہوا ہے، بلکہ شیخ کفایت اللہ سنبالی نے یہ کہا ہے کہ ''إِخْوَةٌ'' جو کہ جمع کا اسم ہے، جمع کا لفظ ہے، اس کا اطلاق اس کی تثنیہ یعنی دو بھائیوں پر بھی ہوتا ہے، مطلب تثنیہ یعنی دو کے لیئے بھی جمع کے اسم کا اطلاق عربی میں ہو سکتا ہے، اور ایسا قرآن ميں بھی ہے، جس کی ایک مثال شیخ کفایت اللہ سنابلی نے ''إِخْوَةٌ''کے تثنیہ پر بھی اطلاق ہونے کی پیش کی۔
قرآن میں موجود اس مثال نے مفتی طارق مسعود صاحب کو چکرا دیا، اب آگے ان کے چکرانے کا حال دیکھیئے؛

مفتی طارق مسعود صاحب نے فرمایا:
قرآن نے بھائیوں کی وراثت بیان کی ہے، حالآنکہ ایک بھائی کی بھی وہ وراثت ہے، جس کو ''اخ خيفی'' کہتے ہیں، تو وہ جو ایک بھائی کی بھی وہ وراثت ہے نا! وہ اس لیئے نہیں کہ بھائیوں کا لفظ ''اخ'' پر صادق آرہا ہے، وہ دلالت النص سے یا اجماع سے ثابت ہے،

ہم عرض کرتے ہیں:
مفتی طارق مسعود صاحب اب بلکل چکرا چکے ہیں، اور ایک ایسی بات پر بحث کر رہے ہیں، جس کا شیخ کفایت اللہ سنابلی نے ذکر بھی نہیں کیا۔ شیخ کفایت اللہ سنابلی نے یہ نہیں کیا، کہ ایک بھائی کا کتنا حصہ ہے، اور دو بھائیوں کا کتنا حصہ ہے، اور دو سے زائد بھائیوں کا کتنا حصہ ہے، کہ یہاں دو سے زائد بھائیوں کا جتنا حصہ ہے، اتنا ہی دو کا بھی ہے، ایسا کچھ بھی شیخ کفایت اللہ سنابلی نے نہیں کہا۔
شیخ کفایت اللہ سنابلی نے یہ کہا تھا کہ اس آیت میں جمع کے صیغے سے کہا گیا ہے کہ اگر میت کی أولاد نہ ہو، اور میت کے ''إِخْوَةٌ'' (بھائی کی جمع) ہوں، تو میت کی والدہ کا سدس یعنی چھٹا حصہ ہے، اس پر شیخ کفایت اللہ سنابلی نے مفتی طارق مسعود صاحب سے تعریضاً یہ سوال کیا، کہ کیا مفتی طارق مسعود صاحب ایسی صورت میں کہ میت کی أولاد نہ ہو، اور میت کے دو بھائی ہوں، تو کیا مفتی طارق مسعود قرآن کے اس حکم کا اطلاق نہیں کریں گے، کہ قرآن میں بھائیوں کی جمع کے صيغے کے ساتھ وارد ہوا ہے، کیا مفتی طارق مسعود کے مطابق؛ دو بھائیوں پر بھائی کی جمع کا اطلاق نہیں ہوگا، اور میت کی والدہ کو ایک تہائی حصہ کا فتوی صادر فرمائیں گے؟
جبکہ فقہ حنفی مطابق بھی ایسا فتوی درست نہ ہوگا۔
مسئلہ یہاں وراثت کا زیر بحث نہیں، وگرنہ ہم بتلاتے کہ مفتی طارق مسعود صاحب کو علم وراثت کو دہرانے کی حاجت ہے، وہ شاید بھول گئے ہیں کہ والدین کی موجودگی میں بھائی بہن محجوب ہوتے ہیں، اور انہیں وراثت ميں کوئی حصہ نہیں ملتا! کیونکہ والد بھائیوں کے حق میں حاجب ہے۔ مفتی طارق مسعود صاحب کو چاہیئے، کہ وہ شیخ کفایت اللہ سنابلی کی کتاب ''تفہیم الفرائض'' کا مطالعہ کریں۔
یہاں فقہ زیر بحث نہیں، وگرنہ ہم بتلاتے کہ مفتی صاحب کا دلالت النص سے ثابت ہونے کا مؤقف بھی درست نہیں، کہ قرآن کے حکم پر اضافہ کے لیئے أصول فقہ حنفیہ میں خبر واحد سے استدلال قائم نہیں کیا جا سکتا، وہ خبر واحد ہماری دلیل تو ہو سکتی ہے، مگر مفتی طارق مسعود صاحب کا خبر واحد سے قرآن کے حکم پر اضافہ کرنا فقہ حنفیہ کے أصول کے خلاف ہے۔
اور اگر کہو کہ اس پر اجماع ہے، تو أصول فقہ حنفیہ کو خلاف اجماع ماننا پڑے گا، کہ اجماع اس بابت ہوا کہ خبر واحد سے قرآن کے جمع کے حکم میں تثنیہ کے حکم کا اضافہ کیا گیا۔
کیونکہ اس معاملے میں متواتر یا مشہور حدیث موجود نہیں۔ درحقیقت خبر واحد بھی میرے علم میں نہیں، اسی وجہ سے عبد اللہ بن عباس کا اس معاملہ میں ایک شاذ موقف ہے، جبکہ دیگر صحابہ اس معاملہ میں عربی لغت سے دلیل قائم کرتے ہیں۔ کہ ''إِخْوَةٌ'' جو کہ جمع کا اسم ہے، اس کی تثنیہ پر بھی جمع کے اسم کا اطلاق کیا جاتا ہے، یعنی دو بھائیوں کو بھی جمع کے اسم ''إِخْوَةٌ'' کہا جاتا ہے۔
مفتی طارق مسعود صاحب نے کس قدر وثوق سے کہا ہے کہ '' وہ اس لیئے نہیں کہ بھائیوں کا لفظ اخ پر صادق آرہا ہے، '' اب مفتی طارق مسعود صاحب کی عربی لغت پر مہارت کا حال دیکھیئے!
اول تو شیخ کفایت اللہ سنابلی نے یہ نہیں کہا کہ ''إِخْوَةٌ'' کا اسم ''اخ'' یعنی ایک بھائی پر بھی صادق آتا ہے، بلکہ یہ کہا ہے، کہ ''إِخْوَةٌ'' کا اسم ''اخوين'' یعنی دو بھائیوں پر بھی صادق آتا ہے۔
عربی لغت اور فقہ اسلامی میں یہ اس قدر معروف و واضح مسئلہ ہے، کہ اگر ''امام الضلالۃ مرزا جہلی مردود علیہ لعنۃ'' نے ایسی بات کی ہوتی، تو بات سمجھ آتی کہ، اس نے تو نہ عربی و فقہ پڑھی اور نہ سیکھی، وہ تو ہر شرعی علم میں جاہل ہے، مگر مفتی طارق مسعود صاحب نے عربی و فقہ پڑھی بھی ہے، اور یقیناً مفتی طارق مسعود صاحب نے علم وراثت بھی پڑھا ہوگا، اور وراثت کے متعلق بھی فتاوی صادر فرماتے ہوں گے، اس کے باوجود ایسی فحش غلطی کی توقع مفتی طارق مسعود صاحب نے نہیں کی جا سکتی۔ مگر جاننا چاہیئے کہ مسلکی اور تقلیدی تعصب وہ بلا ہے، جو بڑے بڑے علماء و فقہاء کی عقل کو تالے لگا دیتی ہے، اور دل کو نڈر کر دیتی ہے، کہ خوف خدا بھول جاتا ہے۔

ہم آپ کو دو حنفی مفسرین کی تفاسیر اور ایک حنفی محدث کی فقہی کتاب سے اس بات کا ثبوت پیش کرتے ہیں، کہ ''إِخْوَةٌ'' کا جمع کا اسم اس کی تثنیہ پر بھی صادق آتا ہے۔
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
مفسر قرآن ، ابو بکر الجصاص الحنفی (المتوفى: 370ہجری) اپنی تفسیر أحكام القرآن میں فرماتے ہیں:

قَوْله تَعَالَى: {فَإِنْ كَانَ لَهُ إِخْوَةٌ فَلِأُمِّهِ السُّدُسُ} قَالَ عَلِيٌّ وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْعُودٍ وَعُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ وَعُثْمَانُ بْنُ عَفَّانَ وَزَيْدُ بْنُ ثَابِتٍ وَسَائِرُ أَهْلِ الْعِلْمِ: "إذَا تَرَكَ أَخَوَيْنِ وَأَبَوَيْنِ فَلِأُمِّهِ السُّدُسُ وَمَا بَقِيَ فَلِأَبِيهِ" وَحَجَبُوا الْأُمَّ عَنْ الثُّلُثِ إلَى السُّدُسِ كَحَجْبِهِمْ لَهَا بِثَلَاثَةِ إخْوَةٍ. وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: "لِلْأُمِّ الثُّلُثُ" وَكَانَ لَا يَحْجُبُهَا إلَّا بِثَلَاثَةٍ مِنْ الْإِخْوَةِ وَالْأَخَوَاتِ. وَرَوَى مَعْمَرٌ عَنْ ابْنِ طَاوُسٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ: "إذَا تَرَكَ أَبَوَيْنِ وَثَلَاثَةَ إخْوَةٍ فَلِلْأُمِّ السُّدُسُ وَلِلْإِخْوَةِ السُّدُسُ الَّذِي حَجَبُوا الْأُمَّ عَنْهُ وَمَا بَقِيَ فَلِلْأَبِ". وَرُوِيَ عَنْهُ: "أَنَّهُ إنْ كَانَ الْإِخْوَةُ مِنْ قِبَلِ الْأُمِّ فَالسُّدُسُ لَهُمْ خَاصَّةً، وَإِنْ كَانُوا مِنْ قِبَلِ الْأَبِ وَالْأُمِّ أَوْ مِنْ قِبَلِ الْأَبِ لَمْ يَكُنْ لَهُمْ شَيْءٌ وَكَانَ مَا بَعْدَ السُّدُسِ لِلْأَبِ". وَالْحُجَّةُ لِلْقَوْلِ الْأَوَّلِ أَنَّ اسْمَ الْإِخْوَةِ قَدْ يَقَعُ عَلَى الِاثْنَيْنِ كَمَا قَالَ تَعَالَى: {إِنْ تَتُوبَا إِلَى اللَّهِ فَقَدْ صَغَتْ قُلُوبُكُمَا} [التحريم: 4] وَهُمَا قَلْبَانِ; وَقَالَ تَعَالَى: {وَهَلْ أَتَاكَ نَبَأُ الْخَصْمِ إِذْ تَسَوَّرُوا الْمِحْرَابَ} ثُمَّ قَالَ تَعَالَى: {خَصْمَانِ بَغَى بَعْضُنَا عَلَى بَعْضٍ} فَأَطْلَقَ لَفْظَ الْجَمْعِ عَلَى اثْنَيْنِ؛ وَقَالَ تَعَالَى: {وَإِنْ كَانُوا إِخْوَةً رِجَالاً وَنِسَاءً فَلِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنْثَيَيْنِ} فَلَوْ كَانَ أَخًا وَأُخْتًا كَانَ حُكْمُ الْآيَةِ جَارِيًا فِيهِمَا وَقَدْ رُوِيَ عَنْ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم أَنَّهُ قَالَ: "اثْنَانِ فَمَا فَوْقَهُمَا جَمَاعَةٌ" ، وَلِأَنَّ الِاثْنَيْنِ إلَى الثَّلَاثَةِ فِي حُكْمِ الْجَمْعِ أَقْرَبُ مِنْهُمَا إلَى الْوَاحِدِ; لِأَنَّ لَفْظَ الْجَمْعِ مَوْجُودٌ فِيهِمَا نَحْوُ قَوْلِكَ: "قَامَا وَقَعَدَا وَقَامُوا وَقَعَدُوا" كُلُّ ذَلِكَ جَائِزٌ فِي الِاثْنَيْنِ وَالثَّلَاثَةِ وَلَا يَجُوزُ مِثْلُهُ فِي الْوَاحِدِ، فَلَمَّا كَانَ الِاثْنَانِ فِي حُكْمِ اللَّفْظِ أَقْرَبَ إلَى الثَّلَاثَةِ مِنْهُمَا إلَى الْوَاحِدِ وَجَبَ إلْحَاقُهُمَا بِالثَّلَاثَةِ دُونَ الْوَاحِدِ. وَقَدْ رَوَى عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَبِي الزِّنَادِ عَنْ أَبِيهِ عَنْ خَارِجَةَ بْنِ زَيْدٍ عَنْ أَبِيهِ، أَنَّهُ كَانَ يَحْجُبُ الأم بِالْأَخَوَيْنِ، فَقَالُوا لَهُ: يَا أَبَا سَعِيد إنَّ اللَّهَ تَعَالَى يَقُولُ: {فَإِنْ كَانَ لَهُ إِخْوَةٌ} وَأَنْتَ تَحْجُبُهَا بِالْأَخَوَيْنِ فَقَالَ: إنَّ الْعَرَبَ تُسَمِّي الْأَخَوَيْنِ إخْوَةً. فَإِذَا كَانَ زَيْدُ بْنُ ثَابِتٍ قَدْ حَكَى عَنْ الْعَرَبِ أَنَّهَا تُسَمِّي الْأَخَوَيْنِ إخْوَةً، فَقَدْ ثَبَتَ أَنَّ ذَلِكَ اسْمٌ لَهُمَا فَيَتَنَا وَلُهُمَا اللَّفْظُ.



