کوئی معشوق ہے۔۔۔۔۔۔۔!
یہ قصہ تو کچھ نیا نہیں ہے کہ جب کسی 'دیوانے' کو 'جوش جنوں 'ہو جاتا ہے تو اہل ہوش اس کے پیچھے پیچھے طوق و زنجیر لیے پھرتے ہیں پہنانے کو! اس قسم کے تجربات سے ہماری قدیم شاعری کا دامن مالامال ہے۔
جدید شاعری کی دنیا بھی نہ تو 'دیوانوں' سے خالی ہوئی ہے اور نہ ان کے'جوش جنوں' کے دوروں میں کوئی کمی واقع ہوئی ہے۔ نہ اہل ہوش نے کبھی ادائے فرض میں کوتاہی کی ہے اور نہ طوق و زنجیر کی جھنجھناہٹ ہی میں کوئی فرق آیا ہے۔
یہ احؤال و مقامات لازمہِ عشق ہیں اور عشق انسانی زندگی کی سب سے بڑی محرک قوت ہے۔"عشق ہے ابن السبیل عشق ہے ام الکتاب!"
عشق میدان عمل میں اپنے اظہار کے لیے جو سب سے اونچی صورت اختیار کر سکا ہے وہ 'جہاد' ہے، لیکن نطق و کلام کی دنیا میں وہ اپنے آپ کو شعر سے زیادہ بہتر کسی پیرائے میں کبھی پیش نہیں کر سکا۔ شعر کی مختلف اصناف میں سے پھر خاص طور پر غزل وہ صنف نازک ہے جس کی فطرت پر از اول تا آخر عشق پرتو افگن ہے۔ جس روز ناطقہِ انسانی پوری طرح عشق کے تصرف میں چلا گیا ہو گا، ٹھیک اسی دن صنف غزل کی تخلیق ہوئی ہو گی۔
غزل کے پردہ زنگاری کے پیچھے ہمیشہ کوئی نہ کوئی 'معشوق 'موجود رہا ہے۔اس کے جمال کی چھن چھنا کر آنے والی جھلکیاں، جن سے بہرہ اندوز ہو کر کسی شاعر کا قلب اس جوئے سیماب کا چشمہ بنتا ہے جسے ہم غزل کا نام دیتے ہیں۔ جب قدیم غزل کے مقابلے میں ہم جدید غزل رکھ کر دیکھتے ہیں تو دونوں کے فرق سے یہ راز ہم پر کھلتا ہے کہ عشق جوں کا توں کارفرما ہے ،لیکن معشوق بدل گیا ہے!
قدیم شعراء نے غزل کی دنیا میں سیدھے سیدھے 'عورت' کو ۔۔۔۔۔ چاہے وہ شریف زادی ہو یا بازاری، حقیقی ہو یا خیالی۔۔۔۔ اپنے اعصاب پر سوار کر لیا تھا؛ چنانچہ ہمارے ہاں قرنوں تک غزل محض 'غم جاناں' کی ترجمان رہی ہے، لیکن زمانے نے ایسے رنگ بدلے کہ آدمی کو 'غم جاں 'اور'غم نا ں'نے اپنے نرغے میں لے لیا۔ اور 'غم جاناں' طاق نسیاں پر دھرا رہ گیا۔وہی بات کہ "یاراں فراموش کردند عشق!"پھر غم جاں اور غم ناں میں گھر کر جب انسان نے یہ حقیقت محسوس کر لی کہ اس کا غم کوئی ذاتی، نجی، انفرادی معاملہ نہیں ہے، بلکہ بہت سے ناخوشگوار غیر اختیاری حالات کے مجموعی عمل کا نتیجہ ہے اور اس کا ہر آنسو ناسازگار ماحول کے سمندر کا ایک قطرہ ہےتو اس نے اپنے اندر 'غم دوراں' کو چٹکیاں لیتے ہوئے پایا۔ خود اس غم دوراں کے تجربے سے گزرتے ہوئے ہر غمزدہ نے یہ حقیقت بھی پا لی کہ ایک دنیا کی دنیا اسی کی طرح غم کی ماری ہوئی ہے، یعنی معاملہ 'مرگ انبوہ' کا تھا۔ درد و کرب کی جاگیر میں ہر فرد کے ساتھ دوسرے لاکھوں افرادبھی شریک تھے۔ آہستہ آہستہ عشق 'غم انساں' کی صورت جلوہ گر ہوا۔
