سجدے کی دعائیں اور سجدہ کے دیگر مسائل
سجدے میں بندہ اپنے رب کے انتہائی قریب ہوتا ہے لہٰذا سجدے میں خوب دعا کرنی چاہئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
أقرب ما یکون العبد من ربہ وھو ساجد فأکثروا الدعائ (صحیح مسلم:۴۸۲)
’’بندہ اپنے رب کے قریب ترین ہوتا ہے جب وہ سجدے میں ہو پس دعا زیادہ سے زیادہ کیا کرو۔‘‘
سجدے میں درج ذیل دعائیں پڑھنا ثابت ہے۔
سُبْحَانَ رَبِّیَ الاَعْلیٰ (صحیح مسلم:۷۷۲) ’’میرا بلند پروردگار(ہر عیب سے) پاک ہے۔‘‘
سُبْحَانَکَ اللّٰھُمَّ رَبَّنَا وَبِحَمْدِکَ،اَللّٰھُمَّ اغْفِرْلِي (صحیح بخاری:۷۹۴، ۸۱۷، صحیح مسلم: ۴۸۴)
’’اے ہمارے پروردگار! تو (ہرعیب سے) پاک ہے ہم تیری تعریف اور پاکی بیان کرتے ہیں۔ اے اللہ! مجھے بخش دے۔‘‘
سُبْحَانَکَ وَبِحَمْدِکَ،لَا اِلَہَ إلَّا أَنْتَ (صحیح مسلم:۴۸۷)
’’اے اللہ! تو (ہرعیب سے) پاک ہم تیری تعریف اور پاکی بیان کرتے ہیں تیرے سوا کوئی معبودبرحق نہیں ہے۔‘‘
سُبُّوْحٌ قُدُّوْسٌ رَبُّ الْمَلَائِکَۃِ وَالرُّوْحِ (صحیح مسلم:۴۸۷)
’’(الٰہی تو) نہایت پاک اور قدوس ہے، فرشتوں اور روح الامین (جبریل) کا پروردگار ہے۔‘‘
اَللّٰھُمَّ اغْفِرْلِیْ ذَنْبِيْ کُلَّہٗ،دِقَّہٗ وَجِلَّہٗ،وَأَوَّلَہٗ وَآخِرَہٗ،وَعَلَانِیَتَہٗ وَسِرَّہٗ (صحیح مسلم:۴۸۳)
’’اے اللہ میرے تمام گناہوں کو بخش دے خواہ وہ چھوٹے ہوں یا بڑے ہوں، ماضی کے ہوں اور آئندہ کے ہوں، علانیہ اور خفیہ ہوں۔‘‘
اَللّٰھُمّ لَکَ سَجَدْتُ وَبِکَ اٰمَنْتُ،وَلَکَ أَسْلَمْتُ،سَجَدَ وَجْھِیَ لِلَّذِیْ خَلَقَہٗ وَصَوَّرَہٗ،وَشَقَّ سَمْعَہٗ وَبَصَرَہٗ،تَبَارَکَ اﷲُ أَحْسَنُ الْخَالِقِیْنَ (صحیح مسلم :۷۷۱)
’’اے اللہ! میں نے تیرے لئے سجدہ کیا میں تجھ پر ایمان لایا،تیرا فرمانبردار ہوا، میرے چہرے نے اس ذات کو سجدہ کیا جس نے اسے تخلیق کیا، اسے اچھی صورت دی، اس کے کان اور آنکھ کو کھولا بہترین تخلیق کرنے والا اللہ، بڑا ہی بابرکت ہے۔‘‘
یہ دعا بھی نبیﷺ سے ثابت ہے:
’’ اَللّٰھُمّ إِنِّیْ أَعُوْذُ بِرِضَاکَ مِنْ سَخَطِکَ وِبِ مُعَافَاتِکَ مِنْ عَقُوْبَتِکَ وَأَعُوْذُبِکَ مِنْکَ لاَ أُحْصِیْ ثَنَائً عَلَیْکَ،أَنْتَ کَمَا أَثْنَیْتَ عَلـٰی نَفْسِکَ (صحیح مسلم:۴۸۶)
’’ الٰہی میں غصے سے تیری رضا کی پناہ مانگتا ہوں اور تیری بخشش کی تیرے عذاب سے اور تجھ سے تیری پناہ مانگتا ہوں ۔مجھ میں طاقت نہیں کہ تعریف کر سکوں تو ایسا ہی ہے جیسی تو نے اپنی تعریف خود کی ہے۔‘‘
جو دعا باسند صحیح ثابت ہوجائے سجدے میں اس کا پڑھنا افضل ہے، رکوع اور سجدے میں قرآن پڑھنا منع ہے۔