قول باری ہے (فَإِن كَانَ لَهُ إِخْوَةٌ فَلِأُمِّهِ السُّدُسُ، اگر اس کے بھائی ہوں تو ماں کا چھٹا حصہ ہوگا) حضرت علی رضی اللہ عنہ، حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ، حضرت عمر رضی اللہ عنہ، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ، حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ اور تمام اہل علم کا قول ہے کہ اگر دو بھائی اور والدین ہوں تو بھی ماں کو چھٹا حصہ ملے گا اور باقی ماندہ ترکہ باپ کو ملے گا۔ ان حضرات نے اس صورت میں ماں کا حصہ تہائی سے گھٹا کر ایک سدس کردیا ہے جس طرح کہ تین بھائیوں کی صورت میں ماں کا حصہ گھٹ کر سدس رہ جاتا ہے۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کا قول ہے کہ دو بھائیوں کی صورت میں ماں کو تہائی حصہ ملے گا اور اس کا حصہ صرف اسی صورت میں گھٹ سکتا ہے، جب تین بھائی بہن ہوں۔ معمرنے طاؤس سے انہوں نے اپنے والد سے اور انہوں نے حضرت ابن عباس سے روایت کی ہے کہ مرنے والا اگر اپنے پیچھے والدین اور تین بھائی بہن چھوڑ جائے تو ماں کو چھٹا حصہ ملے گا اور بھائی بہنوں کو وہی چھٹا حصہ مل جائے گا جو انہوں نے ماں کے حصے سے گھٹا دیا تھا اور باقی ماندہ ترکہ باپ کو مل جائے گا۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے ایک اور روایت کے مطابق اگر بھائی بہن ماں کی طرف سے ہوں جنہیں اخیافی کہا جاتا ہے تو اس صورت میں انہیں چھٹا حصہ ملے گا۔ لیکن اگر وہ حقیقی یاعلّاتی (باپ میں شریک) بھائی بہن ہوں تو انہیں کچھ نہیں ملے گا اور ماں کو چھٹا حصہ دینے کے بعد باقی ماندہ ترکہ باپ کو مل جائے گا۔ پہلے قول کی دلیل یہ ہے کہ ''إِخْوَةٌ'' کا اسم کبھی دو پر بھی واقع ہوتا ہے۔ جیسا کہ ارشادباری ہے (إِن تَتُوبَا إِلَى اللَّهِ فَقَدْ صَغَتْ قُلُوبُكُمَا، (اے دونوں بیویو ! ) اگر تم اللہ کے آگے توبہ کرلو، تو تمہارے دل (اسی طرف) مائل ہورہے ہیں) حالانکہ یہاں مراد، دو دل ہیں لیکن اس کے اس کے لیے جمع کا اسم استعمال ہوا ہے، اسی طرح ارشاد باری ہے (وَهَلْ أَتَاكَ نَبَأُ الْخَصْمِ إِذْ تَسَوَّرُوا الْمِحْرَابَ، بھلا آپ کو ان اہل مقدمہ کی خبر پہنچی ہے۔ جب وہ دیوار پھاند گئے) پھر فرمایا (خَصْمَانِ بَغَىٰ بَعْضُنَا عَلَىٰ بَعْضٍ، ہم دو اہل مقدمہ ہیں کہ ایک نے دوسرے پر زیادتی کی ہے۔) یہاں جمع کے لفظ کا دو پر اطلاق کیا گیا ہے۔

قول باری ہے۔ (يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلَادِكُمْ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنثَيَيْنِ، اب اگر ایک بھائی اور ایک بہن ہو تو بھی آیت کا حکم ان کے حق میں جاری ہوگا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہے۔ آپ نے فرمایا (اثْنَانِ فَمَا فَوْقَهُمَا جَمَاعَةٌ، دو اور دو سے زائد افراد جماعت کہلاتے ہیں) نیز دو کا عدد جمع کے معنی میں ایک سے قریب ہونے کے مقابلے میں تین سے زیادہ قریب ہے اس لیے کہ دو کے اندر جمع کا مفہوم بھی موجود ہوتا ہے۔ مثلاً دوافرادہوں یاتین آپ دونوں صورتوں میں، ''قَامَا وَقَعَدَا، اور وَقَامُوا وَقَعَدُوا'' کہہ سکتے ہیں (یعنی یہاں تثنیہ کا صیغہ بھی استعمال ہیں اور جمع کا بھی) لیکن ایک فرد کی صورت میں یہ کہنا درست نہیں ہوگا۔ اب جب اثنان یعنی دو کالفظ جمع کے معنی میں ایک سے قریب ہونے کے مقابلے میں تین سے زیادہ قریب ہے تو پھر اس لفظ کو ایک کی بجائے تین کے عدد کے ساتھ ملانا واجب ہوگیا۔

عبدالرحمن بن ابی الزناد نے اپنے والد سے، انہوں نے خارجہ بن زید سے اور انہوں نے اپنے والد سے روایت کی ہے کہ دو بھائیوں کی موجودگی میں ماں کا حصہ گھٹا دیا کرتے تھے۔ یعنی تہائی کے مقابلہ میں چھٹا حصہ دیتے تھے۔ لوگوں نے ان سے پوچھا: ''ابوسعید، اللہ تعالیٰ نے تو فرمایا ہے (فَإِن كَانَ لَهُ إِخْوَةٌ) اور آپ دو بھائیوں کی وجہ سے ماں کا حصہ گھٹا دیتے ہیں۔'' اس پر زید نے فرمایا : ''عرب کے لوگ دو بھائیوں پر بھی، إِخْوَةٌ، کے لفظ کا اطلاق کرتے ہیں۔ اب جبکہ حضرت زیدبن ثابت رضی اللہ عنہ یہ نقل کرتے ہیں کہ عرب کے لوگ دو بھائیوں پر بھی ''إِخْوَةٌ'' کے لفظ کا اطلاق کرتے ہیں۔ تو اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ یہ لفظ دو اور تین دونوں کے لیے اسم ہے اور یہ اسم دونوں کو شامل ہے۔

ملاحظہ فرمائیں: صفحه 10 - 11 جلد 03 أحكام القرآن – أحمد بن علي أبو بكر الرازي الجصاص الحنفي (المتوفى: 370هـ) – دار إحياء التراث العربي، بيروت

ملاحظہ فرمائیں: صفحہ 207 - 208 جلد 03 أحكام القرآن للجصاص ﴿ترجمہ اردو﴾ – مترجم؛ عبد القيوم – شریعہ اکیڈمی؛ بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی، اسلام آباد

یہاں دیکھیئے! کس قدر واضح الفاظ میں أبو بکر الجصاص الحنفی نے بتلایا ہے کہ جمع کے صیغہ کا اطلاق دو پر بھی ہوتا ہے، اور اس پر قرآن سے مزید مثالیں بھی پیش کیں ہیں، اور ان مثالوں میں مفتی طارق مسعود صاحب کی اس دلیل کا اطلاق بھی ممکن نہیں کہ کسی دوسری یا خارجی دلالت النص سے یہ بات ثابت ہو، کہ دو پر بھی اسی حکم کا اطلاق ہو، اس لیئے کہ یہاں کوئی حکم نہیں، بلکہ محض خبر ہے۔ اور پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کے قول سے یہ بھی بتلایا کہ اہل عرب ''إِخْوَةٌ'' جمع کے اسم کو دو بھائیوں پر بھی بولتے ہیں۔

لیکن 1400 سال بعد کے عجمی مفتی طارق مسعود صاحب خو د کو عرب صحابی رسول سے بڑا عربی دان گمان کیئے بیٹھے ہیں۔

اسی طرح قاضی ثناء اللہ پانی پتی الحنفی (المتوفى: 1225ہجری) اپنی تفسیر میں فرماتے ہیں:
فَإِنْ كانَ لَهُ إِخْوَةٌ لاب او لام أولهما والمراد بالاخوة ما فوق الواحد اجماعا سواء كانوا ذكورا او إناثا او مختلطين وكذا المراد بكل جمع وقع فى باب الفرائض والوصايا اجماعا وقال ابن عباس لا يحجب الام من الثلث ما دون الثلاثة روى الحاكم وصححه ان ابن عباس دخل على عثمان فقال له محتجا بانه كيف ترد الام الى السدس بالأخوين وليسا باخوة فقال عثمان لا أستطيع ردّ شىء كان قبلى ومضى فى البلدان وتوارث عليه الناس فاحتج عثمان بالإجماع وأجاب زيد بن ثابت بجواب اخر قالوا يا أبا سعيد ان الله يقول فان كان له اخوة وأنت تحجبها باخوين فقال ان العرب يسمى الأخوين اخوة.

فَإِن كَانَ لَهُ إِخْوَةٌ پس اگر میت کے بھائی (بہن) ہوں خواہ حقیقی ہوں یا علّاتی یا اخیافی (باپ کی طرف سے یا ماں کی طرف سے) مرد ہوں یا عورت یا مخلوط۔ إِخْوَةٌ سے مراد بالاجماع دو اور دو سے زائد ہیں۔ باب فرائض و وصیت میں ہر جگہ جمع کے صیغہ سے مراد ایک سے زائد ہوتا ہے یہ فیصلہ باتفاق علماء ہے لیکن حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا: کہ (إِخْوَةٌ سے مراد کم سے کم تین ہیں) تین سے کم بھائی بہن میت کی ماں کے حصہ کو ایک تہائی سے گھٹا کر چھٹا حصہ نہیں بنا سکتے۔ حاکم نے بیان کیا ہے اور اس روایت کو صحیح قرار دیا ہے کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ، حضرت عثمان عثمان رضی اللہ عنہ کے پاس گئے اور کہا دو بھائیوں کی وجہ سے آپ ماں کے حصہ کو ایک تہائی سے گھٹا کے 6/1 کیسے کرتے ہیں حالانکہ دو بھائی إِخْوَةٌ نہیں ہوتے (إِخْوَةٌ جمع کا صیغہ ہے اور جمع کا اطلاق کم سے کم تین پر ہوتا ہے) ۔
حضرت عثمان نے فرمایا: جو مسئلہ مجھ سے پہلے ہوچکا ہے اور ملک میں جاری ہوچکا ہے اور لوگ برابر اس پر عمل کرتے رہے ہیں، میں اس کو پلٹ نہیں سکتا، گویا حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کے جواب میں اجماع امت سے استدلال کیا لیکن جب حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے لوگوں نے یہی مسئلہ دریافت کیا اور یہی اعتراض کیا تو آپ نے فرمایا: عرب دو بھائیوں کو بھی إِخْوَةٌ کہتے ہیں (گویا حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے لغت سے استشہاد کیا اور اشارہ کیا کہ ہمارا مسلک خلاف لغت نہیں ہے) ۔

ملاحظہ فرمائیں: صفحه 235 جلد 02 التفسير المظهري – القاضي مولوي محمد ثناء الله الهندي الفاني فتي النقشبندى الحنفي العثماني المظهري (المتوفى: 1225هـ) – دار إحياء التراث العربي، بيروت
ملاحظہ فرمائیں: صفحہ 235 - 236 جلد 03 التفسير المظهري ﴿ترجمہ اردو﴾ – مترجم؛ سید عبد الدائم جلالی – دار الاشاعت، کراچی

علامہ بدر الدین عینی الحنفی (المتوفى: 855ہجری) اپنی کتاب منحة السلوك في شرح تحفة الملوك میں فرماتے ہیں:
قوله: (والأم لها السدس مع الولد وولد الابن) لقوله تعالى: {وَلأَبَوَيْهِ لِكُلِّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا السُّدُسُ مِمَّا تَرَكَ إِنْ كَانَ لَهُ وَلَدٌ} [النساء: 11]. جعل لها السدس مع الولد، وولد الابن: ولد شرعاً بالإجماع لما قلنا.
قوله: (أو الاثنين من الأخوة) أي الأم لها السدس أيضاً مع وجود الاثنين من الإخوة والأخوات فصاعداً أي جهة كانوا لقوله تعالى: {فَإِنْ كَانَ لَهُ إِخْوَةٌ فَلأُمِّهِ السُّدُسُ} [النساء: 11]. ولفظ الجمع من الإخوة يطلق على الاثنين، فتحتجب بهما من الثلث إلى السدس من أي جهة كانوا، لأن لفظ الإخوة يطلق على الكل، وهذا قول جمهور الصحابة، وروى عن ابن عباس: أنه لم تحجب الأم من ‌الثلث ‌إلى ‌السدس ‌إلا ‌بثلاثة منهم، عملاً بظاهر الآية
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 433 منحة السلوك في شرح تحفة الملوك – أبو محمد، محمود بن أحمد، المعروف بدر الدين العينى الحنفى (المتوفى: 855هـ) – وزارة الأوقاف والشؤون الإسلامية، قطر

شیخ کفایت اللہ سنابلی صاحب کی اس قدر مظبوط دلیل کو مفتی طارق مسعود صاحب کہہ رہے ہیں کہ ''یہ گھمایا ہے''
مفتی طارق مسعود صاحب، شیخ کفایت اللہ سنابلی کی اس دلیل کو سنبھال نہیں پائے، اور چکرا کر دوسری طرف گر پڑے، اور ایک مثال دیتے ہیں:
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
مفتی طارق مسعود صاحب نے فرمایا:
اس کی مثال ایسے ہے جیسے قرآن کہتا ہے، اگر بیٹیاں دو سے زیادہ ہوں، ''فَوْقَ اثْنَتَيْنِ'' دو سے زیادہ بیٹیاں ہیں، تو دو تہائی وراثت ملے گی، ''فَلَهُنَّ ثُلُثَا مَا تَرَكَ'' حالآنکہ دو بیٹیاں ہو تو بھی کتنی ملتی ہے، 66 فیصد۔ اب کوئی اٹھ کے کہے کہ اس سے پتا چلتا ہے کہ دو سے زیادہ کا لفظ جو ہے نا، وہ دہ بیٹیوں پہ بھی صادق آتا ہے، تو یہ غلط بات ہو گی، دو سے زیادہ دو سے زیادہ ہی کو کہتے ہیں۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے، قرآن کہہ رہا ہے دو سے زیادہ کو 66 فیصد ملے گا۔ تو دو سے زیادہ تو دو سے زیادہ۔ باقی دو کو کیوں، وہ دلالت النص یا اجماع کی وجہ سے، اس کی الگ دلیل ہے، سمجھتے ہو کہ نہیں سمجھتے، یہ نہیں کہ ہم آیت کا مطلب ہی چینج کر دیں گے، کہ دو سے زیادہ کا مطلب دو ہے۔ دنیا میں کہیں بھی دو سے زیادہ کا مطلب دو نہیں ہوتا۔

ہم عرض کرتے ہیں:
مفتی طارق مسعود صاحب
کی یہ بات درست ہے کہ ''فَوْقَ اثْنَتَيْنِ'' کا اطلاق دو سے زائد بیٹوں پر ہی ہو گا، اور دو بیٹیوں پر ''فَوْقَ اثْنَتَيْنِ'' کا اطلاق نہیں ہوگا۔
مگر شیخ کفایت اللہ سنابلی نے اس کو دلیل بنایا کب ہے؟
مفتی طارق مسعود صاحب اور بہت سے حنفی مقلدوں کا یہ کمال ہے کہ پہلے وہ ایک اعتراض یا دلیل اہل حدیث کی جانب سے خود گڑھتے ہیں، اور پھر اس کا رد کر کے یہ باور کروانا چاہتے ہیں کہ انہوں نے اہل حدیث کی دلیل کے پرخچے اڑا دیے۔
شیخ کفایت اللہ سنابلی کے پاس دو بیٹیوں کے لئے بھی یہی حکم ہونے پر حدیث سے دلیل موجود ہے، اور خیر سے وہ حدیث بھی خبر واحد ہے، شیخ کفایت اللہ سنابلی اور تمام اہل حدیث تو اس حدیث سے دلیل قائم کر سکتے ہیں، مسئلہ تو اہل الرائے حنفیوں کو ہے، کہ وہ اس خبر واحد کو کس طرح دلیل بنا سکتے ہیں۔