ان سارے غموں نے شعر۔۔۔ اور خصوصا غزل۔۔۔ کے سینے میں اپنی جگہ پیدا کی اور غزل کے پرانے معشوق۔۔۔ایک نسائی پیکر۔۔۔کی جگہ کہیں قومیت،کہیں وطنیت،کہیں آزادی،کہیں مساوات جیسے اجتماعی نصب العین 'بت کافر' بن بن کر جلوہ گر ہوتے گئے۔
دور قدیم کی فارسی اور اردو شاعری میں تصوف زدہ شعراء نے 'معشوق حقیقی 'کے گرد تغزّل کا جو تانا بانا تیار کیا ہے اور غزل کو جس طرح نعت گوئی کا میدان بنایا ، یہ بعد کے لوگوں کے لیے غزل کے میدان کو وسعت دینے میں ذریعہِ راہنمائی بنا ہے۔ ہمارے ہاں حسرت موہانی اور مولانا محمد علی جوہرنے غزل میں وطنیت، آزادی اور خلافت کے معشوق کو جلوہ گر کر کے ایک نیا کامیاب تجربہ کیا ۔ دوسری طرف اقبال نے پہلے 'حسن ازل' کو، اسلامی فکر، خصوصا نظریہ خودی کی غزل کی چلمن کے پیچھے بٹھا کر قدم اور آگے بڑھایا۔ ادھر ترقی پسندوں نے صنم اشتراکیت کی شمع فانوسِ غزل میں رکھ کر رنگ بدلنے کی کوشش کی ۔ ایک نئے انداز سے جگر مراد آبادی اور حالی نے غزل کو جو وسعت دی ہے، بلکہ ایک خاص طرح کی پاکیزگی اور مقصدیت پیدا کی ہے،اس سے صرف نظر نہیں کیا جا سکتا۔ علامہ اقبال نے تو تہذیب اسلامی کی اقدار پر مبنی ایک نیا مکتب فکر (مکتب خودی) پیدا کر دیا۔اسی کی شمعِ شعور اور نغمہ ِفن کے زیر اثر اب ایک نیا تجربہ 'نظامِ اسلامی' کے معشوق کے دلدادگان اپنے جذبات و حسیات کو غزل میں ڈھالنے کا شروع کر رہے ہیں۔
بہرحال اب غزل عورت کے تسلط سے آزاد ہو رہی ہے۔
غزل کا ایک مستقل مزاج ہے اور اس مزاج کے لوازم میں سے ایک جذباتیت ہے اور ایک استعاریت! زندگی کے ہر پہلو سے تعلق رکھنے والی حقیقتیں اور نفس انسانی کے سارے تجربات غزل میں بیان کیے جا سکتے ہیں،لیکن شعر کو غزل کا شعر بنانے کے لیے گہری جذباتیت اور دلکش استعاریت کی رنگ آمیزی ناگزیر ہے۔حقائق و تاثرات کو بیان کرنےمیں گہرا جذباتی رنگ دینے کی ضرورت جب آدمی نے محسوس کی ہے تو اس رنگ کو حاصل کرنے کے لیے اسے اپنے اندر صنفی داعیہ کا سرچشمہ ہاتھ آیا جو خالص صنفی شعبہ حیات کی حقیقی ضرورت سے گئی گنا وافر سرمایہِ جذبات پیہم اگلتا رہتا ہے۔نفس انسانی کے اور سارے داعیات کے سرچشمے جذباتی نکاس کے لحاظ سے حقیقی ضرورت کی حدوں کے پابند ہیں۔صرف صنفی داعیہ کا جذباتی نکاس ایسا طوفانی ہے کہ ضرورت کے ساحلوں تو توڑ پھوڑ کے بہتا ہے۔