آپﷺ سجدے کی حالت میں اپنے دونوں پاؤں کی ایڑھیاں ملادیتے تھے اور ان کی انگلیوں کا رخ قبلے کی طرف ہوتا تھا۔
دلیل:
’’قالت عائشۃ زوج النبی فقدت رسول اﷲ وکان معی علی فراش فوجدتہ ساجداً راصا عقبیہ مستقبلا باطراف أصابعہ القبلۃ‘‘… (معانی الآثار: بیہقی )
’’ آپ کی زوجہ محترمہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: میں نے ایک دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو گم پایا جب کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم میرے بستر پر تھے ،پس میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس حالت میں پایا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سجدہ میں دونوں ایڑیوں کو اوپر اٹھائے ہوئے اور انگلیوں کا رخ قبلہ کی طرف کیے ہوئے تھے۔‘‘
سجدے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے دونوں قدم کھڑے رکھتے تھے۔
دلیل:
عن عائشۃ قالت فقدت رسول اﷲ ﷺ لیلۃ من الفراش فالتمستہ فوقعت یدی علی بطن قدمہ،وہو فی المسجد وہما منصوبتان (صحیح مسلم:۴۸۶)
’’ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہتی ہیں میں نے ایک رات آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بستے سے غائب پایا تو ٹٹولنے پر میرا ہاتھ آپ کے دونوں قدموں کے تلووں کو لگا آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت سجدہ میں تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دونوں پاؤں گڑے ہوئے تھے۔‘‘
آپ صلی اللہ علیہ وسلم تکبیر
(اللہ اکبر) کہہ کر سجدے سے اٹھتے۔
دلیل:
’’ ثم یکبر حین یرفع رأسہ‘‘ (صحیح بخاری:۷۸۹، صحیح مسلم :۳۹۲)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ اکبر کہہ کر سجدے سے سر اٹھاتے اور اپنا بایاں پاؤں بچھا کر اس پربیٹھ جاتے۔
دلیل:
’’ثم یسجد ثم یقولاﷲ أکبر ویرفع رأسہ ویثنی رجلہ الیسری فیقعد علیھا‘‘ (ابوداود:۷۳۰)
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ
’’إنما سنۃ الصلاۃ أن تنصب رجلک الیمنی وتثنی الیسری‘‘ (صحیح بخاری:۸۲۷)
’’نماز میں (نبی) کی سنت یہ ہے کہ دایاں پاؤں کھڑا کرکے بایاں پاؤں بچھا دے۔‘‘
آپ صلی اللہ علیہ وسلم سجدے سے سر اٹھاتے وقت رفع یدین نہیں کرتے تھے۔
دلیل:
افتتح التکبیر فی الصلاۃ فرفع یدیہ… وإذا کبر للرکو ع فعل مثلہ وإذا قال سمع اللہ لمن حمدہ ولا یفعل ذلک حین یسجد ولا حین یرفع رأسہ من السجود (صحیح بخاری:۷۳۸)
’’ نماز کے شروع میں تکبیر کہتے تو دونوں ہاتھ اٹھاتے… اور جب رکوع کے لیے تکبیر کہتے تو ایسا ہی کرتے اور جب سمع اﷲ لمن حمدہ کہتے تو اسی طرح کرتے اور سجدے اور سجدے سے سر اٹھاتے ہوئے ایسا نہ کرتے۔‘‘