مفتی طارق مسعود صاحب نے فرمایا:
تو یہاں بھی قرآن جو سورہ ۔۔ وہ جو آیتیں ہیں نا! وراثت کی ، اس میں کہہ رہا ہے کہ بھائیوں کو اتنا ملے گا، حالانکہ ایک بھائی کو بھی اتنا ملتا ہے، اس کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ بھائیوں سے، کا اطلاق بھائی پر بھی ہوتا ہے، بھائیوں کا اطلاق بھائیوں پر ہی ہوتا ہے، جو پلورل ہے، پلورل ہی رہے گا،

ہم عرض کرتے ہیں:
مفتی طارق مسعود صاحب
اب بلکل چکرا چکے ہیں، اگر بیٹھے نہ ہوتے تو عین ممکن ہے کہ گر جاتے۔
یہ بات کہ قرآن کی مذکورہ آیت میں ''إِخْوَةٌ'' جو بھائی کی جمع ہے، اس کا اطلاق ''دوبھائیوں'' پر بھی ہوتا ہے، جو بھائی کہ تثنیہ ہے، اور اس کا ثبوت حنفی علماء کی دو تفاسیر ، اور فقہ حنفی کی ایک کتاب سے پیش کیا جا چکا ہے، جس میں ایک صحابی رضی اللہ عنہ نے اس بات کو کہ ''إِخْوَةٌ'' بھائی کی جمع کا اطلاق دو بھائیوں پر بھی ہونے کو عربی لغت سے درست بتلایا ہے،
اب کوئی مفتی طارق مسعود صاحب کو بتلائے، کہ پہلے کے علماء و فقہاء اور سب سے بڑھ کر صحابی رضی اللہ عنہ کے سامنے مفتی طارق مسعود صاحب کے قول کی کوئی حثیت نہیں، اور وہ بھی عربی لغت میں!

مفتی طارق مسعود صاحب نے فرمایا:
انہوں نے یہاں سے یہ ثابت کیا ہے کہ یہاں سے پتا چلتا ہے کہ تراویح جمع کا لفظ ہے، لیکن جمع سے کم پر بھی دلالت کرے گا۔ او بھائی! جمع سے کم پر تراویح کا لفظ دلالت نہیں کرتا۔

ہم عرض کرتے ہیں:
مفتی طارق مسعود صاحب
اب چکرانے کے ساتھ ساتھ جھنجلاہٹ کا شکار بھی ہو چکے ہیں، مفتی طارق مسعود صاحب کی کسی دنیاوی معاملہ میں ضد ہوتی، تو ہم بھی جس طرح بچوں کی ضد پوری کرتے ہیں، مفتی طارق مسعود صاحب کی ضد بھی پوری کر دیتے، لیکن معاملہ یہاں دین کا ہے، ہم یہاں قرآن و حدیث کی دلیل کے سوا کسی کی نہ ضد مان سکتے ہیں، اور نہ ہی اٹکل پچو!
یہ بات تو بالکل ثابت کی جا چکی ہے، کہ عربی لغت میں جمع کے لفظ کا اطلاق تثنیہ پر بھی ہو سکتا ہے، اور اس کی مثالیں قرآن میں بھی موجود ہیں، جیسا کہ علمائے احناف کے کلام سے بھی بتلایا جا چکا ہے۔

مفتی طارق مسعود صاحب نے فرمایا:
اور یہ جو سنابلی صاحب نے دلیل دی ہے نا! میں تمیز سے ان شاء الله کلپ رکارڈ کرواؤں گا۔

ہم عرض کرتے ہیں:
ہم بھی مفتی طارق مسعود صاحب کو یہی نصیحت کرتے ہیں، اور مفتی طارق مسعود صاحب کے حق میں دعا کرتے ہیں، کہ آپ شیخ کفایت سنابلی کے جواب میں رکارڈنگ تمیز سے کروائیں، اور اپنے دعوی و مدعا پر بحوالہ گفتگو کریں، اور محض دعوں سے گریز کرتے ہوئے، معتبر مفسرین و شارحین کے اقوال و اجتہاد بیان کریں، اور خود کشیدہ تفسیر و شرح سے گریز کریں، کہ آپ کی کشید کردہ تفسیر و شرح اسلاف کی تفسیر و شرح سے اکثر متصادم ثابت ہوا کرتی ہے، جیسا کہ یہاں ظاہر ہوا ہے۔

مفتی طارق مسعود صاحب نے فرمایا:
ابھی تو اس لیئے کہ لوگ نمازیں چھوڑ رہے ہيں، تراویح، جو رمضان کی شان تھی، کثرت رکوع، کثرت سجود، کثرت تلاوت، تو اس میں تلاوت تو باقی رکھی، رکوع اور سجدے مارکیٹ سے کیا کر دیئے، شارٹ! تو وہی کر دیئے جو عام دنوں میں ہوتے ہیں، تو رمضان کی کوئی خاصیت بچے گی نہيں۔ تو رمضان میں رکوع، سجدے بھی رات کو بڑھانے پڑیں گے آپ کو۔

ہم عرض کرتے ہیں:
کیوں بڑھانے پڑیں گے؟ ہم تو سنت سے ثابت تعداد نماز کو بھی کافی سمجھتے ہیں، اور تعداد رکعت کو بھی!
اب کوئی منچلا آکر کہہ دے کہ رمضان میں نمازوں کی تعداد میں بھی اضافہ کرو، کہ سجدے اور رکوع زیادہ ہوں، فجر کی 2 سنت کے بجائے 4 سنتیں کر دو، اور 2 فرض کے بجائے 6 فرض کردو، کہ رمضان میں رکوع و سجود کی تعداد بڑھانی پڑیں گیں! وگرنہ رمضان کی کوئی خاصیت بچے گی نہیں۔
مفتی طارق مسعود صاحب اپنی اٹکل کو ماخذ شریعت سمجھ رہے ہیں۔

مفتی طارق مسعود صاحب نے فرمایا:
تو اب کیا ہے کہ یہ جو لفظ ہے نا! محترم نے جو کہا ہے کہ بھئی یہ جو تراویح کا لفظ جب غلط دیا ہے، حدیث سے آٹھ ثابت ہیں، تو اسلاف نے لفظ ہی غلط دیا ہے، تو لفظ ٹھیک کرو، نا کہ تعداد کو بڑھاؤ۔

ہم عرض کرتے ہیں:
مفتی طارق مسعود صاحب
نے یہ تاثر قائم کرنا چاہا ہے، کہ جیسے شیخ کفایت اللہ سنابلی لفظ تراویح کو غلط کہہ رہے ہیں، جبکہ شیخ کفایت اللہ سنابلی مفتی طارق مسعود صاحب کے اس دعوی و مدعا کو غلط کہہ رہے ہیں، کہ آٹھ رکعت پر تراویح کا اطلاق نہیں ہوتا۔ اس کا بیان کیا جا چکا ہے۔ حتی کہ شیخ کفایت اللہ سنابلی نے اپنی کتاب کا نام ''أنوار التوضيح لركعات التراويح؛ مسنون رکعات تراویح اور شبہات کا ازالہ'' رکھا ہے۔

مفتی طارق مسعود صاحب نے فرمایا:
اس کا جواب سمجھیں، دیکھو! بعض دفعہ لفظ پہلے دے دیا جاتا ہے، نام، اور چیز بعد میں وجود میں آتی ہے۔ مثال کے طور پر آپ کا بچہ پیدا ہوا، آپ کو ابھی اس کی خصوصیات معلوم نہیں ہے کہ یہ بزدل بنے گا یا بہادر بنے گا۔ پتا ہی نہیں بہادر ہے یا بزدل، آپ نے اس کا نام رکھ دیا بہادر خان۔ بڑا ہوا تو چھپکلی سے وہ ڈرتا ہے، چوہے سے وہ ڈرتا ہے، اب ہم بار بار کہہ رہے ہیں بہادر خان بہادر خان، نام دیکھو اس کا بہادر خان ہے، لہٰذا یہ بہادر ہے، نام سے پتا چلتا ہے بہادر۔ یہاں یہ سنابلی صاحب کی دلیل صحیح چلے گی، بھئی نام غلط رکھ دیا ہے، تو بندے کی صفت چینج نہیں ہو گی، نام کیا کرو اس کا، نام غلط رکھ دیا ہے اس کا، یہ نام چینج کر دو، اس کو صلاة اللیل کہہ دو، کچھ بھی کہہ دو، نام غلط رکھا ہے، یا بہادر خان کے بجائے بزدل خان رکھ دو اس کا نام۔ یہاں یہ بات صحیح ہو گی۔

ہم عرض کرتے ہیں:
مفتی طارق مسعود صاحب
نے اس صورت میں تو شیخ کفایت اللہ سنابلی کی بات کو درست تسلیم کیا، حالآنکہ شیخ کفایت اللہ سنابلی کا یہ مدعا نہيں، کیونکہ کسی بچہ کا جب نام رکھا جاتا ہے، تو اس کا نام وہی رہتا ہے، گو کہ اس کا وصف اس کے نام کے برخلاف ہی کیوں نہ ہو، اور نہ ہی اس سے اس کے نام میں کوئی نقص لازم آتا ہے، وہ اس لیئے کہ کسی کا نام سمندر خان ہے، تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ پانی ہے، حتی کہ نام کا کوئی معنی ہونا بھی لازم نہيں!
اسی طرح تراویح جس نماز کا نام ہے، اس نماز میں لفظ تراویح کے معنی ہونا لازم نہیں، اور اس کی دلیل بھی شیخ کفایت اللہ سنابلی نے بیان کی ہے، کہ اگر بغیر ترویحہ کے بھی قیام اللیل فی رمضان کیا جائے، تو اسے بھی تراویح کہا جاتا ہے، گو کہ اس قیام اللیل فی رمضان میں تروحیہ کا وجود ہی نہیں!

مفتی طارق مسعود صاحب نے فرمایا:
لیکن جہاں صفات دیکھ کے نام رکھا ہے، ایک بچہ پیدا ہو اس کا انتظار کیا کہ دیکھیں ہم اس کو، کیا اس میں کوالیٹیز پیدا ہوتی ہيں، دیکھا بھئی یہ تو ارتغرل خان بنا ہوا ہے، وہ ڈرامے دیکھ دیکھ کے نا، تلواریں اور زبردست پھڈوں، محلے والوں سے پھڈا، ادھر سے پھڈا، گھنٹی بجا کے بھاگ ہی نہیں رہا، ورنہ تو بچے بھاگ جاتے ہیں۔ اب جب اس کا نام بہادر خان رکھا ہے نا! پھر یہ دلیل نہیں ہوگی کہ نام غلط رکھا ہے، تو نام چینج کرو، پھر یہ بھئی یہ نام جلد بازی میں نہیں رکھا، یہ اس بچے کی صفات کو محلے کے اچھے لوگوں نے دیکھ کر نام رکھا ہے، لہٰذا یہ نام اس کی دلیل ہے کہ یہ واقعی کیا ہے بہادر ہے!

ہم عرض کرتے ہیں:
مفتی طارق مسعود صاحب
کو نام اور لقب میں فرق کا إحساس نہیں، اول کہ بچے کا نام اس کے گھر والے رکھتے ہیں، اور شریعت میں یہ والد کا اختیار اور بچہ کا حق ہے، کہ والد اس کا اچھا نام رکھے، یہ محلے والوں کا اختیار نہیں۔
دوم کہ محلے کے اچھے لوگ ایسے بچوں کا نام نہیں رکھتے، بلکہ اسے بدمعاش، غنڈے اور شیطان کے لقب سے نوازتے ہیں۔
سوم کہ مفتی طارق مسعود صاحب ایک مشہور و معرف شخصیت ہیں، انہیں پوری دنیا میں ایک خلقت سنتی ہے، مفتی طارق مسعود صاحب کو اس طرح تساہل سے کام نہیں لینا چاہیئے، کہ جگہ جگہ اور محلے والوں سے پھڈے کرنے کو بہادری کہیں، یہ برا وصف ہے، اس کی تنفیر کی جانی چاہیئے، نہ کہ اس کی توقیر، تاکہ معاشرے میں اس برائی کا إحساس ختم یا کم نہ ہو۔

مفتی طارق مسعود صاحب نے فرمایا:
تو ایسا نہیں ہے کہ تراویح کا نام اسلاف نے پہلے رکھ دیا، رکعتیں بعد میں پتا چلیں ان کو! کہ یہ تو آٹھ ہیں، ہمیں تو پتا ہی نہیں تھا! اب ہم اس کا نام چینج کر رہے ہیں! اسلاف نے جب اپنے دور میں دیکھا نا! بہت ساری رکعتیں ہو رہی ہیں، چار چار رکعتوں کے بہت سارے مجموعے، تو اس مجموعے کو دیکھ کر انہوں نے اس کا نام تہجد نہیں رکھا، الگ سے کیا نام رکھا، تراویح جو رمضان کے ساتھ خاص ہے۔

ہم عرض کرتے ہیں:
مفتی طارق مسعود صاحب
کی یہ بات درست ہے کہ اسلاف قیام اللیل فی رمضان کا نام تراویح بعد میں رکھا ہے، اور یہ نماز قیام اللیل فی رمضان پہلے سے موجود تھی، لہٰذا اس نئے نام سے قیام اللیل فی رمضان کی رکعت اخذ کرنے کی حاجت نہیں، بلکہ اس نام سے قبل کے أدوار سے قیام اللیل فی رمضان کی تعداد اخذ کی جا سکتی ہیں، اور وہ احادیث و روایات میں موجود ہے۔ جیسا کہ شیخ کفایت اللہ سنابلی نے بیان بھی کیا ہے، اور اپنی کتاب میں درج بھی کیا ہے۔
جی قیام اللیل جب رمضان میں ہو یعنی قیام اللیل فی رمضان تو اس رمضان کے ساتھ خاص قیام اللیل کا نام بعد میں تراویح رکھا گیا، اور وجہ اس کی یہ ہے، کہ یوں تو قیام اللیل فی رجب بھی ہے، قیام اللیل فی شعبان بھی ہے، اور قیام اللیل فی شوال بھی ہے، مگر سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ميں قیام اللیل فی رمضان کی اضافی تاکید و فضائل بیان ہوئے ہیں، لہٰذا، اسے تراویح کے نام سے موسوم کیا گیا، اور دیگر مہینوں کی قیام اللیل کو کسی دوسرے نام سے موسوم نہیں کیا گیا۔
قيام الليل في رمضان میں ''في'' کا لفظ بھی اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ قیام اللیل فی رمضان جسے بعد میں تراویح کہا گیا، وہ دیگر مہینوں کی قیام اللیل سے الگ و علیحدہ کوئی نماز نہیں، بلکہ وہی قیام اللیل ہے، جو رمضان کے علاوہ دیگر مہینوں میں بھی ہے۔ مگر مفتی طارق مسعود صاحب کی عربی لغت میں ''مہارت'' کے پیش نظر اس پر مزید گفگتو سے گریز کرتے ہیں۔

