السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ!
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان سچ ثابت ہو رہا ہے۔ صاف ظاہر ہے کہ یہ فرمان خیر القرون کے علماء و فقہا کے بارے نہیں ہوسکتا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے خیر القروں خود کہا۔ لہٰذا یہ آج کل کے نوجوان علماء ہی ہو سکتے ہیں جس کی نشان دہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی اور وہ آج سو فی صد سچ ثابت ہو رہی ہے۔
دوسری حدیث:- " «فیبقی ناس جھال یستفتون فیفتون برایھم فیضلون ویضلون» "
( نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قیامت کی ایک نشانی یہ بیان کی کہ) پس جاہل لوگ رہ جائیں گے، ان سے مسئلے پوچھے جائیں گے تو وہ اپنی رائے سے فتوی دیں گے وہ خود بھی گمراہ ہوں گے اور دوسروں کو بھی گمراہ کریں گے ( صحیح بخاری: کتاب الاعتصام بالکتاب والسنة باب من زم الراي ح ۷۰۳۷)
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ''رائے'' سے فتوی دینے کو گمراہی ، اور گمراہ کن کہا ہے!
اہل الرائے کا یہی وصف خاص ہے!
اور یاد رہے خیر القرون کے زمانہ میں ہی جہم بن صفوان ، واصل بن عطاء جیسے گمراہ لوگ بھی تھے، اور جابر جعفی جیسے کذاب بھی، اور یہ امام صاحب سے بھی پہلے تھے!