یہیں سے انسان کو وافر سرمایہِ جذباتیت ملا ہے جس سے شعر و ادب۔۔۔خصوصا غزل ۔۔۔کے خاکوں کو رنگ دیا جاتا ہے۔جذباتی رنگ آمیزی کے لیے صنفی داعیہ سے وافر رنگ لے کر استعمال کرنے کی وجہ سے ناگزیر ہوا کہ استعاریت بھی یہیں سے لی جائے،؛چنانچہ غزل۔۔۔ قدیم ہو یا جدید۔۔۔ استعاریت کا شبنمی لباس حاصل کرنے کے لیے نفس انسانی کے اسی گوشے کی منت کش رہی ہے۔ صنفی استعاریت کا آنچل الگ کر کے غزل کبھی غزل نہیں رہ سکی، ورنہ کم سے کم رنگ تغزّل پھیکا اور ناکام ہو کر رہ گیا ہے۔ ہاں کسی قدر رنگ تصوف کو شامل کر کے پیرایہ ہائے مجاز میں حقیقت کی گل پاشی کے لیے بیان کے کواڑوں میں کچھ درزیں پیدا کر دی گئیں۔
شروع شروع میں میرا اندازہ تھا کہ غزل کی مروجہ استعاریت ہمارے لیے ناقابل قبول ہے۔۔۔۔اور اس تاثر کو پیدا کرنے میں قدیم شاعری کی ایسی تخلیقات کا بڑا دخل ہے جو پاکیزہ استعاریت سے آگے بڑھ کر صراحت، بلکہ کبھی کبھی بیہودگی اور بازاری پن تک جا پہنچتی ہیں۔ان تخلیقات نے انسانی فکر و کردار اور معاشرے کے ارتقاء پر بہت بُرا اثر ڈالا ہے۔ان سے انسانی ذہن و سیرت نے بالیدگی کے بجائے پستی حاصل کی ہے اور اخلاقی قدروں کو نقصان پہنچا ہے۔یہی وجہ تھی کہ میں نے غزل سے اجتناب کر کے نظم کو اپنا میدان بنالیا، لیکن بعد میں جب میری توجہ اُن قصائد کی طرف مبذول ہوئی جو آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں غزلیہ رنگ میں لکھے گئے ہیں،بالخصوص وہ اشعار اور قصائد جو آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پڑھے گئے۔۔۔۔تو میری رائے بدل گئی۔ پھر میری نگاہ میں ان تمام شعری کارناموں کی ازسرنوقدر پیدا ہو گئی جن میں صحیح، فطری اور معتدل انسانی جذبات و کیفیات کو تغزل کا استعاراتی رنگ دینے کی کوشش کی گئی تھی۔اس میں میرے نزدیک احتیاط جتنی لازم ہے، صرف اس حد تک کہ استعاریت کو ایسی صراحت تک لے جانے سے بچایا جائے کہ جنسیت ابھر کر خود اصل مدعا بن جائے،جذباتی رنگ میں مجاز اتنا غالب ہو جائے کہ ذہن ایک اعلیٰ مفہوم کی بجائے کسی پست مفہوم کی طرف آسانی سے مائل ہو سکے۔مجاز کے دائرے میں بھی اظہار کی راہیں بند نہیں ہو سکتیں ، مگر یہاں بھی شائستگی اور پاکیزگی کے ذوق کو لذتیت سے مغلوب نہیں ہونے دینا چاہیے۔فن میں سب سے بڑی آزمائش یہی ہے کہ صاحب فن احساسات کی لہروں میں بے اختیار ہو کر بہتا نہ چلا جائے، بلکہ لاشعور سے اٹھتی لہروں کا مطالعہ کرتا ہوا ان کو انضباط میں رکھتے۔
جاری ہے