مفتی طارق مسعود صاحب نے فرمایا:
تو اس لیئے وہ آٹھ رکعتوں والی تہجد والی ہم پہ فٹ ہی نہیں بیٹھتی۔

ہم عرض کرتے ہیں:
معلوم ہونا چاہیئے کہ یہی موقف روافض کا ہے، کہ وہ قیام اللیل فی رمضان یعنی رمضان ميں تہجد اور تراویح کو ایک نماز نہیں مانتے، بلکہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ پر تہمت دھرتے ہیں، کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے تہجد کے علاوہ ایک نئی نماز شروع کروائی، جسے تراویح کہا جاتا ہے، معلوم ہوتا ہے کہ مفتی طارق مسعود صاحب روافض کے پروپگنڈے سے جانے انجانے میں متاثر ہو گئے ہیں۔ یہی مدعا ان روافض کا بھی ہے، کہ تہجد کی احادیث تراویح پر فٹ نہیں بیٹھتی۔

مفتی طارق مسعود صاحب نے فرمایا:
اور آپ علماء سعودیہ کا حوالہ نہ دیا کریں، اس زمانے کے چاہے مکہ مدینہ ہوں، یا مصر ہو، یا جاپان ہو یا سؤيزرلینڈ ہو! یہ اس زمانے کے اسکالرز ہیں۔ جو پہلے، جو اسلاف نے جس طرح قرآن وسنت کو سمجھا ہے نا، وہ سمجھ معتبر ہے، ہماری نظر میں۔ آپ کی سمجھ ہماری نظر میں معتبر نہیں ہے۔

ہم عرض کرتے ہیں:
پہلے تو کوئی ہمیں بتلائے کہ مفتی طارق مسعود صاحب خود کس زمانے کے ہیں؟
مفتی طارق مسعود صاحب بظاہر تو ایسا تاثر دینا چاہتے ہیں، جیسے کہ مفتی طارق مسعود صاحب سلفی منہج کے قائل ہوں، مگر یہ ایک مغالطہ ہے، وہ یوں کہ مفتی طارق مسعود صاحب سلف کی فہم کو قبول نہیں کرتے، بلکہ امام اہل الرائے کے اقوال و اجتہاد کے مقلد ہیں، اور سلف الصالحین نے نہ اہل الرائے کے منہج و فہم کومعتبر جانا ہے، اور نہ ان کی تقلید کو، یہ ابھی موضوع نہیں، وگرنہ اس پر سلف کا بہت کلام پیش کیا جا سکتا ہے۔
مفتی طارق مسعود صاحب اکثر یہ راگ الاپتے نہیں تھکتے تھے، کہ سعودیہ میں فقہ حنبلی رائج ہے، وہاں کے علماء فقہ حنبلی کے مقلد ہیں، چاروں فقہ برحق، اب مفتی طارق مسعود صاحب کو نجانے کیا ہو گیا ہے۔
اور مفتی طارق مسعود صاحب کو یہ معوم ہونا چاہیئے، کہ اہل حدیث کے ہاں دلیل کا اعتبار ہوتا ہے، دلیل خواہ سعودیہ سے آئے یا جاپان سے، اور وہ دلیل فہم سلف کے موافق ہو، نہ کہ برخلاف، اور کسی کے اقوال و اجتہاد کو فہم سلف پر پرکھنے کے لئے، فہم سلف اور سلف کے اقوال و اجتہاد کا علم ہونا ضروری ہے، اور یہ مفتی طارق مسعود صاحب میں مفقود ہے۔ مفتی طارق مسعود صاحب تو فقہ حنفی ميں گڑبڑ گھوٹالا کر جاتے ہیں، اور انہیں خبر ہی نہیں ہوتی۔
اسی درس کے دس منٹ میں ہی دیکھ لیں کہ مفتی طارق مسعود صاحب نے اپنی اٹکل کے کیا کیا گل گھلائے ہیں، اور اسے سلف کی پیروی کا نام دے رہے ہیں۔
مفتی طارق مسعود صاحب کا دوسرا مغالطہ یہ ہے کہ مفتی طارق مسعود صاحب سلف کا نام لے کر اپنی ناقص فہم کی تعلیم و تبلیغ کرتے ہیں، حتی کہ مفتی طارق مسعود صاحب کو سلف کے فہم اور ان کے اجتہادات کے بارے میں اکثر کچھ معلوم نہیں ہوتا، اس کا ایک ثبوت تو ابھی ''إِخْوَةٌ'' کے جمع کے لفظ کے تثنیہ پر اطلاق کے حوالے سے گزرا!

اور ایک مثال اور اس کے فوراً بعد ہے؛
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
مفتی طارق مسعود صاحب نے فرمایا:
اور آج کل ایک اور سنابلی صاحب نے خیانت کی ہے،

ہم عرض کرتے ہیں:
مفتی طارق مسعود صاحب
اپنی لا علمی کو عدم وجود کا ثبوت گمان کرتے ہوئے اہل حدیث پر بے جا تہمت لگاتے رہتے ہیں، یہ کوئی پہلی بار نہيں ہوا، یہ تو مفتی طارق مسعود صاحب کا عام معمول ہے۔

مفتی طارق مسعود صاحب نے فرمایا:
امام مالک کا قول پیش کیا ہے، کہ میری نظر میں آٹھ اصل میں صحیح ہیں، اور پتا نہیں لوگوں نے اتنے رکوع و سجود کہاں سے نکال لیئے۔

ہم عرض کرتے ہیں:
جی! شیخ کفایت اللہ سنابلی نے امام مالک کا یہ قول پیش کیا ہے، اور امام مالک کے دو شاگردوں سے اسے روایت کردہ بتلایا ہے، اور متعدد علماء و فقہاء کا امام مالک کا یہ قول قبول کرنا بھی بتلایا ہے۔
اس میں خیانت کیا ہے؟ کہ مفتی طارق مسعود صاحب کو اس کا علم نہيں، اور اپنی لا علمی کو شیخ کفایت اللہ سنابلی کی خیانت کا نام دے رہے ہیں!

مفتی طارق مسعود صاحب نے فرمایا:
میں پھر آپ سے وعدہ کر رہا ہوں کہ جیسا خلع پہ میں نے رکارڈ کروایا ہے نا، ایسے میں اس پہ رکارڈ کرواؤں گا ان شاء الله! اور بتاؤں گا، قرآن و سنت اور اسلاف کیا کہتے ہیں اس بارے میں! آٹھ نہیں ہے کہیں بھی!

ہم عرض کرتے ہیں:
دیکھ لیں، صدیوں قبل کے علماء تو امام مالک رحمہ اللہ کے آٹھ رکعت تراویح کے قول کو درست تسلیم کرتے ہیں، مگر مفتی طارق مسعود صاحب بضد ہیں، کہ آٹھ رکعت تراویح کہیں بھی نہیں۔
مسئلہ خلع ابھی زیر بحث نہیں، وگرنہ مفتی طارق مسعود صاحب نے اس مسئلہ میں بھی گل ہی کھلائے ہیں، وہ رکارڈنگ تو مفتی طارق مسعود صاحب نے امام الضلالۃ مرزا جہلمی مردود علیہ لعنۃ کے لیئے کی ہے، تو ہم اسے در گزر کر رہے ہیں، وگرنہ مفتی طارق مسعود صاحب عدالتی خلع پر اپنا موقف بھی درست طرح سے بیان نہيں کر پائے ہیں، کہ ایک طرف نعرہ ہے کہ ''قاضی اپنی بیوی کو طلاق دے سکتا ہے، کسی اور کی بیوی کو نہیں'' اور اسی کے ساتھ یہ بھی فرماتے ہیں کہ اگر شوہر ظالم ہے، اور بیوی پر واقعی ظلم کرتا ہے، تو قاضی خلع کا حکم کر سکتا ہے۔ اب کوئی پوچھے کہ جب آپ نے قاضی کا یہ حق تسلیم کر لیا کہ وہ خلع کا حکم دے سکتا ہے، تو یہ فیصلہ تو قاضی نے ہی کرنا ہے، کہ بیوی خلع لینے میں حق بجانب ہے یا نہیں، تو عدالتی خلع کا قاضی کا یہ حق و اختیار تو مفتی طارق مسعود صاحب نے تسلیم کر ہی لیا ہے۔ خیر یہ بھی ہماری بحث نہیں! جب مفتی طارق مسعود صاحب، شیخ کفایت اللہ سنابلی کے لئے جواب رکارڈ کرائیں گے،
تب دیکھیں گے؛
فیض سے معذرت کے ساتھ؛
لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے، ہم دیکھیں گے
جب طارق مسعود بتلائیں گے، تب دیکھیں گے
ہم دیکھیں گے، کیا
ثابت ہے، کیا منقول
اجتہاد مقلد کیسا ہے، ہم دیکھیں گے

مفتی طارق مسعود صاحب نے فرمایا:

لوگ ہمیں کہتے ہیں، مبالغہ کر رہا ہے۔ ہم تمہیں بتائیں گے، غلو کون کر رہا ہے، اور کون تمہیں اسلاف کی طرف لے کر آرہا ہے۔

ہم عرض کرتے ہیں:
نہیں، میں یہ بات درست نہیں سمجھتا کہ مفتی طارق مسعود صاحب مبالغہ کرتے ہیں، بلکہ مفتی طارق مسعود صاحب مغالطہ میں ہیں، اور وہی مغالطہ آگے بڑھا دیتے ہيں!
مفتی طارق مسعود صاحب کو اصولاً تو یہ بات تسلیم ہے، کہ اسلاف کا راستہ ہی درست ہے، مگر یہ ادراک نہيں کہ اسلاف کا راستہ تقلید شخصی نہيں بلکہ اتباع ہے!
ویسے اپنے معتقدین کی مجلس جما کر اس طرح کی، بلکہ اس سے بھی بڑھ کر دعوے اور نعرے بازی تو امام الضلالۃ مرزا جہلمی مردود علیہ لعنۃ بھی خوب کرتا ہے، امید ہے کہ مفتی طارق مسعود صاحب اہل حدیث علماء کے سامنے اپنے دعووں پر مدلل سے گفتگو کرنے سے گریز نہیں کریں گے۔

مفتی طارق مسعود صاحب نے فرمایا:
تو امام مالک کا ایسا کوئی قول نہیں ہے، کہ میری نظر میں آٹھ بہتر ہیں، کوئی قول۔

ہم عرض کرتے ہیں:
پھر وہی بات، کہ مفتی طارق مسعود صاحب اپنی لا علمی کو عدم وجود پر دلیل گمان کرتے ہیں۔

مفتی طارق مسعود صاحب نے فرمایا:
یہ علامہ شوکانی سے غلطی ہوئی ہے، اور کئی جگہ غلطی کی ہے۔ ہمارے اہل حدیث بھائیوں نے وہیں سے اٹھا کے بیان کرنا شروع کر دیا ہے،

ہم عرض کرتے ہیں:
شیخ کفایت اللہ سنابلی
نے اپنے بیان میں بھی اس کا ذکر کیا، اور اپنی کتاب میں بھی تحریر کیا ہے، کہ امام مالک کے اس قول کو انہوں نے کہاں سے اخذ کیا ہے۔ لیکن مفتی طارق مسعود صاحب نے نہ صرف اس بیان کو نظر انداز کیا، بلکہ شیخ کفایت اللہ سنابلی کی کتاب کی طرف بھی مراجعت نہیں کی، کہ دیکھ لیتے کہ شیخ کفایت اللہ سنابلی نے امام مالک کے اس قول کو کن مصادر سے بیان کیا ہے۔ ایک تو کریلا اوپر سے نیم چڑھا مصداق عوام کو ٹوپی پہنا دی کہ امام شوکانی نے غلطی کی، اور وہیں سے اٹھا کر بیان کرتے ہيں۔
مفتی طارق مسعود صاحب سے کوئی پوچھے کہ بدر الدین عینی الحنفی متوفی 855 ہجری نے امام شوکانی مولدہ 1255 ہجری سے ان کی پیدائش سے 400 سال قبل عالم أرواح میں جا کر امام مالک کا قول اٹھایا تھا؟
ایسی بے سروپا کی بات پر اتنے وثوق سے دعوی کرنے کا کمال، ہم نے امام الضلالۃ مرزا جہلمی مردود علیہ لعنۃ کے بعد مفتی طارق مسعود صاحب میں دیکھا ہے۔

مفتی طارق مسعود صاحب نے فرمایا:
امام مالک سے ان کی اپنی کتابوں میں جو قول منقول ہے، وہ چھتیس رکعتوں کا ہے۔

ہم عرض کرتے ہیں:
مفتی طارق مسعود صاحب
نے یہاں یہ مغالطہ دیا ہے، یا غلطی ہوئی ہے، کہ جیسے امام مالک کی اپنی کتابوں میں امام مالک کا قول ترواویح کی چھتیس رکعات ہونے کا ہے، لیکن ایسا نہیں ہے، امام مالک کا ایسا کوئی قول امام مالک کی کتاب میں نہيں۔ امام مالک کی اپنی کتاب میں امام مالک، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا حکم 11 رکعات وتر بتلاتے ہیں۔ اور جہاں سے امام مالک کی جانب چھتیس رکعات کی نسبت کی جاتی ہے، وہ امام مالک کی کتب نہیں۔ ممکن ہے کہ مفتی طارق مسعود صاحب کہیں کہ ''ایکچیولی، ہوا کچھ یوں کہ کہ میں فی البدیہہ بیان کرتا ہوں، ایکچیولی! میں مالکیہ کی کتب کا کہہ رہا تھا، میری مراد ''ان'' سے مالکیہ تھے، نہ کہ امام مالک وغیرہ وغیرہ۔۔ تو عرض ہے کہ تقریر میں بھی انسان سے غلطی ہو جاتی ہے، اور تحریر میں بھی۔ لیکن انسان کا غافل ہونا درست نہیں، بلکہ بعض أوقات غفلت قابل سزا جرم ہوا کرتا ہے ۔
ممکن ہے مفتی طارق مسعود صاحب سے غلطی ہو گئی ہو، مگر مفتی طارق مسعود صاحب کے معتقدین، جو اندبھگتی میں امام الضلالۃ مرزا جہلمی مردود علیہ لعنۃ کے بھگتوں سے کچھ درجہ ہی کم ہیں، انہیں تو یہ مغالطہ لاحق ہو گیا! کہ امام مالک کی کتب میں امام مالک کا قول چھتیس رکعات تراویح کا ہے۔
ایک بار پھر غور سے، دھیان سے، ذہن نشین کر لیں کہ امام مالک سے امام مالک کی کتاب میں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا 11 رکعات تراویح بمع وتر کے موجود ہے۔ اور امام مالک کا چھتیس رکعات تراویح کا قول امام مالک کی کتاب میں نہیں ہے۔

مفتی طارق مسعود صاحب نے فرمایا:
اور ان کے شاگردں نے انکے چھتیس کو چینج کر کے بیس کیا ہے، یعنی فتوی مالکی مذہب میں بیس پر ہے۔

ہم عرض کرتے ہیں:
مفتی طارق مسعود صاحب
، چینج کا لفظ استعمال کرکے ایک حقیقت لوگوں سے چھپانا چاہتے ہیں، وہ یہ کہ مفتی طارق مسعود صاحب کے قول کے مطابق، امام مالک کے شاگردوں نے امام مالک کے چھتیس رکعت تراویح کے قول کو قبول نہیں کیا، بلکہ رد کر دیا!
امام مالک خود ہی اپنا قول چینج کرنے کا حق رکھتے ہیں، یعنی اپنے قول سے رجوع امام مالک خود کرسکتے تھے، ان کے کسی شاگرد کا یا تمام شاگردوں کو مل کر بھی یہ حق حاصل نہیں، کہ وہ امام مالک کا قول چینج کریں، ہاں! انہیں امام مالک کے قول کو رد کرنے کا اختیار ہے۔
لیکن یہ بات زبان پر لانا مفتی طارق مسعود صاحب مقلد حنفی کے لیئے بڑا مشکل ہے، کیونکہ مجتہد مطلق کہ جس کی تقلید کی جاتی ہے، اس کے قول کو رد بھی کیا جاسکتا ہے، اور یہ امر در حقیقت تقلید شخصی پر سوال اٹھا سکتا ہے، اور اس کی زد میں تو امام أبو حنیفہ رحمہ اللہ بھی آئیں گے، لہٰذا مفتی طارق مسعود صاحب نے ایک ایسا لفظ استعمال کیا، جس سے قول کو رد کرنے کا خیال نہ ہو۔ کوئی ایسا لفظ استعمال کیا ہوتا کہ جو امام مالک کے شاگردوں کے عمل پر صادق آتا، تو ہمیں اس پر شکایت نہ ہوتی، مگر کسی کے قول کو سوائے خود، کوئی بھی چینج نہیں کر سکتا۔ مفتی طارق مسعود صاحب ایسی ٹوپیاں گھمانے اپنا ایک مقام رکھتے ہيں۔

مفتی طارق مسعود صاحب نے فرمایا:
امام مالک نے چھتیس اس لیئے کہ اپنے زمانے میں دیکھا لوگ چھتیس پڑھ رہے ہیں، امام مالک کو امیر نے پیغام بھیجا، امیر، وہاں کے جو بھی امیر تھے، کہ اس کو کم کرو، تو امام مالک نے کہا کم نہیں کروں گا، کیونکہ میں نے چھتیس پڑھتا ہوا پایا ہے۔

ہم عرض کرتے ہیں:
مفتی طارق مسعود صاحب
کے اس بیان کو تسلیم کر بھی لیا جائے، تو ایک بات تو یہ ثابت ہوئی کہ تراویح 20 رکعات ہونے پر اجماع کا دعوی سراسر باطل ہے، کہ امام مالک نے مدینہ میں مسجد نبوی میں 20 رکعت سے زائد 36 رکعت تراویح پڑھتے ہوئے پایا، اور امام مالک کی تاریخ ولادت 90 ہجری کی ہے۔
دوم کہ 20 رکعت تراویح پر تواتر عملی کی حیلہ جدلی بھی باطل قرار پائی، کہ امام مالک نے مدینہ میں مسجد نبوی میں 20 رکعت سے زائد 36 رکعت تراویح پڑھتے ہوئے پایا، اور امام مالک کی تاریخ ولادت 90 ہجری کی ہے۔
اور امام مالک کا یہ قول تو ثابت ہے، مگر اس کے علاوہ بات وہ نہیں جو مفتی طارق مسعود صاحب نے بیان کی۔ مفتی طارق مسعود صاحب نے اپنے معمول کی طرح ایک ہوائی بات کر دی ہے۔
اگر مفتی طارق مسعود صاحب، شیخ کفایت اللہ سنابلی کی کتاب ہی پڑھ لیتے تو، انہیں معلوم ہو جاتا کہ واقعہ کیا ہے؛
واقعہ کچھ یوں ہے کہ؛
امام مالک نے کہا کہ امیر نے میرے پاس یہ پیغام بھیجا کہ مدینہ میں لوگ جس تعداد رکعات پر عامل ہیں اس میں وہ کمی کروانا چاہتے ہیں۔ ابن القاسم کہتے ہیں یہ تعداد 39 رکعات تھی، جن میں تین وتر تھی۔ امام مالک نے کہا: میں نے اسے اس میں کچھ بھی کمی کروانے سے منع کیا اور اس سے کہا: میں نے لوگوں کو ایسے ہی پڑھتے ہوئے پایا ہے اور یہ بہت پہلے سے چلا آرہا ہے، جس پر لوگ جمع ہیں۔
مفتی طارق مسعود صاحب کا یہ کہنا کہ امیر نے امام مالک کو یہ کہا کہ '' اس کو کم کرو '' یہ بات درست نہیں، بلکہ امیر نے امام مالک سے اپنے ارادے اور خواہش کا اظہار کیا، اور مشورہ مانگا۔ اور مفتی طارق مسعود صاحب کا امام مالک کا جواب '' تو امام مالک نے کہا کم نہیں کروں گا '' بتلانا، یہ بھی درست نہيں، بلکہ امام مالک نے امیر کو مشورہ دیا کہ ایسا نہ کریں۔
یہ معاملہ مدینہ کے لوگوں کے عمل سے متعلق تھا، اور امام مالک کا کوئی قول ثابت نہیں ہے کہ تروایح چھتیس رکعت ہیں، امام مالک نے لوگوں کے ایک جاری عمل کو امیر کے حکم کے ذریعے روکنے سے مصلحتاً منع کیا۔ اور خود آٹھ رکعت تراویح کو اختیار کیا، جو امام مالک کے دو شاگردوں سے روایت کردہ ہے۔

مفتی طارق مسعود صاحب نے فرمایا:
لیکن امام مالک کے شاگردوں نے کیا کیا کہ بھئی اصل حضرت عمر نے جو بیس شروع کیں تھیں، لہٰذا اسی پہ، لہٰذا مالکی مذہب میں فتوی چھتیس پہ نہیں ہے، فتوی کس پر ہے، بیس پر ہے۔

ہم عرض کرتے ہیں:
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے امام مالک کی کتاب موطا امام مالک میں ہی 11 رکعات بمع وتر کے ایک امام کی امامت میں شروع کروانا ثابت ہے، اور بیس رکعات سیدنا عمر سے ثابت نہیں۔

مفتی طارق مسعود صاحب نے فرمایا:
بعض اماموں کے قول ملتے ہیں، لیکن ان قول کی دلیل مظبوط نہیں ہوتی، تو ان کے شاگرد اس قول کو چینج کر دیتے ہیں۔ یہ ہوتا ہے، جیسے امام أبو حنیفہ کے نزدیک نماز استسقاء ثابت نہیں ہے، لیکن حنفی مذہب میں نماز استسقاء ہے، کیوں بھئی اس بارے میں صحیح حدیثیں ہیں۔ تو امام أبو حنیفہ کے شاگردوں نے امام صاحب کے قول کو کیا کر دیا، چینج۔

ہم عرض کرتے ہیں:
دیکھ لیں، مفتی طارق مسعود صاحب نے الفاظ کے تغیر سے حقیقت کو کس طرح مسخ کرنا چاہا ہے، جبکہ امام أبو حنیفہ کے قول کو چینج نہیں کیا، بلکہ رد کیا ہے۔ اور یہ فنکاری مفتی طارق مسعود صاحب اس واسطے کرتے ہیں، کہ اہل حدیث کو امام أبو حنیفہ و دیگر ائمہ کے قول کے رد کرنے کے الزام میں مطعون کیا جائے۔ حالآنکہ اہل حدیث ان ائمہ کے اقوال و اجتہاد کو دیگر ائمہ و صحابہ کے اقوال و اجتہاد یا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے مقابلے میں رد کرتے ہیں۔

مفتی طارق مسعود صاحب نے فرمایا:
تو ایسا ہی امام مالک نے اپنے زمانے میں چھتیس ہوتے ہوئے دیکھیں، حکم دیا لوگوں کو کہ چھتیس پڑھو،

ہم عرض کرتے ہیں:
مفتی طارق مسعود صاحب
کا یہ کہنا کہ امام مالک نے '' حکم دیا لوگوں کو کہ چھتیس پڑھو '' یہ مفتی طارق مسعود صاحب کا وھم ہے، ایسا کوئی حکم امام مالک سے ثابت نہیں، اور اگر مفتی طارق مسعود صاحب امام مالک سے اس حکم کی نسبت میں سچے ہیں، تو مفتی طارق مسعود صاحب امام مالک سے اس حکم کا ثبوت پیش کریں!

مفتی طارق مسعود صاحب نے فرمایا:
لیکن شاگردوں نے جب دیکھا کہ اصل تو بیس ہیں، یہ چھتیس بعد میں عمر بن عبد العزیز سے ملتا ہے، انہوں نے شروع کروائیں، انہوں نے کہا تاکہ رکعتیں لمبی ہوں تو قرآن ہلکا ہو جائے گا لوگوں پہ، رکعتیں مختصر ہو جائیں گی۔

ہم عرض کرتے ہیں:
یہی وجہ جواز آٹھ رکعت تراویح کو 20 رکعت تراویح کرنے میں تھا، کہ تراویح کی ایک أمام کی امامت میں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے حکم سے جاری کردہ آٹھ رکعت تراویح کو بعد ميں 20 رکعت اور 36 رکعت تک بڑھا دیا

مفتی طارق مسعود صاحب نے فرمایا:
تو انہوں نے بعد والوں نے چینج کیا، نہیں بھئی جو رکعتیں، جو حضرت عمر سے جو منقول ہیں، ہم نے وہ ہی پڑھنی ہیں، اور حضرت عمر سے جو آٹھ والی منقول ہیں نا! ان کے بارے میں دعوے ہی دعوے ہیں کہ صحیح ہیں۔ تو میں ان شاء اللہ! وہ بھی بتاؤں گا، کہ صحیح اس میں کیا ہے۔

ہم عرض کرتے ہیں:
لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے، ہم دیکھیں گے
جب طارق مسعود بتلائیں گے، تب دیکھیں گے

مفتی طارق مسعود صاحب نے فرمایا:
تو ہمیں، ہم نہیں کہہ رہے کہ ہم بہت بڑے علامے ہیں، لیکن ہم اتنے خالی نہیں ہیں جتنا ہمیں سمجھا جاتا ہے۔ کیوں ہم، ہم کیوں اتنے خالی نہیں ہیں، اس لیئے کہ ہم اسلاف کی دعوت دے رہے ہیں!

ہم عرض کرتے ہیں:
ہم مفتی طارق مسعود صاحب
کی ذات پر گفتگو نہیں کرنا چاہتے، ہم مفتی طارق مسعود صاحب کی بات پر گفتگو کریں گے۔ ممکن ہے کہ مفتی طارق مسعودصاحب لبالب بھرے ہوئے ہوں، لیکن جب تک اس کا اظہار نہیں ہوتا ہم کیا کہہ سکتے ہیں؟
دوم کہ مفتی طارق مسعود صاحب اسلاف کی دعوت نہیں دیتے، بلکہ اسلاف میں سے اہل الرائے کے امام کی تقلید شخصی کی دعوت دیتے ہیں، اور باقی تمام اسلاف کو ترک کرنے کی دعوت دیتے ہیں۔ اور اسلاف نے کبھی اس تقلید کو نہ اختیار کیا، نہ ہی اس کی دعوت دی۔ فی الوقت یہ موضوع نہیں۔وگرنہ ہم علمائے دیوبند کی مسلکی دستاویز یعنی المہند علی المفند سے اس کو بیان کرتے۔

مفتی طارق مسعود صاحب نے فرمایا:
اور ظاہر ہے ان کے دلائل آج کے اسکالرز کی نسبت بہت زیادہ مظبوط ہیں،

ہم عرض کرتے ہیں:
بلکل اسلاف کے دلائل آج کے مقلدین علماء کے دلائل سے بہت مضبوط ہیں، لہٰذا اہل حدیث کا منہج درست ہے کہ وہ اسلاف کے منہج پر ہیں! مفتی طارق مسعود صاحب نے اسی دس منٹ کے دوران جو دلائل پیش کیئے ہیں، وہ سلف کے دلائل کے برخلاف ہیں، جس کا ثبوت پیش کیا گیا ہے۔
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
مفتی طارق مسعود صاحب نے فرمایا:
تو میرا مقصد ابھی تروایح کا موضوع چھیڑنا نہیں ہے، میرا مقصد ہے رمضان کو پروٹوکول دو، اگر آٹھ ہی تھیں، رمضان، غیر رمضان میں تو اس رمضان میں کیا تیر مار لیا آپ نے!

ہم عرض کرتے ہیں:
رمضان کو ''پروٹول'' دینے کے چکر میں مفتی طارق مسعود صاحب نے تراویح کی رکعات کی تعداد ميں اضافہ کو ہی موضوع بنایا ہے، آپ کے پاس اس کے علاوہ اور کوئی بات ہے ہی نہیں! تراویح کی تعداد میں اضافہ کے علاوہ مفتی طارق مسعود صاحب کے نزدیک اور کیا چیز ہے، جس سے وہ رمضان کو ''پروٹوکول'' دے سکتے ہیں۔ یہی ''پروٹوکول'' دینے کی بنیاد پر ہی، ہمارے معاشرے میں کالی پیلی بدعتیں رائج کی جا رہی ہیں!
اہل حدیث کا منہج خوب سمجھ لیں، دینی أمور میں کسی کی اٹکل کی بناء پر خود ساختہ پروٹوکول بدعت ہیں، ہم شعار اسلام کو اسی طرح اختیار کرتے ہیں، اور اسی طرح اہتمام کے قائل ہیں، جو اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ وحی سے سلف صالحین نے سمجھا ہے۔

مفتی طارق مسعود صاحب نے فرمایا:
تو جہاں طول قراءت مقصود ہے رمضان میں، وہاں کثرت رکوع و سجود بھی مقصود ہے۔

ہم عرض کرتے ہیں:
تروایح میں ''کثرت رکوع و سجود'' کا مقصود ہونا مفتی طارق مسعود صاحب کو کس نے بتلایا ہے؟ قرآن و حدیث کی کون سی دلیل ہے، جس پر سلف صالحین نے کہا ہو کہ رمضان میں تراویح میں ''کثرت رکوع و سجود'' مقصود ہے۔
اسلاف میں یہ بحث تو پائی جاتی ہے کہ، آیا! طول قیام افضل ہے، یا کثرت رکوع و سجود، لیکن اس خود ساختہ کثرت رکوع و سجود کا مقصود ہونا مفتی طارق مسعود صاحب کی اپنی اختراع ہے، یا کسی کی اختراع کی تقلید میں فرما رہے ہیں۔
اور اگر تراویح میں کثرت رکوع و سجود دلیل ہے، تو پھر بیس رکعت کیوں ایک وقت کے اہل مدینہ کی طرح 36 رکعت کیوں نہیں، اس میں تو اور رکوع و سجود کی اور کثرت ہے۔ اور پھر کوئی اس سے بھی زیادہ کثرت سے رکوع و سجود کرنا چاہئے، تو تعداد رکعات اور بڑھا دے، آپ نے بیس پر ہی بریک کیوں روک دیا!
اور اگر تراویح کی مسنون رکعات کی تعداد 20 قرار دینے پر یہی دلیل ٹھہری، اور اگر تراویح میں کثرت رکوع و سجود دلیل ہے، تو پھر بیس رکعت کیوں ایک وقت کے اہل مدینہ کی طرح 36 رکعت کیوں نہیں، اس میں تو رکوع و سجود کی اور کثرت ہے۔ اور پھر کوئی اس سے بھی زیادہ کثرت سے رکوع و سجود کرنا چاہئے، تو تعداد رکعات اور بڑھا دے، آپ نے بیس پر ہی کیوں روک دیا!
پھر تو جتنی زیادہ رکعات کریں، اتنے ہی زیادہ رکوع و سجود ہوں گے، پھر لوگوں کو 20 رکعات پر کیوں روک دیتے ہیں؟ مفتی طارق مسعود صاحب کو چاہیئے کہ وہ لوگوں کو 30، 40، 50 اور چاہیں تو 100، 200 رکعاتیں پڑھنے کی ترغیب دیں!
اگر یہ خود ساختہ پروٹول درست ہے، تو پھر اپنے بریلوی بھائیوں کی طرح ہرے جھنڈوں اور لال پیلی بتیوں سے بھی رمضان کو پروٹوکول دے دیا کریں، اور صلاة غوثیہ اور صلاة فلاں کے ذریعے بھی رکوع و سجود میں اضافہ کر دیں، فجر، ظہر، عصر، مغرب اور عشاء کی نمازوں میں بھی رکوع و سجود کی تعداد میں اضافہ کرکے رمضان کو پرٹوکول دے دیں!

مفتی طارق مسعود صاحب نے فرمایا:
آٹھ والے کثرت سے رکوع اور سجود نہیں کرتے۔

ہم عرض کرتے ہیں:
آٹھ والے تراویح میں اتنے رکوع کرتے ہیں، جتنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کیا کرتے تھے، اور سجدے بھی اتنے ہی کرتے ہیں، جتنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کیا کرتے تھے۔ اور اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کی کیفت بھی سے بہتر ہے، اور نماز میں رکعات کی تعداد بھی سب سے بہتر ہے۔
عبد الحق محدث دہلوی حنفی (المتوفى: 1052ہجری) اپنی کتاب کا ماثبت بالسُّنَّة في أيام السَّنَة میں فرماتے ہیں:
الفصل الاول في تعداد ركعاتها فعندنا هي عشرون ركعة لما روي البيهقي باسناد صحيح انهم كانو يقومون علی عهد عمر رضي الله عنه بعشرين ركعة وفي عهد عثمان رضي الله عنه مثله وروي ابن عباس انه صلّی رسول الله صلی الله عليه وسلم عشرين ركعة في رمضان ثم أوتر بثلث لكن المحدثين قالوا ان هذا الحديث ضعيف والصحيح ما روته عائشة رضي الله عنها صلّی احدي عشرة ركعة كما هوا عادتة في قيام الليل وروي انه كان بعض السلف في عهد عمر بن عبدالعزيز يصلون احدي عشرة ركعة قصدا للتشبه برسول الله صلی الله عليه وسلم والذي استقر عليه الامر واشتهر من الصحابة والتابعين ومن بعد هم هو العشرون وما روي انها ثلث وعشرون فلحساب الوتر معها.
پہلی فصل رکعات کی گنتی میں سو ہمارے نزدیک تراویح بیس رکعت ہیں کیونکہ بیہقی نے صحیح اسناد سے روایت کیا ہے کہ وہ لوگ عمر رضی اللہ عنہ کے عہد میں بیس رکعات پڑھا کرتے تھے اور عثمان رضی اللہ عنہ کے عہد میں اتنے ہی پڑھتے تھے اور ابن عباس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان میں بیس رکعتیں پڑھیں پھر اس کے بعد تین وتر پڑھے لیکن محدث کہتے ہیں کہ یہ حديث ضعيف ہے اور صحیح وہ ہی ہے جو عائشہ رضی اللہ عنہ روایت کرتی ہیں کہ حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے گیارہ رکعت پڑھیں جیسے کہ قیام اللیل میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت تھی اور روایت ہے کہ بعضےبزرگ عمر بن عبدالعزیر کے عہد میں گیارہ رکعت پڑھا کرتے تھے اس غرض سے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مشابہت ہو جاوے اور گنتی جو ٹھر گئی ہے صحابی اور تابعین سے اور انکے بعد لوگوں سے مشہور چلا آتا ہے سو بیس رکعت ہیں ۔ یہ جو روایت ہے کہ تراویح تئیس 23 رکعات ہیں سو وتر کو تراویح کے ساتھ ملا لیا ہے.
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 240 - 241 ماثبت بالسُّنَّة في أيام السَّنَة – عبد الحق بن سیف الدین المحدث الدهلوي الحنفي (المتوفى: 1052هـ) – دار الكتب العلمية، بيروت
ملاحظہ فرمائیں: صفحہ 217 - 218 ماثبت بالسُّنَّة في أيام السَّنَة ﴿مع ترجمہ اردو﴾ – مطبع المجتبائی، دہلی

1052 ہجری میں فوت ہونے والے عبد الحق محدث دہلوی عمر بن عبد العزیز کے دور کے بعض اسلاف کی روایت نقل کرتے ہیں، کہ وہ 8 رکعات تراویح پڑھا کرتے تھے کہ ان کی رکعات کی تعداد کی بھی مشابہت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تراویح کی رکعات کی تعداد سے ہو جائے۔ اور مفتی طارق مسعود صاحب، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تراویح کی رکعات کی تعداد میں اضافہ کرنے کو ''مقصود'' قرار دے رہے ہیں۔
مفتی طارق مسعود صاحب کے پاس اگر کوئی دلیل ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تراویح کی رکعات 20 تھیں، اور وہ اس دلیل کو صحیح و ثابت سمجھتے ہیں، اور واقعی ایسی کوئی دلیل ہے، اور وہ اسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت سمجھتے ہیں، اور یاد رہے اللہ دلوں کے حال جانتا ہے،کہ یہ بات کوئی تقلیدا کہہ رہا ہے، یا واقعی اس کا دل دلیل سے مطمئن ہے، تو مفتی طارق مسعود صاحب اس سے 20 رکعات پر دلیل قائم کریں اور وہ دلیل بتلائیں، اور بیان کریں۔ یہ مفتی طارق مسعود صاحب اور دیگر تمام کا حق ہے، مگر اس طرح اپنے اٹکل پچو کو شریعت کا ماخذ بنا لینا بلکل بھی درست نہیں۔

مفتی طارق مسعود صاحب نے فرمایا:
دیکھو! حدیث میں صحیح مسلم کی حدیث ہے:
يَجْتَهِدُ فِي رَمضانَ مَالا يَجْتَهِدُ في غَيْرِهِ
نبی رمضان میں جو محنت کرتے تھے، غیر رمضان میں نہیں کرتے تھے،

ہم عرض کرتے ہیں:
یہ حدیث مفتی طارق مسعود صاحب کے بیان کردہ الفاظ میں صحیح مسلم میں نہیں، بلکہ امام النووی نے ریاض صالحین میں لکھے ہیں، اور غلطی سے اس کی نسب صحیح مسلم سے کی ہے۔ اب ممکن ہے مفتی طارق مسعود صاحب نے وہاں سے اٹھا کر بیان کر دی اور صحیح مسلم کی مراجعت کے بغیر نسبت صحیح مسلم سے کر دی۔ ہم ریاض الصالحين اور صحیح مسلم دونوں کی روایات پیش کرتے ہیں؛
امام النووی ریاض الصالحين میں باب فضل قيام ليلة القدْر وبَيان أرجى لياليها کے تحت سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے درج ذیل روایات نقل کرتے ہیں؛
وعنْ عائِشَةَ رضي الله عنها، قَالَتْ: كانَ رسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم يُجاوِرُ في العَشْرِ الأَوَاخِرِ مِنْ رمضَانَ، ويَقُول: "تحَرَّوْا لَيْلَةَ القَدْرِ في العشْرِ الأَوَاخِرِ مِنْ رَمَضانَ" متفقٌ عَلَيْهِ.
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے آخری دس دنوں میں اعتکاف فرمایا کرتے تھے اور فرماتے تھے: کہ رمضان کے آخری دس دنوں میں لیلۃ القدر کو تلاش کرو۔ (بخاری ومسلم)

وَعَنْها رضي الله عنها أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم قَالَ: "تَحرّوْا لَيْلةَ القَدْرِ في الوتْرِ مِنَ العَشْرِ الأَواخِرِ منْ رمَضَانَ" رواهُ البخاريُّ.
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا ہی سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: تم لیلۃ القدر کو رمضان کے آخری عشرے کی طاق راتوں میں تلاش کرو۔ (بخاری)

وعَنْهَا رضي الله عنها، قَالَتْ: كَانَ رسُول اللَّهِ صلى الله عليه وسلم: "إِذا دَخَلَ العَشْرُ الأَوَاخِرُ مِنْ رمَضَانَ، أَحْيا اللَّيْلَ، وَأَيْقَظَ أَهْلَه، وجَدَّ وَشَدَّ المِئزرَ" متفقٌ عَلَيهِ.
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ جب رمضان کا آخری عشرہ شروع ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم رات کو جاگتے اور اپنے گھر والوں کو بھی جگاتے اور خوب کوشش کرتے اور کمر کس لیتے۔ (بخاری و مسلم)

وَعَنْهَا قَالَتْ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم يَجْتَهِدُ فِي رَمضانَ مَالا يَجْتَهِدُ في غَيْرِهِ، وَفِي العَشْرِ الأَوَاخِرِ منْه، مَالا يَجْتَهدُ في غَيْرِهِ"رواهُ مسلمٌ
سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان میں جتنی مشقت کرتے تھے اتنی غیر رمضان میں نہیں کرتے تھے اور رمضان کے آخری عشرے میں جتنی مشقت کرتے تھے اتنی اس کے علاوہ کسی دوسرے دنوں میں نہیں کرتے تھے۔ (مسلم)
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 432 رياض الصالحين – أبو زكريا محيي الدين يحيى بن شرف النووي (المتوفى: 676هـ) – المكتب الإسلامي، بيروت
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 346 رياض الصالحين – أبو زكريا محيي الدين يحيى بن شرف النووي (المتوفى: 676هـ) – مؤسسة الرسالة، بيروت
ملاحظہ فرمائیں: صفحہ 96 جلد 02 رياض الصالحين ﴿مع ترجمہ اردو﴾ – مترجم؛ شمس الدین – مکتبۃ العلم، لاہور

اور صحيح مسلم میں امام مسلم نے درج ذیل الفاظ میں روایات نقل کیں ہیں؛
‌‌بَاب الِاجْتِهَادِ فِي الْعَشْرِ الْأَوَاخِرِ مِنْ شَهْرِ رَمَضَانَ
حَدَّثَنَا إِسْحَاق بْنُ إِبْرَاهِيمَ الْحَنْظَلِيُّ وَابْنُ أَبِي عُمَرَ. جَمِيعًا عَنِ ابْنِ عُيَيْنَةَ. قَالَ إِسْحَاق: أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ عَنْ أَبِي يَعْفُورٍ، عَنْ مُسْلِمِ بْنِ صُبَيْحٍ، عَنْ مَسْرُوقٍ، عَنْ عَائِشَةَ رضي الله عنها. قَالَتْ:
كَانَ رسول الله صلى الله عليه وسلم، إذا دَخَلَ الْعَشْرُ، أَحْيَا اللَّيْلَ وَأَيْقَظَ أَهْلَهُ وَجَدَّ وشد المئزر.

سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ جب رمضان کا آخری عشرہ شروع ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم رات کو جاگتے اور اپنے گھر والوں کو بھی جگاتے اور خوب کوشش کرتے اور کمر کس لیتے۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ وَأَبُو كَامِلٍ الْجَحْدَرِيُّ. كِلَاهُمَا عَنْ عَبْدِ الْوَاحِدِ بْنِ زِيَادٍ. قَالَ قتيبة: حدثنا عبد الواحد عن الحسن ابن عُبَيْدِ اللَّهِ. قَالَ: سَمِعْتُ إِبْرَاهِيمَ يَقُولُ: سَمِعْتُ الْأَسْوَدَ بْنَ يَزِيدَ يَقُولُ: قَالَتْ عَائِشَةُ رضي الله عنها: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم يَجْتَهِدُ فِي الْعَشْرِ الْأَوَاخِرِ، مَا لَا يَجْتَهِدُ فِي غَيْرِهِ
سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے آخری عشرے میں جتنی مشقت کرتے تھے اتنی اس کے علاوہ کسی دوسرے دنوں میں نہیں کرتے تھے۔

مفتی طارق مسعود صاحب کے بیان کردہ الفاظ صحیح مسلم کی حدیث ميں نہیں، بلکہ امام النووی کی ریاض الصالحین میں ہیں، جس کی نسبت امام النووی نے صحیح مسلم کی طرف کی ہے، مگر یہ امام النووی کا سہو ہے۔ اور مقلدین ان الفاظ کو وہاں سے اٹھا کر صحیح مسلم کی طرف نسبت کرتے ہیں۔ در حقیقت جو عمل مفتی طارق مسعود صاحب نے اہل حدیث سے منسوب کرکے طعن کیا تھا اس عمل کے مرتکب مفتی طارق مسعود صاحب خود ہوئے ہیں۔
اہل الرائے اور وہ بھی مقلدین حنفیہ کو علم حدیث کے متعلق کچھ سمجھانا بہت مشکل ہے، لیکن ہمارے ذمہ تو کوشش اور بتلانا ہے، وہ ہم کر دیتے ہیں؛
امام النووی نے در اصل دو روایات کو ایک ساتھ لکھ دیا ہے، آخری الفاظ ﴿يَجْتَهِدُ فِي الْعَشْرِ الْأَوَاخِرِ، مَا لَا يَجْتَهِدُ فِي غَيْرِهِ﴾ تو صحیح مسلم کے ہیں، لیکن پہلے الفاظ ﴿يَجْتَهِدُ فِي رَمضانَ مَالا يَجْتَهِدُ في غَيْرِهِ،﴾ صحیح مسلم کے نہیں، بلکہ دوسری روایت کے ہیں، جو عفان بن مسلم الصفار کی روایت میں ہیں؛
اس کا ثبوت دیکھیں؛
حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَاحِدِ بْنُ زِيَادٍ، حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عُبَيْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ، عَنِ الأَسْوَدِ، عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم يَجْتَهِدُ فِي رَمَضَانَ مَا لا يَجْتَهِدُ فِي غَيْرِهِ.
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 346 أحاديث عفان بن مسلم – (ضمن أحاديث الشيوخ الكبار - أقدم المخطوطات الحديثية) – عفان بن مسلم بن عبد الله الباهلى، أبو عثمان الصفار البصرى، مولى عزرة بن ثابت الأنصارى (المتوفى: 219هـ) – دار الحديث، القاهرة

اور یہ روایت صحیح مسلم اور دیگر کتب احادیث کی روایات کے الفاظ ''يَجْتَهِدُ فِي الْعَشْرِ الْأَوَاخِرِ، مَا لَا يَجْتَهِدُ فِي غَيْرِهِ'' پر ہی محمول ہے، کہ رمضان سے مراد رمضان کا آخری عشرہ ہے کہ یہ روایت آخری عشرہ کی قید و تفصیل سے روایت ہے۔
بلکہ مستخرج ابي عوانه جسے مسند ابي عوانه بھی کہتے ہیں، انہیں عفان بن مسلم الصغارر سے، وہی الفاظ روایت ہیں جو صحیح مسلم میں ہیں؛
حَدَّثَنَا الصَّاغَانِيُّ، وَأَبُو أُمَيَّةَ، قَالَا: حَدَّثَنَا عَفَّانُ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَاحِدِ بْنُ زِيَادٍ، حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عُبَيْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ، عَنِ الْأَسْوَدِ،، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: «كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم يَجْتَهِدُ فِي الْعَشْرِ الْأَوَاخِرِ مَا لَا يَجْتَهِدُ فِي غَيْرِهِ»
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 246 جلد 08 المسند الصحيح المخرج على صحيح مسلم – أبو عوانة يعقوب بن إسحاق الإسفراييني (المتوفى: 316هـ) – الجامعة الإسلامية بالمدينة المنورة
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 253 - 254 جلد 02 المسند الصحيح المخرج على صحيح مسلم – أبو عوانة يعقوب بن إسحاق الإسفراييني (المتوفى: 316هـ) – دار المعرفة، بيروت

لہٰذا یہ عفان بن مسلم سے مروی روایت کو انہيں کی اور دیگر روات سے مروی صحیح مسلم کی روایت پر محمول کیا جائے گا۔ مزید تفصیل کی یہاں حاجت نہیں کہ علم الحدیث اور فقہ الحدیث کا مکمل سبق پڑھایا جائے۔
اور اگر اسے مطلق بھی رکھا جائے، تو یہ ثابت ہو گا، کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم رمضان میں غیر رمضان سے زیادہ مشقت کرتے تھے، اور رمضان کے آخری عشرے میں رمضان کے پہلے دو عشروں سے بھی زیادہ مشقت کرتے تھے۔
بلکہ اب دیکھئے علمائے سلف و متقدمین اس روایت سے کیا استدلال کرتے ہیں؛
مستخرج ابن عوانه میں امام ابن عوانه متوفی 316 ہجری اور یاد رکھیئے گا، یہ کوئی 1400 سال بعد کے نہیں، 316 ہجری میں وفات پانے والے امام ہیں، وہ ایک باب قائم کرتے ہیں؛
‌‌بَابُ مَبْلَغِ عَدَدِ الرَّكَعَاتِ الَّتِي كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم يُصَلِّيهَا مِنَ اللَّيْلِ فِي شَهْرِ رَمَضَانَ، وَأَنَّهُ كَانَ يُدَاوِمُ عَلَيْهَا فِي سَائِرِ الشُّهُورِ
اس مبلغ تعداد رکعات کا باب جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان کی راتوں کی نماز میں ادا کیں، اور جس پر باقی تمام مہینوں میں دوام رکھا
ابن عوانہ رحمہ اللہ اس باب کے تحت سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی مروی وہی آٹھ رکعات تراویح کی حدیث درج کرتے ہیں، اور اس حدیث سے یہ ثابت کرتے ہیں کہ خواہ رمضان میں رات کی نماز ہو، یا غیر رمضان میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم 11 رکعت بمع وتر پڑھا کرتے تھے۔ اس کے فوراً بعد ایک باب قائم کیا؛

‌‌بَابُ ذِكْرِ الْخَبَرِ الْمُعَارِضِ لِخَبَرِ عَلْقَمَةَ عَنْ عَائِشَةَ فِي إِيثَارِ أَيَّامٍ مِنْ بَيْنِ الْأَيَّامِ بِالْعَمَلِ، الْمُبَيِّنِ أَنَّ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم كَانَ يَجْتَهِدُ فِي الْعَشْرِ الْأَوَاخِرِ مِنْ رَمَضَانَ مَا لَا يَجْتَهِدُ فِي غَيْرِهَا مِنَ الْأَيَّامِ، الدَّالِّ عَلَى أَنَّهُ صلى الله عليه وسلم رُبَّمَا طَوَّلَ فِي هَذِهِ الرَّكَعَاتِ الْمَعْلُوْمَاتِ الَّتِي كَانَ يُصَلِّيهَا وَرُبَّمَا قَصَّرَ بِطُولِهَا فِي اللَّيْلَةِ الَّتِي كَانَتْ يُحْيِيهَا وَيُقَصِّرُهَا فِي اللَّيْلَةِ الَّتِي يَقُومُ بَعْضَهَا إِذِ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم لَمْ يَكُنْ يَزِيدُ فِي رَمَضَانَ وَلَا فِي غَيْرِهِ عَلَى أَحَدَ عَشَرَ رَكْعَةً.
اس باب میں ابن عوامہ رحمہ اللہ نے صحیح مسلم کی اسی روایت ''كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم يَجْتَهِدُ فِي الْعَشْرِ الْأَوَاخِرِ، مَا لَا يَجْتَهِدُ فِي غَيْرِهِ'' کی شرح بیان کی کہ 'ٰ'يَجْتَهِدُ'' طول قیام کو دلالت کرتا ہے، نہ کہ رکعات کی تعداد میں اضافہ کو، کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم رمضان ہو یا غیر رمضان 11 رکعت سے زیادہ قیام اللیل نہیں کرتے تھے۔

اور اسی باب میں عفان بن مسلم کی روایت سے وہی مسلم والے الفاظ نقل کیئے ہیں:
حَدَّثَنَا سَعْدَانُ بْنُ نَصْرٍ، وَشُعَيْبُ بْنُ عَمْرٍو، قَالَا: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ أَبِي يَعْفُورٍ، عَنْ مُسْلِمٍ، عَنْ مَسْرُوقٍ،، عَنْ عَائِشَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم قَالَتْ: «كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم إِذَا دَخَلَ الْعَشْرُ الْأَوَاخِرُ مِنْ رَمَضَانَ أَيْقَظَ أَهْلَهُ، وَأَحْيَا لَيْلَهُ، وَشَدَّ الْمِئْزَرَ»

حَدَّثَنَا الصَّاغَانِيُّ، وَأَبُو أُمَيَّةَ، قَالَا: حَدَّثَنَا عَفَّانُ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَاحِدِ بْنُ زِيَادٍ، حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عُبَيْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ، عَنِ الْأَسْوَدِ،، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: «كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم يَجْتَهِدُ فِي الْعَشْرِ الْأَوَاخِرِ مَا لَا يَجْتَهِدُ فِي غَيْرِهِ»

ملاحظہ فرمائیں: صفحه 242 - 246 جلد 08 المسند الصحيح المخرج على صحيح مسلم – أبو عوانة يعقوب بن إسحاق الإسفراييني (المتوفى: 316هـ) – الجامعة الإسلامية بالمدينة المنورة
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 252 - 254 جلد 02 المسند الصحيح المخرج على صحيح مسلم – أبو عوانة يعقوب بن إسحاق الإسفراييني (المتوفى: 316هـ) – دار المعرفة، بيروت

مذکورہ بالا احادیث کی اس بات پر دلیل و ثبوت ہیں، کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہ کی اس روایت سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت رمضان کی راتوں میں تعداد رکعات کا اضافہ کرنے کا عمل منسوب کرنا درست نہیں۔ اور نہ ہی اس حدیث سے سلف نے یہ استدلال کیا ہے، یہ مقلدین کا خود ساختہ استدلال ایسا بھونڈا استدلال ہے کہ اسی روایت میں اس کا بطلان ثابت ہے۔
مقلدین اگر امام النووی کے نقل کردہ الفاظ '' كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم يَجْتَهِدُ فِي رَمضانَ مَالا يَجْتَهِدُ في غَيْرِهِ'' سے یہ استدلال کریں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کی راتوں میں تعداد رکعات کا اضافہ کیا کرتے تھے، پھر لازم آئے گا کہ اسی روایت میں آگے الفاظ جو در حقیقت مسلم کی روایت کے بھی ہیں، '' كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم يَجْتَهِدُ فِي الْعَشْرِ الْأَوَاخِرِ، مَا لَا يَجْتَهِدُ فِي غَيْرِهِ'' کے سبب رمضان کے آخری عشرے میں رمضان کے پہلے دو عشروں کی رکعات میں مزید اضافہ کریں، وگرنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کو رد کرنا قرار پائے گا۔
یعنی کہ پھر رمضان کے پہلے دو عشروں میں بیس اور آخری عشرے میں مزید اضافہ کرکے 30 کردیں، یا امام أبو حنیفہ رحمہ اللہ کے دور کے اہل مدینہ کی طرح 36 کر لیں!
اس کے بھی مقلدین حنفیہ اور مفتی طارق مسعود صاحب قائل نہیں ہیں۔ لہٰذا مفتی طارق مسعود صاحب کی بیان کردہ یہ دلیل انتہائی بھونڈی ہے۔
 
Last edited:

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
مفتی طارق مسعود صاحب نے فرمایا:
تو یہ عبادت کی محنت ہے نا! محنت میں سب چیزیں داخل ہیں، رکوع بھی کثرت سے کرتے تھے، رمضان میں، سجدے بھی کثرت سے کرتے تھے، تلاوت بھی کثرت سے کرتے تھے۔ آپ نے رکوع اور سجدے تو کم کردیئے، تلاوت اتنی رکھی۔ تو اس کم کرنے کی کیا دلیل ہے۔
پھر وہی دلیل دیتے ہیں، حضرت عائشہ والی، آٹھ رکعتوں والی!

ہم عرض کرتے ہیں:
یہ دیکھیں، الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے، رکوع اور سجدے خود نے بڑھا دیئے ہیں، اور ہم سے کم کرنے کی دلیل مانگ رہے ہیں۔
ہم نے تو رکوع وسجود کم نہیں کیئے، جس نے بڑھائے ہیں، اس بڑھانے کی دلیل اس کے ذمہ ہے، اور اس کا نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی ثبوت نہیں۔ جیسے ابن عوانہ رحمہ اللہ سے ابھی بیان کیا گیا۔
دوم کہتے ہیں کہ دروغ گو حافظہ نا باشد؛ ابھی اسی درس میں چند منٹ پہلے مفتی طارق مسعود صاحب نے فرمایا تھا کہ: ''، یہ چھتیس بعد میں عمر بن عبد العزیز سے ملتا ہے، انہوں نے شروع کروائیں، انہوں نے کہا تاکہ رکعتیں لمبی ﴿زیادہ﴾ہوں تو قرآن ہلکا ہو جائے گا لوگوں پہ، رکعتیں مختصر ہو جائیں گی۔''
بقول مفتی طارق مسعود صاحب کے عمر بن عبد العزیز نے بیس سے چھتیس رکعتیں لوگوں پر مشقت بڑھانے کے لئے کیں تھیں یا آسانی کے لئے؟
آپ نے تو خود بتلایا ہے کہ عمر بن عبد العزیز نے آسانی کے لئے کیں، نہ کہ مشقت بڑھانے کے لئے، یعنی کہ تراویح کی رکعات بڑھانے میں مشقت میں کمی واقعہ ہوتی ہے۔ اس طرح تو تراویح کی رکعات کا بڑھانا مفتی طارق مسعود صاحب کی بیان کردہ حدیث کے بھی خلاف جائے گا۔

مفتی طارق مسعود صاحب نے فرمایا:
بھئی وہ تہجد سے متعلق سوال تھا، تو جواب بھی کس سے متعلق تھا، تہجد سے متعلق۔

ہم عرض کرتے ہیں:
سائل نے سوال خاص رمضان کی راتوں میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کے متعلق کیا تھا، اور سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے اسے بتلایا کہ رمضان میں بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم اتنی ہی رکعات پڑھتے تھے جتنی رمضان کے علاوہ دیگر مہینوں میں، اور ان رکعات کی تعداد 11 ہے بمع وتر کے۔
ہم نے 316 ہجری میں فوت ہونے والے ابن عوانہ کا فہم اور استدلال بتلا دیا ہے، کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی قیام رمضان 11 رکعات بمع وتر پڑھنے کی حدیث کا تعلق تراویح سے ہے، اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نبی صلی اللہ علیہ وسلم رمضان میں اور غیر رمضان میں قیام اللیل 11 رکعات سے زیادہ نہیں کرتے تھے، ایک روایت سے بعض لوگوں کو وھم ہو سکتا تھا، کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے آخری عشرے میں رکعات کی تعداد بڑھا دیتے تھے، اور مفتی طارق مسعود صاحب کو تو اس سے بھی بڑھ کر وھم لاحق ہو گیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم پورے رمضان میں قیام اللیل کی رکعات میں أضافہ کرتے تھے، جبکہ 316 ہجری میں فوت ہونے والے ابن عوانہ نے اس شبہ کا ازالہ کر دیا ہے۔ اب متقدمیں علماء و فقہاء کے مقابلہ میں آج کے مفتی طارق مسعود صاحب کی فہم و استدلال کیونکر مقبول ہو سکتا ہے۔

مفتی طارق مسعود صاحب نے فرمایا:
اور پھر میں آخری بات اس کو رپیٹ کروں۔ نبی نے تین دن تراویح پڑھ کے کیوں چھوڑی، کہ تم پہ فرض نہ ہو جائے، جبکہ تہجد کی فرضیت کا کوئی امکان نہ پہلے تھا نہ اب ہے، نہ وہ چھوڑی ہی نہیں ہے۔ تو بخاری والی حدیث کیوں فٹ کرتے ہو

ہم عرض کرتے ہیں:
مفتی طارق مسعود صاحب
سے ہم پوچھنا چاہتے ہیں کہ '' أَأَمِنتُم مَّن فِي السَّمَاءِ؟'' یہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ ہے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قیام رمضان یعنی تراویح تین دن پڑھ کے چھوڑ دی۔ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قیام رمضان یعنی تراویح جماعت سے پڑھانا چھوڑی تھی، یہ نہیں کہ پڑھنا ہی چھوڑ دی تھی۔
اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز تراویح جماعت سے پڑھانا اس لیئے چھوڑی کہ یہ نماز مسلمانوں پر فرض نہ ہوجائے۔ اور مفتی طارق مسعود صاحب، اس بات کو سمجھنے سے قاصر ہیں، کہ ہر فرض نماز کو جماعت شامل ہے، خواہ فرض کفایہ ہو یا فرض عین۔ یعنی کہ ہر فرض نماز کی اصل جماعت ہے، اور بغیر جماعت منفرد ادائیگی کا جواز ہے۔ جبکہ تمام غیر مکتوبہ یعنی وہ نمازیں جو فرض نہیں، اس میں جماعت اصل نہیں، بلکہ جماعت کا جواز ہے۔ حتی کہ فقہ حنفیہ میں فرض نمازوں کے علاوہ صرف تراویح کی جماعت جائز ہے۔ اسی بنا پر کہ تراویح باجماعت پڑھنے پر فرض نہ ہو جائے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خود جماعت سے پڑھانا چھوڑ دیا، لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا قیام رمضان یعنی تراویح کو بلکل چھوڑ دینا ثابت نہیں، اور صحابہ تراویح جماعت سے بھی پڑھتے رہے اور منفرد بھی۔
اور بخاری کی حدیث ''فٹ'' کرنے کی ضرورت نہیں، بخاری کی سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے 11 رکعت قیام اللیل بمع وتر کے تراویح کے متعلق ہے، جیسے 316 ہجری میں فوت ہونے والے ابن عوانہ نے بھی تراویح پر ہی استدلال کیا ہے۔ اور امام بخاری نے بھی اور سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بھی اسے تراویح سے متعلق سوال پر ہی بیان کیا ہے۔

مفتی طارق مسعود صاحب نے فرمایا:
ہمیں بن باز کے فتوے کیوں دیکھاتے ہو! یہ لوگ فوراً کہتے ہیں سعودیہ کے بن باز، سعودیہ کے لینا ہے، تو پرانا سعودیہ لو، بن باز کے أستاذ کیا کہتے تھے، ٹھیک ہے نا! دادا أستاذ کیا کہتے تھے، وہ لوگ جو کہتے تھے، اس کو لو!

ہم عرض کرتے ہیں:
ہم أستاذ اور دادا أستاذ تک ہی نہیں، بلکہ ہم اس سے بہت پیچھے تک، ان تمام علماء و فقہاء کے اساتذہ یعنی صحابہ رضوان اللہ علیهم کے کہے کو بھی اور ان کے بھی أستاذ سید المرسلین محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے کہے کو لیتے ہیں۔ شیخ بن باز ایک فقیہ و عالم گزرے ہیں، ان سے بھی ہم مستفید ہوتے ہیں۔ شیخ بن باز علمائے مقلدین حنفیہ کی طرح ہوائی باتیں نہیں کیا کرتے تھے۔ شیخ بن باز دلیل کی پیروی کرتے تھے، مقلدین کی طرح اپنے اکابر کی عقیدت کے خود تراشیدہ بتوں کی پوجا نہیں کرتے تھے۔

ایک اضافی نکتہ پر غور فرمائیں:
مفتی طارق مسعود صاحب
اور دیگر مقلدین کے بقول تراویح عشاء کے بعد ہے، اور تہجد ایک علیحدہ نماز جو رات کے آخر میں ہے، یعنی جس وقت میں تراویح ہوتی ہے، تہجد نہیں، ہوتی، اس پر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے موطا میں مروی الفاظ سے بھی دلیل کشید کرنے کی سعی کرتے ہیں۔ اس کو مد نظر رکھتے ہوئے، مفتی طارق مسعود صاحب یا دیگر مقلدین یہ بتلا سکتے ہیں کہ وہ اسلاف جو تراویح میں ترویحہ کے بجائے خود انفرادی رکعتیں پڑھتے تھے، وہ کون سی نماز پڑھتے تھے؟ کہ اگر تراویح کی رکعات بالفرض 20 معین سمجھی جائے، جو امام کی اقتداء میں ادا کی جاتی تھی، تو یہ انفرادی اضافی رکعتیں کون سی نماز کی ہیں؟
امام ابن حجر العسقلانی اپنی کتاب فتح الباری میں کتاب التراویح میں فرماتے ہیں:

كتاب صلاة التراويح
(كتاب صلاة التراويح). كذا في رواية المستملي وحده، وسقط هو والبسملة من رواية غيره، والتراويح جمع ‌ترويحة وهي المرة الواحدة من الراحة كتسليمة من السلام. سميت الصلاة في الجماعة في ليالي رمضان التراويح؛ لأنهم أول ما اجتمعوا عليها كانوا يستريحون بين كل تسليمتين، وقد عقد محمد بن نصر في قيام الليل بابين لمن استحب التطوع لنفسه بين كل ترويحتين ولمن كره ذلك، وحكى فيه عن يحيى بن بكير، عن الليث أنهم كانوا يستريحون قدر ما يصلي الرجل كذا كذا ركعة

کہ امام مروزي اپنی کتاب قیام اللیل میں دو أبواب قائم کیئے ہیں، کہ جو تراویح کے درمیان ترویحہ کے وقت خود انفرادی نفل نماز پڑھنے کو مستحب جانتے ہیں، اور جو اسے پسند نہیں کرتے۔
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 443 جلد 05 فتح الباري شرح صحيح البخاري – أبو الفضل أحمد بن علي بن محمد بن أحمد بن حجر العسقلاني (المتوفى: 852هـ) – دار طيبة، الرياض
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 543 جلد 08 فتح الباري شرح صحيح البخاري – أبو الفضل أحمد بن علي بن محمد بن أحمد بن حجر العسقلاني (المتوفى: 852هـ) – دار الرسالة العالمية، دمشق
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 317 جلد 04 فتح الباري شرح صحيح البخاري – أبو الفضل أحمد بن علي بن محمد بن أحمد بن حجر العسقلاني (المتوفى: 852هـ) – دار السلام، الرياض

علامہ مقریزی کی مرتب کردہ امام مروزی کی کتاب کے اختصار میں، اس کی تفصیل دیکھی جا سکتی ہیں:
‌‌بَابُ مَنْ كَرِهَ الصَّلَاةَ بَيْنَ التَّرَاوِيحِ قَالَ بَحِيرُ بْنُ رَيْسَانَ: رَأَيْتُ عُبَادَةَ بْنَ الصَّامِتِ رضي الله عنه «يَزْجُرُ أُنَاسًا يُصَلُّونَ بَعْدَ تَرَاوِيحِ الْإِمَامِ فِي رَمَضَانَ ، فَلَمَّا أَبَوْا أَنْ يُطِيعُوهُ قَامَ إِلَيْهِمْ فَضَرَبَهُمْ» وَكَانَ عُقْبَةُ بْنُ عَامِرٍ «يُوَكِّلُ بِالنَّاسِ فِي رَمَضَانَ رِجَالًا يَمْنَعُونَهُمْ مِنَ السُّبْحَةِ بَيْنَ الْأَشْفَاعِ لِئَلَّا يُدْرِكَ رَجُلًا الصَّلَاةُ وَهُوَ فِي سُبْحَةٍ لَمْ يَفْرُغْ مِنْهَا» وَقَالَ أَبُو الدَّرْدَاءِ: «مَنْ خَالَفَنَا فِي صَلَاتِنَا فَلَيْسَ مِنَّا يَعْنِي الصَّلَاةَ بَيْنَ التَّرَاوِيحِ» وَرَأَى عِمْرَانُ بْنُ سُلَيْمٍ رَجُلًا يُصَلِّي بَيْنَ التَّرْوِيحَتَيْنِ فِي رَمَضَانَ فَجَذَبَهُ ، وَقَالَ: «لَا تُخَالِفِ الْقَوْمَ فِي صَلَاتِهِمْ» وَقِيلَ لِأَحْمَدَ: لَا يُصَلِّي الْإِمَامُ بَيْنَ التَّرَاوِيحِ وَلَا النَّاسُ؟ قَالَ: «لَا يُصَلِّي وَلَا النَّاسُ» وَسُئِلَ عَنْ قَوْمٍ صَلَّوْا فِي رَمَضَانَ خَمْسَ تَرْوِيحَاتٍ لَمْ يَتَرَوَّحُوا بَيْنَهَا ، قَالَ: لَا بَأْسَ «وَكَرِهَ إِسْحَاقُ رحمه الله الصَّلَاةَ بَيْنَ التَّرَاوِيحِ»
....
‌‌بَابُ مَنْ رَخَّصَ فِي الصَّلَاةِ بَيْنَ التَّرَاوِيحِ سُئِلَ الزُّهْرِيُّ رحمه الله عَنِ الصَّلَاةِ فِي قِيَامِ رَمَضَانَ بَيْنَ الْأَشْفَاعِ ، فَقَالَ: إِنْ قَوِيتَ عَلَى ذَلِكَ فَافْعَلْهُ وَكَانَ عَامِرُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الزُّبَيْرِ ، وَأَبُوعَمْرٍو ، وَسَعِيدُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ ، وَاللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ ، وَابْنُ جَابِرٍ ، وَبَكْرُ بْنُ مُضَرٍ ، وَأَبُو بَكْرِ بْنُ حَزْمٍ ، وَيُحْيِي بْنُ سَعِيدٍ ، وَابْنُ عُبَيْدَةَ ، وَقَيْسُ بْنُ رَافِعٍ ، وَالْأَوْزَاعِيُّ ، وَابْنُ الْمُبَارَكِ ، وَأَبُو مُعَاوِيَةَ ، وَسُعَيْرُ بْنُ الْخِمسِ ، رحمهم الله يُصَلُّونَ بَيْنَ الْأَشْفَاعِ ، وَقَالَ مَالِكٌ: لَا بَأْسَ بِهِ. وَعَنْ قَتَادَةَ رحمه الله أَنَّهُ كَانَ لَا يَرَى بَأْسًا أَنْ يَقُومَ الرَّجُلُ بَيْنَ التَّرْوِيحَتَيْنِ فَيُصَلِّي وَلَا يَرْكَعُ حَتَّى يَقُومَ الْإِمَامُ فَيَدْخُلَ مَعَهُ فِي صَلَاتِهِ. وَلَمْ يَرَ الْحَسَنُ بَأْسًا أَنْ يَقُومَ بَيْنَ التَّرْوِيحَتَيْنِ يُصَلِّي وَيَدْخُلُ مَعَ الْإِمَامِ فِي صَلَاتِهِ وَلَا يَرْكَعُ. وَعَنْ إِبْرَاهِيمَ رحمه الله أَنَّهُ كَانَ لَا يَرَى بَأْسًا أَنْ يَقُومَ بَيْنَ التَّرْوِيحَتَيْنِ يُصَلِّي وَيَدْخُلُ مَعَ الْإِمَامِ وَلَا يَرْكَعُ وَقَالَ صَفْوَانُ رحمه الله: رَأَيْتُ أَشْيَاخَنَا مِنْهُمْ مَنْ يُصَلِّي بَيْنَ التَّرْوِيحَتَيْنِ وَمِنْهُمْ مَنْ لَا يُصَلِّي ، وَكُلُّ ذَلِكَ حَسَنٌ وَكَانَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنُ الْأَسْوَدِ رحمه الله يُصَلِّي بَيْنَ كُلِّ تِرْوِيحَتَيْنِ لِنَفْسِهِ كَذَا وَكَذَا رَكْعَةً وَعَنْ عَبْدَةَ بْنِ أَبِي لُبَابَةَ فِي التَّطَوُّعِ بَيْنَ التَّرْوِيحَتَيْنِ فِي قِيَامِ رَمَضَانَ: لَا بَأْسَ بِذَلِكَ ، قَالَ: وَنَحْنُ نَتَطَوَّعُ فِيمَا بَيْنَ الْمَكْتُوبَةِ إِلَى الْمَكْتُوبَةِ فَهَذَا أَحْرَى أَنْ يَرْكَعَ فِيمَا بَيْنَهُمَا وَإِنَّمَا هُوَ تَطَوُّعٌ

ملاحظہ فرمائیں: صفحه 238 - 239 مختصر [قيام الليل وقيام رمضان وكتاب الوتر] – أبو عبد الله محمد بن نصر بن الحجاج المَرْوَزِي (المتوفى: 294هـ) – حديث أكادمي، فيصل اباد
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 95 - 98 مختصر قيام رمضان – أبو عبد الله محمد بن نصر بن الحجاج المَرْوَزِي (المتوفى: 294هـ) – الدار الذهبية، القاهرة
 
Last edited:
Top